برزکوہی کے کالم “توتک واقعہ اور ماں” کے تناظر میں ـ خالد شریف بلوچ
دنیا کی سب سے عظیم اور اہم رشتہ ماں کا ہے، مجھے فخر ہے کہ میں ایک بلوچ ماں کا بیٹا ہوں اور اس ماں کے پیار نے ہمیں مادر وطن سے پیار کرنا سھکایا ہے، بلوچ مائیں ایک ظالم دشتگرد سامراج سے چھٹکارہ پانے اور آزاد ہونے کیلئے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بھی قربان کررہے ہیں، ہمیں ان ماؤں نے سکھایا ہے کہ احساس غلامی کیا ہے اور احساس انسانیت کیا ہوتا ہےـ
جو لوگ غلام ہوتے ہیں، اصل میں وہی لوگ انسانیت کی قدر کرنا جانتے ہیں ـ غلامی نے ہمیں بہت کچھ سکھایا اور بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں سال کے بارہ مہینوں میں سے فروری کا مہینہ ہر سال بارشوں و سرد ہواؤں میں بلوچ قوم، بلوچ راج، اور بلوچ وطن پر قربان ہونے والے بہادر بلوچ نوجوانوں کی شہادتیں بہت کچھ یاد دلاتے ہیں اور حوصلہ و ہمت دیتے ہیں۔ شہید نعیم جان ہو یا شہید یحیٰ جان، شہید حق نواز، شہید دل جان ہو یا شہید نورلحق جان کی یادیں ہو سب فروری کی دین ہیں ـ
اس سال بھی ہر سال کی طرح فروری میں بارش ہورہا ہے اور میں 20 فروری کے دن تنظیم کے کسی کام سے نیٹورک میں گیا، ہلکی ہلکی بارش اور سرد ہواؤں سے لڑتے لڑتے جب میں نیٹورک پر پہنچا اور فون کھول کر دیکھا تو دی بلوچستان پوسٹ پر برزکوہی کا ایک آرٹیکل آیا تھا( واقعہ توتک اور ماں) اُس آرٹیکل کو پڑھتے پڑھتے میں ایک گہری سوچ میں گُم ہو گیا، کئی گھنٹوں بعد مجھے پتا چلا کہ میں ایک کام سے آیا ہوں وہ گہری سوچ کچھ یوں تھاـ
جو کچھ برزکوہی نے اپنے آرٹیکل میں بیان کیا تھا، ٹھیک اُسی طرح کی بارش اور سرد ہوائیں چل رہی تھیں، جب میں نیٹورک پر بیٹھ کر آرٹیکل کو پڑھ رہا تھا تو ایک پل کیلئے مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ میں ہی تھا، اُس آپریشن میں جس کا ذکر برزکوہی کر رہے تھے کیونکہ مجھے اُس ماں کی درد شدت سے محسوس ہورہی تھی، بہت خوش نصیب ہونگے وہ لوگ جن کی ایسی مائیں ہوتی ہیں ـ
کیسے ہونگے وہ لمحے، جب اُس وقت قبضہ گیر سامراج پاکستان کی آرمی اور ایف سی کی بربریت ایک طرف، سردی کے موسم میں بارش اور سرد ہوائیں دوسری طرف سے قہر ڈھا رہے ہونگے۔ ایک ماں پر اس وقت کیا گذر رہا ہوگا، جب وہ صبح سویرے فائرنگ کی آوازیں سن رہا ہوگا اور اُس ماں کو پتہ ہو کہ اُس کا پورا خاندان قبضہ گیر پاکستان کی گھیرے میں ہے، گولیاں ایسے برس رہے ہونگے، جیسے کہ بارش کی بوندیں ہوں، کیسے ہونگے وہ لمحے جب اس ماں کی دو بیٹے دشمن کے خلاف جنگ کر رہے ہونگے، اپنے فکری و نظریاتی دوست اور اپنے بھائیوں کو ظالم کے گھیرے سے نکالنے کیلئے ـ
میں اُس دن کی سوچوں میں گم تھا، مجھے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ میں نیٹورک پر بیٹھ کر بارش میں بھیگ رہا ہوں، مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں خود پتہ نہیں آج بھی توتک کے آپریشن میں ہوں اور میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں، محسوس کررہا ہوں، ذہن میں پتہ نہیں کیوں یہ سوچ بار بار آرہی تھی کہ میں صبح سویرے جب اٹھ کر اپنے معمول کی مطابق ہاتھ منہ دھونے لگا کہ ایسے میں فائرنگ کی آواز شروع ہوئی اور میں دوڑ کر وتاخ گیا، جب وتاخ پہنچا تو مہمانوں کو آواز دی، “سنگت ہمیں دشمن فوج نے گھیر لیا ہے، چلو نکلو” جب ہم باہر نکلے شہر کے گلیوں میں ہر کوئی اپنے گھر کے باہر پریشان کھڑا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ قیامت کی گھڑی ہو، اُس وقت فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ کیا کرنا ہےـ
اس دوران سنگت ہمیں ہمت، حوصلے اور بہادری کا درس دے رہے تھا کہ مرینگے، دشمن کو خوب مارینگے مگر زندہ دشمن کے ہاتھ میں ہرگز نہیں جائینگے۔
اسی اثناء شہید نعیم جان کی ماں اپنے جوان بیٹے نعیم جان کی طرف جارہی تھی، وہ ہمیں دیکھ کر روک گئی اور کہا “میرے بیٹے اپنے مہمان کو کبھی اکیلا مت چھوڑنا اور انکا بہت زیادہ خیال رکھنا” پھر ہمیں ایک جگہ کاپتہ بتایا اور وہاں جانے کو کہا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اُس ماں کے کہے ہوئے جگہ پر گئے، تو ہمیں راستہ مل گیا۔
کچھ گھنٹے گذرنے کے بعد چیخوں کی آوازیں زیادہ ہونے لگیں اور شہر کی طرف سے جلے ہوئے گھروں کا دھواں نظر آرہا تھا، کانوں میں ایک عجیب سی آواز گونج رہی تھی اور ہم دشمن کے انتظار میں تھے کہ کب ہمارا دشمن سے سامنا ہو، اُس وقت صرف ایک خیال تکلیف دے رہا تھا کہ ہم بلوچ قوم کیلئے کچھ زیادہ نہ کر سکے، ہم ابھی جارہے ہیں اور بلوچستان کی آزادی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پائینگے۔
خیر پورا دن دشمن کے گھیرے میں گذر گیا، لمحہ بہ لمحہ دشمن کے انتظار میں ہم بیٹھے رہے، شام کو ایک بچے کی آواز آرہی تھی، وہ کہہ رہا تھا کہ فوجیوں کی گاڑیاں واپس جارہی ہیں، اُس وقت شام ہونے والا تھا، ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ فوج چلا جائے گا۔ اسی میں شہید نعیم جان کی بھابھی آئی اور اُس کے ہاتھ میں شہید نعیم جان کا چادر تھا، جو خون سے لت پت تھا۔ اُس نے ہمیں آواز دی اور کہنے لگی “نعیم اور یحیٰ شہید ہو گئے ہیں” باقی سب کو فوج اپنے ساتھ لے گیا ہے، اب آپ لوگ یہاں سے نکلو ایسا نہ ہو کہ فوج واپس آئے، ہم وہاں سے نکلے، ہمارے کپڑے بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور اُس سردی میں ہمارے پاس سردی سے بچنے کیلئے نہ چادر تھا، نہ کوٹ، خیر ہم راستے میں تھے، میرے فون پر ایک کال آیا اور میں نے فون اٹھایا، میں ایک پہاڑی کی بلندی پر بیھٹے بارش میں مکمل بھیگ رہا تھا اور اپنی سوچ کی گہرائی سے نکل کر دیکھا، تو میرے ماتھے پر پسینے اور آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھےـ فون اٹھایا تو عظیم ماں کی آواز سنا وہ سب سے پہلے بجائے میرا خیریت دریافت کرنے کے، دوست کا پوچھ رہی تھی، وہ کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ بالکل ٹھیک ہے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خدا حافظ کیا اور کہا اللہ آپ لوگوں کا مدد و کمک ہو، آپ جلدی سے نکل جاو، دشمن پر بھروسہ نہیں۔
دوسرا کال دوست کا تھا، ھیلو کے بعد دوست نے کہا میں کتنی دیر سے کال کررہا ہوں، آپ فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہوـ ہم سامراج پاکستان کی فوج کے گھیرےسے نکل چکے ہیں، پورے حوصلے اور ہمت کے ساتھ اپنے محاذ پر بیٹھے ہیں، ہم خیر خیریت سے ہیں، آپ لوگ کیسے ہیں؟ میں نے کہا ہم عظیم ماؤں کی دعاوں کے برکت بالکل خیرخیریت سے ہیں، وہ دعائیں ہمارے ساتھ ہیں اور میں دعا کرتا ہوں، ایسی مائیں ہمیشہ سلامت رہیں اور بلوچ جہدکاروں کیلئے دعا کرتے رہیں۔
میں تمام بلوچ قوم اور خاص طور پر بلوچ جہدکاروں سے یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد اور اپنے شہیدؤں کی فکر و نظریئے سے سنجیدہ ہوجائیں اور اپنے کام اور ذمہ داریوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور ایسے عظیم ماؤں کی قربانیوں اور امیدوں کو ذہن میں رکھ کر ان کو نا امید نہ کریں کیونکہ جب تک ہم اپنے کام اور اپنے مقصد میں سنجیدہ نہ ہونگے، تب تک دشمن ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیگاـ