Powered By Blogger

вторник, 16 октября 2018 г.

بلوچ ساحل، دیوار گریہ یا دریا نیل؟ – برزکوہی


بلوچ دانشور، سینئر صحافی اور تجزیہ نگار واجہ انور ساجدی اپنے کالم، بین القوامی کھیل اور بلوچستان، میں عالمی گریٹ گیم عالمی قوتوں کی رسی کشی اور بلوچ قوم اور بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے جیسی پیش بینی اور منظر کشی کی ہے، ہم جیسے کم علم جہدکار اپنے بساط کی مطابق اتنا تو سمجھے کہ ساجدی صاحب بلوچ قوم اور بلوچستان کی مستقبل کے بارے میں جو پیش بینی کررہے ہیں، اس پیش بینی میں واجہ ساجدی خطرہ و تباہی، امید و انتظار ،اور مایوسی و بے بسی بلکہ سب کو ایک ساتھ گوندھ کر پیش کر رہے ہیں۔
ساجدی صاحب اپنے کالم کے آخری پیراگراف میں لکھتے ہیں کہ “ایک بہت بڑا بین الاقوامی کھیل کھیلا جارہا ہے، جو ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہے ، لیکن ایک بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ بلوچ سرزمین اور ساحل بہت بڑی سیاسی و تذویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں ہے ، زیرو پوائنٹ سے لیکر جیونی سے زر ادور مغربی بلوچستان کی سرحد پر آپ کھلی آنکھ سے دیکھیں تو گوادر سب ڈویژن میں ایک انچ زمین مقامی لوگوں کیلئے بچی نہیں ہے، یہی حال اورماڑہ اور لسبیلہ کی ساحلی پٹی کا ہے۔
اگر معجزوں کا دور ہوتا تو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا لیکن یہ معجزوں کا نہیں حقائق اور حقیقت پسندی کا دور ہے، ساری آوازین معدوم ہوگئی ہیں، لارڈ کلائیو کی جعلی اشرافیہ دست بستہ عریضہ گزار کھڑی ہے، بعض دفعہ بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے، تاریک راہوں پر کامل اکیلا پن لیکن ہار نہیں ماننی، بے شک خطرہ ڈھائی ہزار سالہ دور میں سب سے بڑا ہے، لیکن ریت میں سر دھنسنے سے بچنا ہے، کوئی تائید غیبی اور کوئی تائید ایزدی وارد ہوسکتی، ایک طویل انتظار مقدر ہے، اسی انتظار کا انتظار ہے۔”
تو میں بھی پہلے ساجدی صاحب کے اس اعتراف کو بےباکانہ انداز میں دہراتا ہوں اور یہ اعتراف کرتا ہوں کہ مجھ میں اتنا بڑا سوج و بوجھ اور علم و ادراک نہیں کہ عالمی گیم کو سمجھ سکوں اور اس پر تجزیہ کروں۔ یہاں تک کہ اپنے شہر اور گاؤں کی اصل صورتحال سے بیگانہ اور نابلد ہوکر پھر بھی جگاڑ، رٹہ بازی، نقل بازی اور زبانی جمع خرچ کی حد تک اگر میں بھی دوسرے نیم حکیموں کی طرح امریکہ، چین، برطانیہ، یورپ سے لیکر سنٹرل ایشاء، روس، سعودی عرب، ایران وغیرہ سے ہوتے ہوئے بلوچستان تک پہنچ سکوں تو کوئی فائدہ نہیں بلکہ صرف وقت ضیاع کرنے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز ہوگا۔
لیکن ساجدی صاحب کی پیش بینی ہمیں سوچنے اور غور کرنے پر اس لیے مجبوری کرتی ہے کہ ساجدی صاحب کی کچھ برس پہلے بھی تجزیہ یا پیش بینی آج بھی من و عن صحیح ثابت ہوئی۔ گوکہ اس وقت بھی اکثریت نے ان کالموں کو صرف اخباری کالم سمجھ کر یا بالکل نہیں پڑھا یا پڑھ کر بھی ان کو سیرئیس نہیں لیا گیا، یہ کم علمی اور عدم توجہ و عدم دلچسپی کی بدقسمتی سے رجحانات اور غیر سنجیدگی آج بھی ہمارے بلوچ سیاست کی پیشانی پر چسپاں ہیں۔
تو عالمی رسی کشی اور بڑے بڑے کھلاڑیوں کی گریٹ گیم کی تناظر میں بلوچ جغرافیہ اور خاص کر بلوچ ساحل گوادر بلوچوں کے لیے دریا نیل ثابت ہوگا؟ یا پھر دیوار گریہ ثابت ہوگا جس کے پاس یہودی جاکر گڑا گڑا کر روتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں؟
دریا نیل کے بارے میں مشہور ہے جب مصر فتح ہوا تو مسلمانوں نے ایک روز ایک عجیب ماجرہ دیکھا کہ مصری ایک نہایت ھی حسین و جمیل لڑکی کو سجا سنوار کر دریائے نیل میں ڈالنے لگے ہیں۔۔۔ مسلمانوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور ان مصریوں کو ساتھ لیکر فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور سارا قصہ بیان کیا۔۔۔ اہل مصر نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دارو مدار دریائے نیل پر ھے، ھمارے ھاں یہ دستور ھے کہ ہر سال ایک حسین و جمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ہے.. اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ہو جاتا ہے اور قحط پڑ جاتا ہے۔ تاہم حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور اہل مصر کو سختی سے اس غیر انسانی ظالمانہ رسم سے روک دیا۔
دیوار گریہ وہی دیوار ہے جس کو مسلمان ’’دیوارِ براق‘‘ کہتے ہیں۔ جبکہ یہودی روایات کے مطابق دیوارِ گریہ کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام نے کی اور موجودہ دیوارِ گریہ اْسی دیوار کی بنیادوں پر قائم ہے۔
یہ مقام دنیا کے قدیم شہر یروشلیم (بیت المقدس) میں واقع یہودیوں کی ایک اہم یادگار ہے، جس کے سامنے رونا، گڑگڑانا، اہل یہود کا ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔ اُن کے مطابق یہ مقام جو دراصل ایک دیوار ہے، تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کا بچ جانے والا حصہ ہے۔ یہ یہودیوں کے لیے انتہائی اہم زیارت ہے۔ دو ہزار سال قبل بھی یہودی اس دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر رویا، گڑگڑایا کرتے تھے، اسی لیے اس کا نام دیوار گریہ پڑ گیا۔
دریا نیل کا تصور ہم قربانی اور دیوار گریہ کا تصور ہم ماتم اور رونے گڑگڑانے کا لیتے ہیں، یہاں یعنی بقول ساجدی صاحب کے بلوچ سرزمین اور ساحل مستقبل میں سونامیوں کی زد میں ہے بالکل اس بات سے کون ذی شعور، باشعور اور باعلم بلوچ انکار کرسکتا ہے۔
دوسرے طرف بلوچ قوم اپنی قومی آذادی اور سر کو ریت میں دھنسنے سے بچانے کی جہدوجہد میں مصروف عمل ہیں 2000 سے لیکر 2018 تک پاکستان ریاست اپنی تمام تر قوت، طاقت، ظلم و جبر، بربریت، بلوچ قتل عام، سازش و حربے، خوف، دہشت اور لالچ وغیرہ کے حربوں کو استعمال کرتے آرہا ہے لیکن جہدوجہد کو ختم نہیں کرسکا اور ختم بھی نہیں کرسکتا اس امید و ٹھوس دلیل کے تناظر میں عصر حاضر کی جدوجہد خالص نظریاتی و فکری بنیادوں پر جاری و ساری ہے اور بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوانوں میں قربانی کا جذبہ اور شعور کی انتہاء نمایاں طور پر ظاہر ہے۔
باقی چھوڑے دیں 2010 سے بلوچ نوجوانوں کو پاکستانی خفیہ ادارے اٹھاکر غائب کرکے ان کو شدید اور بے رحم انداذ میں سالوں سال بدترین ٹارچر کرکے ہزاروں کے تعداد میں شہید کررہے ہیں، اس کے بعد ان کی لاشوں کو بطور عبرت پھینک دیا جارہا ہے، اس کے باوجود بلوچ نوجوان یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی جوق در جوق تحریک کا عملاً حصہ بن رہے ہیں۔ جو رومانویت اور جذباتیت نہیں بلکہ شعور کا انتہاء ہے، جو دریا نیل کی طرح بلوچ سرزمین پر پڑے ہوئے شہداء کے خون کو خشک اور بانجھ پن سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
11 اگست کو بی ایل اے شہید مجید برگیڈ کے جانثار فدائی ریحان بلوچ کا دالبندین میں چینی انجنیروں پر فدائی حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچ نوجوان شعوری بنیادوں پر اپنے جان کو خود فدا کرکے بلوچ ساحل و وساہل کو چینی سونامی سے محفوظ رکھنے کی جہد میں مصروفِ عمل ہیں، یہ جہد، یہ عمل، یہ جہد کا موثر طریقہ کار، اب ظاہر سی بات ہے شروع ریحان اور ختم ریحان پر نہیں ہوگا۔ یہ ایک جاری و ساری تسلسل ہوگا۔ یہ شروعات بھی نہیں اور خاتمہ بھی نہیں۔
البتہ بلوچ جعلی اشرافیہ کی ہیرا پھیری، خفیہ سمجھوتے اور خفیہ ایجنڈوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر بلوچ قومی آزادی کی جہدوجہد میں دانستہ پیدا کردہ بحرانی صورتحال بھی بڑی حد تک تحریک پر اپنے منفی اثرات مرتب کررہا ہے، جس کی پاداش میں وقتی طور پر جمود کے تاثرات بھی ظاہر ہونے لگے ہیں، مگر اس دفعہ نظریاتی و فکری، تنظیمی، سیاسی شعور اور ادراک نے اپنے کرتب اور کرامات دکھا کر قومی آزادی کی جہدوجہد کی یوٹرن کی ناکام کوششوں کے ناکام حربوں سے بچا لیا البتہ تحریک کی رفتار ضرور سست روی کا شکار ہوا۔ مگر ماضی کی نسبت اس دفعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بجائے مضبوط ہاتھوں میں مضبوط شکل میں پیوست ہوگیا۔
ضرورت اور تقاضہ بھی اس وقت ان پیچیدہ حالات میں بلوچ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں سے، وہ بلا انتظار، بلاخوف، بلاخاطر و رواداری، رشتہ داری، تعلق داری اور محدود و مخصوص مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دنیا کے عظیم مفکرین اور محققین کی طرز قومی مفاد اور قومی بقاء کے حصول کے خاطر بین الاقوامی کھیل اور رسی کشی اور بلوچ قومی تحریک کی مجموعی کمزوریوں اور خامیوں کی صرف نشاندہی نہیں بلکہ ان پر سوال اٹھانے کے ساتھ ان کی حل کی تجویز و ترکیب اور تحریک کی تقاضات اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ واضح پالیسی اور لائن پیش کر کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کی مستقبل کی پیش بینی کو مزید وضاحت کے ساتھ علم و آگاہی کے ذریعے روشنی فراہم کریں۔ اور بلوچ جہدکار بھی جہدوجہد میں برسرپیکار ہوکر تمام صورتحال سے باخبر اور باعلم ہوکر علمی اور مدلل خیالات پر مکمل توجہ اور دلچسپی دیکر استفادہ حاصل کرتے رہیں تب جاکر شعوری اور مستقل جہدوجہد کے تقاضات پورے ہونگے۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий