بلوچ خواتین کے اغواء کا سنگین مسئلہ _ دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
یاران دیار
شورش زدہ خطے بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں خواتین پر تشدد، حراست کے بعد لاپتہ کرنے، جنسی طور پر حراساں کرنے اور عصمت دری جیسے واقعات میں شدت و اضافے کے بعد سوشل میڈیا، بلوچ میڈیا، قوم پرست پارٹیوں، تنظیموں اور مقامی سماجی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر شور وغل جاری اور کشیدگی کی فضاء برقرار ہے۔
آج جمعے کے ہی روز ایک بلوچ قوم پرست رہنماء، بی ایس او کے سابقہ چیئرمین اور بی این ایم کے سابقہ سیکرٹری جنرل رحیم بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے، انہوں نے یہ پاکستانی فورسز پر سنگین الزام لگاتے ہوئے ایک اور خاتون امینہ بلوچ بنت محمود کے اغواء کا ذکر کرتے ہوئے، اس واقعے کا ذمہ دار پاکستان آرمی کو قرار دیا ہے۔
رحیم بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا کہ “جھاؤ کے رہائشی امینہ بلوچ بنت محمود کا اغواء پاکستانی آرمی کی ایک شرمناک حرکت ہے اور اس طرح کے اعمال سے پاکستانی آرمی نے1947 کے اقوام متحدہ کے ‘جنگی و ایمرجنسی حالات میں خواتین و بچوں کی حفاظت’ جیسے قانون کی خلاف ورزی کی ہے”۔
یاد رہے کہ رواں ماہ بلوچ قوم پرست جماعتوں نے پاکستانی فورسز پر الزام عائد کیا تھا کہ چار جون 2018 کو بلوچستان کے ضلع واشک کے علاقے ناگ رخشان میں امدادی سامان کی تقسیم کےلیئے خواتین کو زبردستی آرمی کیمپ منتقل کرکے ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اُن کی عصمت دری کی گئی تھی۔ ان خبروں کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور اس واقعے کے خلاف بلوچستان و بیرونِ ممالک میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کرائے گئے تھے۔
مذکورہ واقعے کے حوالے سے بلوچستان کی سب بڑی قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ “واشک میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پاکستانی جنگی جرائم پر خاموش انسانی حقوق کے دعویدار تنظیموں کے منہ پر تمانچہ ہے”۔ انہوں نے مذید کہا تھا کہ “رخشان کے فوجی کیمپ میں کئی خواتین کو جبری طورپر منتقل کرکے انہیں وحشی فوجی اہلکاروں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر،ان کی آبروریزی کی لیکن ان کی دلدوز چیخیں خاموش میڈیا اور عالمی اداروں تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ بلوچستان عالمی میڈیاکی عدم رسائی اور پاکستان میڈیا کے بائیکاٹ کی وجہ سے ایک بلیک ہول بن چکا ہے۔”
واضح رہے کہ ایک شورش زدہ اور جغرافیائی حوالے سے دشوار علاقہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان خاص طور پر اندرونِ بلوچستان میڈیا کی رسائی نہیں ہوپاتی اور دوسری جانب مقامی میڈیا کو بھی یہاں کئی خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ سال قبل صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے بلوچستان کے سب سے بڑے ضلعے اور مرکزی شہر خضدار کو صحافیوں کیلئے دنیا کے 20 خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
دوسری جانب بلوچستان کے صحافی اکثر و بیشتر یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ ان کو صحافتی فٖرائض سر انجام دینے میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے، ان کا کہنا ہے کہ “اگر ہم پاکستانی حکومتی و خفیہ اداروں کی بات سن کر بلوچستان کے خبروں و قومپرست پارٹیوں کے بیانات کو نظر انداز کردیں، تو ہمیں قوم پرست سیاسی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا ہوتا ہے اور مسلح تنظیموں کی جانب سے بھی دھمکیاں ملتی ہیں اور اگر ہم تمام واقعات کی رپورٹنگ کریں، تو ہمیں خفیہ اداروں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں، ایسی حالت میں ہم کس کے پاس جائیں سمجھ میں نہیں آتا۔
پاکستان میں صحافیوں کے اغواء، قتل اور ان پر قاتلانہ حملوں جیسے واقعات اکثر و بیشتر خبروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور کئی مقامی و بینالاقوامی ادارے اس طرح کے حملوں کا الزام پاکستانی خفیہ اداروں پر لگاتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آزادی صحافت کے بارے میں بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی جانب سے اپریل 2018 کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آزادی صحافت کو انتہا پسند گروپوں، دینی تنظیموں اور انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں نشانہ بننے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔”
خواتین کے اغواء و عصمت دری کے واقعات پر طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں فوجی آپریشنز اور خواتین کو حراساں اور لاپتہ کرنے کے واقعات پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ “بلوچستان کے مختلف علاقوں سے خواتین کو لاپتہ کرنے اور ان پر تشدد کے واقعات منظر عام پر آچُکے ہیں گذشتہ دنوں رخشان ناگ میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات، آواران، جھاو، مشکے سے خواتین کے اغوا اور تشدد کے بعد شہادت کے واقعات بھی اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔”
مذید پڑھیں: بلوچ خواتین کو فوجی کیمپوں میں منتقل کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے:بی ایس او آزاد
ناگ رخشان واقع پر بلوچ آزادی پسند مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما اسلم بلوچ نے سماجی رابطے کے ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے جاری کردہ پیغام میں کہا ہے کہ “بلوچستان کے علاقے واشک میں بلوچ خواتین سے غیرانسانی سلوک کرکے پاکستانی فوج نے اپنی بدکرداری کا ایک مرتبہ پھر تاریخی ثبوت پیش کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام عالم پاکستانی جنگی جرائم کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔”
اس موقعے پر بلوچستان کے ایک اور معروف بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “بلوچستان میں پاکستان کے زیر قبضہ انتخابا ت کو ناکامی سے بچانے کیلئے پاکستانی فوج مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ایک اور دلخراش واقعے میں وحشی فوج نے درجنوں خواتین کو اپنی حوس کا نشانہ بنا کر ان کی عصمت دری کی ہے اور ایک حاملہ خاتون پر تشدد کرکے بچہ گرایا گیا ہے۔ چار جون کو ضلع واشک کے علاقے ناگ رخشان میں امدادی سامان کی تقسیم کے نام پر خواتین کو زبردستی فوجی کیمپ میں منتقل کرایا اور ان کو زدوکوب کرکے ان کی عصمت دری کی اور ایک حاملہ خاتون کو زبردستی حاملہ کرنے کے بعد اس کے بچے کو ضائع کیا گیا۔ دور دراز علاقہ، فوجی حصار اور مواصلاتی نظام کی کمی کی وجہ سے ایسی خبریں باہر نہیں آتی ہیں یا بہت دیر بعد پہنچتی ہیں۔ یہ علاقہ چین پاکستانی اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے کی روٹ پر واقع ہے گوکہ سی پیک روٹ پر بلوچوں پر مظالم نئی نہیں ہیں، مگر اس تعداد میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری کا کربناک واقعہ ہے۔ اس سے پہلے مکران میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کا واقعہ پاکستانی فوج کا بنگالیوں کے خلاف ہونی والی غلیظ جنگ کا تسلسل ہے۔ ایک لاکھ بنگالیوں کی عصمت دری اور نسل کشی پر دنیا نے خاموشی اختیار کرکے پاکستان کو ایک اور موقع دیا کہ وہ بلوچوں کے ساتھ وہی سلوک کرے۔ اکیسویں صدی میں دنیا نے اگر اس میں مزید تاخیر کی تو یہ انسانی المیہ تاریخ میں ایک سیاہ باب ہوگا اور اس میں تمام عالمی قوتیں قصور وار ٹہرائے جائیں گے۔”
اس حوالے سے کوئٹہ سے اسلامآباد طویل لانگ مارچ اور گذشتہ 3014 دنوں سے مسلسل علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کرکے احتجاج کرنے والے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے 21 جون کو ایک جاری کردہ بیان تیرہ میل واقعے کے ردعمل میں کہا تھا کہ “اب بلوچ خواتین کی عصمت دری کے علاوہ خواتین کی ٹارگٹ کلنگ بھی شروع کی گئی ہے۔”
یاد رہے 21 جون کو ایک واقعے میں فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے کاروائی کرکے چار دہشتگرد ہلاک کیئے ہیں، لیکن بعد ازاں میڈیا پر تصاویر آنے کے بعد یہ واضح ہوا تھا کہ فورسز کے کاروائی میں مارے جانے والوں میں ایک بلوچ خاتون اور ایک کمسن بچہ تھا جنہیں دہشت گرد ظاہر کیا گیا تھا۔ اس بابت بلوچ آزادی پسندوں نے الزام عائد کیا تھا خاتون سمیت چاروں افراد کو فورسز نے پہلے سے ہی اغواء کیا ہوا تھا اور بعد ازاں انہیں جعلی مقابلے میں ماردیا گیا۔
واضح رہے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستانی افواج پر خواتین کے اغواء اور ان پر جنسی زیادتی کا الزام لگا ہے، اس سے پہلے 1970۔71 کے دوران پاکستان افواج اور جماعت اسلامی پر ” جنسی نسل کشی” کا الزام لگتا آیا ہے۔ جہاں ایک اندازے کے مطابق دس سے بیس لاکھ سے زائد بنگالی خواتین کو اغواء کرکے انکو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور تقریبا ایک سے دو لاکھ خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس نسل کشی کی تصدیق جسٹس حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں کی گئی تھی۔ یاد رہے ان واقعات کی تصدیق اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام عالمی ادارے کرتے ہیں۔