Powered By Blogger

среда, 29 апреля 2015 г.

بلوچ تحریک آزادی اور ریاستی مذہبی انتہا پسندی 


مقبوضہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں کئی ہزار سالوں سے کئی مذہبی فرقے پر امن اور بھائی چارے کے ساتھ آباد ہیں اِن میں قابل ذکر سنی اورذکری فرقے اور کچھ ہندو، مسیحی اور دیگرمسالک و مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہی۔اگر انسانی یا مذہبی تاریخ میں دیکھاجائے تو انسانی معاشرے میں مذہب کا ایک انتہائی اہم مقام رہاہے کہیں اسے نجات دہندہ کے طورپر مانا گیا ہے تو کہیں کمزور حریف کے گردن کو کاٹنے کیلئے اسے ااستعمال کیا گیا ہے ۔تاریخ ایسے ہزاروں خون آلود کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ مذہب ایک ایسا ہتھیارہے کہ سادہ لوح لوگوں کو جزباتی کرکے اپنے من پسندمقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگیا ایک طرف اشتراکیت تو دوسری طرف جاگیردار اشرافیہ۔۔۔۔۔۔ جب روس اپنے سوشل ازم نظریہ کے ساتھ اس خطے میں موجود تھا اور دونوں طاقتوں کے درمیان سرد جنگ چل رہاتھا اور سویت بحرہِ بلوچ تک پہنچنے کے قریب تھا تو یہ بات دوسری طاقت یعنی سامراجی اشرافیہ اور اس کے گروہ کوگوارا نہیں ہوا اور اس حوالے سے انہوں نے سعودی عرب سے مل کر پاکستان کے کٹر پن توہم پرست جرائم پیشہ خفیہ اداروں کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔ریاست پاکستان سے ملکر اپنے مقاصد کی تکمیل کی کوشش شروع کی اور مذہب کو تلوار بناکر سویت یونین کے سرپرمارنے کا فیصلہ کیاگیا اور جہادی المعروف مجاہدین کی تشکیل کی گئی اس میں پاکستان کے کے خفیہ اداروں نے سب سے اہم کردار اداکیا۔ پیسے اور ٹریننگ کے بوجھ امریکہ اور سعودی نے برداشت کئے۔ ایک اندازہ کے مطابق 1992تک امریکہ نے مجاہدین میں پانچ ارب ڈالر تقسیم کئے ۔ CIA1986 کے ڈائریکٹر ولیم کسی نے ISIکے ایک فیصلہ کی تائید کی جوکہ مذہبی انتہاپسندی کا پلان تھا اور ISI نے اپنے کرایہ کے مجاہدین کو افغانستان بھیج کر سیکولر افغانستان کو مذہبی آتش فشان بناکر امنِ افغان کو تباہ و بربادکردیا۔
اور یہ ایک الگ بحث ہے کہ امریکہ اب خودآئی ایس آئی کی دوپوستی کا شکارہے پاکستان کے خفیہ اداروں اور فسادیوں کے تعلقات کے بارے میں دنیا کے کئی صحافیوں نے پردہ چاک کیاہے لحاظہ بادشاہ سلامت اور اس کے اتحادیISIکی مذہبی انتہاپسندی کو سمجھیں اور ان کے قاتل دستوں کی مذید مالی مدد اورحوصلہ افزائی نہ کریں۔ مذکورہ باتوں پر نظر دوڑانے کے بعد اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
جیسا کہ شروع دن سے پاکستان کشمیر میں ایک پراکسی وار لڑرہاہے جس کی حقیقت بھارت کی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں۔
پراکسی وار کیلئے ISIنے کئی اپنے مذہبی ونگ
تشکیل دیئے ہیں ان میں جماعت الدعوۃ،لشکرطیبہ،لشکرجھنگوی،انصارالاسلام،
الرشیدٹرسٹ ،الخیرٹرسٹ ، سمیت کئی گروہ اور ٹرسٹ شامل ہیں شاید لشکرجھنگوی اور باقی گروہوں کے بارے میں ہرکوئی جانتاہوگا ،بنیادی طورپر یہ کشمیر میں پراکسی وار کیلئے بنائے گے تھے۔لیکن جب بلوچ تحریک آزادی زور پکڑنا شروع ہوئی تو ریاست نے اپنے مذہبی دستوں کو بلوچستان بھیجنا شروع کیا اور ان کے توپوں اور بموں کا رخ بلوچوں کی طرف کرکے انھیں کبھی امریکہ تو کبھی ہندؤوں کا ایجنٹ تو کبھی اسلام مخالف قراردینا شروع کردیا حالانکہ بلوچ اچھی طرخ جانتے ہیں کہ یہ کاؤنٹر پالیسی ہے ۔آئی ایس آئی کی یہ دھڑے مذہب کے نام پہ پردے کے پیچھے کام کرتی ہیں اور ISIکی ذیلی ونگ ہیں ۔ کرنل ،جرنل رینک کے لوگ ان تنظیموں کے سربراہی کرتے ہیں آپ یقیناًسوچتے ہونگے کہ امریکہ نے حافظ سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہے ،بھلا پھربھی یہ شخص سرعام گھومتا پھرتا ہے میڈیا کو ا نٹرویو دیتا ہے سرکاری پروٹوکول کا استعمال کرتا ہے ۔ پاکستان ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کرتا؟سیدھا جواب ہے بھلا کوئی اپنے دست بازو کو کیسے خود کاٹ سکتا ہے ،آئی ایس آئی کے یہ تمام ونگ بلوچستان میں کئی سالوں سے مذہبی فرقہ واریت کو بڑے پیمانے پر ابھارنے کیلئے مصروف عمل ہیں جس کا مقصد بلوچ تحریک کو کاونٹر اور پاکستان کی سامراجی مفادات ہیں ۔ISIکی دیرینہ کوشش یہی رہی ہے کہ وہ بلوچستان میں خاص کر ذکری اور نمازی فرقوں میں فرقہ واریت کا جنگ چھیڑکر دنیا میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ یہاں پر فرقہ واریت کی جنگ ہے نہ کہ کوئی تحریک وجود رکھتی ہے، اور اس کام کیلئے ISIایک طرف اپنی ٹریننگ شدہ فسادیوں کو منتقل کر رہاہے تو دوسری طرف جرائم پیشہ افراد منشیات کے آدھی لوگوں، چوروں کو اکھٹا کرکے آرٹیفشل جہادی تشکیل کررہی ہے جس کی واضح مثال ہمیں پنجگور میں ملی جہاں آئی ایس آئی کے ایک الفرقان نامی گروہ نے بچیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تا کہ خواتین کو تعلیم سے دور رکھ کر تحریک آزادی سے دور رکھا جا سکے اور بلوچ کے سیکولر سوچ کو چار دیواری میں بند کیا جاسکے ۔اس سے پہلے خفیہ اداروں نے بلوچ خواتین کو تحریک سے دور رکھنے کیلئے دھمکی دی ،جب وہ نکلے تو ان پر حملہ کرکے ان کے چہروں پر تیزاب پھینکے گئے تاکہ وہ خوف ذدہ ہوکر گھروں سے نہ نکلیں اس ٰ سے پہلے ستر کی دہائی میں جب تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا تو خفیہ اداروں نے مذہبی جنگ چھیڑنے کیلئے 27رمضان المبالک کو ذکری فرقے کے عبادت گاہ زیارت شریف کوہ مراد پر راکٹ داغے تاکہ بلوچ آپس میں لڑپڑیں، جب ایک معروف عالم دین مولانا عبدالحق نے اسی حملے کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس حملے میں خفیہ ادروں کے ڈر گ اسمگل گروپ اور خفیہ اداروں کے ایک اعلی اہلکار اور خود کو مذہبی پیشوا کہنے والا اور انٹرنیشنل ڈرگ اسمگلر امام بھیل کا دست راست ملابرکت ملوث پایا گیا۔ اس سے پہلے 1992میں ملا برکت کی ایما پر ذکری زائرین کو حدف بناکر مارا گیا جس میں پانچ لوگ شہید ہوئے تھے اور 2014میں راغے ،پشتکوہ سے جانے والئے زائرین کو گوارگو کے مقام پر روک کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور زیارت جانے سے باز رہنے کا کہا۔ واپسی میں زائرین کے ایک بس کو گریشہ سریج کے مقام پر بمب سے نشانہ بنایاگیا تاکہ عام ذکری اور نمازی دست گریباں ہوجائیں اور یقیناًملا برکت اور اس کے گروہ ان حملوں میں بھی ملوث ہوگا کیونکہ امامّ بھیل اور ملا برکت بدلے نہیں ہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہیں۔ امامّ بھیل کے بارے میں ہرکوئی جانتاہے کہ وہISIکی انٹرنیشنل ڈرگ اسمگلر ونگ کا سربراہ ہے اور اس وقت نیشنل پارٹی میں ہے۔این پی جو کہ بلوچ جُہد کاروں کی مخبری کرکے اُنہیں اغواء کروانے میں مشہور ہے ۔ بعد میں ان مغوی جہُد کاروں کی لاشیں ویرانوں سے برامد ہوتے ہیں اور یہی ان کی اصلیت ہے۔ جیسے جیسے تحریک زور پکڑتی جارہی ہے تو خفیہ ادارے بھی متحرک نظر آتے ہیں جب ان کی ڈیتھ اسکواڈ ناکام ہوئے تو انہوں نے حسب روایت اپنے آستین کے سانپ چھوڈدیئے۔میں ایک واقعہ سنانا چاہتاہوں ۔۔یہ دلچسپی کے ساتھ ساتھ آپ لوگون کو چونکا دینے والی کہانی ہے 2005 کی بات ہے کہ ہم کچھ دوست شکار پر گئے تھے پانی ختم ہوئے اور شدید گرمی کی وجہ سے دوستوں کو اچھا خاصا پیاس لگی ہوئی تھی مجھے ایک دوست نے کہا کہ بائیک لے کر دور ایک کنواں ہے پانی لانے کے لئے جاتے ہیں کنواں بہت دور تھا نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے دوست کے ساتھ جانا پڑا۔ہم کنویں سے پانی نکال رہے تھے کہ ایک تبلیغی جماعت آئی اسلام و علیکم کہا۔۔۔۔ ہم نے کہا وعلیکم اسلام۔۔۔ مولانا نے مجھ سے پوچھا کہ نوجوان تم کیا کر رہے ہو میں نے کہا کہ پانی نکال رہے ہیں، اس نے مجھ سے کہا کہ پھر اتنے زیادہ بوتل کا کیا کروگے ،میں نے کہا کہ مولانا شکار پر آئے تھے جانا تھا لیکن دوست پیاسے تھے اسلئے پانی لیکر جائینگے۔ مولانا صاحب پٹھان تھا لیکن جو باتیں اس نے کئے وہ میرے لیئے سوچنے کے تھے اور اس کے ہمراہ باقی سات ساتھی بھی تھے اُس نے مجھ سے کہا کہ یہاں پر کافر بھی ہیں اور پھر اس نے حسب روایت ایک لمبی تقریر بھی کی اور مجھے دعوت دین دیدی۔ میں نے کہا کہ مولانا صاحب میں مسلمان ہوں اور پانچ وقت نماز بھی پڑتاہوں، اس نے دوبارا کہا کہ کافر بھی ہیں یہاں، میرے لیئے یہ نئی بات تھی ۔میں نے کہاکہ مجھے تو کافر کا نہیں پتہ، مجھ سے پھر پوچھا کہ جنت میں جاناہے یا نہیں ؟میں نے جواب دیا کہ ہم سب اللہ سے یہی امید رکھتے ہیں۔ اس نے کہا کہ توقو موں والا بات چھوڑدواگر جنت چاہتے ہو تو سنو یہ شکار مکار چھوڈو جنت کا کام کرو میں نے پھر جواب دیا کہ نماز پڑھتاہوں اور روزہ بھی رکھتاہوں، اس نے ایک سانس میں کہا سبحان اللہ، اتنے سمجھ دار ،دین دار ہو پھر بھی کفار کا صفایہ نہیں کرتے ہو میں نے جواب دیا کہ مولانا میں سمجھا نہیں اس نے جواب دیا کہ جنت میں جانا ہے تو سنو، ذکریوں کو قتل کرو اللہ جنت میں تمھیں اس کا دگنا اجر وثواب دیگا اللہ کی دین کو عام کرو کفار کا صفایہ کرو ،میریے لیئے یہ سوچنے کی بات تھی کیونکہ وہ خود سرحد سے آکر مجھے اپنے بھائیوں سے لڑانا چاہ رہاتھا۔ میں نے دوست سے کہا کہ یہ مولانا دونمبر ہے مجھے جو شک تھا وہی نکلا بعد میں پتہ چلاکہ کچھ دن ایک سرکاری ملا کے پاس رکنے کی بعد تبلیغی جماعت آرمی کے کیمپ سے ٹکٹ آنے کے بعد اسلام آباد روانہ ہوا ہے ۔
اصل میں وہ ا خفیہ اداروں کا اعلیٰ اہلکار تھا جو اپنے ایک پلٹن کے سا تھ مذہبی جنگ چھیڑنے کیلئے مقبوضہ بلوچستان آیاتھا تاکہ یہاں کے عوام کو د ست وگریباں کرکے اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ تحریک زور پکرتی جارہی ہے تو ریاستی کاؤنٹر پالیسیاں بھی تیز ہورہی ہیں کیونکہ بلوچ جہد کیو کاؤنٹر کرنے کا ریاستی دیرینہ پالیسی ہے اور وہ اس پرکثیرالجہتی حکمت عملی کے ساتھ عمل پیرا ہے اور اس کی تازہ ترین واقعہ ہمیں آواران میں ملی 28 اگست کو ریاستی قاتل دستوں نے ذکری فرقے کے ایک عبادت گاہ پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف لوگوں کو شہید کردیا اس حملے میں شہید ہونے والوں میں معروف طالب علم لیڈر شہید رضاجہانگیر کے والد بھی شامل تھے۔ یادرہے کہ آزادی کی جہد کی پاداش میں رضاجہانگیرکو گزشتہ اگست بلوچ کش دستہ فرنٹیئر کور نے تربت کے ایک گھر میں چھاپے کے بعد فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق حملے کے بعد حملہ آور آواران بازار میں واقع آرمی کیمپ گئے اور اسی ہی دن تربت میں تین افراد کو ذکری شناخت کرکے لوکل گاڈیوں سے اتارا گیا جو کہ بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے ملیں ، اور یہ سلسلہ یقیناًآگے بڑے گا، ریاست اسے ابھار رہاہے اور یہ اس کی حکمت عملی ہے اور یہ تربیت ریاست نے سردجنگ کے دوران حاصل کیاتھا اور اپنے ادارے کی فسادی بنائے تھے ۔ یہ اس کی حکمت عملی ہے اس میں کوئی دو رائے ہے ہی نہیں لیکن ہماری کیا حکمت عملی ہے ۔اختلاف اپنی جگہ تمام آزادی پسندوں کو چاہیے کہ ایک پلیٹ فارم کا انتخا ب کریں تاکہ ریاستی ننگی جارحیت کا بروقت پردہ پاش کیاجائے عوام اور دنیا کو فورا آگاہ کیاجائے اور مشترکہ احتجاجی مظاہرہ کئے جائیں ۔ چاہے وہ بلوچستان کے اندر ہو یا باہراور آج کل سننے میں آرہاہے کہ ISIS بلوچستان میں سرگرم ہے تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یہ کام ریاست کے ادارے ISIسے ملکر اور آگئے بڑھائینگے اور آزادی پسندوں کو ٹارگٹ کرینگے ۔وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہISISکے ذریعے کیوں نہ ہو دسمبر میں پاکستانی بغل بچہ طالبان کے پانچ کمانڈرون نے داعش میں شامل ہونے اور ابوبکر البغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان بھی کیاتھا اور پشاور میں داعش کا ایک کتابچہ بھی شائع ہواتھا اور داعش کے حق میں مختلف علاقوں میں وال چاکنگ بھی نظرآئے۔ حال ہی میں داعش کے ایک اعلی کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ اس نے پاکستان اور افغانستا ن کیلئے حافظ سعید کو اپنا کمانڈرمقر کیا ہے ۔اس سے لگتاہے کہ داعش نے اس خطے میں واقعی قدم رکھاہے اور وہ اب یہا ں پڑاؤ کے موڈ میں ہے پاکستان کو بہترین موقع ملے گا کیونکہ مذہبی جنگ پاکستان کیلئے آکسیجن سے کم نہیں بہرحال جو بھی ہو ISIیاISISنقصان بلوچ کا ہی ہے ۔مستقل مزاجی سے سوچنے فیصلہ کرنے اور عوام کو آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اتحاد میں برکت ہے اس مسئلہ پر بولنے اور لکھنے کی ضرورت ہے 

Комментариев нет:

Отправить комментарий