Powered By Blogger

суббота, 5 июля 2014 г.

سرداری راستےپرہم آزاد بھی ہوئے تو ہمارا مستقبل انکولا سے بھی بدتر ہوگا: حیربیار!!!

بلوچ راج دوست رہنماء واجہ حیربیارمری نے کہا ہے کہ نواب خیربخش مری کے وفات کے بعد نوابی کے لیے جنگیز کی دوڑ شروع ہوئی تو میں نے واضع کیا تھا کہ خیر بخش مری ایک فکر اور سوچ کا نام ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں مری قوم کی سرداری اور نوابی سے زیادہ بلوچ قوم کی قومی تشخص کی تحفظ قومی یکجہتی اور آزادی کے لیے جدوجہد کی اور مصیبتیں اور تکالیف جھیلے تاکہ بلوچ ایک قوم کی حیثیت سے اپنی مقصد میں کامیاب ہو سکے-

نواب مری کی اسی سوچ اور فکر پر چلتے ہوئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں اور بزرگوں نے قربانیاں دیں-

ہزاروں فرزند اب بھی دشمن کے تہہ خانوں اور ٹارچر سیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں-

بلوچ قوم کے مرد خواتین بچے بوڑھے سب کے سب نواب مری کے اس قومی سوچ و فکر اور نظریہ کی خاطرْ قبضہ گیر کی ہولناک وحشیانہ درندگی کا سامنہ کر رہے ہیں-

عام بلوچ اپنی قومی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ تیاگ چکے ہیں-

آزمائش کی بھٹی سے گزرنے کے لیے اب باری قوم کے نام پرجدوجہد کرنے والے لیڈروں کی آئی کہ وہ نوابی کے اختیارات ان جہدکاروں کے حوالے کریں تاکہ وہ قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مضبوطی سے فیصلے کر سکیں-

کیونکہ بلوچستان کی آزادی کے بعد یہی اختیارات بلوچ ریاست کو منتقل ہونے ہیں-

لیکن ابتلا کی اس مراحل میں نوابی سرداری اور لیڈری کے ریس میں لگے ان سب کی پوزیشن اور حیثیت قوم کے سامنے طشت ازبام ہوا-

حیربیار نے کہا کہ ایک طرف ہم قوم کی رہنمائی کرنے اور انقلابی جدوجہد کا دعوے کرتے ہیں-

لیکن دوسری طرف کچھ لوگ سرداری اور نوابی کے ٹائٹلز سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور یہی جواز پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم نواب نہیں بنے تو دوسرے بنیں گے جو قوم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں-

مہران یا کہ دوسرے نوابی کے دعوایدار لوگوں کے جواز میں اور بی این پی اور نیشنل پارٹی کے پارلیمنٹ میں جانے کے جواز میں ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آتا-

نیشنل پارٹی اور بی این پی بھی یہی جواز پیش کرکے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں کہ اگر ہم نہیں گئے تو دوسرے آئیں گے اور بلوچ قومی مفادات کے خلاف کام کریں گے-

حالانکہ ان کا پارلیمنٹ میں بیٹھنا از خود بلوچ قومی مفادات کے خلاف ہے-

وہ پاکستان کو خود ہی بلوچ قوم کے خلاف اور قبضہ گیریت کو طول دینے کے لیے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جواز اور ایندھن فراہم کر رہے ہیں-

حیربیار نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ور اب بھی اپنے اس بات کو دہراتے ہیں کہ نواب مری کا وارث ان کے بچے یا مری قبیلہ نہیں بلکہ پوری قوم ہے-

قوم کو اس وقت روایتی نواب و سردار سے زیادہ شعوری طور پر پختہ لیڈروں اور رہنماؤں کی ضرورت ہے جو بلوچ قوم کو دنیا کے دوسرے مہذب اقوام کے برابر لا سکیں اور بلوچ قومی شناخت کو مٹانے سے بچا سکیں-

مری نے کہا کہ نوابی کے دعوی دار لوگوں کو یہ بھی واضع کرنا ہوگا کہ اگر وہ نوابی کا دعوی کر رہے ہیں تو سنڈیمن کی دی ہوئی ٹائٹل ان کو مبارک ہو لیکن قوم کے فیصلے کا حق ان کے پاس نہیں ہوگا-

قومی فیصلہ کرنے کا اختیار ان بلوچ فرزندوں کا ہے جو اس وقت بلوچ قومی آزادی کے لیے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں-

حیربیار نے کہا کہ خود ساختہ انقلابی لیڈر کہنے والے ابھی تک سیکنڑوں سال پرانی ٹائٹل کو قربان کرنے کو تیار نہیں ان کے اعمال یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ایسے لوگ بلوچ قومی جدوجہد کا حصہ صرف اپنی سرداری اور نوابی کو قائم رکھنے کیلئے بنے ہیں-

جس طرح کے مینگل کے سردار قومی جہد کے لیے تیار نہیں لیکن اپنی سرداری کےلیے مرنے اور مارنے تک تیار ہے-

انہوں نے کہا ہم قبائلی نظام کے خلاف نہیں بلکہ سنڈیمن کی نوابی اور سرداری نظام کے خلاف ہیں جو اس وقت ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے اپنی منزل حاصل کر نے میں رکاوٹ بن رہا ہے-

وقت کا تقاضہ ہے کہ بلوچ قوم کو سنڈیمن کی نوابی نظام کو تقویت دینے کے بجائے قومی سوچ و فکر اور نظریہ کو مظبوط کر لینا چاہیے-

کیونکہ آجوئی نظام از خود فرسودہ اور روایتی نظام کے بجائے جدید قومی نظام کو متعارف کروانے کے لیے ہے جو قوم کو فرسودہ سوچ کی حصار سے نکال کر ہم نوع ہم قسم اور یکساں قوم بناتی ہے-

ہم سب کو اگر اکسیویں صدی میں ترقی یافتہ قوموں کے صف میں شامل ہونا ہے تو جدوجہد میں شدت لانی ہوگی-

ایک قوم کی حیثیت سے تمام مشکلات کا سامنہ کر کے اپنے منزل حاصل کرنا ہوگی-

انہوں نے کہا کہ جن قوموں نے تبدیلی کو قبول کیا اور طاقت عوام کے ہاتھوں میں دیا وہ آج ترقی یافتہ قومیں بن گئی ہیں،جیسا کہ ناروے سویڈن وغیرہ جن لوگوں نے تبدیلی کو قبول نہیں کیا اور اپنے عوام پر سردار،نواب،شیخ یا بادشاہ بن کر ڈکٹیرکی طرح حکومت کر تے رہے وہ آج بھی جنگ و جدل اور تباہی سے گزر رہے ہیں-

حیربیار نے مزید کہا کہ اب بلوچ قوم کے لیے بھی دو راستے ہیں ایک راستہ آزادی جدت اور ترقی و خوشحالی کا ہے جس میں قومی فیصلے کرنے آزادی اور ترقی کے لیے تمام تر اختیارات قوم کے حوالے کرنے ہونگے-

جبکہ دوسرا راستہ فرسودہ جاہلیت نوابی سرداری اور میر معتبری اور روایتی سنڈیمنی نظام ہے جو اختیارات سارے ڈکٹیٹروں کی طرح قوم سے چھین کر فرد کے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے-

اگر ہم اس راستے پر چلتے ہوئے آزاد بھی ہوئے تو ہمارا مستقبل انکولا شمالی کوریا سے بھی زیادہ خراب ہوگا-

کیونکہ آج ہم رہبری کے دعویدار نوابی اور سرداری کو قومی جہدکاروں کو سرینڈر کرنے کو تیار نہیں تو کل چھوٹی سی طاقت حاصل کرکے اپنے یہ اختیارات کس طرح قوم کے حوالے کر سکیں گے
ٗ

Комментариев нет:

Отправить комментарий