بلوچ ڈائسپورا کے خلاف دشمن کا گٹھ جوڑ – برزکوہی
سن زو کے نزدیک خود کو پہچانو، دشمن کو پہچانو، ایک جنگ نہیں ہزار جنگیں جیت جاو گے، بالکل صیح فرمایا ہے مگر نہ خود کو پہچانو گے، نہ دشمن کو تو ہمیشہ شکست، پشیمانی، مایوسی، افسوس اور نقصان آپ کا مقدر ہوگا۔
ایسا بھی نہیں کہ صرف بلوچ اپنے دشمن کو مکمل طور پر نہیں پہچان رہا ہے بلکہ دشمن بھی اس وقت تک بلوچ کو کئی مقامات پر مکمل نہیں پہچان سکا ہے۔ لیکن زیادہ تر عدم پہچان کے آثار بلوچ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
آپ موجودہ تحریک کی شروعات کو دیکھیں تو رومانویت اور جذباتیت کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، گوکہ بہت سی جگہوں پر شعوری جہد ہوئی لیکن اکثر جہدوکاروں کی دشمن کے بارے میں غلط اندازوں، تجزیوں، خوش فہمیوں اور تصوراتی کیفیتوں نے ایک مقام پر آکر بلوچ قوم خاص کر بلوچ جہدوکاروں کو دشمن کی عدم پہچان کی صورت میں مایوسی، ناامیدی، نقصان اور پریشانی سے دوچار کیا۔
دشمن تو مرحلہ وار بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں پر مکمل نظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہوا آرہا ہے اور بلوچ جہدکار ضرور کچھ نہ کچھ جگہوں پر حکمت عملی کو بروئے کار لارہے ہیں لیکن زیادہ تر اللہ خیر کرے گا پر گذارہ کررہے ہیں۔
تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی دشمن نے سب سے پہلے بلوچستان کے شہروں اور دیہاتوں میں خاموشی اور صبر کیساتھ تمام بلوچ جہدکاروں اور تحریک کے حمایتیوں اور ہمدردوں کو نظر میں رکھنا شروع کیا، دشمن کی طرف سے دیئے گئے اس کھلے ماحول کو اسکے چال کے بجائے اپنی قوت سمجھ کر جہدکار خود کو ایکسپوز کرتے رہے اور بنا کسی احتیاطی تدبیر کے سرگرمِ عمل رہے، جب دشمن نے تمام کوائف جمع کرلیئے اور ایک نتیجہ پر پہنچ کر، سب کو ختم کرنے کا اک دم فیصلہ کرلیا، اسی وجہ سے بہت سے نوجوان شہید اور ہزاروں لاپتہ ہوگئے اور کسی کو سنبھلنے کا موقع تک نا ملا۔
اس کے بعد پہاڑوں میں وہی صورتحال دیکھنے کو ملی، تمام چیزیں، نقل و حرکت، بلوچ ہمدردوں اور جہدکاروں پر نظر رکھا گیا، نشاندہی کی گئی اور پھر وہاں پر بتدریج حملے شروع ہوئے، بہت سے محفوظ ٹھکانوں کو بے احتیاطی کی وجہ سے دشمن نے جہدکاروں کیلئے غیرمحفوظ بنادیا۔ بلوچ نسل کشی، تشدد، چھاپہ، لاپتہ، اغواء، سرنڈر وغیرہ وغیرہ تمام سازش اور حربے تسلسل اور شدت کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہروں و دیہاتوں اور پھر پہاڑوں کی حد تک دشمن کے منصوبوں کے بارے میں بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو کس حد تک صحیح معنوں میں اندازہ اور ادراک تھا؟ کہ اس حد تک دشمن جاسکتا ہے؟ صحیح تجزیہ، صحیح اندازہ اور صحیح ادراک یا پھر اللہ خیر یعنی جگاڑ، تکا اور نظر انداز والا رویہ؟ کیا خود اللہ خیر کرے گا والا فارمولہ اور تکیہ کلام دوسرے معنوں میں لاعلمی، عدم پہچان اور بے بسی کی نشاندہی نہیں ہے؟ یا حسب روایات اور حسب عادت ہے؟
اسی طرح آج بالکل بلوچ قوم، خصوصاً بلوچ نوجوان اور بلوچ قومی تحریک کے حقیقی قوتوں کو یہ ادراک ہوچکا ہے کہ پاکستان اور چین کی بلوچوں کے خلاف یلغار، بلوچوں کو عنقریب صفحہ ہستی سے مٹادینگے تو بلوچ بھی آخری حد تک جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان چین کے ساتھ ساتھ دیگر قوتوں کے علاوہ اب سعودی عرب بھی رفتہ رفتہ سامنے آرہا ہے، جو عسکری، معاشی اور سفارتی حوالے سے بلوچ قوم اور تحریک کا گھیراو تنگ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان کے علاوہ ایک کم سطح پر بیرون ممالک میں مقیم بلوچوں کے خلاف گھیراو تنگ کرنے کی کوشش بھی نظر آتا ہے۔ کچھ جگہوں پر دشمن کامیاب بھی ہوا ہے، سمجھوتہ، دباو، پریشر، مذاکرات، خاموش محدود سرگرمیوں کی حد تک دوستانہ دشمنی وغیرہ وغیرہ لیکن آج پاکستان چین گٹھ جوڑ سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ انتہائی ترندوتیز انداز میں بیرون ممالک میں دیگر ممالک پر دباو بڑھا کر بلوچوں کے خلاف گھیراو تنگ کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
آج بیرونِ ملک ہمیں دوبارہ وہی غلطیاں دہرتی ہوئی نظر آرہی ہیں جو تحریک کے ابتدائی دنوں میں ہوئی، دشمن خاموشی سے بیٹھا دیکھ رہا ہے اور ایک ایک کی نشاندہی کررہا ہے اور وقت آنے پر معلوم نہیں وہ ایک ساتھ کس حکمت عملی پر پورے بلوچ ڈائسپورا پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا، لیکن ہم دشمن کا کام آسان کررہے ہیں، وہی جہد کار جو ملک میں رازداری کے ساتھ رہتے تھے اب خود کو اتنا آزاد اور بے باک سمجھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر انکے لائیو سیشن چلتے ہیں، انکے ذاتی آئی ڈیوں پر انکے پکنکوں انکے گھر و ٹھکانوں اور تازہ ترین تصویروں سب کا پتہ موجود ہے۔ اب جب دشمن نے نئے حکمت عملی سے باہر مقیم جہدکاروں پر ہاتھ ڈالا تو پھر جانے کتنا نقصان، کتنے ڈر کے مارے سرنڈر، کتنے شہید و گرفتار ہوجائینگے۔ پھر پچھتائے کیا ہوت کے مصداق سر پیٹتے بیٹھ جائیں۔
کیا اس حوالے سے بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو اندازہ اور ادراک ہے؟ کیا اسی خوف اور اندازے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ پہلے جدوجہد سے ہاتھ اوپر کرکے غیر اعلانیہ طور پر کنارہ کش ہوچکے ہیں؟ کیا باقی بلوچوں کو اندازہ اور ادراک ہے کہ کل کیا ہوگا؟
انسان کا ایک مجموعی نفسیات ہے، خاص طور پر بلوچوں میں یہ زیادہ ملتا ہے کہ جب تک اس کو کسی بھی حالت اور واقعے کا سامنا نہیں ہو، اس وقت تک وہ سنے گا نہیں، اگر سنے گا بھی تو عمل بالکل نہیں کریگا۔ جب حالات اور واقعات رونما ہونگے تو پھر افسوس، پشیمانی، مایوسی، ناامیدی، چیخ و پکار جیسے عمل حقیقت میں خود اپنے اندر نالائقی، بے شعوری اور کم عقلی نہیں ہے؟ کیا جدوجہد، نالائقی، کم عقلی، لاشعوری، دشمن کا عدم ادراک اور عدم پہچان کی بنیاد پر آگے بڑھا جاسکتا ہے اور کامیاب ہوا جاسکتا ہے؟
18 سالوں سے لیکر آج تک اگر بلوچوں، خاص طور پر نوجوانوں کو لڑانا، ہزاروں کے تعداد میں نوجوانوں کی قربانیاں، شہادت، گرفتاریاں، نسل کشی، گھروں کی مسماری، درپدر زندگی کے بعد ایک مخصوص گروپ آکر یہ بیہودہ و لغو فلسفہ پیش کرے کہ جی جتنی شہادتیں تھیں، جتنوں نے جانیں قربان کیں وہ سب غلط تھے اور غلطیاں تھیں، مزید بلوچوں اور خاص کر نوجوانوں کو قربان نہیں کرنا ہے بلکہ ان کوبچانا ہے انتظار کرنا ہے، جب کوئی قوت ہمیں سپورٹ کریگا پھر جدوجہد شروع کرینگے، ابھی صرف نام نہاد ڈپلومیسی ہوگا۔ کیا یہ خود دشمن کی عدم پہچان اور عدم ادراک کے پیش نظر دباو، خوف، راہ فراریت، کنارہ کشی، سمجھوتہ، خفیہ سرنڈر، جدوجہد سے جان چھڑانے والی کوشش نہیں ہے؟ یا بلوچ قوم خصوصاً بلوچ نوجوانوں کو مزید دھوکا دہی، دروغ گوئی، سبز باغ دکھانے کے چکر میں منافقت نہیں ہے؟ کیا ایسے گروہ تحریک کے دشمن نہیں ہیں؟ دشمن سے زیادہ خطرناک نہیں؟ کہ 18 سالوں سے ہزاروں نوجوانوں کے لہو کے ساتھ کھیل کر اچانک کچھ علاقائی اور کچھ عالمی سطح پر دشمن کے دباو اور خوف کا شکار ہوکر غوث بخش بزنجو، ڈاکٹر الحئی اور ڈاکٹر مالک کے عدم تشدد، مصلحت پسندی اور سمجوتہ والے فارمولے کو پیش کرکے نوجوانوں کو خاموش کرانے کی کوشش شروع کی جائے۔ یہ واضح طور پر بلوچوں اور شہداء کے خون کے ساتھ دھوکا اور دغا بازی نہیں ہے؟
بہرحال آج پاکستان اور چین بلوچستان سمیت دیگر ممالک میں اپنے بلوچ دشمن پالیسیوں کو وسعت دیکر دیگر ممالک پر سفارتی و معاشی دباو بڑھاکر بلیک ملینگ کی حد تک بلوچوں کے خلاف بیروں ممالک میں بھی ایکشن شروع کرچکے ہیں اور اس میں مزید شدت اور وسعت پیدا ہوگا، اب بیرون ممالک میں مقیم بلوچ کس حد تک دنیا کو دیگر مہذب اقوام کے سامنے اپنی فریاد لیکر کام کرچکے ہیں کہ دنیا اور مہذب اقوام پاکستان اور چین کے بلوچ دشمن عوامل کے خلاف آواز اٹھائے؟
صرف بلوچستان کی حالات سے جان بچا کر بیرون ممالک میں سرچھپانا؟ پھر میرے خیال میں اب یہ سر وہاں بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ یا تو بلاخوف جدوجہد کا مکمل حصہ بلکہ قربانی کے لیئے ہر وقت تیار ہونا یا دشمن کے سامنے سرجھکانا اس کے علاوہ درمیانی راستہ خدائی ملنے ساتھ میں وصال صنم ہونے والا فارمولہ مزید کامیاب اور کارگر ثابت نہیں ہوگا۔
بجائے بلوچ جہدکار وقت پاسی، آرام اور سکون اور جان بچانے کے فارمولے کو ترک کرکے دن و رات سرگرم عمل ہوکر منظم انداز میں، غیرروایتی انداز میں اپنے جدوجہد کو تیز کرکے مہذب دنیا اور مہذب اقوام کو یہ باور کرا دیں کہ پاکستان اور چین کے ہاتھوں آگے بلوچ کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہوگا، تو انسانی بنیادوں پر مہذب دنیا اور مہذب اقوام پاکستان اور چین کے خلاف ایکشن لے، یہی شعوری جدوجہد کا تقاضہ ہے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий