حیربیار کا تازہ ترین اقوال زرّیں ایک سیاسی المیہ
سیاست میں اور خاص کر انقلابی سیاست میں ایک لیڈر کے لئے از حد ضروری ہے کہ وہ وژنری ہو، دانش مند ہو، فیصلہ ساز ہو اور مصمم ارادے کا مالک ہو کیونکہ انقلاب ایک سخت اور پیچیدہ سیاسی عمل ہے۔۔۔۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری تحریک میں چند ایک لیڈر جن کے آسرے ہم نے توقعات کے مینار تعمیر کئے تھے، ان خصوصیات سے عاری ہیں۔
آج حیربیار صاحب کا تارہ ترین اقوال زرّیں نظر سے گزرا تو دیکھ کر حیرانگی کی اتنہا نہ رہی۔
نیچھے تصویر میں بیان اپنے قول میں حیربیار اپنی سیاسی پالیسی کا خلاصہ بیان کررہے ہیں کہ بلوچستان میں روز ایک نئی تنظیم بن رہی ہے جنکو روکھنا نا گزیر ہے۔۔۔۔۔۔یعنی واجہ کی جدوجہد کا اولین مقصد ان تنظیموں کو روکھنا ہے جوآزادی پسندی کے نام پر بنائے جارہے ہیں یا بقول انکے اپنی دکانداری چمکانہ چاہتے ہیں۔ نواب زادہ آگے کہتے ہیں کہ ’’ آج اگر تنظیمیں توڑنے والوں کو نہیں روکھا گیا تو یہ آگے جاکر تباہ کن خانہ جنگی کا سبب بنیں گے‘‘۔
علمی لحاظ سے یہ ایک نہایت ہی مبہم، پرتضاد اور غیردانش مند سیاسی منطق ہے۔۔۔۔۔ مبہم اسلئے کہ حیربیار صاحب نے جن تنظیموں کے خلاف خطرناک محاذ کھول رکھا ہے ہے وہ نئی تنظیمیں ہرگز نہیں ہیں بلکہ واجہ کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے سالوں قبل اسی فکر و نظریہ کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کا حصہ ہیں۔ جیسے بی ایس او ، بی این ایم اور بی ایل ایف۔۔۔۔۔۔ (اگر ٹیکنکلی دیکھا جائے تو حیربیار خود نیا گروہ ہیں)۔۔۔۔۔۔۔ پرتضاد اسلئے کہ واجہ آج خود ان تنظیموں اور شخصیتوں کے ساتھ ہم دست و ہم کوپگ ہیں جو تنظیموں کو توڑنے کا سبب بنی ہیں۔ مثلاً بی این ایم (جی ایم)، بی این ایل ایف، سعید یوسف، شاہد، بیبگر اور کئی دیگر جنہیں ذمہ دار تنظیموں نے تنظیمی اختیار کے تحت نکالا ہے۔۔۔۔ غیر ذمہ دار و غیردانش مند اسلئے کہ جناب جس خوفناک خانہ جنگی کی بات کررہے ہیں اسکا آغاذ انہوں نے آج خود کیا ہوا ہے۔۔۔۔ نہ صرف خانہ جنگی بلکہ تحریک کےہر پرزے کو نیست و نابود کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔۔۔ دشمن اور انکے حواری ملاوں، وفاق پرست بلوچوں، سراج و شفیق مینگل ، ثنا اور چنگیز مری جیسے غدار سرداروں کو چھوڑ کر محض آزادی پسندوں کے خلاف اپنی مبہم اور بے سروپا پالیسی مرتب کرنا ، بی ایل ایف کے رہنماوں کو اغواء کرنا، یو بی اے کے خلاف محض چند زاتی اسلحہ کے لئے صف آرا ہونا اسکی مثالیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ (ذاتی اسلحہ میں اسلئے کہہ رہا ہوں کیوں حیربیار اور اسکے پرچارک خود اسکا اظہار کرچکے ہیں)
ایک سیاسی شاگرد کی حیثیت سے میں نے آج تک ہ حیربیار اور اسکی بے تنظیم گروہ کے علاوہ کسی بھی آزادی پسند تنظیم کی طرف سے کوئی ایسا عمل نہیں دیکھا جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ تحریک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں ، یا رد انقلابی روش کے ذریعے تحریک کے اندر ابہام پیدا کر رہے یا غلط اندازوں، وہم اور وسوسوں کے ذریعے لایعنی اختلاف تخلیق کررہے ہیں۔۔۔۔۔ ہر ہوش مند سیاسی کارکن جانتا ہے اس سلسلے کو شروع کرکے اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار واضح طور پر حیربیار اور اسکے ساتھی ہیں۔۔ جبکہ ریکارڈ پر ہے دیگر تنظیموں نے بارہا کوشش کی ہے کہ اس مسئلے کو ٹھنڈا کیا جائے۔۔۔۔ مثلاً ڈاکٹر اللہ نظر ، بی این ایم اور بی ایس او کی جانب سے جنرل راحیل شریف کی اس بیان کے خلاف رد عمل ظاہر کرنا جس میں حیربیار کی پاکستان حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھاحالانکہ حیربیار دشمنی کی حد تک انکے خلاف سرگرم ہے۔۔۔ ان تنظیموں کی جانب یہ بہت ہی سنجیدہ اور اخلاص پر مبنی سیاسی قدم تھا کیوںکہ انہیں یہ شعور تھا کہ آپسی اختلافات خواہ کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، دشمن کے خلاف یک آواز ہونا لازمی شرط ہے۔۔۔۔ بجائے کہ اس عمل سے حیربیار پر کوئی مثبت اثر پڑتا اس نے الٹا اس چیز کو تضاد کی شکل میں پیش کرکے اپنے پروپگنڈے کو مزید تیز کردیا۔
جب حیربیار نے اپنے ذاتی اصلحوں کے لئے بی ایل اے کو یو بی اے کخلاف کھڑا کیا تو محران اور یوبی اے کی قائدین نے انتہائی تحمل سے کام لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی جبکہ بی ایل ایف، بی این ایم اور بی ایس او مسلسل رابطوں اور اخباری بیانات سے یہ کوشش کرتے رہے کہ یہ مسلئہ حل ہو۔۔۔ انکا موقف واضح تھا کہ اس سے دنیا میں خانہ جنگی کا تاثر پیدا ہوگا، عوام مایوس ہوگی اور دشمن کو فائدہ پہنچے گا۔مگر حیربیار نے قومی مفادات کی پرواہ کئے بغیر یو بی اے پر حملہ کیا، ایک سرمچار کو شہید اور تین کو اغوء کرلیا۔۔ستم بالاستم اب انہوں نے بی ایل ایف کے ایک کماش کمانڈر کو کہ جو پچاس سال سے تحریک کا حصہ ہیں، اغواء کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔
ہم حیران ہیں کی مستقبل کی خانہ جنگی کی بے وجہ خوف سے حال میں خانہ جنگی کو شروع کرنا کس طرح کا سیاسی منطق ہے۔۔۔ دو چیزیں ہوسکتی ہیں یا تو جناب حیربیار غیبی وجدان کے مالک ہیں جسے ہم جیسے نام نہاد اشرف المخلوقات سمجھنے سے قاصر ہیں یا تو وہ فہم و دانش سے بے بہرہ ہیں ۔۔۔۔۔ نہ صرف فہم و دانش سے بے بہرہ بلکہ کامن سنس سے بھی فارغ ہیں۔۔۔۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий