بابو نوروز .... بیوروچیف سنگر
بلوچ آزادی پسند قومی رہنما میر عبدالنبی بنگلزئی سے ادارہ ’’سنگر میڈیا گروپ‘‘ نے ایک نامعلوم مقام پر ایک خصوصی انٹرویو لیا تھا۔جس کی آڈیو بھی جلد نشر کی جائے گی،یہ انٹرویو اپنے اندر ایک مکمل و خصوصی حیثیت رکھتی ہے اور میر صاحب کے اب تک کی سب سے اہم اورنایاب ترین انٹرویومیں شمار ہوتا ہے جس میں بلوچ تحریک کے مختلف جہتوں کا تفصیلی و جامع اور حقیقیگوشے شامل ہیں۔ کافی عرصے سے کئی ای میل و دیگر ذرائع سے بلوچ قوم کی خواہش رہی کہ میر صاحب کا انٹرویو کیا جائے جس پر آج ہم کامیاب ہوئے ہیں۔ہم جناب میر عبدالنبی بنگلزئی صاحب کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس جنگی حالات میں جوبلوچستان کا ہر حصہ فوجی آپریشن کی زد میں ہے اوربلوچ عسکری قیادت بشمول تنظیمیں جو دشمن سے دو بدو صف آراء ہیں اوراپنی حکمت عملی کے تحت اپنا لوکیشن بھی بدلتے رہتے ہیں اس پر آشوب لمحے میں اپناقیمتی وقت نکال کر انٹرویو دینا یقینایہ سنگر کیلئے باعث شرف ہے۔ادارہ
سنگر :میر صاحب آپ کی جہد کا آغاز کب اور کیسے شروع ہوا؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:یہ میرے طالب علمی کے دور سے جب میں کالج میں داخل ہوا،تومیرا سیاست میں دخل ہوا۔1967 میں میں کالج میں داخل تھا بی ایس او نیا نیا بنا تھا۔بی ایس او کا مستونگ میں زونل سیکریٹری بنا،پھر اسی دوران، پاکستان میں ون یونٹ کے خلاف ایک تحریک اُٹھی۔صوبائی خود مختاری کے لیے، بی ایس او بھی اس کا حصہ تھا،وہیں سے میری شمولیت اورحصہ داری ہے۔یہ سلسلہ وہیں سے شروع ہے، آخر آ کر اِس وقت تک وہی سلسلہ ہے۔ پھر مختلف مراحل آئے جیسے کہ سب کو معلوم ہے،ون یونٹ توڑ دیا گیا ،صوبے بنے،،انتخابات ہوئے،پاکستان میں ،عوامی لیگ نے بنگلہ دیش میں کامیابی حاصل کی، بلوچستان اور صوبہ سرحد، موجودہ پختون خواہ میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی،آخر پاکستان ٹوٹا بنگلہ دیش آزاد ہو گیا،یہاں صوبائی حکومتیں بنیں،صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اورجمعیت علماء اسلام مفتی محمود انکی مخلوط سرکار بنی،یہاں نیشنل عوامی پارٹی کی متحدہ حکومت بنی،جمعیت علما اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی۔73 میں حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا جب سردار عطااللہ وزیر اعلیٰ تھا،لیڈر شپ گرفتار ہوا،صوبہ سرحد کے حکومت نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دیا، اب یہاں پر پاکستانی حکمرانوں نے فوج کشی شروع کی۔ یہاں جنگی حالت پیدا ہوگئے۔ میں لاہور میں انجینئر نگ یونیورسٹی میں طالب علم تھا،ہم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے،میں بھی اسی جہد میں شامل ہو گیا،مختصرا یہی ہے جو آج تک ہے۔
سنگر :آپ کی سیاست جو بی ایس او سے شروع ہوئی تھی اور وہاں آپ کی صلاحیتوں سے آپ کو بہت بڑا مقام ملا تھا ۔ صرف بی ایس او میں نہیں بلکہ پوری قوم نے آپ کی خدمات اور ایمانداری کو سراہا ۔ وجہ کیا تھی کہ بی ایس او سے فراغت کے بعد اس وقت کے سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونے یا نئی سرفیس پارٹی بنانے کے بجائے مسلح جدو جہد میں شامل ہوگئے؟ آپ کو پاکستان کی غلامی کے سائے میں سرفیس سیاست اور مسلح جدو جہددونوں میں دہائیوں کا تجربہ ہے۔ کون سا راستہ بلوچ کیلئے پاکستان کے خلاف فائدہ مند ہے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:مختصر جواب دینا پڑے تو بہتر ہے ....ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے ،کوئی اپنی خوشی سے غلام نہیں بنتا ،زوراک ، طاقتور کمزوروں کو اپناغلام بناتے ہیں ،اور غلامی سے چھٹکارے کیلئے ظاہر ہے اپنی طاقت برابر......جب تک برابر طاقت نہیں ہوگا تو وہ آزاد نہیں ہوسکتا۔ہم نے یہی سمجھا سرفیس سیاست یا سرفیس پارٹی میں شمولیت ،یہاں اس کا امکان ہم نے سمجھا کہ نہیں ہے،.ویسے اس سے انکار نہیں ،وہ بھی ایک ذریعہ ہوسکتا ہے ..مگر ہمارے حالات..ہمارا سماج اور جو معروضی حالات یہاں کے ہیں ،یہاں وہ میل نہیں کھاتے ہیں ،ہماری آبادی ،ہمارا علاقہ ،ہمارے لوگ تو یہ سب چیزوں کو دیکھیں ، یہی ایک طریقہ جو ہمارے روایت ہمارے پاس نہ کوئی بڑے شہر ہیں ،ہم دیہاتی لوگ ہیں ،ہمارے لوگ ابھی تک خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں ،تو یہاں جلسہ ،جلوس یہ چیزیں .....لوگ بھی ان کو نہیں جانتے یہ طریقہ یہاں کامیاب نہیں ہے، اس لئے ہم نے عہدکیامسلح جدو جہد کیلئے .....اور یہی سمجھے کہ یہی ایک طریقہ ہے .....ظاہر ہے فوجوں کے سامنے ہاتھ باندھنے سے آزادی نہیں ملے گی ،جب تک اسی طرح کا جواب نہ دیا جائے ،اسی لئے مسلح جدوجہد میں میری شمولیت ہے ،وہ عہد کیا میں نے اس کیلئے ،مختصر اً میں یہی کہہ سکتا ہوں ۔
سنگر :مجبوریاں کیا تھیں جوآ پ کو افغانستان میں جلاو طنی اختیار کرنا پڑا، اس ہجرت کے اہم مقاصد کیا حاصل ہوئے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:جہاں تک مجبوریوں کی بات ہے ۔مجبوری تو یقیناجو یہاں کے حالات تھے۔اور یہ کہ میں نے کوئی ہجرت کی،میں یہیں پر رہا ہوں۔اور اپنے علاقے میں رہا ہوں ۔افغانستان اگر میں کھبی گیا ہوں تو اپنے دوستوں کے بلاوے پر یا کسی خاص مقصد کیلئے ، کچھ وقت کے لئے ،میں وہاں پر کسی ہجرت کیلئے نہیں گیا ۔اگر ہمارے لوگ گئے ہیں یقیناًیہاں کے جو حالات ہیں انہی کی وجہ سے ۔یہاں پرجو ظلم و جبر تھااس سے بچنے کیلئے کچھ لوگوں نے ہجرت کی ہے اور افغانستان چلے گئے ۔جہاں تک میرا سوال ہے میں نے کوئی ہجرت نہیں کی تھی۔افغانستان میں کبھی گیا ہوں اپنے تنظیم یا دوستوں کے بلاوے پر کام کے حوالے سے گیا ہوں اور واپس آیا ہوں۔یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ہجرت کی وہاں گیا ہوں رہائش کیلئے ، نہیں۔
سنگر :افغانستان سے مقبوضہ بلوچستان واپسی کیسے ہوئی؟ کیاقابض سرکار کا نرم گوشہ تھا، حالات نارمل ہوگئے تھے یا کوئی اور حکمت عملی تھی؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:افغانستان سے واپسی ،ان دنوں میں بھی گیا ہوا تھا وہاں پر ،دوستوں کے بلاوے پر ،واپسی ہوئی وہاں کے حالات ،افغانستان میں جو تبدیلی ہوئی ،وہاں کی جو حکومت تھی ،وہ حکومت قریباً ختم ہوگئی۔،ایسے لوگ آئے جو ہمارے ساتھ ان کاکوئی ہمدردی نہیں تھاوہ پاکستان کے دوست تھے ۔اب ہمارے لوگوں کاوہاں رہنا بہت مشکل ہوگیا،تو ظاہر ہے ایسے حالات میں کوئی اور آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ لوگ واپس آئیں۔اور نرم گوشہ...... یقیناًیہاں بلوچ کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں تھا اور کھبی انہوں نے یہ ظاہر کیا ہوگا تو اپنی حکمت عملی کے تحت،ورنہ کوئی نرم گوشہ نہیں تھا ۔ہمارے پاس حکمت عملی ،وہ صرف لوگوں کا اپنے آپ کا..... ہم سمجھتے ہیں کہ حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں تھی اور وہ ابھی تک چل رہی ہے وہی چیز ہے ۔
سنگر :پاکستانی فورسز نے آپ کو اور آپ کے ساتھی عالم پرکانی کوکیوں گرفتار کیا؟ دوران تفتیش سوالات کی نوعیت کیا تھی؟ ریاست کے مطالبات کیا تھے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:یقیناًہماری گرفتاری اس کی وجہ جو تھی ہماری مزاحمت، جو یقیناپاکستانی ریاست کادشمن ہے اسی لئے اس کا گرفتار کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔تو اس نے گرفتار کیا ،حالات بھی کچھ ایسے نہیں تھے ،افغانستان سے واپسی پر یہاں پر الیکشن ہوئے ،ایک دو دفعہ الیکشن ہوئے ، انہوں نے،فوج نے مجھے بلایاکہ ہمارے پاس آئیں حاضری کیلئے ،میں نے انکار کیاکہ مجھے آپ سے کوئی کام نہیں ہے۔ان کو یہ چیز پسند نہیں ،کہ میں ان کا سلامی نہیں ہوتا۔ تو انہوں نے کوئی بہانہ بناکر کسی اغوا کا کیس بنا یا کہ افغانستان میں کوئی کمانڈر تھا جو انکا دوست تھا وہ اغوا ہواتھا،تو اس کی کیس میں انہوں نے مجھے پکڑا تو کوئی ایسا مطالبہ ان کا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں ۔مقصد ان کا صرف یہی تھا مطالبہ ان کا.... باقی فروہی...پھر انہوں نے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کے قتل کا کیس ڈال دیا،راکٹ فائر ڈال دیا،بم دھماکے ،بہت سارے کیسز انہوں نے ہمارے خلاف بنائے محض ہمیں جیل میں رکھنے کیلئے.....نتیجہ جو نکلا کچھ بھی نہیں تھا ،وہ صرف ہمیں یہ سزا دینا چاہتا تھا کہ تم کیوں ہمارے پاس حاضری نہیں دیتے۔باقی ان کے سوالوں کا یقیناایسے حکمران جو نو آباد کار ،نوآبادیاتی قوتیں جو سوال کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ لوگوں کو اپنا مطیع بنائیں ،تو میں اس سے انکاری تھا تو انہوں نے مجھے جیل میں رکھانو آٹھ سال ،.پھر آخر کار انہوں اپنے کچھ کیسز ڈراپ کئے ،پھر جسٹس نوازمری کا کیس تھاوہ انہوں نے ڈراپ کیا...داخل دفتر کیا...پھر ہمیں چھوڑ دیا...کیوں رکھا؟ ...کچھ پتہ نہیں ...جو کچھ اپنے دشمن کے ساتھ کوئی کرتا ہے تو ہمیں وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے....اس سے زیادہ میں نہیں سمجھتا کوئی اورمقصد تھا....
سنگر :میر صاحب !آپ رہائی کے بعدسب سے پہلے نواب خیر بخش مری سے ملنے گئے،کیا اس ملاقات کے بارے میں قوم کو کچھ بتاناپسند کریں گے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:ملاقات ،نواب خیر بخش مری کی ساتھ میری ملاقات جیل کے بعد ایک رسمی چیز تھی ۔وہ میرا رہنما تھا ،کافی عرصہ میں جیل میں رہا اور ہم نہیں مل سکے ۔صرف جیل میں چند ایک پیشیوں پر ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکے ، ورنہ نہیں دیکھ سکے ۔تو یقیناًہم ایک ہی مقصد کے ساتھی تھے تو میں ان سے ملنے کو اپنا سب سے پہلا فرض سمجھتا تھاکیونکہ ہم ایک ہی مقصد کے راہی تھے ۔باقی ایسی کوئی بات نہیں ،قوم واقف ہے کہ جو کچھ نواب صاحب نے کیا یا جو کچھ ہم سے ہورہا ہے وہ سب کو معلوم ہے ،میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا ۔
سنگر :رہائی کے بعد آپ نے مقبوضہ بلوچستان کے تقریباً اکثر علاقوں کا دورہ کیا،جس میں مکران قابل ذکر تھا،اس دورے کا مقصد؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:مقصد کی بات بڑی بات ہے ،اگر اس کو ہم دورہ کہتے ہیں کہ یہ علاقہ وہ علاقہ ہے تو یہ سب بلوچسان ایک ہی ہے ،گھومتے رہے ۔مکران میں تو میں فاتحہ خوانی کے لئے،ہمارے دوست ، ہمارے شریک کارغلام محمد ،لالا منیر ،شیر محمد کی شہادت ہوئی میں کراچی میں تھااپنے علاج کے سلسلے میں ،مجھے جانا پڑا،اس کا کوئی اور مقصد نہیں تھا، یقیناًہم گئے تو دوستوں سے ضرور ملے ۔میں تربت گیا ، تمپ گیا،فاتحہ خوانی کی وہاں ،پھر میں پنجگور چلا گیا لالا منیر کے گھر فاتحہ خوانی کی ،پھر کئی دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہیں اورکچھ دوست جو ظاہر ہے سب جاننے والے دوست تھے میں مختلف علاقوں میں لوگوں سے ملنے کے لئے گیا ہوں،دوستوں نے بلایا بھی ....تو کوئی مقصد....یقیناًجس مقصد کے لئے آج ہماری جہد ہے اس کے لئے یقینا،تاکہ بلوچستان کی آزادی کیلئے جو مقصد ہم لئے ہوئے ہیں وہاں تک آواز پہنچائیں ۔تو یہی مقصد تھا اور کوئی مقصد نہیں تھا،پہلی مقصد تو یہی تھا کہ فاتحہ خوانی کیلئے وہاں حاضری کے لئے میں گیا تھا،اس کے علاوہ کوئی اور ایسی چیز میرے خیال میں نہیں تھا۔
سنگر :رہائی کے بعد آپ سرفیس سیاست میں سرگرم کسی سیاسی پارٹی سے کیوں منسلک نہیں ہوئے کیا وجہ ہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:میں سمجھتا ہوں کہ سر فیس سیاست کی اس ملک میں گنجائش نہیں ہے ، یہ ملک پاکستان خود ایک نوآبادی ہے ،ایک جدید نوآبادی ہے، یہاں تو ظلم وجبر ہے ،یہاں اس کا امکان بہت کم ہے ،یہ کوئی جمہوری ملک نہیں ہے کہ اس میں کوئی سر فیس سیاست ہوسکتی ہے ،تو اس لئے اس میں شامل ہونااپنی صلاحیتوں کو برباد کرنا ،اپنی محنت کو ضائع کرنا ہے ،میں نے یہی سمجھا،ہاں اگرکوئی ایسے امکانات جیسے دنیا میں ہے ،دنیا کے بہت سارے جمہوری ملکوں میں اگر سرفیس سیاست ہے ،لوگ اپنی مطالبات پیش کرسکیں ،یہاں تو بلوچستان کی بات کریں تو دوسرے دن غائب ہیں ،آج یہی دیکھتے ہیں اسی لئے میں سرفیس سیاست میں گیا ہی نہیں ،اور میرا فکر و سوچ اس کو قبول ہی نہیں کرتا۔
سنگر :بی این ایم توڑنے کی کوششیں کی گئیں ،اُس وقت آپ نے عصا ظفر و دیگر سے ملاقاتیں کیں،آپ کوکیا نتائج حاصل ہوئیں ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:عصا ظفر ، چیئر مین خلیل کراچی میں تھے ،بی این ایم میں جو یہ تضادات تھے حادثاتی صورت میں میں بھی وہیں پر تھا تو میں نے کوشش کی کہ یہ مسئلہ پیدا نہ ہو۔جب ہم نے دیکھا کہ جو یہ اختلافات ہیں وہ کوئی خاص نوعیت کے نہیں ہیں فروئی قسم کے ہیں تو اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلااور ہم نے اس کو چھوڑ دیا ۔بلوچ خود فیصلہ کرینگے ،ہم یا کوئی کسی کو مجبور نہیں کرسکتا ،دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔تو کوئی خاص نتیجہ حاصل نہیں ہوااس کا۔پھر پتہ نہیں عصا ظفر کہاں پر گیا ،کیا ہوا۔بی این ایم آج تک دیکھتے ہیں کہ وہ ہے .... شاید عصا ظفر نے بھی محسوس کیا ہوگاکہ ہم اس کو خوامخواہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یہی کہ یہ اسی طرح قائم رہے کہ اس میں کوئی دراڑ نہ ہو ۔تو یہ ہم نے کوشش کی اس کا کیا نتیجہ نکلا،کتنی کامیابی ہوئی ،وہ شاید وقت بتائے گا۔
سنگر :بی ایل اے سے نکل کر ایک نئی مسلح تنظیم یو بی اے کا قیام لانے کی کونسی ضرورت اور مجبوریاں تھیں ؟ اس بارے میںآپ پر الزام ہے کہ یہ قدم بلاضرورت اُٹھایا گیا ہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:مجھ پر اگر کوئی الزام ہے تو میں انکار کرتا ہوں ، کیونکہ نہ میں اس کے قیام میں شریک تھا اور نہ مجھے اس کا پتہ ہے ۔ اگر میری وابستگی کی صورت رہی ہے تو وہ نواب خیر بخش کے ساتھ ،وہ میرا آئیڈیل تھا، جب سے میں سیاست میں آیا ہوں اس وقت سے جو لیڈر شپ تھی بلوچوں کے وہ میرے آئیڈیل تھے ،ہم اس وقت نہ کوئی نظریہ جانتے تھے اورنہ کوئی چیز......یہی کہ وہ بلوچوں کی بات کرتے ہیں،بلوچ قوم کی بات کرتے ہیں ،ہم جذباتی صورت میں انہی کو سب کچھ سمجھتے تھے ،ہمارا نظریہ ،ہمارا سوچ سب کچھ وہی تھے ،وہ شاید آخری وقت تک یہی کچھ رہا ،ورنہ مجھے یو بی اے سے کوئی تعلق نہیں تھا، آج تک نواب صاحب کے فکر وسوچ وہی میرا رہنما ہے ،وہی سب کچھ ہے ،ورنہ مجھ پر جو الزام ہے کہ میں نے یو بی اے بنایا ،یا میں نے بی ایل اے کو توڑا.....نہ میں نے بی ایل اے بنایا اور نہ ہی میں نے یوبی اے بنایا،میرے خیال میں یہ باتیں مجھ سے منسوب کرناشاید درست نہ ہوں، یا صحیح نہیں ...... نواب خیر بخش اگر بی ایل اے تھا تو میں بھی تھا، اگر وہ یو بی اے تھا تو میں بھی یوبی اے ،کیونکہ اسی کی وجہ سے ....اب اس کو شخصیت پرستی کہتے ہیں ،کچھ بھی کہتے ہیں اس کو.....ولایتی اس پر اعتماد تھاوہی جو کچھ تھا.... ورنہ نواب صاحب سے میں ملا،اگر یو بی اے بنا تو اس نے کھبی یہ نہیں کہا کہ کوئی یو بی اے ہم بنا رہے ہیں ،یا کچھ ہے ،آج کل تو سنتے ہیں کہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ نواب صاحب نے یو بی اے بنایا،ہاں کچھ ایسی باتیں تھیں جو نواب صاحب نے ہم سے کیں ،ان کے اور بی ایل اے کے درمیان کچھ اختلافات لیڈر شپ کے حوالے سے تھے جن کا نواب صاحب نے نرمی سے اظہار کیا کہ کچھ باتیں ہیں جو ہمارے درمیان تضاد ہیں کوشش کریں گے ہم انہیں روایتی انداز میں طے کرلیں اگرنہیں ہوئے تو ہم بلوچوں کے سامنے وہ باتیں لائیں گے ،پھر وقت نے ساتھ نہیں دیا ،نواب صاحب بھی چلے گئے ،یہی کچھ تھا،مجھ سے نہ اس کی ضرورت تھی ،ہماری ضرورت تو یہ ہے کہ اپنی آزادی حاصل کریں،متحد ہوجائیں ، اتحاد کریں ،توڑنا تو ہمارے مسئلے کا حل نہیں ،مسئلے کا حل تو ہمارے اتحاد میں ہے ،مجھ پر جو الزام ہے میں اس پر انکاری ہوں ،ہاں آج جو کچھ ہے ہمدردیاں سب کے ساتھ ہیں ۔
سنگر :ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ پر بھی آپ لوگوں کا ساتھ دینے اور یو بی اے کے قیام میں کردار ادا کرنے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ اس میں کتنی صداقت ہے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:ضروری نہیں کہ ہر الزام درست ہو،مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے ،ڈاکٹرصاحب پر اگر الزامات ہیں تو ڈاکٹر صاحب ماشااللہ خود بالغ انسان ہیں جو جواب دے سکتے ہیں،وہ جانتے ہیں مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یو بی اے بنانے میں کوئی کردا ر ہے ،میں نے کھبی نہیں سنا ،یہ باقی،الزام تو الزام ہیں ،لیکن ضروری نہیں کہ وہ درست ہوں ،میں نے نہیں سنا میں اسکی تصدیق نہیں کرسکتا۔
سنگر :بلوچستان بھر میں عوام سے ملنے کے بعد آپ اچانک روپوش ہو گئے اور مزاحمت کا حصہ بن گئے،کیا نواب خیر بخش مری کی طرح آپ بھی صرف مزاحمتی جہد پر یقین رکھتے ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:جی ہاں.....کسی حد تک میں بھی اس پر یقین رکھتا ہوں اور اس کا امکان بھی یہی ہے اس کے علاوہ میں نہیں سمجھتا کوئی اور راستہ ہے یہاں پر،اگر امکان ہوتا تو یقیناًدوسرے راستے بھی وائبل Viableہوتے مگر یہاں پر نہیں ہے ،نواب صاحب بھی مزاحمت پر یقین رکھتے تھے،ان کے انٹرویو ز و لیکچرز میں موجود ہے ،میں بھی سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ،میں روپوش ہوگیا میرے لئے رہنامشکل ہوگیا،جیل سے میں نکلااور میں دیکھ رہا تھا کہ یہاں پر مجھے یہ رہنے نہیں دینگے،اور میں نے مختلف طریقے محسوس کئے کہ ابھی یہ نہیں ہے ،میں نے زندگی اس جہد میں گزاری ہے کہ اسی لئے میرے لئے آرام سے بیٹھنا بھی مشکل تھا،اور چاہے جوبھی حالات ہوں اسی مزاحمت کو آگے لے جانا ہے ۔
سنگر :کئی مزاحمتی تنظیموں کے باوجود یو بی اے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:میں اس کا جوابدہ ہوں، یا صرف معلومات کیلئے مجھ سے یہ سوال کیا جارہا ہے ؟میرے خیال میں تو یقیناًاس سے انکار بھی ممکن نہیں ہے ،بہت ساری تنظیمیں ہیں سب کا فکر ایک ہونا،ایک تنظیم ہونا،فوراً۔۔ میرے خیال میں مشکل کام ہے ،گوکہ ہماری ضرورت یہی ہے کہ ہم متحد ہوجائیں اور اس طرح یہ ضرورت کیا تھی ؟کیوں؟مجھے اس کا علم نہیں ہے ،میں نہیں جانتا.....یقیناًاگر اختلافات ہوں کوئی اپنے ،ہر ایک اپنے بساط کے مطابق، ضرورت تھی یا کیاتھی شاید جنہوں نے بنایا وہ محسوس کرتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے ....
سنگر :کیا اس وقت گراؤنڈپر موجود اور بیرونی ممالک میں سرگرم سیاسی لیڈران سے آپ کے رابطے ہیں؟ اگر ہیں تو کس نوعیت کے؟ خصوصاََ حیربیارمری سے کیونکہ آپ ایک زمانے میں ایک ہی تنظیم سے وابستہ تھے۔
میرعبدالنبی بنگلزئی:ہاں یہ کہ ہم ایک ہی تنظیم سے وابستہ تھے ویسے رسمی چیز نہیں ہے ،اور میرے رابطے ان سے، کوئی باقاعدگی نہیں ہے ،میں نہیں جانتا کوئی کیا کررہا ہے،جو کچھ آتا ہے دیکھتے ہیں میڈیا میں وہی بس ،ورنہ میرے خصوصی رابطے نہیں ہیں کسی کے ساتھ ،اور ہم ایک ہی تنظیم میں تھے ،میں نے پہلے عرض کیاکہ میری وابستگی تھی تو نواب صاحب کی وجہ سے ہے بی ایل اے سے........بی ایل اے کا نہ میں ذمہ دار ہوں اور نہ وہ میرا ذمہ لیتے ہیں ،وہ صرف نواب صاحب اگر بی ایل اے تھے تو مجھے بھی لوگ بی ایل اے شمار کرتے تھے بی ایل اے میں...... اگر وہ کسی اور تنظیم میں جوہیں غیر رسمی، کھبی تنظیمیں ہیں جن کا کوئی نام بھی نہیں جانتا ہو، تو اس قسم کی چیزیں کہ میرے رابطے ہیں،میں یہی کہوں گا کہ میرا کوئی رابطہ نہیں ہے ، کوئی ان میں باقاعدگی نہیں ہے۔
سنگر :کیا بلوچ مزاحمتی تنظیموں میں آپسی ہم آہنگی موجود ہے ؟ یہ تنظیمیں ایک مشترکہ کونسل بنانے میں کیوں ناکام ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:سوال میں جواب ہے ،یقیناناکامی تو وجہ ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم آہنگی نہیں ہے .....اگر ہم آہنگی ہوتی تو مشترکہ کونسل بھی ہوسکتاتھا،.تو یہ خود سوال میں ہی اس کا جواب ہے ،باقی میں اس کے بارے میں کیا کہوں،.میرے خیال میں بہت مشکل ہے.....
سنگر :کیا آپ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے کردار سے مطمئن ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:اطمینان مرگ کے علاوہ کوئی نہیں ہے ،زندگی میں تو اطمینان نہیں ہوسکتی ،باقی جو کچھ کر رہے ہیں اس کا اطمینان بھی ہے ،مگر کافی نہیں ہے ،جو کچھ کر رہے ہیں وہ بہتر ہے۔ لوگ تعریف کرتے ہیں،باقی اطمینان ہونا علیحدہ بات ہے ،شاید اس بارے میں مجھے اطمینان نہیں ہے ،بہر حال قابل ستائش ہے ۔
سنگر :مقبوضہ بلوچستان میں مختلف سرکاری منصوبات، خاص کر سی پیک کے منصوبے پر کام کرنے والے بیرونی افراد کو صرف پیٹ پالنے والے محنت کش کا نام دیکر اُن کی ہلاکت پربہت شور شرابہ کی جاتی ہے ،آپ اس عمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:میرے خیال میں اس پر شور شرابہ کرنا کہ یہ محنت کش ہیں،یہ محنت کش نہیں ہیں یہ ،بلکہ ان حکمرانوں کے آلہ کار ہیں ،ان کو محنت کش کہنا نہیں ہے ،محنت کش تومظلوموں کے ساتھی ہوتے ہیں،یہاں ایک قومی جہد ہے اور یہ قومی جہد کے خلاف کام کرتے ہیں،اب اگر یہ کوئی مرتا ہے تویہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ یہ محنت کش ہیں،یہ محنت کش نہیں ہیں بلکہ یہ بھی اہلکار ہیں حکمرانوں کے،.اس عمل کو یہ کہ مزدوروں کے نام پر آکر کام کرتے ہیں،ان کے آلہ کار بنتے ہیں قابل مذمت ہیں.....اور شاباش ہے ان بلوچوں کوجو ان کو کام کرنے نہیں دیتے وہ قابل تعریف ہیں......
سنگر :بلوچ آزادی پسندوں کی خارجہ پالیسی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ یعنی آپ مطمئن ہیں؟ جو سرگرمیاں سر انجام دی جارہی ہیں ان میں بیرونی ممالک میں احتجاجی جلسے اورمظاہرے وغیرہ بھی شامل ہیں، کیا اس سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:ہاں یقینا،میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اطمینان نام کی کوئی چیزتو زندگی میں اس کا امکان تو بہت کم ہے ،بحرحال خارجی طور پر جوکچھ ہورہا ہے وہ قابل احترام ہے اور یقیناًآج نہیں تو کل پاکستان پر اس کا اثر ضرور پڑے گا،یہ تو ہماری مزاحمت پر منحصر ہے کہ اس کی قوت ،طاقت کیا ہے ،اس کے اثرات پڑیں گے دنیا میں اور قریباًہم ...boosting....نہیں کرتے، قریباً امکانات ظاہر ہورہے ہیں،آج جو کچھ سنتے ہیں میڈیا کے ذریعے جو کچھ ہے اس کی حالت بھی درست نہیں ہے ،جو خارجہ پالیسی ہے اگر وہ سو فیصدہم تعریف نہیں کرسکتے برحال اس کوقابل تعریف کہتے ہیں،بہتر ہے ۔
سنگر :اس بات سے انکار نہیں کی جاسکتی کہ گراؤنڈ میں قوت مسلح پارٹیوں کی ہے۔ دنیا بھی ہمیشہ طاقتور سے مزاکرات کرتی ہے ۔ کیا آپ نے کبھی محسوس نہیں کی ہے کہ مزاحمتی تنظیموں کو بھی اپنے نمائندے متعارف کرانے چاہیے ؟
میرعبدالنبی بنگلزئی: یقیناسوال ہے جو طاقت ہے وہ مزاحمتی قوتوں کی ہے ،یہ مزاحمت ابھی تک اس اسٹیج پر نہیں ہے اس سے کوئی مزاکرات کرے ،یا کوئی بات کرے،شاید یہ ہماری حقیقت پسندی ہے کہ ہماری مزاحمت ابھی تک اس اسٹیج پر نہیں آیا، اب نمائندہ کوئی تنظیم اپنا مقرر کرتے ہیں ،شاید کئے ہونگے،ان سے کون مزاکرات کرے گا ابھی تک مجموعی صورت میں کوئی وہ مرحلے طے نہیں کرسکا،ظاہر ہے کسی سے اکیلے اکیلے مزاکرات کرنا تو مشکل ہے ، جب تک وہ ضروریات سب پورے نہ ہوں ،تو اس میں اپنے نمائندے متعارف کروائیں،یقیناًیہ تنظیم کا کام ہے جو بہتر سمجھے وہی کرے گا،اگر اس سے کوئی مزاکرات کرتا ہے کون کرتا ہے ،کوئی ہمدرد ملکوں سے کوئی بات کرے یا کہیں پر ان کو نمائندوں کی ضرورت ہو تو متعارف کرائے ،تو اس میں وہ تنظیمیں خود سمجھتے ہیں میں نہیں کہہ سکتا....
سنگر :بلوچ قوم میں آپ کیلئے ایک نہایت احترام کا مقام ہے، آپ کا درجہ اہم ترین رہنماؤں میں ہے لیکن عملی طور پر کسی تنظیم نے آپ کو قیادت و اختیار نہیں سونپی یا آپ خود قیادت دوسروں کے حوالے کرنے پر راضی تھے؟ اگر اس طرح ہے تو ہمارے قارئین جاننا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم کو آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی انتہائی ضرورت کے باوجود آپ کیوں اس ذمہ داری سے دور رہے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:پھر وہی تعریفی باتیں..... میں کوئی رہنما نہیں ہوں خدمت گار ہوں،میری بھی یہ کوشش ہے کہ جیسے باقی بلوچوں کی کوشش ہے جینے کیلئے ،سب کوششیں کرتے ہیں انسان ہو یا حیوان ہو ،زندہ رہنے کیلئے ،میں بھی اسی طرح زندہ رہنے کیلئے کچھ ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کررہا ہوں باقی یہ کہ میں نے کسی کوخود نہیں آیا یا لیڈر نہیں بنایا ،دوسرے کو میں نے لیڈرنہیں بنایا....لیڈر یا رہنما بنانا یہ تو لوگوں کا کام ہے قوم کس کو اپنالیڈر بناتا ہے ،میں اگر دور رہا اس کی ایک وجہ ہے ،میری تسلی نہیں ہوئی ،جو میرا فکر ہے سوچ ہے ،میں یہی سمجھتا رہا کہ شاید اپنے آپ کو میں نے یہی سمجھا کہ تنظیمیں ہیں بہت ساری چیزیں ہیں،مگر میں یہ نہیں کہہ سکتا ...بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو میں ان کے بارے میں نہیں کہہ سکتا....کیونکہ مجھے اطمینان نہیں تھا،کسی تنظیم میں جانا تواس کے بارے میں جوابدہ بھی ہونا پڑے گا،ابھی تک تو میرا اطمینان نہیں ہوا ...میں کسی میں باقاعدگی سے شامل ہوجاؤں........مزاحمت ہے ....ہم سفری ہے ...یا کوشش ہے ...سب کیلئے دعا گوئی ہے .....باقی میں کسی تنظیم میں جو میں مکمل طور پر سمجھوں کہ میرے فکر کے مطابق ہے ۔دیکھیں ابھی عمل ہے شاید وہ ہمارا اصلاح کریں،میرا بھی اور بعض تنظیمیں ہیں... .شاید وہ بھی اپنے عمل سے سیکھیں گے کہ کیا کچھ ہے ....... جو کچھ میں دیکھتا رہا ہوں .....سنتا رہا ہوں.... .تسلی نہیں ہوئی ....کیونکہ یہ ایک ایمانداری کی بات ہوگی اگر کسی تنظیم میں جانا توجب تک تسلی نہ ہو بہت مشکل ہوتا ہے گزارا کرنا۔اسی لئے میں نے اپنے آپ کو پابند نہیں بنایا........
سنگر :میر صاحب سنگر میڈیا گروپ کو ٹائم دینے کا شکریہ ،آپ سے ہمارا آخری سوال کہ موجودہ صورتحال میں آپ بلوچ مسلح تنظیموں کو اور بلوچ قوم کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
میرعبدالنبی بنگلزئی:شکریہ میں بھی ادا کرتا ہوں سنگر میڈیا گروپ کا انہوں نے مجھ ناچیز کو اس اہل سمجھا میں کچھ باتیں جو مجھ سے پوچھیں اگر میں جواب دے سکا....میں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ میرا عرض ہے مزاحمت کاروں سے ،مسلح مزاحمتی تنظیموں سے ،پہلے بھی میں یہ عرض کر چکاہوں اتحاد ،یونٹی،اتفاق ایک واحدذریعہ ہے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ،جو آزادی کی جہد ہے اس کے بغیر اس کا امکان نہیں کیونکہ یہ سرزمین بلوچستان بلوچ قوم کی ہے ۔جمعی چیز کیلئے جمع کا ہونا.....قومی چیز کیلئے قوم کا متحد ہونا ضروری ہے .....یہ کسی ایک کا نہیں ہے ،اکیلے اکیلے ہم پروازیں کرتے رہیں ،اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،یہی میرا عرض ہے ،پہلے بھی ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ اس سرزمین کی خاطر،اپنے قوم کی خاطرآپس میں اتحاد کریں ،جو بھی ممکن ،جو امکانات ہیں،دشمن ایک ہے ،مقصد ایک ہے ،واحد ہے،کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم متحدنہ ہوں .....ہم متحد ہوں یہی میرا عرض ہے .....قوم سے بھی میرا عرض یہی ہے کہ اس وقت یہ قومی جہد ہے ،آگے بڑھیں اس مزاحمت کو مضبوط کریں .....اپنی آزادی کیلئے جہد کے ساتھی بنیں ....یہی میرا قوم سے عرض ہے .....ورنہ اگر اس مزاحمت کو کچھ ہوا توکسی کیلئے کچھ بھی نہیں بچے گا.....آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی جان بچارہے ہیں مزاحمت سے دور ہیں میرے خیال میں کوئی نہیں چھوڑے گا.....یہی عرض ہے قوم سے کہ مزاحمت میں شریک ہوں،کیونکہ مزاحمت ہم سب کی ہے ،سب متحد ہوجائیں
Комментариев нет:
Отправить комментарий