Powered By Blogger

вторник, 5 сентября 2017 г.

بی آر اے کے سینئر رہنما گلزار امام بلوچ کے ساتھ ایک خصوصی نشست
گلزار امام بلوچ کا تعلق بلوچستان کے علاقے پنجگور سے ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بطورایک طالبعلم طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ بی ایس او آزاد پنجگور زون کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں جب سیاسی کارکنوں پر ریاستی کریک ڈاون شروع ہوگئی اور شہروں میں رہ کر پر امن سیاسی جدوجہد نا ممکن ہوگیا، تو انہوں نے سیاست سے کنارہ کش ہونے کے بجائے اپنے جدوجہد کا طریقہ کار بدل کر مسلح مزاحمت کا راستہ چنا اور مسلح مزاحمتی تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی کا حصہ بن گئے اور بہت جلد اپنے مخلصی اور ذہانت سے وہ بی آر اے کے اہم کمانڈروں میں شمار ہونے لگے ۔ بلوچستان کے علاقے مکران میں بلوچ ریپبلکن آرمی کو منظم کرنے میں انکا ایک اہم کردار ہے۔ اب وہ بی آر اے مکران کے کمانڈر کے حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ تربت کے نامہ نگار نے ان سے ایک نامعلوم مقام پر ملاقات کی اور موجودہ حالات کے بابت انکا انٹرویو لیا جو قارئین کے خدمت میں پیش ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ:آپ ایک پرامن سیاسی کارکن کے حیثیت سے جانے جاتے تھے، کیا وجہ ہے کہ آپ نے پر امن سیاست پر مسلح مزاحمت کو ترجیح دی؟
گلزار امام: میں بنیادی طور پر ایک سیاسی ورکر ہوں اور میں نے ہمیشہ سے ہی بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں مسلح جدوجہد سے زیادہ سیاسی جدوجہد کو اولیت دی ہے، لیکن ریاست نے مسلح جدوجہد سے زیادہ سیاسی جدوجہد کو زھرِ قاتل سمجھا اور سیاسی جدوجہد کے تمام دروازے بند کردیئے۔ بلوچ آزادی پسند پر امن سیاسی کارکنوں کے خلاف بد ترین کریک ڈاون کا آغاز کردیا گیا اور اس دوران ہمارے سینکڑوں سیاسی دوستوں اور رفقاء کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔حالات ایسے ہوگئے کے سرفیس پر رہ کر کوئی بھی سیاسی سرگرمی کرنا گولیاں چلانے سے کئی گنا زیادہ مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا۔ ان حالات کی وجہ سے میں نے اپنے عظیم سیاسی استاد سنگت ثناء بلوچ سے مشورہ کیا۔ ان کے صلاح و مشورے سے میں نے مسلح مزاحمت کا راستہ اپنایا جو تاحال جاری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : کیا بلوچ آزادی پسند سیاست میں اب واحد راستہ بندوق کا رہ چکا ہے یا اب تک عدم تشدد کا راستہ باقی ہے؟
گلزار امام: بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں موجود بندوق بھی شعور اور سیاسی علم کا تابع ہے اور اسی موجود بندوق کی طاقت نے پاکستان کی کمر توڑ دی ہے۔ بیرونی سرمایہ کار اور پاکستان جس ملی بھگت سے بلوچ وطن میں لوٹ مار کررہے ہیں اب وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئےہیں۔ اب بیرونی سرمایہ کار یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تیل کی تلاش کرنے والے جن بڑی کمپنیوں نے گذشتہ ماہ عدم تحفظ کے بنا پر اپنے کام بند کرنے اور پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا ان کمپنیوں میں سے دو کمپنیاں بلوچستان کے علاقے اورماڑہ اور ڈیرہ بگٹی میں بھی موجود تھیں اور تیل و گیس کے تلاش کا کام کررہے تھے ان کمپنیوں پر بلوچ ریپبلکن آرمی کے سرمچاروں نے متعدد حملے کیئے تھے۔ پر امن اور عدم تشدد کی سیاست صرف ان مہذب ممالک میں ممکن ہے جہاں ریاست انسانی جان و عزت کی قدر جانتی ہو۔ جہاں انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی پاسداری ہو۔ سیاسی کارکنوں کو سیاسی آزادی حاصل ہو، لیکن پاکستان جیسے ملک میں پر امن سیاسی جدوجہد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بہر حال ہم بلوچستان میں جس بھی جدوجہد کا قائل ہوں، وہ عدم تشدد کی سیاست ہو یا پھر مسلح جدوجہد جب مقصد بلوچ وطن کی آزادی ہو تو پھر ریاست دونوں کو یکساں طور پر ہی کریش کریگا لیکن جب بندوق ہاتھ میں ہوگی تو آپ کم از کم اپنا دفاع تو کرسکتے ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ:بلوچ سیاسی حلقوں میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ بی آر اے میں اب تک قبائلی اثر و رسوخ کی چھاپ باقی ہے، ایسے حالت میں آپ بی آر اے کا غیر قبائلی چہرہ ظاہر ہوتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ آپ نے جہدوجہد کیلے بی آر اے کا ہی پلیٹ فارم چنا؟
گلزار امام: بلوچ قومی جدوجہد کو طبقوں میں تقسیم کرنا بلوچ قومی آزادی کی جنگ کیلئے ایک المیہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مکران کے علاوہ بلوچستان کے اکثریتی خطے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ آپ بلوچستان اور بلوچ تحریک آزادی میں قبائل کے کردار سے ہر گز انکار نہیں کرسکتے۔ بقولِ ماسٹر سلیم اہم چیز رویہ ہے اور یہی میرے نزدیک اہمیت رکھتا ہے۔ اگر قبائلی پس منظر رکھنے والے لیڈر یا کیڈر کا رویہ ایک سچے سیاسی کارکن جیسا ہے تو یہاں پس منظر اہمیت نہیں رکھتی اور اگر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کسی لیڈر یا کیڈر کا رویہ اختیار ملنے کے بعدکسی سردار، میرو منسٹر کی طرح بن جائے تو پھر آپ کیا کہیں گے کون بہتر ہے؟ جہاں تک بی آر اے کا تعلق ہے تو اسکے اکثریتی سرمچار آپکے اور میرے جیسے عام بلوچ ہیں جو پورے بلوچستان میں وطن کی آزادی کے خاطر لڑرہے ہیں۔ وہ کوئی قبائلی علاقے کی نہیں بلکہ پورے بلوچستان کے آزادی کی خاطر جدجہد کررہے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کے مزاحمتی نظریات و افکار اور انکے لازوال قربانی سے متاثر ہوں اور انکے سیاسی فلسفے کا قائل ہوں۔ بلوچ ریپبلکن آرمی کا قیام بھی شہید اکبر خان بگٹی کے نظریات و افکار کے بنیاد پر ہوا تو فکری ہم آہنگی کے بنیاد پر میں نے جدوجہد کیلئے بی آر اے کا چناو کیا۔ میرے نزدیک کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچ کو جو اب مزاحمتی یا سیاسی عمل کا حصہ بن چکا ہے، اسے خاندانی پس منظر نہیں بلکہ انہیں تنظیم و ادارہ اور مظبوط ڈسپلن قومی تحریک کا پابند بناتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس وقت بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں کئی مسلح جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جو ایک طریقہ کار اور مقصد رکھنے کے باوجود خود ایک نہیں ہوسکتے، اس تقسیم و تضاد کی وجہ کیا ہے؟
گلزار امام: یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بلوچ عسکری قوت ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے سبب وہ قوت حاصل نہیں کرپائی جو وہ متحد ہوکر حاصل کرپاتی۔ اس میں ذاتی پسند و ناپسند، بلوچی ضد و انا، خود پرستی، عدم خود شناسی اور عدم بھروسہ جیسے وجوہات کارفرما ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ ہم متحد ہونے سے کتراتے ہیں۔ میری ذاتی تجویز اور سوچ یہ ہے کہ تمام مزاحمتی تنظیمیں اپنی اپنی تنظیمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مشترکہ مزاحمتی فرنٹ تشکیل دیں ۔ جس میں تمام مزاحمتی تنظیمیں حتیٰ کے نومولود تنظیم بلوچ ریپبلکن گارڈ تک شامل ہو۔ یوں ہم ایک مضبوط قوت تشکیل دینے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: کیا آپ کو لگتا ہیکہ بلوچ آزادی پسند قوتیں مستقبل میں اتحاد کی طرف جاسکتے ہیں؟
گلزار امام: اگر ہر بلوچ لیڈر کے مفادات گروہی و ذاتی سے بالاتر ہوکر قومی بن جائیں تو پھر اتحاد میں بھلا کونسی چیز رکاوٹ ہوسکتا ہے یا ہوگا؟ میرے نزدیک بلوچ قوم میں ایک ایسے قومی لیڈر کا فقدان ہے جو اپنے گروہ کی سیاست سے بالاتر ہوتے ہوئے قومی مفادات کو زیادہ ترجیح دیتا ہو۔ سیاسی اتحاد کی صورت میں ہر ایک کو اپنے پیش امامی کی اہمیت کے کمی کے غم نے نڈھال کردیا ہے۔ بہرحال میں پر امید ہوں کہ عالمی حالات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ذمینی حالات کے تقاضوں کا اداراک رکھتے ہوئے ہمارے گروہ لیڈران قومی اتحاد کی جانب گامزن ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ:اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچوں کو عالمی دوستوں کی ضرورت ہے لیکن آپ پر الزام ہیکہ آپ عالمی دوستوں کی تلاش میں مغربی بلوچستان کو بھول چکے ہیں اور اس خطے میں قابض ایران سے سمجھوتہ کر بیٹھے ہیں، اس میں کتنی صداقت ہے؟
گلزار امام: بلوچ چاہے مغربی بلوچستان میں ہوں یا مشرقی بلوچستان ان سب کا دکھ درد ہم یکساں طور پر محسوس کرتے ہیں۔ سب کیلئے میرا دل ہر وقت یکساں خون کے آنسو روتا ہے اور میں تمام بلوچوں کےلئے جدوجہد کررہا ہوں چاہے وہ مغربی بلوچستان کے ہوں یا مشرقی بلوچستان کے۔ میرا ایران کے ساتھ تعلقات کے الزامات محض لغو ہیں جن کا ذمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں البتہ مشرقی بلوچستان میں پاکستانی ظلم و بربریت سے تنگ آکر پچاس ہزار سے زائد بلوچ مرد، خواتین و بچے ہجرت کرکے مغربی بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں وہاں کے عام بلوچوں کے گھر بلوچیت و انسانی ہمدردی کے بنیاد پر پناہ لیئے ہوئے ہیں۔ اگر یورپ میں بیٹھے ہوئے کسی حضرت کو ان بلوچ مہاجرین کا ایران میں موجودگی پر کوئی اعتراض ہے اور وہ اس تعلق کو ایرانی ایجنٹ گری سے تعبیر کرتا ہے تو وہ ان بلوچ مہاجرین کیلئے کوئی دوسرا حل نکالے پھر یہ تمام مہاجرین ایران سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ:ایرانی حکومت کے خلاف سرگرم عمل مذہبی تنظیم جیش العدل نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بی آر اے، بی ایل ایف اور بالخصوص آپ پر الزام لگایا ہے کہ آپ نے انکے جنگجو گرفتار کرکے ایران کے حوالے کردیئے ہیں اور ان پر دو مرتبہ حملے کیئے ہیں۔ آپ اس بابت کیا کہنا چاہیں گے؟
گلزار امام: میں آج یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے کسی مذہبی تنظیم کے ارکان کو کسی ملک کے حوالے نہیں کیا ہے۔ البتہ جو الزامات خدا کے یہ فرشتے مجھ پر لگارہے ہیں، انہی فرشتوں کے ہمنوا طالبان نے ہمارے تنظیم کے دو اہم کمانڈروں سمیت دس بلوچوں کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا ہے۔ اب ہمارے ان دس ساتھیوں کا جواب کون دیگا؟ میرے نزدیک پاراچنار میں خود کش دھماکے کرنے والا جنداللہ اور اس جنداللہ و جیش العدل کے کمانڈ اینڈ کنٹرول و پروگرام میں کوئی فرق نہیں۔ یورپ میں بیٹھے ایک لیڈر اور اسکے ساتھ بیٹھے کچھ ہمنواوں کی نظر میں جیش العدل ایک آزادی پسند بلوچ تنظیم ہوسکتا ہے لیکن میں نے ان تنظیموں کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ یہ تنظیم خالصتاً سنی شدت پسند تنظیم ہے جو بلوچ کے نام کو بطور ایک کارڈ استعمال کررہی ہے، جس کی پشت پناہی براہ راست سعودی عرب کی فاشسٹ شاہی حکومت کررہی ہے۔ میں موقع کے مناسبت سے آج ان تنظیموں سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آپ محض مغربی بلوچستان میں متحرک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پاکستانی خفیہ اداروں سے تعلقات کی نفی کرتے ہیں تو پھر آپ بتائیں کے آج سے قریباً چار سال پہلے آپ نے منشیات فروشوں کے اپیل پر پنجگور کے علاقے تسپ میں ہمارے تنظیم کے ارکان پر مسلح حملہ کیوں کیا؟ اس حملے میں ہمارے دوست اپنا دفاع کرنے اور نکلنے میں تو کامیاب ہوگئے تھے لیکن ہمارے تنظیم کے چھ موٹر سائیکل وہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ موٹر سائیکل آج بھی آپ صاحبان کے پاس ہیں۔ آپ کے مولانا عامر صاحب مجھے ان موٹرسائیکلوں کی حوالگی کیلئے تسپ پنجگور بلانا چاہتے تھے کیونکہ اسکے پیچھے براہ راست کمانڈنٹ پنجگور کا ہاتھ تھا۔ ان حضرات کا مقصد بلوچیت کے نام پر دیوان کرنا اور دوسری طرف ریاست کے ہاتھوں مجھے مارنے کی سازش تھی۔ بقول آپکے کہ ہم تین سالوں سے آپ کیلئے مسئلے پیدا کررہے ہیں تو پھر چار سال پہلے آپ کیا کررہے تھے؟ یورپ میں بیٹھے جن حضرات کے مالی مفادات آپ سے وابستہ ہیں وہ شاید آپ لوگوں کے حقیقیت سے ناواقف ہوں لیکن ہمیں بخوبی علم ہے کہ مغربی بلوچستان کیلئے جدوجہد کرنے کا دعویٰ کرنے والے ان تنظیموں کے کیمپوں میں شام و اردن کے عرب بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ محض بلوچ تنظیمیں ہیں تو پھر وزیرستان سے آئے ہوئے پٹھان ان کو ٹریننگ دینے کیونکر پہنچتے ہیں۔ مفتی شاہ میر پیدارکی جو سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کے شہادت کا ذمہ دار ہے  وہ تربت میں آپکے تنظیم کے دیوان میں کن مفادات اور کس حیثیت سے بیٹھتا ہے؟ بہر حال میرے نزدیک اس کالے جھنڈے والے جیش العدل اور کالے جھنڈے والے داعش میں کوئی بھی فرق نہیں۔ یہ دونوں ہی مذہبی جنونی تنظیمیں ہیں جو پاکستانی خفیہ اداروں کی ایماء پر لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپوں میں ٹریننگ لیکر بلوچیت کے نام پر ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ:سی پیک کو آپ بلوچ کے بقا و خوشحالی کے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟
گلزار امام: مستقبل میں پاکستان کے معاشی بقا کا انحصار مکمل طور پر بیرونی سرمایہ داری سے ہی وابستہ رہے گا۔ سرمایہ کاری کے تمام ذرائع بلوچ وطن میں موجود ہیں۔ بلوچ وطن جیو اسٹریٹیجک حوالے سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دوسرے اہم قوتوں کیلئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے حالات میں بلوچ ساحل و وسائل نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر سامراجی ممالک سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سی پیک ہو یا سیندک پروجیکٹ یا کوئی بھی اور میگا پروجیکٹ، میرے نزدیک یہ سب پاکستان پنجابی کے معاشی مفادات کیلئے عالمی منڈیوں میں بلوچستان کو نیلام کرنا ہے۔ جب تک بلوچ خود آزاد نہیں ہوتا اور اپنے وسائل اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا تب تک بلوچ کسی بھی پروجیکٹ سے خوشحال نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو اس سے اب تک ہمیں جلے ہوئے گھر، کھنڈرات میں تبدیل ہوئے گاؤں اور مسخ شدہ لاشوں کے انبار ہی نصیب ہوئے ہیں۔ ان سے بلوچ کی خوشحالی اور بقا کی امیدیں لگانے والے دھوکے میں ہیں۔ سی پیک سے محض پاکستانی جنرل خوشحال ہونگے اور انکی آرمی مضبوط ہوگی کیونکہ سارے ٹھیکے انکے ہاتھوں میں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ:کیا بلوچ میں اتنی قوت ہیکہ وہ بلوچ سرزمیں پر جاری سی پیک اور دوسری عالمی صف بندیوں کے سامنے رکاوٹ بن سکے یا انھیں روک سکے؟
گلزار امام: جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ رہا تھا کہ بلوچ مزاحمت کی وجہ سے پہلے سے ہی عدم تحفظ کے بنا پر بلوچستان سے غیر ملکی سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں اور جو بچے ہوئے ہیں وہ بھی سخت فوجی حصاروں کے اندر جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے بیٹھے ہیں اور بھاگنے کے موقعے تلاش رہے ہیں۔ اس وجہ سے بہت سے پروجیکٹ یا تو بند ہوچکے ہیں یا سست روی کا شکار ہیں۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے اس سامراجی منصوبے کے خلاف بلوچ سخت مزاحمت کررہے ہیں۔ شاید بے دریغ کشت و خون سے پاکستانی فوج سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی دے لیکن بلوچ وطن میں بلوچ مرضی کے بغیر امن کا ضامن کون بن سکتا ہے؟ بلوچ اس وقت دو سامراجی قوتوں چین اور پاکستان سے بیک وقت لڑ رہے ہیں اور میں کہوں گا کہ ہم یہ لڑائی جیت رہے ہیں کیونکہ سرمایہ دار سیکیورٹی کے مخدوش صورتحال کے سبب بلوچستان میں سرمایہ کاری سے انکاری ہیں۔ چین بھی اس خطے میں امن نا ہونے کے سبب اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ بہر حال ہمیں مزید صف بندیوں کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اس نام نہاد سی پیک کو کامیاب بنانے کیلئے بلوچوں کو مکمل طور پر کچلنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ:کیا وجہ ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود بلوچ تحریک اتنی پزیرائی حاصل نہ کر پائی جتنا کہ یہ حقدار ہے، کیا یہ بلوچ سفارتکاری کی ناکامی ہے کہ بلوچ خود کو ایک فیصلہ کن قوت ثابت نہ کرسکے؟
گلزار امام: میں بہرحال سیاسی دوستوں کی بیرون ملک سیاسی جدوجہد اور سفارتکار ی کو کسی حد تک تسلیم کرونگا کہ منتشر ہی سہی لیکن کچھ کررہے ہیں۔ گو کہ دنیا کے سامنے ہم خود کو ایک قوت ثابت نہیں کرسکے لیکن ہم دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہم پاکستانی غلامی کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے وطن کے آزادی کیلئے لڑرہے ہیں، لیکن دنیا عسکری قوت کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ہم اب تک عسکری حوالے سے کمزور ہیں۔ ہمارا موثر ترین ہتھیار کل بھی آر پی جی سیون تھا اور آج بھی وہی ہے ۔ ہمیں ایک فیصلہ کن عسکری قوت بننے کیلئے مزید محنت کرنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ:ایک عام خیال یہ سامنے آرہا ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے قوت سے بلوچ تحریک پر حاوی ہورہا ہے اور بلوچ طاقت منتشر ہورہی ہے اس میں کتنی صداقت ہے ؟
گلزار امام: یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عوام کے اندر سے اٹھنے والی حقیقی تحریکیں کبھی ریاستی طاقت کے ذریعے منتشر نہیں ہوئے اور نہ ہی ہم منتشر ہونگے۔ ہاں حالیہ دنوں میں کچھ لوگ تحریک کے صفوں سے جدا ہوکر ریاست کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گھر بیٹھ گئےہیں۔ جن کے انتہائی قلیل تعداد کو ریاست نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ تحریک ایک تتقیری عمل ہے۔ اس میں فکر و نظریہ سے عاری جذباتی لوگ دباؤ کے بعد الگ ہوتے رہتے ہیں اور نیا خون نئے ولولے کے ساتھ شامل ہوتا رہتا ہے۔ کوئی اگر اسکو تحریکی انتشار سے تعبیر کرتا ہے تو پھر وہ انکی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ:آنے والے پانچ سالوں کو بلوچ و بلوچ تحریک کیلے انتہائی اہم گردانا جارہا ہے ، آپ ان پانچ سالوں کے بعد تحریک کو کہاں دیکھتے ہیں؟
گلزار امام: میری نظر میں ان سالوں میں ہماری ذمہ داری ہے کہ گراؤنڈ پر موجود سیاسی خلاء کو پر کریں۔ ہمارے لیڈرشپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریاستی بربریت کے باوجود بلوچستان کے گراؤنڈ خاص کر شہری علاقوں میں بلوچ عوام سے رابطے تیز کریں اور رابطوں کے مسقتل ذرائع تشکیل دیں۔ اس وقت ریاست ہمیں اپنے عوام سے دور رکھ کر اپنے پالیسیاں ان پر تھونپنا چاہتا ہے اور اپنے پروپگینڈہ سے انہیں تحریک سے دور کرنا چاہتا ہے۔ عوام ریاستی بربریت کے باوجود آزادی پسند پارٹیوں سے روابط میں رہنا چاہتی ہے۔ اس بابت بلوچ آزادی پسند گروہوں کو انقلابی فیصلے کرنے ہونگے تاکہ دنیا ہمیں سیاسی و عسکری کمک مہیا کرے۔ ہمیں آنے والے سالوں میں اپنے عسکری قوت میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ ہمیں ایک طاقت بن کر دشمن کو مجبورکرنا پڑے گا کہ وہ بلوچستان  سے دستبردار ہوجائے۔
دی بلوچستان پوسٹآپ ایک کیسے آزاد بلوچستان کیلے لڑرہے ہیں؟
گلزار امام: میں ایک ایسے آزاد بلوچستان کیلئے لڑ رہا ہوں جہاں کا حکمران بھی وطن کے سڑکوں کو صاف کرنے میں فخر محسوس کرے۔ ایک ایسا وطن جہاں سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف و آزادی ہو۔ جہاں کرپشن کو غداری تصور کیا جائے۔ جہاں تمام بلوچ برابری کے ساتھ خوشحالی کی زندگی گذاریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس جنگ کا منطقی انجام آپ کے نظر میں کیا ہے؟
گلزار امام: میرے نزدیک اس جنگ کا منطقی انجام اس خطے میں ایک آزاد بلوچ وطن سے کم کچھ بھی نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ قوم کے نام کوئی پیغام؟
گلزار امام: میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستانی سازشوں کا شکار نہ بنیں اور آزاد بلوچستان کے حصول کے اس جنگ میں وہ اپنی وابستگی مزید مضبوط کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ کا بہت شکریہ کے آپ نے ہم سے بات کرنے کی حامی بھری اور ہمارے قارئین کے سامنے اپنا نقطہ نظر واضح انداز میں رکھا۔ 

Комментариев нет:

Отправить комментарий