"مجيد سے مجيد تک"
(شہید علی شير کرد)
شہيد کی موت سے جو خوبصورت سوتيں پهوڻتی ہيں وہ قوم کی راہيں روش کرتی ہيں اور يہ روشنی صداکے لئے ہوتی ہيں۔ بلوچ شہداء کی طويل فہرست ہی ہميں اس روشنی کی جانب بڑی تيزی سے بڑهنے پر مجبور کرتی ہے جسے آزادی کہاجاتاہے۔دنيا ميں ايسی بہت سی اقوام ہيں جنہوں نے اپنی آزادی کی خاطر ايک نسل کو قربان کرکے آنے والی نسلوں کو غلامی کے منحوس سايے سے دور رکهنے ميں کامياب رہے۔ان اقوام ميں بنگلہ ديش ٬ويت نام اور کوريا (شمالی) کی مثاليں دی جاسکتی ہيں۔ آج کے دور ميں ہم بہت سے اقوام کو آ زادی کی خاطر برسر پيکار ديکھ رہے ہيں ان ميں عراق ٬ فلسطين
اور بلوچستان سرفہرست ہيں جو اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہيں اگر آزادی گهر بيڻهے مل جاتی تو تاريخ ميں شايد جنگوں کا کوئی ذکر ہی نہيں ہوتا بلکہ ظلم واستحصال يا حق و باطل کا کوئی تصور ہی نہيں ہوتا۔جنگوں کی تاريخ کو اگر ديکها جائے تو يہ کسی شوق يا عياشيوں کے لئے نہيں لڑی جاتی بلکہ فطرت کی طرف سے ہر انسان ميں مزاحمت کا عنصر موجود ہے بلکہ چهوڻے سے جانور چيونڻی تک کو اگر ذرا بهی تکليف پہنچے تو وہ بهی کاڻنے پر آجاتاہے تو پهر انسان تو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے جسے باطل ٬ ظلم ٬ استحصال اور ناانصافيوں کے خلاف اس کا ضمير لڑنے ٬ مرنے يا مارنے پر اکساتاہے۔يہ فطرت کی طرف سے عطاکردہ صفات ہوتی ہيں۔
جن لوگوں کو ظلم ٬ ناانصافی و استحصال پر تکليف نہ پہنچے اور وہ اسے ذہنی طورپر قبول کرليں تو انہيں شک کی نظر سے ديکهنا چاہيے کيونکہ وہ انسان ہو ہی نہيں سکتے ۔اگر وہ بظاہر نظر بهی آتے ہوں تو وہ مريض ہوں گے کيونکہ ذہنی طورپر ايک صحت مند انساں نہ تو غلامی برداشت کرسکتاہے اور نہ ہی ظلم ٬ ناانصافی و استحصال ٬ خواہ وہ دنيا کے کسی بهی کونے ميں ہو رہا ہو ٬اگر يہ ظلم ٬ ناانصافی ٬ جبر اور استحصال ہمارے اپنے ساتھ يا ہماری قوم کے ساتھ ہو رہا ہو تو اس کے خلاف مرنے اور مارنے کے لئے مذہب ٬ اخلاقيات اور قومی تاريخ ہميں يہ اجازت ديتی ہے کہ ہم خود کو غلامی سے نجات دينے کی خاطر اپنی قوم کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے لئے آگے بڑهيں اور صرف شہيدوں کے
متعين کردہ راستے کا انتخاب کريں جس طرح شہيد مجيد اول بلوچ قومی آزادی کی خاطر آگے بڑهے ٬ وہ پڑهے لکهے اور باشعور نوجوان تهے ايک متوسط گهرانے ميں ابتدائی تربيت لی اپنے آباؤاجداد کی خوبصورت تاريخی سرزمين کے مالک تهے ليکن اسکی آزادی چهين لی گئی تهی آزادی کا حصول جيسے نظريات بلوچ گهرانوں ميں زير بحث رہتے ہيں ٬غلامی کی زندگی اور پهر باہر سے آئے ہوئے دراندازوں کی حکومت جو قدم قدم پر بلوچوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہيں ٬ بلوچ نوجوانوں کو گهسيٹ گهسيٹ کر اذيت خانوں ميں لے جانا ٬ جن کی واپسی کی کوئی اميد نہ ہو ٬ يہ تمام عناصر ايک حساس بلوچ نوجوان کو شعور دينے کے لئے کافی ہيں ٬ان حالات ميں وہ قومی بوجھ کو اپنے کاندهوں پر اڻهانے کی تہی کر ليتاہے جسے اپنے ہونے کا شعور ہوتاہو۔ شہيد مجيد اول جس نے باشعور ہو کر 1973 کے مزاحمت کو وہ عزت بخشی کہ رہتی دنيا تک اس کی قربانی ياد رہے گی۔ تعليم يافتہ نوجوان ٬ پولی ڻيکنيک کالج ميں علم حاصل کرنے والا نوجوان جس نے اپنے قوم کی آزادی کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرديا ۔نہ پر آسائش زندگی کی خواہش اور نہ تعليم کے بعد نوکری کے پيچهے بهاگتے رہنا اور نہ ہی مال و زر اور گهر بار کی خواہش شہيد کی راہ ميں رکاوٹ بنے ٬ بلکہ صرف آزادی کی تمنا نے اس نوجوان کو وہ مقام عطا کی جو بلوچ تاريخ ميں ايک روشن باب کی حيثيت رکهتاہے۔
مجيداول نے سب کو ڻهکرا کر بلوچ وطن کو آزاد کرنے کی خاطر موت کو گلے لگايا اور امر ہوگئے۔
1960 ء کے عشرے ميں اسی گهرانے ميں امير بخش بلوچ نے آنکھ کهولی ٬اسی ماحول ميں پرورش پائی ٬ بلوچيت کا درس بچپن ہی سے ملتارہا ٬ غلامی سے نفرت ٬ ظلم ٬ استحصال ٬ ناانصافيوں کے خلاف علم بلند کرنے کی تربيت ٬ آزادی کا درس ٬ شعور و آگہی کا درس اور سب سے خوبصورت اپنی قوم سے جنون کی حد تک محبت کا درس ٬ يہی تو سماجی علم ہے جس سے ہم سب سبق حاصل کرتے ہيں کيونکہ ايک خاندان يا گهرانہ سماج کا اکائی ہوتاہے ٬ اسی سے سيکهنا يہی تو ابتدائی نصاب ہے ٬جس سے ہم صديوں بهرے تاريخ کا علم حاصل کرتے ہيں ٬اپنی تہذيب ٬ ثقافت ٬زبان و ادب کا اور اپنی روايات کا علم ہميں ہمارے ماحول يا پهر سماج سے ملتاہے۔اسے ماہر سماجيات
سماجی شعور کا نام ديتے ہيں ۔ديگر جوتعليمی اداروں سے تعليم حاصل کی جاتی ہے اسے اضافی شعور کا نام ديا جاتاہے کسی ادارے کو چلانے کے لئے يا رياستی معاملات کو يا کسی تنظيم يا پارڻی کو چلانے کے لئے مطلوبہ تربيت يا علم وغيرہ اضافی شعور کہلاتاہے جو کہ ہمارے سياسی نظام ميں فی الوقت ناپيد ہے۔ تربيت ٬ منصوبہ بندی ٬
حکمت عملی بهی انہی علوم کا حصہ ہيں ٬ مگر يہ چيزيں ہميں چهو کر نہيں گزرتے۔حالانکہ يہ ايسی چيزيں ہيں جنکے بغير ايک گهرانے نہيں چل سکتا اور ہم بلوچ مملکت کو چلانے کا سوچ رہے ہيں مگر امير بخش بلوچ جو بلوچ مسلح جدوجہد کے طريقہ کار پر زيادہ زور ديتے تهے تاکہ مدمقابل کو طاقت کے ذريعے زير کيا جاسکے۔مسلح جدوجہد بهی تو سياست کا ايک حصہ تصور کياجاتاہے۔يا ايک سياسی نظام جس ميں تربيت ٬ منصوبہ بندی ٬ حکمتعملی ٬ عوام ميں سرايت کرنے کا طريقہ ٬ عوامی نظريات کو جسے عوام يا قوم فارغ اوقات ميں بيڻھ کر بحث کررہے ھوتے ہيں انہيں اپنے حق ميں جوڑنے کا طريقہ کار اور قوم يا عوام کی رائے کو سياسی و قومی مقاصد کے لئے
قومی حقوق کے حصول کے طريقہ کار کی جانب موڑنے کا ہنر ہی ايک مسلح جدوجہد کرنے والے کو ديگر سياسی پارڻيوں اور تنظيموں کے قيادت يا کارکن کے مقابلے ميں امتيازی حيثيت دلواتاہے ۔امير بخش بلوچ (سگار بلوچ) کی حيثيت اسی وجہ سے اہميت کا حامل تها کہ اس نے اپنی کوششوں سے تاريخ کو ايک نيا موڑ ديا بلوچ قومی آزادی
کی خاطر اپنے شب و روز ايک کرکے وکالت کرنے کے باوجود وہ مسلح جدوجہد پر ہی زور ديتے تهے ۔اعلیٰ تعليم نے ان کے کام ميں مزيد نکهار پيد اکرديا ٬وہ بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ماہرتهے۔ اسی بناء پر انہوں نے قومی آزادی کے لئے وہ کارنامے انجام ديئے جسے لوگ کئی عشروں تک نہ کر سکے وہ تنظيم ٬ تربيت ٬ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو بہت خوب انداز ميں سمجهتے تهے۔
ابتدائی دنوں ميں سردارخير بخش مری کے ساتھ نشستوں ميں وہ بغور سنتے اور بہت بہتر انداز ميں سوال کرتے تاکہ سيکهنے سکهانے کا عمل جاری رہے ٬سيکهنے سکهانے کا عمل ہی تو سياست اور عسکريت دونوں کو پروان چڑهاتاہے اگر مثبت سوچ اور فکر کو نظرياتی سانچوں ميں ڈالا جائے تو سياست ہو يا عسکريت آگے کی طرف بڑهتے ہيں اور مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہوجاتاہے۔ امير بخش بلوچ (سگار بلوچ) اس تمام عرصے ميں سيکهتے ہی رہے اور سکهاتے بهی ٬ سياسی حالات ہوں يا بدلتے واقعات ان سے بہت کچھ سيکها جاسکتاہے اور اگر اسے کوئی دوسروں تک ايمانداری کے ساتھ منتقل کرتاہے تو نتائج تحريک ٬ معاشرہ اور قوم کے حق ميں نہايت مفيد ثابت ہوسکتے ہيں۔
اور بلوچستان سرفہرست ہيں جو اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہيں اگر آزادی گهر بيڻهے مل جاتی تو تاريخ ميں شايد جنگوں کا کوئی ذکر ہی نہيں ہوتا بلکہ ظلم واستحصال يا حق و باطل کا کوئی تصور ہی نہيں ہوتا۔جنگوں کی تاريخ کو اگر ديکها جائے تو يہ کسی شوق يا عياشيوں کے لئے نہيں لڑی جاتی بلکہ فطرت کی طرف سے ہر انسان ميں مزاحمت کا عنصر موجود ہے بلکہ چهوڻے سے جانور چيونڻی تک کو اگر ذرا بهی تکليف پہنچے تو وہ بهی کاڻنے پر آجاتاہے تو پهر انسان تو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے جسے باطل ٬ ظلم ٬ استحصال اور ناانصافيوں کے خلاف اس کا ضمير لڑنے ٬ مرنے يا مارنے پر اکساتاہے۔يہ فطرت کی طرف سے عطاکردہ صفات ہوتی ہيں۔
جن لوگوں کو ظلم ٬ ناانصافی و استحصال پر تکليف نہ پہنچے اور وہ اسے ذہنی طورپر قبول کرليں تو انہيں شک کی نظر سے ديکهنا چاہيے کيونکہ وہ انسان ہو ہی نہيں سکتے ۔اگر وہ بظاہر نظر بهی آتے ہوں تو وہ مريض ہوں گے کيونکہ ذہنی طورپر ايک صحت مند انساں نہ تو غلامی برداشت کرسکتاہے اور نہ ہی ظلم ٬ ناانصافی و استحصال ٬ خواہ وہ دنيا کے کسی بهی کونے ميں ہو رہا ہو ٬اگر يہ ظلم ٬ ناانصافی ٬ جبر اور استحصال ہمارے اپنے ساتھ يا ہماری قوم کے ساتھ ہو رہا ہو تو اس کے خلاف مرنے اور مارنے کے لئے مذہب ٬ اخلاقيات اور قومی تاريخ ہميں يہ اجازت ديتی ہے کہ ہم خود کو غلامی سے نجات دينے کی خاطر اپنی قوم کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے لئے آگے بڑهيں اور صرف شہيدوں کے
متعين کردہ راستے کا انتخاب کريں جس طرح شہيد مجيد اول بلوچ قومی آزادی کی خاطر آگے بڑهے ٬ وہ پڑهے لکهے اور باشعور نوجوان تهے ايک متوسط گهرانے ميں ابتدائی تربيت لی اپنے آباؤاجداد کی خوبصورت تاريخی سرزمين کے مالک تهے ليکن اسکی آزادی چهين لی گئی تهی آزادی کا حصول جيسے نظريات بلوچ گهرانوں ميں زير بحث رہتے ہيں ٬غلامی کی زندگی اور پهر باہر سے آئے ہوئے دراندازوں کی حکومت جو قدم قدم پر بلوچوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہيں ٬ بلوچ نوجوانوں کو گهسيٹ گهسيٹ کر اذيت خانوں ميں لے جانا ٬ جن کی واپسی کی کوئی اميد نہ ہو ٬ يہ تمام عناصر ايک حساس بلوچ نوجوان کو شعور دينے کے لئے کافی ہيں ٬ان حالات ميں وہ قومی بوجھ کو اپنے کاندهوں پر اڻهانے کی تہی کر ليتاہے جسے اپنے ہونے کا شعور ہوتاہو۔ شہيد مجيد اول جس نے باشعور ہو کر 1973 کے مزاحمت کو وہ عزت بخشی کہ رہتی دنيا تک اس کی قربانی ياد رہے گی۔ تعليم يافتہ نوجوان ٬ پولی ڻيکنيک کالج ميں علم حاصل کرنے والا نوجوان جس نے اپنے قوم کی آزادی کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرديا ۔نہ پر آسائش زندگی کی خواہش اور نہ تعليم کے بعد نوکری کے پيچهے بهاگتے رہنا اور نہ ہی مال و زر اور گهر بار کی خواہش شہيد کی راہ ميں رکاوٹ بنے ٬ بلکہ صرف آزادی کی تمنا نے اس نوجوان کو وہ مقام عطا کی جو بلوچ تاريخ ميں ايک روشن باب کی حيثيت رکهتاہے۔
مجيداول نے سب کو ڻهکرا کر بلوچ وطن کو آزاد کرنے کی خاطر موت کو گلے لگايا اور امر ہوگئے۔
1960 ء کے عشرے ميں اسی گهرانے ميں امير بخش بلوچ نے آنکھ کهولی ٬اسی ماحول ميں پرورش پائی ٬ بلوچيت کا درس بچپن ہی سے ملتارہا ٬ غلامی سے نفرت ٬ ظلم ٬ استحصال ٬ ناانصافيوں کے خلاف علم بلند کرنے کی تربيت ٬ آزادی کا درس ٬ شعور و آگہی کا درس اور سب سے خوبصورت اپنی قوم سے جنون کی حد تک محبت کا درس ٬ يہی تو سماجی علم ہے جس سے ہم سب سبق حاصل کرتے ہيں کيونکہ ايک خاندان يا گهرانہ سماج کا اکائی ہوتاہے ٬ اسی سے سيکهنا يہی تو ابتدائی نصاب ہے ٬جس سے ہم صديوں بهرے تاريخ کا علم حاصل کرتے ہيں ٬اپنی تہذيب ٬ ثقافت ٬زبان و ادب کا اور اپنی روايات کا علم ہميں ہمارے ماحول يا پهر سماج سے ملتاہے۔اسے ماہر سماجيات
سماجی شعور کا نام ديتے ہيں ۔ديگر جوتعليمی اداروں سے تعليم حاصل کی جاتی ہے اسے اضافی شعور کا نام ديا جاتاہے کسی ادارے کو چلانے کے لئے يا رياستی معاملات کو يا کسی تنظيم يا پارڻی کو چلانے کے لئے مطلوبہ تربيت يا علم وغيرہ اضافی شعور کہلاتاہے جو کہ ہمارے سياسی نظام ميں فی الوقت ناپيد ہے۔ تربيت ٬ منصوبہ بندی ٬
حکمت عملی بهی انہی علوم کا حصہ ہيں ٬ مگر يہ چيزيں ہميں چهو کر نہيں گزرتے۔حالانکہ يہ ايسی چيزيں ہيں جنکے بغير ايک گهرانے نہيں چل سکتا اور ہم بلوچ مملکت کو چلانے کا سوچ رہے ہيں مگر امير بخش بلوچ جو بلوچ مسلح جدوجہد کے طريقہ کار پر زيادہ زور ديتے تهے تاکہ مدمقابل کو طاقت کے ذريعے زير کيا جاسکے۔مسلح جدوجہد بهی تو سياست کا ايک حصہ تصور کياجاتاہے۔يا ايک سياسی نظام جس ميں تربيت ٬ منصوبہ بندی ٬ حکمتعملی ٬ عوام ميں سرايت کرنے کا طريقہ ٬ عوامی نظريات کو جسے عوام يا قوم فارغ اوقات ميں بيڻھ کر بحث کررہے ھوتے ہيں انہيں اپنے حق ميں جوڑنے کا طريقہ کار اور قوم يا عوام کی رائے کو سياسی و قومی مقاصد کے لئے
قومی حقوق کے حصول کے طريقہ کار کی جانب موڑنے کا ہنر ہی ايک مسلح جدوجہد کرنے والے کو ديگر سياسی پارڻيوں اور تنظيموں کے قيادت يا کارکن کے مقابلے ميں امتيازی حيثيت دلواتاہے ۔امير بخش بلوچ (سگار بلوچ) کی حيثيت اسی وجہ سے اہميت کا حامل تها کہ اس نے اپنی کوششوں سے تاريخ کو ايک نيا موڑ ديا بلوچ قومی آزادی
کی خاطر اپنے شب و روز ايک کرکے وکالت کرنے کے باوجود وہ مسلح جدوجہد پر ہی زور ديتے تهے ۔اعلیٰ تعليم نے ان کے کام ميں مزيد نکهار پيد اکرديا ٬وہ بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ماہرتهے۔ اسی بناء پر انہوں نے قومی آزادی کے لئے وہ کارنامے انجام ديئے جسے لوگ کئی عشروں تک نہ کر سکے وہ تنظيم ٬ تربيت ٬ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو بہت خوب انداز ميں سمجهتے تهے۔
ابتدائی دنوں ميں سردارخير بخش مری کے ساتھ نشستوں ميں وہ بغور سنتے اور بہت بہتر انداز ميں سوال کرتے تاکہ سيکهنے سکهانے کا عمل جاری رہے ٬سيکهنے سکهانے کا عمل ہی تو سياست اور عسکريت دونوں کو پروان چڑهاتاہے اگر مثبت سوچ اور فکر کو نظرياتی سانچوں ميں ڈالا جائے تو سياست ہو يا عسکريت آگے کی طرف بڑهتے ہيں اور مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہوجاتاہے۔ امير بخش بلوچ (سگار بلوچ) اس تمام عرصے ميں سيکهتے ہی رہے اور سکهاتے بهی ٬ سياسی حالات ہوں يا بدلتے واقعات ان سے بہت کچھ سيکها جاسکتاہے اور اگر اسے کوئی دوسروں تک ايمانداری کے ساتھ منتقل کرتاہے تو نتائج تحريک ٬ معاشرہ اور قوم کے حق ميں نہايت مفيد ثابت ہوسکتے ہيں۔
اگر سيکهنے سکهانے کا عمل رک جائے تو بلوچ قومی آزادی کی تحريک پاکستان کے تعليمی نظام کی طرح ہوجائيگا جس کا تجربہ ہميں گذشتہ 62 سالوں سے ہے کہ ڈگری يافتہ تو ہزاروں مليں گے مگر با علم يا عالم ناپيد ٬ ہم اگر اپنے بلوچ معاشرے پر نظر ڈاليں تو کيا ہمارے سياستدان ٬ معيشت دان ٬ انجينئرز ٬ ڈاکڻرز ٬وکلاء يا سماجيات کے ماہر اپنی ڈگريوں کے معيار پر پورا اترتے ہيں ؟ اس کا جواب يقيناً نفی ميں ہوگا۔ اسی ليے تو تحريک يا انقلاب کو تخليقی عمل کہا گيا ہے کيونکہ قوميں انقلاب کے ذريعے تشکيل پاتی ہيں ٬ ان ميں سيکهنے کا عمل جب تک جاری رہتاہے وہ تخليق کے مراحل بهی بخوبی گزار ليتے ہيں۔اور قديم سے جديد کی طرف سفر کرکے مثبت صورتحال اختيار کرتے ہيں۔ امير بخش بلوچ جيسے استادوں کی کمی ہميشہ محسوس رہے گی کيونکہ ان جيسے
دوستوں کا خلاء پر کرنا شايد ممکن نہيں جنہوں نے اپنے تجربات ٬ اپنا وقت ٬علم اور صلاحيتيں قومی آزادی کی تحريک کے لئے وقف کررکهی تهيں۔ اور يوں ايک تجربہ کار کمانڈر ٬ ايک مخلص کارکن ٬ ايک وطن دوست اور باصلاحيت انسان سے بلوچ قوم 27 جنوری 2010 ء کو محروم ہوگئی۔ مگر ان کی صلاحيتيں تخليق کی صورت ميں ٬تجربات عمل کی صورت ميں ٬ کارنامے ادا کردہ فرائض کی صورت ميں وطن دوستی اور قوم دوستی نظريے کیصورت ميں موجود ہيں اور ہميشہ رہيں گے ۔ہم اگر قومی تحريک آزادی کی طرف ايک قدم بهی بڑهائينگے تو يہ تمام چيزيں ہميں سيهکنے کو مليں گے اور ہم شہداء کے وارث بن کر ان کی امانتوں کے محافظ ہونگے۔
اسی خاندان ميں سب سے کم عمر مجيد ثانی کا نام آتاہے جس نے اپنے خاندان کی روايات کو جاری رکهنے کا عزم کر رکها تها ٬ اور قومی آزادی کے فکر اور نظريے کا درس انہيں بچپن ہی سے ملا ہوتو وہ کيونکر اسے بهول سکتاہے۔ وہ سبق تو اسے بچپن سے ہی ازبر تها ٬ مگر وہ ابهی تک نوخيز تها ٬ نوجوان تها ٬خوبرہ تها ٬ ليکن ان تمام
کے باوجود وہ ايک انقلابی ٬ ايک سرمچار اور مرد مجاہد تها جس نے اپنی خواہشات کو پيروں تلے روند کر فکر مجيد ٬ فکر امير بخش اور ہزاروں بلوچ شہيدوں کے راستے کا چناؤ کيا اور اسی راہ پر چل پڑا ٬ تاکہ بلوچ قوم کو ايک آزاد وطن دلاسکے اور شہداء کے خوابوں کی تعبير بن سکے۔ اسی بناء پر اس نے مسلح جدوجہد کو ترجيح دی کسی اور پليٹ فارم کے بارے ميں سوچا تک نہيں بلکہ ايک ہی خواہش اپنے دل ميں رکهی کہ اسے ايک خوبصورت وطن حاصل ہو جہاں وہ آزاد ہو يا پهر ايک حسين موت کی تمنا ٬ پختہ فيصلوں سے نوجوان اپنی قوموں کی تقدير بدلنے ميں کامياب رہتے ہيں اور صديوں تک تاريخ ان پر نازاں رہتی ہے۔
مارچ کا مہينہ يوں تو بلوچ قوم کے لئے گذشتہ 63 سالوں سے نحوست لے کر آيا ہے مگر اس عشرے ميں يعنی 2000 ء سے لے کر ہنوز قوم کو کبهی بهی کوئی اچهی خبر سننے کو نہيں ملی ٬ مگر جو سب سے اچهی خبر ہے وہ قومی آزادی کی جنگ ہے جو آج بهی زور و شور سے جاری ہے اور پچهلے دس سالوں سے بلوچ مسلسل اور انتهک جدوجہد سے اس مسلح جدوجہد کو جاری رکهے ہوئے ہيں۔ بلوچ مسلح جدوجہد يا بلوچ مزاحمت کی تاريخ ميں ہميں يہ مثال نہيں ملتی کہ بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ يوں تسلسل سے جاری رہی ہو ٬ آج پوری قوم کا اس مسلح جنگ ميں شامل ہونا ايک بہت بڑی کاميابی ہے۔ بلوچوں کی يہ جنگ گوريلا جنگوں کے باب ميں ايک روشن اضافہ ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ايک قابل فخر تاريخ ضرور چهوڑے گی جسے بلوچ قوم سے موجودہ نسل نے اپنے خون سے سينچا ہے۔
مجيد ثانی نے سوچ سمجھ کر اور شعوری انداز سے اپنی جان کی قربانی پيش کی اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر وہ تاريخ رقم کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ مرد مجاہد ہی تو موت کی جانب بڑهتے ہيں ٬ موت سے منہ نہيں موڑتے بلکہ اپنی مردانگی اور شعور کا ثبوت دينے کے لئے ميدان جنگ ميں مقابلہ کرکے دشمن کو شکست ديتے ہيں ان کی مردانگی اور شعور و سنجيدگی پرفخر کيا جاسکتاہے۔
مجيد ثانی کی قربانی ہمارے ليے روشن راہ ہے اور ان کی شہادت کا دن 17 مارچ 2010 ء بلوچ تاريخ ميں ہميشہ ياد رکها جائے گا اور شہيد کے بدلے کی چنگاری بلوچ قوم کے نوجوانوں کے خون کو گرماتی رہے گی ٬يہ ہماری تاريخ ہے اور اسے ہمارے خون سے کوئی نہيں نکال سکتا۔
دوستوں کا خلاء پر کرنا شايد ممکن نہيں جنہوں نے اپنے تجربات ٬ اپنا وقت ٬علم اور صلاحيتيں قومی آزادی کی تحريک کے لئے وقف کررکهی تهيں۔ اور يوں ايک تجربہ کار کمانڈر ٬ ايک مخلص کارکن ٬ ايک وطن دوست اور باصلاحيت انسان سے بلوچ قوم 27 جنوری 2010 ء کو محروم ہوگئی۔ مگر ان کی صلاحيتيں تخليق کی صورت ميں ٬تجربات عمل کی صورت ميں ٬ کارنامے ادا کردہ فرائض کی صورت ميں وطن دوستی اور قوم دوستی نظريے کیصورت ميں موجود ہيں اور ہميشہ رہيں گے ۔ہم اگر قومی تحريک آزادی کی طرف ايک قدم بهی بڑهائينگے تو يہ تمام چيزيں ہميں سيهکنے کو مليں گے اور ہم شہداء کے وارث بن کر ان کی امانتوں کے محافظ ہونگے۔
اسی خاندان ميں سب سے کم عمر مجيد ثانی کا نام آتاہے جس نے اپنے خاندان کی روايات کو جاری رکهنے کا عزم کر رکها تها ٬ اور قومی آزادی کے فکر اور نظريے کا درس انہيں بچپن ہی سے ملا ہوتو وہ کيونکر اسے بهول سکتاہے۔ وہ سبق تو اسے بچپن سے ہی ازبر تها ٬ مگر وہ ابهی تک نوخيز تها ٬ نوجوان تها ٬خوبرہ تها ٬ ليکن ان تمام
کے باوجود وہ ايک انقلابی ٬ ايک سرمچار اور مرد مجاہد تها جس نے اپنی خواہشات کو پيروں تلے روند کر فکر مجيد ٬ فکر امير بخش اور ہزاروں بلوچ شہيدوں کے راستے کا چناؤ کيا اور اسی راہ پر چل پڑا ٬ تاکہ بلوچ قوم کو ايک آزاد وطن دلاسکے اور شہداء کے خوابوں کی تعبير بن سکے۔ اسی بناء پر اس نے مسلح جدوجہد کو ترجيح دی کسی اور پليٹ فارم کے بارے ميں سوچا تک نہيں بلکہ ايک ہی خواہش اپنے دل ميں رکهی کہ اسے ايک خوبصورت وطن حاصل ہو جہاں وہ آزاد ہو يا پهر ايک حسين موت کی تمنا ٬ پختہ فيصلوں سے نوجوان اپنی قوموں کی تقدير بدلنے ميں کامياب رہتے ہيں اور صديوں تک تاريخ ان پر نازاں رہتی ہے۔
مارچ کا مہينہ يوں تو بلوچ قوم کے لئے گذشتہ 63 سالوں سے نحوست لے کر آيا ہے مگر اس عشرے ميں يعنی 2000 ء سے لے کر ہنوز قوم کو کبهی بهی کوئی اچهی خبر سننے کو نہيں ملی ٬ مگر جو سب سے اچهی خبر ہے وہ قومی آزادی کی جنگ ہے جو آج بهی زور و شور سے جاری ہے اور پچهلے دس سالوں سے بلوچ مسلسل اور انتهک جدوجہد سے اس مسلح جدوجہد کو جاری رکهے ہوئے ہيں۔ بلوچ مسلح جدوجہد يا بلوچ مزاحمت کی تاريخ ميں ہميں يہ مثال نہيں ملتی کہ بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ يوں تسلسل سے جاری رہی ہو ٬ آج پوری قوم کا اس مسلح جنگ ميں شامل ہونا ايک بہت بڑی کاميابی ہے۔ بلوچوں کی يہ جنگ گوريلا جنگوں کے باب ميں ايک روشن اضافہ ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ايک قابل فخر تاريخ ضرور چهوڑے گی جسے بلوچ قوم سے موجودہ نسل نے اپنے خون سے سينچا ہے۔
مجيد ثانی نے سوچ سمجھ کر اور شعوری انداز سے اپنی جان کی قربانی پيش کی اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر وہ تاريخ رقم کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ مرد مجاہد ہی تو موت کی جانب بڑهتے ہيں ٬ موت سے منہ نہيں موڑتے بلکہ اپنی مردانگی اور شعور کا ثبوت دينے کے لئے ميدان جنگ ميں مقابلہ کرکے دشمن کو شکست ديتے ہيں ان کی مردانگی اور شعور و سنجيدگی پرفخر کيا جاسکتاہے۔
مجيد ثانی کی قربانی ہمارے ليے روشن راہ ہے اور ان کی شہادت کا دن 17 مارچ 2010 ء بلوچ تاريخ ميں ہميشہ ياد رکها جائے گا اور شہيد کے بدلے کی چنگاری بلوچ قوم کے نوجوانوں کے خون کو گرماتی رہے گی ٬يہ ہماری تاريخ ہے اور اسے ہمارے خون سے کوئی نہيں نکال سکتا۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий