Powered By Blogger

суббота, 31 октября 2015 г.

مذہبی انتہا پسندی و منافرت پاکستان کیلئے آکسیجن کا کام کر رہے ہیں

،بی این ایم

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کو ایک خطرناک صورتحال قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سربراہی میں مذہبی انتہاپسندی، شدت پسندی اور مذہبی منافرت کی پرورش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد دنیا کو بلیک میل کرکے مراعات حاصل کرنا ہے جو آج پاکستان کیلئے آکسیجن کا کام کر رہے ہیں۔دوسری طرف انہی فدائین کو اپنے دشمن ممالک اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے تربیت دیکر افغانستان اور دوسرے ممالک میں بھیجا جا رہا ہے ۔آج یہ بات راز نہیں رہی کہ پاکستان کا دنیا کے تمام مذہبی انتہا پسندوں سے قریبی تعلقات ہیں ۔ القاعدہ سے لیکر لشکر جھنگوی کے رہنماؤں تک، تمام پاکستان کی محفوظ پناہ گاہوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی ہتھیار کو بلوچستان میں بلوچ جہد آزادی کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔مذہبی انتہا پسندوں کو عسکری تربیت و مالی معاونت کے بعد مسلح کرکے ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے ہیں جو بلوچستان میں فوج کی معاونت و مذہبی منافرت پھیلانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔اسی طرح کا ایک عمل گزشتہ دنوں پنجگور میں دہرایا گیا۔ پنجگور میں قائم باب آجوئی کا نام اور شہداء کی تصاویر ہٹا کر جے یو آئی بلوچ دشمنی میں پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے ۔باب آجوئی پر پاکستان کا جھنڈا لگانا ہزاروں بلوچ شہداکی شہادت اور لاپتہ افراد کی گمشدگی میں شریک جرم کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ چھ سالوں سے باب آجوئی ان شہدا کی تصویروں سے مزئین تھا مگر گزشتہ دنوں پاکستان کی انہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر اسلام و انسانیت کے دعویداروں نے شہدا کی بے حرمتی کی۔ شہید غلام محمد، شہید لالا منیر ، شہید شیر محمد اور شہید رسول بخش کی تصویروں کی بے حرمتی ایک ناقابل برداشت عمل ہے۔جے یو آئی کو اپنے عمل پر نظر ثانی کرنا چاہئے اور عظیم شہدا کا احترام کرنا چاہئے۔ قرآن و اسلامی تعلیمات کا دعویدار جس غیر اسلامی طریقے سے شہدا کی بے حرمتی کررہے ہیں سے صاف عیان ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی و دوسرے خفیہ اداروں کی ایما پر چند علما اسلام کو بھی روندنے کو تیار ہونگے۔بلوچ علما کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی حرکات پر لب کشائی کریں اور پاکستان کی بلوچستان میں ہونے والی مظالم کو آشکار کرکے اپنا اسلامی و قومی فرض نبھائیں۔ ترجمان نے کہا کہ 29 اکتوبر کو فورسز نے قلات میں عام آبادیوں پر یلغار کرکے نہتے شہری عارف شاہ کو اغوا کرکے لاپتہ کر دیا ۔ اس سے پہلے گزشتہ مہینے قلات سے یاسر ، عمران، عنایت شاہوانی اور ہندو اقلیتی کے ساجن کو بھی حراست کے بعد لاپتہ کردیا ہے، جن کا تاحال کوئی خبر نہیں کہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔بلوچستان میں’مارو اور پھینکو ‘ کی پالیسی بھی بدستور جاری ہے ۔اگر انسانی حقوق کے اداروں نے خاموشی نہ توڑی تو ہزاروں لاپتہ افراد کی خاندانوں کو بھی اس کرب سے گزرنے کا اندیشہ ہے۔28اکتوبر کو اوڑماڑہ سے دو بلوچ فرزندوں محبوب اور علی مراد کی لاش ملیں جنہیں تین ہفتے پہلے پاکستانی فورسز نے مسافر گاڑی سے اُتار کر اغوا و لاپتہ کیا تھا۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий