جرات و بہادری کا پیکر شہید رشید عرف بابو
مہراب مہر
جو لوگ زندہ ہوتے ہیں انھیں سمجھنے اور باریک بینی سے جاننے کی خواہش نہیں ہوتی کیونکہ دل میں ہمیشہ سے یہی امید چمکتی رہتی ہے کہ یہ دوست ہمیشہ سے میرے ساتھ رہے گااور ان کے بڑے بڑے سے خیالات کو ہنستے مسکراتے ٹال دیتے ہیں کیونکہ ان باتوں کو پھر سے سننے کا آسرا ہوتا ہے ۔اس وجہ سے ہم اس لاپرواہی میں بہت سے دوستوں کے خیالات کو تاریخ کا حصہ نہیں بنا سکتے۔ہمارے ساتھ شروع سے المیہ رہا ہے کہ ہم آج تک اپنے سیاسی تاریخ کو مرتب نہ کرسکے ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے تحقیق طلب مواد سامنے لائے ہیں۔ماضی کے پر کٹھن حالات سے گذرنے کے بعد بھی ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ۔نہ کوئی تاریخی کتاب اور نہ کوئی روئیداد۔اسی وجہ سے بعض حقائق ہم تک نہیں پہنچ پائے اور وہ تاریخ انھیں کرداروں کے سینے میں چار من مٹی کے نیچے دفن ہو گئے۔اسی طرح زندہ کردار جو کہ ہمارے سامنے سالم زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ان سے وابستہ اپنے خیالات تک تاریخ کا حصہ نہ بنا سکے ہیں اسی بناء پر بہت سے کردار آج تک ہم سے مخفی ہیں۔حالیہ جنگ آزادی میں ہم جن طوفانی حالات کا شکار رہتے ہیں یہ حالات و تجربات ہمارے لیے نئے ہیں ماضی سے اس حوالے سے کوئی تحریری مواد ہمارے سامنے نہیں اور جو مواد ہمیں ملا ہے وہ حقائق سے دور قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں ماضی کی وہی کوتاہیاں آج ہمارے خون میں د وڑ رہے ہیں اسی وجہ سے ہمارے شہیدوں کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی خاص مواد نہیں اور نہ اس تاریخی جہد آزادی کے تسلسل کا کوئی مواد ہمارے سامنے آیا ہے کہ جنہیں پڑھ کر ہم ماضی و حال کے کرداروں کے حوالے سے آشنا ہوتے۔قوموں کی تاریخ ان غیر معمولی واقعات جو وہ غیر معمولی کردار ان پر سفر کرتے ہیں تاریخ بن جاتے ہیں۔قوموں کی پہچان وہ قبرستان ہوتے ہیں جہاں وطن پر مرمٹنے والے سورما دفن ہوتے ہیں جو قوم کی تقدیر بدلنے کا بھیڑا اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔انھی طرح کے کرداروں میں دو ایسے کردار ہیں جنہیں بلوچ جہد میں ہم شہید رشید عرف بابو شہید شاہ جہان عرف ملک کے نام سے جانتے ہیں۔شہید رشید عرف بابو نے اپنی آنکھیں مستونگ کے ملگزاروں میں کھولی جب اس نے جوانی میں قدم رکھا تو بلوچ وطن کو ریاستی ظلم و ستم میں پایا۔جب بلوچ جہد آزادی کے لیے مسلح مزاحمت شروع ہوئی تھی تو 2003میں کاہان کے پہاڑوں میں ٹریننگ کرنے کے بعد شہری نیٹ ورکا حصہ بن چکے تھے۔وہ کسی سیاسی ادارے میں نہیں رہے تھے جہاں اسکی سیاسی تربیت ہوتی اسکی سیاسی تربیت ریاستی جبر نے کی تھی اس نے ہر طرف سے اپنے وطن کو دشمن کے نرغے میں پایا غلامی کا احساس اسکے دل میں پنپنے لگا اور اس نے آزاد وطن کے قیام کے لیے میدان جنگ کا حصہ بن گیا شہید سفر خان فیض محمد یوسفزئی بابو عبدالکریم شورش کے آبائی علاقے میں شہید رشید نے ماضی کے کرداروں کی تاریخ کو دہرایا اور بلوچ جہد آزادی کا حصہ بن کر اپنے شہادت تک دلیری کے ساتھ دشمن پر وار کرتا رہا۔ شہید رشید سیاسی اداروں کی جد وجہد سے مطمٰن نہیں تھا وہ اکثر جنگ کو ہی بنیاد سمجھتا تھا کہ آزادی بزور طاقت لے جاسکتی ہے اور سارتر کی طرح وہ بھی تشدد کا جواب تشدد کو ہی سمجھتا تھا،اور اکثر اپنے محفلوں میں جذباتی انداز میں دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا درس دیتا تھا اور دشمن کو کاری ضرب لگانے کا حوصلہ رکھتا تھا اور اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت بھی کردیا تھا ،شہید رشید اپنے جنگجوانہ صلاحیتوں کی بدولت تنظیم میں ایک منفرد مقام حاصل کرپایا اور اپنی دلیری بہادری جرات و اپنی جنگجوانہ صلاحیتوں کی بدولت وہ جلد دوستوں میں معروف ہوگیا لیکن اپنے سخت مزاج کی وجہ سے ہمیشہ دوستوں سے قدر فاصلے پر رہا۔دوستوں کے ساتھ گھل ملنے میں وہ ہمیشہ ناکام رہا بلکہ وہ اپنی تنہائی یا ایک دو دوستوں شہید خلیل و شہید شاہ جہان کے علاوہ دیگر دوستوں سے ہمیشہ دور ہی رہا بلکہ کام کے علاوہ دوستوں سے دوستانہ رشتے قائم کرنے کا خواہاں نہ تھا ۔قومی جذبہ جو اسکی رگ رگ میں دوڑ رہی تھی ہر وقت عسکری کام کرنے کی خواہش اور دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لیے سرگرداں نظر آتا تھا ۔سیاسی معاملات پر بحث مباحثے میں وہ ہمیشہ خاموشی اختیار کرتا لیکن بات جب عسکری محاذ کی ہوتی تو اسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اپنی عسکری صلاحیتوں کی بدولت وہ ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتا تھاشہری محاذ سے لیکر پہاڑوں میں وہ ہر محاذ پر فرنٹ لائن میں اپنا کردار ادا کرتا رہا چھوٹے ہتھیار سے لیکر بڑے ہتھیار تک جو کہ گوریلا جنگ میں استعمال کیے جاتے ہیں سب پر عبور رکھتا تھا ۔مشین گن سے لیکرراکٹ کلاشنکوف و پسٹل تک سبھی پر وہ ماہرانہ عبور رکھتا تھا اور مختلف محاذوں پر مختلف ہتھیار اسکے زیر استعمال رہے ہیں۔کوہلو کاہان کے سنگلاخ چھٹانوں سے لیکر بولان و قلات کے پہاڑوں میں ہر محاذ پر دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتا رہا ۔وہ کبھی بھی دیگر دوستوں کو عسکری حوالے سے اپنی زانتکاری کا احساس نہیں دلاتا تھا بلکہ خاموشی سے عسکری حوالے سے انکی باتوں کو سنتا تھا۔وہ ایک مثالی سپاہی تھا اور میدان جنگ میں بے لوث جذبہ بہادری دلیری اسکی پہچان تھی۔شہری محاذ میں کوئٹہ سے لیکر مستونگ تک ہر محاذ پر دشمن پر حملہ آور ہوتا رہا اور زیادہ تر کارروائیاں اسکی بہتر منصوبہ بندی و حکمت عملی سے کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔بعض اوقات حالات اسکے حکمت عملی و منصوبوں کو روکنے کا سبب بنتے تھے لیکن وہ کسی بھی حالت میں گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوا بلکہ اپنے منصوبے پر عمل پھیرا رہا اور کامیابی اسکے نصیب میں ہوئی۔پختہ عظم کے ساتھ وہ میدان جنگ کی طرف جاتے جب ارادہ پختہ ہوتا ہے تو جیت آپکے قدموں میں ہوگی۔ اور شہید رشید ایسے ہی کردار تھے ۔جو فیصلہ کرتے اس پر عمل کرنے میں دیر نہیں کرتے اور جب تک اس کام کو انجام نہیں دیتے آرام سے نہیں بیٹھتے تھے۔کام ختم کرنے کے بعد دوسرے ٹارگٹ کی تلاش جاری رکھتے۔اسکی دلیری و بہادری و بے لوث جذبے نے اسے دیگر دوستوں سے منفرد بنا دیا تھا شہری نیٹ ورک کی کمانڈ کرتے رہے اور دلیری کے ساتھ دشمن پر وار کرتے رہے۔اور پہاڑوں میں وہ فرنٹ لائن پر لڑتے رہے شہید رشید شہری نیٹ ورک میں کام کرنے کے علاوہ پہاڑ میں بھی ایسے ہی صلاحیتوں کے مالک رہے بولان کے پہاڑوں میں دشمن پر حملہ کرنے دشمن سے دو بدو لڑائی میں زخمی ہوئے تھے اور اسکے ذمے آر پی جی راکٹ تھا وہ دلیری کے ساتھ میدان میں لڑے تھے ایک گولی اسکے پاؤں پر لگی تھی جس سے وہ شدید زخمی ہوئے تھے لیکن وہ زخمی ہونے کے باوجود اپنے اسلحہ سمیت دشمن کے گھیراؤ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے اور دو گھنٹے تک اپنی تکلیف دوستوں سے چھپاتے رہے ۔جب آپ اپنے وطن کے لیے لڑیں گے تو خدا کے فرشتے بھی آپکی صحت یابی کے لیے دعا گو ہونگے ۔شہید رشید کے ساتھ شہید علی شیر کرد عرف بابو نے شہید رشید کے زخموں کا لوکل علاج کرتے رہے ۔ یہ 2005کی بات ہے اور پھر شہید رشید واپس شہری نیٹ ورک میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں ۔شہری کام مکمل کرنے کے بعد شہید رشید پھر پہاڑ کا رخ کرتے ۔بولان کے پہاڑوں میں ایک پھر وہ
زخمی ہوئے اس بار بھی قسمت نے اس کا ساتھ دیا ایک پھر وہ موت کو چھکما دیتے ہیں اور زخمی ہونے کے باوجود وہ تین گھنٹے تک دشمن سے لڑتے رہے ۔زخم کے ٹھیک ہونے کے بعد وہ پھر سے شہر لوٹ آیا اور شہری محاذ میں وہ پھر دشمن فوج پر حملہ کرتے رہے اور کامیاب ہوتے رہے ۔جب بھی اس سے ملاقات ہوتی بات چیت چلتی رہتی تو وہ ہمیشہ کہتے ’’مرنا جینا خدا کے اختیار میں ہے لیکن دشمن کے ہاتھوں میں ظلم و جبر برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ انسان آخری دم تک لڑتا رہے اور ایک گولی اپنے لیے رکھے تاکہ وقت آنے پر کام آسکے‘‘اور انھوں نے اپنے کئے ہوتے باتوں کو ثابت کردیا کہ وہ جو کہتا وہی کرتا۔شہید رشید عرف بالو عرف شیدے اپنی مزاج کی وجہ سے شہر میں بھی تنہا تھا اور پہاڑ میں بھی ۔ وہ دوستوں سے گھلنے ملنے کو پسند نہیں کرتا اسکے دو قریبی دوست شہید خلیل و شہید شاہ جہان تھے جو دونوں اسکے جیسے ہی تھے دونوں میدان جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑنے دشمن پر حملہ کرنے میں ماہر تھے شہید خلیل کی شہادت کے بعد شہید رشید و شہید شاہ جہان قریبا ہر محاذ میں ایک ساتھ رہے تھے اور دلیری کے ساتھ دشمن پر وار کرتے رہے تھے اور شہادت کے وقت بھی دونوں ایک ساتھ لڑے تھے اور جام شہادت نوش کر گئے تھے ۔شہید رشید زندگی و موت دونوں سے بہت پیار کرتا تھا وہ زندگی و موت کی حقیقت سے آشنا تھا جب تک زندگی ساتھ دیتی رہی وہ مسرت و خوشی میں اپنے دن گذارتا رہا جب موت کی خبر آئی تو وہ موت سے بے خوف بغل گیر ہوا ۔اسکی دلیری بہادری بے لوث جذبہ و بے خوف و خطر دشمن پر حملے اسے دیگر سر مچاروں سے منفرد بنا دیتے ہیں ہر وہ پتھر ہر وہ جگہ جہاں شہید رشید ان سے ایک لمحے کے لیے مخاطب ہوا ہو اسکی یادوں کا منبعہ ہے جہاں بھوک پیاس تھکاوٹ کو شکست دیتے ہوئے آزادی کے یہ سپاہی وطن کی حفاظت کر رہے تھے اور وطن کے میدان پہاڑ شہید کے گرتے خون کے قطروں کی گواہی دینگے جو وطن کی آزادی کے لیے بہادری کے ساتھ دشمن سے ہر محاذ پر نبردآزما رہے۔شہید سرزمین کی آزادی کے لیے اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے رہے شاہد دھرتی کے حق خون سے بھی ادا نہیں کیے جاسکتے کیونکہ سرزمین کی آزادی کے لیے قربانیوں کے لامتنائی تسلسل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ تسلسل صدیوں پر محیط ہو سکتی ہے پھر بھی اسکے حق ادا نہیں کیے جاسکتے ۔جدوجہد وقتی نہیں اور نہ ہی اسکی مدت مقرر ہوتی ہے جب تک آزاد وطن کے مالک نہیں ہوسکتے اس وقت تک دشمن سے ہر محاذ پر لڑنا ہوتا ہے اور کامیابی کی امید لیے دشمن کو ہر محاذ پرشکست دینا ہوتا ہے شہید رشید عرف بابو عرف شیدے گیارہ سالوں تک مسلسل جنگ آزادی میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کرتے رہے اور اپنے بے لوث جذبے و بہادری کے ساتھ شہادت کے رتبے تک پہنچے آج سرزمین اپنے دوسرے بیٹوں کی طرح اپنے اس بیٹے پر نازاں ہیں جو دھرتی ماں پر دئیے گئے زخموں کا مدوا کرتے رہے اور دھرتی کو جھکڑے ان سلاخوں کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔موت برحق ہے اور ہر انسان کو ایک نہ ایک دن موت آنی ہے لیکن اس موت کی کیا شان ہوگی جو دشمن کو کاری ضرب لگانے کے بعد ہو اور موت خود انسان کے خواہشوں کے تابع ہو ۔شہید رشید شہید شاہ جہان مستونگ میں شہید رشید کے گھر میں اپنے منصوبوں کو ترتیب دینے اکھٹے ہوئے تھے کہ دشمن کو علاقائی مخبروں کے ذریعے انکی آمد کا پتہ چلا تھا رات کو دیر تک ڈیوٹی دینے کے بعد علی الصبح دشمن فوج نے انھیں چاروں اطراف سے گھیر لیا تھا دو دوستوں نے جہد آزادی میں قدم رکھنے کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ موت ہر حال میں آنی ہے لیکن مرتے دم تک دشمن کا مقابلہ کرتے رہیں گے دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا شہید شاہ جہان و شہید رشید نے بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے رہے انکے گولیاں ختم ہو چکے تھے وہ زخمی ہو چکے تھے آخری دم تک لڑتے رہے تھے جام شہادت نوش کر گئے۔ شہید وطن کی آبرو ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کو آنے والے نسل کو نئی زندگی دینے کے لیے قربان کرتے ہیں بیج خود کو نیست و نابود کر کے ہی پھل کو زندگی دیتا ہے۔ شہید رشید و شہید شاہ جہان وطن کی آزادی کے لیے خود کو قربان کر گئے اور بلوچ جہد آزادی میں اپنی دلیری و بہادری کی داستان رقم کر کے چلے گئے شہید رشید و شہید شاہ جہان کی خواہش تھی کہ انھیں شہدائے بلوچستان قبرستان میں اپنے دیگر ساتھیوں کے پہلو میں دفن کیا جائے لیکن حالات کی ستم ظریفی میں انکی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ انکی قبریں مستونگ کے سرسبز و شاداب وادی میں بلوچ قوم کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں کہ انھوں نے بلوچ وطن کو غلامی سے نجات دلانے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وطن کی لاج رکھ لی اور تاریخ اپنے ایسے بہادر سپاہیوں کو فراموش نہیں کرسکتی تاریخ میں ایسے کردار تاریکی میں روشن استاروں کی طرح چمکتے رہیں گے قوم کو تاریکی میں راستہ دکھاتے رہیں گے۔
زخمی ہوئے اس بار بھی قسمت نے اس کا ساتھ دیا ایک پھر وہ موت کو چھکما دیتے ہیں اور زخمی ہونے کے باوجود وہ تین گھنٹے تک دشمن سے لڑتے رہے ۔زخم کے ٹھیک ہونے کے بعد وہ پھر سے شہر لوٹ آیا اور شہری محاذ میں وہ پھر دشمن فوج پر حملہ کرتے رہے اور کامیاب ہوتے رہے ۔جب بھی اس سے ملاقات ہوتی بات چیت چلتی رہتی تو وہ ہمیشہ کہتے ’’مرنا جینا خدا کے اختیار میں ہے لیکن دشمن کے ہاتھوں میں ظلم و جبر برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ انسان آخری دم تک لڑتا رہے اور ایک گولی اپنے لیے رکھے تاکہ وقت آنے پر کام آسکے‘‘اور انھوں نے اپنے کئے ہوتے باتوں کو ثابت کردیا کہ وہ جو کہتا وہی کرتا۔شہید رشید عرف بالو عرف شیدے اپنی مزاج کی وجہ سے شہر میں بھی تنہا تھا اور پہاڑ میں بھی ۔ وہ دوستوں سے گھلنے ملنے کو پسند نہیں کرتا اسکے دو قریبی دوست شہید خلیل و شہید شاہ جہان تھے جو دونوں اسکے جیسے ہی تھے دونوں میدان جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑنے دشمن پر حملہ کرنے میں ماہر تھے شہید خلیل کی شہادت کے بعد شہید رشید و شہید شاہ جہان قریبا ہر محاذ میں ایک ساتھ رہے تھے اور دلیری کے ساتھ دشمن پر وار کرتے رہے تھے اور شہادت کے وقت بھی دونوں ایک ساتھ لڑے تھے اور جام شہادت نوش کر گئے تھے ۔شہید رشید زندگی و موت دونوں سے بہت پیار کرتا تھا وہ زندگی و موت کی حقیقت سے آشنا تھا جب تک زندگی ساتھ دیتی رہی وہ مسرت و خوشی میں اپنے دن گذارتا رہا جب موت کی خبر آئی تو وہ موت سے بے خوف بغل گیر ہوا ۔اسکی دلیری بہادری بے لوث جذبہ و بے خوف و خطر دشمن پر حملے اسے دیگر سر مچاروں سے منفرد بنا دیتے ہیں ہر وہ پتھر ہر وہ جگہ جہاں شہید رشید ان سے ایک لمحے کے لیے مخاطب ہوا ہو اسکی یادوں کا منبعہ ہے جہاں بھوک پیاس تھکاوٹ کو شکست دیتے ہوئے آزادی کے یہ سپاہی وطن کی حفاظت کر رہے تھے اور وطن کے میدان پہاڑ شہید کے گرتے خون کے قطروں کی گواہی دینگے جو وطن کی آزادی کے لیے بہادری کے ساتھ دشمن سے ہر محاذ پر نبردآزما رہے۔شہید سرزمین کی آزادی کے لیے اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے رہے شاہد دھرتی کے حق خون سے بھی ادا نہیں کیے جاسکتے کیونکہ سرزمین کی آزادی کے لیے قربانیوں کے لامتنائی تسلسل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ تسلسل صدیوں پر محیط ہو سکتی ہے پھر بھی اسکے حق ادا نہیں کیے جاسکتے ۔جدوجہد وقتی نہیں اور نہ ہی اسکی مدت مقرر ہوتی ہے جب تک آزاد وطن کے مالک نہیں ہوسکتے اس وقت تک دشمن سے ہر محاذ پر لڑنا ہوتا ہے اور کامیابی کی امید لیے دشمن کو ہر محاذ پرشکست دینا ہوتا ہے شہید رشید عرف بابو عرف شیدے گیارہ سالوں تک مسلسل جنگ آزادی میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کرتے رہے اور اپنے بے لوث جذبے و بہادری کے ساتھ شہادت کے رتبے تک پہنچے آج سرزمین اپنے دوسرے بیٹوں کی طرح اپنے اس بیٹے پر نازاں ہیں جو دھرتی ماں پر دئیے گئے زخموں کا مدوا کرتے رہے اور دھرتی کو جھکڑے ان سلاخوں کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔موت برحق ہے اور ہر انسان کو ایک نہ ایک دن موت آنی ہے لیکن اس موت کی کیا شان ہوگی جو دشمن کو کاری ضرب لگانے کے بعد ہو اور موت خود انسان کے خواہشوں کے تابع ہو ۔شہید رشید شہید شاہ جہان مستونگ میں شہید رشید کے گھر میں اپنے منصوبوں کو ترتیب دینے اکھٹے ہوئے تھے کہ دشمن کو علاقائی مخبروں کے ذریعے انکی آمد کا پتہ چلا تھا رات کو دیر تک ڈیوٹی دینے کے بعد علی الصبح دشمن فوج نے انھیں چاروں اطراف سے گھیر لیا تھا دو دوستوں نے جہد آزادی میں قدم رکھنے کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ موت ہر حال میں آنی ہے لیکن مرتے دم تک دشمن کا مقابلہ کرتے رہیں گے دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا شہید شاہ جہان و شہید رشید نے بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے رہے انکے گولیاں ختم ہو چکے تھے وہ زخمی ہو چکے تھے آخری دم تک لڑتے رہے تھے جام شہادت نوش کر گئے۔ شہید وطن کی آبرو ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کو آنے والے نسل کو نئی زندگی دینے کے لیے قربان کرتے ہیں بیج خود کو نیست و نابود کر کے ہی پھل کو زندگی دیتا ہے۔ شہید رشید و شہید شاہ جہان وطن کی آزادی کے لیے خود کو قربان کر گئے اور بلوچ جہد آزادی میں اپنی دلیری و بہادری کی داستان رقم کر کے چلے گئے شہید رشید و شہید شاہ جہان کی خواہش تھی کہ انھیں شہدائے بلوچستان قبرستان میں اپنے دیگر ساتھیوں کے پہلو میں دفن کیا جائے لیکن حالات کی ستم ظریفی میں انکی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ انکی قبریں مستونگ کے سرسبز و شاداب وادی میں بلوچ قوم کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں کہ انھوں نے بلوچ وطن کو غلامی سے نجات دلانے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وطن کی لاج رکھ لی اور تاریخ اپنے ایسے بہادر سپاہیوں کو فراموش نہیں کرسکتی تاریخ میں ایسے کردار تاریکی میں روشن استاروں کی طرح چمکتے رہیں گے قوم کو تاریکی میں راستہ دکھاتے رہیں گے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий