Powered By Blogger

понедельник, 4 июля 2016 г.

ایک باریک سرخ لکیر


تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
Mir Muhammad Ali Talpur
انقلابی جدوجہد اپنے حامیوں، رہنماوں اور معاونین سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص یا گروہ عوام کے نام پر اختیارات حاصل کرلے تو اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ عوام کو جوابدہ ہیں اور عوام کی منشاء کو عذر بنا کر ان اختیارات کا استعمال یا غلط استعمال منمانے طور پر نہیں کر سکتے۔
کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ان اختیارات کا استعمال اپنے خبط کی بنیاد پر کرے اور دروغ گوئی سے ان کارروائیوں کو جدوجہد کیلئے ضروری اقدامات کے طور پر منوائے۔ انہیں عوام کو جوابدہ ہونا ہوگا خاص طور پر جب وہ اقدامات لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں یا تباہ کریں؛ ایسے اوقات میں رہنماء یا گروہ ایک نہایت باریک لکیر پر چل رہے ہوتے ہیں کہ جس سے وہ منصفانہ یا تباہ کن اقدامات کو کافی حد تک ناقابل امتیاز بنا دیتے ہیں اور اسے ناگزیر گردانتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کافی غور و خوص اور احتیاط کے بعد عمل میں لائے جاتے ہیں۔

منصفانہ یا عوام مخالف کارروائیوں کے درمیان اس باریک لکیر کو نظر انداز کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ جدوجہد کی اخلاقی بالادستی کیلئے تباہ کن نتائج کا موجب بنی ہوئی ہے اور اس نے حقیقی حامیوں اور خیر خواہوں سے دوری پیدا کی ہے۔ جدوجہد اپنے حامیوں یا اپنی اخلاقی بالادستی کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتی جو اسے دشمن سے ممتاز کرتی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی کارروائی کرنے سے قبل انہیں اپنے اقدامات کے ممکنہ اثرات پر غور کرنا چاہئے۔
کہا جاتا ہے کہ ہوشمندی اور پاگل پن کے درمیان ایک ’باریک سرخ لکیر‘ ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس دعوے میں کافی حد تک سچائی ہے کیونکہ ہوشمندی اور پاگل پن کی وضاحت کرنے کے لئے کوئی معیار مقرر نہیں ہے چونکہ انسانوں کے اعمال ایک دوسرے کو ڈھانک دیتے ہیں اور اس بات کی تمیز کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ کونسا عمل ہوشمندانہ تھا اور کونسا نہ تھا۔ ان اعمال کو ہوشمندانہ یا فاتر العقل قرار دیا جانا بھی ہر ایک کے اپنے ادراک پر منحصر ہے اور کوئی عمل جو کسی ایک کو دانشمندانہ دِکھتی ہو کسی اور کو حتمی حماقت لگ سکتی ہے۔ تاہم، ہم کسی ایسے اقدام کی پاگل پن کے طور وضاحت کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں جو زمینی حقیقت کو نظر انداز یا اس سے انکار کرتا ہو۔ ایسے اقدامات جو زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوں ان سے افراد، گروہوں یا اقوام پر زبردست حد تک منفی اثرات پڑتے ہیں ان اقدامات کی قیمت انہیں اور انکی آئندہ نسلوں کو چکانی پڑتی ہے۔
زمینی حقائق کو ماننے سے انکار اس صورتحال کو مزید ابتر اور پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ بظاہر انکار ایک عام انسانی کمزوری ہے اور یہ شاید خود کو اس بات پر قائل کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے کہ سب کچھ اچھا اور کنٹرول میں ہے۔ میں نے خون تھوکنے والے بہت سے لوگوں کی مثالیں دیکھی ہے جو اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ وہ تپ دق میں مبتلا ہیں۔ نفسیاتی مسائل کا شکار لوگ بھی اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ انہیں علاج کی ضرورت ہے۔ انکار کرنے کا یہ میلان کسی صورتحال کیلئے مدد کی فراہمی اور اسکی تلافی کے حصول کو بہت مشکل بنادیتی ہے؛ وہ یہ سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے میں حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حقیقت ہماری خواہشات یا آرزووں کے بغیر آزادانہ طور پر زندہ اور قائم رہتی ہے۔
اتفاق سے، انقلاب اور دہشتگردی کے درمیان بھی ایک نہایت ’باریک سرخ لکیر‘ ہوتی ہے اور اسے زیادہ ایمانداری سے قبول کرنا اور سمجھنا چاہئے کیونکہ ہوشمندانہ و پاگل پن کی صورتحال کے برعکس یہ نہ صرف خود پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ کئی لوگوں پر اس کے انتہائی دور رس اثرات ہوتے ہیں اور اس کے پاس تعمیر کے ساتھ ساتھ تباہی کیلئے بھی یکساں قوت ہوتی ہے۔ اس ’باریک سرخ لکیر‘ پر بہت احتیاط سے چلا جائے، اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ انقلاب کہیں دہشتگردی نہ بن جائے۔ وہ لوگ جو انقلاب کی رہنمائی کررہے ہوتے ہیں انہیں اس بات کو دوگنا طور پر یقینی بنانا چاہئے کہ یہ باریک لکیر غلطی سے یا جان بوجھ کر عبور نہ کی جائے کیونکہ انقلاب کے معاملات عوام کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس لکیر کو پار کرنے سے عوام کو نقصان پہنچتا ہے اور انہیں الگ تھلگ کردیتا ہے اسی لئے یہ انقلاب کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔
انقلاب عوام کے ذریعے پنپتی ہے کیونکہ یہ عوام کیلئے ہوتی ہے اور اسے دہشتگردی سے ممیّز اور مختلف رہنا چاہئے اگر یہ کسی بھی طرح سے کامیاب ہونا چاہتی ہے۔ دہشتگردی کو دھوکہ دہی سے انقلاب کے طور پر نہیں منوایا جا سکتا محض اس لئے کہ وہ لوگ جو دہشتگردی کا ارتکاب کررہے ہیں انہیں لگتا تھا کہ ایسا کرنا ضروری تھا۔
انقلاب کوئی حربہ نہیں، یہ ایک حکمت عملی ہے اور ان کارروائیوں سے اسے اسکا جائز احترام ملنا ہے چاہئے جو اس کے نام پر کیے جاتے ہیں؛ آپ بہت بڑی غلطیاں نہیں کرسکتے اور یہ بہانہ بناکر کہ یہ انقلاب ہے، ان سے بری الذمہ ہونے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے۔ انقلاب کے اپنے سخت مجموعہءقوانین و ضوابط اور اقدار ہوتے ہیں جنکی نافرمانی نہیں کی جا سکتی۔ وگرنہ، آپ اسے کوئی انقلاب نہیں کہہ سکتے۔ انقلاب کے علم کو اشد ضرورت اور موزونیت کی مناسبت سے سرنگوں نہیں کیا جا سکتا؛ یہ آپ ہیں کہ جس نے اپنے معیار مقرر کیے ہوئے ہیں اور اگر آپ انکی پاسداری نہیں کرسکتے تو ایک طرف ہٹ جائیں۔ انقلاب طاقت اور دولت کا حصول نہیں ہے بلکہ یہ ان اہداف کے حصول سے متعلق ہے جن سے عوام کو فائدہ پہنچے اور ان کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت کی جاسکے۔
مورخہ 15 مئی 2016ء کو پانچ افراد، ان میں سے تین سرکاری اہلکار اور دو ٹھیکیدار تھے، جو کسی سرکاری معائنے کیلئے گئے تھے، کو ایک گروہ کی طرف سے کیچ کے علاقے دشت سے اغواء کیا گیا۔ ان مغویوں میں سے ایک چاکر زامرانی، شہید کمبر کے والد، تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کمبر چاکربلوچ جدوجہد کے ایک آئیکون ہیں؛ وہ بی ایس او آزاد کے رکن تھے اور ہمیشہ بلوچ اور طلباء حقوق کیلئے جدوجہد میں سب سے آگے رہتے تھے۔ انہیں 26 نومبر 2010ء کو شاہی تمپ تربت میں اپنے گھر سے انکے کزن ارشاد بلوچ کے ہمراہ پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے اغواء کیا گیا تھا، اور ان کی تشدد زدہ لاش الیاس نذر کی لاش کے ہمراہ 5 جنوری 2011ء میں تربت کے قریب پیدراک سے ملی۔
دشت کے دیگر مغویوں میں محبوب رند (ٹھیکیدار)، فدا احمد (ایس ڈی او)، ابراہیم بلوچ (انجینئر) اور رحیم جان بلوچ (انجینئر) شامل تھے۔ تقریباً دس دن بعد ان کی لاشیں ساہیجی، دشت میں سے ملیں، اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ان کے اغوا کاروں، جو خود پاکستانی فورسز کے حملے کی زد میں تھے، کی طرف سے وہیں چھوڑ دیے جانے کے بعد وہ پیاس، بھوک اور آب رُبانی کے سبب وفات پاگئے تھے۔ متوفی، جو اس مشکل قطعہ زمین میں سے اپنے واپسی کا راستہ تلاش کرنے کے قابل نہ تھے، ہلاک ہوگئے۔
ڈاکٹر مالک کے نام نہاد مڈل کلاس نیشنل پارٹی ان اموات پر شورو غل مچا کر رونا رو رہی ہے اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ان کے اقتدار میں آنے کی ہوس کے سبب بلوچ کو بے حد نقصان اٹھانا پڑا ہے جہاں انہوں نے پاکستانی پٹھووں کے طور پر کام کیا اور بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا غلیظ کام کیا جہاں انہوں نے اپنے لئے خوب مال بنایا جیسا کہ مشتاق رئیسانی کے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس شور شرابے کا مقصد پاکستان اور چین کی طرف سے بلوچستان کے استحصال میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ ساہیجی جیسے واقعات محض بلوچ کے دشمنوں کو انہیں بدنام کرنے اور حقوق کیلئے بلوچ جدوجہد کو کمزور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
اس واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور حتیٰ کہ ان لوگوں کے ذہنوں میں بھی شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں جو حقوق کیلئے بلوچ جدوجہد کی دل و جان سے حمایت کرتے ہیں۔ کمبر چاکر کے والد ایک ٹھیکیدار تھے اور یہاں ٹھیکے صرف سرکاری منصوبوں کے ہوتے ہیں تو لہٰذا وہ اپنے خاندان کیلئے ایک قابل احترام زندگی فراہم کرنے کی خاطر اور کیا کر سکتے تھے؛ انہوں نے اپنا بیٹا کمبر، جو دوسری صورت میں اپنے خاندان کیلئے روزی فراہم کر سکتا تھا، بلوچستان کو دیا۔
یہ ہمیں اس سوال کی طرف لاتا ہے جو ہم سے ہمارے ضمیر کو ٹٹولنے کا متقاضی ہے اور اسے بہت احتیاط اور ایمانداری سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص جسے اپنے خاندان کیلئے ایک قابل احترام زندگی فراہم کرنے یا ضرورت کی بنیاد پر کوئی ایسا کام کرنا پڑے جہاں کسی نہ کسی طرح سے حکومت ملوث ہو تو کیا وہ کوئی غدار اور بلوچ دشمن ہے؟
وہاں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اپنے قول وفعل سے صحیح معنوں میں بلوچ دشمن ہیں چونکہ وہ فعال طور پر، جیسا کہ جسمانی طور پر ڈیتھ اسکواڈ کرتے ہیں اور سیاسی طور پر نام نہاد مڈل کلاس کے سیاستدان اور اشرافیہ جو ظالم اور استحصالی قوتوں کیلئے کام کرتے ہیں، ریاست کے ساتھ مل کر بلوچ حقوق کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں لیکن کوئی کسی ایسے شخص کو صرف اس وجہ سے ایک بلوچ دشمن ہونے کیلئے سزا نہیں دے سکتا جو کسی سہل ذریعے سے اپنے خاندان کیلئے روزی کماتا ہو۔ کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ ہمارے درمیان بھیڑوں کے روپ میں کچھ بھیڑیے ہیں اور وہ پراسرار طریقے سے ہمارے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں لیکن کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس بات پر متفق نہ ہوں کہ، محض زندہ رہنے کی ضرورت کے تحت، وہاں بہت سی بھیڑیں ہیں جو بھیڑیوں کے روپ میں ہیں۔ لوگ، جب وہ حکومت کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں، بلوچ حقوق کی جدوجہد کے حامی ہوتے ہیں۔ انقلاب اور جدوجہد کیلئے لوگوں کا عزم ایک طرف، انہیں زندہ رہنے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ اور کیا کرسکتے ہیں جب تک کہ وہ خواب، جو کچھ وہ چاہتے ہیں، ایک حقیقت نہ بن جائے؛ وہ بھوکے پیٹ اس دن کیلئے محض انتظار نہیں کر سکتے۔
وہ لوگ جو بلوچ حقوق کی جدوجہد کے علمبردار ہیں، انہیں ان معاملات پر اپنے نقطہءنظر میں مزید دانشمندانہ اور منصفانہ ہونا پڑے گا، بدقسمتی سے انکے اقدامات، جو باوجودیکہ پرخلوص انداز میں اٹھائے گئے تھے، انقلاب اور عوام دوست ہونے کے بجائے دہشتگردی کے ضمرے میں آتے ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ غلاف چڑھے فیصلے کرے کہ کون محب وطن ہے اور کون غدار ہے اور ان چیزوں کیلئے لوگوں کو تکالیف کا شکار بنائے جو ان کے خیال میں صحیح یا غلط ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ سزا یا جزا دینے کی اجارہ داری کے ساتھ خدا کا طرز عمل اپنائے، ان چیزوں کیلئے جو اسے صحیح یا غلط لگتے ہوں، یہ ہوبہو انہی لوگوں کا طرز عمل ہے جو ہمارے حقوق دینے سے انکاری ہیں اور حقوق کیلئے ہماری جدوجہد کی مخالفت کرتے ہیں؛ ہم ان جیسا ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتے اور مگر پھر بھی ہم اپنے عوام سے حمایت کی توقع کرتے ہیں چونکہ انہیں ایک بہتر حقِ انتخاب ضرورت ہے نہ کہ محض آقاوں کی تبدیلی کی۔
میں نے اوپر ذکر کیا ہے زندگی میں حقیقت سے انکار کا ایک رجحان موجود ہے جس کے سبب کوئی ایک حقیقت کو دیکھنے یا ماننے سے انکاری ہوتا ہے، اس جھوٹے اطمینان کے احساس کے تحت، شاید اس امید میں کہ اگر میں اسے دیکھنے یا تسلیم کرنے کی کوشش نہ کروں تو یہ خودبخود غائب ہو جائے گی۔ تاہم، حقیقی زندگی ہمارے خیال یا اس کے اعتراف سے مختلف ہے اور اس بات سے قطع نظر کے کہ ہم کیا سوچتے ہیں اس کے نتائج سنگین ہوں گے اگر ہمارے اعمال نے انہیں مدعو کیا ہو۔ یہ امر ضروری ہے کہ وہ تمام لوگ جنکے پاس اختیار ہے یہ جرات رکھتے ہوں اور جب کبھی بھی غلطیاں سرزد ہوں تو انہیں قبول کریں کیونکہ بلوچ حقوق کی جدوجہد ہماری انا کی تسکین نہیں ہے۔ یہ لوگوں کی خدمت اور ان خواہشات اور آرزووں کے حصول سے متعلق ہے جو وہ اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے چاہتے ہیں۔
اس طرح کے مواقع پر، جہاں ان مضمرات کے سبب جن سے یہ عبورگی عملی لحاظ سے اور جدوجہد کیلئے اس کے نتائج اور جدوجہد کی اخلاقی حیثیت کے حوالے سے، یہ ’باریک سرخ لکیر‘ مزید گہرے معنی اختیار کرلیتی ہے۔ کسی فیصلے کے نقائص اُن اَن کہی اور بے پناہ قربانیوں سے ملے فائدے کا صفایا کر سکتے ہیں جو 27 مارچ 1948ء کے بعد سے بلوچ حقوق کی جدوجہد میں دی گئی ہیں۔ عوام کی قابل قدر حمایت حاصل کرنا بہت مشکل ہے لیکن یہ پلک جھپکتے ہی ختم ہو سکتی ہے جب ایک بار عوام کو یہ محسوس ہونے لگے کہ ان لوگوں، جو دوست ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں، اور دشمنوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
لوگ ہماری ولولہ انگیز بیان بازی پر فیصلے نہیں کرتے۔ وہ ہمارے اعمال اور ہمارے اعمال کے نتائج پر مبنی فیصلے کرتے ہیں۔ ہر فیصلے اور ہر کارروائی کیلئے غور کرنے میں ترجیح عوام کو حاصل ہونی چاہئے کیونکہ عوام کی حمایت کے بغیر سب کچھ برباد ہوجائے گا اور اس میں اب تک دی گئی وہ تمام قربانیاں شامل ہیں جو بہادر شہید کمبر چاکر اوردیگر ہزاروں نے دی ہیں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий