جیت اور جیت کا فلسفہ یا جیت اور ہار کا فلسفہ – برزکوہی
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
فیفا ورلڈکپ 2018 کے میچوں میں یا دوسرے کھیلوں میں بنیادی فلسفہ جیت اور ہار کا ہوتا ہے۔ ایک ٹیم کو ضرور ہارنا ہوگا، ایک کی ہار سے دوسرے کو جیت حاصل ہوتا ہے۔ اگر دو کمپنیاں ایک ہی قسم کی اشیاء، ایک ہی علاقے میں فروخت کریں تو ایک دوسرے کا ضرور مقابلہ ہوگا۔ کسی کی جیت اور کسی کی ہار یہاں مقدر ہے کیونکہ یہی بزنس اور معاشی مفاد کا حصول ہے یا پھر ایک ہی حلقہ انتخاب سے دو مخالف پارٹیوں میں مقابلہ ہو تو پھر ایک کو جیتنا اور ایک کو ہارنا پڑیگا۔
اسی فلسفے کے تناظر میں اگر ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے مسلح اور غیر مسلح جہدوجہد کا جائزہ لیں، تو یہاں کون سا فلسفہ قابل عمل ہونا چاہیئے جیت اور جیت کا یا جیت اور ہار کا؟
اگر مختلف پارٹیاں، خلوص، ایمانداری اور نیک نیتی سے ایک ہی نظریئے و فکر اور قومی مقصد کو لیکر جہدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ پہلا، لازمی اور سادھا سا سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر کیوں ایک نہیں؟ مختلف مختلف شکل میں ہیں؟ اگر حقیقت و سچائی کی بنیاد پر سب کا مقصد ایک ہے اور کوئی تحریک یا قوم مخالف، مخصوص، پوشیدہ مقاصد، ذاتی و گروہی مفاد، عزائم یا ایجنڈہ کارفرما نہ ہو۔
اہم مقصد کے علاوہ ثانوی چیزوں پر نقطہ نظر اور زوایہ نظر کو لیکر پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی حد تک مختلف وجود رکھنا، پھر ہاں ہار اور جیت کا فلسفہ کیوں؟ یعنی جب قومی مقصد ایک، سرزمین ایک اور دشمن ایک، پھر خود جیت جانا اور دوسروں کو ہرانا اور ختم کرنے والا فلسفہ اور تگ و دو کرنا کس مقاصد اور کن عزائم کی طرف اشارہ کرتا ہے؟
اس کے علاوہ اگر جیت اور ہار کا فلسفہ ایک تنظیم، پارٹی یا ٹیم ورک کے اندر موجود ہو، ایک دوسرے کو ہرانا یا خود جیت جانا پھر مقاصد و عزائم کیا ہونگے؟ پھر پارٹی تنظیم یا ٹیم ورک کا حال کیا ہوگا؟
ایسے لوگوں کے بارے میں اسٹیفن آر کوے کیا کہتا ہے، آو اسٹیفن کو ذرا غور سے پڑھتے ہیں “بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ جم کے بیٹھی ہوتی ہے۔ اسے میں کم ہے، کی ذہنیت کہتا ہوں یہ لوگ زندگی کو یوں دیکھتے ہیں کہ اس میں بہت کم دستیاب ہے۔ جیسے صرف ایک چھوٹا سا کیک ہے اور اگر کیک سے کسی نے ذرا بڑا ٹکڑا لے لیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میرے لیئے بہت تھوڑا بچے گا۔ کم ہے،کی ذہینیت دوسرے لفظوں میں ،جمع حاصل صفر، کا زوایہ نگاہ ہے۔ کم ہے، کی ذہنیت والے لوگوں کے لیئے یہ بڑا مشکل کام ہوتا ہے کہ وہ باقی لوگوں کے ساتھ اپنی کامیابیوں، لفظوں، قوتوں اور شہرت کو بانٹ سکیں حتیٰ کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی، جنکے بدولت انہوں نے یہ سب حاصل کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کےلیئے یہ بھی انتہائی مشکل کام ہوتا ہےکہ وہ دوسروں کی کامیابیوں پر حقیقی پر حقیقی انداز میں خوش ہوسکیں۔ خاص کر اپنے خاندان کے افراد یا قریبی دوستوں کے سلسلے میں بھی۔ جب کسی دوسرے کو کسی خاص سلسلے میں اچھی شہرت ملتی ہے یا کچھ اور حاصل ہوتا یا بڑی کامیابی نصیب ہوتی ہے تو، کم ہے، کی ذہینیت لوگوں کو یوں لگتا ہے کہ گویا دراصل ان سے کچھ لے لیا گیا ہے یا انہوں نے کچھ کھودیا ہے جو دوسروں نے پالیا ہے۔”
اسٹیفن مزید کہتا ہے کہ “بظاہر ایسے لوگ دوسروں کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں لیکن اندر سے ان کا دل کٹ رہا ہوتا ہے۔ ان کی اپنی نظروں میں ان کی قدر و قیمت کا احساس ان کا دوسروں کے ساتھ مقابلے پر منحصر ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی کامیابی کو ہمیشہ اپنی ناکامی جانتے ہیں۔ کم ہے، کی ذہنیت والے لوگ اکثر دوسروں کی ناکامیوں کی خفیہ امیدیں لگائے رکھتے ہیں، یہ لوگ ہر وقت مقابلے اور موازنے میں لگے رہتے ہیں یہ اپنی ساری توانائیاں اور وسائل دوسرے لوگوں کو ناکام کرنے میں لگائے رکھتے ہیں تاکہ ان کی اپنی اہمیت قائم رہے اور بڑھتی رہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ اس طرح کے ہوں، جیسے یہ انہیں دیکھنا چاہیتے ہیں۔ یہ اکثر ان کی نقلیں کرتے ہیں اور اپنے گرد خوشامدیوں کا جمگھٹا لگائے رکھتے ہیں چونکہ یہ خوشامدی لوگ کمزور ہوتے ہیں لہٰذا ان کی طرف سے انہیں کوئی چیلنج کا خطرہ نہیں ہوتا۔”
وہ مزید کہتے ہیں کہ ” کم ہے ،کی ذہنیت والے لوگوں کے لیے ٹیم سپرٹ کے ساتھ کسی ٹیم میں رہ کر کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، یہ اختلاف رائے کو بھی بے ادبی اور بدتمیزی کا سگنل سمجھتے ہیں۔”
یہ میرے الفاظ نہیں بلکہ اسٹیفن آر کوئے کے سبق آموز اور سنہرے الفاظ تھے۔ کیا آج بلوچ قومی تحریک میں مجموعی طور پر ایسے ، کم ہے ، کی ذہینیت رجحان اور رویے آزادی پسند پارٹیوں میں موجود نہیں ہے؟ حتیٰ کے مختلف پارٹیوں کے علاوہ ایک ہی پارٹی، تنطیم یا ٹیم ورک میں ایسے رجحان اور رویے موجود نہیں ہے؟ اگر موجود ہیں تو پھر کیوں؟ بنیادی وجویات کیا ہیں؟ کم علمی، شعور کی کمی، انا، ضد، حسد، بغض، احساس کمتری یا پھر نظریاتی سیاسی اختلافات یا اور خفیہ تحریک مخالف ایجنڈہ؟
سب سے پہلے ان چیزوں پر باریک بینی سے ہر ایک کو تحقیق اور غور کرنا چاہیئے کہ اصل وجوہات کیا ہیں؟ اس کے بعد آراء قائم کرکے فیصلہ کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے کم ازکم ایک ہی پارٹی تنظیم اور ٹیم ورک اپنی ہی اندر سے علم، شعور، بالغ نظری، دوراندیشی، صبر و تحمل، برداشت سے ایسے رجحانات اور رویوں کا مکمل صفایا کرنا ہوگا نہیں تو کوئی بھی پارٹی تنظیم وقتی شاید چلے لیکن مسقبل میں ایسے رویوں کا متحمل نہیں ہوسکتا بلکہ تقسیم در تقسیم اور زوال کے صحرا میں غرق ہوگا۔
اگر باقی بلوچ تنظیموں کے ساتھ نظریاتی و فکری اختلاف یا تحریک مخالف مخصوص ایجنڈوں کا وجود نہیں ہے، صرف عدم برداشت، خیالات و سوچوں اور رویوں کا آپسی ٹکراو ہے، تو حالات اور تحریکی تقاضے یہ ہیں کہ ایک ہونا چاہیئے۔ اگر ایک ہونا ممکن نہیں کم سے کم خاص دشمن کو مدنظر رکھ کر پوری تحریک اور بلوچ قوم کی بقاء، اقدار،عزت اور خوشحال مستقبل کو ذہن میں رکھ کر بجائے مجموعی قومی تحریک کی زوال اور پاکستانی دشمن اور اس کے زرخرید ایجنٹوں کے مستقل میں جگ ہنسائی اور طنز کو دل و دماغ میں اچھی طرح بٹھا کر آج سے یہ فیصلہ کرلیں کہ کم سے کم دشمن کے خلاف ہر تنظیم کے چھوٹے اور بڑے کاراوئیوں کی مخالفت کرنے کے بجائے ان کو تہہ دل سے قبول کرکے، ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کریں۔ کیونکہ یہ عمل دشمن اور اس کے ایجنٹوں کے تکلیف میں مزید تکلیف اور خود بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوانوں کے دل میں اپنی قومی ذمہ داریوں، قربانی، کام اور قومی عمل کیلے نفسیاتی طور پر جذبہ اور حوصلہ پیدا کریگی۔
اگر واقعی ہمارے دل میں بلوچ قومی درد اور دشمن سے نفرت کی انتہاء موجود ہے تو ہمیں یہ اقدامات اٹھانے ہونگے، وگرنہ بلوچ نوجوان بالآخر رفتہ رفتہ آپسی موازنے اور مقابلے کے رجحان اور رویے پیدا ہونگے۔ پھر دشمن کی نفرت، بلوچ قوم اور سرزمین کی محبت کا لگن جذبہ اور حوصلوں کو کمزور اور تذذب میں مبتلا کرکے، تمام تر توجہ اور سرگرمیوں کا مرکز ایک دوسرے کو کمزور کرنے اور نیچا دیکھانے کا ہوگا۔
یہ رجحان ایسا نہیں۔ صرف دوسرے تنظیموں کیلئے ہی ہوگا بلکہ ہر پارٹی تنظیم اور ٹیم ورک میں تیزی کے ساتھ بڑھتا جائے گا، مستقبل میں ہر پارٹی اس کا اچھا خاصہ شکار ہوگا۔ قطع نظر آج بھی یہ رجحان کسی حد تک ہر جگہ کمزور ہی صحیح موجود ضرور ہیں، یہ رجحانات اور رویے تحریک آزادی کیلئے دشمن کی شدت کے ساتھ حملوں سے بھی خطرناک ہیں۔ پھر یہ عمل خود تاریخ میں بلوچ قومی تحریک کیلے سیاہ باب سے کم نہیں ہوگا۔
ہمیں ہر وقت صرف ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اگر کامیابی کسی کا بھی ہو، وہ بلوچ قوم کا ہی ہوگا۔ دشمن کا شکست ہوگا، پھر،کم ہے، ذہینت کے بجائے مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہمیں سب کی چھوٹے اور بڑے کامیابیوں کو دل و جان سے قبول کرنا چاہیئے۔ یہ اس وقت سوفیصد ممکن ہوگا جب ہم اہنے ذہن میں بار بار ہر وقت صرف اور صرف بلوچ قوم کی قومی آزادی اور پنجابی دشمن کے شکست کو ذہن میں رکھیں۔ شروع شروع میں شاید ،کم ہے، ذہنیت کی وجہ سے بہت بہت مشکل ہو لیکن بار بار ہر وقت اور مسلسل کوشش کرتے رہیئے، تب جاکر یہ میرا ایمان ہے کہ ایسا ضرور ممکن ہوگا۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий