بلوچ تحریک آزادی کوئی پروکسی جنگ نہیں ..... بجاربلوچ
پروپیگنڈہ سیاست وجنگ کاایک اہم عنصرہے سیاست اورجنگ میں فریقین اپنے اہداف ومقاصدکے حصول کیلئے پروپیگنڈے کوایک موثر آلہ کے طورپر استعمال کرتے ہیں اپنے اوراپنے حامیوں کی صفوں میں یکجہتی کومضبوط وبرقراررکھنے،اپنے مقاصدکوجائزاوران مقاصدکے حصول کیلئے اپنے اقدامات وحکمت عملی کودرست باورکرانے،اپنے صفوں اورحامیوں میں جدوجہداورجنگ کیلئے لگن،محنت اوربے لوث قربانی کے جذبے کوبڑھاوادینے اور ان کاحوصلہ بلندوبرقراررکھنے کیلئے پروپیگنڈہ کوایک اہم ہتھیارماناجاتاہے نہ صرف یہ بلکہ مخالف فریق کے مقاصد،اہداف، اقدامات اور حکمت عملی کوناجائز،غلط،غیرقانونی اورغیر اخلاقی باورکرانے ، رائے عامہ کے اندراس کے بارے میں بدگمانی، بددلی، مخالفت و مخاصمت کے جذبات پیداکرکے رائے عامہ کواس کے خلاف بھڑکانے ،فریق مخالف کوذہنی ونفسیاتی طورپرمفلوج کرکے اسے اندر سے توڑنے اوران کے حامیوں میں خوف،بددلی ،بدگمانی اورکامیابی کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرکے جدوجہد و جنگ کے ان کے جذبے کوکندکرنے، ان کے صفوں میں مایوسی اورانتشارپھیلانے کیلئے بھی پروپیگنڈے کونہایت کارگرہتھیارسمجھا جاتا ہے ۔ پروپیگنڈہ کے علمی مفہوم اورعملی استعمال سے یہ بات صاف عیاں ہے کہ اگر ایک طرف سے حق،انصاف اورسچ کی علمبردارقوتیں سچائی اور انصاف کی سربلندی کیلئے پروپیگنڈہ کااستعمال کرتے ہیں تودوسری جانب بدی کی قوتیں جھوٹ وگمراہی پھیلانے کیلئے اس کااستعمال کرتے ہیں جب جنگ کسی محکوم قوم اوراس کے وطن پرقابض استعماری ریاست کے مابین ہوتویہ بات طے ہے کہ قابض ریاست کے پاس پروپیگنڈہ کے ذرائع کاایک وسیع پھیلاہواجال یانیٹ ورک ہوتاہے تعلیمی ومذہبی اداروں،ان میں پڑھائی جانے والی نصاب،اخبارات و رسائل،فلم، ڈرامہ،ریڈیو،ٹی وی جیسے روایتی ذرائع ابلاغ پرتوریاست کاکنٹرول ہوتاہی ہے تاہم انٹرنیٹ سمیت مواصلات کے دیگرجدید ذرائع بھی بڑی تیزی سے ریاستی کنٹرول کے شکنجے میں کسے جارہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ عالمی قوتوں،اداروں اوررائے عامہ تک اپناموقف پہنچانے کیلئے ریاست کے پاس سفارتی ذرائع وسہولیات میسرہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ محکوم قوم کی تحریکِ آزادی کے بارے میں غلط، جھوٹا اور منفی پروپیگنڈہ کرکے اس کاایک مسخ شدہ شبیہہ پیش کرتاہے یہی بات ہمیں بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی پالیسی اور اقدامات میں صاف نظرآتاہے پاکستانی فوج،کٹھ پتلی مرکزی وصوبائی حکومتیں،ربڑاسٹمپ پارلیمنٹ اوراسمبلیاں،فوج وخفیہ اداروں کی آلہ کارسیاسی اورمذہبی جماعتیں،تنظیمیں اورچاپلوس میڈیاجھوٹی ویکطرفہ پروپیگنڈہ کے زورپرپاکستانی رائے عامہ کوگمراہ کرنے کیلئے بلوچ قومی تحریک آزادی کوپاکستان کے خلاف بھارت،افغانستان،امریکہ اوراسرائیل کی پراکسی جنگ باورکرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی سرپرستی وسربراہی میں قائم مسلم ممالک کی عسکری اتحادمیں پاکستان کی شمولیت کے بعد سے دبے دبے الفاظ میں ایران کانام بھی لیاجارہاہے مذکورہ بالاوہ ممالک ہیں جنہیں پاکستانی فوج اپنے رائے عامہ کے ہاں بطور دشمن ممالک پیش کرتاہے۔ بلوچ قومی آزادی کی جائز فطری جدوجہد کومتذکرہ بالادشمن ممالک کی طرف سے پاکستان پرمسلط کردہ پروکسی جنگ بتانے کا مقصدجھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعے منفی حب الوطنی اورپاکستانیت کے جذبات کوابھارکر مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج، خفیہ اداروں اوران کی تشکیل کردہ پرائیویٹ مسلح جتھوں کے ہاتھوں بلوچ نسل کش ریاستی اقدامات، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں ،فوج اوراس کے ساجھے داروں کی کرپشن کے خلاف رائے عامہ کوآوازبلندکرنے سے بازرکھناہے ۔اگرماضی میں جھانک کردیکھیں توسابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سردجنگ کے تناظرمیں پاکستان بلوچ قومی تحریک آزادی کوگرم پانیوں تک پہنچنے کی روسی امنگوں کی تکمیل کاآلہ اورروس کامسلط کردہ پروکسی جنگ proxy war قراردے کرتحریک کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے حمایت اورمددحاصل کرتارہا بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستان کایہ پروپیگنڈہ پاکستانی رائے عامہ اورمیڈیاتک محدودنہیں ہے بلکہ تنظیم اقوامِ متحدہ،یورپین یونین اوردیگرعالمی اداروں اورمیڈیامیں بھی بلوچ قومی تحریک آزادی کوپاکستان اپنی نام نہادسلامتی کے خلاف بیرونی قوتوں کی پرائی جنگ proxy war باورکرانے کی سفارتی کوششیں کرتارہاہے البتہ وہاں امریکہ،اسرائیل اورایران کانام نہیں لیاجاتاصرف بھارتی اور افغان خفیہ اداروں پر الزام عائدکیاجاتاہے۔
بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے خلاف اِسی ریاستی پروپیگنڈہ کے کڑی کے طورپرمئی 2017ء میں مقبوضہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کے ایک 09رکنی وفدنے صوبائی وزیرنواب جنگیزمری کی قیادت میں بیلجیئم کی دارالحکومت برسلزکادورہ کیا۔ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے این این آئی کی رپورٹ کے مطابق یہ پارلیمانی وفدوزراء جنگیزمری،رحمت صالح،سرفرازبگٹی،ارکان اسمبلی نصراﷲزیرے،پرنس احمدعلی،طاہر محمود،آغامحمدرضا،صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑاورمشیرعمیراحمدحسین پرمشتمل تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق وفدچارروزہ دورہ پر 02 مئی 2017ء کوبرسلزپہنچ گیاجہاں وفدنے پاکستانی تارکینِ وطن سے ملاقات کی جس کااحتمام پاکستانی سفارتخانہ میں کیاگیاتھا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفدکے ارکان نے دعویٰ کیاکہ سی پیک بلوچستان کیلئے گیم چینچرثابت ہوگا۔اطلاعات کے مطابق مذکورہ بالاوفدکے ارکان نے 03 مئی2017ء کوبرسلزمیں یورپین یونین کے دفاترکادورہ کرکے ای یوکے پارلیمنٹیرین اورخارجہ معاملات کی کمیٹی کے رکن مائیکل گےئلراورپارلیمانی ہم آہنگی کمیٹی کے رکن وپارلیمنٹیرین ساجدکریم اوردیگرحکام سے ملاقاتیں کیں ۔رپورٹس کے مطابق وفدنے یورپین یونین کے نمائندوں کوبلوچستان میں غیرملکی مداخلت سے آگاہ کرتے ہوئے اس بیرونی مداخلت کی تدارک کیلئے ای یوسے کرداراداکرنے کی اپیل کی وفدنے بلوچستان کی اقتصادی اہمیت اورسرمایہ کاری کے مواقع خصوصاًسی پیک سے جڑی سرمایہ کاری کی اہمیت کواجاگرکیا۔27 جون 2017ء کوبی بی سی اردوکے پروگرام سیربین کواپنے ایک انٹرویومیں رحمت صالح نے مذکورہ دورہ سے متعلق بتاتے ہوئے کہاکہ ہم نے ای یوکے نمائندوں کوبلوچستان کی اقتصادی اہمیت،سرمایہ کاری کے مواقع،سی پیک سمیت ترقیاتی عمل اوراس عمل کوسبوتاژکرنے کیلئے بھارتی خفیہ ادارہ ریسرچ اینڈاینلائسس ونگ کی تخریبی سرگرمیوں سے آگاہ کیاموصوف نے اپنے مذکورہ انٹرویومیں مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری بھی بلوچ قومی تحریکِ آزادی پرڈالتے ہوئے تحریکِ آزادی کودہشتگردی وتخریب کاری قرار دیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیانے مذکورہ وفدکی برسلزروانگی،وہاں اس کی سرگرمیوں اوران کی موقف کوتورپورٹ کی مگران کی اس جھوٹی پروپیگنڈے کے جواب میں یورپین یونین کی نمائندوں کے ردعمل کے بارے میں کوئی رپورٹنگ نہیں کی، لگتاہے کہ ای یوکے نمائندوں نے اس وفداوراس کے پروپیگنڈے کوکوئی اہمیت نہیں دی ہے کیونکہ پاکستان جہاں وزیراعظم کے احکامات کوآئی ایس پی آرکاترجمان جوتے کی نوک پررکھ کرٹوئٹ کے ذریعے ردکرتاہے وہاں مقبوضہ بلوچستان جیسے جنگ زدہ خطہ کے کٹھ پتلی حکومت کی اس وفدکے ارکان کی نمائندہ حیثیت ،اختیارات اور اوقات کے بارے میں ای یوکے نمائندے کیسے غلط فہمی کاشکارہوسکتے ہیں؟رحمت صالح جیسے ریاستی آلہ کار سی پیک جیسے سامراجی استحصالی منصوبے کوجھوٹی پروپیگنڈے کے زورپرچاہے جتنابھی ترقی اورگیم چینجرکہیں مگربلوچ عوام کووہ دھوکہ نہیں دے سکتے گوادرسے بیسیمہ تک جہاں جہاں سی پیک شاہراہ پرکام ہواہے وہاں سینکڑوں بستیوں کے لاکھوں بلوچوں کوفوج نے جبری نقل مقامی پر مجبورکیاہے اپنے آبائی اراضیات،املاک ومکانات سے جبری بے دخلی کوکوئی ذی شعورانسان کبھی بھی ترقی وخوشحالی نہیں مان سکتااس شاہراہ کونہ صرف مقبوضہ بلوچستان بلکہ مقبوضہ گلگت بلتستان اورمقبوضہ ایسٹ ترکستان کے عوام کی بھی مزاحمت کاسامناکرناپڑرہاہے کیونک یہ شاہراہ وہاں کے محکوم اقوام کی مرضی ومنشاء اورقومی مفادات کے خلاف جبراًتعمیر کی جارہی ہے۔ سی پیک کے پس پردہ چین کی توسیع پسندانہ سامراجی عزائم ومنصوبہ سے ای یوسمیت علاقائی اورعالمی قوتیں اچھی طرح معلوم ہیں چین کی انہی سامراجی منصوبوں،پالیسی اورعزائم کے باعث جنوب مشرقی ایشیامیں اس کے تمام ہمسایہ ممالک سمیت بھارت اور بھوٹان کے ساتھ چین کے تعلقات شدید کشیدگی کاشکارہیں۔
بلوچ قومی تحریکِ آزادی کوبدامنی،تخریب کاری اورامن وامان کی خراب صوتحال سے تعبیرکرنااورمقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کیلئے بلوچ قومی تحریک ،بھارتی اورافغان خفیہ اداروں کوذمہ دارٹھہرانارحمت صالح جیسے آئی ایس آئی کے آلہ کارضمیرفروشوں کاایک ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے جس پریقین کرنے والامشکل سے بھی کوئی نہیں ملے گا۔بلوچ عوام،یواین او،انسانی حقوق کی علاقائی اور عالمی تنظیمیں،میڈیا اوررائے عامہ یہ توجانتے ہیں کہ بزرگ بلوچ رہنماشہیدسردارمحمداکبرخان بگٹی اوراس کے ساتھیوں ، بی این ایم کے بانی صدرشہیدمیرغلام محمدبلوچ،سیکریٹری جنرل شہیدڈاکٹرمنان بلوچ سمیت درجن سے زائداس کے مرکزی عہدیداروں ، سینکڑوں کارکنوں، بی ایس اوآزاد کے سیکریٹری جنرل شہیدرضاجہانگیرسمیت سینکڑوں کارکنوں ،بی آرپی کے رہنماشہیدجلیل ریکی ،شیرمحمد بلوچ سمیت اس کے بھی سینکڑوں کارکنوں ،شہیدصبادشتیاری ،اسسٹنٹ پروفیسرعبدالرزاق زہری سمیت سینکڑوں محب وطن بلوچ دانشوروں،شہیدمولوی عبدالخالق اور شہید مولاناعبدالکبیرکمبرانی کوRAWاوراین ڈی ایس نے نہیں بلکہ پاکستانی فوج ،ایف سی اورخفیہ اداروں نے ہی قتل کیاوہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بی این ایم کی مرکزی کمیٹی کے ارکان ڈاکٹردین محمدبلوچ،غفوربلوچ،بی ایس اوآزاد کے سابق چیئرمین زاہدبلوچ، سابق وائس چیئرمین ذاکرمجیدبلوچ،سیکریٹری اطلاعات شبیربلوچ سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں کوجبری لاپتہ کرکے فوج ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کے خفیہ عقوبت خانوں میں را اوراین ڈی ایس نے لاپتہ نہیں کیاہے پاکستانی فوج ،ایف سی اوردیگر سکیورٹی اداروں کی آپریشنزمیں گرفتاراورلاپتہ بلوچ فرزندوں کی مسخ لاشیں راRAWنہیں پھینک رہاہے۔ توتک،ڈیرہ بگٹی اورکوہِ مردارکی دامن میں دریافت اجتماعی قبروں میں بے گورو کفن دفن سینکڑوں بلوچ فرزندوں کاقاتل رااوراین ڈی ایس نہیں بلکہ پاکستانی سکیورٹی ادارے ہی ہیں27 اپریل 2017ء کو ایف سی کے زیرحراست اسکول ٹیچر بیت اﷲ، آصف انورعلی،ماجد مجید،صابرغلام حسین اورجاسم رحیم کوبھارتی راRAW نے نہیں بلکہ پاکستان آرمی نے جعلی مقابلہ میں قتل کیا۔07جولائی 2017ء کودشت مکران کے گاؤں کمبیل میں فوجی آپریشن کے دوران دوسگے بھائیوں سلیم بلوچ اورشکاری بلوچ اوران کے رشتہ دار سمیربلوچ کواین ڈی ایس نے نہیں بلکہ پاکستانی فوج نے قتل کیا۔مشکے،ڈیرہ بگٹی،نصیرآباد اور بولان سے سینکڑوں بلوچ خواتین وبچوں کو راRAW نہیں بلکہ پاکستانی آرمی ہی گرفتارکرکے اپنے کیمپوں میں قیدکرتارہاہے۔یقیناًبلوچ عوام، انسانی حقوق کی علاقائی اورعالمی تنظیمیں مقبوضہ بلوچستان میں فوجی آپریشنزمیں عام سویلین آبادیوں کوجبرکا نشانہ بنائے جانے،مسخ لاشیں پھینک دینے اورہزاروں بلوچ فرزندں کوجبری لاپتہ اورلاکھوں خاندانوں کونقل مکانی پرمجبورکرنے کے مرتکب پاکستانی فوج اوردیگر سکیورٹی اداروں کے گھناؤنے کردارسے بے خبر نہیں ہیں وہ مقبوضہ بلوچستان میں آزادی پسندجمہوری سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اورمیڈیا پرعائد ریاستی بندشوں سے بھی لاعلم نہیں ہیں۔ مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبراوردہشتگردی کے بارے میں یقیناً کوئی ابہام نہیں ہے تاہم یہ حقیقت ہمیں قومی تحریک آزادی کے حوالے سے ہماری قومی فرائض سے بری الذمہ نہیں کرتا ہے۔ آزادی پسندبلوچ تنظیموں کی بیرون ملک مقیم رہنماؤں اورکارکنوں کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ریاستی ظلم اوردہشتگردی کے خلاف علاقائی اورعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کو معلومات دیتی رہیں بلکہ اس ظلم وجبر کی روک تھام کیلئے انھیں عملی اقدامات اٹھانے پر بھی آمادہ کرنے کی مسلسل کوششیں کرتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ قابض ریاست کے جھوٹے پروپیگنڈے کابھی موثرجواب دیں ماناکہ ریاستی پروپیگنڈہ مشینری کے مقابلے میں بلوچ آزادی پسندتنظیموں کے پاس پروپیگنڈے کے ذرائع نہ ہونے کے برابرہیں مگر یہ حقیقت انھیں اس معاملے میں ان کی قومی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں کرتاہے ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ جس روزکٹھ پتلی صوبائی حکومت کایہ وفد برسلزمیں یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کیلئے گیاتھااسی روزبلوچ آزادی پسندوہاں ایک مظاہرہ کرتے اورمقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج ،خفیہ اداروں،ان کی تشکیل کردہ پرائیویٹ مسلح جتھوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایک تفصیلی دستاویزdossier یورپین یونین کے نمائندوں کے حوالہ کرتے تاکہ جھوٹی ریاستی پروپیگنڈے کابروقت اوربرمحل جواب مل جاتا۔
جہاں تک پروپیگنڈے کے زورپربلوچ قومی تحریکِ آزادی کوپرائی جنگproxy war باورکرانے کی ریاستی بیانیہ کاتعلق ہے تو یہ سراسر جھوٹ ،دروغ گوئی اوربدنیتی پرمبنی ہے۔ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی تاریخ خوداس کُھلی حقیقت کاگواہ ہے کہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کسی ملک یاخفیہ ادارے کاآلہ کاراورپروکسی جنگ نہیں ہے تقسیم ہندکے وقت جب بلوچ قیادت نے مسلم لیگی قائدین کے توسیع پسندانہ امنگوں اورعزائم کوبھانپ لیاتو قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی ایک وفدنے ہندوستان کادورہ کیاجہاں انہوں نے کانگریس کی قیادت سے ملاقات کر کے بلوچستان کی آزادریاست قلات کی آزادی کی تحفظ کیلئے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مگرکانگریسی قیادت نے ان کوکسی بھی قسم کی یقین دہانی کرانے سے انکارکردیاجب مارچ 1948ء میں پاکستان نے بلوچستان کی آزادریاست پرجبری قبضہ کیاتوشہزادہ عبدالکریم بلوچ کی قیادت میں بلوچ عوام نے اس جبری قبضہ کی مزاحمت شروع کردی شہزادہ اوراس کے رفقاء حمایت کی حصول کیلئے افغانستان گئے مگر افغانستان نے ان کی مددکرنے سے انکارکردیاکشمیرکامسئلہ تویواین اوکی جنرل اسمبلی میں زیربحث آیامگرافغانستان اور بھارت سمیت کسی ملک نے بلوچستان پرپاکستان کے جبری قبضہ کوچیلنج نہیں کیا۔1960،1950 اور1970 کی دہائیوں میں بھی بلوچ قوم نے اپنے ہی بل بوتے پرپاکستانی قبضہ کے خلاف آزادی کی جنگیں لڑی پاکستانی ریاستی پروپیگنڈہ کے برعکس روس،بھارت،افغانستان اوراسرائیل سمیت کسی بھی ملک نے یواین اویاکسی دوسری عالمی فورم پر بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے حق میں نہ کوئی آوازبلندکی ہے اورنہ کسی قسم کی فوجی،مالی، اخلاقی اورسفارتی مدددی ہے۔2000ء میں بلوچ تحریک آزادی کی احیاء بھی بلوچ قومی کوششوں کی مرحون منت ہے اس میں کسی بیرونی قوت کا کوئی کردارنظرنہیں آتاہے بلوچ گزشتہ سترہ سال سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یواین اوکی انسانی حقوق کے تنظیموں کی جانب سے بلوچ قوم کے خلاف ریاستی اداروں کی ظلم وجبرکے خلاف وقتاً فوقتاًآوازیں بلنداوررپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں مگرجنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل جیسے فورمز پربلوچ قومی آزادی کی حمایت میں کوئی قرار دادزیربحث نہیں آیاہے امریکہ،بھارت یاکسی اورملک نے اب تک کھل کربلوچ قومی تحریکِ آزادی کی فوجی،سیاسی،مالی،اخلاقی اورسفارتی مددنہیں کی ہے البتہ امریکی کانگریس کے چندارکان نے 2012ء میں آزادبلوچستان کی حمایت میں ایک قراردادکانگریس میں بحث کیلئے جمع کرادی ہے جبکہ 2016ء میں بھارتی یومِ آزادی کے موقع پر بھارتی وزیراعظم جناب نریندرمودی نے پہلی بارمقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی ریاستی دہشتگردی کی کھل کرمزمت کردی مگرانکی یہ حمایت بھی اب تلک کسی ٹھوس فوجی ،مالی اورسفارتی مددکی صورت میں سامنے نہ آسکا پاکستانی جھوٹی پروپیگنڈہ کے برعکس اگریواین او،یورپین یونین، نیٹوسمیت کوئی عالمی ادارہ، امریکہ ، بھارت سمیت کوئی عالمی یاعلاقائی قوت یاملک اگربلوچ قومی تحریک آزادی کی فوجی،مالی،اخلاقی اور سفارتی مددکرتاتومقبوضہ بلوچستان کی صورتحال قطعاًایسانہیں ہوتاجیسا کہ آج ہے اگرکوئی عالمی یاعلاقائی قوت یاملک بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی فوجی،مالی اور سفارتی مدداورسیاسی واخلاقی حمایت کرے تواس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ آزادی،جمہوریت، عالمی و علاقائی امن،ترقی وخوشحالی کیلئے ایساکرناان کابین الاقوامی فرض اوربلوچ قوم کاقومی وفطری حق ہے پاکستان ایک جانب کشمیراورافغانستان میں اپنی مداخلت اوردہشتگردی کی سرپرستی کے عمل سے عالمی توجہ ہٹانے اور دوری جانب بلوچ قومی تحریکِ آزادی کاایک گمراہ کن شبیہہ بنا کر پیش کرنے کیلئے بلوچستان میں بھارت اورافغانستان کی مداخلت کاجھوٹا پروپیگنڈہ کرتاہے بلوچ آزادی پسندقوتوں کوچاہیئے کہ وہ قابض ریاست اوراس کے مقامی آلہ کاروں کے اس جھوٹے پروپیگنڈہ کاجواب دینے کیلئے موثرحکمت عملی بنائیں مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی دہشتگردی کے شکاربلوچ عوام کوقابض ریاست اوراس کی بلوچ دشمن کردارکے بارے میں کچھ بتانے کی اتنی ضرورت بھی نہیں پڑے گاالبتہ قو م دوستی اورجمہوریت پسندی کانقاب پہنے نیشنل پارٹی ،جمہوریت پسندی اور اسلام دوستی کالبادہ اوڑھے دیگرجماعتوں کی فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ تعلق وتعاون کوبے نقاب کرنے کی ضرورت ہے بلوچ عوام کو اچھی طرح دکھاناہے کہ یہ جماعتیں قومی آزادی کی اس جدوجہدمیں بلوچ عوام کے ساتھ نہیں بلکہ قابض ریاست ،اس کی سفاک فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں یہ جماعتیں بلوچ عوام کے خلاف دشمن کا آلہ کار،معاون کاراورشریک جرم ہیں قوم دوستی،وطن دوستی،اسلام دوستی اورجمہوریت پسندی جیسے اعلیٰ اقدار کے ساتھ ان جماعتوں کاکوئی دورکاواسطہ بھی نہیں ہے البتہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاستی دہشتگردی اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کوعالمی سطح پرموثرطورپر بے نقاب کرنے کیلئے بلوچ آزادی پسندجماعتیں، بیرون ملک مقیم ان کے نمائندے ،سنگرپبلیکیشنزاورتوارجیسے اشاعتی ادارے ایک ایسارابطہ سسٹم بنائیں جس کے ذریعے مقبوضہ بلوچستان میں فوجی آپریشنز،سکیورٹی وخفیہ اداروں کے چھاپوں ،جبری گمشدگیوں،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ،فوج کے ہاتھوں گاؤں اورگھروں کو جلانے ،املاک کولوٹنے اور جعلی مقابلوں میں قتل کے تمام واقعات کوماہانہ ایک تفصیلی دستاویزکی شکل میں شائع اورپی ڈی ایف کرکے سوشل میڈیا،ای میل اوردیگر ذرائع سے عالمی اداروں اورذرائع ابلاغ کے دفاتر، اوربااثر شخصیات کو باقائدگی سے بھیج دیاجائے۔
بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے خلاف اِسی ریاستی پروپیگنڈہ کے کڑی کے طورپرمئی 2017ء میں مقبوضہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کے ایک 09رکنی وفدنے صوبائی وزیرنواب جنگیزمری کی قیادت میں بیلجیئم کی دارالحکومت برسلزکادورہ کیا۔ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے این این آئی کی رپورٹ کے مطابق یہ پارلیمانی وفدوزراء جنگیزمری،رحمت صالح،سرفرازبگٹی،ارکان اسمبلی نصراﷲزیرے،پرنس احمدعلی،طاہر محمود،آغامحمدرضا،صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑاورمشیرعمیراحمدحسین پرمشتمل تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق وفدچارروزہ دورہ پر 02 مئی 2017ء کوبرسلزپہنچ گیاجہاں وفدنے پاکستانی تارکینِ وطن سے ملاقات کی جس کااحتمام پاکستانی سفارتخانہ میں کیاگیاتھا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفدکے ارکان نے دعویٰ کیاکہ سی پیک بلوچستان کیلئے گیم چینچرثابت ہوگا۔اطلاعات کے مطابق مذکورہ بالاوفدکے ارکان نے 03 مئی2017ء کوبرسلزمیں یورپین یونین کے دفاترکادورہ کرکے ای یوکے پارلیمنٹیرین اورخارجہ معاملات کی کمیٹی کے رکن مائیکل گےئلراورپارلیمانی ہم آہنگی کمیٹی کے رکن وپارلیمنٹیرین ساجدکریم اوردیگرحکام سے ملاقاتیں کیں ۔رپورٹس کے مطابق وفدنے یورپین یونین کے نمائندوں کوبلوچستان میں غیرملکی مداخلت سے آگاہ کرتے ہوئے اس بیرونی مداخلت کی تدارک کیلئے ای یوسے کرداراداکرنے کی اپیل کی وفدنے بلوچستان کی اقتصادی اہمیت اورسرمایہ کاری کے مواقع خصوصاًسی پیک سے جڑی سرمایہ کاری کی اہمیت کواجاگرکیا۔27 جون 2017ء کوبی بی سی اردوکے پروگرام سیربین کواپنے ایک انٹرویومیں رحمت صالح نے مذکورہ دورہ سے متعلق بتاتے ہوئے کہاکہ ہم نے ای یوکے نمائندوں کوبلوچستان کی اقتصادی اہمیت،سرمایہ کاری کے مواقع،سی پیک سمیت ترقیاتی عمل اوراس عمل کوسبوتاژکرنے کیلئے بھارتی خفیہ ادارہ ریسرچ اینڈاینلائسس ونگ کی تخریبی سرگرمیوں سے آگاہ کیاموصوف نے اپنے مذکورہ انٹرویومیں مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری بھی بلوچ قومی تحریکِ آزادی پرڈالتے ہوئے تحریکِ آزادی کودہشتگردی وتخریب کاری قرار دیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیانے مذکورہ وفدکی برسلزروانگی،وہاں اس کی سرگرمیوں اوران کی موقف کوتورپورٹ کی مگران کی اس جھوٹی پروپیگنڈے کے جواب میں یورپین یونین کی نمائندوں کے ردعمل کے بارے میں کوئی رپورٹنگ نہیں کی، لگتاہے کہ ای یوکے نمائندوں نے اس وفداوراس کے پروپیگنڈے کوکوئی اہمیت نہیں دی ہے کیونکہ پاکستان جہاں وزیراعظم کے احکامات کوآئی ایس پی آرکاترجمان جوتے کی نوک پررکھ کرٹوئٹ کے ذریعے ردکرتاہے وہاں مقبوضہ بلوچستان جیسے جنگ زدہ خطہ کے کٹھ پتلی حکومت کی اس وفدکے ارکان کی نمائندہ حیثیت ،اختیارات اور اوقات کے بارے میں ای یوکے نمائندے کیسے غلط فہمی کاشکارہوسکتے ہیں؟رحمت صالح جیسے ریاستی آلہ کار سی پیک جیسے سامراجی استحصالی منصوبے کوجھوٹی پروپیگنڈے کے زورپرچاہے جتنابھی ترقی اورگیم چینجرکہیں مگربلوچ عوام کووہ دھوکہ نہیں دے سکتے گوادرسے بیسیمہ تک جہاں جہاں سی پیک شاہراہ پرکام ہواہے وہاں سینکڑوں بستیوں کے لاکھوں بلوچوں کوفوج نے جبری نقل مقامی پر مجبورکیاہے اپنے آبائی اراضیات،املاک ومکانات سے جبری بے دخلی کوکوئی ذی شعورانسان کبھی بھی ترقی وخوشحالی نہیں مان سکتااس شاہراہ کونہ صرف مقبوضہ بلوچستان بلکہ مقبوضہ گلگت بلتستان اورمقبوضہ ایسٹ ترکستان کے عوام کی بھی مزاحمت کاسامناکرناپڑرہاہے کیونک یہ شاہراہ وہاں کے محکوم اقوام کی مرضی ومنشاء اورقومی مفادات کے خلاف جبراًتعمیر کی جارہی ہے۔ سی پیک کے پس پردہ چین کی توسیع پسندانہ سامراجی عزائم ومنصوبہ سے ای یوسمیت علاقائی اورعالمی قوتیں اچھی طرح معلوم ہیں چین کی انہی سامراجی منصوبوں،پالیسی اورعزائم کے باعث جنوب مشرقی ایشیامیں اس کے تمام ہمسایہ ممالک سمیت بھارت اور بھوٹان کے ساتھ چین کے تعلقات شدید کشیدگی کاشکارہیں۔
بلوچ قومی تحریکِ آزادی کوبدامنی،تخریب کاری اورامن وامان کی خراب صوتحال سے تعبیرکرنااورمقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کیلئے بلوچ قومی تحریک ،بھارتی اورافغان خفیہ اداروں کوذمہ دارٹھہرانارحمت صالح جیسے آئی ایس آئی کے آلہ کارضمیرفروشوں کاایک ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے جس پریقین کرنے والامشکل سے بھی کوئی نہیں ملے گا۔بلوچ عوام،یواین او،انسانی حقوق کی علاقائی اور عالمی تنظیمیں،میڈیا اوررائے عامہ یہ توجانتے ہیں کہ بزرگ بلوچ رہنماشہیدسردارمحمداکبرخان بگٹی اوراس کے ساتھیوں ، بی این ایم کے بانی صدرشہیدمیرغلام محمدبلوچ،سیکریٹری جنرل شہیدڈاکٹرمنان بلوچ سمیت درجن سے زائداس کے مرکزی عہدیداروں ، سینکڑوں کارکنوں، بی ایس اوآزاد کے سیکریٹری جنرل شہیدرضاجہانگیرسمیت سینکڑوں کارکنوں ،بی آرپی کے رہنماشہیدجلیل ریکی ،شیرمحمد بلوچ سمیت اس کے بھی سینکڑوں کارکنوں ،شہیدصبادشتیاری ،اسسٹنٹ پروفیسرعبدالرزاق زہری سمیت سینکڑوں محب وطن بلوچ دانشوروں،شہیدمولوی عبدالخالق اور شہید مولاناعبدالکبیرکمبرانی کوRAWاوراین ڈی ایس نے نہیں بلکہ پاکستانی فوج ،ایف سی اورخفیہ اداروں نے ہی قتل کیاوہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بی این ایم کی مرکزی کمیٹی کے ارکان ڈاکٹردین محمدبلوچ،غفوربلوچ،بی ایس اوآزاد کے سابق چیئرمین زاہدبلوچ، سابق وائس چیئرمین ذاکرمجیدبلوچ،سیکریٹری اطلاعات شبیربلوچ سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں کوجبری لاپتہ کرکے فوج ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کے خفیہ عقوبت خانوں میں را اوراین ڈی ایس نے لاپتہ نہیں کیاہے پاکستانی فوج ،ایف سی اوردیگر سکیورٹی اداروں کی آپریشنزمیں گرفتاراورلاپتہ بلوچ فرزندوں کی مسخ لاشیں راRAWنہیں پھینک رہاہے۔ توتک،ڈیرہ بگٹی اورکوہِ مردارکی دامن میں دریافت اجتماعی قبروں میں بے گورو کفن دفن سینکڑوں بلوچ فرزندوں کاقاتل رااوراین ڈی ایس نہیں بلکہ پاکستانی سکیورٹی ادارے ہی ہیں27 اپریل 2017ء کو ایف سی کے زیرحراست اسکول ٹیچر بیت اﷲ، آصف انورعلی،ماجد مجید،صابرغلام حسین اورجاسم رحیم کوبھارتی راRAW نے نہیں بلکہ پاکستان آرمی نے جعلی مقابلہ میں قتل کیا۔07جولائی 2017ء کودشت مکران کے گاؤں کمبیل میں فوجی آپریشن کے دوران دوسگے بھائیوں سلیم بلوچ اورشکاری بلوچ اوران کے رشتہ دار سمیربلوچ کواین ڈی ایس نے نہیں بلکہ پاکستانی فوج نے قتل کیا۔مشکے،ڈیرہ بگٹی،نصیرآباد اور بولان سے سینکڑوں بلوچ خواتین وبچوں کو راRAW نہیں بلکہ پاکستانی آرمی ہی گرفتارکرکے اپنے کیمپوں میں قیدکرتارہاہے۔یقیناًبلوچ عوام، انسانی حقوق کی علاقائی اورعالمی تنظیمیں مقبوضہ بلوچستان میں فوجی آپریشنزمیں عام سویلین آبادیوں کوجبرکا نشانہ بنائے جانے،مسخ لاشیں پھینک دینے اورہزاروں بلوچ فرزندں کوجبری لاپتہ اورلاکھوں خاندانوں کونقل مکانی پرمجبورکرنے کے مرتکب پاکستانی فوج اوردیگر سکیورٹی اداروں کے گھناؤنے کردارسے بے خبر نہیں ہیں وہ مقبوضہ بلوچستان میں آزادی پسندجمہوری سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اورمیڈیا پرعائد ریاستی بندشوں سے بھی لاعلم نہیں ہیں۔ مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبراوردہشتگردی کے بارے میں یقیناً کوئی ابہام نہیں ہے تاہم یہ حقیقت ہمیں قومی تحریک آزادی کے حوالے سے ہماری قومی فرائض سے بری الذمہ نہیں کرتا ہے۔ آزادی پسندبلوچ تنظیموں کی بیرون ملک مقیم رہنماؤں اورکارکنوں کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ریاستی ظلم اوردہشتگردی کے خلاف علاقائی اورعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کو معلومات دیتی رہیں بلکہ اس ظلم وجبر کی روک تھام کیلئے انھیں عملی اقدامات اٹھانے پر بھی آمادہ کرنے کی مسلسل کوششیں کرتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ قابض ریاست کے جھوٹے پروپیگنڈے کابھی موثرجواب دیں ماناکہ ریاستی پروپیگنڈہ مشینری کے مقابلے میں بلوچ آزادی پسندتنظیموں کے پاس پروپیگنڈے کے ذرائع نہ ہونے کے برابرہیں مگر یہ حقیقت انھیں اس معاملے میں ان کی قومی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں کرتاہے ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ جس روزکٹھ پتلی صوبائی حکومت کایہ وفد برسلزمیں یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کیلئے گیاتھااسی روزبلوچ آزادی پسندوہاں ایک مظاہرہ کرتے اورمقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج ،خفیہ اداروں،ان کی تشکیل کردہ پرائیویٹ مسلح جتھوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایک تفصیلی دستاویزdossier یورپین یونین کے نمائندوں کے حوالہ کرتے تاکہ جھوٹی ریاستی پروپیگنڈے کابروقت اوربرمحل جواب مل جاتا۔
جہاں تک پروپیگنڈے کے زورپربلوچ قومی تحریکِ آزادی کوپرائی جنگproxy war باورکرانے کی ریاستی بیانیہ کاتعلق ہے تو یہ سراسر جھوٹ ،دروغ گوئی اوربدنیتی پرمبنی ہے۔ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی تاریخ خوداس کُھلی حقیقت کاگواہ ہے کہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کسی ملک یاخفیہ ادارے کاآلہ کاراورپروکسی جنگ نہیں ہے تقسیم ہندکے وقت جب بلوچ قیادت نے مسلم لیگی قائدین کے توسیع پسندانہ امنگوں اورعزائم کوبھانپ لیاتو قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی ایک وفدنے ہندوستان کادورہ کیاجہاں انہوں نے کانگریس کی قیادت سے ملاقات کر کے بلوچستان کی آزادریاست قلات کی آزادی کی تحفظ کیلئے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مگرکانگریسی قیادت نے ان کوکسی بھی قسم کی یقین دہانی کرانے سے انکارکردیاجب مارچ 1948ء میں پاکستان نے بلوچستان کی آزادریاست پرجبری قبضہ کیاتوشہزادہ عبدالکریم بلوچ کی قیادت میں بلوچ عوام نے اس جبری قبضہ کی مزاحمت شروع کردی شہزادہ اوراس کے رفقاء حمایت کی حصول کیلئے افغانستان گئے مگر افغانستان نے ان کی مددکرنے سے انکارکردیاکشمیرکامسئلہ تویواین اوکی جنرل اسمبلی میں زیربحث آیامگرافغانستان اور بھارت سمیت کسی ملک نے بلوچستان پرپاکستان کے جبری قبضہ کوچیلنج نہیں کیا۔1960،1950 اور1970 کی دہائیوں میں بھی بلوچ قوم نے اپنے ہی بل بوتے پرپاکستانی قبضہ کے خلاف آزادی کی جنگیں لڑی پاکستانی ریاستی پروپیگنڈہ کے برعکس روس،بھارت،افغانستان اوراسرائیل سمیت کسی بھی ملک نے یواین اویاکسی دوسری عالمی فورم پر بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے حق میں نہ کوئی آوازبلندکی ہے اورنہ کسی قسم کی فوجی،مالی، اخلاقی اورسفارتی مدددی ہے۔2000ء میں بلوچ تحریک آزادی کی احیاء بھی بلوچ قومی کوششوں کی مرحون منت ہے اس میں کسی بیرونی قوت کا کوئی کردارنظرنہیں آتاہے بلوچ گزشتہ سترہ سال سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یواین اوکی انسانی حقوق کے تنظیموں کی جانب سے بلوچ قوم کے خلاف ریاستی اداروں کی ظلم وجبرکے خلاف وقتاً فوقتاًآوازیں بلنداوررپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں مگرجنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل جیسے فورمز پربلوچ قومی آزادی کی حمایت میں کوئی قرار دادزیربحث نہیں آیاہے امریکہ،بھارت یاکسی اورملک نے اب تک کھل کربلوچ قومی تحریکِ آزادی کی فوجی،سیاسی،مالی،اخلاقی اورسفارتی مددنہیں کی ہے البتہ امریکی کانگریس کے چندارکان نے 2012ء میں آزادبلوچستان کی حمایت میں ایک قراردادکانگریس میں بحث کیلئے جمع کرادی ہے جبکہ 2016ء میں بھارتی یومِ آزادی کے موقع پر بھارتی وزیراعظم جناب نریندرمودی نے پہلی بارمقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی ریاستی دہشتگردی کی کھل کرمزمت کردی مگرانکی یہ حمایت بھی اب تلک کسی ٹھوس فوجی ،مالی اورسفارتی مددکی صورت میں سامنے نہ آسکا پاکستانی جھوٹی پروپیگنڈہ کے برعکس اگریواین او،یورپین یونین، نیٹوسمیت کوئی عالمی ادارہ، امریکہ ، بھارت سمیت کوئی عالمی یاعلاقائی قوت یاملک اگربلوچ قومی تحریک آزادی کی فوجی،مالی،اخلاقی اور سفارتی مددکرتاتومقبوضہ بلوچستان کی صورتحال قطعاًایسانہیں ہوتاجیسا کہ آج ہے اگرکوئی عالمی یاعلاقائی قوت یاملک بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی فوجی،مالی اور سفارتی مدداورسیاسی واخلاقی حمایت کرے تواس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ آزادی،جمہوریت، عالمی و علاقائی امن،ترقی وخوشحالی کیلئے ایساکرناان کابین الاقوامی فرض اوربلوچ قوم کاقومی وفطری حق ہے پاکستان ایک جانب کشمیراورافغانستان میں اپنی مداخلت اوردہشتگردی کی سرپرستی کے عمل سے عالمی توجہ ہٹانے اور دوری جانب بلوچ قومی تحریکِ آزادی کاایک گمراہ کن شبیہہ بنا کر پیش کرنے کیلئے بلوچستان میں بھارت اورافغانستان کی مداخلت کاجھوٹا پروپیگنڈہ کرتاہے بلوچ آزادی پسندقوتوں کوچاہیئے کہ وہ قابض ریاست اوراس کے مقامی آلہ کاروں کے اس جھوٹے پروپیگنڈہ کاجواب دینے کیلئے موثرحکمت عملی بنائیں مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی دہشتگردی کے شکاربلوچ عوام کوقابض ریاست اوراس کی بلوچ دشمن کردارکے بارے میں کچھ بتانے کی اتنی ضرورت بھی نہیں پڑے گاالبتہ قو م دوستی اورجمہوریت پسندی کانقاب پہنے نیشنل پارٹی ،جمہوریت پسندی اور اسلام دوستی کالبادہ اوڑھے دیگرجماعتوں کی فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ تعلق وتعاون کوبے نقاب کرنے کی ضرورت ہے بلوچ عوام کو اچھی طرح دکھاناہے کہ یہ جماعتیں قومی آزادی کی اس جدوجہدمیں بلوچ عوام کے ساتھ نہیں بلکہ قابض ریاست ،اس کی سفاک فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں یہ جماعتیں بلوچ عوام کے خلاف دشمن کا آلہ کار،معاون کاراورشریک جرم ہیں قوم دوستی،وطن دوستی،اسلام دوستی اورجمہوریت پسندی جیسے اعلیٰ اقدار کے ساتھ ان جماعتوں کاکوئی دورکاواسطہ بھی نہیں ہے البتہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاستی دہشتگردی اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کوعالمی سطح پرموثرطورپر بے نقاب کرنے کیلئے بلوچ آزادی پسندجماعتیں، بیرون ملک مقیم ان کے نمائندے ،سنگرپبلیکیشنزاورتوارجیسے اشاعتی ادارے ایک ایسارابطہ سسٹم بنائیں جس کے ذریعے مقبوضہ بلوچستان میں فوجی آپریشنز،سکیورٹی وخفیہ اداروں کے چھاپوں ،جبری گمشدگیوں،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ،فوج کے ہاتھوں گاؤں اورگھروں کو جلانے ،املاک کولوٹنے اور جعلی مقابلوں میں قتل کے تمام واقعات کوماہانہ ایک تفصیلی دستاویزکی شکل میں شائع اورپی ڈی ایف کرکے سوشل میڈیا،ای میل اوردیگر ذرائع سے عالمی اداروں اورذرائع ابلاغ کے دفاتر، اوربااثر شخصیات کو باقائدگی سے بھیج دیاجائے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий