بلوچ قوم کو 1948سے فوجی طاقت کا سامنا ہے,, میر محمد علی ٹالپر سے انٹرویو ,وزیر رضا.
بلوچ دانشور میر محمد علی ٹالپر کا یہ ایک تازہ ترین انٹرویو ہے جوپاکستان چین اقتصادی راہداری حوالے سے رضا وزیر نامی ایک صحافی نے کی ہے جو دی فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہوچکی ہے۔اس انٹرویومیں میر محمد علی ٹالپر نے پاکستانچین اقتصادی راہداری پر تحفظات کے بارے میں بات کی ہےانٹرویو: وزیر رضا……ی
رضا وزیر: آپ کیوں پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت کرتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان کو فائدہ ہو گا؟
میر محمد علی ٹالپر: ضروری نہیں ہے کہ جو پاکستان کے مفاد میں ہے وہ بلوچستان کے مفاد میں بھی ہو۔ اگر آپ بلوچستان سے گزرنا چاہتے ہیں، اس کے ساحل کواستعمال کرنا اور اس کے معدنیات نکالنا چاہتے ہیں تو اس میں بلوچ عوام اہم ترین حصہ دار ہیں۔ ان کے مفاد کو اولیت حاصل ہونی چاہئے۔
وہاں بلوچ قوم میں پہلے ہی سے ناراضگی موجود ہے، خاص طور پر چین کے ساتھ معاملات طے کرنے میں۔ انہوں نے سیندک میں جس طرح بلوچ عوام کو ایک طرف رکھا، یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ ہے کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ فضل حیدر (ایک معروف صحافی) کے مطابق وہاں کوئی تانبا، سونا یا چاندی نہیں بچے گا جب چینی وہاں سے نکلیں گے۔ انہوں نے اپنے لیز میں 2017 تک کی توسیع کرائی ہے۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بلوچستان کے مفاد کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ مقامی لوگوں کی خواہشات کو برتری حاصل ہونی چاہئے۔ چین بلوچ عوام کی مدد کرنے کیلئے بلوچستان میں نہیں آ رہا، بلکہ اسلئے کہ اسکے اپنے مفادات ہیں۔
رضا وزیر: اگر گوادر پورٹ کو ترقی دے دی جائے اور اس راہداری کے ساتھ ساتھ اقتصادی زونز فعال ہوجائیں تو کیا وہاں بلوچ عوام کیلئے روزگار کے بہت سارے نئے مواقع پیدا نہیں ہونگے؟
میر محمد علی ٹالپر: مجھے یقین ہے آپ نے وہ کہانی سنی ہوگی کہ ایک غریب شخص کو ایک جادوئی چراغ ملتا ہے؛ اس کے بعد وہ جن کو کہتا ہے کہ اس کیلئے ایک بڑا سا محل بنائے اور اس میں کچھ امیر لوگوں کو ڈال دے، اور پھر اسے اس محل کا چوکیدار بننے کا کہا جائے۔
بلوچ کسی اور کے محل کا چوکیدار نہیں بننا چاہتے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ (بلوچستان کے وزیر اعلیٰ) ہمیں چند معمولی ملازمتیں دلوا سکتے ہیں۔ مگر وہاں ایک کہاوت ہے کہ غربت میں آزادی خوشحال غلامی سے بہتر ہے ۔
یہ کوئی روزگار کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ زمین ہماری ہے۔ یہ تب ہمارا تھا جب یہ ویران تھا ۔ اب انہوں نے یہاں سونا، چاندی اور تانبا دریافت کیا ہے، یہ ہمارا ہے۔
رضا وزیر: اور منصوبے کے راستے پر حالیہ بحث کے بارے میں بلوچ عوام کیا کہتے ہیں؟
میر محمد علی ٹالپر: یہ مسئلہ راستے کا نہیں ہے۔ ہمیں اس پورے منصوبے کے بارے میں خدشات ہیں۔ ہمیں گوادر کے مستقبل کے بارے میں خدشات ہیں، جہاں سے یہ راستہ نکل کر آئے گا۔ اس بات سے قطع نظر کہ آیا یہ سڑک لاڑکانہ اور رتوڈیرو کے ذریعے گزرے گی یا ژوب یا ڈیرہ اسماعیل خان سے، اس پر ہمارے خدشات ہیں۔ گوادر جانے کیلئے یہ سڑک بلوچستان سے گزرے گی، تو لہٰذا بلوچستان کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
رضا وزیر: بلوچستان کی منتخب حکومت نے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب بلوچ عوام کی رضامندی نہیں ہے؟
میر محمد علی ٹالپر: میرے خیال میں یہ کہنا مبالغہ آرائی ہے کہ موجودہ حکومت صوبہ بلوچستان کے عوام کی مرضی و منشاء کی نمائندہ ہے۔ اگر آپ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جائیں، تو آپ دیکھیں گے کہ ڈاکٹر عبدالمالک نے 4000 سے تھوڑا زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ انکے حلقے میں ووٹ ڈالنے کی شرح محض 17 فیصد رہی۔ ڈپٹی اسپیکر قدوس بزنجو کو 544 ووٹ ملے۔ نادرا اور الیکشن کمیشن یہ بات مانتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات میں بلوچستان میں ڈالے گئے 65 فیصد ووٹ جعلی تھے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ انہیں کس نے ووٹ دیا اور وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ وہ محض ایک سویلین چہرہ ہیں جو ایف سی کے زیرانتظام چلنے والی انتظامیہ کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔
رضا وزیر: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟
میر محمد علی ٹالپر: ایک سیاسی جدوجہد اس وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب آپ کا سامنا سیاست دانوں کے ساتھ ہو۔ بلوچستان میں تنازعے کو حل کرنے کیلئے انہوں کب سیاسی ذرائع استعمال کیے ہیں؟ ہم 27 مارچ 1948 کے بعد سے فوجی طاقت کا سامنا کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے شیخ مجیب الرحمن اور بنگالیوں کیساتھ کس قسم کا سیاسی تصفیہ بروئے کار لایا؟ بلوچ کے پاس اور کونسا راستہ باقی رہ گیا ہے؟
رضا وزیر: پنجاب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب بھی بات پاکستان کی خوشحالی کی آتی ہے تو چھوٹے صوبے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
میر محمد علی ٹالپر: میرا خیال ہے کہ جو لوگ ایسی باتیں کہتے اور لکھتے ہیں وہ زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ بلوچ عوام کے جذبات کو نہیں سمجھتے۔ اگر پاکستان کی خوشحالی ضروری ہے، تو وہاں رہنے والے لوگوں کے جذبات بھی۔ ہم خوشحالی کیخلاف نہیں ہیں۔ ہم استحصال کیخلاف ہیں۔ ہمیں اپنے حقوق چاہئیں ۔ ترقی خود آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اشاعت : 13 مارچ 2015
بلوچ دانشور میر محمد علی ٹالپر کا یہ ایک تازہ ترین انٹرویو ہے جوپاکستان چین اقتصادی راہداری حوالے سے رضا وزیر نامی ایک صحافی نے کی ہے جو دی فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہوچکی ہے۔اس انٹرویومیں میر محمد علی ٹالپر نے پاکستانچین اقتصادی راہداری پر تحفظات کے بارے میں بات کی ہےانٹرویو: وزیر رضا……ی
رضا وزیر: آپ کیوں پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت کرتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان کو فائدہ ہو گا؟
میر محمد علی ٹالپر: ضروری نہیں ہے کہ جو پاکستان کے مفاد میں ہے وہ بلوچستان کے مفاد میں بھی ہو۔ اگر آپ بلوچستان سے گزرنا چاہتے ہیں، اس کے ساحل کواستعمال کرنا اور اس کے معدنیات نکالنا چاہتے ہیں تو اس میں بلوچ عوام اہم ترین حصہ دار ہیں۔ ان کے مفاد کو اولیت حاصل ہونی چاہئے۔
وہاں بلوچ قوم میں پہلے ہی سے ناراضگی موجود ہے، خاص طور پر چین کے ساتھ معاملات طے کرنے میں۔ انہوں نے سیندک میں جس طرح بلوچ عوام کو ایک طرف رکھا، یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ ہے کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ فضل حیدر (ایک معروف صحافی) کے مطابق وہاں کوئی تانبا، سونا یا چاندی نہیں بچے گا جب چینی وہاں سے نکلیں گے۔ انہوں نے اپنے لیز میں 2017 تک کی توسیع کرائی ہے۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بلوچستان کے مفاد کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ مقامی لوگوں کی خواہشات کو برتری حاصل ہونی چاہئے۔ چین بلوچ عوام کی مدد کرنے کیلئے بلوچستان میں نہیں آ رہا، بلکہ اسلئے کہ اسکے اپنے مفادات ہیں۔
رضا وزیر: اگر گوادر پورٹ کو ترقی دے دی جائے اور اس راہداری کے ساتھ ساتھ اقتصادی زونز فعال ہوجائیں تو کیا وہاں بلوچ عوام کیلئے روزگار کے بہت سارے نئے مواقع پیدا نہیں ہونگے؟
میر محمد علی ٹالپر: مجھے یقین ہے آپ نے وہ کہانی سنی ہوگی کہ ایک غریب شخص کو ایک جادوئی چراغ ملتا ہے؛ اس کے بعد وہ جن کو کہتا ہے کہ اس کیلئے ایک بڑا سا محل بنائے اور اس میں کچھ امیر لوگوں کو ڈال دے، اور پھر اسے اس محل کا چوکیدار بننے کا کہا جائے۔
بلوچ کسی اور کے محل کا چوکیدار نہیں بننا چاہتے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ (بلوچستان کے وزیر اعلیٰ) ہمیں چند معمولی ملازمتیں دلوا سکتے ہیں۔ مگر وہاں ایک کہاوت ہے کہ غربت میں آزادی خوشحال غلامی سے بہتر ہے ۔
یہ کوئی روزگار کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ زمین ہماری ہے۔ یہ تب ہمارا تھا جب یہ ویران تھا ۔ اب انہوں نے یہاں سونا، چاندی اور تانبا دریافت کیا ہے، یہ ہمارا ہے۔
رضا وزیر: اور منصوبے کے راستے پر حالیہ بحث کے بارے میں بلوچ عوام کیا کہتے ہیں؟
میر محمد علی ٹالپر: یہ مسئلہ راستے کا نہیں ہے۔ ہمیں اس پورے منصوبے کے بارے میں خدشات ہیں۔ ہمیں گوادر کے مستقبل کے بارے میں خدشات ہیں، جہاں سے یہ راستہ نکل کر آئے گا۔ اس بات سے قطع نظر کہ آیا یہ سڑک لاڑکانہ اور رتوڈیرو کے ذریعے گزرے گی یا ژوب یا ڈیرہ اسماعیل خان سے، اس پر ہمارے خدشات ہیں۔ گوادر جانے کیلئے یہ سڑک بلوچستان سے گزرے گی، تو لہٰذا بلوچستان کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
رضا وزیر: بلوچستان کی منتخب حکومت نے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب بلوچ عوام کی رضامندی نہیں ہے؟
میر محمد علی ٹالپر: میرے خیال میں یہ کہنا مبالغہ آرائی ہے کہ موجودہ حکومت صوبہ بلوچستان کے عوام کی مرضی و منشاء کی نمائندہ ہے۔ اگر آپ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جائیں، تو آپ دیکھیں گے کہ ڈاکٹر عبدالمالک نے 4000 سے تھوڑا زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ انکے حلقے میں ووٹ ڈالنے کی شرح محض 17 فیصد رہی۔ ڈپٹی اسپیکر قدوس بزنجو کو 544 ووٹ ملے۔ نادرا اور الیکشن کمیشن یہ بات مانتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات میں بلوچستان میں ڈالے گئے 65 فیصد ووٹ جعلی تھے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ انہیں کس نے ووٹ دیا اور وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ وہ محض ایک سویلین چہرہ ہیں جو ایف سی کے زیرانتظام چلنے والی انتظامیہ کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔
رضا وزیر: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟
میر محمد علی ٹالپر: ایک سیاسی جدوجہد اس وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب آپ کا سامنا سیاست دانوں کے ساتھ ہو۔ بلوچستان میں تنازعے کو حل کرنے کیلئے انہوں کب سیاسی ذرائع استعمال کیے ہیں؟ ہم 27 مارچ 1948 کے بعد سے فوجی طاقت کا سامنا کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے شیخ مجیب الرحمن اور بنگالیوں کیساتھ کس قسم کا سیاسی تصفیہ بروئے کار لایا؟ بلوچ کے پاس اور کونسا راستہ باقی رہ گیا ہے؟
رضا وزیر: پنجاب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب بھی بات پاکستان کی خوشحالی کی آتی ہے تو چھوٹے صوبے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
میر محمد علی ٹالپر: میرا خیال ہے کہ جو لوگ ایسی باتیں کہتے اور لکھتے ہیں وہ زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ بلوچ عوام کے جذبات کو نہیں سمجھتے۔ اگر پاکستان کی خوشحالی ضروری ہے، تو وہاں رہنے والے لوگوں کے جذبات بھی۔ ہم خوشحالی کیخلاف نہیں ہیں۔ ہم استحصال کیخلاف ہیں۔ ہمیں اپنے حقوق چاہئیں ۔ ترقی خود آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اشاعت : 13 مارچ 2015
Комментариев нет:
Отправить комментарий