Powered By Blogger

четверг, 8 октября 2015 г.


کسی اور دن کی یادیں

تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
Mir Muhammad Ali Talpurفروری 1973ء میں حلف اٹھانے کے محض 10 ماہ بعد سردار عطاءاللہ مینگل کی حکومت کی غیر قانونی اور غیر منصفانہ برطرفی کے بعد بلاجواز اور ظالمانہ فوجی آپریشن کیخلاف بلوچ کی مزاحمت صوبے کی تاریخ میں سب سے زیادہ طویل، وسیع اور مضبوط ترین جدوجہد تھی۔
مینگل سرکار نے بڑی امیدیں اور توقعات لئے یکم مئی 1972 میں حلف اٹھایا لیکن روز اول سے اسے اپنی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وفاقی حکومت نے لسبیلہ میں اتھل پتھل پیدا کیا اور جام غلام قادر، سابق ریاست کے آخری حکمران، کے حامیوں کی صوبائی حکومت کے مبینہ ظلم و ستم کیخلاف ہتھیار اٹھانے کی حوصلہ افزائی کی۔ مینگل حکومت کو اس مصیبت پر قابو پانے کیلئے لیویز فورس میں اضافہ کرنا پڑا چونکہ وفاقی حکومت نے مدد بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ جام غلام قادر، لسبیلہ کے جام، مینگل حکومت کی برخاستگی کے بعد وزیر اعلیٰ بنے۔
سن 1973ء میں لاہور کے ایک عوامی اجلاس میں نواب اکبر بگٹی نے دعویٰ کیا کہ ’گریٹر بلوچستان‘ کیلئے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے جسکا مقصد عسکری ذرائع سے پاکستان، ایران اور افغانستان میں بلوچ اکثریتی علاقوں پر مبنی خطے کی آزادی ہے۔ پنجابی افسران کو بلوچستان میں خدمات انجام دینے کیلئے بھیجنے کا مسئلہ بھی باعث آزار تھا اگرچہ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ پنجاب کے اس وقت کے گورنرغلام مصطفی کھر نے واپس آنے کیلئے افسران کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ ایران بھی بلوچوں کو کم سے کم خود مختاری ملنے پر اپنی سرحدوں کے اندر بلوچ کی مزاحمتی تحریک کے خوف سے خود کو غیر محفوظ محسوس کررہا تھا۔
اس ڈرامے کا آخری باب 10 فروری 1973 میں اسلام آباد میں عراقی سفارتخانے کے فوجی اتاشی ناصر السعود کی رہائش گاہ پر ہتھیاروں (300 عدد اے کے-47 بندوقیں اور 48,000 گولیاں) کا برامد ہونا تھا۔ بظاہر، یہ اسلحہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کی برامدگی سے تین دن قبل السعود پاکستان سے غائب ہو چکے تھے۔ اتفاق سے یہ فوجی اتاشی ساواک کا ایجنٹ نکلا جسے بعد میں صدام حسین نے مار دیا تھا۔
مینگل حکومت 13 فروری کو برخاست کی گئی اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں مفتی محمود کی حکومت نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دے دیا چونکہ جے یو آئی کے ارکان مینگل حکومت کا حصہ تھے۔ نواب اکبر بگٹی گورنر بنائے گئے اور تقریباً ایک سال تک وہ اس عہدے پر براجمان رہے۔
یرے چچا میر رسول بخش ٹالپر، اس وقت کے گورنر سندھ، نے بھی استعفیٰ دے دیا کیونکہ ان کے بڑے بھائی اور میرے والد میر علی احمد ٹالپر پر عراقی سفارتخانے کے ہتھیاروں کے معاملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان پر یہ الزام اسلئے عائد کیا گیا کہ اب یہ سب کو معلوم ہوچکا تھا کہ میں مری علاقے میں ہوں۔ یہ معلومات اکبر بگٹی کی مرہون منت پریس میں شائع ہوئی تھی۔
جمہوری طور پر منتخب حکومت کی برخاستگی بلوچ کیلئے اپنے حقوق کے دفاع اور ان پر کی جانیوالی نا انصافیوں کیخلاف لڑنے کیلئے کافی تھی۔
اس کی قیادت غوث بخش بزنجو، سردار عطاءاللہ خان مینگل، میر گل خان نصیر، خیر بخش خان مری، جو کہ نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے سربراہ تھے، اور دیگر نے کی جنہیں 1947 کے بعد سے بلوچ کی حالت زارپر اپنے خیالات کے اظہار کیلئے قید کی صعوبتیں اور سفری پابندیاں جھیلنی پڑیں۔
شیر محمد مری کو مارچ 1973ء میں گرفتار کیا گیا جبکہ مندرجہ بالا رہنماوں کو 1973ء کے آئین کے نفاذ کے فوراً بعد 15 اگست کو گرفتار کیا گیا۔ نواب خیر بخش اور میر علی احمد ٹالپر نے اس بنیاد پر آئین کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ صوبائی خود مختاری کیلئے خاطر خواہ ضمانت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بغاوت پربا ہونے والی تھی۔ بلوچ عوام جب تنازعے کے حل کیلئے بیکار میں انتظار کر رہے تھے تو حکومت مری اور مینگل علاقوں، 60 کے عشرے کی گزشتہ مزاحمت کے اہم مقامات، کی گھیرابندی میں مصروف تھی۔ انہوں نے رفتہ رفتہ اس حد تک گھیرا تنگ کردیا کہ مری علاقے میں رہنے والے لوگوں کو محض بنیادی راشن کے حصول کیلئے بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک بار ہمارے چھوٹے سے گروہ کو چند دنوں کیلئے آٹے پر گزارا کرنا پڑا جو کہ کھانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ ہمارا گروہ تین مری قبائلیوں، ایک شہری کارکن، جو کہ گمنام رہنا چاہتے ہیں، اور مجھ پر مشتمل تھا۔ ہم ایک کمکار گروہ تھے، دو یا تین گدھوں پر ادویات اور کچھ اضافی راشن اٹھاتے اور دو بکریاں جنہیں ہم دودھ کیلئے رکھا کرتے تھے۔ میں بیماریوں کے علاج کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا تھا جو کہ میں نے سندھ میں قیام کے دوران سیکھا تھا۔
مورخہ 18 مئی 1973ء میں سبی اسکاوٹس کی ایک آٹھ رکنی گشتی پارٹی پر تندوری کے قریب گھات لگا کر حملہ ہوا اور انہیں ہلاک کیا گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسکا ذمہ دار کون تھا لیکن تین دن کے اندر اندر مری علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے ماوند میں ہیلی کاپٹروں، جوکہ فوجیوں کو لایا کرتے تھے، کیساتھ فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ پندرہ دن بعد، کاہان پر علی الصبح قبضہ بھی اسی انداز میں شروع کیا گیا۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ ہم جاگ چکے تھے اور چائے پی رہے تھے جب ہیلی کاپٹروں کی منحوس آواز نے ہمیں چونکا دیا کیونکہ ابھی تک اندھیرا تھا۔ ہم نے تقریباً 15 ہیلی کاپٹروں کو کاہان کی طرف پرواز کرتے ہوئے دیکھا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کردیا گیا تھا۔
فوج کیخلاف مزاحمت تقریباً فوری طور پر شروع کر دی گئی اور، ان الزامات کے برعکس کہ بلوچ جدوجہد غیر ملکی اعانت سے چل رہی ہے، یہ جدوجہد بلوچ حقوق کی صریح خلاف ورزی کا نتیجہ تھی۔ بلوچ جنگجووں کی طرف سے استعمال کیے جانیوالے ہتھیار یا تو 303 بندوقیں، پرانی لی اینفیلڈ سنگل شاٹ بندوقیں یا شکار کی بندوقیں تھیں۔ ایک اکیلی خود کار بندوق، اگر اسے یہ بلند و بالا درجہ دیا جا سکے، نائن ایم ایم کی ایک اسٹین گن تھی جو کہ اکثر چند گولیاں چلانے کے بعد جام ہوجایا کرتی تھی۔
مری جنگجو جنہیں ایک فائدہ حاصل تھا وہ تھا اپنے علاقے کے بارے میں معلومات؛ انہیں معلوم تھا کہ پانی کے چشمے کہاں ہیں، غاریں اور گھاٹیاں کہاں ہیں۔ وہ اپنی پُشتی، بیڈشیٹ جتنا کپڑا، پر اپنا آٹا اٹھاتے اور کلّی، چھوٹے مشکیزے، میں پانی اور معمولی راشن پر گزارا کرتے تھے۔ ان چیزوں کیساتھ مل کر ان کے عزم نے مریوں کو ایک قوی طاقت بنادیا۔ وہ لڑتے، پھر غائب ہوجاتے اور بعد میں کسی اور جگہ پر منظم ہو جاتے۔
مری کا علاقہ چھوٹا ہے، یہ محض 3,300 مربع میل ہے اور اسے کنٹرول کرنا نسبتاً آسان ہے، تو لہٰذا اسکا کریڈٹ مری جنگجووں کو جاتا ہے کہ اس جدوجہد کے دوران سب سے زیادہ کارروائیاں اسی علاقے میں ہوئیں۔ صحافی سیلگ ہیریسن کیمطابق، ایک وقت میں 80,000 فوجی صوبے میں تعینات کیے گئے تھے۔
آپریشن بے رحمانہ تھے اور انکے باعث وہاں کے باشندوں کی سماجی اور اقتصادی زندگی انتہائی حد تک تہ و بالا ہوکر رہ گئی۔ انہوں نے بلوچستان اور سندھ کے دیگر شہروں اور قصبوں کی طرف نقل مکانی کی۔ آخر میں، بہت ساروں کو افغانستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ جن لوگوں نے موسم سرما میں ہجرت کی تھی ان میں نوجوان اور بوڑھوں کو یکساں طور پر شدید سردی اور سرما زدگی کے سبب ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی ہجرت نے تاہم زندگی کو کسی طرح سے بھی آسان نہیں کیا۔
ستمبر 1974 میں چمالنگ میں ایک فوجی آپریشن ہوا جہاں 15,000 مری اپنے خاندانوں سمیت جمع ہوئے تھے کیونکہ روایتی طور پر مری قبائلی اس علاقے میں اپنے گلوں کو چرانے کیلئے لیجاتے تھے۔ توپخانے کے علاوہ فوج نے مقامی مریوں کیخلاف میراج اور ایف 86 جنگی طیارے استعمال کیے اور اسکے ساتھ ساتھ ایرانی پائلٹوں کی طرف سے اڑائے جانیوالے ہُوئی کوبرا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 125 گوریلاوں کو ہلاک اور 900 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم، بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں اور یہ کہ انہوں نے 446 فوجی مار گرائے ہیں۔ 50000 کے قریب مال مویشی اور 550 سے زائد اونٹ چھینے گئے اور پنجاب میں لیجاکر فروخت کیے گئے۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ آپریشن ایک بڑی کامیابی تھی لیکن اصل میں مریوں کیلئے یہ محض ایک عارضی دھچکا ثابت ہوئی کیونکہ انہوں نے اپنی جنگ جاری رکھی۔
ہم سراغ لگنے سے بچنے کیلئے چھوٹے گروہوں میں نقل و حرکت کیا کرتے۔ یہ جنوری 1974 میں عید کا دن تھا اور ہم فوجی آپریشن سے بچنے کیلئے تدڑی کی طرف جا رہے تھے۔ اس سے چند روز قبل فوج نے ایک گھر پر حملہ کیا جہاں تنگو رمکانی، میر ہزار خان رمکانی کے ذیلی قبیلے کا ایک مری قبائلی، کے بھتیجے جلمب اور کرم ہلاک ہو گئے تھے۔ مری علاقے میں میر ہزار خان بغاوت کے رہنماء تھے۔ ہم نے وہ رات ہمیشہ کی طرح کھلے آسمان تلے سوکر گزاری اور علی الصبح چل دیے اس امید میں کہ ہمیں کہیں کسی مری کا گھر مل جائے جہاں ہم اپنے آٹے کے راشن کیساتھ روٹی پکا سکیں۔ ہم جیسے ہی ایک پہاڑ کے کونے پر مڑے تو ہم نے دھواں اٹھتے دیکھا جوکہ ہم نے سوچا کہ کسی گھر سے نکل رہا ہے۔ بظاہر وہاں رہنے والے لوگوں نے ہمیں دور سے ہی دیکھ لیا تھا اور جیساکہ ہمارے پاس بندوقیں تھیں تو انہوں نے ہمیں غلطی سے فوجی سمجھا اور اپنی پناہ گاہ چھوڑ دی تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو کوئی موجود نہ تھا۔ قریبی پہاڑوں میں سے کچھ لوگوں نے ہمیں آواز لگائی، یہ جاننے کے بعد کہ ہم فوجی نہیں تھے، اور ہمیں کھانے کیلئے رکنے کو کہا۔ لیکن ہم انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے، لہٰذا ہم وہاں سے آگے چلے گئے۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ اسوقت بھی اتنا ہی بڑے پیمانے پر تھا جتنا کہ اب ہے۔ ذرہ بھر شبہ ہونے پر لوگ اٹھائے جاتے یا بلوچ صفوں میں گھسنے والے چند خفیہ ایجنٹوں کی طرف سے فوج کے حوالے کر دیے جاتے۔ بہت سے لوگ کسی سراغ کے بغیر غائب ہوئے؛ ان میں سردار عطاءاللہ خان مینگل کے فرزند اسد اللہ مینگل اور ایک نڈر کارکن احمد شاہ کرد شامل ہیں۔ انہیں کراچی سے اٹھایا گیا اور پھر انکے بارے کبھی کچھ نہیں سنا گیا۔ دلیپ (جانی) داس کو شیر علی رمکانی مری کے ہمراہ بیل پٹ کے قریب سے اغواء کیا گیا، انہیں بھی ایک خفیہ ایجنٹ کی طرف سے ہتھے چڑھایا گیا اور ان دونوں کو بھی اسی انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ شفیع محمد بادانی، بہار للوانی، علی دوست درکانی اور دیگر بہت سے لوگ بھی غائب کیے گئے۔
سرگرم کارکنوں کو اٹھایا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اسی طرح سے بہت سے قبائلیوں کو بھی۔ ان میں سے کچھ کو بعد میں رہا کر دیا گیا، تشدد کے باعث وہ اپاہج ہوچکے تھے۔ یہ وہی عرصہ تھا جسکے دوران کوئٹہ جیل کو توڑنے کا پہلا واقعہ پیش آیا۔ تشدد سے تنگ آئے چار نوجوان کارکنوں نے وہاں سے بھاگنے کا منصوبہ بنایا اور بعض دیگر قیدیوں کی بھی حمایت حاصل کی، اگرچہ وہ اس خطرناک مشق کو کرنے کیلئے تیار نہ تھے، جنہوں نے وعدہ کیا کہ مقررہ وقت پر وہ سب بیرونی دیوار پر لگے بجلی کے تاروں سے گزرنے والے کرنٹ کو کم کرنے کیلئے اپنے بجلی کے ہیٹر ایک ساتھ چلا دیں گے۔ تو لہٰذا منصوبے کیمطابق ایک قیدی نے دیوار پر چڑھ کر تاروں پر ایک رضائی ڈال دی اور دیوار پھلانگ دی، دیگر دو نے بھی یہی کیا لیکن چوتھا اپنی ٹانگ زخمی ہونے کے بعد دستبردار ہوگیا۔ قیدیوں کے دیوار پھلانگنے کے چند منٹ بعد گھنٹی بج گئی لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
دیگر صوبوں سے جو کارکنان جدوجہد میں ملوث تھے ان میں نجم سیٹھی، احمد رشید، راشد رحمن، اسد رحمن، دلیپ (جانی) داس، محمد بھابا اور میں شامل تھے۔ بلوچ قومی جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے سے قبل ان میں سے بیشتر لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور یہ ”لندن گروپ“ کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر سیاسی کام میں ملوث تھے جس میں جبل نامی ایک خفیہ اخبار کی پرنٹنگ اور تقسیم بھی شامل تھی۔ وہ لوگوں کو تعلیم دینے اور بنیادی طبی امداد فراہم کرنے میں بہتری لانے کی تربیت دینے میں بھی ملوث تھے۔ فوجی آپریشن سے بچنے کیلئے شہری کارکن بھی پہاڑوں کی طرف فرار ہوئے اور انہی حالات میں رہے جن میں عام قبائلی رہ رہے تھے۔
دونوں متحارب اطراف سے ہلاکتوں کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے ہیں، اگرچہ کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، یہ مانا جاتا ہے کہ اس جنگ کے دوران 3,000 فوجی اور 5,000 بلوچ مارے گئے تھے۔ لیکن دونوں اطراف سے اصل تعداد کو جاننے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے ممتاز بلوچوں میں سے چند یہ تھے: جھالاوان میں سفر خان زرکزئی، میر گل خان نصیر کے بڑے بھائی اور ستر سالہ ضعیف میر لونگ خان جو اپنے گاوں مالی کا دفاع کرتے ہوئے ہلاک ہوئے اور جلات خان درکانی۔ جب ضیاءالحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مختلف جیلوں میں قید کیے گئے تقریباً 6,000 بلوچ رہا کر دیے۔
بھٹو کو ضیاء کی طرف سے معزول کیے جانے کے بعد، فوج کی سرگرمیوں کو عملی طور پر روک دیا گیا اگرچہ معمولی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ضیاء کی طرف سے بلوچ رہنماوں کی رہائی، حیدرآباد ٹربیونل کے خاتمے اور سب کیلئے عام معافی کے اعلان نے جدوجہد کو توڑ کر رکھ دیا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ جدوجہد کے تسلسل کو جاری رکھنے کے حوالے سے اختلاف رائے پیدا ہوا، نہ صرف غیرفعال این اے پی کے پشتون اور بلوچ قیادت کے درمیان، بلکہ بلوچ رہنماوں کے آپس میں اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ زیادہ تر بلوچ رہنماوں، جو کابل میں جلاوطنی میں رہ رہے تھے، نے واپس آنے کا فیصلہ کیا اور صرف مریوں نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ صرف 1992ء میں افغانستان میں نجیب اللہ کی حکومت کے زوال کے بعد واپس آئے جیساکہ بنیاد پرست قیادت کہ جنہوں نے نجیب کی جگہ لے لی تھی بظاہر پاکستان کی حمایت کیلئے اسکے انتہائی شکرگزار تھے اور انہوں نے مریوں کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا۔
ذوالفقار بھٹو کے دور میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کیخلاف بلوچ بغاوت کو 36 سال بیت چکے ہیں۔ لیکن صوبہ ایک بار پھر گرما رہا ہے۔ مشرف کے دور اقتدار میں ایک فوجی تصادم کے دوران نواب اکبر بگٹی اور ان کے ساتھیوں کا قتل اور حال ہی میں تربت میں تین بلوچ قوم پرستوں کے قتل نے بلوچ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
اگر صوبے کی شکایات کا جلد ازالہ نہیں کیا گیا تو بلوچستان ایک اور بغاوت دیکھ سکتی ہے اور اب کی بار اسکے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий