Occupied Balochistan News
Powered By Blogger

среда, 31 октября 2018 г.

یومِ شہدائے بلوچ 13 نومبر ۔ سنگت بابل بلوچ 

جب دنیا وجود میں آیا تو انسانی ہوس نے ایک دوسرے پر برتری کی جنگ شروع کی، جیسے جیسے دنیا میں آدم زاد کی آبادی بڑھتی گئی یہ جنگ بھی بڑھتی گئی فرد سے گھرانے، گھرانے سے قبیلے، قبیلے سے قوم اور پھر ہر قوم اسی تگ و دو میں لگی کہ ساری دنیا میں اس کی حکمرانی ہو، دنیا اٌس کے قبضے میں ہو، اس قبضہ گیری کی ہوس نے انسان سے انسانیت کو بھلادی۔ انسان نے اس جنگ میں یہ پروا کیے بغیر کہ انسانیت کا قتل عام ہورہا ہے آگے بڑھتے گئے، اس طرح قبضہ گیری کے ہوس کا شکار یہ انسان۔ انسان سے درندہ صفت بنتا گیا، قدرت نے بارہا ایسے بندے پیدا کیئے جو انسان کو انسانیت کی جانب متوجہ کرتے رہے مگران کے بعد خود ان کے نام نہاد پیروکار اسی قبضہ گیری ڈگر پر گامزن ہوئے اور کئی خود سے کمزور قوموں پر قبضے کیے جاتے اور انہیں اپنا غلام بناتے۔ لیکن ظالم کے مقابلے میں مظلوم ہمیشہ فتح یاب ہوتا چلا آرہا ہے کیونکہ مظلوم حق پر ہوتا ہے، اسے ظالم کے مقابلے میں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ مظلومیت کیا ہے۔ کیونکہ وہ خود ظلم سہہ رہا ہوتا ہے۔ اس لیئے وہ ظالم پر بھی ظلم کرنے سے کتراتا ہے جو مظلوم کی کمزوری ہے اور ظالم مظلوم کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر اور ظلم کو بڑھاتا ہے لیکن کہتے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھجاتا ہے تو اسے زوال پڑتا ہے اور یہ مشاہدہ انسان ہزاروں بار کرچکا ہے۔
مظلوم ظلم سہہ سہہ کر جب تَھک جاتا ہے تو وہ ظالم کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ جب مظلوم اعلان جنگ کرتا ہے تو پھر وہ آہنی دیوار بن جاتا ہے۔ جسے نہ بادل کی گرج تڑپا سکتا ہے، نہ آندھی کی تیز ہوا اس کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، نہ ہی اسے تیز بارش تر کرکے گرا سکتا ہے۔ اب ظالم بےبس ہوجاتا ہے، اسے اپنی موت صاف دکھائی دینے لگتا ہے۔ اب ظالم چیخنے چلانے لگتا ہے، تو اس کے بھائی بند باقی دنیا جو کل تک مظلوم کی آواز کو سننے کےلیے ان کی سماعت اور بسارت جواب دے چکے تھے، آج ظالم کی فریاد ان اندھوں اور بہروں کی آنکھوں اور کانوں کو چیرنے لگتے ہیں، یہ جو کل تک مظلوم کےلیئے اف تک کہنے سے قاصر تھے، اب زور زور سے چِلانے لگتے ہیں کہ چلو اس مسئلے کو حل کرتے ہیں، وہ اصل میں مظلوم کےلیے نہیں ظالم کو اب اس مصیبت سے نکالنے کےلیے ہوتا ہے کیونکہ مسئلہ مظلوم نے پیدا نہیں کیا تھا یہ خود ظالم ہی تھا جو آکر مظلوم کے آشیانے پر ٹوٹ پڑا تھا لیکن اب ظلم کی مدد کو آنے والا خود کو مظلوم کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اب مظلوم یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ میرا ہمدرد ہے، اسے یہ نہیں پتہ کہ اس نے ظالم کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب وہ آپ سے باعزت چھٹکارہ چاہتا اس لیے اس کا بھائی بند میدان میں آیا تاکہ ظالم کو مظلوم کے قہر سے بچایا جائے۔
ان مظلوم طبقوں میں سے ایک بلوچ بھی ہے بلوچ اپنی سرزمین بلوچستان میں ہزاروں سالوں سے آباد ہے بلوچ بھی مسلسل کئی بار ان ہوس پرست قبضہ گیروں کے ظلم کا شکار رہا ہے، لیکن ہر دفعہ وہی ہوا جو ظالم کا مقدر ہے۔ ظلم بڑھتا گیا اور آخر اس کو زوال پڑگیا اور ظالم کو یہاں سے بھاگنا پڑا سب سے زیادہ قتل و غارت یہاں پر اسلامی لشکر نے کی تھی۔ اٌنہوں نے پوری کوشش کی کہ بلوچ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اور انہوں نے مٹا بھی دیا لیکن تاریخ نے خود کو دہرایا اور آخر انہیں یہاں سے بھاگنا پڑا اور بلوچ آج بھی اپنی زمین پر آباد ہے، آج بھی نام نہاد مسلمانوں کے ظلم کے سائے تلے زندہ ہے ظلم کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔
آج کا ہمارا موضوع ہے 13نومبر یومِ شہدائے بلوچستان، اس دن پوری دنیا کے بلوچ ان بلوچ فرزندوں کی یاد مناتے ہیں، جنہوں نے اپنی قومی بقاء کی خاطر ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے خود کو فنا کردیا اور خود ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ظالم کو خوف میں مبتلا کردیا کسی نے بندوق سے کسی نے قلم سے کسی نے کتاب سے اور کسی نے زبان سے لڑائی لڑی۔
تاریخ گواہ ہے جب برطانیہ نے 1839 کو بلوچستان پر حملہ کیا تو اس وقت کے چیف آف بلوچ مہراب خان نے اعلان جنگ کردی اور خود اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اپنے وطن کی دفاع میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی تو بلوچ قوم نے جنگ جاری رکھی اور یہ جنگ 40 چالیس سال تک جاری رہی، آخر کار برٹش انہیں شکست نہ دے سکا تو دھوکے سے ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی کراکے سرزمین بلوچستان پر قابض ہوا لیکن جب دنیا کے مظلوم ایک ہونے لگے تو اس سے خوفزدہ ہوکر برطانیہ نے باعزت یہاں سے بھاگنے کو غنیمت سمجھا۔ وہ خود تو یہاں نہ بیٹھ سکا۔ جاتے جاتے اس نے یہاں اپنی کالونی بنا چھوڑی تاکہ بوقت ضرورت وہ اس کے زریعے اپنے مفادات کا دِفاع کر سکے اور اس برٹش کی کالونی نے بلوچستان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا، اس کالونی کے نام نہاد قائداعظم نے فوج کو حکم دیا کہ بلوچستان پر حملہ کرکے خان احمد یار خان کو گرفتار کرلو اور اس وقت تک مت چھوڑو جب وہ اپنا وطن بلوچستان ہمیں لکھ کر نہ دیں اور قائداعظم کے فوج کے انگريز سربراہ جنرل گریسی نےاس کی حکم بجالائی اور رات کے اندھیرے میں شاہی محل قلات پر حملہ کرکے احمد یار خان کو گرفتار کرلیا تو اس کے بھائی اور گورنر مکران آغا عبدالکریم نے فوج پر حملہ شروع کردیا۔ بلوچ اس طرح حملے کرتے کہ بلوچ اپنا دِفاع نہ کرسکتا تھا، تو مجبور ہوکر دشمن نے دھوکے سے قرآن کا واسطہ دے کر جنگ بندی کرادی اور مذاکرات کے نام پر آغا عبدالکریم خان کو چند ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا تو جیل سے عبدالکریم نے (کے بی نظامانی) کو ایک خط لکھا کہ جنگِ آزادی کو جاری رکھا جائے۔ اسی طرح نواب نوروز خان نے جب دشمن پر حملے شروع کیئے تو دشمن فوج کے چیخیں پہاڑوں کو چیرنے لگے۔
کہتے ہیں کہ بلوچ وطن کے محافظ سرمچاروں نے خضدار کے ملحقہ پہاڑی علاقے میں ظالم فوج کو گھیر لیا تو فوج کے لاشیں ایسے گررہے تھے، جیسے پت جھڑ میں درخت کو جھاڑنے سے پتے گرتے ہیں، تو اب ظالم بےبس تھا کہ اس نے مکار نام نہاد سردار دودا خان زہری کے زریعے قرآن کو استعمال کرکے جنگ بندی کرادی اور پھر قرآن کو روندتے ہوئے نواب صاحب کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ یاد رہے گماشتہ سردار دودا خان زہری، دلال سردار ثناء اللہ زہری کے والد تھے گذشتہ برسوں اس نے بھی اپنے والد کی یاد تازہ کردی اپنے دور وزارت اعلیٰ میں دشمن کا چین و سکون حرام کرنے والے بلوچ سرمچاروں کے گھر کے عورتوں و بچوں کو گرفتار کرواکے قید کیا لیکن اس عمل سے ان کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا تو مجبور ہوکر چند خواتین کو رہائی دلائی اور اس کے بعد انہیں لات مارکر نکال دیا گیا، یاد رہے غداران وطن کا یہی حشر ہوتا ہے۔
نواب نوروز خان کی شہادت کے بعد بھی جنگ آزادی جاری رہی اور جاری و ساری ہے۔ یہ جو ظالم کے خلاف جنگِ آزادی ہے کھبی بھی اختتام پذیر نہیں ہوگا۔ ہمیشہ جاری رہے گا اس دن تک جب ظالم اپنے انجام کو پہنچے کیونکہ مظلوم کی جانب سے بلوچ وطن کے سپاہيوں نے مجایدین حق نے اپنی سروں کی بولی لگائی ہے۔ اور اٌن کی سروں کی قیمت ہے، ظالم کا سرناش اور آزاد بلوچستان اب جو بھی ان کے سامنے آئے گا اس کا مقام واصل جہنم ہوگا۔ اب شہدائے بلوچ نے اپنی تاریخ اپنے لہو سے لکھ دی ہے۔ اب نہ یہ رکنے والے ہیں، نہ بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ہیں۔ ہیں تو بس عظیم مقصد آزادی کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے، کٹنے والے ہزاروں شہیدائے وطن نے شہدائے حق نے، اس حق اور باطل کی جنگ میں خود کو فنا کرکے شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ مگر یاد رہے ان کی فنا ہی اصل میں ان کی بقاء ہے۔
آج میں فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلوچ یہ جنگ جیت چکا ہے۔ کیونکہ ہزاروں مجاہدین نے جام شہادت نوش کی ہے اور ہزاروں ظالم کے عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں، جن میں عورتيں بچے اور ضیف العمر لوگ بھی ہیں ہزاروں گھر راکھ ہوچکے ہیں۔ لیکن آج بھی ہزاروں بلوچ وطن کے مجاہدین آزادی کی جنگ میں ظالم کے سامنے میدان جنگ میں برسرپیکار ہیں۔
آج پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ دنیا مظلوم کا نہیں ظالم کا ساتھی ہے، کیونکہ ظالم آج کچکول لیے دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے کہ چونی، اٹھنی ایک روپیہ ڈال دیں تاکہ اپنا ظلم جاری رکھ سکوں، تو مجھے یقین ہے کہ دنیا اسے کچھ نہ کچھ ضرور دے گا تاکہ وہ ظلم جاری رکھ سکے۔ دوسری جانب مظلوم اپنے زورِ بازو پر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بلوچ سرمچار بلوچ سیاسی جہدکار، بلوچ ہر طبقہ، ہر محاذ پر دشمن سے برسرپیکار ہے، اپنے لہو سے اپنی مادرِ گلزمین کو سیراب کررہا ہے، آج ایک بار پھر دنیا اندھا و بہرہ بن چکا ہے۔ کہاں ہیں آج وہ مہذب ممالک؟ کہاں ہیں وہ انسانیت کے دعویدار؟ کہاں ہیں وہ سوشلسٹ، کمیونسٹ، مارکسسٹ، لیننسٹ؟ کہاں ہیں وہ جو انسانیت انسانیت کہتے تھکتے نہیں؟ کسی میں اتنی جرات ہے جو حق کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والوں کو سلام کریں یعنی ان کی ساتھیوں کی اخلاق مدد کریں؟ آج پوری دنیا ظالم کے ساتھ کھڑا ہے لیکن پھر بھی شہدائے کے ہم رکاب نہتے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اور سفر جاری و ساری ہے۔ اب یہ رکنے والے نہیں ہیں ہاں میرے جیسے ہونگے جو خود کچھ کرنے سے قاصر ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی ٹانگ کھینچ کر اٌس کو اپنے برابر لائیں لیکن ہمیں یہ پتا نہیں کہ یہ بے قوفی کے سوا کچھ بھی نہیں جنہوں نے اپنے سروں کی بولی لگائی ہو انہیں ہمارے اس بےقوفی سے کرنے والی حرکت سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔
ہم تو شہرت چاہتے ہیں لیکن انہوں نے تو گمنامی کو ترقی دی ہے، شہدائے نے ہمیشہ اپنی مقصد کو سب کچھ سمجھا وہ تو ایک ہی بات جانتے اور سمجھتے تھے کہ اس آزادی کے شمع کو اپنے لہو سے روشن کرنا ہے۔ آج یہ شمعِ آزادی جو روشن ہے وہ شہدائے کے مرہونِ منت ہے اور جب تک یہ شمع روشن ہے تب تک پروانے اس پر خود کو ایثار کرتے رہیں گے، اب معاملہ بدل چکا ہے اب شمع کو نہیں خود پروانوں کو ضرورت ہے شمع کی خود کو ایثار کرنے کےلیئے۔ آج ہم شہیدوں کو یاد کرتے ہیں آج انہیں ضرورت نہیں ہماری یاد کرنے کی بلکہ یہ ہماری ضرورت بن چکی ہے کہ ہم انہیں یاد کریں ذرا ہم سوچیں کہ شہداء نے خود کو جس طرح فنا کیا، وہ کیا چیز تھی جو اٌنہیں اس مقام تک لے گئی۔ جس کی وجہ سے آج ہم اٌنہیں سلام پیش کرتے ہیں، کیا وہ ہمارے جیسے انسان نہیں تھے؟ کیا اٌنہیں دنیا میں رہنے کے خواہشات نہیں تھے؟ کیا وہ ہم سے الگ دنیا کے لوگ تھے؟ ان میں کیا چیز تھی، جو ہم میں نہیں ہے۔ ہم ان کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن جس مقام شہادت کی وجہ سے آج ہم اٌن کی تعریف کرتے ہیں ہم خود اٌس مقام کی خواہش کیوں نہیں کرتے، خوداس مقام کی طرف کیوں نہیں بھاگتے؟ ہم خود کےلیے اس مقام کو کیوں نہیں چنتے، ہم خود کیوں اس مقام سے دور بھاگتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ خود کو پہچان چکے تھے کہ ہم کون ہیں وہ یہ جان چکے تھے کہ ہم انسان ہیں گھوڑے گدے نہیں ہیں، ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم غلام ہوکر زندگی گذاریں وہ اس بات کو جان چکے تھے۔ کہ خاموشی سے ظلم کو دیکھنے والا ظلم سہنے والا غلامی کو قبول کرنے والے اس ظالم کے ظلم میں برابر کے شریک کہلاتے ہیں، وہ انسان نہیں گدھے گھوڑے کہلاتے ہیں۔ لیکن ہم اب تک خود کو پہچاننے میں ناکام ہیں، جو لوگ خود کو پہچان چکے ہیں۔
وہ آج بھی ان کے منزل کے مسافر ہیں، وہ آج بھی اٌس شمع کو روشن کیئے ہوئے ہیں لیکن مجھ جیسے تو ایک محفوظ مقام پر بیٹھ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں اپنی شہرت سمجھتے ہیں۔ میں کس طریقے سے سلام پیش کرو ان شہدائے کو جنہوں نے کھبی یہ نہیں سوچا کہ ہمارے بعد کیا ہوگا۔
ہمارے قربت داروں کا ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچوں سب کو ایثار کردیا، قومی تشخص کی بقاء کےلیئے اپنی تمام تر خواہشات کو ایثار کردیا، اپنی منزلِ مقصود پر اپنے اندر کی نفس کو للکارکر اٌسے پچھاڑ کر خود کو نفس کی غلامی سے آزاد کردیا، نہ والدین اٌن کی راہ کے رکاوٹ بن سکے، نہ بیوی بچے ان کو پیچھے مڑنے پر مجبور کرسکے، نہ انہیں آسائش اور آرائش روک سکے، نہ دولت و شہرت کی طلب، وہ تو بس دیوانہ وار عشق و حق میں معارفت کے عظیم سمندر کو عبور کرتے ہوئے خود کو انسانیت کے اعلیٰ مقام پر سرکرگئے بقولِ شاعر۔ عشق نے جب میرے اندر ڈیرہ ڈال دیا۔ تو میں نے خود زہر کاپیالہ بھر بھر کے پی لیا۔
وہ تو بس یہ بات سوچھتے تھےکہ کب غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گے۔ کب بلوچ آزاد فضا میں اپنی سانسیں لیتے ہوئے یہ کہیں گے۔
ماں چکاءِ بلوچانی مان ظالم ءَ نیلاں نوں۔
اے ظلم ءِ سگارانا گوں دستاں پروشانوں۔
کب ہمارے نوجوان۔ بزرگ کسی دوسرے مظلوم کی مدد کو آگے بڑھیں گے۔
شہدائے کے ہم رکاب آج بھی اٌسی طرح میدانِ عمل میں ہیں۔ ہماری طرح میدانِ تنقید میں نہیں ہیں۔ جس کی واضح مثال آج دیکھنے میں آتا ہے کہ ظالم نے اپنی لاکھوں فوج، خفیہ ادارے، مذہبی انتہاپسند تنظیمیں، شفیق مینگل، سراج رئیسانی، علی حیدر، سرفراز بگٹی کو میدان میں اتارا ہے لیکن پھر بھی ظالم کی سیکورٹی ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں آج پھر بی اے پی اور بی این پی کو ٹاسک دیا گیا تحریک کو کاونٹر کریں، جس طرح اختر مینگل صاحب نے پارلیمنٹ میں اسیروں کی تعداد کو جو 40 ہزار سے بھی زائد ہیں، 5 ہزار کرکے بتایا اس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ماما قدیر نے انسانی حقوق کے اداروں کو جو لسٹ دی ہے وہ جھوٹ پر مبنی ہے، غلط ہے لیکن ظالم کے یہ سارے پروپگنڈے ناکام ہوتے جارہے ہیں کیونکہ آج بھی شہداء کے وارث بلوچستان کے حقیقی فرزند میدانِ عمل میں پیش پیش ہیں، آج بھی عام آبادیوں پر بمبارمنٹ جاری ہے، آج بھی لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے، آج بھی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں۔ آج بھی ظلم و جبر کا بازار گرم ہے۔
آج بھی ظلم جاری و ساری ہے لیکن پھر بھی بلوچ وطن کے جانثاروں کا قافلہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اور مجاہدین وطن، ہر محاذ میں میدانِ عمل میں ہیں۔ اور یہ جنگ اس طرح جاری و ساری رہےگا تاوقتیکہ ظالم کا سرناش ہو کیونکہ مظلوم کے ہاتھوں ظالم کی شکست اصل میں انسانیت کی بقا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہی ہے یہ حق اور باطل کی جنگ ہے، باطل طاقتور ضرور ہے مگر حق کی خاطر خود کو ایثار کرنے والے عشاق کو پچھاڑنا باطل کے بس کی بات نہیں، باطل قتلِ عام ضرور کرسکتا ہے لیکن حق کے پروانوں کی سوچ کو نہیں مار سکتا۔ شہداء کے حق میں انہیں سلام پیش کروں، یہ میری اوقات نہیں مگر میں ایک معروف حدیث ضرور بیان کرنا چاہونگا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مرجاو مرنے سے پہلے شہداء نے شہادت سے پہلے حق کی خاطر اپنی تمام تر خواہشات کو ترک کرکے اس حدیثِ مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کا ثبوت دیا اور آج بھی شہداء کے فکری ساتھی ان کے راہ پر گامزن ہیں اور ایک دن وہ اپنے منزل کو پالیں گے اور باطل اپنی انجام کو پہنچے گا ظلم کا خاتمہ ہوگا۔
حق باقی رہے گا بلوچستان آزاد ہوگا بلوچ قوم آزاد ہوگا۔
original artical
на 23:40 Комментариев нет:
Отправить по электронной почтеНаписать об этом в блогеПоделиться в XОпубликовать в FacebookПоделиться в Pinterest

نومبر 13 یوم شہدائے بلوچستان۔۔۔دودا بلوچ 

پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے جنگ میں حصہ لینے اور مرنے والوں کیلے ''دو منٹ کی خاموشی ''کابالکل الگ طریقہ منایا ،ان دو منٹوں میں قوم کے ہر فرد کو کہا گیا کہ وہ اپنا سارا کام چھوڑ کر جہاں ہے اور جیسے بھی ہے ان دو منٹ تک خاموشی اختیار کریں۔ دو منٹ کی خاموشی کا مقصد قوم کے تمام امراء کو اس میں غم شریک کرنا تھا اور انہیں احساس دلانا تھا کہ جنگ میں شہید ہونے والوں کی وجہ سے ہم زندہ ہیں۔ 

بلوچستان وہ سرزمین ہے جو اپنی جغرافیائی اہمیت اور سائل وسائل کی وجہ سے ہمیشہ استعماری قوتوں کی نظر میں رہی ہے، ایسا کوئی دور نہیں گزرا جس میں بلوچ قوم اپنی زمیں اورقومی بقا کیلئے نہیں لڑا ہے۔ ہمیشہ دشمن کے سامنے اپنی سر اٹھا کر کھڑے رہے ہیں۔ اسی بنیاد سے تیرہ نومبر کو شہدائے بلوچستان کے مناسبت سے یاد کیا جاتا ہے جو قومی بقا اور آزادی کی جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔

چلو آج جھک کر اُن عظیم ہستیوں کو سلام پیش کریں جن کی عظیم قربانیوں کی بدولت آج ہم خود کو بلوچ کہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں جو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن اُن کا نظریہ اور قربانیوں کا فلسفہ ہمیشہ تحریک اور آزادی کی جد جہد کو روح پھونک دیتی رہے گی، جنہوں نے اپنی انفرادی مفادات کو ترک کرکے اجتماعی نظریے اور مفادات کی خاطر قربانی دی ہے۔

دنیا کی زندہ قومیں ہمیشہ اپنے شہیدوں کو یاد کرتے ہیں جو قومیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو بھول گئے ہیں ان کی مثالیں تامل کی جیسی ہوگی جہاں پر آزادی پسندوں نے اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو بھول کی آزادی کے جنگ کو چوری چکاری کا جنگ بنا دیا جنہیں بعد میں ایک 
عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

نومبر 13 سن 1839 کو انگریز استعماری ریاست سے اپنی زمین،قومی سلامتی،زبان اور ثقافت کی دفاع میں خان میر محراب خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہادت کا رتبہ قبول کرتے ہیں اور بلوچ، دنیا کی تاریخ کے صفحات میں قربانیوں کا عظیم باب بن جاتا ہے۔ اسی دن کے مناسبت سے جسے بلوچ طلبا تنظیم (بی ایس او آزاد) 2010 میں 13نومبر کو یوم شہدا منانے کا اعلان کرتا ہے اور بعد میں بلوچستان اور پورے دنیا میں جہاں بلوچ آباد ہیں ہر سال اسے دن شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے اور شہدا کے مزاروں اور تصویروں پر شمع روشن کر کے اُن کی قربانیوں اور جرات کو سلام پیش کرتے ہیں۔اسے وجہ سے تیرہ نومبرکو بلوچ شہداء کے دن کی مناسبت سے یاد کیا جاتا ہے اور شہید ہوئے سارے نوجوانوں ،بزرگوں اور عورتوں اور بچوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

بلوچ قوم کرائے ارض پر قائم واحد قوم نہیں جو اپنے شہدا کو یاد کرنے کیلئے ہر قوم ایک دن مقرر کرتا ہے جہاں لوگ اپنے شہید ہوئے جانثاروں کو جو اپنے وطن کی دفاع میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں، اُنہیں سلام پیش کرتے ہیں اُنہیں یاد کرتے ہیں، اُن کے قبروں پر جاکر سلامی دیتے ہیں یہ ایک طریقہ ہوتا ہے اُن کو سلام پیش کرنے کا اُن کے جدوجہد اور قربانیوں کو یاد کرنے کا تاکہ قوم کے نوجوان اپنی آزادی کی اہمیت کو جان جائیں کہ یہ آزادی اُنہیں یوں ہی نہیں ملی ہے بلکہ اس کیلئے ہزاروں لوگوں نے قربانیوں دی ہیں، آزادی سیاستدانوں کی طرح جھوٹے سلوگن سے نہیں ملتا بلکہ اس کیلئے جانوں کی قربانی درکار ہوتی ہے اور وہی قومیں اپنی آزادی کو برقرا رکھ پائے ہیں جن کے نوجوانوں اور باشعور طبقے نے اپنی آزادی کی حفاظت کیلئے جدوجہد کیا ہے قربانی دی ہے جبکہ دوسری طرف وہ قومیں تباہ ہوئے ہیں جہاں لوگوں نے اپنی زندگیوں کو ترجیح دے کر استعماری ریاستوں کو اپنے زمین کو قبضہ کرنے کیلئے کھلی چھوڑ دی ہے جن کا آج نام و نشان نہیں ملتا اور جبکہ وہ قومیں جنہوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کیلئے اپنے جانوں کا پرواہ کیے بغیر استعمار کے خلاف لڑے ہیں وہ آج اپنے نام و نشان سے زندہ قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔

اسی طرح بلوچ اُن زندہ قوموں میں سے ایک ہے جس نے کبھی بھی کسی قابض کو بخوشی اپنے زمین پر رہنے نہیں دیا ہے بلکہ اپنی آزادی کو حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ سے دشمن ریاستوں سے نبرد آزما رہے ہیں اپنے جانوں کی قربانی دی ہے لیکن دشمن ریاستوں کی غلامی کو قبول نہیں کیا ہے، بلوچ انگریز سے اپنی آزادی کیلئے لڑے ہیں اب وہ پاکستان جیسے ناپاک ریاست کا جوانمردی سے سامنا کر رہے ہیں لیکن دشمن کی غلامی کرنے کو کبھی بھی ترجیح نہیں دیا ہے، آج یہ بلوچ شہدا کا نظریہ اور اُن کی قربانیاں ہیں کہ دشمن ریاست کی جانب سے درندگی کے حدیں پار کرنے کے بعد بھی بلوچ قوم دشمن کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے
۔
на 11:57 Комментариев нет:
Отправить по электронной почтеНаписать об этом в блогеПоделиться в XОпубликовать в FacebookПоделиться в Pinterest

вторник, 30 октября 2018 г.

مادروطن،غیرت وطن اور پاک دامنی – برزکوہی

بدمعاش اور درندہ صفت پنجابی ریاست کی فوج اور اس کی الشمس اور البدر جیسا ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے اب آئے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ ماں بہنوں، بیٹیوں اور معصوم بچیوں کو اغواء کرکے ان کی آبروریزی اور عصمت دری کرکے، انہیں مفلوج زدہ حالت اور پاگل پن کی شکل میں واپس چھوڑ رہے ہیں، صرف حالیہ چند دنوں میں چند واقعات تو ہمارے سامنے آچکے ہیں، مکران کے علاقے دشت سے نوجوان بلوچ بہن شمسہ بی بی اور گذشتہ دنوں پنجگور سے کچھ بلوچ خواتین کو اغواء کرکے آبروریزی کا نشانہ بنانا، ایسے واقعات ویسے تو کب سے شروع ہیں لیکن باقی میڈیا میں نہیں آرہے ہیں، اس لیئے ایک تو بلوچ اپنی سماجی خدوخال کی وجہ سے ایسے واقعات کو بیان نہیں کرسکتے ہیں اور اپنی بدنامی تصور کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ کل ہماری ماں بہن اور بیٹی ذندہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں، اسی وجہ سے خاموش ہوتے ہیں تاکہ کسی کو معلوم نہیں ہو۔ دوسری وجہ ریاستی دھمیکوں کے خوف سے خاموش ہوتے ہیں، انہیں ریاستی، فوجی اغواء کار دھمکی دیتے ہیں۔ اگر رہائی کے بعد یا خواتین کے اغواء کے وقت کوئی بھی آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو وہ انہیں بار بار اٹھاکر لےجاتے ہیں اور مزید تشدد کا نشانہ بناکر عبرت ناک انداز میں قتل کردیتے ہیں۔
اسی وجہ سے آج بنگالیوں کی طرح پاکستانی فوج اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ نے تسلسل کے ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین کو اغواء کرکے عصمت دری کا نشانہ بناکر مفلوج حالت میں چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مگر ان واقعات کے بارے میں کسی کو علم نہیں، اگر کسی کو کسی بھی ذریعے سے بھی علم ہوگا، ان خاندانوں سے رابطہ ہوگا، وہ واقعے کی تو تصدیق کرتے ہیں لیکن خدا کا واسطہ اور شہیدوں کی قسم دیکر اس واقعے کو اجاگر کرنے سے منع کرتے ہیں اور یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ریاستی خوف اور دھمکی، دوسری طرف بلوچ سماج میں اپنی بدنامی سمجھ کر نظر انداز کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔
یہ دونوں جواز حقیقت میں دراصل بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کے لیئے نقصاندے اور پنجابی دشمن کے لیے فائدے اور اس کے حق میں ہونگے۔ ایک تو آپ کیسے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہونگے کہ پاکستانی فوج بلوچوں کے ساتھ انسانی حقوق کے خلاف جرائم کا عملاً مرتکب ہورہا ہے؟ دوسرا کیسے، کس طرح باقی بلوچوں میں دشمن کے خلاف نفرت اور مزاحمت کی شعور کو اجاگر کرو گے؟ کیا بے بسی، خاموشی اور نظر انداز کرنے سے باقی بلوچ ماں، بہنیں اور بیٹیاں محفوظ رہسکتے ہیں؟ اور یہ جاری و ساری سلسلہ ختم ہوسکتا ہے؟
جہاں تک خوف دھمکی اور قتل کرنے کی بات ہے تو یہ ایک مستند حقیقت ہے کہ دشمن ہمارے نظرانداز خاموشی اور بےبسی سے نہ سدھرئیگا اور نہ ہی اس سلسلے کو ختم کریگا بلکہ مزید تیز کردیگا، دوسری طرف بلوچ سماج کی بات ہے، تو ایک حقیقت ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ جب آپ ایک درندہ صفت، انسانیت سے عاری طاقت ور دشمن کے خلاف اپنی مقدس آزادی کی حصول کے خاطر جنگ لڑو گے تو جب بھی دشمن جو بھی عمل کریگا، وہ تحریکی، وطن اور قوم کی قربانی شمار ہونگے۔ وہ قابل شرمندگی نہیں بلکہ قابل فخر ہونگے۔ ہم سب کو ان پر فخر ہونا چاہیئے اور ایسے ماں بہنوں اور بیٹیوں کو اپنا ہیرو ماننا چاہیئے، ان کے خاندانوں کو عظیم خاندانوں میں شمار کیا جانا چاہیئے۔ کیونکہ وہ غیرت مند ہیں، وہ باشعور ہیں، وہ بہادر ہیں، وہ قوم اور وطن کے دردمند اور فکرمند ہیں۔ ان کے ساتھ اسی لیئے ایسا سلوک ہوتا ہے۔ اگر وہ پنجابی ریاست کا حصہ، بزدل، نکمے، بے حس اور بے ضمیر ہوتے تو ان کو کچھ نہیں ہوتا۔ آج وہ اپنا مال، جان، ننگ وناموس اور عزت سب کو مادر وطن اور آنے والی نسلوں کے لیئے قربان کررہے ہیں۔ ان کی قربانیوں پر روایتی انداز اور فرسودہ سوچ کے تحت شرمندگی کے بجائے نفرت اور مزاحمت کو دل میں لیکر دشمن کے خلاف موثر ردعمل ظاہر کرنا ہوگا، بجائے بے بسی اور خاموشی کے ایسے واقعات کو نظرانداز کرنا، خاموش رہنا اور دبانا انتہائی خطرناک عمل اور دشمن کے موقف اور پالیسی کی دانستہ اور غیردانستہ طور پر تائید ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں بنگالی خواتین کے ساتھ پاکستانی فوج اور اس کی حمایت یافتہ اور تشکیل شدہ الشمس اور البدر کے غنڈوں کے ہاتھوں بنگالی ماں، بہنوں اور معصوم بچیوں کی آبرویزی اور عصمت دری ہوا، تو بقول بنگالی قوم کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان کے کہ بنگہ دیش آزاد تو ہوا لیکن بنگال میں کوئی بنگالی کنواری لڑکی نہیں بچا۔ تو پھر کیا آج بنگالی قوم شرمندہ ہیں یا قابل فخر قوم ہے؟ اور آج دنیا میں بنگالی قوم کو کس نظر سے دیکھا جارہا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے بنگال تحریک کی شدت اور مزاحمت میں پنجابی دشمن کی طرف سے بنگالیوں کے ساتھ آبروریزی اور عصمت دری، بنگالی تحریک کی آگ کے لیئے بطور ایندھن یعنی پیٹرول ثابت ہوگیا۔ بنگالی قوم اس وقت دنیا کی توجے کا مرکز بن گیا، پھر دوسرے اقوام خاص کر انڈیا کو عالمی قوانین کے تحت بطور ذمہ دار ریاست انسانی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف قانونی جواز مل گیا کہ وہ برائے راست مداخلت کرکے پاکستان کے خلاف جنگ لڑیں اور قومی آزادی کی تحریک کو سپورٹ کریں اور ہوا بھی ایسا اور بنگہ دیش آج کرہ ارض پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی شکل میں موجود ہے۔
آج بالکل بلوچ قوم کے ساتھ وہی نارواہ سلوک ہورہا ہے، مسلسل بلوچ ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو پاکستانی فورسز اغواء کرکے آبروریزی اور عصمت دری کانشانہ بنارہے ہیں، لیکن بلوچ قوم ایسے واقعات کو روایتی اور فرسودہ نقطہ نظر اور سوچ کا بھینٹ چڑھا کر نظرانداز کرنے کی کوشش کررہا ہے، بجائے ایسے دلخراش اور کربناک واقعات سے اپنی قوم کو بیداری اور آگاہی اور مہذب دنیا کا توجہ اور مدد حاصل کرنے کے، ان تمام واقعات پر پردہ ڈال کر دشمن کی خاموش اور بے حس کرنے والی موقف کے تائید کرتے ہیں۔
یاد رکھا جائے اگر یہ خاموشی اور نظرانداذ کرنے کا روایتی طریقہ کار اور سوچ اسی طرح چلتا رہا، تو تاریخ میں ایسے جرائم کے مرتکب ہونے والوں کے ساتھ خاموش اور نظر انداز کرنے والے برابر شریک ہونگے۔
آگے مزید خاموشی، بےحسی اور نظرانداز کرنے سے یہ سلسلہ نہ کم ہوگا اور نہ ختم ہوگا، بلکہ مزید شدت اور وسعت اختیار کریگا۔ اس سے ایک بھی بلوچ ماں، بہن اور بیٹی محفوظ نہیں ہوگا۔ اس کا شکار آج نہیں کل ضرور ہوگا اور ہر ایک کو اس کرب سے گزرنا ہوگا۔ بجائے پھر اپنی باری کے انتظار سے آج پہلے سے بلوچ قوم میں یہ سوچ و شعور کو اجاگر کرنا ہوگا کہ ایسے واقعات کو خدارا پردے کے پیچھے ڈھانپنے کی کوشش مت کرو بلکہ میڈیا کے سامنے لایا جائے، خوف کے عالم میں محفوظ ہونا ممکن نہیں بلکہ دن بدن زیادہ ہوگا اور ایسے واقعات کو اپنے فرسودہ سماج کی نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیئے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے، موجود سماج میں مقید ہوکر قومی آزادی حاصل کرنا، اپنی جگہ اس کا صرف تصور اور خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں، قومی آزادی اور قومی تحریک کے اپنے طے شدہ اصول اور تقاضے ہیں، جب وہ من و عن پورے نہیں ہونگے، اس وقت تک نجات اور کامیابی ممکن نہیں بلکہ ادھورا ہوگا۔
ان تمام واقعات کو انقلابی اور تحریکی نقطہ نظر اور تقاضات کے سانچوں میں پرکھے ہوئے قدم اٹھانا اور فیصلہ کرنا آج وقت اور حالات کی ضرورت ہے۔
ایسے دلخراش واقعات کے ردعمل میں دشمن کو موثر اور آخری انتہاء کے جواب اور اپنے قوم میں یعنی عوامی سطح پر شعور و آگاہی کے کسی بھی صورت اور لحاظ سے ایسے واقعات کو خوف، دھمکی اور سماجی سوچ کے مطابق پردوں میں لپیٹنے کی کوشش نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ان کو بلوچ قوم اور دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیئے اور ایسے ماں بہنوں اور بیٹیوں کو مادروطن، غیرت وطن اور پاک دامن قرار دیکر ان کے قدموں کی مٹی کو مقدس مٹی سمجھ کر آنکھوں پر رکھنا چاہیئے۔
на 12:36 Комментариев нет:
Отправить по электронной почтеНаписать об этом в блогеПоделиться в XОпубликовать в FacebookПоделиться в Pinterest

воскресенье, 28 октября 2018 г.

عالمی آگ کی تپش – برزکوہی

پاکستان کی معاشی حوالے سے عالمی سطح پر عالمی استحصالی قوتوں اور طاقتوں سے بھیک، قرض، مدد و تعاون اور عوض میں بلوچ سرزمین خاص کر گوادر اور بلوچوں کے قدرتی وسائل کو عالمی قوتوں کو فروخت کرنے کے ساتھ بلوچ سرزمین کو جنگی اڈے میں تبدیل کرنے کا آغاز ویسےتو کب سے شروع ہوچکا ہے، مگر اب پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی گھنٹی تیزی کے ساتھ بجنے پر پاکستان مزید شدت کے ساتھ ہاتھ و پاوں مارنے کی کوشش میں ہے۔
حالیہ دنوں، ہمیشہ کی طرح پنجابی قوم کا دیرینہ حلیف سعود خاندان کی طرف سے پاکستان کو 3 ارب ڈالر اور تین سال تک 9 ارب ڈالر کا تیل ادھار دینا اس بات کی واضح دلیل ہے، پاکستان بدلے میں پھر سعودی عرب کو بلوچ سرزمین اور بلوچ ساحل اور وسائل ہی دیگا۔ اس کے علاوہ اور پاکستان یعنی پنجاب کے پاس دینے کے لیے کیا ہے؟
گوکہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محممود قریشی نے ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں سعودی عرب کی حالیہ تعاون اور ادھار کو غیر مشروط قرار دیکر انتہائی فنکارانہ اور مکارانہ انداز میں اس سعودی تعاون کو مدینے والے کا کرم و نواذش قرار دیا۔
افسوس اور قابل نفرت اس بات کی ہے کہ اس جدید دور اور اکیسویں صدی میں بھی پنجابی قوم، سعودی عرب و پاکستان کی بلوچوں کے خلاف جرائم میں شراکت اور بلوچ وسائل کی فروخت و لوٹ مار کو مدینے والے کی کرم قرار دیکر بلوچ قوم اور مہذب دنیا کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
یہ مدینے والے کی کرم اور نوازش نہیں بلکہ بلوچ سرزمین پر بلوچوں کے اوپر ڈھائے جانے والی پنجابی شاہی اور سعودی شاہی خاندان کی قہر اور جبر کی ایک نیا اور خوفناک سلسلہ شروع ہوگا۔
بلوچ ساحل اور وسائل پر قبضے اور لوٹ مار کے ساتھ سعودی عرب اپنے کٹر حریف ایران کو مزید سبق سکھانے کی خاطر بلوچ سرزمین کو بطور اڈہ استعمال کرکے بلوچوں میں سنی یعنی مذہبی شدت پسندی کو مزید پروان چڑھا کر بلوچ سیکولر سماج کو مزید گند آلود اور پراگندہ کردیگا۔ جو بلوچ قوم کو مذہبی سوچ اور انتہاء پسندی کی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرکے بلوچ قوم پرستی اور قومی سوچ کو مسخ کردیگا۔ جو بلوچ نیشنلزم اور بلوچ نیشنلزم اور سیکولر بنیادوں اور فلسفے پر چلنے والی قومی آزادی کی تحریک کے لیئے آنے والے وقتوں میں انتہائی خطرناک اور کربناک ہوگا۔ جس کے آگ میں صرف ایک ہی نسل نہیں بلکہ کئی نسلیں تڑپ تڑپ کر راکھ ہونگے۔
اس عالمی آگ کی تپش میں کوئی بھی بلوچ محفوظ نہیں ہوگا، وہ شہروں، دیہاتوں، پہاڑوں، یورپ، خلیج ممالک خدا کرے پاکستانی پارلیمنٹ سے لیکر سکون و مراعات اور آسائش کی زندگی گذارنے میں مگن کیوں نہ ہو، وہ فناء ہی ہونگے، اگر خدا نخواستہ اس آگ کو قابو پانے کیلے وسیع علم و آگاہی و ادراک و احساس اور منصوبہ بندی نہ ہو۔
عالمی قوتوں کی آپسی ٹکراو، مذہبی منافرتوں، قتل و غارت گری و قتل عام اور دنیا کے پروکیسز ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہونگے، تو سب کے سب برائیوں اور تباہیوں کی آمجگاہ بلوچ گل زمین اور نشانہ خاص کر بلوچ قوم ہوگا اور اس وسیع اور طویل خون ریزی میں بلوچ قوم کے ساتھ دیگر پاکستان کی زیردست، محکوم اقوام سندھی پشتون اور سرائیکی بھی کسی بھی حالت میں محفوظ نہیں ہونگے۔
پاکستان اور چین سامراج پہلے سے بلوچ سرزمین پر اپنی فوجی طاقت اور قوت کے ساتھ موجود بلوچ وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بلوچ نسل کشی میں برابر برابر مصروف عمل ہیں۔
دوسرے طرف دنیا کا بے تاج بادشاہ امریکہ معاشی اور عسکری حوالے سے چین کی مضبوطی کو شروع دن سے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتا آرہا ہے، مگر پاکستان کو ابھی تک رام رام کررہا ہے اور سعودی عرب کو گلے لگا رہا ہے۔ حب علی (سعودی )بغض معاویہ (ایران)کی وجہ سے پاکستان بھی اب تک فی الحال امریکہ بادشاہ کا مجبوری حلیف ہے۔
اسی تناظر میں واجہ انور ساجدی نے اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ بھی اس صورتحال سے پریشان اور مایوس تھے، کیونکہ ڈاکٹر مالک بلوچ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا بندہ خاص ہوتے ہوئے، اپنی ڈھائی سالہ دور اقتدار میں تمام کھیل کھود میں برائے راست شامل ہوتے ہوئے اس کو سب کچھ معلوم ہے کہ کیا ہوا؟ کیا ہوگیا اور آگے کیا ہونے والا ہے؟
اس لیئے نہیں کہ ڈاکٹرمالک کو بلوچ قوم بلوچ سرزمین کے حوالے سے درد و تکلیف اور احساس ہے بلکہ اس لیے کہ ڈاکٹر مالک کو اپنی ذاتی ملکیت و جائیداد، روایتی منافع خور سیاست، ذاتی اور خاندانی، فکر کی پریشانی اور مایوسی ہے کہ آئیندہ ان کا کیا ہوگا؟ ڈاکٹر مالک یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس عالمی آگ کو جلانے اور مدد کرنے میں اس کا اور اس کی پارٹی کا کس حد تک ہاتھ اور حصہ داری ہے پھر ضرور ڈاکٹر اور اس کی کمپنی تاریخ کی کرب اور عبرت سے کسی بھی صورت محفوظ نہیں ہونگے۔
جناب سردار اخترمینگل اور اس کی ٹیم بلوچستان کی اس تمام مخدوش صورتحال سے باخبر ہوتے ہوئے، بے خبر ہوکر روایتی سیاست کی گول سرکل میں ابھی تک افغان مہاجرین اور مسنگ پرسنز کی ڈھول کو پیٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اخترجان یہ بھول رہا ہے افغان مہاجرین سے 100 گناہ زیادہ چینی و بہاری اور پنجابی مہاجرین کی بلوچستان پر یلغار شروع ہونے والا ہے اور مزید اب تک ہزاروں کی تعداد بلوچ مسنگ ہے، وہ چند سالوں میں آئیندہ لاکھوں کے تعداد میں ہوکر خود بلوچ قوم کے ساتھ پورا بلوچ سرزمین مسنگ ہوگا، تو پھر اخترمینگل کے پاس سیاست کے لیئے کیا ہوگا؟
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود آزادی پسند قیادت اور جہدکار اس موجود اور آئیندہ صورتحال کو کس زوایہ نظر سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں؟ کس حد تک سیاسی بصریت اور ادراک رکھتے ہیں؟ ان کے پاس کیا منصوبہ بندی اور پالیسی موجود ہیں؟ اور پھر کس حد تک عمل درآمد ہورہی ہے؟ یا ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں؟ یا وقت و حالات کے انتظار اور رحم و کرم پر سب کچھ چھوڑ کر فی الحال سطحی اور طفلانہ سوچوں اور رویوں میں وقت گزاری کررہے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو نتائج انتہائی بھیانک ہونگے۔
وقت کم مقابلہ سخت، اس عالمی آگ پر قابو پانے کے لیے چند بالٹی پانی یعنی محدود معمولی سے معمولی سرگرمیوں اور کاراوائیوں سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ مضبوط و طاقت ور اور موثر ردعمل ہی سے اس آگ کو قابو پانا ممکن ہوگا۔ جس کے لیئے روایتی و ماضی پرستانہ رویوں اور طرز عمل سے مکمل نکل کر انتہائی سنجیدگی سے سوچ و بچار کر آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ ماضی میں روایتی رویوں اور طرز عمل ہرگز قومی تحریک، مقصد اور کامیابی کی حصول کے لیئے نہیں بلکہ صرف سستی شہرت اور جنگی منافع خوری کے لیئے ہوچکے ہیں، اب اگر ارادہ سوچ اور نیت قومی و عوامی تحریک، مقصد اور کامیابی کی ہے پھر بھی طریقہ اور طرز عمل وہی روایتی اور ماضی پرستانہ ہوا تو پھر نتیجہ واپس وہی ہوگا جو پہلے ہوا تھا تو پھر بقول معروف سائنسدان آئنسٹائن کہ “ایک بارتجربے سے جو نتیجہ حاصل کرنے کے بعد دوبار تجربہ کرکے مختلف نتیجہ حاصل کرنے کی توقع کرنا بے وقوفی اور احمقی ہی ہوگا۔”
Original article
на 11:43 Комментариев нет:
Отправить по электронной почтеНаписать об этом в блогеПоделиться в XОпубликовать в FacebookПоделиться в Pinterest

воскресенье, 21 октября 2018 г.

شہادتِ جنرل رازق معمہ نہیں – برزکوہی

س حد تک سب پڑھتے، سنتے، لکھتے اور کہتے ہیں کہ آج سے نہیں بلکہ 18 سال سے دنیا میں ایک گریٹ گیم چل رہا ہے اور دنیا ایک گلوبل ولیج کا شکل اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کی ڈیموگرافی تیزی کی ساتھ تبدیل ہورہی ہے، حالات بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں، مگر ان برق رو تبدیلیوں کے اثرات اور ثمرات سے بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کے حالت اور صورتحال پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا ہر تبدیلی بلوچ قومی تشخص، بقاء اور بلوچ قومی تحریک کے لیئے سود مند ثابت ہوگا؟
افغانستان کی صورتحال اور افغانستان میں مثبت یا منفی تبدیلی، امن اور جنگ، استحکام اور غیر استحکام دونوں صورتوں میں اس کے تمام اثرات ماضی میں بھی اور آج بھی براہِ راست، بلواسطہ یا بالاواسطہ بلوچ قوم، بلوچ سرزمین اور بلوچ قومی تحریک پر پڑے ہیں اور پڑتے رہینگے۔
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، 90 کی دہائی میں افغان قومی لیڈر اور افغان صدر، ترقی پسند رہنما ڈاکٹر نجیب اللہ کے تختہ دار پر لٹکائے جانے اور شہادت، اس کے بعد بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک کی مجموعی صورتحال اور بلوچستان کے حالات؟ اور آج ایک بار پھر افغانستان کے صوبہ قندھار کے پولیس سربراہ کے روپ میں افغان قومی لیڈر اور بلوچ دوست رہنماء حاجی رازق اچکزئی اور شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں ڈاکٹر نجیب کا دوست اور سابقہ سیکریٹری جبار قہرمان اور حاجی رازق کا بندہ خاص حاجی صالح محمد خان اچکزئی سمیت دیگر ایک ہی لابی کے ہم خیال رہنماوں اور عہدیداروں کو حالیہ ایک ہی مہینے میں اندورونی سازش کے تحت انتہائی آسانی کے ساتھ ٹارگٹ کرکے شہید کرنا خود کس طرف اشارہ کرتا ہے؟
کیا ایک بار پھر ماضی کی طرح بلوچ قیادت اور جہدکار پہلے سے آنے والے حالات اور تبدیلی کے ادراک سے محروم ہوکر، غور و فکر سے بیگانہ، صرف جنگی منافع خوری اور ذاتی معاشی استحکام کے غرض سے سب کچھ پورے قوم اور قومی تحریک کو حالات اور واقعات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا رویہ اپنا کر آخر میں اسی فارمولے کو دوہراتے ہوئے، یہ فرمائیں گے کہ ہزاروں کی تعداد میں اس وقت مری قبیلے کو کس نے کہا تھا کہ وہ افغانستان آئے اور جلاوطنی اختیار کرے؟ کیونکہ اب آزادی کی جنگ کے لیئے وقت اور حالات موافق نہیں ہیں، بجائے قوم کو حالات اور واقعات اور اصل صورتحال سے علم اور آگاہ کرنے کے۔ الٹا قومی جہدکاروں اور بلوچ مہاجرین کو موردالزام ٹھہرا کر بے یار و مدگار چھوڑ دینا اور ساتھ ساتھ آپسی رنجش اور تضادات کو اس لیئے پیدا کرنا تاکہ آپسی تضاد اور اختلافات کی ہواوں اور لہروں میں تحریک خود مسخ ہوکر جمود کا شکار ہوں، لوگ بدظن اور مایوس ہوکر اپنی مدد آپ ادھر ادھر ہوں اور الزام بھی قیادت کی حالات سے عدم ادراک، لاعلمی اور نالائقی پر سوالیہ نشان اور دھبہ نہ ہو، سب کچھ قوم کی پیشانی پر نقش ہو۔
بجائے متبادل حل، پالیسی، منصوبہ بندی اور حکمت عملی مرتب کرنے کے انتہائی صفائی اور ٹیکنیکل انداز میں راہ فراریت کی شکل میں تحریک اور قوم سے ہاتھ اٹھانا اور ہاتھ اوپر کرنا، آج خود اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔ اس وقت تحریک، تنظیم، منصوبہ بندی اور طویل جنگ کے کسی پلان اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے، تو پھر ماضی کے تلخ تجربات و مشاہدات اور تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر آج بلوچ قیادت اور جہدکاروں کے پاس طویل و دیرپاء اور مستقل قومی جنگ کے لیے کیا اور کس طرح کی منصوبہ بندی، پالیسی و حکمت عملی ہے؟ اگر خدانخواستہ دوبارہ ماضی کی صورتحال سے بلوچ تحریک اور بلوچ قوم کا آمنا سامنا ہوا تو متبادل راستہ اور طریقہ کار کیا ہے؟ تاکہ بلوچ قومی جنگ اپنی قومی قوت اور قومی طاقت کے بل بوتے پر اپنی منزل کی طرف جاری و ساری ہو؟
جھوٹ، خوش فہمی، دھوکا دہی، فریب اور سبز باغ دکھانے یعنی امریکہ آئے گا ایران پر حملہ کریگا اور بلوچ قومی تحریک کو سپورٹ کریگا اور بلوچستان کو آزاد کردیگا اس وقت بھی یہی کہا گیا کہ سپر پاور روس آئیگا، گوادر پورٹ کو تعمیر کریگا، بلوچ قومی تحریک کو سپورٹ کریگا اور بلوچستان کو آزادی دلوا دیگا۔ مگر ایسا نہیں ہوا، روس خود انہدام کا شکار ہوکر بکھرگیا، پھر کیا ہوا؟ قوم میں مایوسی اور بدظنی پیدا ہوئی ذمہ دار کون؟ روس یا پھر حالات و واقعات سے نابلد اور ادراک سے محروم قیادت اور جہدکار؟ جب ایسا نہیں ہوا تو ایسا ہی ہوگا، دوسرا اور تیسرا پلان یہ ہوگا؟ کیا آج پہلا، دوسرا اور تیسرا پلان اور خاکہ ذہن میں موجود ہے؟ اس پر سوچ و بچار ہوچکا ہے؟ لانگ ٹرم پالیسی مرتب ہوچکا ہے؟
کیا دنیا میں آج تک کوئی کمزور طاقت، کمزور تحریک اور کمزور قوت گریٹ گیم اور تبدیلی کا حصہ بنا ہے یا بنے گا؟ یا کسی کمزور قوت کو کسی نے بھی سپورٹ کیا ہے؟ تو پھر امریکہ کے انتظار اور خوش فہمی میں مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی طاقت کو خود سازش، الزام، حربوں، ہتھکنڈوں اور دیوار سے لگا کر منتشر کرنا، اس کے بعد بھی امریکہ کی مدد اور کمک کی جھوٹی تسلیاں دینا، کیا بلوچ نوجوانوں کو ماضی کی طرح دھوکا اور گمراہ کرنے کے مترادف نہیں ہوگا؟ جب چند مدت بعد نوجوان خشک صحرا میں کچھ بھی نہیں دیکھینگے، تب خوشی فہمی اور غلط اندازوں کی سحر سے نکل جائینگے، تو ان کا پوزیشن کیا ہوگا؟ وہ سوچ کے حوالے سے کس سطح پر کھڑے ہونگے؟ مایوسی نا امیدی اور بدظنی؟ اس کا ذمہ دار پھر کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ وقت اور تاریخ کریگا۔
آج یہ بات ہر ذی شعور انسان کے لیئے کوئی معمہ نہیں ہے، عالمی قوتوں اور عالمی کھلاڑیوں کے کھیل اور مفادات کے حصول کی تکمیل اور خاص معاشی ایجنڈے، توسیع پسندانہ عزائم اور ان کے مقابل، مخالفت اور رکاوٹ کے لیئے مذہبی شدت پسند تنظیمں، طالبان اور داعش وغیرہ وغیرہ صرف اور صرف بطور کارڈ استعمال ہورہے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کسی بھی معمولی اور غیر معمولی ٹارگٹ اور کاروائی کو طالبان اور داعش کی قبولیت کا نام دیکر دنیا کے باشعور قوموں اور انسانوں کو فریب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ آج طالبان، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی فیکٹری پاکستان کا وجود مہذب دنیا کے لیئے سنگین خطرہ ہوتے ہوئے بھی کسی نا کسی جگہ معاشی مفادات اور اپنی توسیع پسندانہ عزائم کو پایہ تکیمیل تک پہنچانے کے لیئے اہم ضرورت ذریعہ اور جواز بھی ہے۔
تو اس پیچیدہ صورتحال میں گوکہ بلوچ قومی تحریک، ماضی کے نسبت شعوری، تنظیمی، نظریاتی اور فکری بنیادوں پر قومی جذبے اور جذبہ قربانی سے سرشار و جاری و ساری ہے اور جاری و ساری رہیگا لیکن پھر بھی بلوچ قیادت اور جہدکاروں کے پاس پلان، منصوبہ بندی، حکمت عملی اور خاص کر آنے والوں دنوں اور سالوں کا ادراک ہونا چاہیئے۔ اس کے لیئے مزید شب و روز سوچ بچار کرکے ہر وقت متحرک ہوکرہر ایک جہدکار کو خلوص اور ایمانداری سے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو نبھاکر تمام تر توجہ اور دلچسپی قومی قوت اور قومی طاقت پر مرکوز کرکے بڑھنا ہوگا۔ بجائے سطحی اور غیر ضروری الجھنوں میں الجھن کا شکار ہوکر اپنی حقیقی ذمہ داری اور اہم مقصد سے غافل ہوکر حالات کے رحم و کرم پر سب کچھ چھوڑ دینا اور انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا اور اللہ خیر کریگا پھر امریکہ اسرائیل وغیرہ اپنی جگہ نعوذباللہ کوئی فرشتہ آسمان سے بھی آئے ہمیں ہماری مقصد میں کامیابی دلا نہیں سکتا۔ جب تک اپنی قوت اور طاقت کا انحصار خود پر نہیں ہوگا۔
original article
на 12:37 Комментариев нет:
Отправить по электронной почтеНаписать об этом в блогеПоделиться в XОпубликовать в FacebookПоделиться в Pinterest

вторник, 16 октября 2018 г.

بلوچ ساحل، دیوار گریہ یا دریا نیل؟ – برزکوہی


بلوچ دانشور، سینئر صحافی اور تجزیہ نگار واجہ انور ساجدی اپنے کالم، بین القوامی کھیل اور بلوچستان، میں عالمی گریٹ گیم عالمی قوتوں کی رسی کشی اور بلوچ قوم اور بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے جیسی پیش بینی اور منظر کشی کی ہے، ہم جیسے کم علم جہدکار اپنے بساط کی مطابق اتنا تو سمجھے کہ ساجدی صاحب بلوچ قوم اور بلوچستان کی مستقبل کے بارے میں جو پیش بینی کررہے ہیں، اس پیش بینی میں واجہ ساجدی خطرہ و تباہی، امید و انتظار ،اور مایوسی و بے بسی بلکہ سب کو ایک ساتھ گوندھ کر پیش کر رہے ہیں۔
ساجدی صاحب اپنے کالم کے آخری پیراگراف میں لکھتے ہیں کہ “ایک بہت بڑا بین الاقوامی کھیل کھیلا جارہا ہے، جو ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہے ، لیکن ایک بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ بلوچ سرزمین اور ساحل بہت بڑی سیاسی و تذویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں ہے ، زیرو پوائنٹ سے لیکر جیونی سے زر ادور مغربی بلوچستان کی سرحد پر آپ کھلی آنکھ سے دیکھیں تو گوادر سب ڈویژن میں ایک انچ زمین مقامی لوگوں کیلئے بچی نہیں ہے، یہی حال اورماڑہ اور لسبیلہ کی ساحلی پٹی کا ہے۔
اگر معجزوں کا دور ہوتا تو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا لیکن یہ معجزوں کا نہیں حقائق اور حقیقت پسندی کا دور ہے، ساری آوازین معدوم ہوگئی ہیں، لارڈ کلائیو کی جعلی اشرافیہ دست بستہ عریضہ گزار کھڑی ہے، بعض دفعہ بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے، تاریک راہوں پر کامل اکیلا پن لیکن ہار نہیں ماننی، بے شک خطرہ ڈھائی ہزار سالہ دور میں سب سے بڑا ہے، لیکن ریت میں سر دھنسنے سے بچنا ہے، کوئی تائید غیبی اور کوئی تائید ایزدی وارد ہوسکتی، ایک طویل انتظار مقدر ہے، اسی انتظار کا انتظار ہے۔”
تو میں بھی پہلے ساجدی صاحب کے اس اعتراف کو بےباکانہ انداز میں دہراتا ہوں اور یہ اعتراف کرتا ہوں کہ مجھ میں اتنا بڑا سوج و بوجھ اور علم و ادراک نہیں کہ عالمی گیم کو سمجھ سکوں اور اس پر تجزیہ کروں۔ یہاں تک کہ اپنے شہر اور گاؤں کی اصل صورتحال سے بیگانہ اور نابلد ہوکر پھر بھی جگاڑ، رٹہ بازی، نقل بازی اور زبانی جمع خرچ کی حد تک اگر میں بھی دوسرے نیم حکیموں کی طرح امریکہ، چین، برطانیہ، یورپ سے لیکر سنٹرل ایشاء، روس، سعودی عرب، ایران وغیرہ سے ہوتے ہوئے بلوچستان تک پہنچ سکوں تو کوئی فائدہ نہیں بلکہ صرف وقت ضیاع کرنے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز ہوگا۔
لیکن ساجدی صاحب کی پیش بینی ہمیں سوچنے اور غور کرنے پر اس لیے مجبوری کرتی ہے کہ ساجدی صاحب کی کچھ برس پہلے بھی تجزیہ یا پیش بینی آج بھی من و عن صحیح ثابت ہوئی۔ گوکہ اس وقت بھی اکثریت نے ان کالموں کو صرف اخباری کالم سمجھ کر یا بالکل نہیں پڑھا یا پڑھ کر بھی ان کو سیرئیس نہیں لیا گیا، یہ کم علمی اور عدم توجہ و عدم دلچسپی کی بدقسمتی سے رجحانات اور غیر سنجیدگی آج بھی ہمارے بلوچ سیاست کی پیشانی پر چسپاں ہیں۔
تو عالمی رسی کشی اور بڑے بڑے کھلاڑیوں کی گریٹ گیم کی تناظر میں بلوچ جغرافیہ اور خاص کر بلوچ ساحل گوادر بلوچوں کے لیے دریا نیل ثابت ہوگا؟ یا پھر دیوار گریہ ثابت ہوگا جس کے پاس یہودی جاکر گڑا گڑا کر روتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں؟
دریا نیل کے بارے میں مشہور ہے جب مصر فتح ہوا تو مسلمانوں نے ایک روز ایک عجیب ماجرہ دیکھا کہ مصری ایک نہایت ھی حسین و جمیل لڑکی کو سجا سنوار کر دریائے نیل میں ڈالنے لگے ہیں۔۔۔ مسلمانوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور ان مصریوں کو ساتھ لیکر فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور سارا قصہ بیان کیا۔۔۔ اہل مصر نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دارو مدار دریائے نیل پر ھے، ھمارے ھاں یہ دستور ھے کہ ہر سال ایک حسین و جمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ہے.. اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ہو جاتا ہے اور قحط پڑ جاتا ہے۔ تاہم حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور اہل مصر کو سختی سے اس غیر انسانی ظالمانہ رسم سے روک دیا۔
دیوار گریہ وہی دیوار ہے جس کو مسلمان ’’دیوارِ براق‘‘ کہتے ہیں۔ جبکہ یہودی روایات کے مطابق دیوارِ گریہ کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام نے کی اور موجودہ دیوارِ گریہ اْسی دیوار کی بنیادوں پر قائم ہے۔
یہ مقام دنیا کے قدیم شہر یروشلیم (بیت المقدس) میں واقع یہودیوں کی ایک اہم یادگار ہے، جس کے سامنے رونا، گڑگڑانا، اہل یہود کا ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔ اُن کے مطابق یہ مقام جو دراصل ایک دیوار ہے، تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کا بچ جانے والا حصہ ہے۔ یہ یہودیوں کے لیے انتہائی اہم زیارت ہے۔ دو ہزار سال قبل بھی یہودی اس دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر رویا، گڑگڑایا کرتے تھے، اسی لیے اس کا نام دیوار گریہ پڑ گیا۔
دریا نیل کا تصور ہم قربانی اور دیوار گریہ کا تصور ہم ماتم اور رونے گڑگڑانے کا لیتے ہیں، یہاں یعنی بقول ساجدی صاحب کے بلوچ سرزمین اور ساحل مستقبل میں سونامیوں کی زد میں ہے بالکل اس بات سے کون ذی شعور، باشعور اور باعلم بلوچ انکار کرسکتا ہے۔
دوسرے طرف بلوچ قوم اپنی قومی آذادی اور سر کو ریت میں دھنسنے سے بچانے کی جہدوجہد میں مصروف عمل ہیں 2000 سے لیکر 2018 تک پاکستان ریاست اپنی تمام تر قوت، طاقت، ظلم و جبر، بربریت، بلوچ قتل عام، سازش و حربے، خوف، دہشت اور لالچ وغیرہ کے حربوں کو استعمال کرتے آرہا ہے لیکن جہدوجہد کو ختم نہیں کرسکا اور ختم بھی نہیں کرسکتا اس امید و ٹھوس دلیل کے تناظر میں عصر حاضر کی جدوجہد خالص نظریاتی و فکری بنیادوں پر جاری و ساری ہے اور بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوانوں میں قربانی کا جذبہ اور شعور کی انتہاء نمایاں طور پر ظاہر ہے۔
باقی چھوڑے دیں 2010 سے بلوچ نوجوانوں کو پاکستانی خفیہ ادارے اٹھاکر غائب کرکے ان کو شدید اور بے رحم انداذ میں سالوں سال بدترین ٹارچر کرکے ہزاروں کے تعداد میں شہید کررہے ہیں، اس کے بعد ان کی لاشوں کو بطور عبرت پھینک دیا جارہا ہے، اس کے باوجود بلوچ نوجوان یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی جوق در جوق تحریک کا عملاً حصہ بن رہے ہیں۔ جو رومانویت اور جذباتیت نہیں بلکہ شعور کا انتہاء ہے، جو دریا نیل کی طرح بلوچ سرزمین پر پڑے ہوئے شہداء کے خون کو خشک اور بانجھ پن سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
11 اگست کو بی ایل اے شہید مجید برگیڈ کے جانثار فدائی ریحان بلوچ کا دالبندین میں چینی انجنیروں پر فدائی حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچ نوجوان شعوری بنیادوں پر اپنے جان کو خود فدا کرکے بلوچ ساحل و وساہل کو چینی سونامی سے محفوظ رکھنے کی جہد میں مصروفِ عمل ہیں، یہ جہد، یہ عمل، یہ جہد کا موثر طریقہ کار، اب ظاہر سی بات ہے شروع ریحان اور ختم ریحان پر نہیں ہوگا۔ یہ ایک جاری و ساری تسلسل ہوگا۔ یہ شروعات بھی نہیں اور خاتمہ بھی نہیں۔
البتہ بلوچ جعلی اشرافیہ کی ہیرا پھیری، خفیہ سمجھوتے اور خفیہ ایجنڈوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر بلوچ قومی آزادی کی جہدوجہد میں دانستہ پیدا کردہ بحرانی صورتحال بھی بڑی حد تک تحریک پر اپنے منفی اثرات مرتب کررہا ہے، جس کی پاداش میں وقتی طور پر جمود کے تاثرات بھی ظاہر ہونے لگے ہیں، مگر اس دفعہ نظریاتی و فکری، تنظیمی، سیاسی شعور اور ادراک نے اپنے کرتب اور کرامات دکھا کر قومی آزادی کی جہدوجہد کی یوٹرن کی ناکام کوششوں کے ناکام حربوں سے بچا لیا البتہ تحریک کی رفتار ضرور سست روی کا شکار ہوا۔ مگر ماضی کی نسبت اس دفعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بجائے مضبوط ہاتھوں میں مضبوط شکل میں پیوست ہوگیا۔
ضرورت اور تقاضہ بھی اس وقت ان پیچیدہ حالات میں بلوچ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں سے، وہ بلا انتظار، بلاخوف، بلاخاطر و رواداری، رشتہ داری، تعلق داری اور محدود و مخصوص مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دنیا کے عظیم مفکرین اور محققین کی طرز قومی مفاد اور قومی بقاء کے حصول کے خاطر بین الاقوامی کھیل اور رسی کشی اور بلوچ قومی تحریک کی مجموعی کمزوریوں اور خامیوں کی صرف نشاندہی نہیں بلکہ ان پر سوال اٹھانے کے ساتھ ان کی حل کی تجویز و ترکیب اور تحریک کی تقاضات اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ واضح پالیسی اور لائن پیش کر کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کی مستقبل کی پیش بینی کو مزید وضاحت کے ساتھ علم و آگاہی کے ذریعے روشنی فراہم کریں۔ اور بلوچ جہدکار بھی جہدوجہد میں برسرپیکار ہوکر تمام صورتحال سے باخبر اور باعلم ہوکر علمی اور مدلل خیالات پر مکمل توجہ اور دلچسپی دیکر استفادہ حاصل کرتے رہیں تب جاکر شعوری اور مستقل جہدوجہد کے تقاضات پورے ہونگے۔
original article

на 23:25 Комментариев нет:
Отправить по электронной почтеНаписать об этом в блогеПоделиться в XОпубликовать в FacebookПоделиться в Pinterest

среда, 10 октября 2018 г.

عالمی قوانین، کچکول ایڈوکیٹ کے موقف کے تناظر میں – برزکوہی

شروع دن سے لیکر آج تک بلوچ قومی آزادی کی جنگ مکمل اور من وعن عالمی قوانین کے تحت جاری و ساری ہے، اس میں کوئی تضاد اور دورائے نہیں ہے۔ کوئی لاکھ من گھڑت دلیلیں اور تاویلیں انسانیت، مسلمانیت، انسانی حقوق، روایات، مذہب، بیرونی مداخلت و ایجنڈے وغیرہ کی پیش کرے، وہ تمام کے تمام پاکستان دشمن کی من گھڑت پروپگنڈوں، مفاد پرستی، خوف و مصلحت پسندی، بزدلی، شکست و ریخت، کم عقلی، لاعلمی، لاشعوری، جھوٹ و فریب دھوکا دہی اور منافقت کو جواز فراہم کرنے کی حربے اور بہانے ہیں۔
بلوچ دانشور اور ماہر قانون کچکول علی ایڈوکیٹ صاحب اپنے ایک حالیہ الیکٹرانک چینل انٹرویو میں عالمی قوانین کی روشنی میں واضح طور پر کہتا ہے کہ دنیا کے وہ تمام ممالک جو جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کونسل کے ممبر ہیں، وہ عالمی قوانین کے رو کے مطابق برائے راست بلوچستان میں مداخلت کریں، بجائے تماشائی بننے کے اور سیکورٹی کونسل میں شامل ممالک ممبران کی سیاسی، سفارتی، انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا فرض پورا کریں۔ جس طرح بنگلہ دیش میں بھارت دیدہ دلیری سے بنگال میں برائے راست مداخلت کرکے بنگالیوں کا پاکستان سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوا تھا۔ اسی طرح عالمی قوانین کے تحت دنیا کے پاس بلوچستان میں برائے راست مداخلت کے ٹھوس جواز اور حقائق موجود ہیں۔ انہوں نے 4 جواز یا جرائم کا ذکر اور وضاحت کی جو کہ پاکستان، بلوچستان میں ان چاروں جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔ لہٰذا دنیا کو برائے راست مداخلت کرنا چاہیئے۔
یعنی عالمی قوانین کے مطابق سیکورٹی کونسل کے آرٹیکل 5 میں 4 جرائم کا باقاعدہ ذکر ہے کہ کوئی بھی ریاست کسی بھی قوم کے ساتھ ان جرائم کا مرتکب ہوگا تو سیکورٹی کونسل کے ممبر ممالک باقآعدہ مداخلت کرسکتے ہیں۔
1۔ نسل کشی
2۔ انسانیت کے خلاف جرائم
3۔ نسلی جرائم
4۔ جنگی جرائم
اسی رو سے ” بلیو واٹر تھیسس” اور ” سالٹ واٹر تھیسس” بھی ہماری بحثیت بلوچ قوم و قومی آزادی کو مکمل سپورٹ کرتا ہے۔ تو دنیا کیوں بلوچستان میں مداخلت کرے اور بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک برائے قومی آزادی کو مکمل سیاسی معاشی انسانی اور اخلاقی طور پر کھلم کھلا مدد و کمک کیوں کرے؟ جواذ اور دلیل کیا ہے؟ تو جواب میں سادہ سیدھا اور واضح انداز میں عالمی قوانین کے آرٹیکل 5 میں یہ چار جواز موجود ہیں جن کا ذکر ہوگیا۔
بلوچستان میں بلوچ قوم کے ساتھ پاکستانی فوج اور پاکستان کی خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور آئی ایم آئی اور بشمول ریاستی تشکیل کردہ سول وردی میں ملیشیاء جس کو ڈیتھ اسکواڈ کہتے ہیں ان کے ہاتھوں برائے راست ایک دن نہیں بلکہ روزانہ کی بنیادوں پر بلوچستان کے مخلتف علاقوں میں بلوچوں کے خلاف ان چاروں جرائم کا تسلسل کے ساتھ مرتکب ہورہے ہیں۔ بلوچ سول آبادیوں پر پاکستانی فوجی ہیلی کاپٹروں، گن شپ کوبرا ہیلی کاپٹروں، جیٹ طیاروں، ٹینک، توپوں سے بمباری و شیلنگ تسلسل سے جاری ہے۔ بلوچستان کے علاقے کوہلو، کاہان، بولان، خاران، نوشکی، قلات، مکران، ڈیرہ بگٹی، آواران، مشکے اور دیگر علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر کئی بلوچ خواتین معصوم بچے، نوجوان اور بزرگ ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں کی بمباری کا ٹارگٹ ہوکر شہید ہورہے ہیں اور ان کے ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں۔ ایک دن میں کئی بلوچ خواتین اور بچے ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہورہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ٹارچر سیلوں میں اب بھی موجود ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ بلوچوں کو بغیر عدالت ماوائے قانون خفیہ طور پر شہید کرکے ان کے لاشوں پر تیزاب اور دیگر کیمیائی مواد چھڑک کر ان کو جنگلوں ویرانوں اور پہاڑوں میں پھینک چکے ہیں۔ کئی لاپتہ بلوچوں کے جسموں کے مختلف اعضاء کاٹ کر لاشوں کو مکمل مسخ کرکے ویرانوں میں پھینک دیا گیا ہے اور تو چھوڑیں صرف 2014 میں بلوچستان کے علاقے خضدار توتک سے بلوچوں کا اجتماعی قبر دریافت ہوا، جہاں سے لگ بھگ بلوچوں کے ڈیڑھ سو کے قریب لاشیں برآمد ہوئے لیکن باقیوں کو چھپایا گیا۔ آج بھی وہاں ہزاروں کی تعداد میں زیر زمین لاشیں موجود ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اجتماعی قبر موجود ہیں لیکن کسی کو خاص جگہوں کا پتہ نہیں۔ اس کا واضح ثبوت کئی لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے بعد ان کے زبانی اس حقیقت کا سامنے آنا ہے کہ ہم پورے 1 یا 2 سال 12 گھنٹے اجتماعی قبریں تیار کرتے تھے۔ بلوچستان کے مختلف دور دراذ علاقوں میں یعنی رات کی تاریکی میں، آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر ہمیں لیجاتے تھے، ہم سالہا سال اجتماعی قبروں کی کہدائی کرتے۔ وہ اجتماعی قبریں کہاں اور کس جگہ پر ہیں ؟ کسی کو پتہ نہیں۔
اسی طرح پورے بلوچستان میں دیہی و پہاڑی علاقوں میں بسنے والے لاکھوں کی تعداد میں بلوچوں پر مسلسل فوجی آپریشن، بمباری، چھاپے، اغواء، گرفتاری، دھونس و دھمکی کے ذریعے ان میں خوف و ہراس پھیلا کر ان کو بزور طاقت بلوچستان بدر کررہے ہیں۔ آج لاکھوں کی تعداد میں بلوچ خاندان، بلوچ مہاجرین کی شکل میں ایران، افغانستان، سندھ میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ بلوچ سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں، طالب علموں، ڈاکٹر، وکیلوں، انجنیئروں، صحافیوں کو دن دھاڑے قتل کرنا اور اغواء کرکے غائب کرنا آج روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔
انتہائی مختصر حدتک پاکستان کے بلوچوں کے خلاف جرائم کو بیان کرنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا سول آبادی کو گن شپ ہیلی کاپٹر، جیٹ طیاروں، ٹینکوں اور توپوں سے نشانہ بنانا جرائم کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا ہے؟ کیا کسی جنگی قیدی کو جنگی قیدی قرار دینے کے بجائے اس کے مسخ شدہ لاش ویرانے میں پھینکنا جنگی جرائم میں شمار نہیں ہوگا؟ ایک ہی نسل یعنی بلوچ قوم کو نسلی تعصب کے بنیاد پر قتل کرنا اور بلوچستان سے بیدخل کرنا جرائم میں شمار نہیں ہوگا۔ باقی چھوڑ دیں، 1998 میں بلوچستان کے علاقے چاغی کے مقام راسکوہ پر اٹیمی تجربے کرنا، وہاں بلوچ آبادی کو بیدخل کرنا اور راسکوہ کے آس پاس علاقوں میں ایٹمی تجربات کے منفی اثرات آج بھی شدت کے ساتھ موجود ہیں، اکثریت بچے مفلوج پیدا ہوتے ہیں، باقی مختلف امراض کے شکار ہورہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ کیا یہ نسل کشی اور جرائم میں شمار نہیں ہوگا؟ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پاکستان آرمی اور ایف سی کی سرگردگی میں فری میڈیکل کیمپ کے آڑ میں بلوچوں کو میڈیسن کی شکل میں سلو پوائیزن اور خطرناک سائیڈ افکیٹ پیدا کرنے والی ادویات اور انجیکش استعمال کررہے ہیں کیا یہ جرائم میں شمار نہیں ہونگے؟ باقی بلوچوں کے قدرتی بے شمار وسائل جو 70 سال سے پاکستان لوٹ رہا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
کیا اس سے بڑھ کر اور جرائم بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی پاکستان مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چاروں جرائم کے حدود کو پار کرچکا ہے۔ دنیا کو مکمل جواز و دلیل پاکستان خود اپنے منفی عمل و کردار اور سفاکیت سے فراہم کررہا ہے کہ وہ مداخلت کریں، دنیا کیوں مداخلت نہیں کررہا؟ بلوچ قوم کو باقاعدہ سپورٹ نہیں کررہا ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے اس پر باریک بینی سے غور ہونا چاہیے۔
جہاں تک Blue Water Thesis or “Salt Water Thesis کا تعلق ہے، تو یہ بلوچ قوم اور بلوچ قومی آزادی کو مکمل سپورٹ کرتا ہے۔ پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ Blue Water Thesis or “Salt Water Thesis کیا بلا ہے؟ اور کیوں روبہ عبل ہوتا ہے؟ اور بلوچ قوم کو کیسے سپورٹ کرتا ہے۔
Blue Water Thesis or “Salt Water Thesis
اقوام متحدہ کے قرارداد 637 سے ابھرنے والا ایک محدود ترکِ نوآبادیات طریقہ کار تھا، جو غیر خودمختار علاقوں کو حقِ خود ارادیت و آذادی سے جوڑتا ہے۔
16 دسمبر 1952 کو جنرل اسمبلی کی اپنائی گئی قرارداد 637 شق 8 یہ تسلیم کرتا ہے کہ ” اقوم متحدہ کے چارٹر کو تسلیم کرنے والا ہر ممبر ملک کو حقِ خود ارادیت و قومی آذادی کی رائے کو تسلیم کرنا چاہیئے۔” بیلجیئم سمیت اس وقت کئی ممالک نے اپنے نوآبادیاتی اور اشیائے مقبوضہ اسی نئے ترکِ نوآبادیت اصول کے تحت چھوڑ دیئے تھے نے مزید کوشش کی کہ مقامی لوگوں کی حقِ خود ارادیت و آزادی اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جاسکے۔
بلوچوں کا تاریخی، قومی، جغرافیائی حدحدود، حیثیت، قومی خودمختار ریاست، بلوچستان کو پاکستان سمیت باقی ممالک تسلیم کرچکے تھے۔ 11 اگست 1947 کو۔ وہ اور بات ہے کہ بعد میں ایک سال بعد پاکستان نے بزور فوجی طاقت بلوچستان کے دو بلوچ ایوان یا اسمبلیوں درالعوام اور درالامرا کے اکثریتی فیصلوں پر قدغن لگا کر 1948 کو بلوچستان پر قبضہ کیا۔ لیکن بلوچوں کی تاریخی ریاست اور جغرافیائی حثیت بحثیت ایک قوم ایک تاریخی حقیقت ہے اس انکار ممکن نہیں ہے۔ اسی سوچ، احساس، شعور، نظریے و فکر کو لیکر آج بلوچ قوم پاکستان جیسے قابض ریاست کے خلاف جنگ لڑ رہاہے۔
اس لیئے بلوچوں کی قومی آزادی کی جنگ مکمل شعوری و علمی، تاریخی حقائق اور عالمی قوانین پر من و عن مبنی ہے، اس کے باوجود دنیا کیوں مداخلت نہیں کررہا ہے؟ میرے خیال میں اوٹ پٹانگ اور سطحی رائے قاہم کرنے کے بجائے اس اہم سوال پر انتہائی سنجیدگی اور تحقیق کے ساتھ سوچنا اور غور کرکے بحث ہونا چاہیئے؟
بلوچوں کی پاس مسلح و سیاسی قوت کا فقدان ہے؟ پاکستان کے پاس دنیا کے مضبوط تعلق اور رشتے ہیں؟ بلوچوں کی منتشری و تقسیم والی شکل وجہ ہے؟ دنیا کے ساتھ پاکستان کی آخری حد وفاداری اور بطور استعمال کرنے کے لیے پاکستان خود بہترین آلے کا کردار ادا کررہا ہے؟ مذہبی جنونیت و شدت کی خوف اور پھیلاو کے ساتھ ایٹمی ہتھیار، مذہبی قوتوں کے ہاتھوں لگ جانے کا خوف؟ یا ابھی تک مداخلت کے لیئے حالات موافق نہیں؟ پھر حالات کب اور کس وقت موافق ہونگے؟ رفتہ رفتہ تو پھر رفتہ رفتہ کب اور کس وقت تک ؟ یا پھر بلوچوں کو دائمی بطور پریشر گروپ کے طور پر پاکستان کو بلیک میلنگ کے لیئے بطور کارڈ استعمال کرنا؟ یا بلوچوں میں عوامی تحریک کا فقدان؟
ان چند اور اہم سوالات پر ضرور سوچنا اور غور کرنا چاہیئے، اگر نہیں تو اللہ اللہ خیر سلا چلتا رہے گا۔ کب تک کہاں تک پھر کچھ پتہ نہیں۔
سب سے سے پہلے بلوچ سرزمین پر موجود متحرک مسلح قوتوں کو شعوری بنیادوں پر منظم و موثر شکل میں ترتیب و ترکیب دیکر قومی جنگ کو شدت اور وسعت دینا ہوگا کیونکہ بغیر منظم و متحرک ترتیب و ترکیب شدہ مسلح قوت کے کوئی بھی ہمیں گھاس ڈالنے کی جسارت بھی نہیں کریگا۔ اس پر سب سے ذیادہ توجے کی ضرورت ہے اور اپنے لوگوں میں خالص بلوچ نیشنلزم کی سوچ و احساس کو اجاگر اور بیدار کرنا ہوگا، اپنے لوگوں کو مذہبی جنونیت اور فرسودہ قبائلیت کے ناسور جراثیموں سے پاک کرنا ہوگا۔ اور لوگوں کو قومی آزادی کی سوچ سے لیس کرکے شعوری بنیاد پر تیار کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے تمام دستیاب ذریعے اور وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا تاکہ بلوچ زیادہ سے زیادہ شعوری بنیاد پر تیار ہوں اور قومی آزادی کی جنگ وسعت اور شدت اختیار کرکے منظم عوامی تحریک کی شکل اختیار کرےاور دنیا کو مزید آگاہ کرنے کے لیئے ایک موثر و منظم غیر روایتی سیاسی آواز کی ضرورت ہے۔ جو منطق و دلیل اور ٹھوس حقائق کی بنیاد پر پاکستان کی بلوچستان میں بلوچوں کے خلاف جرائم کی حقیقتوں کو طشت ازبام کریں۔ اسی تناظر میں گذشتہ دنوں بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کا ایک تنقیدی بیان نظر سے گذرا کہ عالمی سطح پر سنجیدہ طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے یا جنگی منافع خوری کی نہیں، اب مزید ڈاکٹر صاحب اپنے موقف کی خود بہتر وضاحت و وکالت کرسکتا ہے۔ اس نے کیا محسوس کیا ہے؟ وہ کیسے وضاحت کرتا ہے؟ وہ بہتر جانتا ہے اور وضاحت بہتر کرسکتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کے موقف کو بجائے بغضِ علی اور حب المعاویہ کی نظر سے لینے کے بجائے تنقید برائے تنقید، ذاتی انا و ضد، منفی پروپگنڈہ، بچگانہ اور سطحی پن کا شکار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس پر غور کرنا چاہیئے۔
کچھ سوالات میرے اپنے ذہن میں ہیں کہ بلوچ سرمچار 24 گھنٹے دشمن کے عتاب و گھیراؤ، آپریشن و بمبارمنٹ کے زد میں رہ کر، اپنی کم وسائلی اور مشکلات کے ساتھ دشمن کے خلاف لڑرہے ہیں، مار رہے ہیں اور خود بھی شہید ہو رہے ہیں۔ جنگ کا جو نتیجہ، نقصان اور فائدے کی شکل میں موجود ہے، وہ سب کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں، مگر عالمی سطح پر آج تک کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے؟ جو بھی ہوا ہے؟ اس کا نتیجہ و حاصل شدہ کیا ہے؟ بلوچ قومی تحریک کو کمک و مالی مدد اخلاقی و سیاسی سپورٹ کی نوعیت اور سطح کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر نوٹس، پاکستان پر دباو، لاپتہ بلوچوں کی بازیابی، اغواء، مسخ شدہ لاشوں کے تسلسل کا خاتمہ یا کمی، بلوچ آبادیوں پر بمباری کے خلاف ایکشن، پاکستان پر معاشی، فوجی پابندی کسی بھی بلوچ علاقے کو وار زون قرار دینا، پاکستان کو مزید جدید ہتھیار، کوبرا ہیلی کاپٹر، جاسوس طیارہ وغیرہ فراہم نہ کرنا بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور چین کی بلوچستان میں فوجی پیش قدمی سی پیک منصوبہ اور گوادر پروجیکٹ کے حوالے سے چین کے خلاف ایکشن لینا، باقی چھوڑیں، دنیا آج تک بلوچوں کے ہزاروں کی تعداد میں بے گھر افراد کو مہاجر تسلیم نہیں کرتا، بطور مہاجر بلوچوں کو کوئی کمک و مدد نہیں ہورہا ہے۔ پھر اس وقت بقول باہر بیٹھے ہوئے بلوچوں کے سفارتی کام یعنی سفارتی کاموں سے اس وقت کیا ملا ہے؟
18 سالوں سے اگر عالمی سطح پر کام کرنے کا نتیجہ اور کامیابی امریکن کانگریس مین کی قردار کی باتیں یا پھر انڈین وزیراعظم مودی کا جلسہ عام، بلوچستان کا صرف نام لینا، کامیابی تصور ہوگا تو پھر ہم ناکامی کے اصل معنی اور مفہوم سے نابلد ہوکر اصل سفارت کاری کی تشریح سے واقف نہیں ہیں۔ کیا اگر بلوچستان میں جنگ زور وشور سے جاری نہیں ہوتا تو کانگریس مین یا وزیر اعظم مودی بلوچستان کے حوالے سے بات کرتا؟ کیا کانگریس مین اور مودی کو بلوچستان کی جنگ پاکستان کی جبر و بربریت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ انھیں باہر ملاقاتوں، مظاہروں، سوشل میڈیا کمپیئن سے پتہ چلا کہ بلوچستان میں کچھ ہورہا ہے، ہمیں بات کرنا چاہیئے؟ کیا سی آئی اے، ٹرمپ، را، مودی، موساد، اقوام متحدہ، یورپی یونین، وائٹ ہاوس، اسٹیٹ ڈیپارمنٹ وغیرہ کو کچھ علم نہیں کہ پاکستان مذہبی قوتوں کو چلا رہا ہے، سپورٹ کررہا ہے۔ مدرسوں میں ٹریننگ دی جارہی ہے اور امریکہ کے دیئے ہوئے فوجی سازوسامان ہتھیار، ہیلی کاپٹر، بلوچوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں اور بلوچوں کو آئی ایس آئی اغواء کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہا ہے۔ ان کو کچھ پتہ نہیں اگر کچھ پتہ نہیں تھا تو پھر چند لوگوں کے مظاہروں و مہم سے ان کو پتہ چل گیا، یہ لوگ پھر اتنے حدتک بے خبر بیگانہ اور بے وقوف ہیں؟ ہم اپنے ذہن میں ایک بات ڈال دیں، ان کو سب کچھ ہم سے زیادہ معلوم ہے اور معلوم ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا، پھر عالمی سطح پر کیوں سنجیدہ کام کی ضرورت ہے، جب سب کچھ ان کو خود معلوم ہے؟ تو بات یہاں شروع ہوتا ہے کہ ان مہذب ممالک کے مہذب اقوام کو اپنے درد و تکلیف، داستان اپنے اوپر پاکستان کے ظلم و جبر، بربریت سے آگاہ کرنا تاکہ وہ اٹھ کر بلوچوں کے لیئے آواز اٹھائیں، اپنے حکومتوں اور سربراہوں کو انسانی ناطے کی بنیاد پر مجبور کریں کہ بلوچستان میں ایک قوم کا نسل کشی ہورہی ہے۔ جو انسانی المیہ ہے۔
پھر اس آگاہی کے لیے کیا ہورہا ہے؟ مہذب قوموں کے کتنے تعداد میں لوگ آج بلوچوں کی حق میں آواز اٹھا کر اپنے ملکوں میں احتجاج و جلسہ، سیمنار، ورکشاپ اور مظاہرے کررہے ہیں؟ کتنے امریکن، یورپین، انڈین معتبر صحافی ادیب اور دانشور مسلسل بلوچ مسئلہے پر لکھتے آرہے ہیں؟ میرے خیال میں آٹے میں نمک جیسا بھی برابر نہیں تو پھر کیوں؟
مظاہروں میں آٹھ دس بندے وہ بھی بلوچستان سے گئے ہوئے ہیں، کیا صرف نعرے بازی، رٹے بازی، جذباتی تقریر، کافی شاپ میں کسی گورے کو کافی پلانے، ڈنڑ کھلانے سے اور فوٹوسیشن سے مطمیئن کرنا ممکن ہے کہ بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟
بس اس کو یہ بتانا اتنا ہی 48 میں پاکستان کا بلوچستان پر قبضہ ہوا ہے، پاکستان بلوچوں پر ظلم و جبر کررہا ہے۔ مذہبی جنونیت کی پرورش کررہا ہے۔ وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ آپریشن ہورہا ہے۔ بلوچ غائب ہورہے ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں پھینکے جارہے ہیں، اقوام متحدہ نوٹس لے، ہم بلوچوں کو سپورٹ کیا جائے۔ یہ باتیں تو کوئی بلوچ بچہ بھی جانتا اور کرسکتا ہے، کیا اعداد و شمار ہمارے پاس ہیں، اس وقت تک کتنے بلوچ لاپتہ ہیں؟ کتنے اس وقت شہید ہوچکے ہیں؟ کتنے مسخ شدہ لاشیں پھینکے جاچکے ہیں؟ کس کس علاقے میں اس وقت آپریشن چل رہا؟ کتنے گھر جلائے جارہے ہیں، ان کی تصویر، وڈیو، وغیرہ کسی کے پاس بطور ثبوت ہے؟ یا جو بلوچ بازیاب ہورہے ہیں ان کی حالت کیا ہے؟ کس حال میں ہیں؟ ایٹمی دھماکہ تجربے سے کون کون سے علاقے متاثر ہوچکے ہیں یا ابھی تک جو بلوچ وہاں رہ رہے ہیں جو بچے مفلوج و معذور پیدا ہورہے ہیں ان کی تعداد بطور ثبوت ریکارڈ کس کے پاس ہے؟ تاکہ وہ مہذب دنیا اور مہذب اقوام کو دکھا دیں؟ کتنے بلوچ آج ریاستی جبر و بربریت کی پاداش میں علاقہ بدر ہوچکے ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ان کی تعلیم اور صحت خوراک رہن سہن کا کیا ہو رہا ہے؟ ہم کہتے پاکستان مذہبی جنونیت کو دوام دے رہا اس کی پرورش کررہا ہے، پھر کتنے مدرسے ہیں کہاں کہاں پر ہیں جو معصوم بچوں کو مذہبی جنونیت میں برین واش کرکے ٹریننگ دیتی ہے، ہزاروں کی تعداد میں خود کش تیار ہورہے ہیں، ان کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار کس کے پاس ہیں؟ پھر کیسے اور کس طرح مہذب دنیا کو مہذب اقوام کو ہم باور کراینگے۔ پاکستان ریاست کی جرائم اور سفاکیت کے حوالے سے؟ صرف زبانی کلامی جمع خرچ رٹے بازی سے کیا وہ مطمیئن ہونگے؟ یا دن رات صرف سوشل میڈیا میں چمٹے رہنا، صرف اپنے اپنے سربراہوں کی صف خوانی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں مصروف عمل رہنا۔ آج تک ایک بلوچ ٹی وی چینل یا ریڈیو چینل لانچ نہیں ہوسکتا، کسی سے بھی نہیں کیوں؟ پھر کس طرح ہم مہذب دنیا اور مہذب اقوام کو اصل حقائق سے آگاہ کروائینگے؟ کیا بلوچ قومی کیس عالمی عدالت میں جمع ہوچکا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
کیا مہذب اقوام اتنے کم عقل، جذباتی، ان پڑھ، بے وقوف ہیں؟ بس بھڑک بازی، رٹے بازی، بڑے بڑے ڈھینگے مارنے سے جلد متاثر ہونگے، چند بلوچ اگر آج بلوچوں کی خون و پسینے اور محنت و مشقت کے ثواب سے جاکر یورپ اور دیگر ممالک میں انتہائی آرام و سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں، اگر وہ بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور شب و روز، کھسر پھسر، مخالفت، سازش، حربےو پروپگنڈہ وغیرہ میں مصروف عمل ہوں، تو پھر خاک سنجیدگی سے پاکستان کے جرائم و سفاکیت دنیا کے سامنے آشکار ہونگے۔ اگر صرف سوشل میڈیا کے استعمال کی خاطر یورپ جانا تھا، تو وہ بلوچستان سے بھی استعمال ہوسکتا تھا پھر وہاں جانے کی ضرورت کیا؟ اگر کام صرف سوشل میڈیا کی استعمال کا نہیں تو اتنے سالوں سے کیا ہوا ہے؟ میں نے پہلے کہا اگر ہوا ہے؟ تو ایک نتیجہ کوئی بتا سکتا ہے کیا ہے؟ بلوچ قومی مفاد اور قومی تحریک کے لیئے؟ ہاں اگر چار مظاہروں پوسٹرسازی، فوٹو سیشن، سوشل میڈیا سرگرمی سے سادہ لوح بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کو بے وقوف بنایا جاسکتا لیکن دنیا کو بے وقوف بنانا آسان نہیں ہے۔
بلوچ مسلح قوتوں کو شعوری بنیادوں پر ترکیبی و ترتیبی اور تربیتی حوالے سے منظم و متحرک کرکے جنگ کو مزید شدت و وسعت دینا ہوگا اور عالمی سطح پر ایک موثر غیر روایتی سیاسی آواز کو متعارف کرنا ہوگا تب جاکر بلوچ قومی کیس دنیا کے سامنے مضبوط ہوگا۔
original article

на 21:51 Комментариев нет:
Отправить по электронной почтеНаписать об этом в блогеПоделиться в XОпубликовать в FacebookПоделиться в Pinterest
Следующие Предыдущие Главная страница
Подписаться на: Сообщения (Atom)

You can help to this blog:

Send your news and articles to this e-mail: basham.blf@gmail.com

Translate

Архив блога

  • ►  2020 (25)
    • ►  июня (1)
    • ►  мая (1)
    • ►  апреля (1)
    • ►  марта (1)
    • ►  февраля (11)
    • ►  января (10)
  • ►  2019 (26)
    • ►  декабря (9)
    • ►  марта (1)
    • ►  февраля (5)
    • ►  января (11)
  • ▼  2018 (121)
    • ►  декабря (17)
    • ►  ноября (11)
    • ▼  октября (7)
      • یومِ شہدائے بلوچ 13 نومبر ۔ سنگت بابل بلوچ  ...
      • نومبر 13 یوم شہدائے بلوچستان۔۔۔دودا بلوچ  پہل...
      • مادروطن،غیرت وطن اور پاک دامنی – برزکوہی بدم...
      • عالمی آگ کی تپش – برزکوہی پاکستان کی معاشی ح...
      • شہادتِ جنرل رازق معمہ نہیں – برزکوہی س حد تک...
      • بلوچ ساحل، دیوار گریہ یا دریا نیل؟ – برزکوہی ...
      • عالمی قوانین، کچکول ایڈوکیٹ کے موقف کے تناظر م...
    • ►  сентября (5)
    • ►  августа (13)
    • ►  июля (5)
    • ►  июня (12)
    • ►  мая (18)
    • ►  апреля (9)
    • ►  марта (15)
    • ►  февраля (3)
    • ►  января (6)
  • ►  2017 (41)
    • ►  декабря (12)
    • ►  ноября (4)
    • ►  октября (4)
    • ►  сентября (8)
    • ►  августа (6)
    • ►  июля (4)
    • ►  июня (3)
  • ►  2016 (17)
    • ►  сентября (1)
    • ►  июля (1)
    • ►  мая (4)
    • ►  апреля (3)
    • ►  марта (3)
    • ►  февраля (2)
    • ►  января (3)
  • ►  2015 (39)
    • ►  ноября (1)
    • ►  октября (3)
    • ►  сентября (1)
    • ►  августа (1)
    • ►  июля (4)
    • ►  июня (4)
    • ►  мая (2)
    • ►  апреля (7)
    • ►  марта (9)
    • ►  февраля (2)
    • ►  января (5)
  • ►  2014 (98)
    • ►  декабря (6)
    • ►  ноября (7)
    • ►  октября (22)
    • ►  сентября (8)
    • ►  августа (4)
    • ►  июля (9)
    • ►  июня (20)
    • ►  мая (22)
  • ►  2013 (195)
    • ►  октября (81)
    • ►  сентября (21)
    • ►  августа (14)
    • ►  июля (20)
    • ►  июня (41)
    • ►  мая (16)
    • ►  марта (2)
  • ►  2012 (11)
    • ►  декабря (11)

Общее·количество·просмотров·страницы

Mir Basham. Тема "Простая". Технологии Blogger.