انتخابات میں حصہ دار قومی نمائندے نہیں،قبضہ گیر کے ایجنٹ ہیں،قوم الیکشن کا بائیکاٹ کرئے۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
( مقبوضہ بلوچستان ) بلوچ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ پاکستان کے انتخابات کا مقبوضہ بلوچستان میں کوئی آئینی ،قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے ،میں بلوچ قوم سے اپیل کرتاہوں کہ گزشتہ انتخابات کی طرح ان نام نہاد انتخابات کا بائیکاٹ کرکے دنیا کو واضح پیغام دیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ ملک ہے اور پاکستان ایک قبضہ گیر ہے ۔پاکستان کے تمام منصوبوں کی طرح آنے والا انتخابات بھی بلوچ قوم کی مرضی اور منشاکے بغیر ہورہے ہیں اوران میں حصہ داری کرنے والے لوگ بلوچ قومی نمائندے نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی بلوچ نسل کشی میں واضح طورپر شامل ہیں جس کا وہ خود اقرار کرتے رہے ہیں اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ ہر قبضہ گیرکو مقبوضہ قوم میں سے چند افراد ایسے ملتے ہیں جو قبضہ گیر کے دست وبازو بنتے ہیں اوربلوچ قوم میں سے یقیناًاس میں حصہ لینے والے وہی لوگ ہیں جو بلوچ قوم پر ڈھائے جانے والی مظالم کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کا احتساب یقینی ہے ،ماضی میں جس طرح ووٹ کاسٹ نہ ہونے کے باوجود کسی نہ کسی کو منتخب قرار دیکر نام نہاد نمائندہ بنایا گیا، اس دفعہ بھی یہی ہوگا اور ان مہروں کو بلوچ نسل کشی کے پروانوں پر دستخط کیلئے مختص کرکے بلوچ سرزمین پر قبضہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ہم نے مختلف ادوار میں دیکھا ہے کہ پاکستان اپنے زرخریداورضمیرفروشوں کو اسمبلیوں میں لاکر انہیں دنیاکے سامنے پیش کرتاہے ،گزشتہ انتخابات سے پاکستانی جمہوریت کا پول کھل گیاکہ ایک سو سے کم ووٹ لینے والے شخص کو وزیر اعلیٰ بنادیاجاتاہے ۔ایسے لوگوں کی حیثیت محض ایجنٹ اوردلال کی ہے ،ایسے لوگوں کے استعفیٰ نامے آئی ایس آئی کے دفتر میں پہلے سے جمع ہیں اور انہیں حکم بجا آوری نہ کرنے پر لات لگا کر باہر کیا جاتا ہے۔ ثناء اللہ زہری کو جس طرح وزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا اور سینیٹ میں بلوچستان اور بلوچ نمائندگی پر جو ڈرامہ رچایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہاں انتخابات محض ڈرامہ، بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار اور بلوچستان پر قبضہ کو جواز بخشنے کی کوششیں ہیں۔ ان نام نہاد نمائندوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ ان کا حشر ثناء اللہ سے مختلف نہیں ہوگا لیکن لالچ، عارضی مراعات اور دنیاوی عیاشیوں کو دیکھ کر یہ لوگ بلوچ نسل کشی میں ملوث پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں۔ ان معمولی مراعات کے بدلے وفاق پرست جماعتیں، مذہبی جماعتیں اور مذہب کے ٹھیکیداروں سمیت سب کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگے ہیں۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ بلوچستان میں بچوں اور خواتین سمیت چالیس ہزار سے زائد بلوچ پاکستانی خفیہ زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں نشانہ بنا کر قتل یا دوران تشدد شہید کئے جاچکے ہیں۔ کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ ایسی مظالم شام اور برما میں شاید ہی ہوں مگر پاکستان کی طالبانائزیشن پالیسی اور بلیک میلنگ سے عالمی برادری پاکستان کی مذہبی شدت پسندی پر توجہ دیکر بلوچستان کی صورتحال سے بے خبر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک میڈیا پر پابندی اور زرد صحافت ہے۔ صحافی اور صحافتی ادارے میڈیا کو آزاد قرار دیکر آئی ایس پی آر کی ترجمانی میں مصروف ہیں اور بدلے میں اشتہارات اور مراعات کے مزے لیکر بلوچستان کی صورتحال کو دانستہ طور پر چھپانے کی کوشش میں ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی گھر ایسا نہیں جو سوگوار نہیں۔ کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں جس سے کوئی شخص لاپتہ نہ ہو۔
خواتین کو فوجی کیمپوں میں بلاکر ان عصمت دری کرنے کے واقعات میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی کاکنوں کے رشتہ داروں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں کسی کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ اور انسانی حقوق ناپید ہوچکے ہیں۔ ان مظالم کے باوجود پاکستان اور اس کے حواری اگر یہ سمجھیں کہ بلوچ قوم پاکستان کو تسلیم کرکے غیر آئینی اور غیر قانونی انتخابات کا حصہ بنے گی تو یہ پاکستان کی بھول اور عالمی برادری کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہم عالمی مبصرین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان آکر نہ صرف ان انتخابات کو اپنی آنکھوں سے
دیکھیں بلکہ آپریشن سے شدید متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں کی داستانیں قلمبند کریں۔
قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ہم نے مختلف ادوار میں دیکھا ہے کہ پاکستان اپنے زرخریداورضمیرفروشوں کو اسمبلیوں میں لاکر انہیں دنیاکے سامنے پیش کرتاہے ،گزشتہ انتخابات سے پاکستانی جمہوریت کا پول کھل گیاکہ ایک سو سے کم ووٹ لینے والے شخص کو وزیر اعلیٰ بنادیاجاتاہے ۔ایسے لوگوں کی حیثیت محض ایجنٹ اوردلال کی ہے ،ایسے لوگوں کے استعفیٰ نامے آئی ایس آئی کے دفتر میں پہلے سے جمع ہیں اور انہیں حکم بجا آوری نہ کرنے پر لات لگا کر باہر کیا جاتا ہے۔ ثناء اللہ زہری کو جس طرح وزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا اور سینیٹ میں بلوچستان اور بلوچ نمائندگی پر جو ڈرامہ رچایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہاں انتخابات محض ڈرامہ، بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار اور بلوچستان پر قبضہ کو جواز بخشنے کی کوششیں ہیں۔ ان نام نہاد نمائندوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ ان کا حشر ثناء اللہ سے مختلف نہیں ہوگا لیکن لالچ، عارضی مراعات اور دنیاوی عیاشیوں کو دیکھ کر یہ لوگ بلوچ نسل کشی میں ملوث پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں۔ ان معمولی مراعات کے بدلے وفاق پرست جماعتیں، مذہبی جماعتیں اور مذہب کے ٹھیکیداروں سمیت سب کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگے ہیں۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ بلوچستان میں بچوں اور خواتین سمیت چالیس ہزار سے زائد بلوچ پاکستانی خفیہ زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں نشانہ بنا کر قتل یا دوران تشدد شہید کئے جاچکے ہیں۔ کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ ایسی مظالم شام اور برما میں شاید ہی ہوں مگر پاکستان کی طالبانائزیشن پالیسی اور بلیک میلنگ سے عالمی برادری پاکستان کی مذہبی شدت پسندی پر توجہ دیکر بلوچستان کی صورتحال سے بے خبر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک میڈیا پر پابندی اور زرد صحافت ہے۔ صحافی اور صحافتی ادارے میڈیا کو آزاد قرار دیکر آئی ایس پی آر کی ترجمانی میں مصروف ہیں اور بدلے میں اشتہارات اور مراعات کے مزے لیکر بلوچستان کی صورتحال کو دانستہ طور پر چھپانے کی کوشش میں ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی گھر ایسا نہیں جو سوگوار نہیں۔ کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں جس سے کوئی شخص لاپتہ نہ ہو۔
خواتین کو فوجی کیمپوں میں بلاکر ان عصمت دری کرنے کے واقعات میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی کاکنوں کے رشتہ داروں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں کسی کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ اور انسانی حقوق ناپید ہوچکے ہیں۔ ان مظالم کے باوجود پاکستان اور اس کے حواری اگر یہ سمجھیں کہ بلوچ قوم پاکستان کو تسلیم کرکے غیر آئینی اور غیر قانونی انتخابات کا حصہ بنے گی تو یہ پاکستان کی بھول اور عالمی برادری کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہم عالمی مبصرین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان آکر نہ صرف ان انتخابات کو اپنی آنکھوں سے
دیکھیں بلکہ آپریشن سے شدید متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں کی داستانیں قلمبند کریں۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий