اِک لاش کا ارتقا
بیس سال کی عمر تھی اور لکھاری بننے کے جذبے سے سرشار میں ہر اس شخص سے ملنے کا شوقین تھا جسکا ادب سے کچھ لینا دینا ہو۔ تو میں ایک آدمی سے ملا۔ 2002ء میں۔
میرا ایک ادبی دوست مجھے لیاری میں اس آدمی کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں لے گیا جہاں وہ ایک بڑے خاندان کیساتھ رہتا تھا۔ اس نے اردو کی ایک کتاب ’انسان بڑا کیسے بنا‘، بنی نوع انسان کا ارتقا، کا بلوچی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔
لیکن ہماری ادبی بحث شروع ہونے سے قبل میرے دوست اور اس آدمی نے پنکھا بند کردیا اور چرس کا ایک سگریٹ بنانا شروع کیا۔ سگریٹ سلگانے سے قبل انہوں نے چھوٹے سے کمرے کی واحد کھڑکی بند کر دی تاکہ اسکی بو خاندان کے باقی لوگوں کی ناک تک کا سفر نہ کرسکے۔
دو سگریٹ پینے کے بعد، اس آدمی نے اپنے ترجمے کا ایک بہت بڑا مسودہ نکالا اور اس سے پڑھنا شروع کیا۔ انہوں نے ابھی تک پہلا پیرا ہی ختم نہیں کیا تھا کہ میں نے پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع کردیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو روک نہ سکا اور میری آنتیں میرے منہ سے باہر آنے کو تھیں۔ مجھے کیا ہوگیا تھا؟ میں نے سوچا۔
بلوچی، تحریری شکل میں، نسبتاً ایک نئی زبان ہے۔ اس کتاب کا جو ترجمہ اس شخص نے کیا تھا، وہ علم بشریات کی اصطلاحات سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ تو لہٰذا اس نے اپنے بلوچی الفاظ ایجاد کیے تھے۔ عجیب الفاظ۔ لیکن مجھے اس کے سامنے نہیں ہنسنا چاہئے تھا۔ آخر کار میں خود کو ایک مہذب نوجوان سمجھنا پسند کرتا تھا۔
مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں کمرے میں چاروں طرف پھیلا چرس کا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں لے جارہا تھا اور یہی مجھے احمقانہ طور پر ہنسا اور قہقہے لگوا رہا تھا تاہم میں نے کوشش کی کہ نہ ہنسوں۔
اس شخص نے اس واقعے کے بعد اپنا مسودہ کبھی شائع نہیں کیا۔ لیکن ہم ایک طرح سے دوست بن گئے۔
بارہ سال بعد، 2014ء میں، میں ایک برطانوی صحافی کیساتھ رائٹرز کیلئے بلوچ لاپتہ افراد کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ پر کام کر رہا تھا۔ رپورٹ میں تین لاپتہ افراد کی پروفائلز تھیں۔ ان میں سے ایک یہی شخص تھا، حاجی عبد الرزاق سربازی۔
اس وقت وہ ایک مقامی اردو روزنامے کیساتھ ایک پروفریڈر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ایک رات وہ کام پر گیا اور گھر واپس نہیں لوٹا۔ انہیں سیکورٹی ایجنسیوں نے اٹھا لیا تھا۔ ایک پروفریڈر ہونے کے علاوہ، وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک رکن تھے جس کے کارکنوں کا اب بھی فوج پیچھا کر رہی ہے۔
مورخہ 21 اگست کو، جب ہم نے پہلے ہی سے اپنی خصوصی رپورٹ اپنے ایڈیٹرز کو بھیج دی تھی، ہم نے سنا کہ رزاق کی لاش کراچی کے سرجانی ٹاون میں سیوریج کے فضلے میں پائی گئی ہے۔
میرے برطانوی ساتھی نے اس افواہ کی تصدیق کیلئے مجھے فون کیا کہ آیا اگر یہ خبر سچی ہے تو شائع ہونے سے قبل ہمیں اپنی رپورٹ پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ میں نے رزاق کی بہن کو فون کیا۔
”ہاں، میرے رشتہ دار ہسپتال میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی ہے،“ انہوں نے مجھے روتے ہوئے بتایا۔ ”میں خود لاش کو دیکھنے کیلئے ہسپتال جارہی ہوں۔“ انہوں نے یہ کہا اور کال منقطع کردی۔
میں نے سوچا کہ اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ تو میں نے رپورٹ پر نظر ثانی کرنے کیلئے اپنے برطانوی ساتھی کو بتایا۔
چند گھنٹوں بعد، انہوں نے مجھے فون کیا۔ صرف ایک ہی گھنٹی بجی۔ میں نے انہیں فون کیا۔ ”یہ میرا بھائی نہیں ہے،“ وہ اب بھی رو رہی تھی، لیکن ایک مختلف انداز سے۔
میں نے پوچھا کہ ”تمہیں یقین ہے۔“ میں لندن میں بیٹھے اپنے افسران کو ایک اور غیر مصدقہ رپورٹ نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔
”ہاں،“ انہوں نے کہا۔
”کیسے،“ میں جانتا تھا یہ وقت اس طرح کے سوال پوچھنے کا نہیں تھا لیکن ایک ذمہ دار صحافی کے طور پر میری ساکھ داو پر لگی ہوئی تھی۔
”اس لاش کی کھوپڑی بڑی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ میرے بھائی کی کھوپڑی بھی بڑی ہے لیکن اس مرے ہوئے شخص کے مقابلے میں تھوڑی چھوٹی ہے،“ انہوں نے وثوق سے کہا۔
میں جانتا تھا کہ مرنے والوں کی شناخت ثابت کرنے کیلئے یہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا چونکہ موت کے بعد مرے ہوئے شخص کے چہرے پر سوجن آجاتی ہے۔ اور لاش پرانی تھی جو سرجانی ٹاون میں پھینکے جانے کے کئی دن بعد ملی تھی۔
”تو آپکے رشتہ داروں نے کیونکر سوچا کہ یہ آپ کے بھائی کی لاش ہے؟“ مجھے لازم پوچھنا تھا کیونکہ میں دوبارہ اپنے ایڈیٹرز کو ایک اور غیر مصدقہ رپورٹ قطعی طور پر نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔
وہ بہت خوش تھی، اس بات کو باور کرنے کے بعد کہ یہ ان کے بھائی کی لاش نہیں تھی، تو لہٰذا انہیں میرے چبھتے ہوئے سوالات برے نہیں لگ رہے تھے۔
”کیونکہ اس کی قمیض کی جیب میں سے ایک پرچی ملی ہے جس پر حاجی عبدالرزاق لکھا ہوا ہے۔ اسی لئے وہ الجھن میں پڑگئے تھے۔ وہاں ایک اور حاجی عبد الرزاق مری بھی ہے، جو لاپتہ ہے۔ یہ لاش اسکی ہو سکتی ہے۔“
کتنے حاجی عبد الرزاق لاپتہ ہیں؟ میں نے سوچا۔
چہرہ ناقابل شناخت حد تک مسخ کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا لاش کی شناخت کی تصدیق کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ماسوائے جو کچھ رزاق کے خاندان والے کہہ رہے تھے۔
میں نے اپنے برطانوی ساتھی سے معافی مانگی کہ میری گزشتہ اطلاع غلط تھی اور خاندان والے کہہ رہے ہیں کہ یہ لاش ان کے حاجی عبد الرزاق کی نہیں ہے۔ انہوں نے بڑی شائستگی سے جواب دیا کہ ہم اس رپورٹ کو اسی طرح شائع کرنے جارہے ہیں۔
جب میں نے سوچا کہ اب میں اس لاش کی شناخت کے حوالے سے گو مگو کی حالت سے نکل چکا ہوں، مجھے رزاق کی بہن کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا، وہ مجھے فون کرنے کو کہہ رہی تھیں۔
وہ میرے ساتھ کوئی کھیل کھیل رہی ہیں؟ لندن میں بیٹھے میرے افسران میری صحافتی مہارت کے بارے میں کیا سوچیں گے؟
”کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ اس لاش کی کھوپڑی تمہارے بھائی سے بڑی ہے؟“ میں نے مایوس ہوتے پوچھا۔
”ہاں، لیکن اس کی بیوی نے ان کپڑوں کے ٹکڑوں کی جانچ کی ہے جو اب بھی اس کی لاش پر موجود تھیں۔ یہ وہی کپڑے ہیں جو اس دن اس نے پہنے ہوئے تھے جب اسے اٹھایا گیا تھا۔“
میں چند گھنٹوں تک انتظار کر تا رہا تاکہ وہ ہسپتال سے لاش وصول کرلیں۔ میں کوئی غیر مصدقہ اطلاع بھیجنے والا نہیں تھا۔
انہوں نے لاش وصول کرلی۔ انہوں نے اسے مناسب رسومات کیساتھ دفنا دیا۔ اور ہم نے اپنی رپورٹ تبدیل کرلی۔
لیکن مجھے اب بھی لگتا ہے کہ رزاق کی بہن اور خاندان والے اس شبے کے لمحات سے ضرور گزرے ہونگے کہ جو لاش انہوں نے دفنائی ہے وہ واقعی حاجی عبد الرزاق سربازی کی تھی یا حاجی عبد الرزاق مری کی۔
فوج کے لوگ کافی مہربان ہیں کہ وہ پھینکی گئی لاشوں کیساتھ ایک پرچی چھوڑ جاتے ہیں جس پر مقتول کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے تاکہ اس کے رشتہ دار اپنے پیاروں کی شناخت بہ آسانی کرلیں اور ان کی تلاش روک لیں۔ یہ احسان کئی سالوں تک بخوبی کام کرتا رہا۔ لیکن اب جبکہ ایک ہی نام کے ایک سے زائد افراد لاپتہ ہیں تو ہمارے مہربان فوجیوں کو چاہیے کہ اب مقتول کے نام سے منسوب ایک تصویر بھی اس پرچی کے ساتھ چھوڑ دیا کریں
Комментариев нет:
Отправить комментарий