بہادری و عظمت کا پیکر ....ایک بلوچ عورت , سمی بلوچ
بلوچ قومی تاریخ میں جس طرح بلوچ نوجوانوں نے قومی جنگ میں قربانیاں دی ہیں ، جدوجہد کی ہے اسی طرح بلوچ عورتوں نے بھی اس جنگ میں بڑی کردار ادا کی ہے ۔بلوچ عورتوں کی جرأت اور بہادری کی گواہی تاریخ کے اوراق میں سنہرئے الفاظ میں درج ہیں۔ بلوچ عورتیں جنہوں نے تلوار اٹھائی ہے اور جنگیں فتح کی ہیںیا پھر شہادت نوش کی ہیں، وہ اس جنگ میں مردوں کے مقابلے میں برابرکاشریک ہیں۔جلسے اور احتجاجی مظاہروں میں بھی زیادہ تر عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔بلوچستان میں جو ظالمانہ ریاستی آپریشن جاری ہیں ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ 1948سے لے کر تادم تحریر بلوچ نے جتنی بھی ریاستی جبر و بربریت سہی ہیں ،کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے انتہائی ہمت و بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا ہے اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کے ساتھ قدم بہ قدم رہیں گی۔ اس جنگ میں بلوچ عورتیں جب اپنے بھائی، بچوں،شوہروں کو شہید ہوتے دیکھتے ہیں تو انتہائی برداشت ،صبرو تہمل اوربہادری کا مظاہرہ کرکے اپنے پیاروں کو گلزمین کے سپرد کرتی ہیں جو ہ بڑی ہمت اور بہادری کاجیتا جاگتا مثال ہے لیکن ان عورتوں میں ایک بہت ہی عظیم جرأت مند اور بہادر عورت نے بھی اپنا نام تاریخ میں قید رقم کیا،جو شاید بلوچ ماؤں کے لئے مثال بن چکی ہے۔ اس عورت کے بارے میں بیان کرنانا ممکن شاید نہ ہو لیکن اسکی عظمت کے حوالے سے میرے پاس جو الفاظ ہیں وہ ناکافی ہیں۔
بلوچستان میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی عابدہ جسکی تعلیمی قابلیت بس میٹرک تک ہے وہ اپنے ایک چھوٹے سے گھر میں شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار رہی تھی جس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن زندگی میں اتنی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ بلوچ قومی جنگ میں ہر بلوچ مرد عورت کی طرح یہ بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ شامل تھی ۔ریاست اس گھر کے لوگوں اور چھوٹے بچوں سے خوف محسوس کر رہی تھی۔ فوج نے کئی بار انکے گھر کی قیمتی چیزیں مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے کے بعد خالی گھر جلا کر راکھ کر دیا اس کے بعد عابدہ کے شوہر ماسٹر رحمت جو21 جنوری 2015 کو ایک جنگ میں شہید ہوا۔ گھر کے واحد کفیل کے شہادت کے بعدسب عابدہ کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ عابدہ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کس حالت میں ہوگی کس طرح یہ دکھ سہ لے گی، کس طرح اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کریگی لیکن جب سب لوگوں نے عابدہ کو دیکھا کہ اس کی آنکھیں نم بھی نہیں ہیں دکھ اور تکلیف کی آ گ اسکے سینے میں جل رہی تھی مگر اس نے آگ کی گرمی کو صبر اور استقامت سے برقرار کھی ہوئی تھی۔کچھ دن گزرنے کے بعد اس عورت نے پھر سے اپنے بچوں کی خاطر زندگی کو ترجیح دیا پھر سے جینے کی امید شروع کی ۔عابدہ کے گھر کی روشنی کو بجھا دیا تھا مگر ساتھ میں ان شمعوں کو بھی ختم کیا جو شاید ایک ساتھ ملتے پھر سے نئی روشنی قائم کرتے ۔تین مہینے بعد 19مئی 2015کوگھر میں چھاپہ مار کر اسکے کمسن بیٹے 15سالہ معراج رحمت کے نازک جسم کو مملکت خداد کی فوج نے گولیوں سے چھلنی کیااور بیٹے کی جدائی میں ایک ماں پر کیا گزرتی ہے یہ صرف ایک ماں ہی جان سکتی ہے ۔بیٹے کی شہادت کے بعدعابدہ کی ساری بندشیں ختم ہو گئیں۔ بیٹے کی لاش خون سے لت پت اسطرح جیسے سرخ چادر زمین پر بچھایا ہے لیکن اس ماں کے حوصلے پہاڑوں کی طرح بلند تھے، آنسو کا ایک قطرہ بھی اس عظیم ماں کے آنکھوں میں نہیں تھا جو شایدایک دن اسکی کمزوری کی گواہ بن جائیں بیٹے کی مسکراہٹ کے ساتھ خود مسکرا تی ہے اور شہید بیٹے کے ماتے کو چومتی ہے اور کہتی ہے ایک بیٹے کو اسکی ماں پکار رہی ہے لے جاؤ اسکو اپنے گلزمین کے حوالے کردو۔لیکن اس ماں کے آنکھوں میں آنسو کا قطرہ نہیں آیا۔عابدہ کے چہرے پر ڈر نہیں تھا صرف اسکا سر فخر سے بلند تھا۔عابدہ کہتی تھی مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ میرادوسرا بیٹا تو زندہ اور سلامت ہے لیکن تین مہینے بعد ریاستی فوج کے تین دن کی خون کار آپریشن میں دوسرا بیٹا فرہاد رحمت بھی شہید ہو۔اس آپریشن میں عظیم گوریلا لیڈر داکٹر اللہ نظر کے بھائی شہید سفر خان اور بھتیجاکمانڈر سلیمان عرف شئے حق اپنے بھائی اور کچھ مہمانوں کیساتھ شہید ہوئے ۔دشمن فوج انکی لاشوں کو گاڈی کے پیچھے باندھ کر گھسیٹ کر لے گئے۔ اس ماں نے بیٹے کی لاش بھی نہیں دیکھی جو وہ دل سے تسلی کر لے کہ اسکا دوسرا بیٹا بھی شہید ہوا ہے لیکن جس طرح اس عورت کے دکھ ، درد اور تکلیفیں بڑھتی گئیں اس عورت میں درد کے ساتھ جینے کی ہمت و حوصلے بھی بڑھتی گئیں اور وہ مادریں سرزمین کی ممتا کے آگے سرنگوں رہی ۔شوہر کے ساتھ دونوں بیٹوں اور شوہر کوسرزمین کے حوالے کرکے کہتی رہی کہ اصل ماں تو سرزمین ہے انھیں مجھ سے زیاہ انکی ضرورت ہے ۔
ایک بار میں ان سے ملنے گئی دیکھاکہ جو باتیں میں نے لوگوں سے سنی تھیں وہ بالکل ویسی ہی تھی،وہ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ مشغول تھی ۔جب میں اندر گئی مجھے دیکھ کر انتہائی خوش ہو گئی کہنے لگی کئی دنوں بعد کوئی اپنا ملا ہے۔عابدہ ویسے ہی بہت زیادہ خوش مزاج نیک اور زندہ دل انسان ہیں میں ان کے پاس بیٹھ گئی ۔وہ بڑی دلیری سے اپنے سرتاج اوراپنے فرزندوں کی شہادت کی باتیں کر رہی تھی ۔جب میں اس کی آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی تھی تو میں محسوس کرتی تھی کہ ایک دکھ سے بھری سمندران آنکھوں کے پیچھے چھپی ہے لیکن میں جس عابدہ کو باہر سے دیکھ رہی تھی وہ بہت ہی دلیر اور نڈر تھی اس کے چہرے میں ایک شکن تک دکھائی نہ دی پہلے تو میں یہ ہمت کھو چکی تھی کہ میں اس سے کچھ باتیں کر وں اسکا حال پوچھ سکوں لیکن جب میں نے عابدہ کی بہادری دیکھی مجھ میں بھی طاقت آگئی ۔میں نے اس سے کئی سوالات پوچھے کہ تم کیسے ہو کس طرح تم اپنی چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہو؟
عابدہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میری زندگی وقت کی سی ہے جو گزرتی جا رہی ہے اور وقت کسی کے لئے نہیں رکھتی ہے میں خوش ہوں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ.میں اپنے بچوں اوران کے والد کی شہادت سے پہلے ہماری زندگی بہت خوشگوار تھی ہمارے گھروں میں مہمانوں کا آناجانا اور زندگی کے دوسرے مواقعوں میں بہت خوش تھے اس کے علاوہ بلوچستان کے جو حالات تھے ان کے مطابق میں جانتی تھی کہ بلوچستان میں ہر عورت کی طرح میرا گھر جلا دیا جائیگا میرے شوہر اور بچے شہید کیے جائینگے لیکن میں کبھی بھی ان حالات سے دستبردار نہیں ہوئی ۔
ہاں میں معراج کی شہارت کے بعد تھوڑی زحمت تھی کیونکہ میرے شوہر کے شہادت کے چلے جانے کے بعدمیرے گھر کی ذمہ داری معراج ہی نے اس کم عمری میں اٹھا یا تھا اور فرہادجب زندہ تھا اس کے لیے میں پریشان تھی کیونکہ وہ ہمیشہ بیمار رہتا تھا۔
