Powered By Blogger

понедельник, 5 января 2015 г.

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر سے 
خصوصی 
انٹرویو
از: آصف مگسی/ قلندر بخش میمن

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچستان کے متوسط طبقے کے مقبول ترین قوم دوست رہنما ہیں۔ وہ بلوچستان کے 
علاقے مشکے کے ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس 
آرگنائزیشن سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ فروری 2002 میں انہوں نے بی ایس او کے اپنے 
دھڑے کی بنیاد رکھی جس نے مسلح جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کی آزادی کی کھلے عام 
حمایت کی۔ 2003 میں اپنے عسکریت پسند گروہ کو منظم کرنے کیلئے وہ زیر زمین چلے گئے۔ 
2 مئی 2004 کو ان کے بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے شہ سرخیوں میں جگہ بنائی 
جب 
اس تنظیم نے گوادر میں تین چینی انجینئروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی۔
انہیں 25 مارچ 2005 کو کراچی میں ایک اپارٹمنٹ سے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اٹھالیا جہاں وہ 
خفیہ طور پراپنے پرانے بی ایس او کے ساتھیوں سے ملنے آئے تھے۔ وہ ایک سال تک لاپتہ رہے۔ 
دریں اثنا، بی ایس او نے کراچی اور بلوچستان بھر میں ان کی رہائی کیلئے بڑے پیمانے پر احتجاج 
کا 
آغاز کیا۔ 12 اگست 2006 کو انہیں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بلوچستان کے 
دارالحکومت 
کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس میں قائم جیل وارڈ میں منتقل کر دیا۔ ان کی حراست کے بعد قید 
تنہائی کے دوران انہیں شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بولان میڈیکل کمپلیکس 
میں ایمبولینس کے اسٹریچر پر پڑے کمزور ڈاکٹر اﷲ نذر کی تصویر بلوچ نوجوانوں میں مقبول ہوگئی 
اور وہ جلد ہی ایک مشہور لیڈر بن گئے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد وہ پھر سے روپوش ہو گئے اور 
اسوقت وہ بی ایل ایف کی قیادت کررہے ہیں۔
آصف مگسی: کیا آپ پنجابی آبادکاروں پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں، انہیں کون مارہا ہے اور کیوں؟
ڈاکٹر اللہ نذر: میں دنیا میں کہیں بھی معصوم لوگوں پر کسی بھی قسم کے حملے کی مذمت 
کرتا 
ہوں کیونکہ ہم انسانیت سے محبت کرتے ہیں اور اس پریقین رکھتے ہیں۔ لیکن جہاں تک سوال کا 
تعلق ہے تو وہ شخص جوکہ استعمار کی پالیسیوں کی حمایت اور پانچویں کالم کا کردار ادا کرتا ہے 
تو بلوچ اسے ایک شریک کار سمجھتے ہیں۔ لہٰذا بلوچ بلا تفریق تعلق نسل ان کے حلیفوں کو نشانہ 
بناتے ہیں۔ خواہ وہ نسلاً بلوچ ہو یا کہ ایک آبادکار۔
آصف مگسی: بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ آزادی کیلئے بلوچ کی جدوجہد عسکریت پسند زیادہ 
اور سیاسی کم ہے، اس پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟ آپ کی جدوجہد کے پیچھے کونسے سیاسی 
نظریات ہیں؟
ڈاکٹر اللہ نذر: بلوچ تحریک مکمل طور پر ایک سیاسی جدوجہد ہے۔ بلوچ عسکریت پسندی بھی 
سیاست کے سنہری اصولوں کی پابند ہے۔ ہمارے سیاسی نظریات کا مطلب ہماری سیاسی 
ریاست ہے؛ ایک جمہوری اور خوشحال آزاد بلوچستان۔
آصف مگسی: ایسا لگتا ہے کہ بلوچ کی جدوجہد میں اتحاد نہیں ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس نے 
جدوجہد محدود کیا ہے یا اسکے تدبیری فوائد ہیں، یعنی کہ متنوع قیادت ہونے کے سبب دشمن 
اسے مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتا؟
ڈاکٹر اللہ نذر: جی ہاں، میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہاں ایک آزاد بلوچستان کی جدوجہد 
میں ایک سے زائد تنظیمیں کام کررہی ہیں جس کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ لیکن ہم سب ایک 
نکتے پر متفق ہیں اور وہ ہے ایک آزاد بلوچستان۔ اس طرح سے ہمیں زیادہ تکالیف جھیلنی پڑیں گی 
لیکن قابض کا ظلم اور استبداد ہمیں متحد ہونے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے مجبور کردے گا۔
قلندر بخش میمن: کیا آپ اپنے قید میں گزارے گئے مہینوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟ کیا آپ کو 
تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا؟ کیا آپ نے دوسروں پر تشدد ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟ کیا آپ پر کوئی الزام 
عائد کیا گیا تھا؟ کیا قانونی عمل کی پیروی کی گئی تھی؟
ڈاکٹر اللہ نذر: جی ہاں، میں نے دشمن کے عقوبت خانے میں اپنے ساتھی قیدیوں پر تشدد ہوتے 
ہوئے دیکھا تھا۔ میں بھی ان میں ایک تھا جسے مستعمر کے ہاتھوں اسی تشدد اور غیر انسانی 
سلوک کا سامنا کرنا پڑا جسے میرے بلوچ بھائی اب بھی جھیل رہے ہیں۔ مجھ پر بھینس کی چوری 
یا گاڑی چھیننے جیسے جعلی اور معمولی مقدمات کیساتھ الزامات عائد کیے گئے اور یہ سب کچھ 
مجھے بدنام کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔
قلندر بخش میمن: آپ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ذکر کیا تھا کہ آپ نے فینن اور چے گویرا کی 
تحریروں کو پڑھا ہے، ان کی تحریروں میں آپ کو کس چیز نے متاثر کیا؟ چے اور فینن دونوں جدوجہد 
کے دوران ہی ایک نئے معاشرے کی تعمیر کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ چے اپنے کیمپوں میں 
طبی 
کلینک قائم کرتے اور گاوں میں کسانوں کے پاس جاتے اور ان کا علاج کرتے۔ کیا بی ایل ایف اپنے زیر 
اثر علاقوں میں وہ سب کچھ عملاً کرتی ہے جسکا وہ پرچار کرتی ہے؟ اگر ہاں تو کس طرح؟ فینن 
حریت پسندوں کے درمیان پیدا ہونے والی تبدیلی کا بھی ذکر کرتے ہیں، یعنی کہ وہ ’نئے لوگ‘ بن 
جاتے ہیں۔ کیا آپ نے اپنے اندر اور دوسروں میں کوئی تبدیلی محسوس کیا ہے؟ جدوجہد کس طرح 
سے سرمچاروں کی آتما کو بدل دیتا ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: جی ہاں۔ میں نے دونوں عظیم لکھاریوں کو پڑھا ہے۔ لیکن ہر معاشرے کی اپنی 
پیچیدگیاں ہوتی ہیں تو لہٰذا ہر تحریک آزادی اپنے ماحول کے عین مطابق کام کرتی ہے اسلئے ہم 
بلوچ قوم کے عمدہ ضابطہ ہائے تعظیم پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم چے یا دیگر 
انقلابی 
رہنماوں کو کاپی نہیں کر رہے؛ ہم اپنے اصولوں اور اپنے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں۔
ہمارا معاشرہ سب سے زیادہ پیچیدہ معاشروں میں سے ایک ہے۔ بلوچ معاشرے کی کئی پرتیں 
ہیں، مثال کے طور پر، ہمارا معاشرہ خانہ بدوش معاشرہ ہے لیکن کچھ علاقوں میں یہ نیم خانہ 
بدوش بھی ہے۔ کچھ جگہوں پر زرعی ہے تو نیم شہری علاقے بھی موجود ہیں۔ لہٰذا سرمچاروں نے 
ایک نئے معاشرے کی تعمیر کیلئے اپنی حکمت عملی وضع کی ہے۔ اب تک، میرے ذہنی مشاہدے 
کیمطابق، ایک بالکل نیا معاشرہ بلوچ قوم میں ابھرا ہے۔ سرمچار ایک آزاد اور فلاحی بلوچ ریاست 
کی 
اس ابھرتی ہوئی ذہنیت کے معمار ہیں۔
ایک طرح سے سرمچار خانہ بدوشوں، کسانوں اور بلوچ قوم کے دیگر طبقات کی رہنمائی کر رہے 
ہیں، اور اب ہم اس کے نتائج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد نے نہ صرف سرمچاروں کو 
تبدیل کیا ہے بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں بلوچستان کی آزادی کے اس انقلابی عمل کو بلوچ قوم کی 
ایک ثقافتی اور دانشورانہ حیات نو قرار دیا جاتا ہے۔
آصف مگسی: اگر عالمی طاقتیں بلوچ آزادی کی حمایت نہیں کرتیں، جوکہ اب تک انہوں نے نہیں 
کی ہے، آپ کب تک خود انحصاری پر مزاحمت کرسکتے ہیں،آپ کی صلاحیت کتنی ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: بلوچ تحریک آزادی ابتداء ہی سے ایک مقامی تحریک ہے۔ ہم اپنے لوگوں پر 
انحصارکرتے 
ہیں جو ہر طرح سے ہماری مدد کررہے ہیں؛ سامان کی ترسیل کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی۔ 
ہم اسے فتح تک جاری رکھیں گے۔ اگرچہ عالمی برادری نے بلوچ کی جانب اپنی آنکھیں بند کرلی 
ہیں، وہ اپنی عالمی انسانی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہے ہیں اور پاکستان کیخلاف کارروائی کرنے سے 
گریزاں ہیں جو بلوچستان میں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
وحشی اور بدمعاش پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس نے 
ہزارہا 
بلوچ جبری طور پر لاپتہ کیے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کو نافذ کرنے کا پابند ہونے کے باوجود 
پاکستان 
ان کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ وہ عالمی برادری کو گمراہ بھی کر رہا ہے۔ لیکن 
ایک دن عالمی برادری اور آزادی پسند لوگوں کا ضمیر پاکستان کیخلاف جاگ جائے گا۔ یا پھر، مجھے 
یقین ہے کہ، آزادی کیلئے ہماری مسلسل جدوجہد انہیں جاگنے اور عمل کرنے پر مجبور کردے گی۔
قلندر بخش میمن: آئی ایس آئی بلوچستان میں جہادی گروہوں کی معاونت کر رہا ہے.... کیا آپ 
ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آئی ایس آئی کن گروہوں کو اور کس طرح سے ان کی حمایت کررہا ہے۔ 
اسکے علاوہ، اس سلسلے میں آپ عالمی برادری اور بلوچ کو کیا پیغام دیں گے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: میں نے بین الاقوامی میڈیا سے اپنے انٹرویوز میں بارہا اس بات کا ذکر کیا ہے کہ 
پاکستانی آئی ایس آئی فرقہ واریت کے ذریعے بلوچ تحریک آزادی کا مقابلہ کرنے کیلئے بلوچستان 
میں مذہبی بنیاد پرستوں کی حمایت کر رہی ہے۔ پنجگور اور دشت مکران میں لڑکیوں کے اسکولوں 
کو نذر آتش کرنا؛ مستونگ، خضدار اور کوئٹہ میں بلوچ خواتین پر تیزاب کے حملے؛ آواران اور دشت 
میں ذکریوں کا قتل عام بلوچستان میں جہادیوں کی موجودگی کی واضح مثالیں ہیں۔ لشکر جہاد، 
انصار الاسلام آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ علاقے آواران میں لشکر طیبہ نے 
حال 
ہی میں پاکستان آرمی کنٹونمنٹ آواران، جہاں ایک بریگیڈیئر پاکستانی فوجیوں کی کمان کر رہا ہے، 
کے قریب اپنا تربیتی کیمپ کھول رکھا ہے۔
آئی ایس آئی کھلے عام جہادیوں حمایت کر رہی ہے، مالی معاونت اور ہتھیاروں کی فراہمی 
کیساتھ 
اور نقد رقم کے ذریعے جسے یورپ، امریکہ اور دیگر ایشیائی اور افریقی ممالک کو منشیات سمگل 
کرکے حاصل کیا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد بلوچ تحریک آزادی کو کچلنا اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنا 
ہے اور عالمی برادری کی توجہ ہٹانا ہے کہ اصل مسئلہ بلوچ تحریک آزادی نہیں ہے بلکہ وہ اسے 
ایک فرقہ وارانہ مسئلے کے طور پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
قلندر بخش میمن: لاپتہ افراد کا مسئلہ ہر بلوچ کے ذہن پر سوار ہے اور ہر پاکستانی کے لاشعور کا 
حصہ ہے۔ کیا آپ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ جو لوگ اٹھائے جا تے ہیں ان کیساتھ کیا 
ہوتا 
ہے؟ کیا وہ قتل کردیے جاتے ہیں یا سالوں تک زندہ رکھے جاتے اور پھر قتل کر دیے جاتے ہیں؟ کیا 
کبھی کوئی عقوبت خانوں سے فرار ہوا ہے؟
ڈاکٹر اللہ نذر: لاپتہ افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ انہیں عام طور پر گھروں، بسوں، بازاروں سے اٹھایا جاتا 
ہے اور ان میں سے اکثر کو آئی ایس آئی اور اس کی پراکسی تنظیموں کی طرف سے وحشیانہ 
تشدد کا نشانہ بناکر بیدردی سے قتل کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ بالفرض اگر کوئی ان کی قید سے 
زندہ بچ بھی جائے تو وہ پی ٹی ایس ڈی (پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) میں مبتلا ہوتے ہیں 
اور اپنی یادداشت اور حواس کھو بیٹھتے ہیں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий