خاموش جنگ,, تحریر: وکرم سود, ترجمہ: لطیف بلیدی
بلوچ کو ایک سے زائد مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی آبادی اتنی کم ہے کہ وہ پاکستان کی قومی سیاست کے اعداد و شمار پر اثرانداز نہیں ہوسکتے، اگرچہ ان کا صوبہ اسٹراٹیجک اعتبار سے اہمیت کے حامل علاقے کا 45 فیصد ہے۔ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود وہ پاکستان میں سب سے زیادہ غریب اور محروم ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی صرف ان بے پناہ قدرتی وسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں جو بلوچ کے پاس ہیں لیکن انہیں ان کے ثمرات سے مستفید ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
بلوچ نے اگست 1947ء سے آزادی کا خواب دیکھا اور اس کیلئے مسلسل جدوجہد کی مگر انہیں وحشیانہ طور پر کچلا گیا۔ یکے بعد دیگرے آنیوالی پاکستانی حکومتوں نے صوبے کو محکوم و محروم اور الگ تھلگ رکھا، ان کی صداؤں کی گونج ایک کال کوٹھڑی میں ہی گلا گھونٹتی رہیں۔ غیر ملکی، خاص طور پر صحافی، بلوچستان میں ناپسندیدہ شخصیات ہیں۔ ڈیکلن والش، تب گارڈین سے تعلق رکھنے والے صحافی، نے اپنے مضمون ’پاکستان کی غلیظ جنگ‘ میں بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں جس لرزہ خیز اور گرافک انداز میں یاد دہانی کرائی کہ انہیں ملک سے نکال دیا گیا۔ اطالوی صحافی فرانسسکا مارینو کے مضمون ’آخر زمانِ پاکستان‘ پاکستانی حکام پر اس قدر ناگوار گزرا کہ انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مزید بر آں، کئی ہزار معروف بلوچ قوم پرست مرد و خواتین لاپتہ ہو چکے ہیں اور حکام نے ہمیشہ کی طرح قوم پرستوں کو بدنام کرنے کیلئے بلوچستان میں، اہلسنت والجماعت کے جانشینوں میں سے، لشکر جھنگوی میں اپنے قابل اعتماد قاتل شامل کرواکر فرقہ وارانہ دہشت گردوں کو بے لگام چھوڑ دیا ہے جنہوں نے بلوچستان میں بار ہا ہزارہ شیعوں کا قتل عام کیا۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کی 2014 کی سالانہ رپورٹ میں بلوچستان میں ان کارروائیوں کو 1948 کے بعد سے پاکستان آرمی کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کیمطابق ان کارروائیوں میں سویلین آبادی پر اندھا دھند بمباری؛ صوابدیدی گرفتاریاں؛ سرگرم بلوچ کارکنوں اور سیاسی قیدیوں کی ماورائے عدالت اغواء؛ بلوچ دانشوروں اور بلوچ معاشرے کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور متمدن ارکان کو ہدف بنا کر قتل کرنا شامل ہیں۔ 2010 کے بعد سے حکام نے ’اٹھاؤ، مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ جبری گمشدگیاں سزا سے استثنیٰ کیساتھ جاری ہیں۔ ٹھیک ایک سال قبل بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کو فرنٹیئر کور کی طرف سے اٹھایا گیا اور تب سے ان کی حفاظت اور اتا پتہ معلوم نہیں۔
انصار الاسلام، الفرقان، لشکر اسلام اور ان جیسے دیگر بنیاد پرست گروہوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے وہاں مسلسل تشویش رہی ہے جنہیں شیعوں، ہندووں، سکھوں اور ذکریوں سمیت صوبے میں رہنے والے دیگر لوگوں اور بلوچوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ کرائسس بلوچستان ڈاٹ کام نامی ایک ویب سائٹ نے وینڈی جانسن کی بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اﷲ نذر کیساتھ 2014 میں ہونیوالا ایک انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر اللہ نذر نے گزشتہ سال بلوچستان کے علاقے دشت میں داعش سے منسلک ایک گروہ لشکر خراسان کیساتھ بی ایل ایف کی ہونیوالی لڑائی کا حوالہ دیا ہے اور بلوچستان میں داعش کے پہلے ہی سے موجود چار کیمپوں کا ذکر بھی کیا ہے۔
بلوچستان میں قوم پرستوں کیلئے دیگر پیچیدگیاں بھی ہیں۔ یہ صوبہ اب افغانستان سے بلوچستان کے ذریعے باقی دنیا کو کی جانیوالی ہیروئن کی اسمگلنگ کی اہم ترین گزرگاہ پر واقع ہے۔ امام بھیل بزنجو جیسے ہیروئن سرغنہ ممتاز بلوچ کارکنوں کو ختم کرنے میں ریاست کیلئے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ 2009 میں بھیل کے بیٹے یعقوب کو ہلاک کرنے کی بی ایل ایف کی کوشش ناکام ہوئی۔ لیکن اگلے سال وہ بلوچستان میں دوسرے نمبر پر سب سے طاقتور منشیات سرغنہ حاجی لال بخش کو مارنے میں کامیاب ہوئے۔ امام بھیل سرکاری تحفظ کے تحت کافی حد تک ایک گاڈفادر کی طرح رہ رہا ہے اور جب اس نے اپنے گھر میں گوادر کے ڈپٹی کمشنر عبدالرحمان دشتی کو قتل کیا تو تب کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں بلوچ سرمچاروں نے حملہ کیا اور امام بھیل سے تعلق رکھنے والے اسلحے کو قبضے میں لے لیا۔ تو لہٰذا اس طرح سے قوم پرست فوجی دستوں، ایئر فورس، نیم فوجی دستوں، سیاسی جرائم پیشہ فوجی گٹھ جوڑ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مذہبی انتہا پسند نیٹ ورک کیخلاف ایک ہمہ جہتی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وہاں چین کا عنصر بھی موجود ہے۔ گوادر کو چین نے عیش و آرام کی ایک تفریح گاہ کے طور پر ترقی نہیں دی ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے گوادر کو سنکیانگ میں کاشغر کیساتھ منسلک کرنے کیلئے ایک عظیم الشان انفراسٹرکچر منصوبے کا حصہ ہے۔ اصل سڑک کو دریائے سندھ کے مغرب میں واقع بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے ہوتے ہوئے گزرنا تھا لیکن پنجابی لابی غالب آگئی اور مجوزہ سڑک کو واضح اقتصادی فوائد کے سبب اب پنجاب سے گزارا جائے گا۔ چینی اور پاکستانی دونوں بلوچستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
بلوچ بغاوت کا کردار تبدیل ہو رہا ہے۔ مہوش احمد، کاروان ڈاٹ کام نئی دہلی کی طرف سے شائع کردہ، اپنے مفصل مضمون میں اس بات کو وضاحت کیمصنف ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سابق سربراہ رہے ہیںساتھ سامنے لائی ہیں۔ شمال مشرقی علاقے سے تعلق رکھنے والے ریاست مخالف روایتی مراکز، جنکی قیادت مری اور بگٹی جیسے بلوچ سرداروں نے کی جوکہ بیشتر انتقال کرگئے یا تو قتل کیے گئے یا پھر جلاوطنی میں ہیں، اب اس تحریک کی قیادت جنوب سے تعلق رکھنے والی شہری متوسط طبقے کی قیادت نے سنبھال لی ہے۔
بلوچ نے اگست 1947ء سے آزادی کا خواب دیکھا اور اس کیلئے مسلسل جدوجہد کی مگر انہیں وحشیانہ طور پر کچلا گیا۔ یکے بعد دیگرے آنیوالی پاکستانی حکومتوں نے صوبے کو محکوم و محروم اور الگ تھلگ رکھا، ان کی صداؤں کی گونج ایک کال کوٹھڑی میں ہی گلا گھونٹتی رہیں۔ غیر ملکی، خاص طور پر صحافی، بلوچستان میں ناپسندیدہ شخصیات ہیں۔ ڈیکلن والش، تب گارڈین سے تعلق رکھنے والے صحافی، نے اپنے مضمون ’پاکستان کی غلیظ جنگ‘ میں بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں جس لرزہ خیز اور گرافک انداز میں یاد دہانی کرائی کہ انہیں ملک سے نکال دیا گیا۔ اطالوی صحافی فرانسسکا مارینو کے مضمون ’آخر زمانِ پاکستان‘ پاکستانی حکام پر اس قدر ناگوار گزرا کہ انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مزید بر آں، کئی ہزار معروف بلوچ قوم پرست مرد و خواتین لاپتہ ہو چکے ہیں اور حکام نے ہمیشہ کی طرح قوم پرستوں کو بدنام کرنے کیلئے بلوچستان میں، اہلسنت والجماعت کے جانشینوں میں سے، لشکر جھنگوی میں اپنے قابل اعتماد قاتل شامل کرواکر فرقہ وارانہ دہشت گردوں کو بے لگام چھوڑ دیا ہے جنہوں نے بلوچستان میں بار ہا ہزارہ شیعوں کا قتل عام کیا۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کی 2014 کی سالانہ رپورٹ میں بلوچستان میں ان کارروائیوں کو 1948 کے بعد سے پاکستان آرمی کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کیمطابق ان کارروائیوں میں سویلین آبادی پر اندھا دھند بمباری؛ صوابدیدی گرفتاریاں؛ سرگرم بلوچ کارکنوں اور سیاسی قیدیوں کی ماورائے عدالت اغواء؛ بلوچ دانشوروں اور بلوچ معاشرے کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور متمدن ارکان کو ہدف بنا کر قتل کرنا شامل ہیں۔ 2010 کے بعد سے حکام نے ’اٹھاؤ، مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ جبری گمشدگیاں سزا سے استثنیٰ کیساتھ جاری ہیں۔ ٹھیک ایک سال قبل بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کو فرنٹیئر کور کی طرف سے اٹھایا گیا اور تب سے ان کی حفاظت اور اتا پتہ معلوم نہیں۔
انصار الاسلام، الفرقان، لشکر اسلام اور ان جیسے دیگر بنیاد پرست گروہوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے وہاں مسلسل تشویش رہی ہے جنہیں شیعوں، ہندووں، سکھوں اور ذکریوں سمیت صوبے میں رہنے والے دیگر لوگوں اور بلوچوں کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ کرائسس بلوچستان ڈاٹ کام نامی ایک ویب سائٹ نے وینڈی جانسن کی بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اﷲ نذر کیساتھ 2014 میں ہونیوالا ایک انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر اللہ نذر نے گزشتہ سال بلوچستان کے علاقے دشت میں داعش سے منسلک ایک گروہ لشکر خراسان کیساتھ بی ایل ایف کی ہونیوالی لڑائی کا حوالہ دیا ہے اور بلوچستان میں داعش کے پہلے ہی سے موجود چار کیمپوں کا ذکر بھی کیا ہے۔
بلوچستان میں قوم پرستوں کیلئے دیگر پیچیدگیاں بھی ہیں۔ یہ صوبہ اب افغانستان سے بلوچستان کے ذریعے باقی دنیا کو کی جانیوالی ہیروئن کی اسمگلنگ کی اہم ترین گزرگاہ پر واقع ہے۔ امام بھیل بزنجو جیسے ہیروئن سرغنہ ممتاز بلوچ کارکنوں کو ختم کرنے میں ریاست کیلئے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ 2009 میں بھیل کے بیٹے یعقوب کو ہلاک کرنے کی بی ایل ایف کی کوشش ناکام ہوئی۔ لیکن اگلے سال وہ بلوچستان میں دوسرے نمبر پر سب سے طاقتور منشیات سرغنہ حاجی لال بخش کو مارنے میں کامیاب ہوئے۔ امام بھیل سرکاری تحفظ کے تحت کافی حد تک ایک گاڈفادر کی طرح رہ رہا ہے اور جب اس نے اپنے گھر میں گوادر کے ڈپٹی کمشنر عبدالرحمان دشتی کو قتل کیا تو تب کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں بلوچ سرمچاروں نے حملہ کیا اور امام بھیل سے تعلق رکھنے والے اسلحے کو قبضے میں لے لیا۔ تو لہٰذا اس طرح سے قوم پرست فوجی دستوں، ایئر فورس، نیم فوجی دستوں، سیاسی جرائم پیشہ فوجی گٹھ جوڑ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مذہبی انتہا پسند نیٹ ورک کیخلاف ایک ہمہ جہتی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وہاں چین کا عنصر بھی موجود ہے۔ گوادر کو چین نے عیش و آرام کی ایک تفریح گاہ کے طور پر ترقی نہیں دی ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے گوادر کو سنکیانگ میں کاشغر کیساتھ منسلک کرنے کیلئے ایک عظیم الشان انفراسٹرکچر منصوبے کا حصہ ہے۔ اصل سڑک کو دریائے سندھ کے مغرب میں واقع بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے ہوتے ہوئے گزرنا تھا لیکن پنجابی لابی غالب آگئی اور مجوزہ سڑک کو واضح اقتصادی فوائد کے سبب اب پنجاب سے گزارا جائے گا۔ چینی اور پاکستانی دونوں بلوچستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
بلوچ بغاوت کا کردار تبدیل ہو رہا ہے۔ مہوش احمد، کاروان ڈاٹ کام نئی دہلی کی طرف سے شائع کردہ، اپنے مفصل مضمون میں اس بات کو وضاحت کیمصنف ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سابق سربراہ رہے ہیںساتھ سامنے لائی ہیں۔ شمال مشرقی علاقے سے تعلق رکھنے والے ریاست مخالف روایتی مراکز، جنکی قیادت مری اور بگٹی جیسے بلوچ سرداروں نے کی جوکہ بیشتر انتقال کرگئے یا تو قتل کیے گئے یا پھر جلاوطنی میں ہیں، اب اس تحریک کی قیادت جنوب سے تعلق رکھنے والی شہری متوسط طبقے کی قیادت نے سنبھال لی ہے۔
دریں اثنا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بلوچ اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ بیرنی دنیا کو کسی حد تک متوجہ تو کر سکتی ہے لیکن ان کی حالت زار پر خاطر خواہ عالمی توجہ نہیں ہے۔ ان کی جدوجہد یک و تنہا ہے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий