تحریر۔۔۔۔ میر یاسین بلوچ
بہت دن ہوئے ہیں سوچا تھا کہ قلم نہ اُٹھاوں اور کچھ بھی نہ لکھوں کیونکہ ایسے حالات مرتب ہوئے کے قلم کو چھوڑنا ہی بہتر راستہ تھا، مگر شہداؤوں کے بہتے ہوئے پاک لہو نے اغوا شدگان کی زخموں کے دردوں نے مجھے پھر قلم اُٹھانے پہ مجبور کردیا ہے، اور اپنا قلم کو نہ اُٹھانے کا فیصلہ ترک کرنے پہ مجبور ہوگیا۔
مجھے اکثر رات کو سوتے وقت شہیدوں کے ماؤوں کی فریاد کانوں میں گونچتی رئی ہیں اور یہ فریاد کرتے ہیں کہ میرے بیٹے اپنے فرض نبھاتے ہوئے اپنے مادرِ وطن کے لیے شہید ہوئے اور اپنا حق ادا کیا، دھرتی بھی ہماری ماں ہے اور جنم دینے والے ماں سے کئی گناہ زیادہ اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے اور اس ماں کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی دھرتی ماں کو کسی کے زیر قبضہ نہ کرنا ہی اس ماں کی حق ادائیگی ہے۔ دھرتی ماں وہ ماں ہے جو ہمارے تمام غلاظت خود میں سمیٹ لیتا ہیں اور ہمارے اس فانی جہاں سے رخصت ہونے کے بعد ہمیں اپنے باہوں میں ہمیشہ کے لیے سمیٹ لیتا ہے اور اپنی ماں ہونے کا حق نبھالیتا ہے، اب ہم پہ ہے کہ اپنے بیٹھے ہونے کا بھی حق ادا کرے اور جب بھی اپنی دھرتی ماں کی آغوش میں سونے کے لیے جائے تو شرمندہ نہ ہونا پڑے اور دھرتی ماں کے حق سے نجات پائے۔
مگر بلوچستان کے ایسے ہی فرد ہیں جو اپنی مادرَ وطن سے غداری کرکے اُسے غیر کے ہاتھوں قبضہ کروارئیے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو دھرتی ماں سوال ضرور کریگا کہ کیا تم نے اپنی ماں کا حق ادا کیا؟ مگر ایسے لوگ غدار ہی کہلائینگے ان کی غداری قابض سے قربت سے بھی تجاوز کرکے اپنے ہی بھائیوں کی مخبری کرواکے اُنہیں شہید کرواتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنی ماں سے بھی زیادہ ظالموں کی وفاداری عزیز ہیں اور چند مراعات کے عوض اپنی مادر وطن سے غداری کرکے اپنے ہی بھائیوں کو شہید کرواتے ہیں۔
ریاست کے فوجیوں کا تعلق پنجاب یا تو وزیرستان سے ہیں جو بلکل ہی نہیں جانتے کے کون کس تنظیم کون کس پارٹی اور کس کا گھر کہاں ہیں، مگر پھر بھی ریاست بلوچ نسل کشی جارئی کئے ہوئے ہیں، مگر ریاست کو کون بتا رہا ہیں کے یہ فلاح کا گھر ہے یہ فلاح بندہ ہے یہ فلاح پارٹی کا ممبر ہے، یقناََ وہ ہم میں سے ہی ہیں جو اپنے ہی بھائیوں کی مخبری کرکے اپنے ہی بھائیوں کو شہید کروارئیے ہیں اور وہ بھی صرف چند مراعات کے عوض۔
جب ہندوستان پہ انگریز قابض تھے تو اس وقت ہندوستان مین انگریزوں کے مخالف ٹیپوسلطان کھڑا ہوا، اور انگریزوں کو کافی مشکل وقت میں ڈال دیا تھا، انگریزوں کے لیے ایسے حالت پیداکیا کہ انگریزوں نے ٹیپوسلطان کو شہید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا، مگر پھر بھی ٹیپو سلطان کو شہید کیا گیا، ٹیپو سلطان کو شہید کرنے والے انگریز نہ تھے بلکے ہندوستانی ہی تھے جو کہ انگریزوں کے زیر حکم پہ اپنا کام سرانجام دیتے تھے، اسی طرح ویتنام میں بھی تحریک چلی تو ویتنام میں 35000 غداروں کو موت کے گھاٹ اُتارا اور یہی وجہ بنی کے ویتنام چند سالوں میں ہی امریکہ جیسے سپر پاور سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
چنگیز خان کا والد بھی اپنے قبائل کا سردار تھا دھوکے سے ان کے والد کو قتل کردیا گیا اور چنگیز خان کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی، بچپن سے جوانی تک چنگیز خان نے بہت سے مسائل کا سامنا کیا یہاں تک کہ چنگیز خان کو خرید کر غلام بھی بنایا گیا تھا، چنگیز خان کو اس حالات تک پہنچانے والے منگول کے اپنے ہی لوگ تھے انہی کی کی ہوئی غداریوں کے سبب چنگیز خان کو ایسے اذیتیں سہنی پڑی، پھر چنگیزخان نے خود کو منظم کرنے کے لیے بے تہا کوششیں کی اور یہ عہد بھی کیا کہ سارے منگول کو قانوں کے تحت لائیگا ان کو ان کے سرداروں کا وفادار بنائیگا اور اگر اس کے لیے آدھے سے زیادہ منگولیوں کو قتل کرنا بھی پڑے تو قتل کرنے میں ذرا بھی دریغ نہیں کریگا، آخر کار چنگیزخان نے خود سے کیے ہوئے وعدوں کو جامہ تکمیل تک پہنچایا سب منگول کو قانون کے تحت اور سب کو اپنے سرداروں (خان) کا وفادار بنایا۔
اگر ہم بلوچ تحریک کو دیکھے تو غداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہیں ہر کوئی چند مراعات کے عوض اپنے ہی بھائیوں سے غداری کررئیے ہیں اور اس کے لیے بلوچ مسلح تنظیموں کو پہلے انہی غداروں کو عبرت کا نشانہ بنانا ہوگا کیونکہ اگر بلوچ قوم کو کسی سے خطرہ ہیں تو وہ یہی بلوچ قومی غداروں سے ہی ہیں کیونکہ یہی لوگ ہیں جو بلوچ آزادی پسند لوگوں کی نشاندئی کراکے انہیں اغوا کے بعد شہید کرنے میں برابر کے شریک ہیں آج ہمارے لیے دشمن اتنا خطرناک نہیں جتنا کے قومی غدار ہیں دشمن تو ہم سے ہی خوفزدہ ہیں اگر بلوچ مسلح تنظیموں نے ان غداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا تو ریاستی فورسس دُم دھبا کر گیدھڑ کی طرح بھاگ جائیگا مگر اس کے لیے ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ہمیں الگ الگ دیکھ کر ریاست خوشیاں منارہا ہیں ریاست کو اگر آدھی موت مارنا ہیں تو اتحاد ہی ریاست کو آدھی موت مار ہی دیگی باقی آدھی موت ریاست کو ہم ہی ماردینگے مگر اس کے لیے ہمیں اپنے گلے شکوے بُھلادینے ہونگے اور ہر آزادی پسند کو اپنا بھائی مان کر ان کے ہمرا ہ ہوکے ہگام بن کے چلنا ہوگا۔
مجھے اکثر رات کو سوتے وقت شہیدوں کے ماؤوں کی فریاد کانوں میں گونچتی رئی ہیں اور یہ فریاد کرتے ہیں کہ میرے بیٹے اپنے فرض نبھاتے ہوئے اپنے مادرِ وطن کے لیے شہید ہوئے اور اپنا حق ادا کیا، دھرتی بھی ہماری ماں ہے اور جنم دینے والے ماں سے کئی گناہ زیادہ اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے اور اس ماں کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی دھرتی ماں کو کسی کے زیر قبضہ نہ کرنا ہی اس ماں کی حق ادائیگی ہے۔ دھرتی ماں وہ ماں ہے جو ہمارے تمام غلاظت خود میں سمیٹ لیتا ہیں اور ہمارے اس فانی جہاں سے رخصت ہونے کے بعد ہمیں اپنے باہوں میں ہمیشہ کے لیے سمیٹ لیتا ہے اور اپنی ماں ہونے کا حق نبھالیتا ہے، اب ہم پہ ہے کہ اپنے بیٹھے ہونے کا بھی حق ادا کرے اور جب بھی اپنی دھرتی ماں کی آغوش میں سونے کے لیے جائے تو شرمندہ نہ ہونا پڑے اور دھرتی ماں کے حق سے نجات پائے۔
مگر بلوچستان کے ایسے ہی فرد ہیں جو اپنی مادرَ وطن سے غداری کرکے اُسے غیر کے ہاتھوں قبضہ کروارئیے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو دھرتی ماں سوال ضرور کریگا کہ کیا تم نے اپنی ماں کا حق ادا کیا؟ مگر ایسے لوگ غدار ہی کہلائینگے ان کی غداری قابض سے قربت سے بھی تجاوز کرکے اپنے ہی بھائیوں کی مخبری کرواکے اُنہیں شہید کرواتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنی ماں سے بھی زیادہ ظالموں کی وفاداری عزیز ہیں اور چند مراعات کے عوض اپنی مادر وطن سے غداری کرکے اپنے ہی بھائیوں کو شہید کرواتے ہیں۔
ریاست کے فوجیوں کا تعلق پنجاب یا تو وزیرستان سے ہیں جو بلکل ہی نہیں جانتے کے کون کس تنظیم کون کس پارٹی اور کس کا گھر کہاں ہیں، مگر پھر بھی ریاست بلوچ نسل کشی جارئی کئے ہوئے ہیں، مگر ریاست کو کون بتا رہا ہیں کے یہ فلاح کا گھر ہے یہ فلاح بندہ ہے یہ فلاح پارٹی کا ممبر ہے، یقناََ وہ ہم میں سے ہی ہیں جو اپنے ہی بھائیوں کی مخبری کرکے اپنے ہی بھائیوں کو شہید کروارئیے ہیں اور وہ بھی صرف چند مراعات کے عوض۔
جب ہندوستان پہ انگریز قابض تھے تو اس وقت ہندوستان مین انگریزوں کے مخالف ٹیپوسلطان کھڑا ہوا، اور انگریزوں کو کافی مشکل وقت میں ڈال دیا تھا، انگریزوں کے لیے ایسے حالت پیداکیا کہ انگریزوں نے ٹیپوسلطان کو شہید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا، مگر پھر بھی ٹیپو سلطان کو شہید کیا گیا، ٹیپو سلطان کو شہید کرنے والے انگریز نہ تھے بلکے ہندوستانی ہی تھے جو کہ انگریزوں کے زیر حکم پہ اپنا کام سرانجام دیتے تھے، اسی طرح ویتنام میں بھی تحریک چلی تو ویتنام میں 35000 غداروں کو موت کے گھاٹ اُتارا اور یہی وجہ بنی کے ویتنام چند سالوں میں ہی امریکہ جیسے سپر پاور سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
چنگیز خان کا والد بھی اپنے قبائل کا سردار تھا دھوکے سے ان کے والد کو قتل کردیا گیا اور چنگیز خان کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی، بچپن سے جوانی تک چنگیز خان نے بہت سے مسائل کا سامنا کیا یہاں تک کہ چنگیز خان کو خرید کر غلام بھی بنایا گیا تھا، چنگیز خان کو اس حالات تک پہنچانے والے منگول کے اپنے ہی لوگ تھے انہی کی کی ہوئی غداریوں کے سبب چنگیز خان کو ایسے اذیتیں سہنی پڑی، پھر چنگیزخان نے خود کو منظم کرنے کے لیے بے تہا کوششیں کی اور یہ عہد بھی کیا کہ سارے منگول کو قانوں کے تحت لائیگا ان کو ان کے سرداروں کا وفادار بنائیگا اور اگر اس کے لیے آدھے سے زیادہ منگولیوں کو قتل کرنا بھی پڑے تو قتل کرنے میں ذرا بھی دریغ نہیں کریگا، آخر کار چنگیزخان نے خود سے کیے ہوئے وعدوں کو جامہ تکمیل تک پہنچایا سب منگول کو قانون کے تحت اور سب کو اپنے سرداروں (خان) کا وفادار بنایا۔
اگر ہم بلوچ تحریک کو دیکھے تو غداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہیں ہر کوئی چند مراعات کے عوض اپنے ہی بھائیوں سے غداری کررئیے ہیں اور اس کے لیے بلوچ مسلح تنظیموں کو پہلے انہی غداروں کو عبرت کا نشانہ بنانا ہوگا کیونکہ اگر بلوچ قوم کو کسی سے خطرہ ہیں تو وہ یہی بلوچ قومی غداروں سے ہی ہیں کیونکہ یہی لوگ ہیں جو بلوچ آزادی پسند لوگوں کی نشاندئی کراکے انہیں اغوا کے بعد شہید کرنے میں برابر کے شریک ہیں آج ہمارے لیے دشمن اتنا خطرناک نہیں جتنا کے قومی غدار ہیں دشمن تو ہم سے ہی خوفزدہ ہیں اگر بلوچ مسلح تنظیموں نے ان غداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا تو ریاستی فورسس دُم دھبا کر گیدھڑ کی طرح بھاگ جائیگا مگر اس کے لیے ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ہمیں الگ الگ دیکھ کر ریاست خوشیاں منارہا ہیں ریاست کو اگر آدھی موت مارنا ہیں تو اتحاد ہی ریاست کو آدھی موت مار ہی دیگی باقی آدھی موت ریاست کو ہم ہی ماردینگے مگر اس کے لیے ہمیں اپنے گلے شکوے بُھلادینے ہونگے اور ہر آزادی پسند کو اپنا بھائی مان کر ان کے ہمرا ہ ہوکے ہگام بن کے چلنا ہوگا۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий