مکران و بولان میں اسلحہ چھیننا، کاہان میں حوالگی کیوں؟ – برزکوہی
آگے و پیچھے، ترقی و بربادی، زوال و عروج، اوپر و نیچے، ناکامی و کامیابی، شکست اور فتح کے معنی و مفہوم تشریح اور وضاحت کا معیار اور ان کی پہچان و علامات کا پیمانہ کیا ہے؟ پرکھنے، جاننے، سمجھنے اور محسوس کرنے کا حتمی تجزیہ اور اندازہ کیا ہوتا ہے؟
تحاریک میں نشیب و فراز ایک قدم آگے اور ایک قدم پیچھے، وقتی پسپائی، دشمن کا وقتی حاوی ہونا جنگجووں کا سرنڈر، جنگی سازوسامان دشمن کے ہاتھوں لگ جانا حصہ ہوتا ہے اور تحاریک میں ایسا ہوتا رہتا ہے، ایک حد تک ایک ہی مقام اور سطح تک ہم بھی مانتے ہیں۔ مگر مسلسل اور تسلسل کے ساتھ ایک ہی ڈھنگ میں جاری و ساری ایسے اعمال بحثیت بلوچ جہدکار اور بحثیت لکھاری ہمارے لیئے انتہائی دلخراش تکلیف دہ اور افسوناک عمل ہوکر قومی المیہ ثابت ہورہے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے کوہلو اور کاہان انگریز قابض سے لیکر پنجابی قابض تک بلوچ مزاحمت کے حوالے سے مزاحتمی تحریک کا درخشان باب اور علامت تھے گوکہ پرامن سیاسی مزاحمت اور مزاحمتی ادب کے حوالے سے بلوچستان کا علاقہ مکران ایک علامت رہا ہے۔
موجود مزاحمتی تحریک جب شروع ہوا تو مکران سے تعلق رکھنے والے قلم کار اور صحافی جان محمد دشتی بھرے محفلوں میں ہمیشہ طنزیہ طور پر کہتا تھا کہ کوہلو اور کاہان کے لوگ لڑینگے مگر مکران کے لوگ صرف ڈھول پر چاپ و رقص اور ناچ کرتے رہینگے۔
واقعی وہی کوہلو و کاہان جس نے اس وقت اپنے سینے تراتانی اور بمبور میں شہید نواب اکبرخان بگٹی جیسے ریاست کے ہائی پروفائل ٹارگٹ کو پناہ دی، وہ کوہلو کاہان جہاں پورے علاقے کے عام عوام تحریک کے ساتھ ہمدردی اور حمایت اپنی جگہ کم از کم تیس کے قریب تعداد میں ہر کیمیپ الگ الگ 100 سے لیکر 80 تک کی تعداد میں مستقل گوریلا سرمچار ہر وقت مورچہ زن تھے اور وہی مکران جہاں شروع میں صرف ساہیجی، دڑامب اور تلار کے سنگلاخ چٹانوں میں استاد قمبر، ڈاکٹر اللہ نظر، ڈاکٹر خالد اور شہید سدومری اور دیگر چند لوگوں پر مشتمل صرف ایک ہی کیمپ تھا۔ آج اگر ہم موازنہ کریں، وہی کوہلو و کاہان جہاں کتنے کیمپ موجود ہیں؟ کتنی تعداد میں گوریلا سرمچار ہیں؟ اور وہ بھی کس حالت میں ہیں؟ باقی مستند زرائع کے علاوہ آج وہاں مزاحمت کی رفتار خود سب کچھ بتا رہا ہے، حالیہ پاکستانی الیکشن سڑکوں کی تعمیر و ترقی، بلوچ زیر ذمین قدرتی وسائل کے تلاش کاکام و سروے، سرنڈروں کا سلسلہ اور خاص کر جنگی سازوسامان کو دشمن کی رضاکارانہ طور پر حوالگی یعنی دشمن کو خود حوالہ کرنا، نہ کہ دشمن کے کامیاب آپریشن اور چھاپہ، جو صرف ریاستی دعویٰ اور پروپگنڈہ اپنی کامیابی کو دکھانا ہوتا ہے۔
دوسری طرف مکران میں مزاحمت آج ساہیجی سے نکل کر ہر طرف اور ہرجگہ مکران کے کونے کونے میں مزاحمتی تحریک کی شکل میں پھیل کر مزید وسعت اور شدت اختیار کرتا ہوا، دشمن پر مسلسل حملے اور ان سے ہتھیار چھیننے کے ایک جدت کا رواج بنتا جارہا ہے اور ساہیجی کے چٹانوں کے ساتھ درہ بولان بھی شانہ بشانہ ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم آج محدود سوچ کے مالک ہوکر سینہ تان کر خوشی اور فخر سے بغلیں بجانا شروع کریں، پھر ہم میں اور ان میں سوچ کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہوگا، ہمیں تکلیف ہونا چاہیئے اور احسا س ہونا چاہیئے اور سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنا چاہیئے کیونکہ کوہلو و کاہان اور مری قبیلہ ہماری مزاحتمی تحریک کا مضبوط محاظ اور مضبوط بازو تھا اپنے مضبوط بازو کے ٹوٹنے سے کوئی احمق اور بے وقوف ہی کو احساس اور تکلیف نہیں ہوگا۔
مگر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا مکران کے عوام مزاحمتی تحریک سے بدظن ہوگئے یا کوہلو و کاہان کے عوام؟ اگر مکران کے عوام کی بات کی جائے تو پھر مکران میں مزاحمتی تحریک کی شدت اور وسعت کس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے؟ پھر کوہلوو کاہان میں انگریز کے دور سے مزاحمت جاری تھی آج کیوں اس نہج پر پہنچ گیا؟ اگر کوہلو و کاہان میں ریاست کی جبرو بربریت، سازش، دھونس و دھمکی، لالچ و دہشت اور سرنڈر والی ڈرامہ بازیاں وغیرہ ہوئے، تو کیا مکران سے لیکر بولان اور دیگر علاقوں تک ریاست کے ان تمام حربوں کو بروئےکار نہیں لایا گیا؟
پھر بھی وہاں مزاحمت کیوں تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے؟ پھر جواب واضح ہے کہ مخصوص ایجنڈے کے تحت مزاحمتی جنگ کی گلے کو یوبی اے اور بی ایل اے کی آپسی جنگ کے ذریعے دبانا، تاکہ مزاحمت اور مزاحمتی سوچ کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بیخ کنی ہو، سڑکوں کی تعمیرات اور قدرتی وسائل کی تلاش اور ان کو نکالنے، لیجانے کا مقصد آج بھی واضح ہے اور آگے چل کر مزید واضح ہوگی۔ اور جنگی سازوسامان کو رضامندی سے حوالے کرنا تاکہ کچھ اور سورمائیں اٹھ کر رکاوٹ نہ بن جائیں۔ اور باقی خود ساختہ ہائی کمان والے ڈرامے، سازشیں، حربے، سوشل میڈیا میں الزام تراشیاں، کیچڑ اچھالنے اور منفی پروپگنڈے بھی اسی تسلسل اور ذنجیر سے منسلک کڑیاں ہیں۔
کیا مکران سمیت پورے بلوچستان کے دیگر علاقوں کے نسبت کوہستان مری میں شروع سے لیکر آج ہی کے دن تک کا سب سے بڑا اسلحے کا ذخیرہ موجود نہیں تھا؟ باقی جگہوں میں شروع سے لیکر آج تک اور اس وقت تک بھی جنگی سازوسان کوہستان مری کے نسبت آٹے میں نمک کی برابر ہے۔
مجھے یاد ہے 2007 میں جب کوئٹہ، خضدار، حب چوکی میں شہری جنگ نے شدت اختیار کیا، تو اس وقت دوستوں کے پاس وسائل کی کیا پوزیشن تھی اور مکران میں کیا تھی؟ آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کوہستان مری میں اتنے جنگی سازوسان کا ذخیرہ اس وقت موجود ہوتے ہوئے کیوں دوستوں کے حوالہ نہیں کیا گیا؟ باقی جگہوں کو چھوڑ کر خضدار اور کوئٹہ میں 2010 میں باقی سازوسان کی ختم ہونا یا شروع سے نہ ہونا اپنی جگہ جب وہاں کلاشن کوف کے تیر ختم ہوگئے تو دوستوں سے یہی جواب موصول ہوتا کہ انتظار کریں، فی الحال کچھ نہیں اور آج سینکڑوں صندوقیں تیراور باقی سازوسامان دشمن کے حوالے ہورہے ہیں کیوں؟
اگر جنگ اور کاروائی کی بنیاد پر جنگی سازوسان کا تقسیم ہونا اور تقسیم کا معیار تھا؟ تو اس وقت جنگ اور کاروائی زیادہ مقدار میں کہاں کہاں پر ہورہے تھے؟ وہ خود روذ روشن کی طرح عیاں ہیں، پوری دنیا کی نظروں میں پھر بھی اس وقت قومی سازو سامان کو غاروں میں چھپانے کی اصل وجوہات کیا تھے؟
اہم اور بنیادی سوال یہاں سے شروع ہوتا ہے؟ دوسروں کو اس اہل اور قابل بھروسہ نہیں سمجھنا؟ تو بھروسے کا معیار اور پیمانہ اس وقت کیا تھا؟ اس وقت وہ معیار کیوں نہیں بتایا گیا؟ پھر آج جن پھر بھروسہ کرکے سب کچھ ان کے حوالہ کیا گیا تھا ان کے بھروسے کا کیا ہوا؟ یہی تھا وہ معیار یعنی جب چاہے ہدایت اور احکامات کی روشنی میں سازوسامان کو رضامندی سے دشمن کے حوالے کرنا؟ پھر بلکل اس معیار پر پورا اترنا مشکل تھا یا پھر سیدھی سادھی سی بات ہے، اس میں توڑمروڑ کی کوئی ضرورت نہیں آج میں بلاجھجک کہتا ہوں کہ شروع میں ارادہ و نیت اور سوچ قومی آزادی، قومی بقاء اور تشخص کی جنگ نہیں بلکہ جنگ ذرگری کا تھا، بطور پریشر گروپ اور جنگی منافع خوری، گوکہ یہ اور بات کہ بعد میں اور آج قومی جنگ ایک قومی و نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کر چکا۔ اگر اس وقت قومی آزادی اور قوم کا قومی جنگ ہوتا اور قومی لیڈر موجود ہوتے، تو کم از کم سب کچھ لانگ ٹرم پالیسی کے تحت ہوکر آج یہ صورتحال دیکھنے کو نہیں ملتا۔
بس صرف خارجی مفادات کی حصول، دشمن کو بلیک ملینگ، اپنی سیاسی و سماجی ساکھ کی بڑھوتری اور جنگی منافع خوری پھر اپنے ذات سے لیکر خاندانوں کی ذاتی زندگیوں کو جنگل میں منگل کرنے کا واضح سوچ اور ارادوں کی عکاسی کرتا ہے۔
کم از کم مجھے آج تک تاریخ میں ایسی سطحی قسم کے محدود اور مخصوص سوچ اور پلان کے تحت کوئی لیڈر اور تحریک نظر نہیں آتا ہے، اگر میں اپنی آنکھوں، کانوں اور دماغ سے مصلحت پسندی کی سیاہ پٹیوں کو اتار کر تاریخ کا مطالعہ کروں۔ پھر میں کونسا بد بخت ہوں، کس سوچ و اپروچ فکر اور نظریئے کے تحت اندھےپن اور پاگل پن کا شکار ہوکر مبالغہ آرائیوں قیاس آرائیوں، خوش کن اور خوش گپیوں کی صحرا میں بٹھک کر کسی کو امام، پیغمبر، کرشماتی، کراماتی، وژنری، قومی لیڈر اور قومی ہیرو سمجھ کر خود کو دھوکا دوں اور باقی نوجوانوں کو دھوکا دوں اور خود بھی کسی کے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے بطور ایندھن استعمال ہوجاوں اور دوسروں کو بھی بطور ایندھن استعمال کروں۔ شاید ایک وقت تک ایسا ہوا اور یہ قومی گناہ شاید تاریخ میں معاف نہیں ہو بلکہ تاریخ سے معافی کے لیئے بڑی قیمت چکانا پڑے، اس کے باوجود بھی خود کو خود استعمال کروانا، باقی نوجوانوں کو استعمال کرنا، پورے ایک نسل اور بے شمار خاندانوں کو درپدر کرنا،اب ہوش سنھبالنا، حقیقت کو جاننا اس کے باوجود مورخوں کی بے رحم قلم کا ادراک کرکے بڑی قیمت ادا کرنے کے باوجود شاید مورخ اور ضمیر سے معافی کی گنجائش ہی نہ ہو۔ اگر قبر نصیب ہوا بھی قبر پر پھولوں کی ہار نہیں جوتوں کی بھرمار ہوگی، اس کے باوجود آج اپنے شعور و علم اور ادراک کے تناظر میں اپنے قلم کی نوک سے تمام بلوچ نوجوانوں کے کانوں کو بار بار آواز دوں گا کہ خدارا آپ لوگ ہمارے تجربات اور اندھیرے میں اندھادھند دوڑ دھوپ والی، دور ماضی سے سبق و عبرت حاصل کرکے مزید استعمال ہونے سے بچیں بلکہ بلوچ قومی آزادی کی قومی، شعوری اور نظریاتی جنگ کا حصہ ہوکر اپنا تاریخی کردار نبھائیں۔
آخر میں میں بی ایل اے کے مخلص و نظریاتی دوستوں سمیت یوبی اے کے دوستوں سے عرض کرتا ہوں، وہ جلد از جلد مشترکہ طور پر مزاحمت کے علامت کوہستان مری کے محاذ کی خاطر ایک مضبوط منصوبہ و حکمت عملی مرتب کرکے عملی طور پر سرگرم ہوکر سڑکوں کی مزید تعمیر کی روک تھام، بلوچ قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور جنگی سازوسان کی حفاظت کے لیئے کوشش کریں، ورنہ تاریخ کے صفحوں میں سب کے سب تماشائی شمار ہونگے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий