ھزار گنجی بس اڈہ، اصل مسئلہ کیا ہے۔۔؟
گذشتہ کئی دنوں سے ہم آپ دیکھ رہے ہیں کہ کوئٹہ سے بس اڈہ کو ھزارگنجی منتقل کرنے پر ایک تنازعہ سا اٹھ کھڑی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کی حکومت گونا گوں کی سی کیفیت میں ہے وہ چاہتے ہوئے بھی کوئٹہ کے بس اڈہ کو ھزار گنجی منتقل نہیں کر پا رہی ہے ایک طرف وہ پارٹی اور قوتیں ہیں جو بس اڈہ کو کوئٹہ سے نکال کر ھزارگنجی میں منتقل کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف وہ قوتیں ہیں جو اس عمل کی مخالفت کر رہے ہیں یعنی ڈاکٹر عبدالمالک صاحب دو پھاٹوں کے بیج پِس یا پھس گئے ہیں۔ مگرایسا کیوں ہے۔۔۔۔؟ آئیے اس مسئلے کی جڑ کا کھوج لگاتے ہیں۔ یہ 1996 کی کوئی ڈیدھ بجے دوپہر کا وقت ہے پانچ بہت بڑے بیورو کریٹ وزیر اعلیٰ ھاؤس آتے ہیں اور کوئی ایک گھنٹے بعد وہ ہنسی خوشی وہاں سے نکل جاتے ہیں ۔اصل میں وہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو کوئٹہ کی بڑھتی ہوئی آبادی اور گنجان ٹریفک کی مصیبتوں سے نجات پانے کا ایک نسخہ کے بارے میں بریف کرتے ہوئے کوئٹہ کے بس اڈہ کو ھزار گنجی منتقل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔اور پھر سیاسی وزیر اعلیٰ جن کا زندگی میں پہلی بار براہ راست شاطر بیورو کرٹوں سے واسطہ پڑا ہے وہ بیوروکریسی کی اندر کچھ باہر کچھ سی چالوں کو نہیں سمجھ پاتے اور اُن کو ’’ھان ‘‘ کہ دیتے ہیں۔دوسرے دن تمام کوئٹہ میں کوئٹہ بس اڈہ کی ھزار گنجی منتقلی کی خبر گشت کرنے لگتی ہے۔نجانے بیورو کریسی سے چھوک ہو گئی تھی کہ وزیر اعلیٰ کے قریبی ذرائع سے کہ بات کا بتنگھڑ بن چکا تھا۔ شام کے کوئی چھ بجے ہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اطلاع ملتی ہے کہ کچھ بلوچ قبائلی متعبریں اُن سے ملنے آئے ہیں۔اور پھر وزیر اعلیٰ کے سریاب والی گھر میں ان قبائلیوں کو شرف ملاقات بخش دی جاتی ہے کوئی دو گھنٹے یہ ملاقات بر قرار رہتی ہے جس کے بعد یہ قبائلی بھی ہنسے ہوئے وزیر اعلیٰ کے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔اصل میں ان بلوچ قبائلیوں نے وزیراعلیٰ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کیا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ھزار گنجی کی تمام تر زمینیں یوں تو بلوچ قبائل کے ہیں مگر بلوچستان کے سب سے بڑے’’لینڈ مافیا‘‘ بلوچستان ریونیو بورڈ نے کس طرح ان کی پدری زمینات کو بڑی شاطرانہ انداز سے پہلے سرکاری اراضیات میں بدل دیں اور بعد ازاں اپنے نام الاٹ کروائے۔اور اب یہی (اُس وقت کی )بیورو کریسی یہ چاہتی ہے کہ کوئٹہ کا بس اڈہ ھزار گنجی منتقل ہو تاکہ ان کی الاٹ شدہ اراضیات کی قیمت بڑھ جائے اور وہ راتوں رات کروڑ پتی سے ارب پتی بن جائیں۔انہوں نے مذید حقائق کو سامنے لاتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمل سے ایک تو بلوچوں کی اراضیات اُن سے چھینی جائیں گی اور دوسری طرف افغان مہاجرین جن کو وفاقی اور بلوچستان بیوروکریسی کی مکمل حمایت حاصل ہے کو ھزار گنجی میں آباد کیا جائے گا جس سے دوسرے بلوچ علاقوں کی طرح یہاں پر بھی غیر بلوچوں کی آبادکاری کی جائے گی اور بلوچ اور بلوچی،براھوئی زبانوں کو ختم کر دینے کا اہتمام کیا جائے گا۔ان ہی قبائلیوں نے وزیر اعلیٰ کو مشورہ دیا کہ اگر کوئٹہ کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنا چاہتے ہیں تو وہ کوئٹہ سے افغان مہاجرین کا انخراج کر دیں جس سے ایک طرف آبادی اعتدال پر آجائے گی دوسری طرف ٹریفک کا رش کم ہوجائے گا جبکہ سب سے اہم بات یہ کہ کوئٹہ سے غیرقانونی اسلحہ اور منشیات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا یا پھران میں خاطر خواہ کمی آجائیگی۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے ان قبائلیوں کو بھی وعدہ دیا کہ وہ اپنے دور حکومت میں کوئٹہ بس اڈہ کو ھزار گنجی منتقل ہونے نہیں دے گا۔اس وعدہ کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ نے اپنے پہلے وعدہ جو بیورو کریٹس سے کی گئی تھی ،منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ یوں تو تمام قارئین کرام اس بات سے آگاہی رکھتے ہیں کہ بلوچستان کے چھپے چھپے میں افغان مہاجرین کو ایک منصوبے کے تحت لاکر بلوچ آبادیوں میں آباد کر دیا گیا ہے تاکہ بوقت ضرورت ان سے کسی بھی قسم کی خدمات لیا جا سکے۔اگر کچھ اور نہیں تو بلوچ اکثریتی علاقوں کو اقلیتی علاقوں میں تبدیل کیا جا سکے اس لئے وفاق کے اس بلوچ دشمن منصوبے کے سامنے(اُس وقت کے) وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ایک نہ چلی مگر انہوں نے کوئٹہ بس اڈہ کا ھزار گنجی انتقال کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔جس سے جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنی بریفنگ پر نہ آنے والے وزیر اعلیٰ کے خلاف بلوچستان بیوروکریسی نے ایک اور منصوبہ بنایا۔۔ان کی حکومت کو چلنے نہ دینے کا۔۔۔ اور پھر ہم سب سے دیکھا کہ بلوچستان حکومت میں وزیر اعلیٰ کے احکامات ردی کی ٹھوکری میں پڑے ہوئے ملنے لگے حتیٰ کہ میاں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ کی استحقاق پر رحم آیا اور انہوں نے اس کمزور اور احکامات سے عاری وزیر اعلیٰ کی نہ صرف حکومت ختم کردی بلکہ ان کی پارٹی کو بھی دولخت کر دیا تاکہ نہ رہے بھانس نہ بجے بھانسری۔ اس کے بعد عین ممکن ہے کہ اُن بیورو کریٹس جن کی اراضیات ھزار گنجی میں تھیں کو موقع نہ ملا ہو یا وہ اپنی اپنی ملازمتوں سے ریٹائرڈ ہو چکے ہوں یا اُن کی بات نہ چلتی ہو کہ وہ کئی سالوں خاموش رہے۔مگر اب جبکہ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کی نحیف اور کمزور سی حکومت جو اُن ہی بیوروکریٹ کے دوستوں اور ان کی حمایتیوں کی طفیل سے چل رہی ہے اور ان کے ھر احکامات پر بھیگی بلی بن کر کھمبا نوچتی رہتی ہے جس سے ان بیوروکریٹس کو ایک بار پھر موقع ہاتھ لگا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے حکومت کی ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر اپنی اراضیات کو بھاری قیمتوں پر فروخت کرنے کا اہتمام کریں۔ اس لئے ایک بار کوئٹہ سے کئی کلومیٹر دور ھزارگنجی میں کوئٹہ بس اڈہ کو منتقل کا منصوبہ بنایا گیاجہاں نہ صرف کسی بس اڈہ کے لئے کوئی سہولیات میسر ہیں بلکہ مسافروں کو بھی یہ منتقلی بہت بھاری پڑے گی۔ وہ ایک کرایے ،مکران،سندھ(بشمول کراچی) اور پنجاب(بشمول پنجاب کے قابض بلوچ علاقوں کے) کا دیں اور پھر دوسرا کرایہ ھزارگنجی سے کوئٹہ شہر کا دیں۔ اگر ڈاکٹر عبدلمالک نے ان شاطر بیوروکریٹس کی چالوں اور ان کے حمایتی پارٹیوں کی سفارشوں تلے آکر ایسا عمل کیا تو ان کو یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بلوچ علاقے کو افغان مہاجرین کے نہ صرف حوالے کر رہے ہیں بلکہ اپنی پارٹی کا جنازہ بھی اس بلوچ علاقے سے نکال رہے ہیں۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий