تحریر : میر محمد علی ٹالپر
بلوچ مخالف بیانات، بے لگام جبر اور سزا سے استثنیٰ کا کلچر قدرتی طور پر بلوچ کے ذہنوں میں تشویش اور شکوک پیدا کرے گا
’دہشتگرد زدہ‘ بلوچستان کو شانت کرنے کی کوششیں تاملوں کیخلاف سری لنکا کی طرف سے کی جانیوالی سفاکانہ تسخیری کارروائی جیسی حکمت عملی کیساتھ جلد شروع ہونیوالی ہیں اور پہلے ہی سے دہشت زدہ بلوچ عوام ان ہولناک اوقات کیلئے چشم براہ ہیں جو 2000 کے بعد سے عداوتوں کے اس پانچویں راونڈ میں مسلسل سفاکانہ حملوں کی زد میں ہیں۔ تاہم بلوچ کو محکوم بنانے کی یہ حکمت عملی پچھلی تمام کی جانیوالی کوششوں کی طرح ناکام ہوجائیگی کیونکہ جبر کے سبب اسوقت بلوچ عوم کے درمیان پائی جانیوالی بیگانگی اور مزاحمت پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہے۔
بظاہر سرمایہ کار بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں مدد کے جتنے بڑے وعدے اور جتنے بڑے متوقع منافع دکھاتے ہیں تو اسٹابلشمنٹ اور اسکے یارغار سرمایہ داری جھتے کے اعمال اور منصوبے بلوچ عوام کیخلاف پوری طرح سے شیطانی اور سفاکانہ بن جاتے ہیں۔ ”بلوچستان میں ڈرون جنگ“ کے عنوان سے روزنامہ ٹربیون (14 جون 2015) میں چھپنے والے ایک مضمون میں محمد علی احسان نامی راقم بلوچ کیخلاف نہ صرف ایک شیطانی، سفاکانہ اور پوری طاقت سے ڈرون جنگ کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ چینی اور دیگر سرمایہ کاروں کیلئے اسے زیادہ محفوظ بنانے کیلئے انہیں ختم کرنے کے طریقوں پر مزید ناپاک تجاویز کیساتھ آتے ہیں یہاں تک کہ اگرانکی حفاظت 44 فیصد وسیع زمین پر بسنے والے پانچ فیصد کے مکمل خاتمے کی قیمت پر ملے۔ بدقسمتی سے سب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پانچ فیصد بلوچ اپنی مرضی سے پاکستان کا 44 فیصد نہیں بنے؛ اسٹابلشمنٹ کے حامی انسانی جانوں کی قیمت سے قطع نظر ایسے اقدامات چاہتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بلوچستان ان کا 44 فیصد رہے۔احسان صاحب اس بات پہ ناراض ہیں کہ اب تک بلوچستان میں ڈرون استعمال نہیں کیے گئے کیونکہ ان کے مطابق ”بلوچستان میں زمین پر فوجی ’ایک خالی بالٹی میں پانی کے قطروں کی طرح ہیں“ اور پھر بلوچ پر الزام لگاتے ہیں کہ ’وہ نسل کشی کے رجحانات دکھا رہے ہیں اور مذہبی اور نسلی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔‘ وہ بہ آسانی بھول جاتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے جو 27 مارچ 1948 سے بڑی تعداد میں بلوچوں کو نسلی بنیادوں پر قتل کررہا ہے اور یہ کہ ہزارہ، زکری اور ہندووں کو ان گروہوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے جنہیں پاکستان نے قائم کیا ہے اور انہیں تحفظ فراہم کررہا ہے اور انکا بلوچ کیساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے جوکہ صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نسلی بنیادوں پر بلوچ کی طرف سے کی جانیوالی ہلاکتیں کسی ہمدردی کی مستحق نہیں ہیں اور میں ان کی مذمت کرتا ہوں۔پھر وہ پوچھتے ہیں ”بڑا سوال یہ ہے: مقامی طور پر تیار کیے گئے ہمارے مسلح ڈرون ’براق‘ اور اس کا لیزر گائیڈڈ میزائل ’برق‘ کہاں ہیں؟“ اور ”ہم عملی طور پر دہشتگرد زدہ، وسیع زمین بلوچستان میں اسے تعینات کرنے میں اب تک کیوں ناکام رہے ہیں؟ اگر ہم بلوچستان کے آسمان کو باقاعدگی سے نگرانی اور مسلح ڈرون مشن کے ساتھ بھردیں تو کیا اس سے دہشتگردوں کیلئے پہاڑی علاقے میں نقل و حرکت کرنا اور سزا سے پچنا آسان ہوگا؟ اگر ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے تو ہم اسے استعمال کیوں نہیں کررہے ہیں؟ حتیٰ کہ اگر ہم انہیں بڑی تعداد میں تعینات کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو ہم کیوں چینی مسلح ڈرون 3 سی ایچ خریدنے پر غور نہیں کرتے جو کہ دو لیزر گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہے۔“ چین ایک ’محفوظ‘ ماحول کو یقینی بنانے کیلئے بخوشی ان کو 3 سی ایچ کی فوجی امداد دے دیگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی ڈرون کے استعمال کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن بلوچ کیخلاف اس کا استعمال جائز لگتا ہے۔
لیکن صرف یہی چیز نہیں ہے جسے یہ شریف النفس شخص ’دہشتگرد زدہ‘ بلوچستان میں بلوچ کے خاتمے کیلئے استعمال میں لانا چاہتے ہیں؛ وہ مشورہ دیتے ہیں، ”بھارت کی مثال لے لیں کہ جس نے مبینہ طور بلوچستان میں ہم پر ایک وسیع پراکسی جنگ مسلط کر رکھی ہے جسے ہم لڑرہے ہیں۔ جب 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بھارتی ریاست پنجاب ہماری طرح کی شورش کی لپیٹ میں تھا تو انہوں نے ایک رضاکار فورس بنائی۔ انہوں نے 1100 دیہاتوں کی کمیٹیوں اور 40000 رضاکار مردوں پر مشتمل ایک ’دیہاتی دفاعی منصونہ‘ منظم کیا۔ اس فورس کو ریاست کی انسداد بغاوت کی حکمت عملی میں مربوط کیا گیا۔ اس دفاعی منصوبے کے تحت انہوں نے رضاکاروں کی تربیت کی اور انہیں مسلح کیا جو معمول کی گشت کیا کرتے اور کسی بھی مشتبہ ملزم کو دیکھتے تو اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کردیتے۔ آج بلوچستان بھی ایک ’غیر رسمی سیکورٹی نظام‘ کا مستحق ہے۔ یہ صرف اس غیررسمی اور رسمی سیکورٹی کے نظام کے مابین باقاعدہ ربط و ہم آہنگی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے تاکہ بلوچستان میں غیرمحفوظ برادریاں اپنی حفاظت اور دفاع خود کر سکیں۔“
وہ بلوچ الشمس اور البدر کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں جسے 1971 میں بنگلہ دیش میں استعمال کیا گیا، وہ بلوچستان میں بھی اسی طرح کی نسل کشی کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں جسکی انہوں نے بنگلہ دیش میں کوشش کی تھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ”ایک غیر رسمی سیکورٹی کا نظام ہو جو کہ ’لوگوں کی حفاظت کیلئے اور لوگوں کی طرف سے‘ بنائی گئی ہو“، اسکو اسطرح پڑھیں کہ بلوچ کے ذریعے بلوچ کو قتل کروانا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ شفیق مینگل جیسے لوگ پہلے ہی سے ان کا یہ غلیظ کام سرانجام دے رہے ہیں؛ توتک کی اجتماعی قبریں ا سٹابلشمنٹ کے تحفظ کے تحت کام کرنے والے انہی قاتل دستوں کی کارستانیاں تھیں۔
ڈرون کے مطالبے، ’غیررسمی سیکورٹی نظام‘ اور مزید سفاکانہ فوجی کارروائیوں کا مقصد بلوچ عوام پر ظلم و ستم ڈھانا ہے تاکہ اس غیر قانونی اور ناجائز طور پر حاصل کی گئی 44 فی صد غیرمنقولہ جائیداد میں بسنے والے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور مزاحمت کے بغیر اس کے وسائل کا استحصال کیا جائے۔ چین جیسے سرمایہ کار ایک محفوظ ماحول کا مطالبہ کررہے ہیں جو کہ صرف اور صرف ان وحشیانہ اقدامات سے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں جو سری لنکا کی طرف سے تاملوں کو شانت کرنے کیلئے بروئے کار لائے گئے تھے۔ پس آمدہ انسانی جانوں کی قیمت مرتکبین کیلئے ایک معمولی قسم کی زحمت ہے کیونکہ سزا سے استثنیٰ کا کلچر اب بھی اسی طرح غالب ہے جیساکہ 1971 میں تھا۔ بلوچ مخالف بیانات، بے لگام جبر اور سزا سے استثنیٰ کا کلچر قدرتی طور پر بلوچ کے ذہنوں میں تشویش اور شکوک پیدا کرے گا جو وسائل اور غیرمنقولہ جائیداد کیلئے اسٹابلشمنٹ کی وحشیانہ طاقت اور اسکی غیر تسکین پذیر لالچ کے اس مہلک آمیزش کے نتائج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
جینوسائیڈ واچ کے صدر گریگوری ایچ اسٹینٹن نسل کشی کے 10 مراحل کی فہرست کچھ یوں پیش کرتے ہیں: درجہ بندی، علامت بندی، امتیاز، سلب انسانیت، تنظیم، تقطیب، تیاری، عقوبت، قتل اور تردید۔ وہ مزید کہتے ہیں ”یہ عمل مرحلہ وار نہیں ہے۔ مراحل بیک وقت وقوع پذیر ہوسکتے ہیں…. مگر تمام مراحل اس عمل کے دوران اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔“ بلوچستان میں بھی یہی ہو رہا ہے اور دنیا کو اس مسئلے پر بیدار ہونے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو چکی ہو۔ زمینی حقیقت فوجی اور سیاسی رہنماوں کی طرف سے بلوچ کیلئے اکثر دہرائے جانیوالے بھائی چارے اور خیر سگالی کے منتر سے مختلف ہے۔ وہ لوگ جو غلطی سے نسل کشی کو ایک واقعہ تصور کرتے ہیں، میری استدلال سے اختلاف کرینگے لیکن وہ جو سمجھتے ہیں کہ نسل کشی ایک طویل عمل ہے، ضرور فکر مند ہونگے۔
پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ہونے کی وجہ سے بلوچ کیخلاف سخت ترین اقدامات کیلئے جو شور مچایا جارہا ہے یہ نسل کشی کے تمام 10 مراحل کی شدت میں اضافے کیلئے زمین ہموار کر رہا ہے جوکہ پہلے ہی سے پراسرار انداز میں مختلف شدت کیساتھ بروئے عمل ہے۔ لوگوں کو اسے سمجھنے اور بلوچ حقوق کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے میرا ماننا ہے کہ اس سفاکانہ جبر سے بھی آخر کار بلوچ بھی اپنا وجود قائم رکھیں گے جیساکہ بنگالیوں نے کیا اور وہ اس حقیقت کے پچھتاوے میں رہیں گے کہ جب عظیم نا انصافیوں کا ارتکاب کیا جا رہا تھا تو وہ انصاف کیلئے کھڑے نہیں ہوئے۔ وہ تمام لوگ جو انصاف کیلئے کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گاکہ آیا وہ بلوچستان کو شانت کرنے کے اس سفاکانہ اور نسل کشیانہ عمل کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت۔
میر محمد علی ٹالپر کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
Комментариев нет:
Отправить комментарий