جس دن میرا بڑا بیٹافرہاد دوڈتے ہوئے میرے پاس آیا اور کہنے لگاکہ ’’اماں معراج پوجیانی دست ء شہید کنک بوتگ‘‘ (اماں ریاستی دشمن کے ہاتھوں معراج شہید ہو گیا ہے) تو میں نے کہا ’’ اللہ ءِ باہوٹ انت منا پہر انت کہ پہ ماتیں گلزمین ءَ شہید کنک بوتہ‘‘(اللہ کی امان میں رہے ،مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا اپنے مادر وطن بلوچستان کے لیے شہید ہوا ہے)
مجھے بالکل بھی پریشانی محسوس نہیں ہوئی اورنہ ہی میری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک قطرہ باہر نکلا۔
جب تین مہینے بعدمشکے کے ایک بڑے ریاستی آپریشن میں شہید سفر خان ،شہید سلیمان ، شہید ذاکر اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے ان میں میرا کمسن بیٹا فرہاد بھی شامل تھا۔جب سرمچاران شہداء کے والدین کو مبارک باد دینے کے لیے آ ئے اور سب کو مبارک باد دیا کہ انکے سپوتوں نے اس عظیم مقصد کے لئے جام شہادت نوش کیاہے۔ سب کو مبارک باد دینے کے بعد جب میری باری آئی تو اس آدمی کے قدم رک گئے اور کہنے لگاان شہیدوں میں ایک اور ہے جسکا نام سننے کے بعد شاید کسی کو برداشت نہ ہو تو میں مسکرائی اور کہنے لگی کہ ابھی تک مجھ میں بہت صبر اور برداشت ہے مجھے فخر ہے اپنے دوسرے بیٹے پرجس نے اپنے غیرت اور گلزمین کے لئے شہادت نوش کیا ہے۔ میں بھی اپنے آپ کو ہزاروں بلوچ بیویوں اورماؤں کی طرح خوش نصیب سمجھتی ہوں، مجھے یاد ہے میرے شہید شوہر رحمت اکثر کہتے تھے ،موت کا وقت مقرر ہے مگر اس جنگ میں نہیں کہیں بھی اور کسی بھی وقت آ سکتی ہے،پھر مسکراتے ہوئے مزاق بھی کرتے تھے کیا پتہ ہم سب ایک ساتھ قربان ہو جائیں، انکی شہادت کے بعد میری ہمت کم نہ ہوئی یقیناًدکھ تکلیف بڑھ گئے ،مگر بیٹے کی شہادت اور انکی لاش کو آنکھوں کے سامنے ،بلکہ پاکستانی فوج کی گولیوں کو خود انکے سینے میں پیووست ہوتے دیکھ کر پتہ نہیں کیسی طاقت جان میں آئی کہ میں بیٹے کی محبت میں آنسو بہانا چاہتی تھی مگر پھر رحمت یاد آیا انکی باتیں کہ شاید ہم ایک ساتھ قربان ہوں،پھر جب فرہاد کے شہادت کی خبر آئی تو میں نے سجدہ کیا زمین کو اور دیر تک بوسہ دیتے رہی اور زمین سے ایک گرمی میری شریر میں محسوس ہوئی،اور ہلکی سے آنسو کی بوند شاید زمین پہ ٹپھکی ہو،دل میں کہتی رہی اے وطن! ابھی میں اورمیرے دوسرے بچے باقی ہیں خود کواور انہیں تمہارے ممتا کے حوالے کرنے کی ہمت ہے مجھ میں۔جب زمین سے سر اُٹھایا تو ہمت اور حوصلے شاید مزید بلند ہوئے۔میری طرح کتنی مائیں بہنیں ہیں جنہوں نے سب کچھ قربان کیااور کر رہی ہیں،بس دعا کرتی ہوں قربانی کا جذبہ ختم نہ ہو۔
عابدہ اپنے شوہر،بچے اور گھرکی ہستی قربان کرنے کے بعدبھی پیچھے نہیں ہٹے،اس کے پاؤں میں اب بھی کوئی لغزش نہیں،سب کچھ اس گلزمین کی خاطر قربان کر نے کے باجود بڑی دلیری ،ہمت اور جرأت کے ساتھ صبر اور برداشت کا دامن تھامے اپنے زندگی کی باقی ماندہ دن گزار رہی ہیں جو بہادری و عظمت کی علامت بن گئی ہے۔
بلوچستان کی ہر ایک عورت عابدہ ہے ۔ہر ایک عابدہ نے ریاستی دشمن کے ہر ظلم ،جبر و تشدد کو بڑی دلیری و بہادری سے برداشت کیا ہے،ہر موڈ پر دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔ اپنے پیاروں کو لوریوں کیساتھ گلزمین کے سپردکئے۔اپنے لخت جگروں کی شہادت پر اپنے سروں کو فخر سے ہمیشہ کے لئے بلند کیا ہے ایسی ماوؤں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائینگی۔ اور جب تک ایسی مائیں بلوچ سرزمین پہ وجود رکھتی ہیں جو اپنی اولاد سمیت پورے خاندان کی قربانی دینے کی ہمت کے ساتھ انکی پروش میں سرزمین کی محبت شامل کر تی ہیں ایسے قوم زیادہ دیر تک غلام نہیں بنائے رکھے جا سکتے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий