مادروطن،غیرت وطن اور پاک دامنی – برزکوہی
بدمعاش اور درندہ صفت پنجابی ریاست کی فوج اور اس کی الشمس اور البدر جیسا ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے اب آئے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ ماں بہنوں، بیٹیوں اور معصوم بچیوں کو اغواء کرکے ان کی آبروریزی اور عصمت دری کرکے، انہیں مفلوج زدہ حالت اور پاگل پن کی شکل میں واپس چھوڑ رہے ہیں، صرف حالیہ چند دنوں میں چند واقعات تو ہمارے سامنے آچکے ہیں، مکران کے علاقے دشت سے نوجوان بلوچ بہن شمسہ بی بی اور گذشتہ دنوں پنجگور سے کچھ بلوچ خواتین کو اغواء کرکے آبروریزی کا نشانہ بنانا، ایسے واقعات ویسے تو کب سے شروع ہیں لیکن باقی میڈیا میں نہیں آرہے ہیں، اس لیئے ایک تو بلوچ اپنی سماجی خدوخال کی وجہ سے ایسے واقعات کو بیان نہیں کرسکتے ہیں اور اپنی بدنامی تصور کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ کل ہماری ماں بہن اور بیٹی ذندہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں، اسی وجہ سے خاموش ہوتے ہیں تاکہ کسی کو معلوم نہیں ہو۔ دوسری وجہ ریاستی دھمیکوں کے خوف سے خاموش ہوتے ہیں، انہیں ریاستی، فوجی اغواء کار دھمکی دیتے ہیں۔ اگر رہائی کے بعد یا خواتین کے اغواء کے وقت کوئی بھی آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو وہ انہیں بار بار اٹھاکر لےجاتے ہیں اور مزید تشدد کا نشانہ بناکر عبرت ناک انداز میں قتل کردیتے ہیں۔
اسی وجہ سے آج بنگالیوں کی طرح پاکستانی فوج اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ نے تسلسل کے ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین کو اغواء کرکے عصمت دری کا نشانہ بناکر مفلوج حالت میں چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مگر ان واقعات کے بارے میں کسی کو علم نہیں، اگر کسی کو کسی بھی ذریعے سے بھی علم ہوگا، ان خاندانوں سے رابطہ ہوگا، وہ واقعے کی تو تصدیق کرتے ہیں لیکن خدا کا واسطہ اور شہیدوں کی قسم دیکر اس واقعے کو اجاگر کرنے سے منع کرتے ہیں اور یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ریاستی خوف اور دھمکی، دوسری طرف بلوچ سماج میں اپنی بدنامی سمجھ کر نظر انداز کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔
یہ دونوں جواز حقیقت میں دراصل بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کے لیئے نقصاندے اور پنجابی دشمن کے لیے فائدے اور اس کے حق میں ہونگے۔ ایک تو آپ کیسے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہونگے کہ پاکستانی فوج بلوچوں کے ساتھ انسانی حقوق کے خلاف جرائم کا عملاً مرتکب ہورہا ہے؟ دوسرا کیسے، کس طرح باقی بلوچوں میں دشمن کے خلاف نفرت اور مزاحمت کی شعور کو اجاگر کرو گے؟ کیا بے بسی، خاموشی اور نظر انداز کرنے سے باقی بلوچ ماں، بہنیں اور بیٹیاں محفوظ رہسکتے ہیں؟ اور یہ جاری و ساری سلسلہ ختم ہوسکتا ہے؟
جہاں تک خوف دھمکی اور قتل کرنے کی بات ہے تو یہ ایک مستند حقیقت ہے کہ دشمن ہمارے نظرانداز خاموشی اور بےبسی سے نہ سدھرئیگا اور نہ ہی اس سلسلے کو ختم کریگا بلکہ مزید تیز کردیگا، دوسری طرف بلوچ سماج کی بات ہے، تو ایک حقیقت ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ جب آپ ایک درندہ صفت، انسانیت سے عاری طاقت ور دشمن کے خلاف اپنی مقدس آزادی کی حصول کے خاطر جنگ لڑو گے تو جب بھی دشمن جو بھی عمل کریگا، وہ تحریکی، وطن اور قوم کی قربانی شمار ہونگے۔ وہ قابل شرمندگی نہیں بلکہ قابل فخر ہونگے۔ ہم سب کو ان پر فخر ہونا چاہیئے اور ایسے ماں بہنوں اور بیٹیوں کو اپنا ہیرو ماننا چاہیئے، ان کے خاندانوں کو عظیم خاندانوں میں شمار کیا جانا چاہیئے۔ کیونکہ وہ غیرت مند ہیں، وہ باشعور ہیں، وہ بہادر ہیں، وہ قوم اور وطن کے دردمند اور فکرمند ہیں۔ ان کے ساتھ اسی لیئے ایسا سلوک ہوتا ہے۔ اگر وہ پنجابی ریاست کا حصہ، بزدل، نکمے، بے حس اور بے ضمیر ہوتے تو ان کو کچھ نہیں ہوتا۔ آج وہ اپنا مال، جان، ننگ وناموس اور عزت سب کو مادر وطن اور آنے والی نسلوں کے لیئے قربان کررہے ہیں۔ ان کی قربانیوں پر روایتی انداز اور فرسودہ سوچ کے تحت شرمندگی کے بجائے نفرت اور مزاحمت کو دل میں لیکر دشمن کے خلاف موثر ردعمل ظاہر کرنا ہوگا، بجائے بے بسی اور خاموشی کے ایسے واقعات کو نظرانداز کرنا، خاموش رہنا اور دبانا انتہائی خطرناک عمل اور دشمن کے موقف اور پالیسی کی دانستہ اور غیردانستہ طور پر تائید ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں بنگالی خواتین کے ساتھ پاکستانی فوج اور اس کی حمایت یافتہ اور تشکیل شدہ الشمس اور البدر کے غنڈوں کے ہاتھوں بنگالی ماں، بہنوں اور معصوم بچیوں کی آبرویزی اور عصمت دری ہوا، تو بقول بنگالی قوم کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان کے کہ بنگہ دیش آزاد تو ہوا لیکن بنگال میں کوئی بنگالی کنواری لڑکی نہیں بچا۔ تو پھر کیا آج بنگالی قوم شرمندہ ہیں یا قابل فخر قوم ہے؟ اور آج دنیا میں بنگالی قوم کو کس نظر سے دیکھا جارہا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے بنگال تحریک کی شدت اور مزاحمت میں پنجابی دشمن کی طرف سے بنگالیوں کے ساتھ آبروریزی اور عصمت دری، بنگالی تحریک کی آگ کے لیئے بطور ایندھن یعنی پیٹرول ثابت ہوگیا۔ بنگالی قوم اس وقت دنیا کی توجے کا مرکز بن گیا، پھر دوسرے اقوام خاص کر انڈیا کو عالمی قوانین کے تحت بطور ذمہ دار ریاست انسانی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف قانونی جواز مل گیا کہ وہ برائے راست مداخلت کرکے پاکستان کے خلاف جنگ لڑیں اور قومی آزادی کی تحریک کو سپورٹ کریں اور ہوا بھی ایسا اور بنگہ دیش آج کرہ ارض پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی شکل میں موجود ہے۔
آج بالکل بلوچ قوم کے ساتھ وہی نارواہ سلوک ہورہا ہے، مسلسل بلوچ ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو پاکستانی فورسز اغواء کرکے آبروریزی اور عصمت دری کانشانہ بنارہے ہیں، لیکن بلوچ قوم ایسے واقعات کو روایتی اور فرسودہ نقطہ نظر اور سوچ کا بھینٹ چڑھا کر نظرانداز کرنے کی کوشش کررہا ہے، بجائے ایسے دلخراش اور کربناک واقعات سے اپنی قوم کو بیداری اور آگاہی اور مہذب دنیا کا توجہ اور مدد حاصل کرنے کے، ان تمام واقعات پر پردہ ڈال کر دشمن کی خاموش اور بے حس کرنے والی موقف کے تائید کرتے ہیں۔
یاد رکھا جائے اگر یہ خاموشی اور نظرانداذ کرنے کا روایتی طریقہ کار اور سوچ اسی طرح چلتا رہا، تو تاریخ میں ایسے جرائم کے مرتکب ہونے والوں کے ساتھ خاموش اور نظر انداز کرنے والے برابر شریک ہونگے۔
آگے مزید خاموشی، بےحسی اور نظرانداز کرنے سے یہ سلسلہ نہ کم ہوگا اور نہ ختم ہوگا، بلکہ مزید شدت اور وسعت اختیار کریگا۔ اس سے ایک بھی بلوچ ماں، بہن اور بیٹی محفوظ نہیں ہوگا۔ اس کا شکار آج نہیں کل ضرور ہوگا اور ہر ایک کو اس کرب سے گزرنا ہوگا۔ بجائے پھر اپنی باری کے انتظار سے آج پہلے سے بلوچ قوم میں یہ سوچ و شعور کو اجاگر کرنا ہوگا کہ ایسے واقعات کو خدارا پردے کے پیچھے ڈھانپنے کی کوشش مت کرو بلکہ میڈیا کے سامنے لایا جائے، خوف کے عالم میں محفوظ ہونا ممکن نہیں بلکہ دن بدن زیادہ ہوگا اور ایسے واقعات کو اپنے فرسودہ سماج کی نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیئے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے، موجود سماج میں مقید ہوکر قومی آزادی حاصل کرنا، اپنی جگہ اس کا صرف تصور اور خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں، قومی آزادی اور قومی تحریک کے اپنے طے شدہ اصول اور تقاضے ہیں، جب وہ من و عن پورے نہیں ہونگے، اس وقت تک نجات اور کامیابی ممکن نہیں بلکہ ادھورا ہوگا۔
ان تمام واقعات کو انقلابی اور تحریکی نقطہ نظر اور تقاضات کے سانچوں میں پرکھے ہوئے قدم اٹھانا اور فیصلہ کرنا آج وقت اور حالات کی ضرورت ہے۔
ایسے دلخراش واقعات کے ردعمل میں دشمن کو موثر اور آخری انتہاء کے جواب اور اپنے قوم میں یعنی عوامی سطح پر شعور و آگاہی کے کسی بھی صورت اور لحاظ سے ایسے واقعات کو خوف، دھمکی اور سماجی سوچ کے مطابق پردوں میں لپیٹنے کی کوشش نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ان کو بلوچ قوم اور دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہیئے اور ایسے ماں بہنوں اور بیٹیوں کو مادروطن، غیرت وطن اور پاک دامن قرار دیکر ان کے قدموں کی مٹی کو مقدس مٹی سمجھ کر آنکھوں پر رکھنا چاہیئے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий