’’انسانی حقوق کی عالمی دن اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ‘‘
ماما قدیر بلوچ
وائس چیئرمین ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز
آج 10؍دسمبر 2014 ء کو جب ہم کراچی پریس کلب میں انسانی حقوق کا عالمی دن اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کے عنوان سے سیمینار منعقد کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی عروج پر ہے ۔ لاپتہ بلوچوں کی تعداد 21 ہزار اور مسخ شدہ لاشوں کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ لاپتہ علی اصغر بنگلزئی جوکہ 18-10-2001 کو کوئٹہ سے آئی ایس آئی، ایم آئی کی تحویل میں رہے ہیں۔ آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا انہیں بھی قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے ۔ اسی طرح ایک اسکول ٹیچر زرینہ مری کاہان کوہلو سے 10-10-2005 کو اپنے شیر خوار بچے کیساتھ سے لاپتہ ہیں جنہیں 2008 ء میں بلوچ وائس کے منیر مینگل نے اپنے دوران حراست ایک فوجی ٹارچر سیل میں بطور سیکس سیلیودیکھا تھا جس کے بارے میں انہوں نے فرانس میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد رپورٹرز و آڈٹ باڈرز(Reporter without Borders) (RSF) کو دی تھی جسے بعد میں ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ہانگ کانگ نے بھی جاری کیا لیکن تاحال زرینہ مری کو نہ توبازیاب کرایا گیا اور ہی اس کے زندہ رہنے کے کوئی اور شواہد ملے ہیں۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچی کے مطابق مورخہ 17-02-2009 کو جب پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے اہلکار جان سولیکی کے اغواء کا واقع پیش آیا تو اس وقت اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو لاپتہ مرد وخواتین بچوں کی ایک فہرست بھی دی گئی جس میں لاپتہ 148 خواتین اور 168 بچے و بچیوں کا تاحال غائب ہیں ۔ اس طرح ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق پاکستان آرمی 52 ٹارچر چلا رہی ہے جسکی تفصیل درج ذیل لنک پر موجود ہیں۔
زرینہ مری کے بارے میں روزنامہ انتخاب کے کالمسٹ بانک نرگس بلوچ نے مورخہ 19-01-2009 کے کالم میں ’’زرینہ مری دکھ تمہارے نہ بانٹ پائی مگر۔۔۔؟؟ ‘‘کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ ’’منیر مینگل نے اپنے تن مردہ کو گھسیٹ کر کسی نہ کسی طرح سال بھر کی گمنامی اور کسمپرسی کے بعد تربت براستہ ایران فرانس تک پہنچا دیا جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ پاکستان کے مسلمان حکمرانوں کی گرفت سے نکل آیا ہے تو اس نے جو دلدوز ،کربناک ، اذیت آمیز کہانی بلوچ قوم تک پہنچائی جس کے محض ایک جھلک سے ہی میرا جسم جیسے چلتے آرے کے نیچے آگیا۔ اس نے بتایا کہ دوران قید اس کے ٹارچر سیل میں ایک برہنہ خاتون کو پھینکا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ اس کے ساتھ جنسی بربریت کیا جائے اسے بتایا گیا کہ دیکھو ہم تمہاری خدمت کے لئے بلوچستان سے یہ ’’درنایاب‘‘ لائے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے تم پنجابیوں سے نفرت کرتے ہو۔ منیر کے انکار پر اس پر بدترین تشدد کیا گیا لیکن اس نے اپنی بہن زرینہ مری کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ جہاں اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا وہاں اُس کی آنکھ بھی خون بہارہی تھی وہ بے بس تھے اور ظالموں کے شکنجے میں تھے۔
زرینہ مری کی طرح سینکڑوں عزت کے پیکرمائیں، بہنیں، بیٹیاں آج بھی انہی درندہ صفت ریاستی فورسنز کے ہاتھوں میں نجانے کس حالت میں ہوں گے ؟ کتنے بار وہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں۔ ریاستی فورسنز ایک طرف تو بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنے کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہی تو دوسری طرف بلوچ قوم کی عزت، غیرت و ناموس پر بھی حملے کررہی ہے۔
ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں بلوچ قوم پرست رہنماؤں نواب اکبر خان بگٹی اور نوابزادہ بالاچ مری کو شہید کیا گیا ۔ 17مارچ 2005 کو نواب اکبر بگٹی کے گھر اور ڈیرہ بگٹی میں شہری آبادی پر بمباری کرکے سینکڑوں بلوچوں کو شہید کیا گیا۔ ڈیرہ بگٹی اور سوئی سے بمباری کی وجہ سے ایک لاکھ بگٹی ہجرت کرگئے اور دوسرے شہروں میں جاکر پناہ گزیر ہوئے اسی طرح دسمبر 2005 ء کو کوبلو، کاہان اور بارکھان پر شہری آبادیوں پر بمباری کی وجہ سے دو لاکھ کے قریب بلوچ ہجرت کرگئے، ستار ایدھی فاؤنڈیشن ، مرسی کور، اوکسیفم اور دیگر فلاحی تنظیموں نے ان متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے انہیں مار بھگایا، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے مری اور بگٹی خاندانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان سے ان کے امداد کیلئے اجازت طلب کی تھی لیکن انہیں بھی انکار کردیا گیا۔ پندرہ اپریل 2006 ء کو بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ پر ڈیرہ بگٹی، کوہلو، کاہان پر بمباری کے بعد نقل مکانی کے حقائق کا جائزہ لینے کیلئے بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جسکے اراکین میں اپوزیشن لیڈر کچکول علی ایڈوکیٹ، صوبائی وزیر عبدالرحمن، عبدالغفور لہڑی اور جے ڈبلیو پی کے رکن اسمبلی سلیم خان کھوسہ شامل تھے ۔ انہوں نے ان علاقوں میں جا کر لوگوں کی حالت زار دیکھی اور اس بات کی تصدیق کی کہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کاہان سے ڈھائی لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے ۔ جو صوبہ سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے انہیں کھانا، پانی، رہائش اور علاج و معالجہ کی شدید ضرورت ہے ۔ انہوں نے دنیا کے جمہوری ملکوں اور رضاکاروں کی تنظیموں سے متاثرین کے مدد کی اپیل کی تھی لیکن حکومت نے کسی کو اجازت نہیں دی تھی۔ صرف بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے کراچی، کوئٹہ اور بلوچستان بھر میں امداد ی کیمپ لگائے گئے۔ جنہوں نے ان متاثرین کی کچھ مدد کی بعد ازاں حکومت نے بلوچ نیشنل فرنٹ کے امدادی کیمپ بھی اکھاڑ دیئے تاکہ ان متاثرین کو کوئی مدد نہ مل سکے۔ پیپلز پارٹی کی 2008 ء میں قائم ہونے والی حکومت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی بجائے پالیسی تبدیل کرکے ’’مارو اور پھینکو ‘‘ کے فارمولے پر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگی۔ 18؍اپریل 2009 ء کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ اور انکے ہمراہ گرفتار ہونے والے لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں تربت سے 25کلو میٹر مرگاپ کے پہاڑیوں سے برآمد ہوئیں جنہیں اتنی بُری طرح سے تشدد کیا گیا تھا کہ ان کے چہرے مسخ کردیئے گئے تھے اور انکی شناخت ان کے پیروں اور جوتوں کے نشانوں سے کی گئیں۔
’’لاپتہ افراد کے مقدمات پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریمارکس ‘‘
روزنامہ ایکسپریس کراچی مورخہ 30-10-2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ریمارکس شہ سرخی 2 دن کی مہلت ایجنسیاں لاپتہ افراد رہا کردیں ورنہ کارروائی کرینگے۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو حکم دیا کہ یکم نومبر تک ایجنسیوں کی تحویل میں تمام لاپتہ افراد کو حتمی طور پر رہا کردیا جائے ورنہ ایجنسیوں کے خلاف موجودہ شہادتوں پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ ہم دھمکیوں میں نہیں آئیں گے کوئی یہ مت سمجھے کہ عدالت کچھ نہیں کرسکتی ۔ مکمل شہادتیں موجود ہیں کہ تمام لاپتہ افراد خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ۔ ہمیں فہرستیں اور بار بار یقین دہانی نہیں 100 فیصد پروگریس چاہیے روزانہ ایک ہی کہانی دہرائی جارہی ہے ضرورت ہوئی تو شام تک اس مقدمے کی سماعت کرینگے۔ خوامخواہ کے بہانے بازیاں نہ کی جائیں درحقیقت پسندانہ اقدمات کئے جائیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں ہوسکی اگرچہ چند افراد کو رہا کیا گیا ان کا تعلق پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے تھا جبکہ بلوچستان میں خفیہ فورسز کے ہاتھوں گرفتار شدہ لاپتہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ٹاسک کو انسانی بنیادی حقوق اور آئین کے خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا اس بات کے کئی ثبوت ملے ہیں کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔
6 ستمبر 2012 ء سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو لاپتہ افراد سے متعلق آج جمعرات تک حتمی جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے داخلہ اور دفاع کے وفاقی سیکریٹریوں کے حاضر نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی سیکریٹریز کو بلوچستان سے کوئی دلچسپی نہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی دکھائی نہیں دے رہی ہے اگر ایک کرنل کو ہتھکڑی لگادی جائے تو فوج میں کیا پیغام جائیگا ملک کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہورہی ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اخبارات میں خبر ہے کہ اقوام متحدہ کا وفد ہمارے معاملات دیکھنے کیلئے آرہا ہے ۔ باہر کے لوگ ہمارے معاملات دیکھنے کیلئے آئینگے تو اقتدار کیلئے خطرناک ہونگے۔ آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل عبیدا للہ خان نے اعتراف کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کارکردگی متاثر کن نہیں ہے سیکریٹری داخلہ بلوچستان نے بتایا کہ جون میں 70 جولائی میں 48 اور اگست میں 24 افراد قتل ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کے لاپتہ افراد کیس کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ایف سی کے افسراں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیں اگر ایک کرنل کو ہتھکڑی لگادی گئی تو فوج میں کیا پیغام جائے گا۔ انہوں نے آئی جی ایف سی سے کہا کہ آپ اپنی ناکامی تسلیم کرلیں تاکہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کو طلب کیا جائے۔ چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی نے رپورٹ دی ہے کہ لاپتہ افراد ایف سی کے پاس ہیں ۔ جس پر آئی جی نے کہنا تھا کہ یہ تو بڑا آسان ہے کہ کوئی کہہ دے فلاں کے پاس ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اولین ترجیح لاپتہ افراد کی بازیابی ہے ۔ آپ لوگ ناکام ہوچکے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ قانون نے کیا کرنا ہے ۔ وفاقی ، صوبائی حکومت اور ایف سی نے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم تین ماہ گزر گئے ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہے ۔
’’بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے واقعات پر انسانی
حقوق کی تنظیموں /تھینک ٹینکس کی رپورٹس ‘‘
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ جون 2006 میں کہاگیا ہے ۔ پاکستان میں شہریوں کو غائب کردینے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ایسے واقعات کی شرح صوبہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ پولیس ان واقعات کی بالعموم ایف آئی آردرج نہیں کرتی ہے ۔ گمشدہ شخص کے لواحقین عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے حکام گمشدہ افراد کے بارے میں لاعلمی کااظہار کردیتے ہیں۔ حالانکہ کچھ عرصے بعد یہی افراد کسی نہ کسی حکومتی ادارے کی تحویل سے برآمد ہوتے ہیں عدالتیں بھی اس ضمن میں شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں اس تناظر میں انسانی حقوق کے کارکن ، عام شہری بالخصوص صوبہ بلوچستان میں خوف وہراس کا شکار ہیں۔ ان جبری گمشدگیوں کا شکار ہوکر رہائی پانے والے افراد نے انتہائی ہولناک انکشافات کئے ہیں۔ اس عمل سے گذرنے والے ادیب وڈاکٹر حنیف شریف نے بتایا کہ اسے کئی ماہ تک مسلسل ایک تنگ وتاریک کمرے میں زنجیر سے باندھ کر کھڑا رکھا گیا۔ یہ کمرہ انتہائی غلیظ تھا ڈاکٹر حنیف شریف نے اپنے جسم پر متعدد نشانات دکھائے جو کیڑے ، مکوڑوں کے کاٹنے سے بنے تھے، ڈاکٹر اللہ نذر کی رہائی بھی عجیب انداز میں ہوئی اُنہیں ایسی حالت میں چھوڑا گیا جب وہ مرنے کے قریب تھے اُنہوں نے بتایا کہ اسے بجلی کے جھٹکے دیئے گئے اور کھانے میں زہر بھی دیا گیا ۔ مند سے تعلق رکھنے والے اسکول ٹیچر عبدالستار کو دو مہینوں تک غیر قانونی قید میں رکھ کر اس کے جسم پر آہنی سلاخوں سے ضربیں لگائی جاتی رہی۔ یہ تمام افراد مفلوج ہوگئے تھے اور کافی عرصے تک ہسپتال میں زیر علاج رہے ۔ڈاکٹر حنیف شریف نے کوئٹہ کے قلی کیمپ کے بارے میں بتایا کہ وہاں ایسے قیدی بھی موجود تھے جنہوں نے کئی مہینوں سے سورج کی روشنی نہیں دیکھی۔ وہاں سے خوش نصیب ہی رہائی پاتے ہیں۔ ان قیدیوں کی زندگی اہلکاروں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے جو جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ نفیساتی اذیت بھی دیتے ہیں۔ ان کے گھروالوں کو قتل کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ اُنھیں کہاجاتا ہے کہ ان کے بھائی یا والد کو بھی اُٹھا لیا گیا ہے اور ان کو قتل کردیا جائے گا۔ اہلکار اپنی گفتگو میں باربار تاثر دیتے ہیں کہ ان کی تشدد سے ٹارچر سیل کا ایک اور قیدی ابھی دم توڑ گیا ہے اور وہ اس کی لاش کو کسی نالے میں پھینک آئے ہیں۔ قیدیوں کو گالیاں بھی دی جاتی ہیں۔ بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں ۔ ان جیلوں سے رہائی پانے والوں کے مطابق وہاں بہت سے لوگوں نے خود کشی کی کوشش بھی کی تھی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں (Enforced Disappearances) اور ماورائے عدالت قتل کرنے کا سلسلہ 2001 ء سے جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی فوجی آپریشن کے نام پر شہری آبادیوں پر بمباری گھروں اور مال مویشیوں کو تباہ و مسمار کرنے میں تیزی آئی، بلوچستان میں ملٹری گورنمنٹ کے اقدامات پر شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بلوچوں کی سیاسی اور معاشی جبر کو حل کرنے کی بجائے ان کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جبری طور پر غائب کرکے اور قتل کرکے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے اسلام آباد کی ماضی کی پالیسیوں کے تحت بلوچستان میں سیاسی اور معاشی اختیارات نہ دینے اور سرد مہدی ، غفلت برتنے کی وجہ سے انہیں باربار بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ نواب اکبر بگٹی کی فوج کے ہاتھوں قتل نے بلوچ قوم کی کی وفاق سے نفرت کو بڑھا دیا ہے ۔ ملٹری گورنمنٹ سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی ہزاروں کی تعداد میں گرفتار جن میں طالب علم، سیاسی ورکرز، ڈاکٹرز، جرنلسٹ اور یہا ں تکہ دکاندار بھی شامل میں انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے گرفتار کرنا، تشدد کرنا، جبری طور پر لاپتہ کرنا اور ماورائے عدالت قتل کرنے کے حربے استعمال کررہی ہے لیکن اس عمل کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں مزاحمت کاروں کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔
7؍اگست2009 ء کو بلوچستان کے شہر مند سے کراچی آئے ہوئے ناروے کے بلوچ شہری احسان ارجمندی کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکار زیرو پوائنٹ پربس سے اتار کر چہرے پر کسی بڑے مجرم کی طرح سیاہ کپڑا ڈھانپ کر اپنے ساتھ لے گئے عینی شاہدین کے مطابق بیس کے قریب پک اپ گاڑیاں نے ان کے بس کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انتہائی اطمینان سے بس کی تلاشی لی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے تھیں۔ اس دن سے آج تک نارو یجین شہری کے بارے میں پاکستانی اعلیٰ حکام کوئی ٹھوس معلومات نہیں دے رہے ہیں اور ایک بلوچ ہونے کے ناطے تاحال مسلسل ٹارچر سیلوں میں قید کیا ہوا ہے کیونکہ احسان ارجمندی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سرگرم تھے اور اُنہوں نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی ناروے آمد پر بلوچوں کا احتجاجی مظاہرہ کرنے میں مددکی تھی۔
بی بی سی ڈاٹ کام اُردو 9؍دسمبر2009 ، : بلوچستان کے علاقے مند کی رہائشی بائیس سالہ شہناز بلوچ پہلی مرتبہ جلسے میں شریک ہونے کے لئے تمپ گئیں اسی ایک قدم نے اُن کی زندگی کوسنگین خطرے سے دوچار کردیا تمپ شہر میں اتوار کو ایف سی سے مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے نوجوان شاعر میر جان میرل کے سوئم کے سلسلے میں تمپ ہائی اسکول میں منعقد پرامن جلسے میں خواتین ، بچے اور مرد شریک تھے وہ سب بلوچی میں شاعری سن رہے تھے کہ اچانک یہ پرامن منظر خونی کھیل میں بدل گیا۔ ملیشیا فورس کے اہلکاروں نے چار دیواری کامحاصرہ کیا اور ایک دم اندر داخل ہوگئے۔ اُنہوں نے نہ تو جلسہ ختم کرنے کیلئے اور نہ ہی لوگوں کو وہاں جانے سے یا منتشر ہونے کے لئے کہا۔ صرف لوگوں پر لاٹھیاں اور گولیاں برسانے لگے اور اُن کے شہناز کے بیس سالہ چچازاد بھائی مختار بلوچ کو گولی لگی اور وہ زمین پر گرگیا وہ ان کی طرف دوڑیں تو وہ بھی گولی کا نشانہ بن گئیں اس فائرنگ سے مختار بلوچ ہلاک ہوگئے اور اُن کے والد عبدالرحمان بھی زخمی ہوگئے۔
شہناز پرائمری اسکول میں ٹیچر تھیں اُنہیں گلے میں گولی لگی جوآرپار ہوگئی اُن کا دایاں ہاتھ اور بازو سن ہوگئے ہیں اور وہ بات کرنے میں سخت تکلیف محسوس کرتی ہیں۔
’’لاپتہ افراد کی کراچی سے ملنے والی لاشیں‘‘
جنوری کے آخر میں عدنان بلوچ جسے خفیہ اداروں نے مند سے اغواء کیا تھا ملیر سے اسکی لاش ملی، گوادر سے آئی ایس آئی کے ہاتھوں اغواء ہونے والے ہارون اور رزاق بلوچ کی لاشیں کراچی سے ملی پھر مقبول بلوچ اور اختر بلوچ کی لاشیں کراچی کے ویران علاقے سرجانی ٹاؤن سے برآمد ہوئیں جنہیں چلتی گاڑی سے نامعلوم افراد نے لاشیں تھانے کے سامنے پھینک کرفرار ہوئے منگھوپیر سے لاپتہ واحد بخش نیچاری جسے کوئٹہ سے اغواء کیا تھا اسکی لاش ویرانے میں پھینکی گئی پسنی سے طالب علم ساجد کریم اور بلیدی سے ماسٹر شیر محمد کو بھی حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ۔
مارچ کے مہینے میں کراچی میں 7 مارچ کو بابوافتخار اور 10مارچ کو بی این ایم پنجگور زون کے صدر ماسٹر عبدالرحمن اور زاہد بلوچ کی لاشیں بھی کراچی سے برآمد ہوئیں جن کے جسموں پر تشدد کے نشانات کے علاوہ گردے ، دل، آنکھیں نکال لی گئیں تھیں ۔
2008 ء میں بھی ایمنٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں\"Denying the undeniable\" میں جبری گمشدگیوں سے انکار دراصل لاپتہ افراد کی بازیابی سے انکار ہے جب کہ 600 سے زائد کی لسٹ سپریم کورٹ میں موجود ہے ۔پاکستانی ٹروپس بلوچ نیشنلسٹوں کو قتل کرکے اُنہیں ہیر و بنارہے ہیں اور بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کوبڑھاوادے رہے ہیں۔
11؍اکتوبر 2009 ء کو پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں اعتماد کی فضاء بنانے کے لئے صوبہ کو فوری طور پر سرکاری عسکری قوتوں سے پاک کیاجائے تاکہ تمام سیاسی قوتوں سے مذاکرات کاآغاز کیا جاسکے۔ کمیشن تنبیہ کرتا ہے کہ اگر بلوچستان کے لوگوں کی منشا اور اطمینان کے مطابق اصلاح کے اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کو اس کی بھاری قیمت چکاناپڑے گی۔ انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے حالات کو ایک ہفتہ تک مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ وفاق کی سب سے بڑی اکائی ایک ایسا آتش فشاں بن چکی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس کے نتائج بہت برُے ہوں گے ۔ بلوچستان کی صورتحال سنگین ہے اور روز بروز خراب تر ہوتی جارہی ہے ۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات عام ہیں اور رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ ریاست ان خلاف ورزیوں کی روک تھام نہیں کررہی ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ میڈیا دباؤ کے نتیجے میں یا اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے حقائق کی تفتیش کرنے اور اُنہیں پوری طرح سے رپورٹ کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سب سے دل دہلادینے والے واقعات لوگوں کو جبری غائب کردینے سے متعلق ہیں جو 2009 ء کے دوران ایک بار پھر بڑھتے جارہے ہیں۔ کمیشن کے پاس اتنی کافی شہادتیں موجود ہیں جو متاثرہ خاندانوں کے ان الزامات کی تائید کرتی ہیں کہ ان لوگوں کو انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارہ نے اغواء کرکے غائب کیاہواہے ۔
’’بلوچ کارکنوں کے اغوا وقتل پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ روزنامہ توار 28-10-2010 ‘‘
بلوچستان میں بلوچ سیاسی رہنماؤں کارکنوں کے اغواء اور ان کے تشددزدہ لاشوں کی برآمدگی پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم اینسٹی انٹرنیشنل نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ چار ماہ سے 40سے زائد بلوچ رہنماؤں و کارکنوں کو آغواء اور قتل کیا گیا ہے رپورٹ کے مطابق کارکنوں اور طلباء کو زبردستی اغواء اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر گرفتار کیا گیا اور ٹارگٹ بنا کر غیر قانونی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ لہر بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور فوجی آپریشن کے بعد شروع ہوئی رپورٹ میں مستونگ سے اغواء قتل کئے والے بلوچ شاعر فقیر محمد اور بی ایس او آزاد کے رہنماء ظہور بلوچ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ عرصہ قبل تک اغواء کے قتل کارجحان اتنا زیادہ نہیں تھا۔ ان رہنماؤں کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی ایک طے شدہ بڑھتی ہوئی پالیسی کا مظہر ہے کہ ’’مارو اور پھینک دو‘‘۔ رپورٹ میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اب ان پر صرف نظر کرنا پاکستانی و بین الاقوامی کسی بھی انسانی حقوق اور انصاف کے ادارے و حلقے کیلئے ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ جس قسم کے واقعات و سانحات بلوچ رہنماؤں و کارکنوں کے ساتھ کئے جانیوالے بدترین انسانیت سوز سلوک کی شکل میں بلوچستان میں رونما ہورہے ہیں وہ بذات خود ان اداروں اور ممالک کے وجود کے جواز پر سوالیہ نشان بن رہی ہیں۔
بلوچستان میں اغواء گمشدگیوں اور قتل متعلق ہیومن رائٹس بلوچ کی رپورٹ 30-07-2011 بلوچستان میں سیاسی رہنماؤں و کارکنوں سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے اغواء گمشدگیوں اور قتل کرکے لاشیں پھینکنے کا مسئلہ اب دنیا بھر کے نظروں میں آچکا ہے اور اس ضمن میں بعض انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ پاکستانی حکومت اس انسانیت سوز سلسلے کو بند کروائے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹس میں بلوچوں کے اغواء، لاشوں کی برآمدگی میں سیکوریٹی اداروں کو ملوث قرار دیکر پاکستان حکومت کو عالمی سطح پر جوابد ہی کے قیام پر لاکھڑا کردیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر لاپتہ بلوچوں کو بازیاب اور لاشیں پھینکے کے گھناؤنے عمل کو بند کرائے۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیاء کے ڈائریکٹر بریڈایڈمز کے مطابق صدر آصف زرداری جان لیں کہ بلوچستان میں زیادتیوں کو نظرانداز کرنا آرمی اور انٹیلی جنس اداروں کو اس بات کی اجازت دینا ہے کہ وہ پاکستان میں جہاں چاہیں زیادتیاں کرسکتے ہیں پورے بلوچستان میں جنوری 2011 ء سے کم از کم 150 لوگوں کو اغواء کرکے قتل کیا گیا اور انکی لاشیں پھینکی گئی ہیں جس کو ’’مارو اور پھینکو ‘‘آپریشن کہا جاتا ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ نے بلوچستان میں بھی شامل ہیں جس میں لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں ہیں جولائی کے شروعاتی دس دنوں میں معروف بلوچ قوم پرست کارکن عبدالغفور لانگو کی لاش ضلع لسبیلہ کے علاقے گڈانی کے ایک ویران ہوٹل کے پاس ملی جنہیں گیارہ دسمبر 2009 ء کو کراچی سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا تھا ۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکن حنیف بلوچ کو چار جولائی 2011 ء کو ضلع لسبیلہ کے شہر حب سے اغواء کیا گیا جسکی لاش چھ جولائی کو بولان کے علاقے مچھ سے ملی ان کے جسم کے اوپر ہی حصے میں تین گولیاں ماری گئی تھی اسی دن ضلع کیچ کے شہر تربت کے مضافاتی علاقے جو سک تمپ کے رہائشی اعظم محراب اور مند کے رہائشی رحیم بلوچ کی لاش برآمد ہوئی دونوں کو نامعلوم حالات میں گولیاں مارکر قتل کیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ رپورٹ: ۔ بلوچستان میں حالیہ حراستی قتال
ہیومن رائٹس واچ نے بلوچستان میں حراستی قتل اور جبری گمشدگیوں کے کیسز کی تحقیقات کیں ہیں درج ذیل کچھ کیسز ہیں جن میں پاکستان ملٹری، اسکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پیرا ملٹری فورسز فرنٹیر کور کے ملوث ہونے کے شواہد کو ظاہر کرتے ہیں۔
یوسف نظر اور صدیق عیدو جومعروف این جی او ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سینئر کوآرڈینیٹر تھے ۔ یوسف نظر پیشے کے اعتبار سے درزی تھے کو 21 ؍دسمبر 2010 ء کو ضلع گوادر کے شہر پسنی سے سیکوریٹی کے یونیفارم میں ملبوس افراد نے اغوا کیا۔ دونوں افراد کی لاشیں 28 اپریل 2011 ء کو ضلع گوادر کے علاقے اوڑمارہ کے قریب سے برآمد ہوئیں۔ نصیر کمالان کو 6 نومبر 2010 ء کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ایک مسافر وین سے گن پوائنٹ پر اغواء کیا گیا۔اغوا کا رایف سی کے یونیفارم میں تھے اور انکے پاس ایسی جیپ تھی جو عام طور پر ایف والے استعمال کرتے ہیں ۔ نصیر کمان کی لاش 17 جنوری 2011 ء کو مکان کوسٹل ہائی وے سے برآمد ہوئی۔
جمیل یعقوب کو 28؍اگست 2010 ء کو تربت شہر سے ایف سی کی وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کیا جو ملٹری کی جیب میں آئے تھے انکی لاش 10 فروری 2011 ء کو تربت کے قریب سے برآمد ہوئی۔
8جولائی 2011 ء کو بی ایس او آزاد جونیئر جوائنٹ سیکریٹری شفیع بلوچ کو ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس کے قریب اغواء کیا گیا انکے اغواکار بھی وردی میں ملبوس تین گاڑیوں میں آئے تھے اور انہیں وین سے گن پوائنٹ پر اتار کر لے گئے انکی گولی سے چھلنی لاش کوئٹہ سے 06 کلو میٹر ضلع بولان کے قریب مچھ سے ملی ، یکم جون 2011 ء کو پروفیسر صباء دشتیاری جوکہ کوئٹہ بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور معورف قلم کار اور شاعر تھے کوئٹہ سریاب روڈ میں نامعلوم افراد گولیاں مارکر قتل کردیا گیا ۔ صباء دشتیاری نے بلوچ ثقافت ، بلوچی زبان پر کئی کتابیں لکھی اور وہ اسلامی اسکالر بھی تھے ۔
’’اقوام متحدہ وفد کی رپورٹ‘‘
United nation working group on Enforced or Involentry Disappearances (WGEID) نے 10-09-2012 کو پاکستان کا 10 روزہ دورہ کے دوران اسلام آباد ،کراچی اور کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے خاندانوں اور VBMP سمیت مختلف تنظیموں اور پارٹیوں اور سرکاری وزراء اور افسران سے ملاقاتیں کیں اور 20؍دسمبر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی حقائق جاننے والا مشن (ڈبلیو جی ای آئی ڈی) ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں جس کے چیئرپرسن اولیوٹرڈی فراؤ اور عثماں ال حجے نے اپنے دس روزہ باضابطہ دورے کے اختتام پر مختصر رپورٹ میں بلوچستان اور دیگر مقامات میں لاپتہ افراد کی گمشدگیوں اور قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ورکنگ گروپ کو یہ الزامات موصول ہوئے ہیں ان میں کچھ افراد کے ذریعے جن سے ہم ملے تھے ان کے مطابق انہیں دھمکیاں دی گئی تھی یا خوفزدہ کیا گیا تھا۔ ہم ریاست سے کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہم سے ملے تھے ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے اور کسی بھی طرح کی انتقامی کارروائی، دھمکی یا انہیں خوفزدہ کرنے کیخلاف انکی حفاظت کی جائے۔ ورکنگ گروپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا حقائق جاننے والا مشن فقط انسانی بنیادوں پر مبنی تھا اور انہیں کسی طور پر بھی ثبوت جمع کرنے کا کام نہیں سونپا گیا تھا کہ جس سے وہ فوجداری کارروائی شروع کردیں کیونکہ یہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے دائرہ کار میں نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک لاپتہ شخص کی ماں نے ہم سے ان تمام افراد کو یہ پیغام پہنچانے کا کہا ہے جو پاکستان میں عوامی معاملات کے کرتا دھرتا ہیں اس نے پوچھا اگر آپ کا بہ غائب ہوجائے تو آپ کیا کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال اس آزمائش کا خلاصہ ہے جس سے یہ خاندان گزر رہا ہے ۔
پاکستان میں اغواء گمشدگی اور تشدد زدہ لاشوں ، ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں جن انسانی حقوق کے اداروں نے اب تک آواز اٹھائی ہے ان میں ہیومن رائٹس واچ، ایمنیٹی انٹرنیشنل، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ہانگ کانگ ، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی تنظیم قابل ذکر ہیں اگرچہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین پارلیمنٹ نے بھی اپنی جاری کردہ سالانہ رپورٹس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کرتے ہوئے اظہار تشویش کیا گیا ہے جبکہ سب سے زیادہ رپورٹس بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے دیئے۔
10؍اگست 2013کوبولان میں جعلی آپریشن میں 6لاپتہ افراد کی ٹارچر شدہ مسخ لاشیں پھینکی گئیں جن کی شناخت بجارمری، پلیا خان مری ، عزت خان مری، داد محمد مری اور واحد بخش مری کے نام سے ہوئیں جنہیں 8؍اگست کو مچھ بولان سے اغواء کیا گیا تھا، 11؍اگست کو بولان میں جعلی آپریشن میں4 مزید لاشیں پھینکی گئیں جن کی شناخت نورمحمدمری، رحیم مری، جمعہ خان مری اور رزاق مری کے نام سے ہوئیں یہ تمام افراد مری آباد مچھ کے رہائشی تھے۔
20؍اگست2013 کو کراچی میں مزید 2لاپتہ افراد کی لاشیں سرجانی ٹاؤن سے برآمد ہوئیں جن میں ایک کی شناخت بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات صحافی وادیب کامریڈ حاجی رزاق بلوچ اور دوسرے کی پٹھان بگٹی کے نام سے ہوئی حاجی رزاق کو24؍مارچ 2013 کولیاری سے اغواء کیا گیا تھا ۔ جتنے بھی لاپتہ افراد کے حراستی قتل ہوئے وہ سب کے سب نہتے تھے۔
اسی طرح21اور 22 ستمبر کی درمیانی شب ایف سی نے زیر حراست 3 بلوچ فرزندان جن میں ایک اِسی سالہ بزرگ عزیر مینگل، خلیل بلوچ اور عنایت بلوچ کو شہید کرکے لاشیں وڈھ میں پھینک دیں ۔ عزیر مینگل کو 21؍ستمبر کی صبح ایف سی نے وڈھ کے علاقے میں واقع اُن کے گھر سے اغواء کیا جب کہ خلیل بلوچ اور عنایت بلوچ کو 25؍اگست 2014 ء وڈھ وھیرہ سے اغواء کیا بعد میں ایف سی کے ترجمان نے میڈیا میں بیان جاری کیا کہ مذکورہ افراد سرچ آپریشن کے دوران مقابلے میں ہلاک کئے گئے جب کہ یہ تینوں ایف سی کے حراست میں تشدد کرنے کے بعد قتل کئے گئے۔
مورخہ 23ستمبرکوپیدارک سے باہوٹ بلوچ ولد پیر محمد اور ولی محمد بلوچ ولد شکاری یوسف کی مسخ شدہ لاشیں ملیں جنہیں چند دن قبل پیدارک سے پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے قائم کردہ ڈیٹھ اسکواڈ کے کارندو ں نے اغواء کیا تھا ۔ باہوٹ سری کلگ گورکوپ اور ولی محمد بلوچ سولانی گورکوپ کے رہائشی تھے۔
مورخہ24؍ستمبر2014 کو کوئٹہ کے علاقے کلی حنیفہ اور کلی قمبرانی ، سریب ، بروری، سٹیلائٹ ٹاؤن ، ہزار گنجی ، نیوکاہان کاآپریشن 32 افراد حراست کے بعد لاپتہ ۔
مورخہ 25؍ستمبر2014 ء ہوشاب کے رہائشی 12سالہ لڑکا روشن ولد روزی بلوچ کو فورسز نے تربت سے ہوشاب آنے والی مسافر وین سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردای۔
25؍ستمبر2014 ء پنجگور کے علاقے وشبود سے چار افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد جوکہ بوریوں میں بند تھے اور اُن کی لاشوں کی حالت انتہائی خستہ ہے صرف ہڈی اور کھوپڑیاں باقی رہ گئی ہیں جو ناقابل شناخت ہیں ۔
یکم ستمبر تمپ گومازی میں ایف سی کا آپریشن ہیلی کاپٹر کے ذریعے گھروں پر بمباری کرکے چھ نہتے معصوم بچوں کو شہید جب کہ ایک درجن کے قریب لوگوں کو اغواء کرنے کے بعد عقوبت خانوں میں منتقل کردیا گیا۔ دوران آپریشن درندہ صفت فورسز نے فیصل بلوچ نامی ایک کارکن کی لاش ہیلی کاپٹر سے نیچے اس کے گھر کے قریب پھینکی جوکہ گذشتہ ایک سال سے لاپتہ تھا۔ ڈیرہ بگٹی سے چھ بلوچ خواتین حراست کے بعد لاپتہ جن میں جوان 4بچیاں اور ایک بچہ بھی شامل ہے ۔
22 نومبر 2014 ء کو فورسز نے ایک چھاپہ کے دوران شہر ک میں آباد ی انخلاء کے بعد 2گرلز اسکول سمیت 16 اسکولز بند ہوئے ۔ شہرک کی آباد ی چند روز قبل تربت اور دیگر علاقوں میں منتقل ہوچکی ہے تربت، ہوشاب ایم 8 شاہرہ کے تعمیر کے آغاز کے بعد فورسز اور مزاحمت کاروں کے درمیان جھڑپوں کے باعث علاقہ مکین میں خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ پلنش سے لے کر گونکی تک عوام نے اپنے صدیوں پرانی آباد کردہ جائیداد ، گھر وفصلات چھوڑ کر نہ بادل خواستہ ، آبدیدہ آنکھوں اور دل گرفتگی کے ساتھ مجبور ی کے عالم میں دیگر علاقوں کا رُخ کرلیا ہے آبادی کے انخلا سے اسکولز بھی بند ہوگئے ہیں۔
اس سے قبل شاپک سے آبادی کی نقل مکانی سے ہائی اسکول شاپک سمیت کئی اسکولز بند ہوگئے ہیں گھر بار ومال ،مویشی چھوڑ کر زندگی بچانے کے لئے شہریوں نے خیموں میں پناہ لے لی ہے سینکڑوں بغیر چھت مفلس الحال میں رہ رہے ہیں۔ شہرک شاپک کے علاوہ نقل مکانی کرنے والوں میں ہیرونک ،کولواہ، کیکن، تجایاں ، بلور کے لوگ بھی شامل ہیں۔
13؍اکتوبر2014 ء بلوچستان بھر میں فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا ہے کوئٹہ، تربت، دشت ، مستونگ، بولان، مچھ ، کرمووڈھ، آواران، مشکے ، خضدار، پنجگور تمپ ، مند، ڈیرہ بگٹی میں بڑے پیمانے پر کاروائی کی گئی گرفتار افراد بلوچستان میں مختلف مقامات وتحقیقاتی مراکز میں منتقل کردیئے گئے سیاسی کارکنان کو حراست کے بعد لاپتہ کیاجارہاہے ۔
18؍مارچ 2014 ء سے بی ایس او آزاد کے چیئر مین زاہد بلوچ پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتار کئے جانے کے بعد سے تاحال لاپتہ ہیں اُن کی بازیابی کے لئے بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے ممبر لطیف جوہر کی تادم مرگ بھوک ہڑتال جسے بعد میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بلوچ آزادی پسند رہنماؤں کی اپیلوں کی وجہ سے بھوک ہڑتال ختم کی گئی مگر تاحال کسی ادارے نے عملی طور پر اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی زاہد بلوچ کی بے آسرا بیوی اور معصوم کمسن، شیرخوار بچے حکمرانوں کے شہر اسلام آباد میں بھی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے مگر تاحال انصاف کا ترازو بلوچوں کے پلڑے میں آنے سے قاصر ہے ۔
بسیمہ سے بی این ایم کے ممبر ابراہیم بلوچ کو ڈیتھ اسکواڈ نے اغوا کرنے کے بعد شہید کیا 27 مارچ کو ڈیرہ بگٹی ، نصیر آباد کے علاقوں میں فورسز کی بربریت جاری جس سے درجنوں مردوخواتین اور بچوں کی شہادت کی اطلاعات ملی ہیں جبکہ درجنوں مکانات کو بھی جلایا گیا ۔ زارا بی بی ، خیرہ بی بی اور بیورغ کو شہید کرنے کے ساتھ درجنوں افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ۔ اگلے روز ہی لڑو بگٹی ولد خان محمد بگٹی کی مسخ شدہ لاش نصیر آباد سے ملی جنہیں ایک دن قبل فورسز آپریشن کے دوران ساتھ لے گئے تھے ۔
2013 اپریل کی پہلی صبح کوئٹہ ہزار بگٹی، نیوکاہان میں فورسز نے بلوچ آبادیوں پر ہلہ بول کر شدید لوٹ مار کی اور 20 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
ماہ مئی میں گومازی میں 7 ماہ قبل اغواء ہونے والے عمر جان کی تشدد زدہ لاش پھینکی گئی جبکہ شعیب کو اغوا کرکے لاپتہ کردیا گیا مرگاپ سے پنجگور کے لاپتہ دو بھائی شاہ زیب اور شاہ نور کی مسخ لاشیں پھینک کر ریاست نے اپنی بربریت کا ثبوت پیش کیا۔ کوئٹہ سے دوسگے بھائی خان محمد مری اور نبی مری کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ۔ یکم جولائی کو خدائیداد عرف عبداللہ مری اور بجار مری کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ڈیرہ اللہ یار سے برآمد ہوئیں۔ جنہیں 24 ؍جون 2013 ء کو پاکستان فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا ۔ 19؍جولائی کو لاپتہ اعجاز بلوچ کی گولیوں سے چھلنی لاش کراچی میں پھینکی گئی جبکہ جی آر پی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر شمع بگٹی کے بزرگ والد حمل بگٹی اور بھائی واحد بگٹی کی تشدد زدہ گولیوں سے چھلنی لاشیں بھی پھینکی گئی۔
14؍اگست2013 ء بی ایس او آزاد کے جنرل سیکریٹری رضا جہانگیر اور بی این ایم کے رہنما امداد پجیر کو تربت میں فورسز نے اُن کے گھر پر حملہ کرکے مارٹر گولے برساکر شہید کردیا ۔ جب کہ انکا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ۔ 12؍اکتوبر 2014 کوکوئٹہ پریس کل
ماما قدیر بلوچ
وائس چیئرمین ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز
آج 10؍دسمبر 2014 ء کو جب ہم کراچی پریس کلب میں انسانی حقوق کا عالمی دن اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کے عنوان سے سیمینار منعقد کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی عروج پر ہے ۔ لاپتہ بلوچوں کی تعداد 21 ہزار اور مسخ شدہ لاشوں کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ لاپتہ علی اصغر بنگلزئی جوکہ 18-10-2001 کو کوئٹہ سے آئی ایس آئی، ایم آئی کی تحویل میں رہے ہیں۔ آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا انہیں بھی قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے ۔ اسی طرح ایک اسکول ٹیچر زرینہ مری کاہان کوہلو سے 10-10-2005 کو اپنے شیر خوار بچے کیساتھ سے لاپتہ ہیں جنہیں 2008 ء میں بلوچ وائس کے منیر مینگل نے اپنے دوران حراست ایک فوجی ٹارچر سیل میں بطور سیکس سیلیودیکھا تھا جس کے بارے میں انہوں نے فرانس میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد رپورٹرز و آڈٹ باڈرز(Reporter without Borders) (RSF) کو دی تھی جسے بعد میں ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ہانگ کانگ نے بھی جاری کیا لیکن تاحال زرینہ مری کو نہ توبازیاب کرایا گیا اور ہی اس کے زندہ رہنے کے کوئی اور شواہد ملے ہیں۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچی کے مطابق مورخہ 17-02-2009 کو جب پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے اہلکار جان سولیکی کے اغواء کا واقع پیش آیا تو اس وقت اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو لاپتہ مرد وخواتین بچوں کی ایک فہرست بھی دی گئی جس میں لاپتہ 148 خواتین اور 168 بچے و بچیوں کا تاحال غائب ہیں ۔ اس طرح ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق پاکستان آرمی 52 ٹارچر چلا رہی ہے جسکی تفصیل درج ذیل لنک پر موجود ہیں۔
زرینہ مری کے بارے میں روزنامہ انتخاب کے کالمسٹ بانک نرگس بلوچ نے مورخہ 19-01-2009 کے کالم میں ’’زرینہ مری دکھ تمہارے نہ بانٹ پائی مگر۔۔۔؟؟ ‘‘کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ ’’منیر مینگل نے اپنے تن مردہ کو گھسیٹ کر کسی نہ کسی طرح سال بھر کی گمنامی اور کسمپرسی کے بعد تربت براستہ ایران فرانس تک پہنچا دیا جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ پاکستان کے مسلمان حکمرانوں کی گرفت سے نکل آیا ہے تو اس نے جو دلدوز ،کربناک ، اذیت آمیز کہانی بلوچ قوم تک پہنچائی جس کے محض ایک جھلک سے ہی میرا جسم جیسے چلتے آرے کے نیچے آگیا۔ اس نے بتایا کہ دوران قید اس کے ٹارچر سیل میں ایک برہنہ خاتون کو پھینکا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ اس کے ساتھ جنسی بربریت کیا جائے اسے بتایا گیا کہ دیکھو ہم تمہاری خدمت کے لئے بلوچستان سے یہ ’’درنایاب‘‘ لائے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے تم پنجابیوں سے نفرت کرتے ہو۔ منیر کے انکار پر اس پر بدترین تشدد کیا گیا لیکن اس نے اپنی بہن زرینہ مری کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ جہاں اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا وہاں اُس کی آنکھ بھی خون بہارہی تھی وہ بے بس تھے اور ظالموں کے شکنجے میں تھے۔
زرینہ مری کی طرح سینکڑوں عزت کے پیکرمائیں، بہنیں، بیٹیاں آج بھی انہی درندہ صفت ریاستی فورسنز کے ہاتھوں میں نجانے کس حالت میں ہوں گے ؟ کتنے بار وہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں۔ ریاستی فورسنز ایک طرف تو بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنے کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہی تو دوسری طرف بلوچ قوم کی عزت، غیرت و ناموس پر بھی حملے کررہی ہے۔
ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں بلوچ قوم پرست رہنماؤں نواب اکبر خان بگٹی اور نوابزادہ بالاچ مری کو شہید کیا گیا ۔ 17مارچ 2005 کو نواب اکبر بگٹی کے گھر اور ڈیرہ بگٹی میں شہری آبادی پر بمباری کرکے سینکڑوں بلوچوں کو شہید کیا گیا۔ ڈیرہ بگٹی اور سوئی سے بمباری کی وجہ سے ایک لاکھ بگٹی ہجرت کرگئے اور دوسرے شہروں میں جاکر پناہ گزیر ہوئے اسی طرح دسمبر 2005 ء کو کوبلو، کاہان اور بارکھان پر شہری آبادیوں پر بمباری کی وجہ سے دو لاکھ کے قریب بلوچ ہجرت کرگئے، ستار ایدھی فاؤنڈیشن ، مرسی کور، اوکسیفم اور دیگر فلاحی تنظیموں نے ان متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے انہیں مار بھگایا، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے مری اور بگٹی خاندانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان سے ان کے امداد کیلئے اجازت طلب کی تھی لیکن انہیں بھی انکار کردیا گیا۔ پندرہ اپریل 2006 ء کو بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ پر ڈیرہ بگٹی، کوہلو، کاہان پر بمباری کے بعد نقل مکانی کے حقائق کا جائزہ لینے کیلئے بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جسکے اراکین میں اپوزیشن لیڈر کچکول علی ایڈوکیٹ، صوبائی وزیر عبدالرحمن، عبدالغفور لہڑی اور جے ڈبلیو پی کے رکن اسمبلی سلیم خان کھوسہ شامل تھے ۔ انہوں نے ان علاقوں میں جا کر لوگوں کی حالت زار دیکھی اور اس بات کی تصدیق کی کہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کاہان سے ڈھائی لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے ۔ جو صوبہ سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے انہیں کھانا، پانی، رہائش اور علاج و معالجہ کی شدید ضرورت ہے ۔ انہوں نے دنیا کے جمہوری ملکوں اور رضاکاروں کی تنظیموں سے متاثرین کے مدد کی اپیل کی تھی لیکن حکومت نے کسی کو اجازت نہیں دی تھی۔ صرف بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے کراچی، کوئٹہ اور بلوچستان بھر میں امداد ی کیمپ لگائے گئے۔ جنہوں نے ان متاثرین کی کچھ مدد کی بعد ازاں حکومت نے بلوچ نیشنل فرنٹ کے امدادی کیمپ بھی اکھاڑ دیئے تاکہ ان متاثرین کو کوئی مدد نہ مل سکے۔ پیپلز پارٹی کی 2008 ء میں قائم ہونے والی حکومت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی بجائے پالیسی تبدیل کرکے ’’مارو اور پھینکو ‘‘ کے فارمولے پر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگی۔ 18؍اپریل 2009 ء کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ اور انکے ہمراہ گرفتار ہونے والے لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں تربت سے 25کلو میٹر مرگاپ کے پہاڑیوں سے برآمد ہوئیں جنہیں اتنی بُری طرح سے تشدد کیا گیا تھا کہ ان کے چہرے مسخ کردیئے گئے تھے اور انکی شناخت ان کے پیروں اور جوتوں کے نشانوں سے کی گئیں۔
’’لاپتہ افراد کے مقدمات پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریمارکس ‘‘
روزنامہ ایکسپریس کراچی مورخہ 30-10-2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ریمارکس شہ سرخی 2 دن کی مہلت ایجنسیاں لاپتہ افراد رہا کردیں ورنہ کارروائی کرینگے۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو حکم دیا کہ یکم نومبر تک ایجنسیوں کی تحویل میں تمام لاپتہ افراد کو حتمی طور پر رہا کردیا جائے ورنہ ایجنسیوں کے خلاف موجودہ شہادتوں پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ ہم دھمکیوں میں نہیں آئیں گے کوئی یہ مت سمجھے کہ عدالت کچھ نہیں کرسکتی ۔ مکمل شہادتیں موجود ہیں کہ تمام لاپتہ افراد خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ۔ ہمیں فہرستیں اور بار بار یقین دہانی نہیں 100 فیصد پروگریس چاہیے روزانہ ایک ہی کہانی دہرائی جارہی ہے ضرورت ہوئی تو شام تک اس مقدمے کی سماعت کرینگے۔ خوامخواہ کے بہانے بازیاں نہ کی جائیں درحقیقت پسندانہ اقدمات کئے جائیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں ہوسکی اگرچہ چند افراد کو رہا کیا گیا ان کا تعلق پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے تھا جبکہ بلوچستان میں خفیہ فورسز کے ہاتھوں گرفتار شدہ لاپتہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ٹاسک کو انسانی بنیادی حقوق اور آئین کے خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا اس بات کے کئی ثبوت ملے ہیں کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔
6 ستمبر 2012 ء سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو لاپتہ افراد سے متعلق آج جمعرات تک حتمی جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے داخلہ اور دفاع کے وفاقی سیکریٹریوں کے حاضر نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی سیکریٹریز کو بلوچستان سے کوئی دلچسپی نہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی دکھائی نہیں دے رہی ہے اگر ایک کرنل کو ہتھکڑی لگادی جائے تو فوج میں کیا پیغام جائیگا ملک کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہورہی ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اخبارات میں خبر ہے کہ اقوام متحدہ کا وفد ہمارے معاملات دیکھنے کیلئے آرہا ہے ۔ باہر کے لوگ ہمارے معاملات دیکھنے کیلئے آئینگے تو اقتدار کیلئے خطرناک ہونگے۔ آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل عبیدا للہ خان نے اعتراف کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کارکردگی متاثر کن نہیں ہے سیکریٹری داخلہ بلوچستان نے بتایا کہ جون میں 70 جولائی میں 48 اور اگست میں 24 افراد قتل ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی کے لاپتہ افراد کیس کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ایف سی کے افسراں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیں اگر ایک کرنل کو ہتھکڑی لگادی گئی تو فوج میں کیا پیغام جائے گا۔ انہوں نے آئی جی ایف سی سے کہا کہ آپ اپنی ناکامی تسلیم کرلیں تاکہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کو طلب کیا جائے۔ چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی نے رپورٹ دی ہے کہ لاپتہ افراد ایف سی کے پاس ہیں ۔ جس پر آئی جی نے کہنا تھا کہ یہ تو بڑا آسان ہے کہ کوئی کہہ دے فلاں کے پاس ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اولین ترجیح لاپتہ افراد کی بازیابی ہے ۔ آپ لوگ ناکام ہوچکے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ قانون نے کیا کرنا ہے ۔ وفاقی ، صوبائی حکومت اور ایف سی نے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم تین ماہ گزر گئے ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہے ۔
’’بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے واقعات پر انسانی
حقوق کی تنظیموں /تھینک ٹینکس کی رپورٹس ‘‘
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ جون 2006 میں کہاگیا ہے ۔ پاکستان میں شہریوں کو غائب کردینے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ایسے واقعات کی شرح صوبہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ پولیس ان واقعات کی بالعموم ایف آئی آردرج نہیں کرتی ہے ۔ گمشدہ شخص کے لواحقین عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے حکام گمشدہ افراد کے بارے میں لاعلمی کااظہار کردیتے ہیں۔ حالانکہ کچھ عرصے بعد یہی افراد کسی نہ کسی حکومتی ادارے کی تحویل سے برآمد ہوتے ہیں عدالتیں بھی اس ضمن میں شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں اس تناظر میں انسانی حقوق کے کارکن ، عام شہری بالخصوص صوبہ بلوچستان میں خوف وہراس کا شکار ہیں۔ ان جبری گمشدگیوں کا شکار ہوکر رہائی پانے والے افراد نے انتہائی ہولناک انکشافات کئے ہیں۔ اس عمل سے گذرنے والے ادیب وڈاکٹر حنیف شریف نے بتایا کہ اسے کئی ماہ تک مسلسل ایک تنگ وتاریک کمرے میں زنجیر سے باندھ کر کھڑا رکھا گیا۔ یہ کمرہ انتہائی غلیظ تھا ڈاکٹر حنیف شریف نے اپنے جسم پر متعدد نشانات دکھائے جو کیڑے ، مکوڑوں کے کاٹنے سے بنے تھے، ڈاکٹر اللہ نذر کی رہائی بھی عجیب انداز میں ہوئی اُنہیں ایسی حالت میں چھوڑا گیا جب وہ مرنے کے قریب تھے اُنہوں نے بتایا کہ اسے بجلی کے جھٹکے دیئے گئے اور کھانے میں زہر بھی دیا گیا ۔ مند سے تعلق رکھنے والے اسکول ٹیچر عبدالستار کو دو مہینوں تک غیر قانونی قید میں رکھ کر اس کے جسم پر آہنی سلاخوں سے ضربیں لگائی جاتی رہی۔ یہ تمام افراد مفلوج ہوگئے تھے اور کافی عرصے تک ہسپتال میں زیر علاج رہے ۔ڈاکٹر حنیف شریف نے کوئٹہ کے قلی کیمپ کے بارے میں بتایا کہ وہاں ایسے قیدی بھی موجود تھے جنہوں نے کئی مہینوں سے سورج کی روشنی نہیں دیکھی۔ وہاں سے خوش نصیب ہی رہائی پاتے ہیں۔ ان قیدیوں کی زندگی اہلکاروں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے جو جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ نفیساتی اذیت بھی دیتے ہیں۔ ان کے گھروالوں کو قتل کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ اُنھیں کہاجاتا ہے کہ ان کے بھائی یا والد کو بھی اُٹھا لیا گیا ہے اور ان کو قتل کردیا جائے گا۔ اہلکار اپنی گفتگو میں باربار تاثر دیتے ہیں کہ ان کی تشدد سے ٹارچر سیل کا ایک اور قیدی ابھی دم توڑ گیا ہے اور وہ اس کی لاش کو کسی نالے میں پھینک آئے ہیں۔ قیدیوں کو گالیاں بھی دی جاتی ہیں۔ بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں ۔ ان جیلوں سے رہائی پانے والوں کے مطابق وہاں بہت سے لوگوں نے خود کشی کی کوشش بھی کی تھی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں (Enforced Disappearances) اور ماورائے عدالت قتل کرنے کا سلسلہ 2001 ء سے جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی فوجی آپریشن کے نام پر شہری آبادیوں پر بمباری گھروں اور مال مویشیوں کو تباہ و مسمار کرنے میں تیزی آئی، بلوچستان میں ملٹری گورنمنٹ کے اقدامات پر شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بلوچوں کی سیاسی اور معاشی جبر کو حل کرنے کی بجائے ان کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جبری طور پر غائب کرکے اور قتل کرکے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے اسلام آباد کی ماضی کی پالیسیوں کے تحت بلوچستان میں سیاسی اور معاشی اختیارات نہ دینے اور سرد مہدی ، غفلت برتنے کی وجہ سے انہیں باربار بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ نواب اکبر بگٹی کی فوج کے ہاتھوں قتل نے بلوچ قوم کی کی وفاق سے نفرت کو بڑھا دیا ہے ۔ ملٹری گورنمنٹ سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی ہزاروں کی تعداد میں گرفتار جن میں طالب علم، سیاسی ورکرز، ڈاکٹرز، جرنلسٹ اور یہا ں تکہ دکاندار بھی شامل میں انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے گرفتار کرنا، تشدد کرنا، جبری طور پر لاپتہ کرنا اور ماورائے عدالت قتل کرنے کے حربے استعمال کررہی ہے لیکن اس عمل کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں مزاحمت کاروں کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔
7؍اگست2009 ء کو بلوچستان کے شہر مند سے کراچی آئے ہوئے ناروے کے بلوچ شہری احسان ارجمندی کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکار زیرو پوائنٹ پربس سے اتار کر چہرے پر کسی بڑے مجرم کی طرح سیاہ کپڑا ڈھانپ کر اپنے ساتھ لے گئے عینی شاہدین کے مطابق بیس کے قریب پک اپ گاڑیاں نے ان کے بس کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انتہائی اطمینان سے بس کی تلاشی لی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے تھیں۔ اس دن سے آج تک نارو یجین شہری کے بارے میں پاکستانی اعلیٰ حکام کوئی ٹھوس معلومات نہیں دے رہے ہیں اور ایک بلوچ ہونے کے ناطے تاحال مسلسل ٹارچر سیلوں میں قید کیا ہوا ہے کیونکہ احسان ارجمندی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سرگرم تھے اور اُنہوں نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی ناروے آمد پر بلوچوں کا احتجاجی مظاہرہ کرنے میں مددکی تھی۔
بی بی سی ڈاٹ کام اُردو 9؍دسمبر2009 ، : بلوچستان کے علاقے مند کی رہائشی بائیس سالہ شہناز بلوچ پہلی مرتبہ جلسے میں شریک ہونے کے لئے تمپ گئیں اسی ایک قدم نے اُن کی زندگی کوسنگین خطرے سے دوچار کردیا تمپ شہر میں اتوار کو ایف سی سے مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے نوجوان شاعر میر جان میرل کے سوئم کے سلسلے میں تمپ ہائی اسکول میں منعقد پرامن جلسے میں خواتین ، بچے اور مرد شریک تھے وہ سب بلوچی میں شاعری سن رہے تھے کہ اچانک یہ پرامن منظر خونی کھیل میں بدل گیا۔ ملیشیا فورس کے اہلکاروں نے چار دیواری کامحاصرہ کیا اور ایک دم اندر داخل ہوگئے۔ اُنہوں نے نہ تو جلسہ ختم کرنے کیلئے اور نہ ہی لوگوں کو وہاں جانے سے یا منتشر ہونے کے لئے کہا۔ صرف لوگوں پر لاٹھیاں اور گولیاں برسانے لگے اور اُن کے شہناز کے بیس سالہ چچازاد بھائی مختار بلوچ کو گولی لگی اور وہ زمین پر گرگیا وہ ان کی طرف دوڑیں تو وہ بھی گولی کا نشانہ بن گئیں اس فائرنگ سے مختار بلوچ ہلاک ہوگئے اور اُن کے والد عبدالرحمان بھی زخمی ہوگئے۔
شہناز پرائمری اسکول میں ٹیچر تھیں اُنہیں گلے میں گولی لگی جوآرپار ہوگئی اُن کا دایاں ہاتھ اور بازو سن ہوگئے ہیں اور وہ بات کرنے میں سخت تکلیف محسوس کرتی ہیں۔
’’لاپتہ افراد کی کراچی سے ملنے والی لاشیں‘‘
جنوری کے آخر میں عدنان بلوچ جسے خفیہ اداروں نے مند سے اغواء کیا تھا ملیر سے اسکی لاش ملی، گوادر سے آئی ایس آئی کے ہاتھوں اغواء ہونے والے ہارون اور رزاق بلوچ کی لاشیں کراچی سے ملی پھر مقبول بلوچ اور اختر بلوچ کی لاشیں کراچی کے ویران علاقے سرجانی ٹاؤن سے برآمد ہوئیں جنہیں چلتی گاڑی سے نامعلوم افراد نے لاشیں تھانے کے سامنے پھینک کرفرار ہوئے منگھوپیر سے لاپتہ واحد بخش نیچاری جسے کوئٹہ سے اغواء کیا تھا اسکی لاش ویرانے میں پھینکی گئی پسنی سے طالب علم ساجد کریم اور بلیدی سے ماسٹر شیر محمد کو بھی حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ۔
مارچ کے مہینے میں کراچی میں 7 مارچ کو بابوافتخار اور 10مارچ کو بی این ایم پنجگور زون کے صدر ماسٹر عبدالرحمن اور زاہد بلوچ کی لاشیں بھی کراچی سے برآمد ہوئیں جن کے جسموں پر تشدد کے نشانات کے علاوہ گردے ، دل، آنکھیں نکال لی گئیں تھیں ۔
2008 ء میں بھی ایمنٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں\"Denying the undeniable\" میں جبری گمشدگیوں سے انکار دراصل لاپتہ افراد کی بازیابی سے انکار ہے جب کہ 600 سے زائد کی لسٹ سپریم کورٹ میں موجود ہے ۔پاکستانی ٹروپس بلوچ نیشنلسٹوں کو قتل کرکے اُنہیں ہیر و بنارہے ہیں اور بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کوبڑھاوادے رہے ہیں۔
11؍اکتوبر 2009 ء کو پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں اعتماد کی فضاء بنانے کے لئے صوبہ کو فوری طور پر سرکاری عسکری قوتوں سے پاک کیاجائے تاکہ تمام سیاسی قوتوں سے مذاکرات کاآغاز کیا جاسکے۔ کمیشن تنبیہ کرتا ہے کہ اگر بلوچستان کے لوگوں کی منشا اور اطمینان کے مطابق اصلاح کے اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کو اس کی بھاری قیمت چکاناپڑے گی۔ انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے حالات کو ایک ہفتہ تک مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ وفاق کی سب سے بڑی اکائی ایک ایسا آتش فشاں بن چکی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس کے نتائج بہت برُے ہوں گے ۔ بلوچستان کی صورتحال سنگین ہے اور روز بروز خراب تر ہوتی جارہی ہے ۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات عام ہیں اور رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ ریاست ان خلاف ورزیوں کی روک تھام نہیں کررہی ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ میڈیا دباؤ کے نتیجے میں یا اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے حقائق کی تفتیش کرنے اور اُنہیں پوری طرح سے رپورٹ کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سب سے دل دہلادینے والے واقعات لوگوں کو جبری غائب کردینے سے متعلق ہیں جو 2009 ء کے دوران ایک بار پھر بڑھتے جارہے ہیں۔ کمیشن کے پاس اتنی کافی شہادتیں موجود ہیں جو متاثرہ خاندانوں کے ان الزامات کی تائید کرتی ہیں کہ ان لوگوں کو انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارہ نے اغواء کرکے غائب کیاہواہے ۔
’’بلوچ کارکنوں کے اغوا وقتل پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ روزنامہ توار 28-10-2010 ‘‘
بلوچستان میں بلوچ سیاسی رہنماؤں کارکنوں کے اغواء اور ان کے تشددزدہ لاشوں کی برآمدگی پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم اینسٹی انٹرنیشنل نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ چار ماہ سے 40سے زائد بلوچ رہنماؤں و کارکنوں کو آغواء اور قتل کیا گیا ہے رپورٹ کے مطابق کارکنوں اور طلباء کو زبردستی اغواء اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر گرفتار کیا گیا اور ٹارگٹ بنا کر غیر قانونی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ لہر بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور فوجی آپریشن کے بعد شروع ہوئی رپورٹ میں مستونگ سے اغواء قتل کئے والے بلوچ شاعر فقیر محمد اور بی ایس او آزاد کے رہنماء ظہور بلوچ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ عرصہ قبل تک اغواء کے قتل کارجحان اتنا زیادہ نہیں تھا۔ ان رہنماؤں کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی ایک طے شدہ بڑھتی ہوئی پالیسی کا مظہر ہے کہ ’’مارو اور پھینک دو‘‘۔ رپورٹ میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اب ان پر صرف نظر کرنا پاکستانی و بین الاقوامی کسی بھی انسانی حقوق اور انصاف کے ادارے و حلقے کیلئے ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ جس قسم کے واقعات و سانحات بلوچ رہنماؤں و کارکنوں کے ساتھ کئے جانیوالے بدترین انسانیت سوز سلوک کی شکل میں بلوچستان میں رونما ہورہے ہیں وہ بذات خود ان اداروں اور ممالک کے وجود کے جواز پر سوالیہ نشان بن رہی ہیں۔
بلوچستان میں اغواء گمشدگیوں اور قتل متعلق ہیومن رائٹس بلوچ کی رپورٹ 30-07-2011 بلوچستان میں سیاسی رہنماؤں و کارکنوں سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے اغواء گمشدگیوں اور قتل کرکے لاشیں پھینکنے کا مسئلہ اب دنیا بھر کے نظروں میں آچکا ہے اور اس ضمن میں بعض انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ پاکستانی حکومت اس انسانیت سوز سلسلے کو بند کروائے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹس میں بلوچوں کے اغواء، لاشوں کی برآمدگی میں سیکوریٹی اداروں کو ملوث قرار دیکر پاکستان حکومت کو عالمی سطح پر جوابد ہی کے قیام پر لاکھڑا کردیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر لاپتہ بلوچوں کو بازیاب اور لاشیں پھینکے کے گھناؤنے عمل کو بند کرائے۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیاء کے ڈائریکٹر بریڈایڈمز کے مطابق صدر آصف زرداری جان لیں کہ بلوچستان میں زیادتیوں کو نظرانداز کرنا آرمی اور انٹیلی جنس اداروں کو اس بات کی اجازت دینا ہے کہ وہ پاکستان میں جہاں چاہیں زیادتیاں کرسکتے ہیں پورے بلوچستان میں جنوری 2011 ء سے کم از کم 150 لوگوں کو اغواء کرکے قتل کیا گیا اور انکی لاشیں پھینکی گئی ہیں جس کو ’’مارو اور پھینکو ‘‘آپریشن کہا جاتا ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ نے بلوچستان میں بھی شامل ہیں جس میں لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں ہیں جولائی کے شروعاتی دس دنوں میں معروف بلوچ قوم پرست کارکن عبدالغفور لانگو کی لاش ضلع لسبیلہ کے علاقے گڈانی کے ایک ویران ہوٹل کے پاس ملی جنہیں گیارہ دسمبر 2009 ء کو کراچی سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا تھا ۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکن حنیف بلوچ کو چار جولائی 2011 ء کو ضلع لسبیلہ کے شہر حب سے اغواء کیا گیا جسکی لاش چھ جولائی کو بولان کے علاقے مچھ سے ملی ان کے جسم کے اوپر ہی حصے میں تین گولیاں ماری گئی تھی اسی دن ضلع کیچ کے شہر تربت کے مضافاتی علاقے جو سک تمپ کے رہائشی اعظم محراب اور مند کے رہائشی رحیم بلوچ کی لاش برآمد ہوئی دونوں کو نامعلوم حالات میں گولیاں مارکر قتل کیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ رپورٹ: ۔ بلوچستان میں حالیہ حراستی قتال
ہیومن رائٹس واچ نے بلوچستان میں حراستی قتل اور جبری گمشدگیوں کے کیسز کی تحقیقات کیں ہیں درج ذیل کچھ کیسز ہیں جن میں پاکستان ملٹری، اسکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پیرا ملٹری فورسز فرنٹیر کور کے ملوث ہونے کے شواہد کو ظاہر کرتے ہیں۔
یوسف نظر اور صدیق عیدو جومعروف این جی او ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سینئر کوآرڈینیٹر تھے ۔ یوسف نظر پیشے کے اعتبار سے درزی تھے کو 21 ؍دسمبر 2010 ء کو ضلع گوادر کے شہر پسنی سے سیکوریٹی کے یونیفارم میں ملبوس افراد نے اغوا کیا۔ دونوں افراد کی لاشیں 28 اپریل 2011 ء کو ضلع گوادر کے علاقے اوڑمارہ کے قریب سے برآمد ہوئیں۔ نصیر کمالان کو 6 نومبر 2010 ء کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ایک مسافر وین سے گن پوائنٹ پر اغواء کیا گیا۔اغوا کا رایف سی کے یونیفارم میں تھے اور انکے پاس ایسی جیپ تھی جو عام طور پر ایف والے استعمال کرتے ہیں ۔ نصیر کمان کی لاش 17 جنوری 2011 ء کو مکان کوسٹل ہائی وے سے برآمد ہوئی۔
جمیل یعقوب کو 28؍اگست 2010 ء کو تربت شہر سے ایف سی کی وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کیا جو ملٹری کی جیب میں آئے تھے انکی لاش 10 فروری 2011 ء کو تربت کے قریب سے برآمد ہوئی۔
8جولائی 2011 ء کو بی ایس او آزاد جونیئر جوائنٹ سیکریٹری شفیع بلوچ کو ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس کے قریب اغواء کیا گیا انکے اغواکار بھی وردی میں ملبوس تین گاڑیوں میں آئے تھے اور انہیں وین سے گن پوائنٹ پر اتار کر لے گئے انکی گولی سے چھلنی لاش کوئٹہ سے 06 کلو میٹر ضلع بولان کے قریب مچھ سے ملی ، یکم جون 2011 ء کو پروفیسر صباء دشتیاری جوکہ کوئٹہ بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور معورف قلم کار اور شاعر تھے کوئٹہ سریاب روڈ میں نامعلوم افراد گولیاں مارکر قتل کردیا گیا ۔ صباء دشتیاری نے بلوچ ثقافت ، بلوچی زبان پر کئی کتابیں لکھی اور وہ اسلامی اسکالر بھی تھے ۔
’’اقوام متحدہ وفد کی رپورٹ‘‘
United nation working group on Enforced or Involentry Disappearances (WGEID) نے 10-09-2012 کو پاکستان کا 10 روزہ دورہ کے دوران اسلام آباد ،کراچی اور کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے خاندانوں اور VBMP سمیت مختلف تنظیموں اور پارٹیوں اور سرکاری وزراء اور افسران سے ملاقاتیں کیں اور 20؍دسمبر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی حقائق جاننے والا مشن (ڈبلیو جی ای آئی ڈی) ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں جس کے چیئرپرسن اولیوٹرڈی فراؤ اور عثماں ال حجے نے اپنے دس روزہ باضابطہ دورے کے اختتام پر مختصر رپورٹ میں بلوچستان اور دیگر مقامات میں لاپتہ افراد کی گمشدگیوں اور قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ورکنگ گروپ کو یہ الزامات موصول ہوئے ہیں ان میں کچھ افراد کے ذریعے جن سے ہم ملے تھے ان کے مطابق انہیں دھمکیاں دی گئی تھی یا خوفزدہ کیا گیا تھا۔ ہم ریاست سے کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہم سے ملے تھے ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے اور کسی بھی طرح کی انتقامی کارروائی، دھمکی یا انہیں خوفزدہ کرنے کیخلاف انکی حفاظت کی جائے۔ ورکنگ گروپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا حقائق جاننے والا مشن فقط انسانی بنیادوں پر مبنی تھا اور انہیں کسی طور پر بھی ثبوت جمع کرنے کا کام نہیں سونپا گیا تھا کہ جس سے وہ فوجداری کارروائی شروع کردیں کیونکہ یہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے دائرہ کار میں نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک لاپتہ شخص کی ماں نے ہم سے ان تمام افراد کو یہ پیغام پہنچانے کا کہا ہے جو پاکستان میں عوامی معاملات کے کرتا دھرتا ہیں اس نے پوچھا اگر آپ کا بہ غائب ہوجائے تو آپ کیا کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال اس آزمائش کا خلاصہ ہے جس سے یہ خاندان گزر رہا ہے ۔
پاکستان میں اغواء گمشدگی اور تشدد زدہ لاشوں ، ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں جن انسانی حقوق کے اداروں نے اب تک آواز اٹھائی ہے ان میں ہیومن رائٹس واچ، ایمنیٹی انٹرنیشنل، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ہانگ کانگ ، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی تنظیم قابل ذکر ہیں اگرچہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین پارلیمنٹ نے بھی اپنی جاری کردہ سالانہ رپورٹس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کرتے ہوئے اظہار تشویش کیا گیا ہے جبکہ سب سے زیادہ رپورٹس بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے دیئے۔
10؍اگست 2013کوبولان میں جعلی آپریشن میں 6لاپتہ افراد کی ٹارچر شدہ مسخ لاشیں پھینکی گئیں جن کی شناخت بجارمری، پلیا خان مری ، عزت خان مری، داد محمد مری اور واحد بخش مری کے نام سے ہوئیں جنہیں 8؍اگست کو مچھ بولان سے اغواء کیا گیا تھا، 11؍اگست کو بولان میں جعلی آپریشن میں4 مزید لاشیں پھینکی گئیں جن کی شناخت نورمحمدمری، رحیم مری، جمعہ خان مری اور رزاق مری کے نام سے ہوئیں یہ تمام افراد مری آباد مچھ کے رہائشی تھے۔
20؍اگست2013 کو کراچی میں مزید 2لاپتہ افراد کی لاشیں سرجانی ٹاؤن سے برآمد ہوئیں جن میں ایک کی شناخت بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات صحافی وادیب کامریڈ حاجی رزاق بلوچ اور دوسرے کی پٹھان بگٹی کے نام سے ہوئی حاجی رزاق کو24؍مارچ 2013 کولیاری سے اغواء کیا گیا تھا ۔ جتنے بھی لاپتہ افراد کے حراستی قتل ہوئے وہ سب کے سب نہتے تھے۔
اسی طرح21اور 22 ستمبر کی درمیانی شب ایف سی نے زیر حراست 3 بلوچ فرزندان جن میں ایک اِسی سالہ بزرگ عزیر مینگل، خلیل بلوچ اور عنایت بلوچ کو شہید کرکے لاشیں وڈھ میں پھینک دیں ۔ عزیر مینگل کو 21؍ستمبر کی صبح ایف سی نے وڈھ کے علاقے میں واقع اُن کے گھر سے اغواء کیا جب کہ خلیل بلوچ اور عنایت بلوچ کو 25؍اگست 2014 ء وڈھ وھیرہ سے اغواء کیا بعد میں ایف سی کے ترجمان نے میڈیا میں بیان جاری کیا کہ مذکورہ افراد سرچ آپریشن کے دوران مقابلے میں ہلاک کئے گئے جب کہ یہ تینوں ایف سی کے حراست میں تشدد کرنے کے بعد قتل کئے گئے۔
مورخہ 23ستمبرکوپیدارک سے باہوٹ بلوچ ولد پیر محمد اور ولی محمد بلوچ ولد شکاری یوسف کی مسخ شدہ لاشیں ملیں جنہیں چند دن قبل پیدارک سے پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے قائم کردہ ڈیٹھ اسکواڈ کے کارندو ں نے اغواء کیا تھا ۔ باہوٹ سری کلگ گورکوپ اور ولی محمد بلوچ سولانی گورکوپ کے رہائشی تھے۔
مورخہ24؍ستمبر2014 کو کوئٹہ کے علاقے کلی حنیفہ اور کلی قمبرانی ، سریب ، بروری، سٹیلائٹ ٹاؤن ، ہزار گنجی ، نیوکاہان کاآپریشن 32 افراد حراست کے بعد لاپتہ ۔
مورخہ 25؍ستمبر2014 ء ہوشاب کے رہائشی 12سالہ لڑکا روشن ولد روزی بلوچ کو فورسز نے تربت سے ہوشاب آنے والی مسافر وین سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردای۔
25؍ستمبر2014 ء پنجگور کے علاقے وشبود سے چار افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد جوکہ بوریوں میں بند تھے اور اُن کی لاشوں کی حالت انتہائی خستہ ہے صرف ہڈی اور کھوپڑیاں باقی رہ گئی ہیں جو ناقابل شناخت ہیں ۔
یکم ستمبر تمپ گومازی میں ایف سی کا آپریشن ہیلی کاپٹر کے ذریعے گھروں پر بمباری کرکے چھ نہتے معصوم بچوں کو شہید جب کہ ایک درجن کے قریب لوگوں کو اغواء کرنے کے بعد عقوبت خانوں میں منتقل کردیا گیا۔ دوران آپریشن درندہ صفت فورسز نے فیصل بلوچ نامی ایک کارکن کی لاش ہیلی کاپٹر سے نیچے اس کے گھر کے قریب پھینکی جوکہ گذشتہ ایک سال سے لاپتہ تھا۔ ڈیرہ بگٹی سے چھ بلوچ خواتین حراست کے بعد لاپتہ جن میں جوان 4بچیاں اور ایک بچہ بھی شامل ہے ۔
22 نومبر 2014 ء کو فورسز نے ایک چھاپہ کے دوران شہر ک میں آباد ی انخلاء کے بعد 2گرلز اسکول سمیت 16 اسکولز بند ہوئے ۔ شہرک کی آباد ی چند روز قبل تربت اور دیگر علاقوں میں منتقل ہوچکی ہے تربت، ہوشاب ایم 8 شاہرہ کے تعمیر کے آغاز کے بعد فورسز اور مزاحمت کاروں کے درمیان جھڑپوں کے باعث علاقہ مکین میں خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ پلنش سے لے کر گونکی تک عوام نے اپنے صدیوں پرانی آباد کردہ جائیداد ، گھر وفصلات چھوڑ کر نہ بادل خواستہ ، آبدیدہ آنکھوں اور دل گرفتگی کے ساتھ مجبور ی کے عالم میں دیگر علاقوں کا رُخ کرلیا ہے آبادی کے انخلا سے اسکولز بھی بند ہوگئے ہیں۔
اس سے قبل شاپک سے آبادی کی نقل مکانی سے ہائی اسکول شاپک سمیت کئی اسکولز بند ہوگئے ہیں گھر بار ومال ،مویشی چھوڑ کر زندگی بچانے کے لئے شہریوں نے خیموں میں پناہ لے لی ہے سینکڑوں بغیر چھت مفلس الحال میں رہ رہے ہیں۔ شہرک شاپک کے علاوہ نقل مکانی کرنے والوں میں ہیرونک ،کولواہ، کیکن، تجایاں ، بلور کے لوگ بھی شامل ہیں۔
13؍اکتوبر2014 ء بلوچستان بھر میں فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا ہے کوئٹہ، تربت، دشت ، مستونگ، بولان، مچھ ، کرمووڈھ، آواران، مشکے ، خضدار، پنجگور تمپ ، مند، ڈیرہ بگٹی میں بڑے پیمانے پر کاروائی کی گئی گرفتار افراد بلوچستان میں مختلف مقامات وتحقیقاتی مراکز میں منتقل کردیئے گئے سیاسی کارکنان کو حراست کے بعد لاپتہ کیاجارہاہے ۔
18؍مارچ 2014 ء سے بی ایس او آزاد کے چیئر مین زاہد بلوچ پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتار کئے جانے کے بعد سے تاحال لاپتہ ہیں اُن کی بازیابی کے لئے بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے ممبر لطیف جوہر کی تادم مرگ بھوک ہڑتال جسے بعد میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بلوچ آزادی پسند رہنماؤں کی اپیلوں کی وجہ سے بھوک ہڑتال ختم کی گئی مگر تاحال کسی ادارے نے عملی طور پر اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی زاہد بلوچ کی بے آسرا بیوی اور معصوم کمسن، شیرخوار بچے حکمرانوں کے شہر اسلام آباد میں بھی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے مگر تاحال انصاف کا ترازو بلوچوں کے پلڑے میں آنے سے قاصر ہے ۔
بسیمہ سے بی این ایم کے ممبر ابراہیم بلوچ کو ڈیتھ اسکواڈ نے اغوا کرنے کے بعد شہید کیا 27 مارچ کو ڈیرہ بگٹی ، نصیر آباد کے علاقوں میں فورسز کی بربریت جاری جس سے درجنوں مردوخواتین اور بچوں کی شہادت کی اطلاعات ملی ہیں جبکہ درجنوں مکانات کو بھی جلایا گیا ۔ زارا بی بی ، خیرہ بی بی اور بیورغ کو شہید کرنے کے ساتھ درجنوں افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ۔ اگلے روز ہی لڑو بگٹی ولد خان محمد بگٹی کی مسخ شدہ لاش نصیر آباد سے ملی جنہیں ایک دن قبل فورسز آپریشن کے دوران ساتھ لے گئے تھے ۔
2013 اپریل کی پہلی صبح کوئٹہ ہزار بگٹی، نیوکاہان میں فورسز نے بلوچ آبادیوں پر ہلہ بول کر شدید لوٹ مار کی اور 20 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
ماہ مئی میں گومازی میں 7 ماہ قبل اغواء ہونے والے عمر جان کی تشدد زدہ لاش پھینکی گئی جبکہ شعیب کو اغوا کرکے لاپتہ کردیا گیا مرگاپ سے پنجگور کے لاپتہ دو بھائی شاہ زیب اور شاہ نور کی مسخ لاشیں پھینک کر ریاست نے اپنی بربریت کا ثبوت پیش کیا۔ کوئٹہ سے دوسگے بھائی خان محمد مری اور نبی مری کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ۔ یکم جولائی کو خدائیداد عرف عبداللہ مری اور بجار مری کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ڈیرہ اللہ یار سے برآمد ہوئیں۔ جنہیں 24 ؍جون 2013 ء کو پاکستان فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا ۔ 19؍جولائی کو لاپتہ اعجاز بلوچ کی گولیوں سے چھلنی لاش کراچی میں پھینکی گئی جبکہ جی آر پی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر شمع بگٹی کے بزرگ والد حمل بگٹی اور بھائی واحد بگٹی کی تشدد زدہ گولیوں سے چھلنی لاشیں بھی پھینکی گئی۔
14؍اگست2013 ء بی ایس او آزاد کے جنرل سیکریٹری رضا جہانگیر اور بی این ایم کے رہنما امداد پجیر کو تربت میں فورسز نے اُن کے گھر پر حملہ کرکے مارٹر گولے برساکر شہید کردیا ۔ جب کہ انکا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ۔ 12؍اکتوبر 2014 کوکوئٹہ پریس کل
Комментариев нет:
Отправить комментарий