پختہ شعور اور مضبوط کمٹمنٹ کے مالک ڈاکٹر منان بلوچ ..... چیئرمین خلیل بلوچ
بلوچ قومی تحریک آزادی کے سفر میں اُن ہزاروں ساتھیوں کو یادکرتاہوں جوکل ہمسفر تھے آج شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہمارے درمیان جسمانی طورسے موجود نہیں ہیں۔ان کا کاروان اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ان کے ساتھی اُسی جوش اورجذبے کے ساتھ قربانیوں کی تاریخ رقم کرتے ہوئے سفاک دشمن کامقابلہ کررہے ہیں۔ہم پرایک ایسی دشمن قابض ہے جو مثبت انسانی اقدار اور روایات سے عاری ہے۔ اس سے توقع رکھنا کہ جنگی حالات میں زندہ قوموں کی طرح وہ جنگی قوانین کا پاس رکھے گی تو یہ خام خیالی ہوگی۔ ایک درندہ سے انسانی،اخلاقی اقداریابین الاقوامی قوانین پرعمل پیرا ہونے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ بلوچ قوم کے ساتھ سترسال کے جبر کے رشتے نے اس کا مکروہ اوربھیانک چہرہ ہم پر واضح کردیاہے اوراس دشمن سے آج کے حالا ت سے بدرجہا بدترین حالات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ جدوجہدمیں ایک منظم سیاسی کرداراداکرتے ہوئے عظیم ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیاہے ۔ عظیم ساتھی آج بھی زندانوں میں غیرانسانی اذیتیں سہہ رہے ہیں۔آزادی کی جدوجہد میں بلوچ قوم نے ایسے ایسے گوہرنایاب ہستیوں کی شہادتیں پیش کی ہیں کہ اُن پر کچھ بولنے ،لکھنے کے لئے زبان اورقلم عاجز نظرآتے ہیں ۔الفاظ سے ان کے کردار،ان کی عظمت کا احاطہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ڈاکٹرمنان جان ہیں۔ اُن کے کردار و علمی و سیاسی بصیرت پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ بلاشبہ اس ناقابل فراموش ہستی کے کارنامہ ہائے کو ایک مضمون میں سمیٹنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے ۔میں اس بات کاقائل ہوں کہ آزادی کا جدوجہدتاریخ کے ہر دور میں ،ہرقوم سے سروں کی قربانی کا تقاضا کرتا چلاآرہا ہے اورمستقبل بعید میں بھی ایسے آثارنظرنہیں آتے ہیں کہ کسی خون خرابے کے بغیر قوموں کی آزادی کو تسلیم کیاجائے ۔ انسانیت کو اس مقام تک پہنچنے کے لئے شاید ابھی اورہزاروں سال درکارہیں ۔
دنیامیں کئی قومیں ایسی خون ریز سلسلہ ہائے سے گزرکر اپنی قومی آزادی کی حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں اور آج یہ مرحلہ بلوچ قوم کو درپیش ہے۔ مجھے فخر اس بات کا ہے کہ تاریخ کے سامنے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے بلوچ قوم دنیاکی معلوم تاریخ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔آج بلوچ قوم کسی پس و پیش کے بغیر قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کررہاہے جوزندہ قوموں کا طرہ امتیاز ہے ۔انہی قربانیوں کے طفیل آج بین الاقوامی برادری کے سامنے بلوچ نے کسی حد تک دنیاپرثابت کردیاہے کہ بلوچستان ایک متنازعہ خطہ ہے اوریہ دنیا کے دیگر حل طلب مسائل میں سے ایک بڑا اوراہم معاملہ ہے جسے زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیاجاسکتاہے ۔آج ہم دنیاکے ہرکونے میں بلوچ قومی آوازسن رہے ہیں۔دنیاکے ہرملک میں بلوچ قوم کے نام لیوا موجود ہیں ۔دنیاکے بہت بڑے ایوانوں میں بلوچ کا مسئلہ زیربحث آرہاہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا اُن عظیم ہستیوں کے سرجاتا ہے جنہوں نے بلوچ قومی آزادی کے لئے اپنی سروں کا نذرانہ پیش کیاہے۔بلوچ سیاست میں ڈاکٹرمنان جان جیسے نام بہت کم ہیں کہ جو اتنی جنون کے ساتھ اتنی کم مدت میں بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بلوچ قومی آزادی کا پیغام ایک موثرسیاسی اورعلمی اندازمیں پہنچانے میں کامیاب ہواہو۔ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ بلوچستان کے طول وعرض میں ایسے بہت کم جگہ رہ گئے ہیں جہاں ڈاکٹر منان جان نے آزادی کے پیغام کو لے کر سیاسی تعلیم وتربیت کے لئے اپنا کردار ادانہ کیاہو۔ آج جہاں بھی چلے جائیں ،کسی شہر میں ،دیہات میں ،کوچے میں ،بازار میں، لوگ ڈاکٹر کا نام لیتے ہیں ،انہیں یاد کرتے ہیں۔ انہیں یادکرنے والوں میں ،ان سے پیارکرنے والوں میں ہر عمر اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔یہ بڑی شرف کی بات ہے اوریہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتاہے ۔گودارسے لے کر شال ، خاران سے لے کر سبی اورنصیرآباد ڈاکٹر منان جان کے سیاسی پلے گراؤنڈ تھے۔ ڈاکٹر منان جان نے آزادی کے جنون میں زعمران ،کولواہ ،گریشہ ،مشکے کے پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ سورگرکا وسیع پہاڑی سلسلہ عبور کرکے اپنا سیاسی پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ کبھی کھٹن راستوں یا سنگلاخ پہاڑوں کو بہانے کے طور پر نہ خود استعمال کیا نہ کسی اور کو کرنے دیا۔ ان کی بلوچ دوستی اورآزادی کا فلسفہ تھا جو ہرناممکن کوان کے لئے آسان بناتا تھا ۔ ہفتوں تک اس آسانی سے پیدل سفر کرتے تھے کہ بعض لوگوں کو حیرت ہوتی تھی کہ کمزور صحت کا مالک یہ سفر کیسے طے کر ہا ہے۔( دو دفعہ کار حادثوں میں پیر کی ہڈیاں ٹوٹنے کے بعد ڈاکٹروں نے ہڈیوں کے ساتھ دھاتی راڈ پیوست کئے تھے؛عام طور ان سے مسلسل سفر میں دشواری ہوتی ہے)۔ شہید، سرزمین کی آزادی کی جدوجہد میں جوش،جنون اورعشق کے اُس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ وہ کسی بھی جگہ جہاں کوئی بلوچ رہتاہو،کسی بھی جگہ جہاں آزادی کا پیغا م پہنچاناہو،وہاں تک جانے کے لئے دنیاکا ہر خطرہ مول لینے کے لئے تیار تھے ۔ہمیشہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے آزادی کا پیغام لے کر وہ ہر بلوچ کے پاس جانے کواپنااولین فرض قراردیتا ،لوگوں کو اپنی اعلیٰ قابلیت اورعلمی بصیرت سے قومی تحریک ،قومی بقاء اورقومی جدوجہدمیں شامل ہونے کے لئے قائل کرتا۔ آزادی کے عشق میں دیوانہ وار ہر بلوچ کے دروازے پر دستک دیتا رہا،اسی عشق اور جنون کے سفر میں وہ اپنے دائمی سفر پر چلے گئے اس عظمت پر وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک مختصر مدت میں بلوچ قومی تحریک آزادی اس حدتک عوام تک پہنچ پایاآج بلوچ عوام کی واضح اکثریت قومی آزادی کی جدوجہد سے دلی وابستگی رکھتاہے ۔تمام مشکلات ، سفاک اوردرندہ دشمن کے غیرانسانی مظالم کے باوجود بلوچ قوم اپنی قومی آزادی کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ یہ عظیم عوامی بھروسہ سیاسی موبلائزیشن کی مرہون منت ہے ۔اس میں بہت سے دوستوں کاحصہ شامل ہے مگرایک بڑی کریڈٹ ڈاکٹر منان جان کو جاتاہے ، جنہوں نے پہلے پہل اس کا ادراک کیا بلکہ اپنی سیاسی بصیرت اورشبانہ روز محنت سے وہ کارنامہ ہائے انجام دیئے ہیں جوصرف انہی کا طرہ امتیاز تھا۔یہ انہی کا جنون اورآزادی سے عشق تھا کہ انہوں نے سردی دیکھی نہ گرمی ،نہ حالات اورمشکلات کو آڑے آنے دیااورنہ قابض کی سفاکیت کورکاوٹ تسلیم کیا۔ہمیشہ ڈٹے رہے۔ سیاسی محاذپربی بی سی کے نامہ نگارنے ان مشکل حالات میں سیاسی سرگرمیوں پرحیرت کااظہارکیاتوشہیدنے بے دھڑک جواب دیاکہ ’’سیاسی عمل رکاتوہم تباہ ہوجائیں گے ‘‘۔ ایک ایسی سیاسی شخصیت جوقومی تحریک کی کامیابی کے لیے تمام ذرائعوں کی اہمیت کے قائل تھے مگران پرسیاسی عمل کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہرقومی تحریک میں فوقیت سیاست کوحاصل ہوتاہے۔ ہم جوبھی دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں اُن سب کی اپنی اپنی اہمیت مگر سب کو سیاست کے تابع ہوناہے۔ ڈاکٹرصاحب اس پر بلوچ سیاست میں کامیاب رہے ۔آج بلوچ قومی تحریک دنیامیں ایک باوقارسیاسی حیثیت میں پہچاناجاتاہے ۔آج بلوچستان اوربلوچستان سے باہر نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیارہوچکی ہے جو دنیاکی سیاست پرقابل تعریف گرفت کے مالک ہیں ،جنہیں دنیاکے سیاسی نشیب وفراز کاعلم ہے جواس خطے میں ہوش ربا تبدیلیوں کا علم رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے جو لوگ واقف ہیں وہ بہتر طورسے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب میں وہ تمام انقلابی صفات موجود تھے جوایک انقلابی قائدمیں ہونے چاہئیں۔مجھے آج بھی وہ دن بے تحاشا یاد آتے ہیں جن دنوں پارٹی قائد شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ زندا ن میں بند تھے۔ اُس وقت بہت اوربھی سینئر اورسرگرم ساتھی بی این ایم میں شامل تھے مگرڈاکٹر منان بلوچ اورڈاکٹر دین جان (جو نو سالوں سے خفیہ زندانوں میں بند ہیں)کو میں نے دیکھا ہے کہ ایسی مہر و محبت کے ساتھ پارٹی پروگرام کے لئے دن رات ایک کرکے موبلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانا، مشکل حالات میں اتنی جانفشانی اورتندہی سے کام کرناکہ آج بھی دلوں پر نقش ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر منان جان کی شہادت اور واجہ غلام محمد کی شہادت دو ایسے نقصان ہیں جنہیں ب تک شاید ہی کسی اور رہنما کی وجہ سے ہوئے ہوں۔ انہوں نے اپنے کام سے نام کمایا اور فوائد براہ راست قومی تحریک کو ملیں۔ وہ پیدائشی طور پر ایک عام بلوچ تھے اور اپنی محنت اور حب الوطنی سے سب کے دلوں میں راج کر گئے۔ ان کی شخصیت کے پیچھے صرف ان کا سیاسی عمل تھاکسی دیگر عنصر کا عمل دخل نہیں تھا۔ ایسے سیاسی رہنماؤں کاشہادت یقیناًقومی تحریک کے لئے بہت بڑے نقصان ہیں۔
میں بی ایس او سے فارغ ہوکربلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیارکرچکاتھاتومجھے اچھی طرح یادہے کہ اُس دوران ڈاکٹر منان جان کابینہ اورسینٹرل کمیٹی میں بھی نہیں تھے مگر انہیں ایسی باتوں سے سروکار نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیاکہ جوسرگرمیاں وہ اداکررہے ہیں یہ سینٹرل کمیٹی یا کابینہ کے ساتھیوں کی ذمہ داری ہے، انہیں سرگرم ہوناچاہئے۔ نہیں۔ وہ ایسی باتوں سے بالاتر تھے ۔ پارٹی میں ایک ممبرتھے یاکسی عہدے پرفائز تھے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر کرداراداکرتے رہے ۔ انہیں ہروقت اپنے کام سے غرض تھا۔ آزادی کے پیغام سے غرض تھا اورہرقیمت پربلوچ قوم کاپارٹی کے ساتھ رشتہ محکم کرنا چاہتے تھے۔
اپنی سیاسی بصیرت اورعلمی دسترس کی وجہ سے مزاج آشنا اورگوہرشناس انسان تھے ۔موبلائزیشن ان کا محبوب مشغلہ ،عوام کے درمیان کام کرناان کا اوڑھنا بچھوناتھا ۔وہ اسی مقصد کے لئے جئے اوراسی مقصدکے اپنی جان سے گزرگئے ۔ہم نے ایک مختصرمدت تقریبانوسال اکٹھے کام کیا تومیں نے ہمیشہ دیکھا کہ پیہم برق رفتاری سے کام کرنا ،پارٹی اداروں کی استحکام کے لئے مشقت سے کام کرنا، آگاہی پھیلانا ،کبھی نہ تھکنا،سستانانہیں ۔اسی مقصدکیلئے جان ومال، گھر بار ،ذرائع معاش و پیداوار سمیت اپنی ہر شئے کواس مقصدکے لئے وقف کرچکے تھے ۔ شہیدڈاکٹرمنان جان بلوچ قومی تحریک میں اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے اورادارہ سازی کے بڑے علمبردار تھے ۔وہ ہمیشہ ادارے کی پلیٹ فارم سے سیاست اور ادارے کومستحکم کرنے میں مصروف رہے ۔بلوچ قومی تحریک کے ماضی کے تجزیے سے وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ صرف ادارہ سازی ہی وہ راستہ ہے کہ جس پر قائم رہ کر نہ صرف آزادی کے جدوجہدکوایک باقاعدہ تسلسل کے ساتھ برقراررکھا جا سکتا ہے بلکہ ادارہ ہی کے ذریعے ہم قومی منزل کے حصول میں کامیاب ہوپاتے ہیں ۔
پارٹی اورپارٹی ادارے پراسی راسخ عقیدے کی وجہ سے ،میں سمجھتاہوں کہ ہم بلوچ نیشنل موومنٹ جیسے سیاسی ادارے کے پلیٹ فارم سے قومی کازکے لئے جد و جہد کر رہے ہیں۔ آج بلوچ نیشنل موومنٹ جس مقام پر ہے اس میں ڈاکٹر صاحب کی وژن ،ڈاکٹر صاحب کی شبانہ روز محنت اورکارکردگی کابڑا عمل دخل ہے ۔ایک بڑے سیاسی رہبرورہنمائکے ساتھ ساتھ ان کا مقام ایک سیاسی استاد کابھی ہے ۔ہمیشہ سیاسی درس وتدریس ، مطالعہ و جستجو میں مصروف رہے۔ نہ صرف خود بلکہ کارکنوں کو بھی تلقین کرتے تھے کہ کتا ب سے ناطہ نہ ٹوٹنے پائے۔ علم کا شیدائی اپنے تمام کارکنوں میں علمی بصیرت دیکھنے کے متمنی تھے ۔اپنے کارکنوں میں علم کی پیاس دیکھناچاہتے تھے ۔ حالات جیسے بھی ہوتے وہ نہ صرف خود کثر ت سے مطالعہ کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کوبھی مطالعہ کرنے کی درس دیتے تھے ۔ایک عالم باعمل انسان جو آج رول ماڈل اورآئیڈیل کردار بن کر ہمارے سامنے ہے۔ ایک اعلیٰ وعلمی پایے کا رہبراُن کی ہر بات تاریخ کے صفحات پر درج ہیں۔ تاریخ لکھی جارہی ہے۔ ایک دن جب یہی مورخ تاریخ کے اوراق کو پلٹے گا توانہیں ضرور ڈاکٹر منان بلوچ کے سیاسی قدوقامت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہوگا ۔
میں سمجھتاہوں کہ وہ بی این ایم کے بے لوث رہنماء تھے جن کی زندگی پارٹی پروگرام کے لئے وقف تھا۔ میں بہت متاثر تھا۔ ایک ایسی ایکٹوسٹ جن کا کام ،جن کا مقصد اورجدوجہدضرور ایک دن اپنی منزل کو پہنچ جائے گا۔۔۔۔وہی صفات جو ایک بہترین جہدکارمیں ہونے چاہئیں وہ ڈاکٹر صاحب میں موجود تھے ۔۔۔اسے میں اپنے لئے ایک خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ ہرقسم کے بحرانوں ،مشکل حالات یا نام نہاد بحران پیدا کرنے کی کوششیں ہوں، ان تمام حالات میں اگرمیں نے اپنے آس پاس کوئی محکم ساتھی دیکھاہے کہ انتہائی مستعدی کے ساتھ ہمہ قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیارہو، تووہ ڈاکٹر منان بلوچ تھے ۔وہ بلوچ قومی تحریک میں موجود دوسرے تنظیموں کے بحرانوں اور مشکلات کو بھی حل کرنے کی ترغیب دیتا رہا اور کوششیں کرتا رہا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی وہ ایک ایسی ہی کوشش میں مصروف کئی دیگر رہنماؤں سے ملاقات کر چکے تھے تاکہ ان کی مدد کی جاسکے، یا قربت و اتحادیا اشتراک عمل تک راہیں کھولی جاسکیں۔
اس بات سے کسی کو انکارممکن نہیں کہ شعوراور کمٹمنٹ ایک ساتھ ہوں توانہیں دنیاکی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی،اوریہ بات ہم نے عملی صورت میں ڈاکٹر منان جان کی شخصیت میں پایااورانہوں نے دنیاپر ثابت کردیاکہ پختہ شعوراورمضبوط کمٹمنٹ کو شکست دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ڈاکٹر صاحب بلاشبہ انتہائی پختہ شعور کے حامل اورجدوجہدکے ساتھ کمیٹڈ انسان تھے ۔دشمن انہیں کسی بھی مقام پر شکست نہیں دے سکا۔دشمن نے ہزارجتن کئے مگر ہرمحاذپر دشمن ہی نے گھٹنے ٹیک دئے۔۔۔میں سمجھتاہوں کہ ایک پختہ شعورکے حامل اورکمیٹڈ رہبر اپنی جدوجہدکو انقلابی پیمانوں میں ڈھال کرآئندہ نسلوں کومنتقل کرسکتاہے۔ ڈاکٹر منان جان نے اپنے فکر و عمل سے یہ کام بڑی خوبصورتی سے انجام دیا۔آج ان کا کاروان ایک اورنسل کو منتقل ہورہاہے ۔مضبوط ہاتھوں میں منتقل ہورہاہے ۔ڈاکٹر صاحب کی علم و زانت اورپختہ شعورنے اپنی جدوجہدکو آئندہ نسلوں کے لئے جس نہج پر تیار کیا ہے اسے شکست دینا ناممکنات میں سے ہے اور تاریخ یہ بات ضرور ثابت کرے گی۔
ڈاکٹر منان جان کی زندگی کاایک اورگوشہ جس پرمیں یقینابات کرناچاہوں گااوریہ ان کا رویہ ہے ،ایک ایسا لافانی رویہ جس پر ایک جہاں فدا تھا۔ایک سدا بہار شخصیت کہ حالات کے سرد وگرم نے انہیں کبھی متاثر نہیں کیا۔وہ عوامی مزاج سے آشنا اورعوام کی زبان بولنے والے انسان تھے۔ ایک کھلا، دلکش اورالفت بھرا رویہ اپنے پارٹی ورکروں سے لے کر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کے لئے دوستانہ اوربے تکلفی کاجواندازہم نے ڈاکٹرصاحب میں دیکھا ہے وہ کم ہی لوگوں میں ہوگا ۔لوگوں کو متاثرکرنے کی بہت بڑی صلاحیت کے مالک تھے ۔ایک بہترین موبلائزر جوموبلائزیشن کے تمام رموزسے آگاہ تھے ہمیشہ بڑی نفاست کے ساتھ انتہائی آسان الفاظ میں ،عوام کی زبان میں عوام کو سمجھا تا ،اپنی موقف بیان کرتا ،ان کی رائے لیتا ،اس رائے کا تجزیہ اورتحلیل کرتااوراس کی روشنی میں نئی حکمت عملی تیارکرتا۔جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکاہوں۔ وہ بلوچستان کے اکثرو بیشترعلاقوں کادورہ کرچکے تھے۔ شہید، بلوچ سرزمین ،بلوچ جغرافیہ سے حیران کُن حد تک واقف تھے ۔مشکل سے مشکل علاقہ ان کے نظروں سے اوجھل نہیں تھا۔کسی نہ کسی طریقے سے وہاں تک پہنچ پایا ۔اپنی شگفتہ بیانی اورسیاسی بصیرت سے لوگوں کے دلوں میں گھرکرلیا،بلوچ سیاست میں عوام کے دلوں پر راج کرنے لئے کسی بلوچ سیاسی رہنما میں وہ صفت موجود تھے تومیں بے دھڑک کہتاہوں کہ وہ ڈاکٹر منان جان شہیدتھے ۔
آخرمیں مختصرالفاظ میں ڈاکٹر منان جان کی شخصیت کے بارے میں ایک اوربا ت عرض کروں کہ تنقید یا خودتنقیدی دونوں میں اپناثانی آپ تھے ۔تنقید کرنے میں سامنے والے کالحاظ رکھتے اور نہ کبھی خود تنقیدی میں اپنے آپ کو معاف کیا مگرزبان ہمیشہ شائستہ اورسیاسی رہا۔پیچیدہ سے پیچیدہ سیاسی اختلافات پر اپنی رائے کااظہار نہایت خوش اسلوبی سے کرتے ۔تنقید ہمیشہ پارٹی فورم اورمتعلقہ اداروں میں کرتے تھے ۔نہ صرف پارٹی ،پارٹی دوستوں بلکہ پارٹی اتحادیوں اورجدوجہدسے منسلک تمام پارٹی ،تنظیم اورشخصیات کے بارے میں نہایت جرات اوربہادری کے ساتھ اپنے تنقیدی رائے کااظہارکرتے اورہمیشہ کہتے کہ جدوجہد میں بنیادی طورپر رویوں کی تعمیر کے لئے ،اپنی اصلاح کے لئے ،تحریک میں مثبت اقدارکی فروغ کے لئے تنقید اورخودتنقیدی انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم صحیح اورغلط کے درمیان فرق ، تعمیری سوچ کی فروغ اوراپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصررہیں گے ۔
میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنوں سے یہی کہتاہوں کہ ہمارے لئے ڈاکٹرمنان جان کی زندگی مشعل راہ ہے ،ہمیں ان کی بے مثال رویے کی پیروی کرکے ان کے تعلیمات پر،ان کی طرز سیاست پرعمل کرنا چاہئے۔انہیں اپنارول ماڈل مان کر چلناچاہئے ،جب تک ڈاکٹر منان بلوچ جیسے ہستیوں کے تعلیمات پر عمل کرنے والے کارکن اوربلوچ نیشنل موومنٹ جیسا رہنما ادارہ موجود ہے ،دنیاکی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔فتح ہمارا ہی ہوگا۔ آزادبلوچستان زندہ باد
Комментариев нет:
Отправить комментарий