سی پیک کا جنازہ :تحریر پیردان بلوچ
دنیا میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حالات میں بھی ڈرامائی انداز میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اگر گذشتہ پانچ سے دس سالوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو دنیا بھر میں حیرت انگیز تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں جو یقیناً بعض ممالک کے داخلی اور خارجی پالیسیوں پر بھی گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔
جہاں ایسے اصلاحات استعمال کیے جاتے ہوں کہ ہمارا کوئی مستقل دشمن نہیں اور نہ ہی کوئی مستقل دوست صرف ہمارے مفادات مستقل ہیں یا پھر یوں کہیے کہ دشمن کا دشمن ہمارا دوست ہے ۔۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی سیاسی اور فوجی مقتدرہ ایک راگ الا پتے رہے ہیں سی پیک کا یعنی (چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور ) جیسے پاکستان میں ترقی کے نئے مراحل، خطے میں انقلابی تبدیلیاں، پاکستان میں معاشی دھماکہ اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا ۔۔۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ چھیالیس سے باسٹھ 62 $ بلین ڈالر کا اپنے وقت کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے جو گوادر سے کاشغر تک پھیلایا جائے گا، جس سے پاکستان میں معاشی ترقی سے لے کر انفراسٹکیچر، جدید ٹرانسپورٹ سہولیات اور صنعتیں ترقی کے نت نئے مراحل میں داخل ہوگئی ہیں۔
بظاہرایک خوبصورت منظر کشی کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے، تیرہ نومبر دو ہزار سولہ کو باقاعدہ اس منصوبے کو آپریشنل کیا گیا دھول کی تاپ پر بھنگڑے تک ڈالے گئے۔ دوسری طرف بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور بلوچستان میں آزادی کیلئے برسرپیکار مسلح تنظیمیں اس پروجیکٹ کو شروع سے ہی مشکوک اور اپنی نسل کشی کا نیا منصوبہ قرار دے چکے ہیں۔ جس پر سیاسی جماعتیں مذمت اور مسلح تنظیموں کی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ شروع دن سے جاری ہے۔ گوادر سے لے کر سی پیک روٹ کے گذرنے والے مختلف راستوں پر فوجی آپریشن کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، جو ہنوز شدت کے ساتھ جاری ہے۔ گوادر سے لے کر پسنی، جیونی، اورماڑہ، تربت، مستونگ اور بہت سے بلوچ علاقوں میں خون ریزی کی ایک نئی لہر شروع کی گئی ہے۔ بلوچ لاپتہ افراد کی فہرست دراز ہوتی جارہی ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، مشرف دور سے اب تک وہ مھٹی بھر فراری روزانہ ہھتیار ڈالتے ہیں روازانہ پانچ فراری کیمپ تباہ کرنے کے آئی ایس پی ار کے دعوئوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نا جانے ابتک کتنے کیمپ یہ تباہ کرچکے ہیں اور کتنے ہزاروں فراری سرنڈری کروا چکے ہیں لیکن وہی مٹھی بھر افراد ابتک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اور نا ختم ہونے کا دور دور تک امکان نظر آتا ہے۔
ہر ذی شعور اور سیاست و ریاست کو سمجھنے والا جانتا ہے کہ پاکستان میں داخلہ پالیسی سے لے کر خارجہ پالیسی پر کنڑول فوج کے پاس ہے اور یہ نہ پاکستانی منتخب قومی اسمبلی میں مرتب کی جاتی ہے اور نہ قانون سازی کے ایوان سینٹ میں بلکہ جی ایچ کیو میں کور کمانڈر ہی پاکستانی اندرونی بیرونی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں۔ جن کی مختلف اوقات پاکستانی ریاست بھاری قیمت بھی ادا کرچکی ہے۔
دوسری جانب گوادر میں چین کی موجودگی امریکہ سمیت انڈیا اور دوسرے چھوٹے بڑے ممالک کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے جہاں کہا جارہا ہے کہ چین بلوچ ساحل پر اپنے عسکری کیمپ یا ملٹری بیس قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف بلوچ مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی بلوچ قیادت کی جانب سے گوریلا کاروائیاں تیز کرنے کا اعلان کے بعد سی پیک سے منسلک پلوں اور کام کرنے والی فوجی کنسٹریکشن کمپنی (ایف ڈبلیو او) پر متواتر کئی حملے کیئے جاچکے ہیں۔ جس سے جانی اور مالی نقصانات کی بھی اطلاعات مقامی میڈیا کے ساتھ پاکستانی میڈیا پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
جبکہ امارات حکومت بھی وقتاً فوقتاً گوادر پورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار زرائع ابلاغ کے زریعے کرچکا ہے۔
قدم قدم پر سیکورٹی کے انتظامات، چیک پوسٹیں، دھماکوں کی آوازیں، ریڈ الرٹ پر کھڑی آرمی اور گوادر شہر و گرد نواح کو جس طرح سے چھاؤنی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ جس دن سے گوادر کو ایک فوجی چھاونی بنادیا گیا اسی دن سے ہی سرمایہ کار یہ سمجھ چکے تھے کہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کا مطلب مالی خسارے کے علاوہ کچھ نہیں اور جہاں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات ہوں وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ سیکورٹی خدشات کتنے بڑے پیمانے پر ہونگے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے نئی افغانستان پالیسی کا اعلان جیسے ہی کیا، وہیں پاکستانی ٹاک شوز میں پاکستانی دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار دبے لفظوں، یہ اظہار کرتے نظر آئے کہ یہ افغانستان پالیسی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ایک محاذ ہے، جو پہلے سے کھلا ہوا تھا مگر اب اسکا اعلانیہ اظہار کیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس پالیسی بیان کے بعد جلد ہی بین القوامی فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے پاکستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا جس میں دہشت گردوں کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں پر گھس کر مارنے کا عندیہ دیا تھا کا خیر مقدم کیا تھا۔
گذشتہ دنوں امریکہ میں قائم پاکستانی حبیب بینک کی نیو یارک برانچ کو بھاری جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ مذکور بینک شدت پسندی کو فروغ دینے میں فنڈنگ کرتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی عدالت کے زریعے برطرفی کے بعد کوئی وزیر و مشیر سی پیک کا نام تک نہیں لے رہی ہے، جو صحافی پہلے حکومت اور فوج کی زبان بولتے تھے اور جن پاکستانی صحافیوں کو فوج کے نزدیکی جرنلسٹ ہونے کا اعزاز حاصل تھا، انکی طرف سے سی پیک کے خلاف پروپیگنڈہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت پاکستان اور فوجی قیادت یہ بھانپ گئے کہ سی پیک پروجیکٹ کو طول دینے کا مطلب اپنے لیئے ہی تباہی کا پیغام لانا ہے۔ اب اس بات کو سمجھنے کے لیے گزشتہ دنوں راولپنڈی میں سی پیک سے مطلق ریکارڑ رکھنے والے بلڈنگ میں آگ لگ جانا اور پھر ریکارڈ کا جل کر خاکستر ہونا بہت سے اشارے دے رہی ہے۔
چائینا پاکستان اکنامک کوریڈور کی لاش اوندھے منہ پڑی ہے اب جنازے اور دفنانے کا اعلان یا تو چین کی طرف سے ہوگا یا پاکستان کی طرف سے کیا جائے گا یہ دیکھنا باقی ہے۔
This article was first published in The Balochistan Post on 12 September 2017
Комментариев нет:
Отправить комментарий