مسخ تاریخ۔ دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب نو نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا اور برطانیہ نے برصغیر سے انخلاء کا فیصلہ کیا، تو ہندومسلم دو قومی نظریئے کے بنیاد پر برصغیر کے تقسیم کا فیصلہ ہوا اور پاکستان کے نام سے ایک نئی ریاست کا وجود پایہ تکمیل تک پہنچا، جس میں بعد ازاں پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کو بالرضا یا بالجبر اس میں شامل کردیا گیا۔ تقسیم کے فوراً بعد ہی اس خطے میں تاریخ کے بد ترین نسل کشی اور مہاجرتوں میں سے ایک وقوع پذیر ہوا، جہاں لاکھوں کی تعداد میں ہندو اور سکھ قتل ہوئے یا ہجرت کرنے پر مجبور کیئے گئے، تاکہ پاکستان کو ایک مسلم اکثریتی ریاست بنایا اور وجود کو جواز بخشا جاسکے۔
بندوبستِ پاکستان کی آبادی مسلم اکثریت میں ڈھالنے کے بعد اس فتح کی تاریخی توسیع کیلئے یہاں کے شہروں کو بھی مسلمان بنایا گیا اور تاریخی شہروں کے غیر مسلم نام بدل کر نئے مسلم نام رکھدیئے گئے۔
لائلپور کو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل سے منسوب کرکے فیصل آباد بنایا گیا۔ تاریخی شہر کیمبل پور کا نام قریب واقع قلعہ اٹک کی نسبت سے اٹک اور منٹگمری کو اس کے پرانے نام ساہیوال میں تبدیل کر دیا گیا۔ للیانی کو اسلامی نام دیکر مصطفیٰ آباد، کوٹ رادھا کشن کو حبیب آباد اور ربوہ کو چناب نگر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی طرح بہت سے چھوٹے دیہاتوں و قصبوں کے تاریخی نام بھی بدلے گئے، جیسے چوہڑ کانہ کو فاروق آباد بنادیا گیا۔
یہ محض چند شہروں کے نام تھے، اسی طرح بے تحاشہ قصبوں، سڑکوں اور چوراہوں کے نام بدلے گئے۔ اگر مذہبی نقطہ نظر سے ہٹ کر تاریخی بنیاد پر دیکھا جائے تو تاریخ دان شاید اس عمل کے حق میں یہ دلیل دے سکیں کہ یہ دنیا میں ہر فاتح کا طریق رہا ہے کہ وہ اپنا یادگار چھوڑتے ہیں۔ ہر فاتح اپنا تاریخ لکھتا ہے۔
“ہندو” پر فتح کے یادگار بلوچستان میں چھوڑنے کیلئے 1970 میں بلوچستان کے ایک معروف شہر ہندو باغ کا نام بدل کر مسلم باغ رکھ دیا گیا۔
تقسیم ہند کے بعد جس طرح شہروں کو مسلمان بنایا گیا، وہ سلسلہ رکا نہیں، اسکے بعد تاریخی شہروں کو پاکستانی بنانے کا مرحلہ جاری ہے اور اس فاتحانہ ذہنیت کا سب سے زیادہ شکار بلوچستان رہا ہے اور گذشتہ پانچ سالوں سے اس شدت میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
جس طرح پاکستان میں اس تصور کو عام کرنے کے بعد کہ “ہندو” پر فتح پانے کے بعد ہندو تاریخ کو مٹانے کیلئے شہروں کے مسلمان نام رکھے گئے، اسی طرح کا تصور بلوچستان میں عام کیا جارہا ہے کہ بلوچ قوم پرستی پر فتح پالیا گیا ہے اور اب بلوچستان کے تاریخی شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں۔ شہروں کے نام بھی ان لوگوں کے نسبت سے رکھے جارہے ہیں، جو اسٹبلشمنٹ سے قریب تصور کیئے جاتے ہیں یا بلا واسطہ بلوچ تحریک آزادی کے خلاف متحرک تھے۔
بلوچستان کے ضلع قلات کے تاریخی تحصیل اور بلوچوں کے لانگو قبیلے کی آماجگاہ منگوچر کا نام تبدیل کرکے خالق آباد رکھ دیا گیا۔ منگوچر کا نام عبدالخالق لانگو کے نام کے نسبت سے تبدیل کیا گیا، جو اسٹبلشمنٹ سے قریب تصور کیئے جانے والے پارٹی نیشنل پارٹی کے بانی رہنما تھے اور ایک قبائلی دشمنی کے بدلے میں مارے گئے تھے۔ اسی قبائلی دشمنی میں ان پر اقدامِ قتل کے الزام بھی تھے۔
اسی طرح بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے تحصیل پھیلاوغ کا تاریخی نام قادر مسوری بگٹی کے نسبت سے قادر آباد رکھ دیا گیا۔ قادر مسوری بگٹی، نواب اکبر خان بگٹی کے خاندانی دشمن تھے اور انکے شہادت کے بعد انہیں باقاعدہ فوجی پروٹوکول میں ڈیرہ بگٹی لایا گیا تھا۔
کوہلو اور گردو نواح کے علاقوں کے نام بلوچستان کے قدیم ترین ناموں میں سے ایک ہیں اور ہر نام خود میں ایک تاریخ رکھتی ہے، لیکن قدوس بزنجو نے اقتدار میں آنے کے بعد ضلع کوہلو کے یونین کونسل اوریانی کا تاریخی نام بدل کر جہانگیر آباد رکھ دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کوہلو کے مقامی آبادی کو خود علم نہیں ہے کہ جہانگیر کون ہے، تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ لیفٹیننٹ جہانگیر پاکستانی فوج میں حاضر سروس فوجی تھے، جو 10 جولائی 2009 کو باجوڑ ایجنسی کے علاقے چارمنگ کے وادی چنار میں ایک جھڑپ کے دوران ہلاک ہوئے تھے، جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں کے دعوے کے مطابق وہ ایک فوجی آپریشن کے دوران بولان میں بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے تھے۔
سوراب بلوچستان کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے، جو تاریخی طور پر قلات سے پہلے بلوچستان کا دارلحکومت رہنے کا بھی اعزاز رکھتا ہے، سوراب جھالاوان اور سراوان کے بیچ سرحد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے میر عومر، بجار، گوشو کے قصے بلوچستان میں زبان زدِ عام ہیں لیکن اس تاریخی شہر کے نام کو بھی مسخ کرکے ثناء اللہ زہری نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے بیٹے کے نام سے منسوب کرکے شہید سکندر آباد رکھ دیا۔ یاد رہے سکندر زہری اپنے چچا اور چچا زاد کے ہمراہ بلوچ مزاحمتکاروں کے حملے میں مارے گئے تھے۔
کیا واقعی سکندر زہری ایک ایسے معروف شخصیت تھے کہ انکی خاطر ایک تاریخی شہر کا نام تبدیل کیا جاتا؟ ان پر الزام تھا کہ وہ درجنوں قبائلی مخالفین کے قتل، آر سی ڈی شاہراہ پر لوٹ مار، زناہ بالجبر کے درجنوں واقعات میں ملوث تھا۔ بلوچستان کے خطے جھالاوان میں یہ افواہ عام ہے کہ انکے مارے جانے کے بعد لوگوں نے شکرانے کے نفل ادا کیئے۔
محض شہروں کے نام نہیں بلکہ بلوچستان میں کئی اسکولوں، ہسپتالوں اور سڑکوں کے نام بھی اسٹبلشمنٹ سے قریب سماجی طور پر متنازعہ لوگوں کے ناموں کے مناسبت سے رکھے جارہے ہیں۔ جیسے بلوچستان کے مرکزی شہر خضدار کے اہم مرکزی چوک آزادی چوک کا نام میونسپل کمیٹی نے بدل کر قدوس مینگل چوک رکھ دیا ہے۔ قدوس مینگل بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ سرغنہ شفیق مینگل کے ماموں اور دست راست تھے۔ شفیق مینگل پر سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنوں کے ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کا الزام ہے۔ توتک میں برآمد ہونے والی اجتماعی قبر: جس سے 169 بلوچ سیاسی کارکنوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تھیں، کا ذمہ دار بھی شفیق مینگل کو قرار دیا جارہا ہے۔ شفیق مینگل کے تمام کارستانیوں میں قدوس مینگل بھی شریک رہے ہیں، وہ بلوچ مزاحمتکاروں کے ہاتھوں خضدار میں مارے گئے تھے۔
یہ سلسلہ محض مشرقی ( پاکستانی) بلوچستان تک موقوف نہیں ہے، بلوچ قومی شناخت کو مٹانے کیلئے شہروں کے نام بدلنے کی سعی مغربی (ایرانی) بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری ہے۔ جہاں بلوچستان کے تاریخی شہر دزاپ کا نام تبدیل کرکے زاہدان رکھ دیا گیا۔
اسی طرح مغربی بلوچستان کے شہر پھرہ کا نام بدل کر ایرانشہر رکھ دیا گیا ہے۔ آجکل جس شہر کو”خواش یا خاش“ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسکا اصل نام واش تھا، جسے رضاشاہ پہلوی کے دور میں بدل دیا گیا تھا۔ “گًورناگان” کا نام اسلام آباد رکھا گیا اور “کہن داوت” کو شمس آباد میں بدل دیا گیا۔
اسی طرح مگس کا تاریخی نام اول تو “زابلی” رکھ دیا گیا، لیکن بعد میں وہ بھی بدل کر “مہرستان” رکھا گیا۔ بلوچستان کے شہر “گہہ” کا نام بدلتے ہوئے، اسے “نیک شہر” رکھ دیا گیا۔
اس حوالے سے جب دی بلوچستان پوسٹ نے معروف بلوچ دانشور اور تاریخ دان ڈاکٹر نصیر دشتی سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ “تاریخی بلوچ شہروں کے نام تبدیل کرنا، یقیناً اُس ثقافتی نسل کشی کا تسلسل ہے، جو بلوچ انگریز قبضہ گیریت کے وقت سے لیکر آج تک سامنا کررہے ہیں۔ شالکوٹ، خان گڑھ اور جیھاڑی کا نام بدل کر پاکستان اور ایران بھی برطانیہ کے نقشِ قدم پر چلنے لگے ہیں۔ ایرانیوں نے تو نا صرف قصبوں کے نام تبدیل کیئے بلکہ وہ قبیلوں کے نام تک بدل رہے ہیں اور از خود نئے قبیلے گڑھ رہے ہیں۔”
نصیر دشتی نے مزید کہا کہ ” میرے خیال میں، اب وقت آچکا ہے کہ بلوچ قوم پرستوں میں جتنی بھی قوت ہے، وہ اس مسئلے پر اپنا آواز بلند کریں۔”
جس طرح بلوچ تاریخی تسلسل، قومی پہچان اور مرضی و منشاء کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، تاریخی بلوچ شہروں کے نام بدل کر بلوچ تاریخ، ثقافت اور پہچان کو مسخ کیا جارہا ہے اور فاتح و مفتوحہ کے رویئے کو مزید پروان چڑھا کر استحکام بخشا جارہا ہے، یہ اس امر کی غمازی کررہا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ اب تک بلوچ نفسیات کو نہیں سمجھ سکی ہے کہ انکی مزاحمت کی بنیاد وسائل سے کئی گنا زیادہ قومی پہچان پر ہے، اور قومی پہچان پر اسطرح کے کھلم کھلا حملے یقیناً بلوچ عوام میں غم و غصہ پھیلائیں گے اور مزاحمت کی طرف انکا رجحان مزید بڑھے گی۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий