ایسے حالات میں حوصلے اور ایک دوسرے کو مدد کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اگر ہم گالیاں اور برا بھلا کہتے رہے تو پھر ہم اپنے سیاسی مقاصد کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتے ۔اسی طرح آج کوئی جنگی حالات کو برداشت نہیں کرپارہا ہے تو وہ بہت کنفیوز اور سراسیمگی کا شکا رہے یا مایوسی عالم میں راہِ فرار کی تلاش میں ہے ۔ہمارے اس طرح کے غلط رویے و اعمال ایسے لوگوں کو ایک مضبوط جواز فراہم کرتے ہیں ۔ ایسے میں لوگوں کا خاموش ہونا اور پارٹی فیصلے بغیر بیرون ملک جانا روایتیں بن جاتی ہیں ۔وجہ ! حالات کو نہ سمجھنایا غیر سیاسی عمل۔نتیجہ ! ناکامی۔دوسری جانب دیکھا جا ئے تو دشمن اپنی پالیسیوں و قوت کو وسعت دیکر ہر روز نئے طریقے سے حملہ آور ہوتا ہے ۔میرے خیال میں ہماری تحریک کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بنائے گئے پاکستانی آرمی کی نئے ڈاکٹرائن نے ہمیں اتنانقصان نہیں پہنچایاجتنا آج ہماری ہی اپنی نئی ڈاکٹرائن ہمیں نقصان کی طرف لے جارہا ہے۔یہاں یہ بھی غلط نہ ہوگا کہ ہم پاکستانی آرمی کے ڈاکٹرائن کو سمجھ نہ سکے ہیں یا انکا مقابلہ نہ کرسکے ہیں ۔وہ ہمارے اندرموجود چھوٹے چھوٹے مسائل و تضادات کو جان کر یا اندر گھس کر ہوا دے کر ہم میں غلط فہمیاں پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کررہے ہیں۔بلوچ قومی جہد میں اتحاد و اتفاق اور برد باری کی کمی اس کی واضح ثبوت ہیں ۔اگر یہ فاصلے اسی طرح رہے اور مزید بڑھتے گئے تو پھر بقول شاعر ۔’’فاصلے بڑھتے ہیں تو غلط فہمیاں بڑھ جاتی ہیںپھر وہ بھی سنائی دیتا ہے جو کہا بھی نہ ہو۔‘‘آج ہمارے دوستوں میں ایسا ہی ہورہا ہے ہم بہت زیادہ غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ہر ایک کا یہی خیال ہے کی صرف میں ’’ڈان ‘‘ ہوں دوسرے مایوس ہوکر مٹ جائیں گے ،، عوام مایوس ہوکر فلان پارٹی کے خلاف جائیگا اور وہ پارٹی ختم ہوگا،آخر میں صرف میرا وجود ہوگا وغیرہ وغیرہ۔لیکن آج ہماری قوت عوام مایوس ہوگیا اور تحریک پیچھے چلی گئی تو کوئی نہیں بچے گا۔یہ بات یاد رکھنی چاہئے ، اگر عوام پانی ہے ہماری جڑوں کو مضبوط کررہی ہے تو ہم زندہ ہیں ۔ اسی طرح انکے ساتھ ہم نے غلط کھیل کھیلنے کی کوشش کی تو پانی سیلاب بھی بن سکتی ہے۔بلوچ سیاست میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ کوئی ایمانداری سے کچھ لکھے یا کہے یا فریاد کرے تو اسے کسی نہ کسی کی ایجنٹ کا لیبل لگاکر رسوا کرکے اس سے سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے جو بالکل ایک سیاسی عمل نہیں ہے ۔اور اسی طرح جلد بازی میں ایک دوسرے کو جواب دیا رہا ہے جیسے سب کچھ ختم ہوچکا ہے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہیں ۔ اب راستے الگ الگ ہوچکے ہیں ۔پھر کبھی ملنا نہیں ہے۔مگر ہم بھول چکے ہیں کہ یہ آزادی کا شاہراہ ہے ہم سب اس منزل کے مسافر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔۔ کچھ ایسا عمل نہ کیا جائے کہ پھر پچھتانا پڑے۔بقول ارسطو ’’ جواب دینے میں جلدی نہ کرو تاکہ بعد میں شرمندگی نہ ہو ‘‘بی ایس او کے ایک عام کارکن کی حیثیت سے بی ایس او کی تربیت نے مجھے یہی سکھایا ہے کہ ہمیں یہ نہیں بھولنی چاہیے کہ سب عوام ہی ہے ۔اور میں یہی سمجھتا ہوں اس وقت ہمارے پاس عوامی طاقت اور مخلص دوستوں کی جذبات کے علاوہ کوئی بڑی طاقت و دولت نہیں ہے ۔ اگر یہ مایوس ہوگئے تو پھرہم کسی کام کے نہیں رہیں گے اور تما م نقصانات اور واقعات اور حالات کا ذمہ دار ہم ہی ہونگے۔ اور جو دوست اکثر کہتے ہیں کہ سیاست گند ہوچکا ہے اور وہ خاموش یا مایوس ہورہے ہیں ۔ میں ایک عام کارکن کی حیثیت سے انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ افلاطون کی اس قول پر ضرور سوچیں جس میں اس نے کہاتھاکہ ’’ سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ہوگا کہ تم سے کمتر لوگ اٹھ کر تم پر (عوام ) راج کریں گے۔‘‘ ***
Комментариев нет:
Отправить комментарий