جنرل اسلم – سنگت رضا بہار
کاش 2018 کے سال میں وہ دن نہ آتا جس نے ہمارے خوابوں ومنصوبوں کو مرجھا دیا۔ روایتی تحریر سے بڑھ کر میں جنرل کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن بابا کی مہر و محبت کے آگے میرے الفاظ دم توڑ دیتے ہیں ، یقین نہیں ہو رہا ہے کہ وہ شفیق استاد آج ہمارے درمیان موجود نہیں، جب بھی میں بابا اسلم سے ملتا تھا تو پہلے وہ مجھ سے میرے ساتھیوں کے بارے میں پوچھتا تھا، ساتھی کیسے ہیں، علاقہ کیسا ہے، ساتھیوں کے کام کس طرح چل رہے ہیں، کوئی ضرورت ہو تو لازم مجھے بتادینا۔ بابا آج مجھے سب سے زیادہ آپکی کمی محسوس ہورہی ہے، بابا کے کچھ سنہرے الفاظ آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں وہ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ کام کو آگے لے جانا ہے اور بکھرے ہوئے نوجوانوں کا طاقت یکجاہ کرنا ہے، وہ ہمیشہ کہتا تھا وقت ضایع کرنا نہیں چاہیئے ، دشمن کو بڑے بڑے نقصان دینے چاہیئے، چھوٹے چھوٹے حملوں سے دشمن کمزور نہیں ہوتا، اب وقت آ چکا ہے کہ ہمیں دشمن کے مورچوں میں گھس کر وار کرنا چاہیئے۔
انکا ہمیشہ کہنا تھا کہ آؤ ساتھ چلتے ہیں، اور دشمن کی ہستی سے مٹا دینگے، اپنے شہادت سے چند منٹ پہلے بابا نے کہا تھا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو دشمن کو بتادونگا کہ اسلم کون ہے اور بلوچ طاقت کیا ہے۔ لیکن آہ! بابا آج ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔ مجھے پورا یقین ہے ہم بلوچ نوجوان بابا کا خواب آزادی ضرور پورا کرینگے اور دشمن کو بتادینگے اسلم کون تھا اور بلوچ کا اصل طاقت کیا ہے، کیا ہوا آج وہ ہمارے محفل میں موجود نہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جنرل کا فکر و فلسفہ ہمیشہ ہمارے کام میں جان ڈالے گا اور ہمارے قدموں کو مزید تقویت بخشے گا۔
ان 25 سالوں کی انتھک جدوجہد میں بابا نے بولان سے لیکر مشکے و ساہیجی کے پہاڑوں میں شیروں کو جنم دیا ہے۔ آج اگر ہمارے درمیان جنرل بابا اسلم جیسا مکمل فوجی دماغ کا سربراہ موجود نہیں لیکن وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ جنرل کے پاکیزہ سوچ کو آگے لے جانا ہے۔ اگر ہم اسی طرح نیک نیتی و خلوص سے اپنا کام آگے لے جائیں تو مجھے پورا یقین ہے ہمارے صفوں میں جنرل جیسے بہت سے فوجی جنرل جنم لینگے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ ہم جنرل اسلم بلوچ کی فکر کی پیروی کریں۔ ہمیں ہر محاذ میں اپنی قومی جنگ کو آگے بڑھانا ہے، ہمیں کسی سے نہیں ڈرنا چاہیئے کیونکہ ہم ایک جائز لڑائی لڑ رہے ہیں۔
اس مختصر تحریر میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں، ہمیں وقت کو ضائع کرنا نہیں چاہیئے، ہمیں بلوچ قومی جنگ کو ایک مکمل فوجی تنظیم کی شکل میں تبدیل کرنا ہے۔
جب ہمارے پاس ایک قومی ادارہ ہوگا تو جنرل اسلم بلوچ جیسے بہت سے فوجی جنرل جنم لینگے، شرط یہی ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے ناموں سے بالاتر سوچیں، ہم جتنا قومی تحریک کو منظم و یکجاء کرینگے اتنا ہی نیک نام کمالینگے۔ قومی جدوجہد کو اگر کامیاب کرنا ہے تو جنرل سلم بلوچ کی طرح وسیع الذہن ہونا چاہیئے، جنرل کی طرح فوجی ذہنیت رکھنا چاہیئے، کیونکہ ہمارا مقابلہ پاکستان جیسے مکار فوج سے ہے۔ ہمیں فوجی بن کر ایک فوج کا مقابلہ کرنا چاہیئے، ہمیں قومی تحریک کو ایک مزاحمتی تنیطم میں تبدیل کرنا ہے، ہمیں وسیع الذہن ہونا چاہیئے، ہمیں آگے بڑھنا ہے، ہمیں اپنے ذمہ داریوں کو سمجھنا ہے، اپنے کام میں شدت لانا ہے۔
اگر ہمیں جنرل سے محبت ہے تو ہمیں انکے کہے ہوئے باتوں پہ عمل کرنا ہے۔ ہمیں مکمل عملی انسان بننا چاہیئے، جنرل اسلم بلوچ جھد آجوئی کا پیغمبر تھا، وہ جاتے جاتے ہمیں دشمن کو کیسے سبق دینا ہے۔ سب کچھ سکھا کے گیا، اب ہم پر کام کا بوجھ ہے، ہمیں گبھرانا نہیں چاہیئے بس آگے بڑھنا ہے، دشمن کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کرنا ہے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий