Powered By Blogger

суббота, 16 февраля 2019 г.

 یہ موازنہ یا تقابلی جائزہ آخر کیوں؟ ... ڈاکٹر جلال بلوچ


کبھی ویتنامیوں کی مثال دے کر بلوچ قومی تحریک کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ، کبھی کیوباء، کبھی ساؤتھ افریقہ، کبھی الجزائر، کبھی سویت یونین ،کبھی چائنا، کبھی تامل اور کردوں اور آج کل پشتون تحفظ موونٹ کو بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک مثال بنا کے پیش کیا جارہا ہے۔

یہ مباحثے ہمیں عام لکھاریوں یا عام لوگوں کی جانب سے دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتے بلکہ ایسے رویے اکثر قومی آزادی سے وابستہ لکھاریوں یا بعض اوقات تحریک میں ذمہ داریاں سنبھالیں لوگوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

کیا اس قسم کے خیالات، سوچ یا منطق سے مبرا رویے سیاسی نابلدگی یا عمل سے راہ فرار تو نہیں ؟ الغرض کیفیات جو بھی ہوں وہ الگ بحث ہے۔ اس مضمون میں دیکھتے ہیں، کسی تحریک کا دوسرے تحریک یا تحریکوں سے موازنہ کرنے کے لیے اصول کیا ہیں خصوصاً بلوچ قومی تحریک کا پشتون قومی تحریک سے موازنہ کے زاویے کو نگاہ میں رکھ کر اور مختصراً سیاسی نظام کے اس اہم موضوع (تقابلی سیاست)پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا۔

کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے وابسطہ تحریک کا موازنہ کسی دوسرے تحریک سے کرنے کے لیے پہلے پہل خود سے اس ضمن میں چندضروری سوالات پوچھے ، جو کسی تحریک کا دوسرے تحریک سے موازنہ کرنے کے بنیادی اصول ہیں کہ

۱۔وابسطہ تحریک اور جس سے یا جن سے موازنہ کیا جارہا ہے ان کی سماجی نوعیت اور دشمن کی حالت؟۔۲۔تاریخی حیثیت،(نیزاس مد میں ماضی کے تجربات بھی اہمیت کے حامل ہیں)۔۳۔تحریکوں کی نوعیت، حالیہ اور سابقہ حیثیت، دشمن کی سابقہ اور موجودہ حیثیت۔۴۔ دنیا یا آس پاس کے حالات(موجودہ معروضی اور موضوعی حالات) وغیرہ۔ موازانہ کرتے وقت ان عوامل پہ وسیع نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے نہیں تو انسان اپنی حالت اور دوسروں کی کامیابیوں یا ان کے حالات دیکھ کر مایوسی کی بھنورمیں پھنس سکتا ہے۔

آتے موضوع کی جانب کہ بلوچ تحریک کا موازانہ کیوں دیگر تحریکوں سے کیا جاتا ہے؟ کیسے اس سوال کا جواب تواکثر اوقات ہمارے دانشور اور قلم کار بھی دینے سے قاصر رہتے ہیں۔اس کی آسان سی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں ۔جب وہ ویتنام کی مثال دیتے ہیں تو یہ کہنے سے ہی قاصر ہیں کہ ویتنام کے کس دور کا ہم بلوچ تحریک سے موازنہ کررہے ہیں؟ یا کیوبا کی مثال دیتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ کیوباء میں فوکو تھیوری کا نظریہ ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ،جب کہ بلوچ قومی تحریک کو دیکھتے ہوئے جہاں مسلح جدوجہد کے ساتھ ہمیں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد، بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچستان ریپبلکن پارٹی یعنی جماعتی اوور تنظیمی صورتحال وغیرہ کے طرز سیاست کا نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جو کیوبن انقلاب کے طریقہ کار سے متصادم ہے۔ایک اور مثال لے لیتے ہیں جو بلوچ قومی تحریک اور اس کا موازنہ بھی کیا جاتا ہے، وہ ہے سویت انقلاب۔اب بلا سویت یونین یا روس کی بالشویک انقلاب جہاں نظام اور ایک نئے معاشی نظریے کو لاگو کرنے کی جدوجہد ہورہی تھی اس کا بلوچ جہد آزادی سے کیا رشتہ اوور کیسا موازنہ۔اور نہ ہی اس ضمن میں سویت اور بلوچ سماج، جغرافیہ اور اس دور کے حالات اور ماضی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

ان تقابلی جائزوں میں کبھی بھی ہمارے قلم کاروں ، سیاسی دانشوروں نے جغرافیہ، سماج(تحریک سے وابستہ افراد اور دشمن)حالیہ اور سابقہ حیثیت، جدوجہد کی طوالت، سابقہ غلطیوں کا ازالہ، تحریک کی ساخت وغیرہ کی جانب توجہ دینے کی جسارت ہی نہیں کی ۔ اکثر کسی ایک واقعہ کو لے کر یا کسی ایک ہستی سے متاثر ہوکر مفروضات کی رو میں بہنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن ویتنامی تحریک میں فرانسیسی عہد کو وہ بھول جاتے ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد ویتنامی فرانسیسی عسکری اداروں میں اپنے ہی لوگوں کا لہو بہارہے تھے اور پچاس ہزار سے زائد ویتنامیوں کو فرانس میں تربیت دی گئی کہ وہ جاکے ویتنام میں فرانسیسی ثقافت کو فروغ دیں یا یوں کہہ سکتے ہیں نوآبادیاتی نظام کو طول دیا جائے۔اور چائنا کی مثال دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ماؤزے تنگ نے تضادات پہ قلم اٹھانے کی جسارت کیوں کی؟ یا منشویک پارٹی کے قیام کو قصداً زیر بحث ہی نہیں لایا جاتا۔ ایسے مباحثے، تحریر و تقاریر وغیرہ انسان کی مایوسیانہ کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ البتہ ایسا بھی نہیں کہ ان تحریکوں کو زیر بحث نہ لایا جائے لیکن شرط پھر وہی ہے کہ جب تک ہمیں ان پہ مکمل عبور وہ بھی تجزیاتی زاویے سے نہ ہو تو ان پہ بحث کرنا ، بات کرنا اور کچھ تحریر کرنا فائدے کی بجائے نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر ہم بلوچ سماج کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنی قومی تاریخ، جدوجہد کی تاریخ اور آج ہم کس سطح پہ پہنچ چکے ہیں دیکھنے چاہیے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری جدوجہد سے دیگر اقوام پہ کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ہمارے ادارے کس حد تک مضبوط ہیں اور ان میں موجود کارکنان کی ذہنی سطح کیا ہے؟ اداروں کا قیام اور دورانیہ کتنا طویل ہے اور اگر کمزوریاں موجود ہیں تو اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے ہیں ، مثلاً اگر ادارے حقیقتاً کمزور یا نا قابل اصلاح ہیں تو ان کی وجہ سے تقسیم کے مرحلے سے ہم کتنی بار گزرچکے ہیں اور اس تقسیم سے کام میں جدت آیا ہے یا ہم زوال کی جانب محو سفر ہیں؟۔ دوسری بات سماج کی سیاسی سوچ کی سطح کیا ہے؟سماج کی بات اس لیے کہ ان باتوں کا براہ راست اثر سماج پہ پڑتا ہے جو تحریک کا محور ہے، بسا اوقات یہاں تحریک کی جو ساخت ہوگی سماج بھی اسی ڈھگ پہ چل سکتی ہے۔

جب مباحثوں، تحریر و تقاریر میں منطق پسِ آئینہ چلا جائے تو ان کی وجہ سے اکثر ہوتا یہ ہے کہ جنگ کی سختیوں سے تنگ آنے والے غیر منطقی سوالات ذہن میں لیے مزید مایوسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ، جس کے اثرات عوام کے ساتھ عام کاکنوں پہ بھی پڑتے ہیں، جو یقیناًکسی بھی تحریک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بحث ، تقابلی جائزہ یا موازنہ الغرض ماضی میں جو ہوا ،سو ہوا، جہاں دنیا کے دیگر آزاد ریاستوں یا کامیاب تحریکوں کی ہمیں جو مثالیں دی جاتی تھی یا اب بھی دی جاتی ہے ۔پر آج کل سوشل میڈیا پہ چلنے والا ایک اورمباحثہ جس کے اثرات ہم جہدکاروں میں شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں ۔وہ ہے پشتون تحفظ موومنٹ کا بلوچ قومی تحریک سے موازنہ۔ان مباحثوں میں دلیل، منطق اور سیاسی اصولوں یا طریقہ کار پردہ سکرین سے غائب ہیں۔ جن سے ایسا لگتا ہے کہ یہ مباحثے نہیں بس دل کا غبار ہے جو نکالاجارہا ہے یاتحریک کی سختیوں سے دل برداشتہ ہوکر راہ فرار اختیار کیا جارہا ہے یا کسی ایک فرد سے متاثر ہوکر یا چند ایک موقعوں پہ عوام کا جمِ غفیر دیکھ کر اثر لیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔اس حوالے سے نہ ہمارے یہ تجزیہ نگار نظریہ عدم تشدد کی وجہ سے پشتونوں کا ماضی دیکھتے ہیں جہاں خان غفار خان نے کانگریس سے متاثر ہوکر پشتون قوم کی فطرت کے خلاف انہیں نظریہ عدم تشدد کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کی جس کی سزا آج تک پشتون غلامی کی صورت میں بگھت رہی ہے۔حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پشتون قوم فطرتاً مزاحمت پسند ہے اور وہ کسی غیر کو اپنی سرزمین پہ برداشت نہیں کرسکتے۔جیسے برطانیہ جو فقط انتالیس(۳۹) سال تک افغانستان پہ حکمرانی کرسکا اور آخر کار اسے پشتون مزاحمت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا، دور جانے کی ضرورت نہیں سویت یونین کی مثال سب کے سامنے ہے اور آج کل امریکہ کی پسپائی کے چرچے زبان زد عام ہے۔اب بلا ایک ایسی قوم جورضاکارانہ طور پر اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے آخری حد تک جاسکتا ہے اسے نظریہ عدم تشدد کے فلسفے سے مسلح کرنے کا منطق کیا؟ لیکن بلوچوں نے قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے ہوتے ہوئے بھی مزاحمت شروع کی حالانکہ اس وقت قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ بھی گاندھی جی سے متاثر تھے، لیکن بلوچوں نے پارٹی کی پروا کیے بغیر فطری اصولوں کی پیروی کی جو آج تک جاری و ساری ہے۔ایک اور اہم بات جو نظر اور سوچ سے غائب ہے وہ ہے تحریک کی ساخت اور مقاصد۔یہاں بلوچ واضح موقف لیے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ ریاستی نظام میں تبدیلی کی بات۔اب بلا موازنہ کیسے اور کیونکر؟

بلوچ قومی تحریک اور اس خطے میں چلنے والی دیگر تحاریک یا اقوام کا اس ضمن میں پس منظر یا اس خطے میں بلوچ قوم کی ذہنی سطح کیا ہے؟ اس حوالے سے کوئی دس سال قبل کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے ایک پشتون دوست کے ساتھ پیش آیا۔ میرے اس رفیق کا کہنا ہے کہ جب میں کسی تربیتی پروگرام کے سلسلے میں کراچی گیا ہوا تھا تو وہاں کسی سندھی قوم پرست سے قوم، قومیت اور قومی جدوجہد کے حوالے سے بات چیت ہوئی تو اس دوست کا کہنا تھا کہ سندھی ساتھی نے بلوچ قوم پرستی پہ تنقید کیا اور اس کے مقابلے میں سندھی قوم پرستی کو مضبوط خطوط پہ ظاہر کرنے کی کوشش کی اور یہاں تک کہ پاکستان سے چھٹکارے کے لیے انہوں نے سندھیوں کی جدوجہد کو بلوچ تحریک پہ فوقیت دی اور بلوچ قوم کو سیاسی حوالے سے پست اور حقیر ظاہر کرنے کو کوشش کی۔تو پشتون دوست کا کہنا تھا کہ میں نے فقط اتنا کہا کہ ’’بلوچوں نے تو روز اول سے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی جبکہ سندھیوں کو ابھی ہوش آرہا ہے اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ سیاسی پختگی میں سندھی بلوچوں سے ساٹھ (۶۰)سے پیچھے ہیں۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس پشتون دوست کی اس بات نے ساری حقیقت کوایک ہی جملے میں سمیٹ دیا۔کہ اس خطے میں موجود دیگر اقوام کا بلوچ قوم سے سیاسی سوچ اور جدوجہد کے حوالے سے کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

اس تاریخی حقیقت سے کوئی ذی شعور جو سیاست کی اونچ نیچ سے واقف ہے انکار نہیں کرسکتا کہ اگر دیگر اقوام اس خطے میں اپنی آزادی یا حقوق کی بات کرچکے ہیں، کررہے ہیں یا کریں گے تو ان پہ براہ راست بلوچ تحریک کے اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں ، ہورہے ہیں اور ہوتے رہینگے۔کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف پہلی جدوجہد بلوچوں نے شروع کی جو ہنوز جاری ہے ۔ہاں ایسا بھی نہیں کہ تحریک میں کمزوریاں نہیں ہے یا ماضی میں غلطیاں سرزد نہیں ہوئی۔ لیکن موجودہ تحریک کو دیکھتے ہوئے جو گزشتہ دو دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس میں ہزاروں بلوچ فرزند شہید ہوچکے ہیں اور نصف لاکھ کے قریب بلوچ ریاستی عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں لیکن پھر بھی تحریک کی روانی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا بلکہ موجودہ تحریک میں پہلی دہائی کی نسبت دوسری دہائی میں شدت دیکھنے کو ملتی ہے حالانکہ اس دوران اختلافات کی ایک لہر بھی اٹھی جسے دیکھ کر بعض لکھاری، دانشور اور مدبرین اسے تحریک کا زوال تصور کررہے تھے لیکن آج ان اختلافات کی وہ صورت برقرار نہیں یا جنہوں نے اس دور میں رجعت پرستانہ سوچ کی ترویج کی ، اس سے انہیں نقصان اٹھانا پڑاجبکہ مجموعی طور پر تحریک میں جدت کی لہر دوڑنے لگی جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے اہم اور بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

جبکہ بلوچ قومی تحریک کے برعکس پشتون تحفظ موومنٹ جس کے بارے میں ابھی تک یہ کہا جاتا ہے کہ یہ محض ریاست میں نظام کی تبدیلی اورچند ایک حقوق کی جدوجہد کررہی ہے، اس سے لگتا کچھ ایسا ہے کہ یہ ماضی کی ان غلطیوں کو دہرارہی ہے جو خان باچا خان سے سرزد ہوئی۔ جبکہ بلوچ قومی تحریک واضح موقف کے ساتھ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے جہاں وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود بھی آزادی کی سوچ سے کبھی غافل نہیں رہے۔اور یہی سوچ ہے، جس کے اثرات سماج پہ پڑتے ہیں جو کسی بھی تحریک کا محور ہے ۔جس کا نظارہ ہمیں آج پورے بلوچستان میں عملی صورت میں نظر آرہاہے۔جبکہ پشتونوں میں آج تک پاکستان سے آزادی کی کوئی لہر دیکھنے کو نہیں ملتی ، تحریک کا ذکرتو دور کی بات ہے۔ تو بلوچ قومی تحریک کا پشتون تحفظ موومنٹ سے موازنہ یا تقابلی جائزہ کیسے اور کیونکر۔؟حتیٰ کہ دوسرے لوازمات اور جزئیات جو کسی تحریک کے لیے لازم ہوتے ہیں پہ بات ہی نہیں کرتے ، جن میں جغرافیہ، ماضی، جماعت یا تحریک کی ساخت، دارانیہ ، وقت وحالات ، سختیاں، قربانیاں اور افلاس اور اس میں ثابت قدمی وغیرہ۔جن سے ابھی تک پشتون قومی آزادی یا قومی سوچ کی مناسبت سے گزرے بھی نہیں۔ ہاں البتہ یہ ممکنات میں سے ہے کہ آنے والے دنوں میں اس خطے میں پشتونوں کے ساتھ ساتھ دیگر محکوم اقوام بھی اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد شروع کریں پریہاں یہ بات یا د رکھنے کی ہے جب بھی اس خطے میں کوئی تحریک ابھرے گی وہ بلووچ قومی تحریک سے ہی متاثر ہوگی کیونکہ اس خطے میں جدوجہد کی ماں بلوچ قومی تحریک ہی کہلاتی ہے اور کہلائیگی۔

سماجی اور سیاسی نشوونماء کے لیے میں ہمیں بلوچ قومی تحریک کا دیگر تحریکوں یا کسی بھی سیاسی عمل کا موازنہ کرنے کے لیے سائنسی نقطہ نگا ہ رکھنا چاہیے جو سیاسی نظام کا حصہ بھی ہے ۔اگر ہم تقابلی سیاست کو پسِ پشت ڈال کر رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے ان کارکنوں میں ابہامی کیفیت پیدا ہوگی جو ابھی تربیت کے مرحلے سے گزررہے ہیں یا جنہوں نے ابھی تربیت حاصل کرنی ہے۔

جب تقابلی سیاست کی بات ہوتی ہے تو شعور میں یہ الفاظ گردش کرتے ہیں کہ تقابلی سیاست کسی بھی سیاسی تنظیم کی نشوونماء میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور سیاسی کارواں کو کامیابی سے منزل مقصود کی جانب لیجانے کا اہم ذریعہ ہے ۔جس سے حالات کو مدِ نظر رکھ کر سمتوں کا درست تعین کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ اہم طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سیاست کے اصولوں اور عمل کا تعین کیا جاتا ہے ۔ اس طریقہ کار کے اپنانے سے مختلف سیاسی مسائل، وابستہ تحریک کا دیگر تحریکوں سے موازنہ کرنے کا طریقہ کار کاتجزیہ کرکے ان کی نوعیت معلوم کی جاتی ہے جس سے مختلف سیاسی کیفیات اور معاملات اور ہر مسئلے پر اثر انداز ہونے والے حقیقی عوامل کی تہہ تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے۔

تقابلی سیاست کا مطالعہ سیاسی عمل میں ایک منظم طریقہ کار بھی ہے تحقیق کی سی صورت بھی اختیارر کرتی ہے۔منظم طریقہ کار اس لیے کہ یہ سیاسی عمل میں تعلقات کی راہ ہموار کرتی ہے جو وہاں کی سیاسی عمل میں پیدا ہوتی ہیں۔ تحقیق اس لیے کہ یہ سیاسی نظام کا بظاہر مطالعہ کرنے کے علاوہ اندرون خانہ تحقیق پر بھی زور دیتا ہے۔جس سے سیاسی نظام اور اس کے اداروں ، سیاسی پارٹیوں کے رویوں اور طرزِ عمل جس سے سیاسی پارٹیاں پروان چڑھتی ہیں کاپتہ چلتا ہے۔

لہٰذا بلوچ آزادی پسند جماعتوں اور تنظیموں کو اس مد میں نہ صرف پالیسی سازی پہ زور دینا چاہیے بلکہ ان پالیسیوں کا نفاذ بھی وقت کی ضرورت ہے۔پالیسیوں کے نفاذ کی بات اس لیے ہورہا ہے کیونکہ سیاسی نظام کے فرائض میں ایک اہم فریضہ پالیسی سازی میں کیے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اس کے لیے سیاسی نظام میں وسیع مشینری موجود ہوتی ہے۔ جس میں مختلف شعبے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ جن کے فرائض میں منظور شدہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہناناہوتا ہے اور سیاسی عمل میں وہی نظام زیادہ کامیاب ہوتا ہے جو پالیسی کے نفاذ میں موثر حکمت علمی اپنائے۔ کیونکہ اس سے کارکنان کی بہتر نشوونماء ہوتی ہے جس سے وہ رائے قائم کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کسی عمل کا تجزیہ کرنا ہوتو اس کے لیے وہ تحقیق یا مکمل سیاسی اپروچ کے ساتھ میدان عمل کا رخ کرتے ہیں۔


среда, 13 февраля 2019 г.

نا متقابل پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ موومنٹ کا تقابل – برزکوہی

حقیقت یا زمینی حقائق کو مسخ کرکے یا پھر نظر انداز کرکے فوری طور پر متاثر ہونا یا حتمی رائے قائم کرنا یا اس سے بڑھ کر پھر حتمی فیصلہ کرنا میرے نذدیک بدترین جہالت و لاشعوری ہی ہوگا۔ کم از کم یہ عمل، علم و شعور اور ادراک کی علامت نہیں ہوتا۔
تشدد و عدم تشدد، بد امن و پرامن، مسلح و غیر مسلح طرز و تحریک کی اصطلاحات و تعریف کو شروع سے لیکر آخر تک گڈمڈ کرکے باقی تمام حقائق کو ملیامیٹ یا نظر انداز کرکے حتمی رائے اور فیصلہ کرنا انتہائی افسوناک عمل ہے اور ایسے ذہنوں پر ماتم کرنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی عمل اور الفاظ نہیں ہیں۔
پشتونوں کی پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون کی شکل میں پرامن و عدم تشدد کی تحریک شروع کرنا، ایک سال میں کامیاب قرار پاتا ہے اور بلوچ قوم کے ماضی بعید کے تحریکوں کو چھوڑیں، موجودہ تحریک 18 سال سے مسلح جہدوجہد کی راہ اپنا کر یعنی تشدد کا راہ اپنا کر چل رہا ہے، ان کا تحریک ناکام ہوگیا کیا؟ یہ لغو قسم کی دلیل، منطق، آراء اور فیصلہ انتہائی مضحکہ خیز، بچگانہ، سطحی اور جہالت کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟ کیا ایسے لغو باتوں اور آراء پر جب مورخ لکھے گا تو وہ بھی سرپکڑ کر ششدر و حیران نہیں ہوگا اور ماتم کرتے ہوئے قلم کو غصے سے جنبش میں نہیں لائے گا؟
میں اس تلخ حقیقت کا کل بھی اعتراف کرتا تھا، آج بھی برملا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ بھی اعتراف کرتا رہوں گا کہ بلوچوں میں جذبہ، احساس، قربانی، محنت و مشقت کے ساتھ خلوص کی موجودگی اپنی جگہ مگر قیادت سے لیکر جہد کاروں تک میں وہ علم و شعور، صلاحیت، بصیرت، وسیع سوچ و اپروچ اور ادراک پیدا ہو، جس کی اشد ضرورت ہے، اس کی بہت کمی ہے یعنی نالائقی و کم عقلی اور خاص کر مستقبل کے ادراک اور پیش بینی کے فقدان کے واضح علامات نظر آتے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک سے مجھے ذاتی حوالے سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں اس سے مجموعی طور پر پشتوں قوم کو فائدہ ہو یا نہیں ہو، وہ قبل از وقت ہے البتہ پشتونوں میں پشتون قوم پرستی کے رجحانات دوبارہ زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے خلاف ایک نفرت پیدا ہوگئی ہے اور یہ قومی پرستی کا جذبہ، رجحان اور ریاست کے خلاف نفرت کل کو باقاعدہ قومی آزادی کی تحریک و غلامی سے نجات دہندہ ثابت ہوگی یا نہیں وہ بھی ابھی تک قبل از وقت ہے۔
مگر میں کم از کم ایک بے وقوف اور احمق بن کر کبھی بھی پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون کی نومولود تحریک سے مثاثر ہوکر اسکا بلوچ قومی آزادی کی جنگ سے موازنہ نہیں کرسکتا۔ ہاں! اگر مجھے کوئی زہریلا سانپ سونگھ لے، میں پاگل ہوکر یہ ضرور کہہ دونگا کہ بلوچ تحریک ناکام اور پشتون موومنٹ کامیاب ہوگیا ہے، لیکن ہوش و حواس میں ہرگز میرے لیئے ایسا ممکن نہیں وہ کیوں؟
سب سے پہلے کامیابی اور ناکامی کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اور اس کی ناپ و تول کا پیمانہ کیا ہے؟ اور اس کا موازنہ کرنا، دیکھنا اور سمجھنے کا وہ نقطہ نظر اور زاویہ نظر کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟
کیا یہ جہالت، لاعلمی، لاشعوری، گمراہ کن، حیران کن اور مضحکہ خیر نہیں ہے کہ ایک سال سے پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان جیسے غیر فطری، بدمعاش ریاست کے فریم ورک میں رہ کر اپنے آپ کو مکمل پاکستان کے قانون کا پابند و وفادار ثابت کرنے اور صرف شہری اور ریاستی حقوق کے حصول کی خاطر پاکستان کی آئین و قانون کی بالادستی و بحالی کے خاطر پرسکون ماحول میں چند مظاہرے، چند احتجاجی جلسے و جلوس، دھرنے، انتخابی مہم اور پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر تحریک چلانے کے سوا اور کچھ نہیں یعنی قومی آزادی یا غلامی سے چھٹکارے کا نام و نشان نہیں، پھر اس تحریک کو کامیاب قرار دینا اور بلوچوں کی اس تحریک یا اس جنگ کو ناکام قرار دینا مضحکہ خیز حد تک لاعلمی نہیں تو پھر کیا ہے؟
آپ ماضی کو فی الحال ایک طرف رکھ دیں، بلوچ قوم پورے 18 سال سے اپنے واضح موقف، قومی آزادی و بلوچ ریاست کی بحالی اور پاکستان سے مکمل چھٹکارے کے حصول کی خاطر لڑرہے ہیں، ساتھ ساتھ چین جیسے سامراجی طاقت سے لڑرہے ہیں، اس وقت تک ہزاروں بلوچ شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں بلوچ بدنام زمانہ قلعی کیمپ جیسے ٹارچر سیلوں میں 18 سال سے اذیت سہہ رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اپنے علاقوں سے دربدر مہاجرین کی زندگی گذار رہے ہیں، ایک ہی خاندان سے درجنوں بلوچ فرزند شہید اور لاپتہ ہیں، ایک گھر سے چار یا پانچ بھائی شہید ہوچکے ہیں، آج بھی دشمن کے زیرعتاب کاہان سے لیکر مکران تک بلوچ نوجوان انتہائی کٹھن حالات میں کم وسائلی کے ساتھ بھوک و افلاس، سردی اور گرمی میں پہاڑوں پر مورچہ زن ہوکر دشمن کے خلاف لڑ رہےہیں، شہید ہورے ہیں۔ پاکستان اور چین کی طاقت اور بربریت کے باوجود بلوچ تحریک ناختم ہونے والے اپنے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور آج بھی شہید درویش، شہید ریحان، شہید ازل جان، بلال جان، شہید رئیس اور شہید فرید جیسے نوجوان بخوشی شعوری طور پر اپنی جان قربان کررہے ہیں اور ان کی مائیں اور بہنیں انہیں خوشی سے رخصت کرکے روانہ کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کوئی آکر یہ کہہ دے کہ بلوچ تحریک ناکام اور پشتون تحفظ موومنٹ کامیاب ہوگیا ہے، پھر یہ سیاسی ناپختگی، عاقبت نا اندیشی، سطحیت اور جذباتیت کی حدِ طولیٰ نہیں تو پھر کیا ہے۔ کیا پشتون تحفظ موومنٹ یا منظور پشتون ایسے دور یا مراحل سے ابھی تک گذرے ہیں، جن کا بلوچ تحریک سامنا کرچکا ہے؟ یا پھر ان تمام حالات و واقعات کو سہہ کر پھر بھی ان کی تحریک اسی طرح جاری و ساری ہے؟ کیا پشتون تحفظ موومنٹ براہے راست دوٹوک الفاظ میں پاکستان اور چین سے چھٹکارہ کی بات کررہا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں پھر پشتون تحفظ موومنٹ کا کیسے اور کس طرح بلکہ کس بنیاد پر بلوچ قومی تحریک آزادی سے مواذانہ کرکے اسے کامیاب اور بلوچ قومی تحریک کو ناکام قرار دیا جارہا ہے؟ کیا یہ خود سیاسی بے وقوفی اور احمقی کی آخری درجہ نہیں ہے؟
میں تو کہتا ہوں آج اگر پشتون لیڈر باچاخان سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈران عدم تشدد کے فلسفے کو پیش نہیں کرتے اور پاکستانی طرز سیاست کی راہ نہیں اپناتے بلکہ پاکستان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خاطر عدم تشدد کے ساتھ ساتھ تشدد کا راستہ اختیار کرتے، تو آج خیبر پختون خواہ کی حالت یا پورے پشتون قوم کی حالت اس حد تک مذہبی شدت پسندی اور طالبائزیشن کا شکار نہیں ہوتا۔ آج عوامی نیشنل پارٹی کا یہ برا حال نہیں ہوتا بلکہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں اپنے سینکڑوں لیڈر اور کارکن نہیں گنوا دیتا یعنی کوئی بھی قوم اور معاشرہ جب غلام و پسماندہ ہو، وہاں جس بنیاد پر جس نظریئے کے تحت کوئی جنگ شروع ہو، وہاں کے لوگ اسی جنگ سے متاثر ہوکر اس کی صرف حمایت نہیں کرتے بلکہ اس کا بھرپور حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ جنگ مذہبی ہو قبائلی ہو یا پھر قومی ہو۔
پشتون لیڈرشپ بحثیت غلام قوم عدم تشدد کا فلسفہ پیش کرکے پاکستانی طرز سیاست شروع کرکے خود مذہبی جنگ کو موقع فراہم کررہا ہے، اگر قومیت کی بنیاد پر پشتون قوم اس وقت لڑتے تو پشتون قوم میں آج اس حد تک مذہبی شدت پسندی کی رجحانات نہیں ہوتے گوکہ آئی آیس آئی سمیت دیگر قوتوں نے وہاں مذہبی جنگ شروع کرلی، پھر بھی پشتونوں کی شمولیت و حمایت کی بنیادی وجہ وہاں قومی جنگ کا نہ ہونا تھا، جس کی واضح مثال بلوچ قوم کا ہے، آئی ایس آئی سمیت دیگر قوت بلوچ قوم اور بلوچستان میں بھی مذہبی جنگ و مذہبی شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، پھر بھی اس حد تک بلوچستان اور بلوچ قوم مذہبی شدت پسندی سے متاثر نہیں ہوئے، اس کا تمام تر سہرا بلوچ مزاحمت اور تشدد کی تحریک کے سر سجتا ہے، وگرنہ آج پورا بلوچ قوم اور بلوچستان کا ہر علاقہ طالبان کا گڑھ و مرکز ہوتا اور ہر بلوچ نوجوان طالبان اور کشمیری جہادی ہوتا تھا، خاص طور پر ان 18 سالوں میں اگر پھر بھی انتہائی کم تعداد میں بلوچ شدت پسندی سے متاثر ہوئے ہیں بھی تو اس کا بنیادی وجہ اس وقت کی مزاحمت کی سرد مہری ہے۔
یہ ایک مانا ہوا مستد حقیقت ہے، اس سے انکار کرنا کم علمی اور کم عقلی ہے کہ قومی جنگ اور تشدد خود قوموں کی تشکیل، قومی ترقی اور علم و شعور کی بنیاد پر ہوتا ہے، غلامانہ سماج اور غلامانہ معاشرے میں بے حسی یا خاموشی خود قوموں کے زوال و فنا کا مقدر ثابت ہوتا ہے، پھر کس بات اور دلیل کی بنیاد پر بلوچ ناکام اور پشتون کامیاب ہوگئے؟ کیا ایک سال میں پشتون قوم نے عدم تشدد یا پرامن تحریک شروع کرکے پاکستان سے نجات حاصل کرلیا یا آزاد پشتونستان بن گیا؟ گوکہ بلوچ قوم بھی آج تشدد کی تحریک سے آزاد تو نہیں ہوا ہے البتہ قومی آزادی کی سوچ، آزاد ریاست کی تشکیل کی فکر بلوچوں میں جس حد تک پختہ ہوچکا ہے، اسکی مثال ماضی میں نہیں ملتا۔ وہ پختگی خود کامیابی کی طرف اشارہ کرتا ہے، پشتونوں میں وہ سوچ ابھی تک نہیں ہے پھر کامیابی کس بات کی؟ چند ہڑتالوں، مظاہروں اور پاکستان کے قانون کے تحت احتجاجوں کی کامیابی کو تحریک کی کامیابی کا نام دینا مضحکہ خیز نہیں ہے؟
یہ نہیں دیکھنا چاہیئے کہ بلوچ تحریک آج کہاں پر کھڑا ہے، تحریک میں نشیب و فراز تو آتے رہتے ہیں، یہ تحریک کا حصہ ہیں، اس کی مختلف وجوہات ہوتے ہیں، ان کو سمجھنا ہوگا، یہ دیکھنا اور غور کرنا ہے کہ بلوچ قوم سوچ کے حوالے سے کہاں پر کھڑا ہے؟
18 سال پہلے کسی بلوچ ماں باپ کا بیٹا ایک دن پولیس تھانے میں قید ہوتا تو چیخ و پکار اور رونے دھونے سے زمین و آسمان کو ایک کرتے، آج شہید ازل جان اور شہید ریحان کی ماں کی طرح سینکڑوں مائیں شہادت اور قومی آزادی کی جنگ کے حوالے سے اپنے لخت جگروں کو بخوشی روانہ کرتے ہیں بلکہ ان پر فخر کرتے ہیں، کیا سوچ کے حوالے سے یہ ذہنی و فکری تربیت پرامن تحریک کے وجہ سے ہوئے؟
ہاں البتہ قومیت یا مظلومیت اور ریاست پاکستان کے خلاف نفرت کی بنیادوں تک بحثیت مظلوم بلوچ اور بلوچ جہدکار کی حثیت سے پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرنا، ہمدردی رکھنا، بالکل درست عمل ہے لیکن قومی جنگ اور دشمن کے خلاف تشدد سے راہ فراریت اور خوف میں مبتلا ہوکر بزدلی کا شکار ہوکر، پاکستانی فریم ورک و پاکستانی آئین و قانون کے دائرے میں احتجاجوں، مظاہروں اور دھرنوں کو بلوچ قومی آزادی کی جنگ سے موازانہ کرکے عدم تشدد یا پرامن جدوجہد کی کامیابی کا نام دیکر بلوچ مسلح جدوجہد کو ناکام قرار دینا انتہائی گمراہ کن عمل اور قومی جنگ سے راہ فراریت کے لیئے راستہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش ہے بلکہ پہلے خود جنگ کے ساتھ ہوکر اور جنگ میں شہید ہونے والے اپنے دوستوں کے خون سے غداری ہے اور ایسے غداروں کو نا تاریخ معاف کریگی اور نہ قوم معاف کریگی۔
18 سال سے تشدد اور مسلح جدوجہد کے نام پر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کو تبلیغ کرنا اور نوجوانوں کو جنگ اور تشدد کی ترغیب دینا، دوسرے معنوں میں نوجوانوں کے قیمتی جانوں کو قربان کروانا، اب پشتون تحفظ موومنٹ جیسے پاکستانی آئین اور قانوں کی پابند تحریک کی مثال پیش کرکے پرامن جدوجہد کی بات کرنا شہداء کے خون کے ساتھ واضح غداری ہے، قومی تحریک اور جنگ سے رافرایت اور غدادی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی جاکر براہے راست دشمن کے ساتھ شامل ہو، دوسرے چیزوں کی طرح غداری اور راہ فراریت کی بھی مختلف شکلیں ہوتے ہیں، اس حالت میں قومی آزادی کی پرتشدد جدوجہد کی مخالفت میں دلیل پیش کرنا یا یہ بار بار کہنا کہ کچھ نہیں ہے اور کچھ نہیں ہوگا، اب جنگ کے لیئے حالات ساز گار نہیں ہیں یا پھر اس حالت میں بے حس خاموش اور بے عمل ہوکر آرام اور سکون سے زندگی گذارنا، یہ سب کے سب راہ فراریت اور غداری کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں، خاص کر اپنے شہید دوستوں کے خون اور محنت و مشقت کے ساتھ۔
براہے راست دشمن کا حصہ بننے والے یا اعلی اعلان سرنڈر ہونے والوں سے زیادہ خطرناک خاموش سرنڈر ہونے والے اس قسم کے جہدکار ہوتے ہیں، یہ دشمن سے زیادہ تحریک کے لیئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں، یہ تحریک میں موجود ہوکر تحریک کو نقصان سے دوچار کرتے ہیں اور دشمن تحریک سے باہر تحریک کو نقصان پہنچاتا ہے یعنی باہر والے اتنا زیادہ خطرناک نہیں ہوتا جتنا اندر والا خطرناک ہوتا ہے۔
بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ نوجوان ہمیشہ ہر معاملے و ہر مسئلے بلکہ ہر معمولی اور غیر معمولی چیز پر ایک بار نہیں بار بار سوچ لیں اور فیصلہ کریں، اور اندر و باہر کے دشمنوں کو پہچان لیں، وگرنہ تحریک کو زیادہ نقصان ہوگا، پھر تاریخ میں کوئی معاف نہیں ہوگا۔

четверг, 7 февраля 2019 г.

غیر محفوظ بلوچ سیاسی کارکنان – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ
اس ماہ کے اوائل میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما ابراہیم ارمان لونی کے بلوچستان میں پولیس اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں تشدد و قتل کے خلاف 32 سے زائد شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہے ہیں، گوکہ پی ٹی ایم بارہا اپنے موقف کی وضاحت کرچکی ہے کہ انکی تحریک ایک پرامن تحریک ہے اور وہ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں لیکن اسکے باوجود وہ ریاستی تشدد سے گلو خلاصی کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔
بلوچستان میں یہ اپنے نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے پر امن سیاست پر یقین رکھنے والے کئی نامور بلوچ قوم پرست دانشور، پروفیسر، سیاسی رہنما اور سیاسی کارکنان اسی طرز پر قتل کیئے جاچکے ہیں اور ہزاروں تادم تحریر لاپتہ ہیں۔ ان سرکردہ ناموں میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ اور اسکے ساتھی، بلوچ دانشور و پروفیسر صباء دشتیاری اور بلوچ طلباء جماعت بی ایس او کے سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر سمیت کئی قتل ہوچکے ہیں اور زاھد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ و ثنااللہ بلوچ کی صورت میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قوم پرست رہنما و کارکنان لاپتہ ہیں۔ ان میں سے 1300 سے زائد کی قابلِ شناخت مسخ شدہ و تشدد زدہ لاشیں مل چکی ہیں جبکہ سینکڑوں ناقابلِ شناخت لاشیں ایدھی دفن کرتی رہی ہے۔
بلوچستان میں پرامن سیاسی کارکنان کے اس قتلِ عام اور عدم تشدد کے سیاست کیلئے کوئی بھی گنجائش نا پاکر سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان نے جلاوطنی اختیار کرکے یورپی ممالک، امریکہ، افغانستان اور خاص طور پر خلیجی ممالک کا رخ کیا، تاکہ وہ اپنی جان بچا سکیں اور اظہارِ رائے کی آزادی کی ساتھ اپنی آواز بلند کرسکیں۔ لیکن بیرونِ ممالک میں بھی وہ مکمل تحفظ کا احساس حاصل نہیں کرسکے، کیونکہ بیرونِ ملک مقیم ہونے کے باوجود انہیں دھمکیاں موصول ہوتی رہیں اور اہلخانہ کو زک پہچانے کی دھمکیاں خاص طور پر مختلف سرگرم سیاسی کارکنان کو دی گئیں۔ اس صورتحال میں کسی بھی بلوچ سیاسی کارکن کیلئے یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ موجودہ حالات میں واپس بلوچستان آسکے۔
از خود جلاوطنی اختیار کرنے والوں میں ایک متحرک انسانی و سیاسی حقوق کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ راشد حسین بھی تھے۔ راشد حسین بلوچ ولد دیدار حسین اپنے درجنوں ہمعصر سیاسی کارکنان سمیت 14 سالہ کزن مجید زھری کا خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء اور پھر تشدد زدہ لاش اور بعد میں مجید زھری کے والد رمضان زھری کا سر عام قتل دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ کس طرح رمضان زھری کے بعد انکے پورے جائیداد، گھر اور کاروبار پر سرکاری حمایت یافتہ لشکر کا قبضہ ریاستی سرپرستی میں ہوا، اور پھر انکے پورے اہلخانہ کو مجبوراً جلاوطنی اختیار کرکے متحدہ عرب امارت منتقل ہونا پڑا، راشد حسین اس دوران تواتر کے ساتھ بلوچ سیاسی کارکنان کے اغواء اور قتل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے، جس کی وجہ سے انکی جان کو بھی خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ لہٰذا وہ بھی دوسرے بلوچ سیاسی کارکنان کی طرح اگست 2017 کو از خود جلاوطنی اختیار کرکے متحدہ عرب امارات چلے گئے اور وہاں اپنے کزنوں کے ساتھ رہنے لگے۔
26 دسمبر 2018 کو جب راشد حسین اپنے کزنوں کے ہمراہ شارجہ سے دبئی جارہے تھے، تو انہیں متحدہ عرب امارات کے خفیہ ادارے کے اہلکار گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ انکی اس طرح گرفتاری کے بعد انکے رشتہ داروں نے انہیں متعلقہ پولیس اسٹیشنوں میں ڈھونڈا اور پولیس سے معلومات حاصل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ان پر کوئی مقدمہ نہیں ہے، نا وہ پولیس کے حراست میں ہیں اور نا ہی وہ پولیس کو مطلوب ہیں۔ تین دن تک غائب رہنے کے بعد متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے بھاری نفری کے ساتھ راشد حسین کے گھر پر چھاپہ مارا، وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتا تھا، راشد حسین بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے انکے ساتھ تھے۔ فورسز نے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور خواتین و بچوں کو سخت حراساں کیا، اور راشد حسین کا پاسپورٹ مانگا گیا، گھنٹوں تک وہاں رہنے کے بعد وہ یہ دھمکی دیکر چلے گئے کہ وہ راشد کو پاکستان ڈی پورٹ کرینگے۔
مذکورہ شب کے بعد راشد حسین تاحال لاپتہ ہیں، نا انہیں کسی جیل میں منتقل کیا گیا ہے اور نا ہی انکے رشتہ داروں کو ان سے ملاقات کا موقع دیا گیا ہے، اس واقعے نے تمام بلوچ سیاسی کارکنان میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ہے کیونکہ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے راشد حسین کو کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا ہے بلکہ پاکستان کے دباو میں آکر انہیں اس طرح اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا ہے اور اب انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
لطیف بلوچ ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن سے جڑے ایک سیاسی کارکن اور ایک متحرک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں، جو راشد حسین بلوچ اور دوسرے ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنان کی طرح مجبوراً جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ راشد کے گرفتاری پر انہوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “بلوچوں کا ہمیشہ سے عربوں اور اس خطے کے دوسرے اقوام کے ساتھ بہترین تعلقات رہے ہیں، بلوچ لاکھوں کی تعداد میں سالوں سے عرب ممالک میں رہائش پذیر ہیں لیکن کبھی بھی وہ عرب قومی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوئے، دوسری طرف پاکستان ہمیشہ ان عرب ممالک کو نا صرف بلیک میل کرتا رہا ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر انکے مفادات کے خلاف بھی استعمال ہوتا رہا ہے، اب دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے کہنے پر ہمارے ایک بلوچ ایکٹویسٹ کو امارات کی حکومت گرفتار کرتی ہے، جو نا صرف امارات کے قوانین، انسانی حقوق بلکہ عرب بلوچ تاریخی تعلقات کی بھی توہین ہے۔”
جلاوطن بلوچ سیاسی کارکنان اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کے مطابق اس واقعے سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ اب پاکستان بیرونِ ملک بھی انکی آواز دبانا چاہتا ہے، اب وہ کہیں بھی محفوظ تصور نہیں کرتے، راشد حسین کا یوں اغواء محض آغاز ہے، اسی طرح ایک ایک کرکے اب تمام متحرک جلاوطن سیاسی کارکنان کو بیرون ممالک سے بھی غیرقانونی طریقے سے گرفتار کیا جائے گا۔
راشد حسین کے رشتہ داروں کے مطابق، راشد حسین پر متحدہ عرب امارات میں کوئی بھی مقدمہ نہیں ہے، جس طرح سے انہیں اغواء کرکے حبس بے جاء میں رکھا گیا ہے، یہ از خود متحدہ عرب امارات کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے راشد حسین کے کزن عبدالحفیظ سے بات کی جو راشد کے اغواء کے وقت وہاں موجود تھے اور واقعے کے چشم دید گواہ ہیں، انکا کہنا تھا کہ ” 26 دسمبر 2018 کو میں، راشد حسین، میرے چھوٹے بھائی نصیر احمد اور دبئی میں مقیم ایک اور بلوچ اپنے ٹیوٹا سیانا کار میں شارجہ سے دبئی جارہے تھے کہ ہمارے گاڑی کو دھاڑی روڈ پر فلیگ اسٹاف امارات کے مقام پر دو گاڑیوں جن میں سے ایک سفید مرسڈیز اور ایک جامنی رنگ کا الٹیما تھا نے روکا، دونوں گاڑیوں میں محض ایک ایک فرد سوار تھے، وہ سادہ لباس میں ملبوس تھے اور عربی بول رہے تھے، انہوں نے اپنا تعارف خفیہ ادارے کے اہلکاروں کی حیثیت سے کی اور اپنے کارڈ دِکھائے، انہوں نے ہمارے کاغذات مانگے اور پھر بغیر کسی وارنٹ کے راشد حسین کو اپنے ساتھ لے گئے۔”
عبدالحفیظ نے مزید کہا کہ ” تین دن بعد 29 دسمبر کو رات ایک بجے 15 اہلکاروں کے نفری کے ساتھ وہ دوبارہ ہمارے گھر آئے، راشد انکے پاس تھا، انہوں نے ہم پر تشدد کیا، مجھے بھی ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا اور گھر میں توڑ پھوڑ کی اور راشد کا پاسپورٹ مانگتے رہے۔ پاسپورٹ نا ملنے پر وہ تین گھنٹے بعد راشد کو اپنے ہمراہ لیکر واپس چلے گئے، جس سے ہمارا یہ شک پختہ ہوگیا کہ وہ غیرقانونی طریقے سے راشد کو ڈی پورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اسکے بعد مجھے اور میری والدہ کو دھمکی آمیز فون موصول ہوتی رہی ہیں، خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے واپس فون کرکے راشد کے پاسپورٹ کو لانے کا کہا، لیکن وہ نا اپنا نام ظاھر کررہے تھے اور نا پاسپورٹ رسمی طور پر مانگ رہے تھے، وہ کہتے ہیں کہ پاسپورٹ کسی مخصوص پیٹرول پمپ، شاپنگ سینٹر یا کسی پولیس اسٹیشن کے باہر پہنچاؤ، لیکن وہاں جانے کے باوجود وہ سامنے نہیں آتے اور اگلے دن دوبارہ دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اب راشد حسین کے ساتھ ساتھ ہمارے پورے اہلخانہ کو بھی یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں ہمیں کوئی نقصان یہاں نا پہنچایا جائے۔”
راشد حسین کے اغواء کے بعد بلوچ سیاسی کارکنان گذشتہ ایک مہینے سے زائد عرصے سے سراپا احتجاج ہیں، اس حوالے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے اور برطانیہ و جرمنی سمیت مختلف ممالک میں احتجاجی مظاھرے بھی ہوچکے ہیں، جو متحدہ عرب امارات کے حکومت سے راشد حسین کی رہائی اور ممکنہ پاکستان ڈی پورٹیشن کو روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس حوالے ایشیئن ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی راشد حسین کے رہائی کیلئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے نام ایک پٹیشن بھی داخل کی ہے جس پر ابتک 2000 سے زائد افراد نے دستخط کیئے ہیں، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحد کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر مداخلت کرکے راشد حسین کی رہائی ممکن بنائے۔
متحدہ عرب امارات کے خفیہ ادارے کے ہاتھوں راشد حسین بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ سیاسی کارکنان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے، حکیم واڈیلہ بلوچ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے ایک متحرک سیاسی کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ معروف بلوچ قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل مومنٹ کے یو- کے زون کے صدر بھی ہیں، انہوں نے نمائیندہ دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “راشد حسین بلوچ کا یوں اغواء اور ممکنہ ڈی پورٹ کی کوشش نا صرف تمام بلوچ سیاسی کارکنان بلکہ ان اقوام اور اقلیتوں کے متحرک کارکنان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے، جو اپنی جان بچا کر پاکستان سے بیرون ممالک تحفظ اور اظہارِ رائے کی آزادی کیلئے منتقل ہوئے تھے۔ اگر راشد حسین کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے تو اسکا مطلب پھر کوئی بھی سیاسی کارکن کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ نا صرف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، بلکہ تشدد کے خلاف عالمی کنونشن کے آرٹیکل 3 کی بھی خلاف ورزی ہے جو اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ کسی شخص کو ایک ایسے ملک واپس نہیں بھیجا جائے گا، جہاں اسے تشدد کا نشانہ بننے یا اسکے قتل کیئے جانے کا خدشہ ہو۔”
بلوچ نیشنل مومنٹ بلوچستان کی سب سے بڑی قوم پرست سیاسی جماعت ہے، راشد حسین بلوچ کے مسئلے پر دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے بی این ایم کے مرکزی ترجمان دلمراد بلوچ سے انکی رائے لی تو انکا کہنا تھا کہ “راشدحسین کی گرفتاری اوراسے جبری طور لاپتہ رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سنگین مسئلہ ہے اورامارت جیسے ملک میں یہ عمل بلوچ اور عربوں کے تاریخی تعلقات کے منافی ہے۔ راشدایک جنگ زدہ خطے میں انسانی حقوق کا کارکن ہے اوران کے خاندان کے بیشتر افراد ریاست کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں، ان سانحات کے باوجود وہ اپنی قوم کے لئے آواز اٹھاتے رہے اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی جدوجہد بلاتفریق ہر اُس انسان کے لیئے ہے جس کے بنیادی حقوق غاصب کے ہاتھوں پامال ہوچکے ہیں، وہ حقوق جن کی ضمانت انسانی حقوق کے عالمی معاہدے دیتے ہیں اورپاکستان انکی توثیق کرچکاہے۔”
جب نمائیندہ ٹی بی پی نے دلمراد بلوچ سے دریافت کیا کہ راشد بلوچ کی یوں گرفتاری اور ممکنہ ڈی پورٹیشن کے مسئلے کا دوسرے جلاوطن بلوچ سیاسی کارکنان پر کیا آثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ تو انکا کہنا تھا کہ ” اس کے اثرات تباہ کن ہوسکتے ہیں، میں سمجھتاہوں کہ راشد کا مسئلہ ایک ’’ٹیسٹ کیس‘‘ہے، جس میں اگر پاکستان اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان اپنے منفی کوششوں کے سلسلے مزید بڑھاسکتاہے، اس سے آپ کے ہزاروں سیاسی کارکنان ایک غیر یقینی کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجائیں گے کیونکہ پاکستان کے ظلم وستم سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ جلاوطن ہوکر خلیج سمیت یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں بسنے پر مجبور ہیں۔”
دلمراد بلوچ نے راشد حسین کیلئے آواز اٹھانے کو قومی فریضہ گردانتے ہوئے کہا کہ “ہمیں ایک بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ جلاوطن سیاسی کارکنان اپنی ذاتی جنگ، ذاتی مقاصدو اغراض یا محض اپنی زندگی کی تحفظ کے لئے دربدی اور جلاوطنی کی زندگی پر مجبور نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ اجتماعی بقاء کے لئے، پوری قوم کے انسانی حقوق و قومی تحریک کے تقاضوں کے لئے، سرزمین پر غاصب اورقابض کے ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے دیارغیر کاانتخاب کرچکے ہیں۔ راشد انہی قومی فرزندوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، سرزمین کے سچے سپوتوں میں سے ایک ہے، راشد حسین کے لیئے آواز اٹھانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ راشد حسین کے لئے آواز اٹھانا قومی آواز کو توانا بنانا ہے، ہمیں اسی احساس و ادراک کے ساتھ راشد حسین کے لیئے ہر ممکن فورم کا استعمال کرنا چاہیئے۔”
بلوچستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتیں متحرک ہیں اور روزانہ کے بنیادی پر پرتشدد واقعات کی ذمہ داری برملا اس دلیل کی بنیاد پر قبول کرتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری اور مہذب ملک نہیں ہے اس لیئے یہاں پر امن جمہوری جدوجہد کیلئے کوئی گنجائش موجود نہیں لہٰذا انہوں نے مجبوراً سیاست کا پرتشدد راستہ یعنی مسلح مزاحمت اختیار کیا ہے، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیاں ہوں یا بلوچ دانشوروں، پروفیسروں اور ادیبوں کی ٹارگٹ کلنگ، پی ٹی ایم کے خلاف حالیہ کریک ڈاون و ارمان لونی کا قتل ہو یہ تمام عوامل بلوچ مزاحمتی تحریک کے پرتشدد راستے کے فلسفے کو تقویت پہنچاتی رہی ہیں اور اب وہ نوجوان جنہوں نے ان تمام حالات کے باوجود پر تشدد راستہ اختیار کرنے کے بجائے بیرون ملک جلا وطنی اختیار کرکے پر امن سیاست کا راہ اختیار کیا، انکا راشد حسین بلوچ کی صورت میں گرفتاری ایک خوفناک مستقبل کا عندیہ دے رہی ہے، جو بلوچ نوجوانوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ کھلا چھوڑنے کا موجب بنے گی۔

четверг, 31 января 2019 г.

بلوچستان میں سرداروں کا کردار ۔ سنگت بابل بلوچ

1839 کو جب انگريز سامراج نے بلوچ وطن پر قبضہ کرنےکی کوشش کی تمام سردار تقریباً انگريز کے حمایتی بن گئے، جب انگريز فوج نے قلات پر میجر ولشائر کی سربراہی میں حملہ کیا تو ساراوان میں سرداروں نے مستونگ کے مقام پر نہ صرف انگریز فوج کا خیر مقدم کیا بلکہ مدد بھی کی اور خود گھروں میں بیٹھ گئے اور خان محراب خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی وطن کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی اور اس طرح 13نومبر 1839 کو بلوچ وطن کا مرکز انگریز کے ہاتھوں قبضہ ہوا۔
اس کے بعد انگريز نے شاہ نواز خان کو خان مقرر کیا تو ہی سردار انگريزی حکومت میں شامل ہوگئے۔ جب کہ سرداروں کو عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
اسی طرح محراب خان شہید کے فرزند نصیر خان نے اپنے وطن کی آزادی کے جنگ کا اعلان کردیا تو عوام نے نصیر خان کی حمایت کی اس طرح جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں آخر کار انگریز کو شکست ہوئی بلوچ فوج نے قلات پر حملہ کرکے انگريزی خان شاہ نواز کو گرفتار کرلیا تو نصیر خان نے انگريز سے لڑتے ہوئے ڈھاڈر، مستونگ، ۔ساراوان بھی واپس لے لیں۔ اور اس کے بعد شال پر بھی حملہ کرکے اسے آزاد کرانا چاہا تو ہی سردار بیچ میں آگئے اور خان کو حملہ کرنے سے روک کر معاہدہ کروایا اور اس طرح 1841 کو خان کی آزاد حیثیت باقی نہیں رہی۔ یکم جنوری 1876 کو ایک انگريز قافلہ سرداروں کو لے کر خان کے دربار میں قلات پہنچے اور دربار عام منعقد ہوا اس تاریخی اجتماع میں بلوچستان کے تقریباً تمام سردار موجود تھے اور سب رابرٹ سنڈیمن کی سربراہی میں آئے تھے جن کے نام یہ ہیں۔
سردار محمد خان رئیسانی، اللہ ڈنہ کرد، شادی خان بنگلزئی، محمد سید خان محمدشئی، جندہ خان شاہوانی، یار محمد خان کرد، مہراللہ ڈنہ، مہراللہ خان مری، میر ہزار خان مری، گل محمد خان مری، کرم خان بجارانی، نال خان لوہارانی، گہورخان بگٹی، ہیبت خان بگٹی، فتح خان، روگیر خان، بلوچ خان کیتھران، قادربخش، دین محمد بزدار اس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان کے تمام سردار اور دوسرے سردار سنڈیمن کے سات تھے جبکہ دربار میں خان کو اپنے فرزند اور نوکر کے علاوہ صرف دو سردار، سردار نورالدین مینگل اور سردار قیصر خان موسیانی کی حمایت حاصل تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام سرداروں کی حمایت خان کے بجائے انگريز کے ساتھ تھی اور اسی طرح 13جولائی 1876 کو خان خداداد خان اور انگريز کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اس معاہدے کی خاص شق یہ تھی کہ خان کی کنٹرول سرداروں پر سے ختم ہوگئی تھی۔ اب سرداروں کو یہ اختیار حاصل تھی کہ وہ کسی کو گرفتار کریں، قید کریں، سزا دیں، ٹیکس وصولی کریں، جو چاہتے تھے عوام کے ساتھ کرتے تھے۔ انہی سرداروں نے اپنے جرگے میں 1930 میں یوسف عزیز مگسی کو ایک فیصلے کے تحت ایک سال سزا اور پندرہ ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی، اس لیئے کہ اس نے ہفت روزہ (ہمدرد) لاہور میں 17نومبر 1929 کو ایک مضمون فریادِ بلوچستان کے نام سے لکھا تھا۔ انگریز جو بھی کرنا چاہتا وہ خود نہیں کرتا انہی سرداروں کے ذریعے کرواتا۔
جب خان خداداد خان قتل کی سازش سے بچتا ہے تو انگریز اسے گرفتار کرکے یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے شہزاده محمود خان کے حق میں دستبردار ہوجائے۔ جب خداداد خان انکار کرتا ہے تو انگریز انہی سرداروں کو استعمال کرکے ان کے جرگے کے ذریعے خان کو خانی سے معزول کرکے اس کے بیٹے کو خان مقرر کرتے ہیں۔ یہ سردار اس خدمت کے عوض انگریز سے مراعات حاصل کرتے تھے۔ میں یہاں ان کی تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہوں لیکن مجموعی تعداد کچھ یوں ہے۔
117 بلوچ سردار اور 61 پھٹان سردار تھے۔ جبکہ ان کے علاوہ 914 بلوچ اور 2168 پھٹان مَلک و معتبر تھے۔ اسی طرح ان تمام سرداروں اور مَلک و معتبروں کےلیے انگریز نے ماہانہ الاونسز مقرر کرکے ان سب کو اپنا تنخوادار نوکر بنا دیا۔ اب وہی سردار جو بلوچ معاشرے میں ایک بہادر، مصنف، اپنے قبیلے کا حمایت یافتہ فرد ہوا کرتا تھا۔ اب خارجی طاقتوں کا آلہ کار اور ظلم و جبر کی علامت بن گیا۔ اب وہ قبیلے کے بزرگ و قائد کے بجائے ان کا حاکم بن گیا اور انگریز اکثر انہیں آپس میں لڑا کر کمزور کرنے کی سازش کرتا رہتا۔
جب 1933 کو خان احمد یار خان قلات کے خان بنے تو انہوں نے کوشش کی کہ 1876 کے معاہدے کے تحت جو اختیارات تھے انہیں بحال کیا جائے اس لیے خان نے قلات نیشنل پارٹی کی سیاسی سرپرستی کرکے اس کی سیاسی جدوجہد اور حمایت کے ذریعے ریاست میں اپنے اثرات بڑی حد تک بحال کرلیئے لیکن اب بھی فیصلہ کن غلبہ انگریز کو حاصل تھی۔ اس وقت بھی اس جدوجہد میں قلات نیشنل پارٹی، انجمن بلوچاں، انجمن وطن، قومی سیاسی پارٹیاں تھیں تو سرداروں نے ان کی کوئی حمایت نہیں کی۔ جب کانگریس نے بلوچستان کے لیے آئینی اصطلاحات کا مطالبہ کیا تو انہی سرداروں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ قیام پاکستان کے وقت جب ان سرداروں نے انگریز کا جھکاؤ قائداعظم کی مسلم لیگ کی طرف واضح دیکھا تو ان سرداروں کی وابستگیاں از خود مسلم لیگ کے ساتھ ہوگئیں۔ تقسیم ہند کے بعد برٹش بلوچستان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں یا پاکستان کے ساتھ تو سردار سوچ رہے تھے کہ دونوں میں سے کونسا مَلک انہیں مراعات دے سکے گا۔ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے وقت بھی تمام سرداروں کی تقریباً حمایت بلوچستان کی طرف نہیں تھی۔ قبضے کے بعد سرداروں کو اپنی مراعات کی فکر تھی۔ اب وہ زیادہ مراعات حاصل کرنے لگے اور اب وہ سیاسی میدان میں اترے اور ہر حکمران پارٹی میں اپنا جگہ بنانے کے تگ و دو میں سرگرداں رہے۔
جب 1955 کو بلوچستان کے دونوں حصوں کو برٹش بلوچستان اور ریاستی بلوچستان کو ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کے صوبے میں شامل کیا گیا تو انہی سرداروں کی اکثریت نےاس کی حمایت کی۔ جب 1958 کو ایوب خان نے خان کو گرفتار کیا تو بلوچستان میں دوچار سرداروں کے علاوہ سب نے حمایت کی اور مراعات حاصل کیئے۔ جب ایوب خان نے سیاسی پارٹی بنائی تو تمام سرداروں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ ون یونٹ کے خلاف عوام جدوجہد کررہے تھے، تو سردار ون یونٹ کے خواہاں تھے 1970 کو ون یونٹ ٹوٹ گئی اور بلوچستان کو صوبے کا درجہ مل گیا۔
1970 کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور جمعیت علماء اسلام مفتی کے ساتھ مل کر صوبےمیں حکومت بنائی۔ عطااللہ مینگل وزیراعلیٰ بن گئے تو بلوچستان اسمبلی نے سرداری نظام کے خاتمے کی سفارش کی تو بھٹو حکومت نےاس طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ عطااللہ مینگل کی حکومت کو ہی ختم کردیا اور دوبارہ جام غلام قادر کو وزیراعلیٰ بنا کر حکومت بنائی تو تمام سردار جو مینگل حکومت کے حمایتی نہیں تھے، سارے سردار پیپلز پارٹی کے ہوگئے سوائے چند سرداروں کے اس دوران بھٹو نے بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع کی اور ظلم و جبر کی انتہا کردی، عورتوں، بچوں، بزرگوں کا قتل عام کررہے تھے تو سردار تماشائی بنے بھٹو کی پیپلز پارٹی کے حمایتی تھے، سوائے چند کے جنہیں بھٹونے پہلے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا اور کئی لوگوں کو لاپتہ بھی کیا جن میں خود عطااللہ مینگل کے فرزند اسد اللہ مینگل بھی ہیں جو آج تک لاپتہ ہیں۔
1955 کے بعد جب نواب نوروزخان نے اعلان جنگ کیا تو یہی سردار حکومت کے حمایتی بن گئے، جب ضیاء نےبھٹو حکومت کو ختم کرکے بھٹو کو گرفتار کیا تو یہی سردار ضیاء کے ساتھی بن گئے، سوائے چند کے یہاں تک کہ نواب مری، بگٹی، مینگل کو قوم پرستی کی راہ پر لانے والے غوث بخش بزنجو نے بھی باقی سرداروں کی راہ لی یہ کہہ کر کہ انتہا پسندی سے رجعت پسندی بہتر ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات تھے، اس لیئے صوبائی ایوان غیر جماعتی تھا لیکن اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے غیر جماعتوں کو مسلم لیگی بنادیا تو سردار بھی فوراً مسلم لیگی بن گئے۔
1988 کے انتخابات میں بھی سردار حکومتی حمایتی تھے، 1990 میں بھی سردار حکومت کے ساتھ تھے اور وزیر تھے۔ 1993 میں صوبائی اسمبلی میں بھی سردار حکومت میں تھے۔ جب مشرف کے دور میں بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع ہوئی تو خود مشرف نے اقرار کیا کہ سوائے 3 سرداروں کے تمام سردار فوج کے ساتھ ہیں اور اس طرح آج تک بلوچستان میں جو ظلم و جبر کا بازار گرم ہے تمام سردار یا حکومت میں ہیں یا حکومت کے حمایتی ہیں، یہی ہے سرداروں کی مختصر داستان اب آپ خود فیصلہ کریں کہ سردار بلوچ کے حمایتی ہیں یا دشمنِ بلوچ کے دراصل بات یہ ہے کہ یہ کسی کے نہیں ہیں۔ ہیں تو صرف پیسے کے دوست ہیں۔ انہیں کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں۔

среда, 30 января 2019 г.

راشد حسین بلوچ  کون ہے؟ – برزکوہی 

بلوچستان کے تاریخی علاقے اور بلوچ قوم کے مشہور و معروف قبیلے زہری سے تعلق رکھنے والے راشد حسین ایک متحرک بلوچ سیاسی کارکن ہیں، ان کا پورا خاندان 2010 سے لیکر آج تک پاکستانی فوج اور خاص طور پر پاکستانی فوج کے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کا نشانہ بنتا آیا ہے، سب سے پہلے خضدار سے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے راشد حسین کے 14 سالہ کزن مجید زہری کو اغواء کرکے بعد میں انکی لاش تشدد کرکے پھینک دیا، اس کے بعد خضدار کے مشہور و معروف تاجر غریب پرور اور انسانیت دوست 70 سالا بزرگ شخصیت اور مجید زہری کے والد حاجی محمد رمضان زہری کو پاکستان کی خفیہ ادارے نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کردیا، پھر آخر کار مختلف اوقات میں متذکرہ خاندان کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا، گھرو کاروبار جلائے گئے اور دھمکیاں ملتے رہے۔ پورا خاندان اذیت ناک زندگی گذار رہا تھا، پھر وہ مجبور ہوکر خضدار سے اپنا کروڑوں روپے کی جائیداد، کاروبار اور ملکیت چھوڑ کر دبئی منتقل ہوئے اور پاکستانی فوج کی ایماء پر مقامی ریاستی ایجنٹوں نے ان کے تمام زمینیں، مکان، دوکانیں اور گاڑیوں کو قبضے میں لے لیا۔
اس کے بعد زہری میں ایک سال قبل راشد حسین کے بڑے بھائی ضیاء جان فوج کے ساتھ مقابلے میں شہید ہوئے، اس دوران خاندان کے بہت سے لوگ گرفتار ہوئے، بہت سے افراد کو تشدد کا نشانہ بناکر اگر چھوڑا بھی گیا تو وہ بھی مفلوج زدہ حالت میں، البتہ پاکستانی فوج اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں نے ان پورے 10 سالوں میں اس خاندان کے ساتھ جو بے رحمی اور ناروا سلوک کیئے، شاید آگے بلوچ تاریخ اس ظلم کی داستان کو رقم کرکے کانپ اٹھے، مگر افسوس کہ آج تک دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی جگہ بلوچ قوم تک کو اس وقت اس خاندان کے بارے میں علم نہیں، اگر علم ہے بھی تو، اس وقت یہ متاثرہ خاندان جس کربناک زندگی سے گذر رہا ہے، اس کے بارے میں کسی کو صحیح جانکاری نہیں ہے۔
راشد حسین بلوچ بھی پاکستان کی جبرو بربریت سے متاثر ہوکر دبئی میں محنت مزدوری کررہا تھا، 26 دسمبر 2018 کو اپنے دیگر کزنوں کے ساتھ صبح سویرے اپنے کام کے سلسلے میں جارہے تھے کہ راستے میں متحدہ عرب امارات کے خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے انکی گاڑی روک لی اور راشد کو گاڑی سے اتار کر لے گئے۔ اسی دن سے راشد کے خاندان سمیت بلوچ ایکٹویسٹ، انسانی حقوق کے تنظیموں کے رہنماوں نے مسلسل کوشش کی کہ راشد حسین کا کوئی سراغ مل جائے کہ وہ کہاں ہے، کچھ معلوم نہیں ہوا، آخر ایک ہفتے بعد راشد کو امارات کے خفیہ ادرے والے بھاری فورسز کے ساتھ اس کے کزن کے گھر لے آئے، راشد کی حالت سے ایسا لگا کہ وہ تشدد کا شکار ہوا تھا، وہ گھر کی تلاشی اور راشد کا فون وغیرہ کا پوچھ گچھ کرنے لگے اور متاثرہ خاندان کے لوگوں کو دھونس دھمکی دے کر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اب تم لوگوں کا بھی خیر نہیں ہوگا۔
اس کے بعد راشد حسین کا کوئی اتا پتا نہیں چلا، 27 دسمبر کو ایک مہینے بعد پاکستانی میڈیا پر نیوز آیا کہ پاکستانی پولیس حکام کی طرف سے چینی قونصیلٹ کی مرکزی سہولت کار راشد حسین شارجہ سے گرفتار ہوا ہے، مزید وہ کہتے ہیں کہ راشد حسین نے حملے کےدوران مختلف اکاونٹ سے 9 لاکھ روپے روانہ کیا اور پھر یہ بھی کہتا ہے کہ راشد حسین حملے کے وقت کراچی میں تھا۔ خیر پاکستان کا وجود جھوٹ، دھوکے، فریب اور مکاری پر مشتمل ہے اور شروع سے پاکستانیوں کے خون میں جھوٹ اور مکاری شامل ہے اس پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ عرب قوم اپنی تاریخ، تہذیب اور اعلیٰ اقدار کی وجہ سے پورے دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے، دوسری طرف عربوں اور بلوچوں کا ایک تاریخی رشتہ اور اچھا تعلق ہے۔ آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہے، آج کیسے کس طرح عرب قوم نے پورے بلوچ قوم کو نظرانداز کرکے ایک مکار دھوکے باز قوم پنجابی کے جھوٹ اور فریب کو حقیقت مان کر اپنے ماڈل ریاست و حکومت کے وقار اور قانون کو پاؤں تلے روند کر غیرقانونی، غیرانسانی طور پر پنجابی قوم آئی ایس آئی اور پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ طرز پر راشد حسین کو اغواء کرکے لاپتہ کردیا اور اب یہ بھی تشویش ہے کہ راشد حسین کو پاکستان کے حوالے کردینگے، اور پھر کل پاکستان کے خفیہ ادارے راشد حسین کی مسخ شدہ لاش کسی ویرانے میں پھینک دینگے یا پھر اپنے دیرینہ اور مکارانہ طرز پر پولیس انکاونٹر کے ذریعے راشد کو شہید کردینگے۔ کیا پھر یہ عمل خود پورے عرب قوم، عرب امارات کے منہ پر تاریخی طمانچہ نہیں ہوگا؟
کیا عرب قوم یہ ثبوت پیش کرسکتا ہے کہ راشد حسین نے اپنے اکاونٹ سے پیسے روانہ کیئے تھے؟ کیا عرب قوم پاکستان کے جھوٹ کے بجائے حقائق و شواہد کے بنیاد پر یہ ثابت کرسکتا ہے کہ راشد حسین چینی قونصلیٹ کے مرکزی سہولت کار تھا؟
اگر فرض کریں، ہے بھی تو بحثیت ایک مہذب قوم اپنے قانون کے مطابق وہاں امارات میں راشد حسین پر کیس چلایا جائے، اگر راشد حسین کو پاکستان کے حوالے کیا گیا تو پھر راشد حسین کے قتل میں کیا براہِ راست عرب قوم ملوث نہیں ہوگا؟ پھر پنجابی جیسے مکار، چاپلوس، دھوکے باز قوم کی خاطر عرب قوم پورے بلوچ قوم کے ساتھ اپنی صدیوں پرانی تاریخی رشتے کو دشمنی میں بدل دے گا، کیا یہ دانشمندی ہوگا؟
راشد حسین کا واقعہ ایک معمولی واقعہ نہیں ہے، یہ پہلا واقعہ ہے، اگر پنجابی قوم اپنی مکاری سازش اور جھوٹے پن میں کامیاب ہوگیا تو عرب قوم اور بلوچ قوم کے صدیوں سے بہتر رشتے اور تعلقات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔
اس واقعے کو عرب قوم اور بلوچ قوم کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا، یہ واقعہ ایک خاندان اور ایک فرد کی جان کا سوال نہیں ہے، یہ دو قوموں کے صدیوں سے قائم رشتوں کے اوپر ایک سوال ہے، اگر خدانخواستہ درمیان میں پنجابی کامیاب رہا تو پھر آئندہ آنے والے دنوں میں بلوچوں کے لیئے خلیجی ممالک اور عربوں کے لیئے بلوچستان دوسرے گھر کے بجائے مشکلات اور مسائلستان بن جائیگا، اور پنجابی کی پوری کوشش ہے کہ عرب قوم اور بلوچ قوم کا تعلق خرابی اور بگاڑ کی طرف جائے۔
راشد حسین کی غیرقانونی یعنی چوری چپکے گرفتاری، اس کی پہلی کڑی ہے، بہرحال دونوں اقوام کو اس واقعے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا، خاص طور پر مستقبل کو مدنظر رکھ پنجابی قوم کے تمام عزائم کو سمجھنا ہوگا۔
جتنا ممکن ہو، اس واقعے کو ہر کوئی قومی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر اجاگر کرے، خوف اور خاموشی سے نا صرف راشد حسین جیسے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان کی جان کو خطرہ ہوگا بلکہ دو قوموں کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوگا۔ جو صدیوں سے نہیں ہوا ہے اور آئندہ بھی نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ دونوں اقوام کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں

суббота, 26 января 2019 г.

خاموش راہ فراریت اور دستبرادری – برزکوہی

مشاہدہ، مطالعہ، تحقیق اور تجربات سے اس مقام تک پہنچ کر اب میرا یہ عقیدہ اور ایمان بن چکا ہے کہ کسی بھی تحریک یا تنظیم کے زوال یا ختم ہونے کی بنیادی وجہ کبھی بھی دشمن کا جبر و بربریت، تشدد، قتل عام، گرفتاریاں، ٹارچر، حربے یا سازش وغیرہ نہیں ہوتا، بلکہ زوال و اختتام کی بنیادی وجہ ہمیشہ تحریک و تنظیم کے اندر خود غرضی، مصلحت پسندی، سستی، کاہلی، غیرذمہ داری، بے حسی، لاپرواہی، آزادخیالی، الجھن اور بیوروکریٹک سوچ و رویئے اور رجحانات ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ اور خاص کر تحریکی تاریخ کے صفحات کو جھنجھوڑ کر یا الٹ پلٹ کر صحیح معنوں میں سیکھنے اور سمجھنے کے بعد آخر کار انسان اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ تنظیم اور تحریک کبھی بھی دشمن کے تشدد اور بے رحمی سے ختم اور کمزور نہیں ہونگے بلکہ مزید مستحکم اور توانا ہونگے، مگر غیرذمہ داری، آزادخیالی، بے حسی، عدم توجہ اور عدم دلچسپی سمیت خاموش راہ فراریت اور دستبرداری دراصل تحریک و تنظیم کے خاتمے اور زوال کا سبب ہوتا ہے۔
دشمن کا جبر ایک آندھی کی مانند ہوتا ہے، اگر درخت تناور ہو اور اسکے جڑ مضبوط ہوں تو کوئی آندھی و طوفان اسے نا توڑ سکتا ہے نا جھکا سکتا ہے، ہاں وقتی طور پر شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن کم مدت میں ہی انکی جگہ نئی شاخیں جنم لیتی ہیں لیکن تحریک کے اندر منفی رویئےدیمک کے مانند ہوتے ہیں، جو تحریک کے جڑوں کو اندر سے چاٹ کر اسے کھوکھلا کردیتی ہے، پھر معمولی سا جھونکا ہی تحریک کے شجر کو زمین بوس کردیتا ہے۔
آج ذرا بھی جرت اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جائے اور غور کیا جائے، یہ تلخ حقیقت روز روشن کی طرح بالکل واضح ہوچکا ہے کہ بلوچ قومی تحریک میں ایک مخصوص طبقہ دشمن کے دباو، خوف، تکلیف و مشکلات سے گبھراہٹ کا شکار ہوکر لالچ، آرام، سکون، آسائش کے عوض غیر اعلانیہ خاموشی سے تحریک سے مکمل راہ فراریت اختیار کرکے دستبردار ہوچکے ہیں، گوکہ ظاہری طور پر یا چند وقت کے لیئے، کچھ مدت تک سادہ لوح بلوچوں، خاص طور پر معصوم نوجوانوں کو مختلف حیلے بہانوں، دھوکا دہی، جھوٹ، فریب نما تاویلوں کے ذریعے گمراہ، بے وقوف اور احمق بنا دینگے مگر حقیقت جلد واضح ہوگا، یہ سارے بہانے جواز اور من گھڑت دلیلیں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں تھے۔
میں بذات خود ایک بار پھر انتہائی غور و خوض سے جب انقلاب چین کا مطالعہ کررہا تھا، تو وہاں بھی ایسے خاموش راہ فراریت اختیار کرنے والے اور دستبرادر انقلابی رہنماوں اور کارکنوں کی بیوروکرٹیک، آزاد خیال، غیرذمہ دار، سست اور کاہل رویوں کے بارے میں پڑھا تو مجھے ہوبہو کئی چہرے بلوچ قومی تحریک میں بھی آج صاف و شفاف نظر آنے لگے لیکن پھر بھی انقلاب چین زوال پذیر اور ختم نہیں ہوا بلکہ کامیاب رہا۔ اس کی بنیادی وجہ دوسری طرف مکمل انقلابی رویے اور رجحانات شدت کے ساتھ موجود تھے، خاموش دستبرداری اور راہ فراریت والے رویے اور رجحانات تحریک اور تنظیم پر حاوی اور اثرانداز نہیں ہوئے، بلوچ قومی تحریک آج اس مقام پر کھڑا ہے، جہاں ایک طرف مکمل دشمن کی زوآوری ہے، دوسری طرف تحریک میں خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رجحانات لیکن حوصلے اور کامیابی کی امید اس بات کی ہے کہ ایک طرف بلوچ نوجوان انقلابی سوچ و فکر سے لیس قربانی کے جذبے سے برسرپیکار، بغیر الجھن کے پر عزم اور پرامید ہوکر دشمن کے خلاف سینہ سپرہوکر لڑرہے ہیں اور قربان ہورہے ہیں، یہی سوچ و احساس اور رجحان خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رویوں کو زائل کرکے ان کے اصل چہروں کو نوجوانوں اور قوم کے سامنے بے نقاب کردیتی ہے۔
اس وقت ایسے خاموش فراریوں اور دستبرادری کے رویے اور رجحانات کا پلڑا بھاری ہوگا اور منفی اثرات قوم اور نوجوانوں پر زیادہ تر نفسیاتی طور پر اثرانداز ہونگے، جب ہر طرف بے حسی، خوف، خود غرضی، غیر ذمہ داری، بیوروکریٹک سوچ، آرام و سکون اور زندگی کو بچانے والے رجحانات کا بازار گرم ہو۔ پھر یہ محرکات تحریکوں اور تنظیموں کے موت اور زوال ثابت ہوتے ہیں، پھر دشمن بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف تماشہ دیکھے کیونکہ ایسی خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رویئے خود تحریک اور تنظیم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں۔
خاموش دستبرداری اور راہ فراریت کے رویوں اور رجحانات کی تحریکوں اور تنظیموں میں کچھ مختصر علامات قابل ذکر ہیں، جو آپ کو ہر تحریکی تاریخ میں ملتی ہیں اور آج بلوچ قومی تحریک میں بھی موجود ہیں۔
سب سے پہلے تحریک کے ساتھ وابستہ رہ کر بھی غیر متحرک اور غیر فعال رہنا یعنی قوم اور تحریک کے لیئے کچھ بھی قابلِ ذکر نا کرنا، صرف وقت پاسی، باتیں و بحث و مباحثہ کرنا اور باتوں میں بھی زیادہ تر نقطہ چینی کرنا، کیڑے نکالنا، مایوسی، ناامیدی، الجھن پھیلانا۔
ہمیشہ خود سست، کاہل، غیر ذمہ دار، خوف زدہ رہنا اور ہر وقت اپنی جان کی حفاظت، پرآسائش، پرسکون زندگی اور ماحول کا خواہش مند رہنا اور بیوروکریٹک زندگی گذارنے کا طلب گار ہونا اور تحریک اور تنظیم کو صرف مراعات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھنا۔
خود قوم، تنظیم اور تحریک کے لیئے چند منٹ سرگرم نہیں رہنا، لیکن تحریک میں اپنے لیئے اعلیٰ مقام کا طلبگار رہنا۔
تحریک کے ساتھ جڑ کر بھی اپنے عمومی زندگی کی تمام راہیں اور آسائشیں ہموار رکھنا، تحریک میں کمزوری کا کوئی بھی شائبہ دیکھنے کے بعد سب پر الزام لگا کر اپنے تعمیر شدہ عمومی زندگی پر گامزن ہوجانا۔
اپنی تمام تر کمزوریوں اور نالائقیوں، راہ فراریت چھپانے کیلئے پوری تحریک کے ہر پہلو پر نکتہ چینی کرکے خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔
اپنے راہ فراریت کی راہ ہموار کرنے کیلئے، تحریک کو ناکام و کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرکے مایوسی پھیلانے کی کوشش کرنے، یہ ثابت کرنے کرنے کی کوشش کرنا کی جتنا چاہے جہد ہو تحریک کے بازوں میں اتنی قوت نہیں کہ وہ از خود کامیاب ہو تاکہ اسکے دستبرداری کو بھی تدبر سمجھا جائے۔
بہرحال کسی بھی تحریک اور تنظیم میں خاموش راہ فراریت اور دستبراد رویے تحریک اور تنظیم کے لیئے دشمن کی فوج اور جاسوسوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، ایسے رویے تحریک کو اندر سے مکمل کھوکھلا کردیتے ہیں، ان کے منفی اور گند آلود اثرات مایوسی اور الجھن کے شکل میں دیگر نوجوانوں پر پڑتے ہیں۔
ہمیشہ تنظیم اور تحریک میں ایسے رویوں اور رجحانات کی انتہائی بے رحم انداز میں بیخ کنی کرنا ہر حقیقی جہدکار کا فرض ہوتا ہے۔

четверг, 17 января 2019 г.


سندھیوں کی غلامی سے نجات اور آزادسندھو دیش کی بنیادیں جی ایم سید کے فلسفے میں مضمر ہیں،ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹراللہ نذر بلوچ نے ممتاز سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی ایک سو پندرہویں سالگرہ کے موقع پر جی ایم سید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھی قوم کے لئے جی ایم سید کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ وہ ایک رہبر اور ایک نمایاں مصنف تھے۔ سندھیوں کی غلامی سے نجات اور آزادسندھو دیش کی بنیادیں جی ایم سید کے فلسفے میں مضمر ہیں۔ ان کے فکر و عمل و تعلیمات سے استفادہ کرکے سندھی قوم پاکستان سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ اس جدید دور میں دوسری قوموں کو غلام رکھنا پاکستان کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گو کہ پاکستان جیسی غیر فطری ریاست سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد دیگر اقوام پر قابض ہوکر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کی غلامی میں بلوچ، سندھی اور پشتون کی قومی بقاء، زبان و ثقافت شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا بلوچ قوم کی طرح سندھی بھی غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سندھی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و روایات روندی جارہی ہیں۔ سندھی نوجوان اسی طرح زندانوں میں اذیتوں سے گزارے جارہے ہیں جس طرح ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان پاکستان کے زندانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں اور شہید ہورہے ہیں۔ آج سندھی بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزرر ہے ہیں جہاں قابض ریاست ان کے وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سندھی ایک قدیم تہذیب کا وارث اور ہزارہا سالوں سے اپنی سرزمین کا مالک ہے اور اپنی صوفیانہ نظریات کی وجہ سے انسان دوست اور اپنے ہمسایوں سے پرامن بقائے باہمی کے قائل قوم کی پہچان رکھتی ہے۔ لیکن آج یہ عظیم قوم ایک ایسی ریاست کا غلام ہے جو تہذیب و روایات سے مکمل طورپر ناآشنا ایک خونخوار درندہ ہے۔ پاکستان سندھی تہذیب و ثقافت پر یلغار کرکے یہاں مذہبی انتہا پسندی کے بیج بو کر اس کے روایتی اقدار کو پاؤں تلے روندنے کی کوششیں کررہا ہے تاکہ سندھی قوم سے اس کی پہچان چھین کر انہیں اپنی ہی سرزمین و ثقافت سے بیگانہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ، سندھی اور پشتون قوم کے لئے اپنی سرزمین، قومی بقاء اور تشخص کی حفاظت کے لئے واحد راستہ قومی آزادی اور پاکستانی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے۔ پاکستان نے اپنے سامراجی اتحادیوں کے ساتھ مل محکوم اور مظلوم قوموں کی سرزمین پر یلغار کرکے انہیں مٹانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ چین کے ساتھ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) جیسے معاہدے بلوچ اور سندھیوں کے وسائل کے استحصال کے منصوبوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
سات دہائیوں سے پاکستان ہمیں اپنی کالونی بنا کر نہ صرف ہمارے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے بلکہ ہمیں اپنے ہی سرزمین سے بیدخل کرکے اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ان حالات میں سندھیوں کو جی ایم سید کی سالگرہ کے موقع پر یہ تجدید عہد کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے عالمی قوانین کے تحت جد و جہد کے تمام ذرائع استعمال کرکے اپنی منزل آزادی کی جانب گامزن ہوں گے۔ گو کہ یہ ایک کھٹن راستہ ہے اور ہم ایک غیر مہذب، ظالم اور عالمی اقدار سے عاری ایک ایسی ریاست کے غلام ہیں جو بنگالیوں اور بلوچوں کی نسل کشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کر چکی ہے مگر آزادی کے بغیر بلوچ اور سندھی قومیتیں پاکستان کے ان مظالم اور نسل کش پالیسی کے تحت کرہ ارض پر ناپید ہوجائیں گی۔

среда, 16 января 2019 г.

بلوچ ڈائسپورا کے خلاف دشمن کا گٹھ جوڑ – برزکوہی

سن زو کے نزدیک خود کو پہچانو، دشمن کو پہچانو، ایک جنگ نہیں ہزار جنگیں جیت جاو گے، بالکل صیح فرمایا ہے مگر نہ خود کو پہچانو گے، نہ دشمن کو تو ہمیشہ شکست، پشیمانی، مایوسی، افسوس اور نقصان آپ کا مقدر ہوگا۔
ایسا بھی نہیں کہ صرف بلوچ اپنے دشمن کو مکمل طور پر نہیں پہچان رہا ہے بلکہ دشمن بھی اس وقت تک بلوچ کو کئی مقامات پر مکمل نہیں پہچان سکا ہے۔ لیکن زیادہ تر عدم پہچان کے آثار بلوچ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
آپ موجودہ تحریک کی شروعات کو دیکھیں تو رومانویت اور جذباتیت کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، گوکہ بہت سی جگہوں پر شعوری جہد ہوئی لیکن اکثر جہدوکاروں کی دشمن کے بارے میں غلط اندازوں، تجزیوں، خوش فہمیوں اور تصوراتی کیفیتوں نے ایک مقام پر آکر بلوچ قوم خاص کر بلوچ جہدوکاروں کو دشمن کی عدم پہچان کی صورت میں مایوسی، ناامیدی، نقصان اور پریشانی سے دوچار کیا۔
دشمن تو مرحلہ وار بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں پر مکمل نظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہوا آرہا ہے اور بلوچ جہدکار ضرور کچھ نہ کچھ جگہوں پر حکمت عملی کو بروئے کار لارہے ہیں لیکن زیادہ تر اللہ خیر کرے گا پر گذارہ کررہے ہیں۔
تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی دشمن نے سب سے پہلے بلوچستان کے شہروں اور دیہاتوں میں خاموشی اور صبر کیساتھ تمام بلوچ جہدکاروں اور تحریک کے حمایتیوں اور ہمدردوں کو نظر میں رکھنا شروع کیا، دشمن کی طرف سے دیئے گئے اس کھلے ماحول کو اسکے چال کے بجائے اپنی قوت سمجھ کر جہدکار خود کو ایکسپوز کرتے رہے اور بنا کسی احتیاطی تدبیر کے سرگرمِ عمل رہے، جب دشمن نے تمام کوائف جمع کرلیئے اور ایک نتیجہ پر پہنچ کر، سب کو ختم کرنے کا اک دم فیصلہ کرلیا، اسی وجہ سے بہت سے نوجوان شہید اور ہزاروں لاپتہ ہوگئے اور کسی کو سنبھلنے کا موقع تک نا ملا۔
اس کے بعد پہاڑوں میں وہی صورتحال دیکھنے کو ملی، تمام چیزیں، نقل و حرکت، بلوچ ہمدردوں اور جہدکاروں پر نظر رکھا گیا، نشاندہی کی گئی اور پھر وہاں پر بتدریج حملے شروع ہوئے، بہت سے محفوظ ٹھکانوں کو بے احتیاطی کی وجہ سے دشمن نے جہدکاروں کیلئے غیرمحفوظ بنادیا۔ بلوچ نسل کشی، تشدد، چھاپہ، لاپتہ، اغواء، سرنڈر وغیرہ وغیرہ تمام سازش اور حربے تسلسل اور شدت کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہروں و دیہاتوں اور پھر پہاڑوں کی حد تک دشمن کے منصوبوں کے بارے میں بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو کس حد تک صحیح معنوں میں اندازہ اور ادراک تھا؟ کہ اس حد تک دشمن جاسکتا ہے؟ صحیح تجزیہ، صحیح اندازہ اور صحیح ادراک یا پھر اللہ خیر یعنی جگاڑ، تکا اور نظر انداز والا رویہ؟ کیا خود اللہ خیر کرے گا والا فارمولہ اور تکیہ کلام دوسرے معنوں میں لاعلمی، عدم پہچان اور بے بسی کی نشاندہی نہیں ہے؟ یا حسب روایات اور حسب عادت ہے؟
اسی طرح آج بالکل بلوچ قوم، خصوصاً بلوچ نوجوان اور بلوچ قومی تحریک کے حقیقی قوتوں کو یہ ادراک ہوچکا ہے کہ پاکستان اور چین کی بلوچوں کے خلاف یلغار، بلوچوں کو عنقریب صفحہ ہستی سے مٹادینگے تو بلوچ بھی آخری حد تک جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان چین کے ساتھ ساتھ دیگر قوتوں کے علاوہ اب سعودی عرب بھی رفتہ رفتہ سامنے آرہا ہے، جو عسکری، معاشی اور سفارتی حوالے سے بلوچ قوم اور تحریک کا گھیراو تنگ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان کے علاوہ ایک کم سطح پر بیرون ممالک میں مقیم بلوچوں کے خلاف گھیراو تنگ کرنے کی کوشش بھی نظر آتا ہے۔ کچھ جگہوں پر دشمن کامیاب بھی ہوا ہے، سمجھوتہ، دباو، پریشر، مذاکرات، خاموش محدود سرگرمیوں کی حد تک دوستانہ دشمنی وغیرہ وغیرہ لیکن آج پاکستان چین گٹھ جوڑ سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ انتہائی ترندوتیز انداز میں بیرون ممالک میں دیگر ممالک پر دباو بڑھا کر بلوچوں کے خلاف گھیراو تنگ کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
آج بیرونِ ملک ہمیں دوبارہ وہی غلطیاں دہرتی ہوئی نظر آرہی ہیں جو تحریک کے ابتدائی دنوں میں ہوئی، دشمن خاموشی سے بیٹھا دیکھ رہا ہے اور ایک ایک کی نشاندہی کررہا ہے اور وقت آنے پر معلوم نہیں وہ ایک ساتھ کس حکمت عملی پر پورے بلوچ ڈائسپورا پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا، لیکن ہم دشمن کا کام آسان کررہے ہیں، وہی جہد کار جو ملک میں رازداری کے ساتھ رہتے تھے اب خود کو اتنا آزاد اور بے باک سمجھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر انکے لائیو سیشن چلتے ہیں، انکے ذاتی آئی ڈیوں پر انکے پکنکوں انکے گھر و ٹھکانوں اور تازہ ترین تصویروں سب کا پتہ موجود ہے۔ اب جب دشمن نے نئے حکمت عملی سے باہر مقیم جہدکاروں پر ہاتھ ڈالا تو پھر جانے کتنا نقصان، کتنے ڈر کے مارے سرنڈر، کتنے شہید و گرفتار ہوجائینگے۔ پھر پچھتائے کیا ہوت کے مصداق سر پیٹتے بیٹھ جائیں۔
کیا اس حوالے سے بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو اندازہ اور ادراک ہے؟ کیا اسی خوف اور اندازے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ پہلے جدوجہد سے ہاتھ اوپر کرکے غیر اعلانیہ طور پر کنارہ کش ہوچکے ہیں؟ کیا باقی بلوچوں کو اندازہ اور ادراک ہے کہ کل کیا ہوگا؟
انسان کا ایک مجموعی نفسیات ہے، خاص طور پر بلوچوں میں یہ زیادہ ملتا ہے کہ جب تک اس کو کسی بھی حالت اور واقعے کا سامنا نہیں ہو، اس وقت تک وہ سنے گا نہیں، اگر سنے گا بھی تو عمل بالکل نہیں کریگا۔ جب حالات اور واقعات رونما ہونگے تو پھر افسوس، پشیمانی، مایوسی، ناامیدی، چیخ و پکار جیسے عمل حقیقت میں خود اپنے اندر نالائقی، بے شعوری اور کم عقلی نہیں ہے؟ کیا جدوجہد، نالائقی، کم عقلی، لاشعوری، دشمن کا عدم ادراک اور عدم پہچان کی بنیاد پر آگے بڑھا جاسکتا ہے اور کامیاب ہوا جاسکتا ہے؟
18 سالوں سے لیکر آج تک اگر بلوچوں، خاص طور پر نوجوانوں کو لڑانا، ہزاروں کے تعداد میں نوجوانوں کی قربانیاں، شہادت، گرفتاریاں، نسل کشی، گھروں کی مسماری، درپدر زندگی کے بعد ایک مخصوص گروپ آکر یہ بیہودہ و لغو فلسفہ پیش کرے کہ جی جتنی شہادتیں تھیں، جتنوں نے جانیں قربان کیں وہ سب غلط تھے اور غلطیاں تھیں، مزید بلوچوں اور خاص کر نوجوانوں کو قربان نہیں کرنا ہے بلکہ ان کوبچانا ہے انتظار کرنا ہے، جب کوئی قوت ہمیں سپورٹ کریگا پھر جدوجہد شروع کرینگے، ابھی صرف نام نہاد ڈپلومیسی ہوگا۔ کیا یہ خود دشمن کی عدم پہچان اور عدم ادراک کے پیش نظر دباو، خوف، راہ فراریت، کنارہ کشی، سمجھوتہ، خفیہ سرنڈر، جدوجہد سے جان چھڑانے والی کوشش نہیں ہے؟ یا بلوچ قوم خصوصاً بلوچ نوجوانوں کو مزید دھوکا دہی، دروغ گوئی، سبز باغ دکھانے کے چکر میں منافقت نہیں ہے؟ کیا ایسے گروہ تحریک کے دشمن نہیں ہیں؟ دشمن سے زیادہ خطرناک نہیں؟ کہ 18 سالوں سے ہزاروں نوجوانوں کے لہو کے ساتھ کھیل کر اچانک کچھ علاقائی اور کچھ عالمی سطح پر دشمن کے دباو اور خوف کا شکار ہوکر غوث بخش بزنجو، ڈاکٹر الحئی اور ڈاکٹر مالک کے عدم تشدد، مصلحت پسندی اور سمجوتہ والے فارمولے کو پیش کرکے نوجوانوں کو خاموش کرانے کی کوشش شروع کی جائے۔ یہ واضح طور پر بلوچوں اور شہداء کے خون کے ساتھ دھوکا اور دغا بازی نہیں ہے؟
بہرحال آج پاکستان اور چین بلوچستان سمیت دیگر ممالک میں اپنے بلوچ دشمن پالیسیوں کو وسعت دیکر دیگر ممالک پر سفارتی و معاشی دباو بڑھاکر بلیک ملینگ کی حد تک بلوچوں کے خلاف بیروں ممالک میں بھی ایکشن شروع کرچکے ہیں اور اس میں مزید شدت اور وسعت پیدا ہوگا، اب بیرون ممالک میں مقیم بلوچ کس حد تک دنیا کو دیگر مہذب اقوام کے سامنے اپنی فریاد لیکر کام کرچکے ہیں کہ دنیا اور مہذب اقوام پاکستان اور چین کے بلوچ دشمن عوامل کے خلاف آواز اٹھائے؟
صرف بلوچستان کی حالات سے جان بچا کر بیرون ممالک میں سرچھپانا؟ پھر میرے خیال میں اب یہ سر وہاں بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ یا تو بلاخوف جدوجہد کا مکمل حصہ بلکہ قربانی کے لیئے ہر وقت تیار ہونا یا دشمن کے سامنے سرجھکانا اس کے علاوہ درمیانی راستہ خدائی ملنے ساتھ میں وصال صنم ہونے والا فارمولہ مزید کامیاب اور کارگر ثابت نہیں ہوگا۔
بجائے بلوچ جہدکار وقت پاسی، آرام اور سکون اور جان بچانے کے فارمولے کو ترک کرکے دن و رات سرگرم عمل ہوکر منظم انداز میں، غیرروایتی انداز میں اپنے جدوجہد کو تیز کرکے مہذب دنیا اور مہذب اقوام کو یہ باور کرا دیں کہ پاکستان اور چین کے ہاتھوں آگے بلوچ کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہوگا، تو انسانی بنیادوں پر مہذب دنیا اور مہذب اقوام پاکستان اور چین کے خلاف ایکشن لے، یہی شعوری جدوجہد کا تقاضہ ہے۔

вторник, 8 января 2019 г.

شہید امیرالملک بلوچ کی کچھ یادیں
تحریر : بہار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: اردو کالم
ایک دن میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا، میرے موبائل پر ایک رونگ نمبر سے کال آیا۔ میں نے کال اٹینڈ نہیں کیا، چار پانچ بار کال آیا پھر میسج آیا۔ میسج میں “سنگت نی ہال کر” لکھا تھا۔ میں نے کہا “جی نی دیر؟” جواب آیا “میں جمال۔” جمال سن کر میں اٹھا اور ساٸیڈ ہو کر کال کیا۔ امیر نے کہا “سنگت امرس انت ہالے نا؟” “جی خیرے شکر ے جوانن، نی بنِف تینا خواجہ.” امیر جواب ٸٹ پارے “نن بیدار ٸون بادشاہ” امیر نے کہا “خواجہ ننا غریباتا کال ۓ ہفپیرے۔” میں نے ہنس کر بولا “جی خواجہ نا نمبر سیو الو ننتو بشخس.” ہال حوال کے بعد امیر جان نے مجھے بتایا ۔ جی آپ سے کچھ کام ہے، آپ آسکتے ہو؟ جی ہاں بلکل خواجہ اور ہاں اکیلے آنا، ٹھیک خواجہ، میں کچھ دن بعد امیر کے پاس چلا گیا۔
امیر کے پاس کچھ دوست تھے۔ امیر سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوٸی، امیر بہت ہنستے اور مزاق کرتے تھے. میں اور امیرجان بیٹھ کر چائے پی رہے تھے، تو امیر جان نے مجھے ہال احوال کیا. پھر مزاق کے موڈ میں آکر بہت مزاق کیا۔ میں نے امیرسے پوچھا امیر جان آپ چمن کے پھول ہو، یہاں جنگل میں کیا کررہے ہو؟ امیرجان نے ہنس کر کہا “اگر میں شہر میں ہوتا، گھر سے بازار کی طرف جاتا، تو پنجابی فوج مجھے روک کر پہلے مجھ سے پوچھتے کہاں سے آرہے ہو؟ کیا نام ہے؟ کدھر جارہے ہو؟ کیا کام کرتے ہو؟” امیرجان بالکل خاموش ہو گٸے۔
میں نے پوچھا پھر آپ کیا کہتے پنجابی فوجی کو؟ امیرجان ہنس کے بندوق اٹھا کر بولاٗ “پہاڑوں سے آرہا ہوں، نام بندق سے نکلتی گولی بتاٸے گا، آپ کو مارنے آیا ہوں، سرمچار ہوں سمجھے؟”
میں نے امیر سے پوچھا “آپ ہمیشہ ہنستے ہو، اسی طرح خوش رہتے ہو یا صرف آج میرے ساتھ ایسے ہو، آپ کا بھاٸی لاپتہ ہے آپ کے کٸی کزن لاپتہ ہیں، آپ کے رشتہ داروں کو لاپتہ کیاگیاہے، جو دشمن کے پاس قید میں بند ہیں، آپ کے کچھ رشتہ دار شہید کیٸے گٸے ہیں، آپ کے دوستوں کو اسی طرح لاپتہ یا شہید کیاگیا ہے، لیکن آپ کے چہرے پر ایسی کوٸی پریشانی نہیں ہے؟”
امیر مسکراتے ہوئے بولے” سنگت یہ سب جہد ِآزادی کے حصے ہیں، مجھے اپنے بھاٸی، رشتہ داروں یا دوستوں کے لاپتہ یا شہید ہونے پر فخرہے۔ بلوچ قومی آزادی کے لیئے ہر بلوچ پر فرض ہے کہ اس جنگ کا حصہ بنیں، ہمیں بیٹھے بیٹھے آزادی نہیں ملےگی۔”
میں نے پوچھا “امیر جان بی ایل اے اور یو بی اے کے مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟” امیر بولے “جی اختلاف ہے بی ایل اے اور یو بی اے کے درمیان، یہ انشااللہ بہت جلد ختم ہو جائیں گے۔”
میں نے پوچھا “امیرجان آپ کے کچھ رشتہ داروں کو بی ایل اے نے قتل کردیا تھا؟” امیر جان نے کہا “جی ہاں کچھ غدار تھے ان کو قتل کیا ہے۔” میں نے پوچھا “امیر آپ کے رشتہ داروں کو قتل کیا پھر بھی آپ نے کچھ نہیں کہا؟” امیر ہنسے ہوئے بولا “ایلم بلوچ قوم میں غداری جس نے بھی کی، تو سرمچاروں کو حق ہے کہ اُن کو قتل کردیں، چاہے جو بھی ہوں۔”
میں نے پوچھا “امیرجان یہ جو گولی ہے آپ کے گردن میں بندھی یہاں کیوں؟” امیر بولے “جگر یہ اس لیئے کہ دشمن سے مقابلہ ہو اور جب ہماری گولیاں ختم ہوجائیں تو دشمن کو گرفتاری دینے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنی آخری گولی مار دیں۔”
میں خاموش ہوگیا، پھر امیر جان نے کہا صحافی صاحب سوال ختم ہو گیئے ۔ ہم دونوں ہنسنے لگے پھر میں نے کہا جی نہیں کچھ سوال ہیں، اچھا پھر پوچھ لیں. میں نے پھر پوچھا “امیر جان آپ اپنے بالوں کو کیا لگاتے ہیں؟” وہ زور سے ہنستے ہوئے بولا “یار آپ میرے بالوں کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ میں دیر سے دیکھ رہا ہوں، آپ کی نظر میرے بالوں پر ہے۔”
ہم دونوں بہت ہنس رہے تھے، میں نے ہنستے ہوئے کہا “ماشاءاللہ بہت اچھے ہیں۔” پھر امیر جان علاقے کا، شھر کا دوستوں کا، دشمنوں کا سب کا پوچھ رہے تھے۔ میں نے امیر سے کسی دوست کے بارے میں پوچھا، امیر جان نے کہا کہ وہ یہاں ہے لیکن تھوڑا دور ہے، پھر آوگے تو ملنا ٹھیک۔
میں نے کہا “ٹھیک ہے میں آپ سے ملنے بہت جلد آجاونگا۔” مجھے یہ پتہ نھیں تھا کہ میرا اور امیر جان کا یہ آخری ملاقات ہوگا، جب میں واپس آیا تو امیر جان راستے تک آیا، میں نے امیر کےچہرے کو دیکها، امیر جان ہنس رہا تھا، جب میں نے امیر سے رخصت لیا. تو میرا دل نہیں کررہا تھا واپس ہونے کو، دل کرتا تھا کہ امیرجان کے پاس رہوں یا امیر کو ساتھ لے کر چلوں کچھ دن تک امیر کی باتیں، ہنسی، چہرہ میرے ساتھ تھا۔
ایک دن میرے ایک دوست کی شادی تھی۔ میں کچھ دوستوں کے پاس بیٹھا تھا، ایک دوست نے کہا کہ کل قلات میں ایک بہت خون ریز آپریشن ہوا ہے، ایک سرمچار کے شہید ہونے کی اطلاع ہے، میں نے دوست سے شہید ہونے والے سرمچار کا نام پوچھا تو دوست نے بتایا کہ “امیرالملک” تو میرے لیئے زمین اور آسمان ایک ہوگئے. میں نے کسی اور دوست سے پوچھا اُس نے بھی کہا کہ بی ایل اے نے بیان دیا ہے کہ قلات آپریشن میں امیرالملک عرف جمال شھید ہوگئے ہیں۔