شہید حمید شا ہین بلو چ ایک سچا انقلا بی کھرا کامریڈ ,, ہمبل شا ہین
زندگی میں انسان کو بہت سے لوگ ملتے
ہیں ، جن سے مل کر ایک حلقہ احباب بنتا ہے ، لیکن اس حلقے میں بھی قر بتوں کے مختلف درجا ت ہو تے ہیں ،کچھ ایسے ہو تے ہیں کہ ملیں تو خو شی ہو تی ہے اور اگر نہ مل سکیں تو دکھ اور تکلیف نہیں ہو تی ،مگر بعض دو ست اس قدر قریب ہو تے ہیں کہ اگر ملیں تو انتہا ئی مسرت ملتی ہے اور نہ ملیں تو دل بو جھل بے چین اور آنکھیں ہر وقت راہ دیکھتی ہیں ، جبکہ ایسے دو ستوں کا جہان فا نی سے رخصت ہو نے سے تادم مرگ ایک ایسے کرب اور دلی تڑپ کا انسان اس طرح شکار ہو جا تا ہے کہ بچھڑ نے کا گہرا زخم کبھی مند مل نہیں ہو پا تا ، ہر وقت ستا نے وا لی یا دیں روح کو بے چین کئے رکھتی ہیں اور آنکھیں بھر آتی ہیں ، کامریڈ حمیدشا ہین بھی را قم کے ایسے ہی گہرے اور قریب ترین دوست تھے ، حمید شا ہین کے سا تھ میری پہلی ملاقا ت اس و قت ہو ئی جب وہ سا ئنس کا لج کو ئٹہ میں انٹر کے طا لب علم اور بی ایس او کے یو نٹ سیکر ٹری تھے ، اس کے بعد فکری ہم آہنگی فروغ پا کر سنگتی کے لا زوال جذبا تی رشتے میں بدل گئی ، تنہا ئی اور محفل میں شا ہین کی عدم مو جو دگی کی کمی شدت سے محسوس ہو نے کی وجہ آپ کی منفرد اور ہر دلعزیز انقلا بی شخصیت تھی ، کم گو مگر مجلس پسند خوشگوار اور ہنس مکھ مزاج کے علا وہ آپ درویشانہ اوصاف کے ما لک تھے ، نہ تکبر نہ مر دم بیزاری ، نہ چھچھوراپن ، اور نہ ہی غیر مہذب پن کی کو ئی ایسی انسان دشمن اور جا ہلا نہ خصو صیت کبھی آپ کے طرز عمل میں دیکھی گئی ، سر ما یہ دا را نہ نظام کی بدصورت اشکال خود غر ضی ، ہر قسم کی تنگ نظری ، مو قع پر ستی ، تعیش پسندی اور دو سرے کو دھو کا یا دھکہ دے کر آگئے بڑھنے کا مظا ہرہ شا ہین کی شخصیت میں کبھی نظر نہیں آیا ، سرما ئے اور مال و دولت کو اپنی زندگی کا محور بنا نے کی بجا ئے ہمیشہ بلوچ قوم سمیت دنیا بھر کی محکوم و غلام اقوام اور پسے ہو ئے طبقات کی نجات کے حقیقی انقلابی راہ کی تلاش اور اس پر چلنے کا جنون کامریڈ حمید شا ہین کی زندگی پرغالب رہا ، یہ مقصد آپ کو ہر وقت بے چین کئے رکھتا تھا، بلوچ قو می آجو ئی اور انقلاب کی جدو جہد سے وا بستگی کیلئے بے قراری کی کیفیت تصوف کے فلسفے میں عشق حقیقی کی جز ئیا ت جیسی تھی اس فلسفے و نظریے کے مطا بق جس طرح روح ما دی و جود میں خود کو بے سکون اور نا خوش محسوس کر تے ہوئے جز ہو نے کے نا طے اپنے کل یعنی قادر مطلق میں جذب یا اس میں سما جا ناچا ہتی ہے جسے نروان یاقا لب ما ہیت کا نام بھی دیا جا تا ہے ایسی تڑپ اور خوا ہش سے جنم لینے وا لی کیفیت کو عشق حقیقی بھی قرار دیا جا تا ہے ، اسی طرح شہید سنگت حمید شا ہین کی انقلا بی فکر و نظر یہ بھی اُسے غلام و محکوم اور انسان پر انسان کی با لا دستی و نا برا بری اور استحصال کی بنیا دوں پر قا ئم معا شرے اور ارد گرد کے حا لا ت میں اُسے بے چین کئے رکھتا ، اور اسے انقلابی عمل میں جذب ہونے کے لئے بے قرار رکھتا ، نو عمری میں ہی محکوم اقوام اور مظلوم و استحصال زدہ محنت کش طبقے کے آفا قی سا ئنسی انقلا بی نظر یے مار کسزم سے متعا رف ہو نے سے کا مریڈ حمید شا ہین کا نظری تنا ظر عا لمگیر ہو گیا، ایک محکوم قوم کے فرد ہو نے کے علا وہ دنیا بھر کی انقلا بی تحریکا ت ا ور نو آبا دیا تی طا قتوں کے جبرو استحصال کے ہتھکنڈوں کے گہرے مطا لعہ نے حمید شا ہین کو انتہا ئی حساس اور با شعور بنا دیا، جبکہ بلوچ قو می تحریک اور اس کے شہدا ء کی قر با نیوں اور لا زوال کر دار سے سنگت شا ہین بہت متا ثر تھے، یہ اسی تا ثیر کا نتیجہ تھا کہ آپ نے ان شہدا ء اور تحریک کے لا زوال کر دا روں کو اپنی مشعل را ہ بنا یا ، اور ایسا ہی کردار اپنے لئے منتخب کیا ، جس کی عکا سی ا ن بلو چ شہیدوں کی یا د میں لکھی گئی آپ کی تحریروں میں بڑی نمایاں ہے، اپنے پیش رو بلو چ شہدا ء کے یوم شہا دت کو آپ کبھی نہیں بھو لے ، ہر بر سی کو شایان شان طور پر منا نے میں آپ پیش پیش رہتے ، شہیدوطن کا مریڈ فدا بلوچ کی علمی و نظر یا تی بلندی اور وسیع النظری سے آپ کا فی متا ثر تھے ،اور شہید فدا کی علمی و نظریا تی کا وش کو آپ بلوچ قو می تحریک کا رہنما یا نہ اثا ثہ تصور کر تے تھے ، شا ید یہ انہی اثرات کا نتیجہ تھا کہ کامریڈ حمیدشا ہین سیا سی عمل اور تحریک میں علم و نظر یے کو او لین تر جیح دیتے تھے ، گہرے علم اور انقلا بی نظریے کے بغیر عمل اور تحریک آپ کی نظر میں بے معنی اور تبا ہی و انتشار کے نتا ئج کے حا مل تھے ،اسی لئے سنگت شا ہین بلوچ قومی تحریک و سیاست کی تا ریخ سمیت محکو می ، غلا می ، نا برا بری اور جبر واستبداد کے خا تمے کی دنیا بھر میں چلنے وا لی تحریکا ت اور انقلا بی نظر یے اور علوم کے مطا لعہ کو اپنی زند گی کا نا گزیر حصہ بنا یا ۔
سنگت حمید شا ہین کا قو می آزا دی کا تصور محض جغرا فیا ئی علیحد گی کے مقصد سے کہیں زیا دہ وسیع اور گہرا تھا ، آپ کے خیال میں آزادی صرف بیرو نی قبضے اور جبرو استحصال سے نجات تک محدود نہیں ہے ،بلکہ یہ انسا نی بو دو با ش کا ایک ایسا اعلیٰ اور مہذب مقام ہے جہاں کسی بھی قوم کے تمام افراد کو معا شی و سما جی اور سیا سی طور پر تر قی و خوشحا لی کے یکساں مواقع حاصل ہو تے ہیں ،جہاں انسان پر انسان کی با لا دستی اور جبرو استحصال کی ہر شکل کا خا تمہ کر دیا جا تا ہے ، اور ہر کسی کو دوسرے کی زند گی کو متا ثر کئے بغیر اپنے نظریا ت اور عقائد کے مطا بق زند گی گزارنے اور اس کے اظہار کا پورا حق حاصل ہو تا ہے،نسلی، لسانی ، مذہبی و فر قہ وا را نہ تنگ نظری اور عدم مساوات و طبقاتی تفریقات نا پید ہو تی چلی جا تی ہیں ، یہ مقصد جغرا فیا ئی آزا دی کے علا وہ غلام و محکوم قوم کے سماج میں ایک سیا سی و معا شی اور معا شر تی ا نقلاب کا متقا ضی ہے ، لہٰذا آپ حقیقی آزا دی کے حصول کو انقلاب کی راہ سے گذارے بغیر ناممکن خیال کر تے تھے ،آپ کے نز دیک حقیقی قو می آزادی بیرو نی جغرا فیا ئی و سیا سی تسلط کے علا وہ معاشی غلا می سے بھی مکمل چھٹکا رے کا تقا ضا کر تی ہے ، کیو نکہ یہ اقتصا د ی محکو می ہی ہے جو بظا ہر جغرا فیا ئی طور پر آزاد ہو نے وا لی اقوام کو جدید نو آبا دیا تی صورت میں عا لمی سامرا جی قو توں کے شکنجے میں جکڑے ہو ئے ہے جس کی وجہ سے یہ نو آزاد اقوام داخلی و خا رجی پا لیسیوں کی تشکیل میں سامرا جی طا قتوں کی مدا خلت اور غلبے کا شکا رہیں، اسی لئے آپ بلوچ قو می تحریک کی انقلا بی نظر یا تی بنیا دوں کو مزید مضبوط ، وسیع اور گہرا بنا نے پر زور دیتے تھے ، اس نقطہ نظر کے مطا بق سنگت حمید شاہین محکوم اقوام اور مظلوم و استحصال زدہ طبقے کے ایک ایسے بین الاقوامی اتحاد کے قا ئل تھے جو قوم کے ہا تھوں قوم اور فرد کے ہا تھوں فرد کے استحصال کے خا تمے اور سامرا جیت کی بیخ کنی کے انقلا بی مقا صد پر استوار ہو، آپ کے مطا بق جس طرح قا بض استعما ری حکمرا نوں اور با لا دست سامرا جی قو توں کا بین الاقوا می اتحاد ہے انہی عا لمگیر بنیا دوں پر غلام اقوام اور جبرو استحصال کے شکار محنت کش عوام کو بھی متحد ہو کر اپنے خطوں میں جا ری آزا دی پسند انقلا بی لڑا ئی میں ایک دو سرے کی بھر پور حما یت و مدد کر نی چا ہیے ،یوں حمید شا ہین کا نظر یا تی تشخص ایک بین الاقوا میت پسند انقلا بی قوم دوست کا تھا ، جو نہ صرف بلوچ قوم کی آزا دی چا ہتا تھا بلکہ دنیا بھر کی غلا می و محکو می کی کسی بھی شکل کی شکا ر اقوام کی آزا دی کا بھی خوا ہش مند تھا،اور ہر قسم کی معا شی و سما جی تفریق استحصال اور جبر کی کیفیت کو ایک آزاد انسا نیت کی تکمیل کی راہ میں رکا وٹ اور اس کی ضد سمجھتا تھا ۔
شہید حمید شا ہین اپنے انقلا بی نظر یا تی رحجان میں مارکسسٹ و لیننسٹ اپروچ رکھتے تھے، اپنے نظر یے کا اظہار انہوں نے تحریرو تقا ر یر سے لے کر ہر عملی سیا سی سر گر می میں بڑا بے با کی سے کیا ، جس میں آپ ایک سچے اور کھرے کامریڈ ثابت ہو ئے ، آپ کی نظر میں بلو چ قوم سمیت تمام محکوم اقوام اور استحصال زدہ طبقات کی آزا دی و معا شی خوشحالی اور سما جی تر قی سو شلسٹ انقلا ب کے ذر یعے ہی حقیقی طور پر حاصل کی جا سکتی ہے، جبکہ سر ما یہ دارانہ نظام و سامرا جیت کو آپ قو می و طبقا تی غلا می اور نا انصافی کی بنیا د تصور کر تے ہو ئے اسے تبا ہی و بر با دی کا نظام قرار دیتے تھے ، شہید کامریڈ شا ہین اپنی اسی انقلا بی فکر کے با عث پا کستانی بائیں با زو کے ایک ایسے گروپ سے بھی کچھ عر صہ وا بستہ رہے ، جو طبقا تی اور قومی جبر و استحصال کے خا تمے اور بین الاقوا میت پسندی کا دعویدار تھا ، مگر اس گروپ کے قول و فعل میں تضاد اور بلوچ سمیت پا کستان میں مو جود قو می سوال پر مار کسز م لیننزم سے انحراف کے با عث شہید حمید شا ہین الگ ہو گئے اس کے بعد آپ پا کستا نی لیفٹ گروپوں سے پہلے جیسا تعلق استوار نہیں کرسکے ، کیو نکہ پا کستا نی با یاں با زو قو می سوال پر کبھی اس نظر یا تی بنیا د پر کھڑا ہوا نظر نہیں آیا جو لینن نے قومی سوال پر مار کسز م کی رو شنی میں فراہم کی تھیں ، آپ کی سیا سی و نظر یا تی تر بیت چو نکہ بی ایس او جیسی انقلا بی بلوچ طلبا ء تنظیم میں ہو ئی تھی اور آپ نے مارکسز م لیننزم کا مطا لعہ کسی مخصوص لیفٹ گروپ کے مفاداتی فکری فریم سے آزاد ہو کر کیا تھا ، لہٰذا آپ کی نظریاتی اپروچ ہمہ جہت ، گہری اور کافی وسیع تھی ، یوں آپ میں حقیقی انقلابی تحریک کی تلاش کی بے قراری بڑھتی رہی ، یہ وہ دور تھا جب بلوچ قومی تحریک کا حالیہ ابھار اپنا تنظیمی وسیاسی اظہار نہیں کر پایا تھا، اس دور کو بلوچ قومی تحریک کا نشیب یا قومی انقلابی سیاست کے حوالے سے تاریک دور بھی کہا جاتا ہے، اس دور میں انقلابی نظریاتی سیاست کی جگہ موقع پرست پارلیمانی ومفاد پرستانہ سیاست بلوچ سماج کے وسیع حصے پر غلبہ پا چکی تھی ، تاہم یہ زوال پزیری شہید حمید شاہین بلوچ کو متاثر نہ کر سکی اور آپ نظریاتی طور پر موقع پرستانہ نو آبادیاتی پارلیمانی سیاسی تجارت سے دور رہے، اپنی اسی نظریاتی مضبوطی کے باعث حمید شاہین بی ایس او(استار)کو انقلابی قومی فکروسیاست پر استوار کرتے ہوئے اُسے ایسے راستے پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئے جو بلوچ قومی تحریک کی حقیقی انقلابی مزاحمتی قوت سے اتحاد وانضمام کی طرف جاتا تھا ۔
اس سلسلے میں حمید شاہین نے بطور مرکزی چیئر مین دو اہم کامیابیاں حاصل کیں ،اول انہوں نے بی ایس او(استار)کے موقع پرست ومفاد پرستانہ پارلیمانی سیاست کا شکار بی این پی (عوامی)کے ساتھ ماضی میں کئے گئے اتحاد کو ختم کرتے ہوئے اسے بلوچ قومی تحریک کی تاریخی نظریاتی بنیادوں اور پروگرام پر استوار کر نے پر بھر پور توجہ دی ، دوئم انہوں نے چار دھڑوں میں تقسیم بی ایس او کو باہم اتحاد و انضمام کی لڑی میں پرونے کیلئے بھر پور کو شش کی اور اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دھڑے یعنی استار کو بی ایس او آزاد میں ضم کر دیا ، آپ کے اس اقدام سے بی ایس او کے دیگر دھڑوں کے درمیان اتحاد وانضمام کی کوششوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ، لیکن ان دھڑوں کی اتحا دی پار لیما نی پا رٹیوں کی قیادت کے بعض حصے اس سے نا خوش تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ بلوچ طلباء کا باہم تنظیمی اتحاد موقع پرستانہ پارلیمانی سیاست کی مخالف سمت اختیار کرتے ہوئے ان کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے،اور نو جوان بلوچ طلباء بلوچ قومی تحریک آجوئی کی حقیقی انقلابی راہ پر گا مزن ہو گئے اور تحریک کی انقلا بی قوتوں کے اتحا دی ثا بت ہوں گئے ، حمید شا ہین سمیت بلوچ تحریک آجو ئی سے نظریاتی وجذباتی وابستگی اور ہمدردی رکھنے والے بلوچ طلباء اور نوجوانوں کا یہ موقف تھاکہ بی ایس او چونکہ تحریک میں شعوری ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے جس کا مطمع نظر کبھی قابض نو آبادیاتی ریاستی وسیاسی ڈھانچے کا حصہ بنا نہیں رہا اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم رہی ہے ، لہٰذا اس کا تاریخی نظریاتی اور آزادی پسند جداگانہ سیاسی تشخص قائم رہنا چاہئے اوراسے ایسی کسی سیاسی پارٹی کا اتحادی نہیں ہونا چاہئے ، جو بلوچ قومی آزادی کے واضح فکر وپروگرام کی حامل نہیں ہے اور پارلیمانی سیاست سمیت نو آنادیاتی جغرافیائی وریاستی ڈھانچے کو قبول کرنے کا درس دیتی ہے ، اسی لئے آپ نے بی ایس او( استار) کو پارلیمانی سیاست کرنے والے کیمپ میں براجمان بی ایس او کے نام سے قائم کئے گئے دھڑوں کا تنظیمی اتحادی بنانے کی بجائے نو آبادیاتی پارلیمانی سیاست کی نفی کرنے اور بلوچ آزادی پسند انقلابی جدوجہد کرنے والے مزاحمت کارواں کی سیاسی حمایت کرنے والی بی ایس او آزاد سے انضمام کیا، آپ کی نظر میں ایک ایسا سماج جہاں نو آبادیاتی جبر انتہاؤں کو چھوتے ہوئے جدوجہدکے پر امن جمہوری راستوں کو بند کر چکا ہو اور بالادست قوتیں طاقت کی بد ترین اشکال کا انتہائی بے رحمی سے استعمال کر رہی ہوں وہاں مسلح عوامی طاقت سے جواب دینا نا گریز ہو جاتا ہے ، اس سلسلے میں آپ بلوچ قومی تحریک کے سر خیل اور نظریہ دان سردار خیر بخش مری کے افکار اور جدوجہد سے متاثر تھے اور انہیں اپنا عظیم رہنما مانتے تھے ، حمید شاہین کی یہ قومی وانقلابی فکر اٰسے بلوچ حریت پسند سر مچاروں کی صفوں کا حصہ بنانے کا سبب بنی ، تب سنگت حمید شاہین کی طبیعت میں دیکھی جانے والی بے قراری و بے چینی ختم ہوئی جوآزادی اور انقلاب کی حقیقی تحریک سے عملی وابستگی کیلئے تھی۔
بلوچ قومی آجوئی اور انقلاب کی منزل تک رسائی کیلئے شہید حمید شاہین نے مسلح جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا وہ محض جذباتی اور مہم جو ہانہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ آپ کے پورے سیاسی تجربے اور گہری علمی اپروچ کا نتیجہ تھا ، اس ضمن میںآپ دنیا کی متعدد انقلابی قومی وطبقاتی تحریکات کا مطالعہ کر چکے تھے، خاص طور پر بلوچ تحریک کے نشیب وفراز آپ کے ہمیشہ زیر مطالعہ ومشاہدہ اور غور وخوض کا حصہ رہے ، آپ اس امر کے قائل تھے کہ ایک انقلابی تحریک ایک انقلابی نظریے پر استوار پارٹی کے بغیر اپنی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکتی اور انقلابی پارٹی دفاعی یا مسلح ونگ کے بغیر نا مکمل رہتی ہے ، خاص طور پر ایک ایسے منظر میں جہاں نو آبادیاتی ریاستی پالیسی میں طاقت کا عنصر غالب ہو، دوسرا پہلو بلوچ سماج کی اپنی مخصوص معاشی ، سماجی اور جغرافیائی ساخت کے تناظر میں مسلح جدو جہد کی تاریخی اہمیت کا ہے ، کیونکہ بلوچستان میں صنعت کاری اور بڑے اقتصادی مراکز ناپید ہیں ، جبکہ حب سمیت لسبیلہ میں قائم صنعتوں میں مقامی افراد اقلیت میں ہیں، لہٰذا سرحدی علاقے میں واقع ہونے اور صنعتی مزدوروں کی بھاری اکثریت کا غیر مقامی ہونے کے ناطے ان صنعتوں کے بلوچ سماج پر ایسے اثرات مرتب نہیں ہو سکے جو اسے صنعتی معاشرے میں بدل سکتے، دوسری طرف زراعت بھی گہری اور کلاسیکل جاگیر دارانہ شکل میں نہیں تھی اور پانی کی کمیابی کے باعث زرخیز ہونے کے باوجود زمین کا ایک وسیع وعریض حصہ زراعی پیداوار کے قابل نہیں ہے ،جس کے باعث بارش پر انحصار کیا جاتا ہے ، زیادہ تر زمین انفرادی طورپر چھوٹی ملکیتوں میں تقسیم ہے، ما سوائے چند علاقوں کے سندھ اور پنجاب کی طرح زراعت کے شعبے میں بڑی جاگیر دارانہ طبقاتی تقسیم واضح نظرنہیں آتی، معیشت کی دیگر اشکال غیر پیداواری ہیں ، جن میں دکانداری ، ٹرانسپورٹ ، تجارت ، سرکاری محکموں میں ملازمت ، بیرونی اشیاء کی اسمگلنگ وغیرہ قابل ذکر ہیں ، ماہی گیری اگرچہ پیداواری شعبہ ہے مگر یہ صرف بلوچ ساحلی علاقوں تک محدود ہے۔
تیل وگیس سمیت معدنی ذخائر ہی بلوچستان کی وہ معاشی بنیاد ہے جو پیداوار کی صورت میں بلوچ سماج کو دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ معاشروں کے ہم پلہ بنانے میں کلیدی کردار ی صلاحیت رکھتی ہے، مگر جو پیداوار حاصل کی گئی ہے یا کی جا رہی ہے وہ نو آبادیاتی غلبے کے باعث بلوچ قوم کی ترقی وخوشحالی کیلئے استعمال نہیں ہو رہی، یہ تمام دولت پاکستانی بالا دست قوتوں اور ان کے سامراجی عالمی آقاؤں کی تجوریوں میں منتقل ہو رہی ہے، جس کے باعث یہ جائز خدشہ پایا جا تا ہے کہ نوآبادیاتی غلبہ اگر زیادہ دیر تک برقرار رہتاہے تو بلوچ قوم اپنے بے پناہ قیمتی قدرتی وسائل کے خزانے سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو سکتی ہے ، جس کا تحفظ بلوچ قومی تحریک کے فوری اور اولین مقاصد کا نا گریز حصہ ہے ، بلوچ سماج کی یہ معاشی بنیادیں صنعتی طبقاتی معاشروں کی اقتصادی بنیادوں سے مختلف نظر آتی ہیں ، اور انہی معاشی بنیادوں کی وجہ سے بلوچ آبادی منظم ہو نے کی بجائے پھیلی ہوئی ہے ، جس کا ایک سبب گلہ بانی کی صورت میں آبادی کے ایک بڑے حصے کا خانہ بدوش ہو نا بھی ہے ، اس سماجی ساخت میں اقتصادی ، سیاسی وسماجی استحصال کی نمایاں اشکال بیرونی ونو آبادیاتی صورت میں ہیں ، جس کا شکار ہر شعبہ زندگی اور ذریعہ معاش ہے ، ایسی صورت میں منزل کا ہدف اور طریقہ جدوجہد قومی آجوئی اور مسلح منظم عوامی تحریک کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتے ، جس میں بلوچ قوم کے تمام سماجی حصے یکساں بنیادوں پر شامل ہو سکتے ہیں ، ان کا مشترکہ قومی ثقافتی ، اقتصادی وسیاسی مفاد ہی بلوچ قومی مفاد ہے ، جو صرف قومی ہی نہیں بلکہ طبقاتی استحصال کے مکمل خاتمے سے ہی درست طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے ، لہٰذا قومی وطبقاتی جبر کے خاتمے کیلئے بلوچ سماج میں مسلح جدو جہد معروضی تقاضوں کے عین مطابق ہے ، جس میں نو آبادیاتی قوتوں کی عسکری و معاشی طاقت پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی نظام کو ایک نہ سنبھل سکنے والے بحران سے دو چار کیا جا سکتا ہے ، حمید شاہین بلوچ جدوجہد کے دیگر ذرائع کی اہمیت وافادیت سے بھی بخوبی آگاہ تھے ، لیکن اس کا انحصار معروضی شرائط وحالات پر قرار دیتے تھے ، آپ کے خیال میں کھلی جمہوری سیاسی سرگرمی عوام اور آزادی پسند انقلابی قوتوں کے مابین رابطے و تحریک سے عملی وابستگی اور انہیں باہم مربوط اور منظم کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے ، جو عوامی مظاہروں ، ہڑتالوں ، ذرائع ابلاغ یا اشاعتی ونشری سرگرمیوں ، کانفرنسوں ، سیمینا ر ، اور دیگر سرگرمیوں کی شکل میں قابل عمل ہو سکتی ہے ،مگر ان تمام سرگرمیوں کا نظریاتی طور پر تحریک کے انقلابی پروگرام کے ڈسپلن میں ہونا ضروری ہے ، جس کیلئے طلباء سمیت مختلف شعبہ جاتی بنیادوں پر ایک ایسی تنظیم کاری لازمی ہے جو مسلح جدوجہد کے ساتھ ایک انقلابی پارٹی کے وسیع البنیاد عوامی پلیٹ فارم سے باہم مربوط ہو ، اس تناظر میں آپ اپنے معروضی حالات کے درست مشاہدے اور گہرے ادراک کو نا گزیر سمجھتے تھے۔
شہید حمید شا ہین بلوچ نے اپنے ان اقوال و نظر یے کی عمل سے ہم آہنگی بر قرار رکھی ،اور جب کھلی سیا سی سر گر میوں کی گنجا ئش نوآبا دیا تی ریا ستی جبر سے انتہائی محدودنا پید کر دی گئی تو آپ نے اپنے نظر یے پر عمل کیلئے پہا ڑوں کو مسلح جہد کا مور چہ بنا یا ،اور قا بض ریا ست کیخلاف جنگ میں شریک ہو گئے ، بلو چ قوم آجو ئی کی اس جنگ میں آپ کا کر دار دلیرا نہ او ر مد برا نہ تھا، اس دوران آپ جنگی کا روا ئیوں کے علا وہ اپنے گو ریلا سا تھیوں میں نظر یا تی و سیا سی مبا حث کا بھی اہتمام کر تے رہے ، یہاں بھی آپ کا مطا لعا تی ذوق بر قرار رہا ، آپ سیا ست و نظر یے کو بندوق کے تا بع رکھنے کی بجا ئے بندوق کو سیا ست و نظر یے کے تا بع رکھنے کے دا عی تھے ۔
کا مریڈ حمید شا ہین جہاں سیا سی جدو جہد میں کھرے اور مخلص تھے وہاں دوستوں کے سا تھ تعلقات میں بھی پر خلو ص تھے ، جھوٹ، دھو کہ و فریب خود غر ضی ، مفادپرستی اور مالیاتی حرص آپ کی شخصیت کا کبھی حصہ نہیں رہے ، وعدہ خلافی ، تکبر، قومی و نسلی اور مذہبی سمیت ہر انسان دشمن تنگ نظری سے آپ کا کو ئی واسطہ نہ تھا ، اپنے مزاج میں سا دہ لو حی اور معصو میت کے علا وہ عا جزی و انکسا ری اور انسان دوستی کے با عث آپ بلو چ قوم سمیت تمام سیا سی و سما جی حلقوں میں ہر دلعزیزتھے ، سنگت حمید شاہین کو بھی ایسے موا قع میسر آئے جب وہ ما ل دو لت حا صل کر سکتے تھے مگر یہ سب کچھ انقلا بی نظر یے سے انحراف کی صورت میں تھا لہٰذا آپ نے اسے اپنی تذلیل اور بلوچ قوم تحریک کیخلا ف اقدام تصور کر تے ہو ئے ما لیا تی مرا عات کی پیش کشوں کو ٹھکرا دیا ، صرف یہی نہیں بلکہ آپ نے ایسے روز گار کو بھی اپنی معا شی تنگد ستی سے چھٹکارے کا ذر یعہ نہیں بنایا ، جو آپ کو محض معا شی ضرو ریا ت کی تکمیل تک محدود کر کے قو می و انقلا بی جدو جہد سے دور رکھنے کا با عث بنتا، حا لا نکہ آپ اپنے بو ڑھے والدین کے نو جوان سہا را تھے اسی لئے حمید شا ہین نے اپنی اور گھریلو معا شی ضرو ریا ت پوری کرنے کے لئے نو آبادیاتی ریاستی ڈھانچے کا پرزہ بننے کی بجائے صحافت کو اپنے ذریعہ معاش کے طور پر اختیار کیا ، لیکن زرد صحافت کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے آپ معاشی طور پر تنگدستی کا شکار رہے ، اور تمام تر تنگدستی کے باوجود آپ نے قلم کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ، اور نہ ہی خودداری پر کوئی سودے بازی کی، حمید شاہین کے مزاج میں عزت ، وقار ، خودداری اور انسانیت کے احترام اور بہادری کی روائتی بلوچیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، اپنے لباس، رہن سہن اور موسیقی کے انتخاب میں آپ مکمل طور پر بلوچ تہذیب وثقافت اور فن وادب سے متاثر اور اسکی عکاسی کرتے تھے ، سنگت حمید شاہین میں مردم بیزاری کا شائبہ تک نہ تھا ، اور تنہائی کی بجائے آپ مجلس پسند اور مجلسی آداب سے بخوبی آشنا تھے ، دوران گفتگو آپ اختلاف رائے کے باوجود مقابل کی تضحیک سے اجتناب اور شخصی عزت و احترام کے تضاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے اور سینئر زکا انتہائی احترام کرتے تھے، جبکہ ہنس مکھ اور خوشگوار طبیعت کے باعث آپ کی موجودگی یاروں کی محفل کی جان ہوتی تھی ، اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے آپ دوستوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے ، جس میں آپ کو احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ، یہی وہ آپ کے خوبصورت انسانی اوصاف تھے جو آپ کو تیزی سے بلوچ قومی انقلابی سیاست کی اعلیٰ قیادتی صفحوں تک پہنچانے کا کلیدی سبب بنے ، شاید ہی یہ اعزاز کسی اور کو حاصل ہوا ہو کہ بی ایس او کا ایک یونٹ سیکرٹری قلیل وقت میں تنظیم کے قیادتی مرحلوں کو عبور کرتے ہوئے اس کے سب سے اعلیٰ ترین منصب مرکزی چیئر مین تک پہنچا ہو ، نظریاتی اور علمی اپروچ کے حوالے سے بی ایس او میں آپ کے ہم پلہ کوئی دوسرا شاذونادر ہی تھا، کیونکہ یہ دور نظریاتی وعلمی زوال پذیری کا تھا ، جس سے بلوچ طلبہ کی سیاست بھی براہ راست متاثر تھی۔
شہید حمید شاہین تمام بلوچ نمائندہ سیاسی قوتوں کے مابین اتحاد کے قائل تھے ، اس راہ میں آپ مختلف رائے رکھنے والے بلوچ سیاسی حلقوں کے درمیان مخالفانہ بیان بازی اور کشمکش کو رکاوٹ سمجھتے تھے، اگرچہ آپ اتحاد وانضمام کیلئے بنیادی فکروپروگرام پر اتفاق کو نا گریز قرار دیتے تھے، تاہم عدم اتفاق کی صورت میں اختلافات کو دشمنی کا رنگ دینے کے حق میں نہیں تھے اور سیاسی ڈائیلاگ کو جاری رکھنے کے قائل تھے، جس کا مظاہرہ آپ نے مرکزی چیئر مین منتخب ہونے کے بعد تنظیمی ترجمان ’’استار ‘‘کی اشاعت میں شامل کئے گئے مواد کی صورت میں بھی کیا، اس مواد میں بلوچ قومی آجوئی کی تاریخی وبنیادی انقلابی فکرو سیاست پر نا قابل مصالحت مضبوط موقف اختیار کیا گیا ، مگر اختلاف رائے رکھنے والوں پر نہ تو کوئی دشمنانہ تنقید کی گئی اور نہ ہی الزام تراشی سے کام لیا گیا ، حمید شاہین کا خیال تھا کہ بلوچ قومی سیاست کے اندر دشمنانہ محاذ کھڑے کر کے بلوچ قوم کے مابین وسیع البنیاد یک جہتی کا عمل رکاوٹوں کا شکار ہو کر بلوچ قومی تحریک آجوئی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے ، یہی وجہ تھی کہ ’’استار‘‘کی اشاعت کو بی ایس او کے تمام تنظیمی گروپوں کے کارکنوں سمیت بلوچ طلباء میں بھر پور پذیرائی ملی اور اس کو شش کو تمام حلقوں میں سراہا گیا ، اورآپ ایک غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے ، حمید شاہین کا کہنا تھا کہ انقلابی نظریے اور اس پر عمل میں چونکہ بلوچ قوم کی امنگوں وخواہشات اور بنیادی حقوق کے حصول کی واضح عکاسی و تر جما نی پائی جاتی ہے لہٰذا جہاں بھی یہ انقلابی فکرو عمل پہنچے گا وہاں سماجی وسیاسی سطح پر اسے پذیرائی اور قبولیت بھی ملے گی ،جس سے اختلاف رائے رکھنے والے سیاسی حلقے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ، اور وہاں سے بلوچ قومی تحریک آجوئی کو مزید جہد کا ر میسر آسکتے ہیں ، کیونکہ اصل مسئلہ تاریخی ومعروضی حقائق اور ان کی روشنی میں درست منزل اور راستے کے ادراک کا ہے، جہاں انقلابی نظریاتی اپروچ بڑھے گی وہاں ایک حقیقی انقلابی عمل اور تحریک سے وابستگی کی شدید خواہش بھی تڑپ کی صورت اختیار کرے گی ۔
سنگت حمید شاہین بلو چ کا انقلابی فکرو عمل چونکہ اثر انگیز تھا لہٰذا رد انقلابی نو آبادیاتی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکھنا لازمی امر تھا، خاص طور پر جب رواں صدی کے آغاز پر بلوچ قومی تحریک مسلح جدو جہد کے اظہار کی صورت میں شدت سے ابھری تو کا مریڈ حمید شاہین اس میں پیش پیش اور انتہائی متحرک نظر آئے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شہر میں رہنے کے باوجود آپ نے پہاڑوں کی ہر قسم کی سہولیات سے محروم زندگی اختیار کی ، اس دوران اپنی جنگی مہارت اور بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ جس سے قابض قوتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ، یوں آپ کا وجود نو آبادیاتی ریاست کے لئے خطرے کی علامت بن گیا اور ان قوتوں کی نظر میںآپ کو راستے سے ہٹایا جانا لازمی ٹھہرا ، اور آپ کا گھیرا تنگ کیا جانے لگا، آپ چونکہ انتہائی بہادر اور جان پر کھیل جانے والے انقلابی تھے لہٰذا مسلح حالت میں ریاستی فورسز کو آپ پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی ، اور جونہی آپ کو نہتا اور تنہا پایا گیا آپ پر سرکاری فورسز اور خفیہ اداروں کے مسلح اہلکاروں کی بھاری نفری کے ساتھ اس وقت ہلہ بول دیا گیا ،20 مارچ بروزاتوار2011ء کو کوئٹہ سے بذریعہ بس کراچی جا رہے تھے، یہ بزدلانہ کام کسی ریاستی زر خرید مخبر کی مدد سے انجام دیا گیا ۔
مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ حمید شاہین نہتے اور تنہا ہیں ،ریاستی مسلح اہلکاروں کو آپ کے قریب جانے کی جلدی جلدی ہمت نہ ہوئی ، عینی شاہدین کے مطابق فورسز وخفیہ اداروں کے اہلکار گھبراہٹ کا شکار اور خوفزدہ نظر آئے، لیکن سنگت حمید شاہین دشمن کے نرغے میں ہونے کے باوجود پر عزم دکھائی دئیے،آپ جان چکے تھے کہ آپ کا بلوچ سر زمین اور قوم پر قربان ہونے کیلئے جام شہادت نوش فرمانے کا وقت آن پہنچا ہے، لہٰذا آپ نے دشمن کے سامنے زندگی کی بھیگ مانگنے اور گڑگڑانے کی بجائے بلوچ سر زمین کی آجوئی کے حق میں اور نو آبادیاتی ریاست کی بربادی کے فلک شگاف نعرے لگائے،آپ کے اس ناقابل فراموش انداز شہادت سے آپ کے پیش رو بلوچ شہداء کے دلیرانہ کردار کے ساتھ ہندوستان کے انقلابی سوشلسٹ حریت پسند نو جوان رہنما بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے لمحہ شہادت کی یاد تازہ ہوگئی جو تختہ دار تک جاتے ہوئے انگریز استعمار سے آزادی اور انقلاب کے فلک شگاف نعروں کی صورت میں ہے ، کامریڈ حمید شاہین کو بھی شہادت کا وہ مہینہ اور تاریخ نصیب ہوئی جو بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کا یوم شہادت تھا ، جو 23مارچ کو منایا جاتا ہے ، شہید حمید شاہین بلوچ کی لاش بھی اغواء نما گرفتاری کے اگلے روز یعنی 21مارچ کو کوئٹہ سے ملی ، یعنی بھگت سنگھ اور حمید شاہین کے یوم شہادت میں محض دو یوم کا فرق ہے ، جبکہ دونوں کے انقلابی نظریے میں مکمل ہم آہنگی نظر آتی ہے،بھگت سنگھ اور حمیدشاہین بلوچ میں مماثلت شاید اس لئے بھی نظر آتی ہے کہ سنگت حمید شاہین بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھیوں کے نظریے اور جدوجہد سے ہم آہنگ اور متاثر تھے،جبکہ دونوں ہی نو جوان تھے ،کامریڈ حمید شاہین نے نو جوانی کے عین شباب پر 30سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا ، اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے ،آپ کی شہادت کی خبر نہ صرف آپ کے بوڑھے والدین ، بیوی اور کمسن بیٹے وچھوٹے بہن بھائیوں اور اہلخانہ سمیت تمام عزیز واقارب پر بجلی بن کر گری بلکہ تحریک کے ساتھیوں اور حلقہ احباب پر بھی غم کے پہاڑ ڈھا گئی ، جبکہ بلوچ قوم میں اس المناک خبر پر دلی رنج کے علاوہ مزید اشتعال پھیل گیا ، جس کا مظاہرہ شدت آمیز رد عمل عوامی ہڑتالوں ، مظاہروں اور ریاستی مراکز پر حملوں کی صورت میں دیکھنے کو ملا اور بلوچ قوم نے اپنے اس عظیم فرزند کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ، شہیدحمید شاہین کے قاتلوں کو گمان تھا کہ وہ آپ کو شہید کر کے شاید آپکے اہلخانہ اور بلوچ قوم کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور وہ بلوچ قومی آجوئی اور انقلاب کے درس کو بھول جائیں گے،مگرآپ کے بوڑھے والدین ، بیوی ، بچوں اور بہن بھا ئیوں نے جس صبر و استقا مت اور بلند حو صلے کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے شہا دت کو اپنے لئے قا بل فخر قرار دیا اورآپ کے انقلا بی نظر یے کو آگے بڑھا نے کے عزم کا اظہا ر کیا اس سے قا تلوں کو سوا ئے نا کا می و رسوا ئی کے کچھ ہا تھ نہیں آ سکا جبکہ آپ کی شہا دت سے بلوچ تحریک آجو ئی کے جہد کا روں اور بلو چ عوام میں تحریک کو اس کی منزل تک پہنچا نے کا جذ بہ مزید شدت اختیا ر کر گیا ،اورآپ کی شخصیت آنے وا لی نسلوں کیلئے آزا دی و انقلا ب کی غیر مصالحا نہ جدو جہد کی علا مت بن کر ابھری ہے،شہید حمید شا ہین اپنے پیچھے ایسی یا دیں چھو ڑگئے ہیں جو کبھی بھی فرا مو ش نہیں کی جا سکیں گی ، خصو صا را قم کیلئے تا دم مرگ آپ کو بھول جا نا ممکن نہیں ہے ، کیو نکہ راقم کو آپ کے سا تھ قر بت وا لی سنگتی کے دن گذا رے کا شرف حا صل ہے ، سنگت حمید شا ہین کے سا تھ قا ئم ہو نے وا لا سنگتی کا رشتہ سب سے منفرد اور گہرا تھا ، ر اقم آج بھی اپنے اس کھرے کامریڈ کی یادوں میں بو جھل دل اور غم زدہ ہے ، اور ایک لمبی جدائی کا کرب روح کو بے چین اور دل کو دکھی کئے رکھتا ہے ، جب بھی آپ کی یاد آتی ہے تو غم اور کرب سے آنکھیں بھر آتی ہیں ، شاید اس گہرے صدمے اور غم کا زخم ابھی تک اس لئے بھی مند مل نہیں ہو سکا ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد کوئی دوسرا حمید شاہین جیسا سنگت نصیب نہیں ہو سکا،اور شاید نہ ہی مل سکے گا،حمید شاہین کا انقلابی فکرو عمل ،خوبصورت یادیں اور شہادت ہمارے اور آنے والی نسلوں کیلئے اس درس اور سبق کی حیثیت رکھتے ہیں ، لہٰذا اس کی روح کو تب ہی سکون پہنچا یا جا سکتا ہے کہ جب آپ کے دئیے ہوئے درس وعمل کے مطابق بلوچ قومی آجوئی وانقلاب کی جدو جہد کو آگے بڑھا یا جا ئے۔
ہیں ، جن سے مل کر ایک حلقہ احباب بنتا ہے ، لیکن اس حلقے میں بھی قر بتوں کے مختلف درجا ت ہو تے ہیں ،کچھ ایسے ہو تے ہیں کہ ملیں تو خو شی ہو تی ہے اور اگر نہ مل سکیں تو دکھ اور تکلیف نہیں ہو تی ،مگر بعض دو ست اس قدر قریب ہو تے ہیں کہ اگر ملیں تو انتہا ئی مسرت ملتی ہے اور نہ ملیں تو دل بو جھل بے چین اور آنکھیں ہر وقت راہ دیکھتی ہیں ، جبکہ ایسے دو ستوں کا جہان فا نی سے رخصت ہو نے سے تادم مرگ ایک ایسے کرب اور دلی تڑپ کا انسان اس طرح شکار ہو جا تا ہے کہ بچھڑ نے کا گہرا زخم کبھی مند مل نہیں ہو پا تا ، ہر وقت ستا نے وا لی یا دیں روح کو بے چین کئے رکھتی ہیں اور آنکھیں بھر آتی ہیں ، کامریڈ حمیدشا ہین بھی را قم کے ایسے ہی گہرے اور قریب ترین دوست تھے ، حمید شا ہین کے سا تھ میری پہلی ملاقا ت اس و قت ہو ئی جب وہ سا ئنس کا لج کو ئٹہ میں انٹر کے طا لب علم اور بی ایس او کے یو نٹ سیکر ٹری تھے ، اس کے بعد فکری ہم آہنگی فروغ پا کر سنگتی کے لا زوال جذبا تی رشتے میں بدل گئی ، تنہا ئی اور محفل میں شا ہین کی عدم مو جو دگی کی کمی شدت سے محسوس ہو نے کی وجہ آپ کی منفرد اور ہر دلعزیز انقلا بی شخصیت تھی ، کم گو مگر مجلس پسند خوشگوار اور ہنس مکھ مزاج کے علا وہ آپ درویشانہ اوصاف کے ما لک تھے ، نہ تکبر نہ مر دم بیزاری ، نہ چھچھوراپن ، اور نہ ہی غیر مہذب پن کی کو ئی ایسی انسان دشمن اور جا ہلا نہ خصو صیت کبھی آپ کے طرز عمل میں دیکھی گئی ، سر ما یہ دا را نہ نظام کی بدصورت اشکال خود غر ضی ، ہر قسم کی تنگ نظری ، مو قع پر ستی ، تعیش پسندی اور دو سرے کو دھو کا یا دھکہ دے کر آگئے بڑھنے کا مظا ہرہ شا ہین کی شخصیت میں کبھی نظر نہیں آیا ، سرما ئے اور مال و دولت کو اپنی زندگی کا محور بنا نے کی بجا ئے ہمیشہ بلوچ قوم سمیت دنیا بھر کی محکوم و غلام اقوام اور پسے ہو ئے طبقات کی نجات کے حقیقی انقلابی راہ کی تلاش اور اس پر چلنے کا جنون کامریڈ حمید شا ہین کی زندگی پرغالب رہا ، یہ مقصد آپ کو ہر وقت بے چین کئے رکھتا تھا، بلوچ قو می آجو ئی اور انقلاب کی جدو جہد سے وا بستگی کیلئے بے قراری کی کیفیت تصوف کے فلسفے میں عشق حقیقی کی جز ئیا ت جیسی تھی اس فلسفے و نظریے کے مطا بق جس طرح روح ما دی و جود میں خود کو بے سکون اور نا خوش محسوس کر تے ہوئے جز ہو نے کے نا طے اپنے کل یعنی قادر مطلق میں جذب یا اس میں سما جا ناچا ہتی ہے جسے نروان یاقا لب ما ہیت کا نام بھی دیا جا تا ہے ایسی تڑپ اور خوا ہش سے جنم لینے وا لی کیفیت کو عشق حقیقی بھی قرار دیا جا تا ہے ، اسی طرح شہید سنگت حمید شا ہین کی انقلا بی فکر و نظر یہ بھی اُسے غلام و محکوم اور انسان پر انسان کی با لا دستی و نا برا بری اور استحصال کی بنیا دوں پر قا ئم معا شرے اور ارد گرد کے حا لا ت میں اُسے بے چین کئے رکھتا ، اور اسے انقلابی عمل میں جذب ہونے کے لئے بے قرار رکھتا ، نو عمری میں ہی محکوم اقوام اور مظلوم و استحصال زدہ محنت کش طبقے کے آفا قی سا ئنسی انقلا بی نظر یے مار کسزم سے متعا رف ہو نے سے کا مریڈ حمید شا ہین کا نظری تنا ظر عا لمگیر ہو گیا، ایک محکوم قوم کے فرد ہو نے کے علا وہ دنیا بھر کی انقلا بی تحریکا ت ا ور نو آبا دیا تی طا قتوں کے جبرو استحصال کے ہتھکنڈوں کے گہرے مطا لعہ نے حمید شا ہین کو انتہا ئی حساس اور با شعور بنا دیا، جبکہ بلوچ قو می تحریک اور اس کے شہدا ء کی قر با نیوں اور لا زوال کر دار سے سنگت شا ہین بہت متا ثر تھے، یہ اسی تا ثیر کا نتیجہ تھا کہ آپ نے ان شہدا ء اور تحریک کے لا زوال کر دا روں کو اپنی مشعل را ہ بنا یا ، اور ایسا ہی کردار اپنے لئے منتخب کیا ، جس کی عکا سی ا ن بلو چ شہیدوں کی یا د میں لکھی گئی آپ کی تحریروں میں بڑی نمایاں ہے، اپنے پیش رو بلو چ شہدا ء کے یوم شہا دت کو آپ کبھی نہیں بھو لے ، ہر بر سی کو شایان شان طور پر منا نے میں آپ پیش پیش رہتے ، شہیدوطن کا مریڈ فدا بلوچ کی علمی و نظر یا تی بلندی اور وسیع النظری سے آپ کا فی متا ثر تھے ،اور شہید فدا کی علمی و نظریا تی کا وش کو آپ بلوچ قو می تحریک کا رہنما یا نہ اثا ثہ تصور کر تے تھے ، شا ید یہ انہی اثرات کا نتیجہ تھا کہ کامریڈ حمیدشا ہین سیا سی عمل اور تحریک میں علم و نظر یے کو او لین تر جیح دیتے تھے ، گہرے علم اور انقلا بی نظریے کے بغیر عمل اور تحریک آپ کی نظر میں بے معنی اور تبا ہی و انتشار کے نتا ئج کے حا مل تھے ،اسی لئے سنگت شا ہین بلوچ قومی تحریک و سیاست کی تا ریخ سمیت محکو می ، غلا می ، نا برا بری اور جبر واستبداد کے خا تمے کی دنیا بھر میں چلنے وا لی تحریکا ت اور انقلا بی نظر یے اور علوم کے مطا لعہ کو اپنی زند گی کا نا گزیر حصہ بنا یا ۔
سنگت حمید شا ہین کا قو می آزا دی کا تصور محض جغرا فیا ئی علیحد گی کے مقصد سے کہیں زیا دہ وسیع اور گہرا تھا ، آپ کے خیال میں آزادی صرف بیرو نی قبضے اور جبرو استحصال سے نجات تک محدود نہیں ہے ،بلکہ یہ انسا نی بو دو با ش کا ایک ایسا اعلیٰ اور مہذب مقام ہے جہاں کسی بھی قوم کے تمام افراد کو معا شی و سما جی اور سیا سی طور پر تر قی و خوشحا لی کے یکساں مواقع حاصل ہو تے ہیں ،جہاں انسان پر انسان کی با لا دستی اور جبرو استحصال کی ہر شکل کا خا تمہ کر دیا جا تا ہے ، اور ہر کسی کو دوسرے کی زند گی کو متا ثر کئے بغیر اپنے نظریا ت اور عقائد کے مطا بق زند گی گزارنے اور اس کے اظہار کا پورا حق حاصل ہو تا ہے،نسلی، لسانی ، مذہبی و فر قہ وا را نہ تنگ نظری اور عدم مساوات و طبقاتی تفریقات نا پید ہو تی چلی جا تی ہیں ، یہ مقصد جغرا فیا ئی آزا دی کے علا وہ غلام و محکوم قوم کے سماج میں ایک سیا سی و معا شی اور معا شر تی ا نقلاب کا متقا ضی ہے ، لہٰذا آپ حقیقی آزا دی کے حصول کو انقلاب کی راہ سے گذارے بغیر ناممکن خیال کر تے تھے ،آپ کے نز دیک حقیقی قو می آزادی بیرو نی جغرا فیا ئی و سیا سی تسلط کے علا وہ معاشی غلا می سے بھی مکمل چھٹکا رے کا تقا ضا کر تی ہے ، کیو نکہ یہ اقتصا د ی محکو می ہی ہے جو بظا ہر جغرا فیا ئی طور پر آزاد ہو نے وا لی اقوام کو جدید نو آبا دیا تی صورت میں عا لمی سامرا جی قو توں کے شکنجے میں جکڑے ہو ئے ہے جس کی وجہ سے یہ نو آزاد اقوام داخلی و خا رجی پا لیسیوں کی تشکیل میں سامرا جی طا قتوں کی مدا خلت اور غلبے کا شکا رہیں، اسی لئے آپ بلوچ قو می تحریک کی انقلا بی نظر یا تی بنیا دوں کو مزید مضبوط ، وسیع اور گہرا بنا نے پر زور دیتے تھے ، اس نقطہ نظر کے مطا بق سنگت حمید شاہین محکوم اقوام اور مظلوم و استحصال زدہ طبقے کے ایک ایسے بین الاقوامی اتحاد کے قا ئل تھے جو قوم کے ہا تھوں قوم اور فرد کے ہا تھوں فرد کے استحصال کے خا تمے اور سامرا جیت کی بیخ کنی کے انقلا بی مقا صد پر استوار ہو، آپ کے مطا بق جس طرح قا بض استعما ری حکمرا نوں اور با لا دست سامرا جی قو توں کا بین الاقوا می اتحاد ہے انہی عا لمگیر بنیا دوں پر غلام اقوام اور جبرو استحصال کے شکار محنت کش عوام کو بھی متحد ہو کر اپنے خطوں میں جا ری آزا دی پسند انقلا بی لڑا ئی میں ایک دو سرے کی بھر پور حما یت و مدد کر نی چا ہیے ،یوں حمید شا ہین کا نظر یا تی تشخص ایک بین الاقوا میت پسند انقلا بی قوم دوست کا تھا ، جو نہ صرف بلوچ قوم کی آزا دی چا ہتا تھا بلکہ دنیا بھر کی غلا می و محکو می کی کسی بھی شکل کی شکا ر اقوام کی آزا دی کا بھی خوا ہش مند تھا،اور ہر قسم کی معا شی و سما جی تفریق استحصال اور جبر کی کیفیت کو ایک آزاد انسا نیت کی تکمیل کی راہ میں رکا وٹ اور اس کی ضد سمجھتا تھا ۔
شہید حمید شا ہین اپنے انقلا بی نظر یا تی رحجان میں مارکسسٹ و لیننسٹ اپروچ رکھتے تھے، اپنے نظر یے کا اظہار انہوں نے تحریرو تقا ر یر سے لے کر ہر عملی سیا سی سر گر می میں بڑا بے با کی سے کیا ، جس میں آپ ایک سچے اور کھرے کامریڈ ثابت ہو ئے ، آپ کی نظر میں بلو چ قوم سمیت تمام محکوم اقوام اور استحصال زدہ طبقات کی آزا دی و معا شی خوشحالی اور سما جی تر قی سو شلسٹ انقلا ب کے ذر یعے ہی حقیقی طور پر حاصل کی جا سکتی ہے، جبکہ سر ما یہ دارانہ نظام و سامرا جیت کو آپ قو می و طبقا تی غلا می اور نا انصافی کی بنیا د تصور کر تے ہو ئے اسے تبا ہی و بر با دی کا نظام قرار دیتے تھے ، شہید کامریڈ شا ہین اپنی اسی انقلا بی فکر کے با عث پا کستانی بائیں با زو کے ایک ایسے گروپ سے بھی کچھ عر صہ وا بستہ رہے ، جو طبقا تی اور قومی جبر و استحصال کے خا تمے اور بین الاقوا میت پسندی کا دعویدار تھا ، مگر اس گروپ کے قول و فعل میں تضاد اور بلوچ سمیت پا کستان میں مو جود قو می سوال پر مار کسز م لیننزم سے انحراف کے با عث شہید حمید شا ہین الگ ہو گئے اس کے بعد آپ پا کستا نی لیفٹ گروپوں سے پہلے جیسا تعلق استوار نہیں کرسکے ، کیو نکہ پا کستا نی با یاں با زو قو می سوال پر کبھی اس نظر یا تی بنیا د پر کھڑا ہوا نظر نہیں آیا جو لینن نے قومی سوال پر مار کسز م کی رو شنی میں فراہم کی تھیں ، آپ کی سیا سی و نظر یا تی تر بیت چو نکہ بی ایس او جیسی انقلا بی بلوچ طلبا ء تنظیم میں ہو ئی تھی اور آپ نے مارکسز م لیننزم کا مطا لعہ کسی مخصوص لیفٹ گروپ کے مفاداتی فکری فریم سے آزاد ہو کر کیا تھا ، لہٰذا آپ کی نظریاتی اپروچ ہمہ جہت ، گہری اور کافی وسیع تھی ، یوں آپ میں حقیقی انقلابی تحریک کی تلاش کی بے قراری بڑھتی رہی ، یہ وہ دور تھا جب بلوچ قومی تحریک کا حالیہ ابھار اپنا تنظیمی وسیاسی اظہار نہیں کر پایا تھا، اس دور کو بلوچ قومی تحریک کا نشیب یا قومی انقلابی سیاست کے حوالے سے تاریک دور بھی کہا جاتا ہے، اس دور میں انقلابی نظریاتی سیاست کی جگہ موقع پرست پارلیمانی ومفاد پرستانہ سیاست بلوچ سماج کے وسیع حصے پر غلبہ پا چکی تھی ، تاہم یہ زوال پزیری شہید حمید شاہین بلوچ کو متاثر نہ کر سکی اور آپ نظریاتی طور پر موقع پرستانہ نو آبادیاتی پارلیمانی سیاسی تجارت سے دور رہے، اپنی اسی نظریاتی مضبوطی کے باعث حمید شاہین بی ایس او(استار)کو انقلابی قومی فکروسیاست پر استوار کرتے ہوئے اُسے ایسے راستے پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئے جو بلوچ قومی تحریک کی حقیقی انقلابی مزاحمتی قوت سے اتحاد وانضمام کی طرف جاتا تھا ۔
اس سلسلے میں حمید شاہین نے بطور مرکزی چیئر مین دو اہم کامیابیاں حاصل کیں ،اول انہوں نے بی ایس او(استار)کے موقع پرست ومفاد پرستانہ پارلیمانی سیاست کا شکار بی این پی (عوامی)کے ساتھ ماضی میں کئے گئے اتحاد کو ختم کرتے ہوئے اسے بلوچ قومی تحریک کی تاریخی نظریاتی بنیادوں اور پروگرام پر استوار کر نے پر بھر پور توجہ دی ، دوئم انہوں نے چار دھڑوں میں تقسیم بی ایس او کو باہم اتحاد و انضمام کی لڑی میں پرونے کیلئے بھر پور کو شش کی اور اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دھڑے یعنی استار کو بی ایس او آزاد میں ضم کر دیا ، آپ کے اس اقدام سے بی ایس او کے دیگر دھڑوں کے درمیان اتحاد وانضمام کی کوششوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ، لیکن ان دھڑوں کی اتحا دی پار لیما نی پا رٹیوں کی قیادت کے بعض حصے اس سے نا خوش تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ بلوچ طلباء کا باہم تنظیمی اتحاد موقع پرستانہ پارلیمانی سیاست کی مخالف سمت اختیار کرتے ہوئے ان کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے،اور نو جوان بلوچ طلباء بلوچ قومی تحریک آجوئی کی حقیقی انقلابی راہ پر گا مزن ہو گئے اور تحریک کی انقلا بی قوتوں کے اتحا دی ثا بت ہوں گئے ، حمید شا ہین سمیت بلوچ تحریک آجو ئی سے نظریاتی وجذباتی وابستگی اور ہمدردی رکھنے والے بلوچ طلباء اور نوجوانوں کا یہ موقف تھاکہ بی ایس او چونکہ تحریک میں شعوری ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے جس کا مطمع نظر کبھی قابض نو آبادیاتی ریاستی وسیاسی ڈھانچے کا حصہ بنا نہیں رہا اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم رہی ہے ، لہٰذا اس کا تاریخی نظریاتی اور آزادی پسند جداگانہ سیاسی تشخص قائم رہنا چاہئے اوراسے ایسی کسی سیاسی پارٹی کا اتحادی نہیں ہونا چاہئے ، جو بلوچ قومی آزادی کے واضح فکر وپروگرام کی حامل نہیں ہے اور پارلیمانی سیاست سمیت نو آنادیاتی جغرافیائی وریاستی ڈھانچے کو قبول کرنے کا درس دیتی ہے ، اسی لئے آپ نے بی ایس او( استار) کو پارلیمانی سیاست کرنے والے کیمپ میں براجمان بی ایس او کے نام سے قائم کئے گئے دھڑوں کا تنظیمی اتحادی بنانے کی بجائے نو آبادیاتی پارلیمانی سیاست کی نفی کرنے اور بلوچ آزادی پسند انقلابی جدوجہد کرنے والے مزاحمت کارواں کی سیاسی حمایت کرنے والی بی ایس او آزاد سے انضمام کیا، آپ کی نظر میں ایک ایسا سماج جہاں نو آبادیاتی جبر انتہاؤں کو چھوتے ہوئے جدوجہدکے پر امن جمہوری راستوں کو بند کر چکا ہو اور بالادست قوتیں طاقت کی بد ترین اشکال کا انتہائی بے رحمی سے استعمال کر رہی ہوں وہاں مسلح عوامی طاقت سے جواب دینا نا گریز ہو جاتا ہے ، اس سلسلے میں آپ بلوچ قومی تحریک کے سر خیل اور نظریہ دان سردار خیر بخش مری کے افکار اور جدوجہد سے متاثر تھے اور انہیں اپنا عظیم رہنما مانتے تھے ، حمید شاہین کی یہ قومی وانقلابی فکر اٰسے بلوچ حریت پسند سر مچاروں کی صفوں کا حصہ بنانے کا سبب بنی ، تب سنگت حمید شاہین کی طبیعت میں دیکھی جانے والی بے قراری و بے چینی ختم ہوئی جوآزادی اور انقلاب کی حقیقی تحریک سے عملی وابستگی کیلئے تھی۔
بلوچ قومی آجوئی اور انقلاب کی منزل تک رسائی کیلئے شہید حمید شاہین نے مسلح جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا وہ محض جذباتی اور مہم جو ہانہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ آپ کے پورے سیاسی تجربے اور گہری علمی اپروچ کا نتیجہ تھا ، اس ضمن میںآپ دنیا کی متعدد انقلابی قومی وطبقاتی تحریکات کا مطالعہ کر چکے تھے، خاص طور پر بلوچ تحریک کے نشیب وفراز آپ کے ہمیشہ زیر مطالعہ ومشاہدہ اور غور وخوض کا حصہ رہے ، آپ اس امر کے قائل تھے کہ ایک انقلابی تحریک ایک انقلابی نظریے پر استوار پارٹی کے بغیر اپنی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکتی اور انقلابی پارٹی دفاعی یا مسلح ونگ کے بغیر نا مکمل رہتی ہے ، خاص طور پر ایک ایسے منظر میں جہاں نو آبادیاتی ریاستی پالیسی میں طاقت کا عنصر غالب ہو، دوسرا پہلو بلوچ سماج کی اپنی مخصوص معاشی ، سماجی اور جغرافیائی ساخت کے تناظر میں مسلح جدو جہد کی تاریخی اہمیت کا ہے ، کیونکہ بلوچستان میں صنعت کاری اور بڑے اقتصادی مراکز ناپید ہیں ، جبکہ حب سمیت لسبیلہ میں قائم صنعتوں میں مقامی افراد اقلیت میں ہیں، لہٰذا سرحدی علاقے میں واقع ہونے اور صنعتی مزدوروں کی بھاری اکثریت کا غیر مقامی ہونے کے ناطے ان صنعتوں کے بلوچ سماج پر ایسے اثرات مرتب نہیں ہو سکے جو اسے صنعتی معاشرے میں بدل سکتے، دوسری طرف زراعت بھی گہری اور کلاسیکل جاگیر دارانہ شکل میں نہیں تھی اور پانی کی کمیابی کے باعث زرخیز ہونے کے باوجود زمین کا ایک وسیع وعریض حصہ زراعی پیداوار کے قابل نہیں ہے ،جس کے باعث بارش پر انحصار کیا جاتا ہے ، زیادہ تر زمین انفرادی طورپر چھوٹی ملکیتوں میں تقسیم ہے، ما سوائے چند علاقوں کے سندھ اور پنجاب کی طرح زراعت کے شعبے میں بڑی جاگیر دارانہ طبقاتی تقسیم واضح نظرنہیں آتی، معیشت کی دیگر اشکال غیر پیداواری ہیں ، جن میں دکانداری ، ٹرانسپورٹ ، تجارت ، سرکاری محکموں میں ملازمت ، بیرونی اشیاء کی اسمگلنگ وغیرہ قابل ذکر ہیں ، ماہی گیری اگرچہ پیداواری شعبہ ہے مگر یہ صرف بلوچ ساحلی علاقوں تک محدود ہے۔
تیل وگیس سمیت معدنی ذخائر ہی بلوچستان کی وہ معاشی بنیاد ہے جو پیداوار کی صورت میں بلوچ سماج کو دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ معاشروں کے ہم پلہ بنانے میں کلیدی کردار ی صلاحیت رکھتی ہے، مگر جو پیداوار حاصل کی گئی ہے یا کی جا رہی ہے وہ نو آبادیاتی غلبے کے باعث بلوچ قوم کی ترقی وخوشحالی کیلئے استعمال نہیں ہو رہی، یہ تمام دولت پاکستانی بالا دست قوتوں اور ان کے سامراجی عالمی آقاؤں کی تجوریوں میں منتقل ہو رہی ہے، جس کے باعث یہ جائز خدشہ پایا جا تا ہے کہ نوآبادیاتی غلبہ اگر زیادہ دیر تک برقرار رہتاہے تو بلوچ قوم اپنے بے پناہ قیمتی قدرتی وسائل کے خزانے سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو سکتی ہے ، جس کا تحفظ بلوچ قومی تحریک کے فوری اور اولین مقاصد کا نا گریز حصہ ہے ، بلوچ سماج کی یہ معاشی بنیادیں صنعتی طبقاتی معاشروں کی اقتصادی بنیادوں سے مختلف نظر آتی ہیں ، اور انہی معاشی بنیادوں کی وجہ سے بلوچ آبادی منظم ہو نے کی بجائے پھیلی ہوئی ہے ، جس کا ایک سبب گلہ بانی کی صورت میں آبادی کے ایک بڑے حصے کا خانہ بدوش ہو نا بھی ہے ، اس سماجی ساخت میں اقتصادی ، سیاسی وسماجی استحصال کی نمایاں اشکال بیرونی ونو آبادیاتی صورت میں ہیں ، جس کا شکار ہر شعبہ زندگی اور ذریعہ معاش ہے ، ایسی صورت میں منزل کا ہدف اور طریقہ جدوجہد قومی آجوئی اور مسلح منظم عوامی تحریک کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتے ، جس میں بلوچ قوم کے تمام سماجی حصے یکساں بنیادوں پر شامل ہو سکتے ہیں ، ان کا مشترکہ قومی ثقافتی ، اقتصادی وسیاسی مفاد ہی بلوچ قومی مفاد ہے ، جو صرف قومی ہی نہیں بلکہ طبقاتی استحصال کے مکمل خاتمے سے ہی درست طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے ، لہٰذا قومی وطبقاتی جبر کے خاتمے کیلئے بلوچ سماج میں مسلح جدو جہد معروضی تقاضوں کے عین مطابق ہے ، جس میں نو آبادیاتی قوتوں کی عسکری و معاشی طاقت پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی نظام کو ایک نہ سنبھل سکنے والے بحران سے دو چار کیا جا سکتا ہے ، حمید شاہین بلوچ جدوجہد کے دیگر ذرائع کی اہمیت وافادیت سے بھی بخوبی آگاہ تھے ، لیکن اس کا انحصار معروضی شرائط وحالات پر قرار دیتے تھے ، آپ کے خیال میں کھلی جمہوری سیاسی سرگرمی عوام اور آزادی پسند انقلابی قوتوں کے مابین رابطے و تحریک سے عملی وابستگی اور انہیں باہم مربوط اور منظم کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے ، جو عوامی مظاہروں ، ہڑتالوں ، ذرائع ابلاغ یا اشاعتی ونشری سرگرمیوں ، کانفرنسوں ، سیمینا ر ، اور دیگر سرگرمیوں کی شکل میں قابل عمل ہو سکتی ہے ،مگر ان تمام سرگرمیوں کا نظریاتی طور پر تحریک کے انقلابی پروگرام کے ڈسپلن میں ہونا ضروری ہے ، جس کیلئے طلباء سمیت مختلف شعبہ جاتی بنیادوں پر ایک ایسی تنظیم کاری لازمی ہے جو مسلح جدوجہد کے ساتھ ایک انقلابی پارٹی کے وسیع البنیاد عوامی پلیٹ فارم سے باہم مربوط ہو ، اس تناظر میں آپ اپنے معروضی حالات کے درست مشاہدے اور گہرے ادراک کو نا گزیر سمجھتے تھے۔
شہید حمید شا ہین بلوچ نے اپنے ان اقوال و نظر یے کی عمل سے ہم آہنگی بر قرار رکھی ،اور جب کھلی سیا سی سر گر میوں کی گنجا ئش نوآبا دیا تی ریا ستی جبر سے انتہائی محدودنا پید کر دی گئی تو آپ نے اپنے نظر یے پر عمل کیلئے پہا ڑوں کو مسلح جہد کا مور چہ بنا یا ،اور قا بض ریا ست کیخلاف جنگ میں شریک ہو گئے ، بلو چ قوم آجو ئی کی اس جنگ میں آپ کا کر دار دلیرا نہ او ر مد برا نہ تھا، اس دوران آپ جنگی کا روا ئیوں کے علا وہ اپنے گو ریلا سا تھیوں میں نظر یا تی و سیا سی مبا حث کا بھی اہتمام کر تے رہے ، یہاں بھی آپ کا مطا لعا تی ذوق بر قرار رہا ، آپ سیا ست و نظر یے کو بندوق کے تا بع رکھنے کی بجا ئے بندوق کو سیا ست و نظر یے کے تا بع رکھنے کے دا عی تھے ۔
کا مریڈ حمید شا ہین جہاں سیا سی جدو جہد میں کھرے اور مخلص تھے وہاں دوستوں کے سا تھ تعلقات میں بھی پر خلو ص تھے ، جھوٹ، دھو کہ و فریب خود غر ضی ، مفادپرستی اور مالیاتی حرص آپ کی شخصیت کا کبھی حصہ نہیں رہے ، وعدہ خلافی ، تکبر، قومی و نسلی اور مذہبی سمیت ہر انسان دشمن تنگ نظری سے آپ کا کو ئی واسطہ نہ تھا ، اپنے مزاج میں سا دہ لو حی اور معصو میت کے علا وہ عا جزی و انکسا ری اور انسان دوستی کے با عث آپ بلو چ قوم سمیت تمام سیا سی و سما جی حلقوں میں ہر دلعزیزتھے ، سنگت حمید شاہین کو بھی ایسے موا قع میسر آئے جب وہ ما ل دو لت حا صل کر سکتے تھے مگر یہ سب کچھ انقلا بی نظر یے سے انحراف کی صورت میں تھا لہٰذا آپ نے اسے اپنی تذلیل اور بلوچ قوم تحریک کیخلا ف اقدام تصور کر تے ہو ئے ما لیا تی مرا عات کی پیش کشوں کو ٹھکرا دیا ، صرف یہی نہیں بلکہ آپ نے ایسے روز گار کو بھی اپنی معا شی تنگد ستی سے چھٹکارے کا ذر یعہ نہیں بنایا ، جو آپ کو محض معا شی ضرو ریا ت کی تکمیل تک محدود کر کے قو می و انقلا بی جدو جہد سے دور رکھنے کا با عث بنتا، حا لا نکہ آپ اپنے بو ڑھے والدین کے نو جوان سہا را تھے اسی لئے حمید شا ہین نے اپنی اور گھریلو معا شی ضرو ریا ت پوری کرنے کے لئے نو آبادیاتی ریاستی ڈھانچے کا پرزہ بننے کی بجائے صحافت کو اپنے ذریعہ معاش کے طور پر اختیار کیا ، لیکن زرد صحافت کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے آپ معاشی طور پر تنگدستی کا شکار رہے ، اور تمام تر تنگدستی کے باوجود آپ نے قلم کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ، اور نہ ہی خودداری پر کوئی سودے بازی کی، حمید شاہین کے مزاج میں عزت ، وقار ، خودداری اور انسانیت کے احترام اور بہادری کی روائتی بلوچیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، اپنے لباس، رہن سہن اور موسیقی کے انتخاب میں آپ مکمل طور پر بلوچ تہذیب وثقافت اور فن وادب سے متاثر اور اسکی عکاسی کرتے تھے ، سنگت حمید شاہین میں مردم بیزاری کا شائبہ تک نہ تھا ، اور تنہائی کی بجائے آپ مجلس پسند اور مجلسی آداب سے بخوبی آشنا تھے ، دوران گفتگو آپ اختلاف رائے کے باوجود مقابل کی تضحیک سے اجتناب اور شخصی عزت و احترام کے تضاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے اور سینئر زکا انتہائی احترام کرتے تھے، جبکہ ہنس مکھ اور خوشگوار طبیعت کے باعث آپ کی موجودگی یاروں کی محفل کی جان ہوتی تھی ، اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے آپ دوستوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے ، جس میں آپ کو احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ، یہی وہ آپ کے خوبصورت انسانی اوصاف تھے جو آپ کو تیزی سے بلوچ قومی انقلابی سیاست کی اعلیٰ قیادتی صفحوں تک پہنچانے کا کلیدی سبب بنے ، شاید ہی یہ اعزاز کسی اور کو حاصل ہوا ہو کہ بی ایس او کا ایک یونٹ سیکرٹری قلیل وقت میں تنظیم کے قیادتی مرحلوں کو عبور کرتے ہوئے اس کے سب سے اعلیٰ ترین منصب مرکزی چیئر مین تک پہنچا ہو ، نظریاتی اور علمی اپروچ کے حوالے سے بی ایس او میں آپ کے ہم پلہ کوئی دوسرا شاذونادر ہی تھا، کیونکہ یہ دور نظریاتی وعلمی زوال پذیری کا تھا ، جس سے بلوچ طلبہ کی سیاست بھی براہ راست متاثر تھی۔
شہید حمید شاہین تمام بلوچ نمائندہ سیاسی قوتوں کے مابین اتحاد کے قائل تھے ، اس راہ میں آپ مختلف رائے رکھنے والے بلوچ سیاسی حلقوں کے درمیان مخالفانہ بیان بازی اور کشمکش کو رکاوٹ سمجھتے تھے، اگرچہ آپ اتحاد وانضمام کیلئے بنیادی فکروپروگرام پر اتفاق کو نا گریز قرار دیتے تھے، تاہم عدم اتفاق کی صورت میں اختلافات کو دشمنی کا رنگ دینے کے حق میں نہیں تھے اور سیاسی ڈائیلاگ کو جاری رکھنے کے قائل تھے، جس کا مظاہرہ آپ نے مرکزی چیئر مین منتخب ہونے کے بعد تنظیمی ترجمان ’’استار ‘‘کی اشاعت میں شامل کئے گئے مواد کی صورت میں بھی کیا، اس مواد میں بلوچ قومی آجوئی کی تاریخی وبنیادی انقلابی فکرو سیاست پر نا قابل مصالحت مضبوط موقف اختیار کیا گیا ، مگر اختلاف رائے رکھنے والوں پر نہ تو کوئی دشمنانہ تنقید کی گئی اور نہ ہی الزام تراشی سے کام لیا گیا ، حمید شاہین کا خیال تھا کہ بلوچ قومی سیاست کے اندر دشمنانہ محاذ کھڑے کر کے بلوچ قوم کے مابین وسیع البنیاد یک جہتی کا عمل رکاوٹوں کا شکار ہو کر بلوچ قومی تحریک آجوئی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے ، یہی وجہ تھی کہ ’’استار‘‘کی اشاعت کو بی ایس او کے تمام تنظیمی گروپوں کے کارکنوں سمیت بلوچ طلباء میں بھر پور پذیرائی ملی اور اس کو شش کو تمام حلقوں میں سراہا گیا ، اورآپ ایک غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے ، حمید شاہین کا کہنا تھا کہ انقلابی نظریے اور اس پر عمل میں چونکہ بلوچ قوم کی امنگوں وخواہشات اور بنیادی حقوق کے حصول کی واضح عکاسی و تر جما نی پائی جاتی ہے لہٰذا جہاں بھی یہ انقلابی فکرو عمل پہنچے گا وہاں سماجی وسیاسی سطح پر اسے پذیرائی اور قبولیت بھی ملے گی ،جس سے اختلاف رائے رکھنے والے سیاسی حلقے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ، اور وہاں سے بلوچ قومی تحریک آجوئی کو مزید جہد کا ر میسر آسکتے ہیں ، کیونکہ اصل مسئلہ تاریخی ومعروضی حقائق اور ان کی روشنی میں درست منزل اور راستے کے ادراک کا ہے، جہاں انقلابی نظریاتی اپروچ بڑھے گی وہاں ایک حقیقی انقلابی عمل اور تحریک سے وابستگی کی شدید خواہش بھی تڑپ کی صورت اختیار کرے گی ۔
سنگت حمید شاہین بلو چ کا انقلابی فکرو عمل چونکہ اثر انگیز تھا لہٰذا رد انقلابی نو آبادیاتی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکھنا لازمی امر تھا، خاص طور پر جب رواں صدی کے آغاز پر بلوچ قومی تحریک مسلح جدو جہد کے اظہار کی صورت میں شدت سے ابھری تو کا مریڈ حمید شاہین اس میں پیش پیش اور انتہائی متحرک نظر آئے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شہر میں رہنے کے باوجود آپ نے پہاڑوں کی ہر قسم کی سہولیات سے محروم زندگی اختیار کی ، اس دوران اپنی جنگی مہارت اور بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ جس سے قابض قوتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ، یوں آپ کا وجود نو آبادیاتی ریاست کے لئے خطرے کی علامت بن گیا اور ان قوتوں کی نظر میںآپ کو راستے سے ہٹایا جانا لازمی ٹھہرا ، اور آپ کا گھیرا تنگ کیا جانے لگا، آپ چونکہ انتہائی بہادر اور جان پر کھیل جانے والے انقلابی تھے لہٰذا مسلح حالت میں ریاستی فورسز کو آپ پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی ، اور جونہی آپ کو نہتا اور تنہا پایا گیا آپ پر سرکاری فورسز اور خفیہ اداروں کے مسلح اہلکاروں کی بھاری نفری کے ساتھ اس وقت ہلہ بول دیا گیا ،20 مارچ بروزاتوار2011ء کو کوئٹہ سے بذریعہ بس کراچی جا رہے تھے، یہ بزدلانہ کام کسی ریاستی زر خرید مخبر کی مدد سے انجام دیا گیا ۔
مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ حمید شاہین نہتے اور تنہا ہیں ،ریاستی مسلح اہلکاروں کو آپ کے قریب جانے کی جلدی جلدی ہمت نہ ہوئی ، عینی شاہدین کے مطابق فورسز وخفیہ اداروں کے اہلکار گھبراہٹ کا شکار اور خوفزدہ نظر آئے، لیکن سنگت حمید شاہین دشمن کے نرغے میں ہونے کے باوجود پر عزم دکھائی دئیے،آپ جان چکے تھے کہ آپ کا بلوچ سر زمین اور قوم پر قربان ہونے کیلئے جام شہادت نوش فرمانے کا وقت آن پہنچا ہے، لہٰذا آپ نے دشمن کے سامنے زندگی کی بھیگ مانگنے اور گڑگڑانے کی بجائے بلوچ سر زمین کی آجوئی کے حق میں اور نو آبادیاتی ریاست کی بربادی کے فلک شگاف نعرے لگائے،آپ کے اس ناقابل فراموش انداز شہادت سے آپ کے پیش رو بلوچ شہداء کے دلیرانہ کردار کے ساتھ ہندوستان کے انقلابی سوشلسٹ حریت پسند نو جوان رہنما بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے لمحہ شہادت کی یاد تازہ ہوگئی جو تختہ دار تک جاتے ہوئے انگریز استعمار سے آزادی اور انقلاب کے فلک شگاف نعروں کی صورت میں ہے ، کامریڈ حمید شاہین کو بھی شہادت کا وہ مہینہ اور تاریخ نصیب ہوئی جو بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کا یوم شہادت تھا ، جو 23مارچ کو منایا جاتا ہے ، شہید حمید شاہین بلوچ کی لاش بھی اغواء نما گرفتاری کے اگلے روز یعنی 21مارچ کو کوئٹہ سے ملی ، یعنی بھگت سنگھ اور حمید شاہین کے یوم شہادت میں محض دو یوم کا فرق ہے ، جبکہ دونوں کے انقلابی نظریے میں مکمل ہم آہنگی نظر آتی ہے،بھگت سنگھ اور حمیدشاہین بلوچ میں مماثلت شاید اس لئے بھی نظر آتی ہے کہ سنگت حمید شاہین بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھیوں کے نظریے اور جدوجہد سے ہم آہنگ اور متاثر تھے،جبکہ دونوں ہی نو جوان تھے ،کامریڈ حمید شاہین نے نو جوانی کے عین شباب پر 30سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا ، اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے ،آپ کی شہادت کی خبر نہ صرف آپ کے بوڑھے والدین ، بیوی اور کمسن بیٹے وچھوٹے بہن بھائیوں اور اہلخانہ سمیت تمام عزیز واقارب پر بجلی بن کر گری بلکہ تحریک کے ساتھیوں اور حلقہ احباب پر بھی غم کے پہاڑ ڈھا گئی ، جبکہ بلوچ قوم میں اس المناک خبر پر دلی رنج کے علاوہ مزید اشتعال پھیل گیا ، جس کا مظاہرہ شدت آمیز رد عمل عوامی ہڑتالوں ، مظاہروں اور ریاستی مراکز پر حملوں کی صورت میں دیکھنے کو ملا اور بلوچ قوم نے اپنے اس عظیم فرزند کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ، شہیدحمید شاہین کے قاتلوں کو گمان تھا کہ وہ آپ کو شہید کر کے شاید آپکے اہلخانہ اور بلوچ قوم کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور وہ بلوچ قومی آجوئی اور انقلاب کے درس کو بھول جائیں گے،مگرآپ کے بوڑھے والدین ، بیوی ، بچوں اور بہن بھا ئیوں نے جس صبر و استقا مت اور بلند حو صلے کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے شہا دت کو اپنے لئے قا بل فخر قرار دیا اورآپ کے انقلا بی نظر یے کو آگے بڑھا نے کے عزم کا اظہا ر کیا اس سے قا تلوں کو سوا ئے نا کا می و رسوا ئی کے کچھ ہا تھ نہیں آ سکا جبکہ آپ کی شہا دت سے بلوچ تحریک آجو ئی کے جہد کا روں اور بلو چ عوام میں تحریک کو اس کی منزل تک پہنچا نے کا جذ بہ مزید شدت اختیا ر کر گیا ،اورآپ کی شخصیت آنے وا لی نسلوں کیلئے آزا دی و انقلا ب کی غیر مصالحا نہ جدو جہد کی علا مت بن کر ابھری ہے،شہید حمید شا ہین اپنے پیچھے ایسی یا دیں چھو ڑگئے ہیں جو کبھی بھی فرا مو ش نہیں کی جا سکیں گی ، خصو صا را قم کیلئے تا دم مرگ آپ کو بھول جا نا ممکن نہیں ہے ، کیو نکہ راقم کو آپ کے سا تھ قر بت وا لی سنگتی کے دن گذا رے کا شرف حا صل ہے ، سنگت حمید شا ہین کے سا تھ قا ئم ہو نے وا لا سنگتی کا رشتہ سب سے منفرد اور گہرا تھا ، ر اقم آج بھی اپنے اس کھرے کامریڈ کی یادوں میں بو جھل دل اور غم زدہ ہے ، اور ایک لمبی جدائی کا کرب روح کو بے چین اور دل کو دکھی کئے رکھتا ہے ، جب بھی آپ کی یاد آتی ہے تو غم اور کرب سے آنکھیں بھر آتی ہیں ، شاید اس گہرے صدمے اور غم کا زخم ابھی تک اس لئے بھی مند مل نہیں ہو سکا ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد کوئی دوسرا حمید شاہین جیسا سنگت نصیب نہیں ہو سکا،اور شاید نہ ہی مل سکے گا،حمید شاہین کا انقلابی فکرو عمل ،خوبصورت یادیں اور شہادت ہمارے اور آنے والی نسلوں کیلئے اس درس اور سبق کی حیثیت رکھتے ہیں ، لہٰذا اس کی روح کو تب ہی سکون پہنچا یا جا سکتا ہے کہ جب آپ کے دئیے ہوئے درس وعمل کے مطابق بلوچ قومی آجوئی وانقلاب کی جدو جہد کو آگے بڑھا یا جا ئے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий