کیا یہ اختتام ہے؟ تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
گزشتہ سال نومبر کے اوائل میں جب یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) نے یہ خبر دی کہ ان پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ارکان کی طرف سے حملہ کیا گیا ہے، ان کے ایک کمانڈر کو ہلاک اور ان کے چار جنگجوؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اوریہ قیاس آرائی کی جانے لگی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان میں شورش اپنے اختتام کوپہنچ چکی ہے۔ اس افسوسناک واقعے پر چند حلقوں میں برملا خوشی کا اظہار کیا جانے لگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان کیلئے اس سردرد کے خاتمے کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسا کہ بہت سے اس پر یقین کرنا اور اسے ہوتا ہوا دیکھنا پسند کریں گے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے بلوچ مزاحمت کوئی یک سنگی ہستی کبھی نہیں رہی ہے۔ ماضی میں مزاحمتی جھتے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہوا کرتے تھے اور پیغام رسانوں کے ذریعے رابطے کرنے میں اگر مہینے نہ سہی تو ہفتے ضرور لگتے اور پاکستانی ریاست کی طرف سے حقوق سے انکار اور جبر کیخلاف مزاحمت کرنے کے واحد مقصد کیلئے وہاں ہمیشہ ایک بہت ہی ڈھیلا ڈھالا انتظام اور اتحاد ہوا کرتا تھا۔ ابلاغ کے جدید ذرائع کی کمی نے اتحاد کو محدود رکھا اور اسی وجہ سے اختلافات کو بھی۔
مزاحمت کا تازہ ترین دور ماضی کی طرح مریوں کے علاقے میں سال 2002 کے ارد گرد شروع ہوا جہاں مزاحمت کی جڑوں کو محفوظ رکھا گیا تھا۔ نواب اکبر خان بگٹی کی ریاست کیساتھ محاذ آرائی اور اس کے نتیجے میں اگست 2006 میں شہادت کے بعد مزاحمتی گروہوں نے بلوچ شناخت کے تحفظ اور جارحیت کیخلاف مزاحمت کرنے کی سعی کی۔ بی ایل اے پہلے سے موجود تھی، ڈاکٹر اللہ نذر کی بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) بھی سرگرم تھی اور بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) کا قیام بھی عمل لایا گیا۔ ان تینوں کے درمیان تعاون تھا اور اس نے اسٹابلشمنٹ کو بے انتہا فکر مند کردیا تھا مگر بدقسمتی سے نومبر 2008 میں بالاچ مری کی شہادت کیساتھ اشتراک عمل نہایت کم ہوگیا۔
مزاحمتی گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون نے اسٹابلشمنٹ کو الجھن میں ڈال دیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ تعاون ان کی پہلے سے ہی کمزور گرفت کو مزید خطرے میں ڈال دے گی۔ یہ 2007۔2008 تھا جب پاکستان نے بلوچ مزاحمت پر ایک چار رخی حملے کی ابتداء کی۔ سب سے پہلا حقیقی یا مشتبہ بلوچ کارکنوں کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا تھا؛ یہاں تک کہ ذرہ برابر شک بھی موت کا پروانہ ہوتی اور اس کیساتھ ہی بلوچ کیخلاف ایک منظم اور ادارہ جاتی ’غلیظ جنگ‘ شروع ہوگئی۔ دوسرا ان موجودہ گروہوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنا تھا جو کہ انکے بھیجے گئے بندوں کے نفوذ کے سبب آسان تھی کیونکہ ان گروہوں کی قیادت نسبتاً نئے رہنماء کررہے تھے اور نئے رنگروٹوں کے ماضی کے بارے میں جانچ پڑتال ناکافی ہوتی۔ جو کوئی بھی اس جبر کی زوردار انداز میں مذمت کرتا وہ شمولیت کا اہل ہوتا۔ تیسرا شفیق مینگل جیسے لوگوں کے ذریعے قوم پرستوں کا مقابلہ کرنے کیلئے قاتل دستوں کو منظم اور انکی فنڈنگ کرنا۔ اور آخری مگر اہم ترین یہ کہ روایتی طور پر سیکولر بلوچ معاشرے کی سماجی اقدار میں تبدیلی لانے کیلئے ریاستی سرپرستی میں مدارس کا قیام۔
وحشیانہ طاقت اور مالی اسراف کے استعمال نے اثر دکھانا شروع کر دیا اور سوشل میڈیا کی آسان رسائی سے اسے تقویت ملی جہاں ہر ایک سزا و جزاء سے مبرّیٰ کسی بھی جعلی شناخت کیساتھ کچھ بھی کہنا چاہے کہہ سکتا ہے۔ اپنے نئے پن، آسان رسائی اور ظاہراً قابل اعتبار ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کو غلط معلومات پھیلانے سے الجھن اور فسون ربائی پیدا کرنے کیلئے مؤثر طریقے سے استعمال کیا گیا۔ سائبر لہروں پر بلوچ مزاحمت کیخلاف الزامات، بہتان ترازی اور دروغ گوئی چونکا دینے والی ہے اور اس نے کسی اور چیز کی نسبت سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اس سے کیڈر کے حوصلے پست ہوئے ہیں جنہیں ان شکوک و شبہات کو مٹانے میں مدد دینے کیلئے معلومات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ کوئی بھی سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتا؛ بہتان ترازی اور الزامات نے ماحول کو بگاڑنا جاری رکھا ہوا ہے جیسا کہ کوئی بھی کسی کی بھی شناخت ظاہر کرکے اسے جاری رکھ سکتا ہے۔ پاکستانی اسٹابلشمنٹ اس میں کافی حد تک ملوث ہے جیسا کہ وہ اسکے ثمرات دیکھ چکے ہیں۔ یہ عمل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے بلوچ ویب سائٹوں پر ایک مکمل پابندی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ڈالے جانے والے مواد کی قبولیت اور اسے سچائی سمجھ لینا مزاحمت کو کمزور کرتی جارہی ہے اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گی جب تک کہ اس بگاڑ کا پردہ فاش کرنے کیلئے سنجیدہ ادب نہیں آجاتا مگر یہ محض اس وقت ممکن ہے جب کیڈر اپنا تمام وقت سوشل میڈیا پر گزارنے کے بجائے دوبارہ کتابیں پڑھنے میں صرف کرنے لگیں۔
یقینا، ایک طرف بی ایل ایف، یوبی اے اور بی آر اے اور دوسری جانب بی ایل اے کے درمیان گہرے اختلافات ہیں۔ اور پھر وہاں تعاون کے حوالے سے دیگر مسائل بھی تھے جنکے حل کیلئے لچک درکار تھی مگر اکڑپن غالب رہی اور آخر کار سائبر جنگجوؤں اور لفاظ توپچیوں نے ماحول کو اس حد تک پراگندہ کردیا کہ بی ایل ایف جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایک بیان کیساتھ آگے آئی اور بی ایل اے کو مزاحمت کیلئے ایک رکاوٹ اور بالعکس قرار دیا۔ نواب خیر بخش خان مری کی رحلت کے بعد سے الفاظ کے یہ تبادلے مزید تند ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ مصالحت کی کوششیں بے ثمر رہی ہیں۔ ان اختلافات نے طلباء تنظیموں میں بھی سرایت کرلی ہے جوکہ مزاحمت کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ جب مصالحت کی کوششوں کا جواب نہیں دیا جا رہا ہے تو محض ایک ہی راستہ باقی رہتا ہے کہ مخالف فریقین خود ہی پیچھے ہٹ جائیں جس کا نتیجہ مصالحت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
رہنماؤں کے درمیان اختلافات اور نا اتفاقی نے عوام اور کارکنوں کو منتشر کردیا ہے جوکہ افسردگی اور مایوسی کی حالت میں دستبردار ہورہے ہیں۔ عدم اتحاد کے سبب سرگرم کارکن ناامید ہوکر کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں جبکہ بعض نئے دھڑے تشکیل دے رہے ہیں کہ گویا پہلے والے کافی نہ تھے۔ وہ جو بلوچ مزاحمت کیساتھ ہمدردیاں رکھتے ہیں اکثر اوقات ایک دوسرے کیخلاف غیض و غضب کے اظہار کے سبب فکر مند ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ یہ اختلافات بین الاقوامی ہمدردی کو بھی کم کرنے کا باعث ہیں۔ کوئی بھی بحث و تکرار کرنیوالی جھگڑالو تنظیمیں کیساتھ ہمدردی نہیں کرتا؛ جو لوگ اپنے گھر کو نہیں سنبھال سکتے وہ یہ امید نہیں کرسکتے کہ دوسرے ان کی حمایت کریں گے۔ حامیوں کی قوت برداشت نہایت کم ہوتی ہے۔ وہ احمقوں کا شکار بننا پسند نہیں کرتے۔ یہ چپقلش بلوچستان کے ساتھ ساتھ باہر بھی اپنے نقصانات وصول کر رہی ہے۔ اس چپقلش اور شکستگی کے نتائج سنگین ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے ظلم و ستم بھی بڑھا دیا ہے۔
اپنے ایک مضمون میں میں نے لکھا تھا کہ، ’’اگر یہ رہنماء بلوچ تاریخ میں’لڑے تھے‘ جیسے ایک حاشیے سے کچھ زیادہ بننا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے طریقے بدلنے پڑیں گے اور جلد بدلنے پڑیں گے۔ صرف وہ لوگ جو بلوچستان سے زیادہ اپنے آپ سے اور اپنے ذاتی مفاد سے محبت کرتے ہیں، ان کیلئے متحد ہونا مشکل ہوگا۔ ذاتی انا اور اختلافات کو ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے۔ تمام تنظیموں پر بلوچ عوام کی جانب سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انکی اور مادر وطن کی بے لوث خدمت کریں۔ اور اگر وہ عوام کی خدمت اور انکی رہنمائی کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کریگی۔‘‘
سب نے کہا ،کہ آیا ان اختلافات اور مسائل کا مطلب اختتام ہی ہو گا؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کیونکہ، جیسا کہ میں نے کہا کہ، تحریک یک سنگی و جامد نہیں ہے اور اسکے علاوہ یہ جدوجہد کسی بھی تنظیم یا فرد سے بہت بڑی ہے اور اسے بلوچ عوام کے دل و دماغ میں ایک جگہ مل چکی ہے کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کی نجات جدوجہد کی کامیابی میں پنہاں ہے۔ جو تنظیم یا فرد عوام کی خواہشات کے برخلاف ہوگا جلد یا بہ دیر مسترد کردیا جائے گا اور موجودہ بحران کہ جس پر کچھ لوگ خوشی کا اظہار کررہے ہیں انہیں ایک بہت بڑی مایوسی کا سامنا ہوگا۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий