مسنگ بلوچ یا مسننگ بلوچستان؟ – برزکوہی
غلامانہ و قبائلی و نیم قبائلی اپاہج اور سیاسی و نیم سیاسی سماج جہاں بلوچ قوم اپنی قومی آزادی کی جنگ ایک مکار، شاطر، غیر مہذب ریاست اور انتہائی غیر مہذب قوم کے خلاف لڑرہا ہے۔
جی ہاں بالکل قومی آزادی کی جنگ ۔۔۔ یعنی قومی آزادی، لیکن اکثراوقات بلوچ قوم سے زیادہ نہیں بلکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ بلوچ جہد سے منسلک بلوچوں کی طرف سے عجیب و غریب حیران و پریشان کن، تعجب اور مضحکہ خیز آراء سامنے آتے ہیں پھر اس بات پر انسان ایک بار پہلے اپنے گریبان پر جھانک کر سوچنے لگتا ہے کہ ارے بے وقوف! ذرا تو جائزہ لو اور غور کرو واقعی آزادی کے لیے جنگ ہورہا ہے؟
اگر واقعی آزادی کی جنگ ہے تو آراء سے پھر کیوں ایسا لگتا ہے، نہیں جناب قومی آزادی کی جنگ نہیں جمہوریت کی بحالی، کرپشن کے خلاف، گٹر نالی سڑک کی تعمیر، بجلی کھمبے، انسانی فلاح و بہبود ترقی روزگار اور غربت کا خاتمہ وغیرہ جیسے مطالبات کیلئے جدوجہد ہورہا ہے۔ جدوجہد کی پاداش میں اگر ریاستیں ردعمل میں کچھ نہ کچھ کرتے ہیں، پھر جہدوجہد یا احتجاج سے بلاواسط یا بالواسطہ منسلک لوگ ایسے قسم کے عجیب و غریب آراء پیش کرتے ہیں، مگر قومی آزادی کی قومی جنگوں میں کم از کم میری نظروں سے اس قسم کے آراء جہدکاروں کی طرف سے آج تک تحریکوں کی تاریخ کے مطالعے سے بالکل نہیں گزرے ہیں، کوئی ایک بھی مثال نہیں میں یا کوئی اور پیش کرے اس وقت تک۔
مثلاً جی اگر دشمن کے خلاف ایسا ہوا، اگر یہ کام ہوا وہ کام ہوا تو دشمن مارے گا لاپتہ کریگا، سخت کاروائی کریگا، خواتین بچوں کو اٹھا لے گا، دوستوں کو شہید کریگا، خاندان، شہر پورے کے پورے قصبے دربدر ہونگے، نوجوان شہید ہونگے، ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان جائینگے وغیرہ وغیرہ ایک طرف قومی آذادی کی خواہش، نظریہ و فکر اور دشمن کے خلاف قومی جنگ دوسرے طرف یہ عجیب و غریب قسم کی آراء کیا اپنے اندر خود ایک بڑا اور واضح تضاد اور منافقت نہیں ہے؟ کیا دنیا میں دیگر تحریکات یا دوران جنگ میں لوگوں میں یا خاص کر جہدکاروں میں ایسے عجیب و غریب اور الجھے ہوئے آراء پائے گئے ہیں؟ کوئی ایک مثال پیش خدمت کرسکتا ہے؟ جہاں تک میرے علم و مطالعہ کی بساط ہے، تو جواب نفی ہے اگر جواب وآقعی نفی میں پھر یہ آراء صرف بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں میں کیوں؟
بات واپس پھر آکر وہیں رک جاتا ہے، قبائلی، نیم قبائلی اپاہچ اور سیاسی و نیم سیاسی مفلوج زدہ اور بدترین غلامانہ ذہنوں میں ابھی تک علم و شعور کی روشنی انتہائی دھیمی اور ضعیف شکل میں ضرور موجود ہے، مگر مکمل روشنی نہیں اگر کمزور اور ڈگماتے ہوئے فکر کے ساتھ قومی آزادی کی خالص، علم و شعور اور ادراک نہیں ہوگا تو اس وقت تک ایسے روایتی خیالات اور آراء ہر طرف موجود ہونگے۔
کنفیوژن اور الجھن کے شکار قوم یا جہدکار، نام کے قوم اور جہدکار ہوسکتے ہیں، مگر تبدیلی اور انقلاب کا پیش خیمہ ہرگز نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ انقلاب تبدیلی اور قومی آزادی بغیر ایک وسیع علم و عمل اور شعور کے ہر گز نہ رونما ہوا اور نہ ہی رونما ہوگا البتہ بغیر علم و عمل اور شعور کے دنیا میں ایک نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے جزوی و محدود جدوجہد اور تحریک ماضی میں بھی ہوچکی ہے اور آج بھی ہیں، مگر کامیاب نہیں ہوسکے اور کامیاب نہیں ہونگے، کسی نہ کسی حد تک قربانی بھی دے چکے ہیں؟ مگر کس حد تک قربانی دے چکے ہیں؟ اس قربانی کا معیار کیا ہے؟ قومی آزادی اور قومی آزادی کے حصول کے خاطر قربانی؟ یہ خود بڑا سوال ہے یعنی پہلے قومی آزادی کی حصول اور اس کے قربانی کی معیار؟ کون اس اہم سوال اور معیار کا اچھی طرح ادراک رکھتا ہے اور باعلم ہے؟ میرا سب سے اہم سوال یہی ہے اور علم و عمل شعور اور مضبوط فکر کی مراد بھی یہی ہے۔ تو اس حوالے سے بلوچ بحثیت جہدکار قومی آزادی کی جنگ میں برسرپیکار صرف ایک دشمن سے نہیں کئی دشمنوں سے اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑرہا ہے، تو خود سوچ کے حوالے سے بلوچ قوم اور بلوچ جہدکار کہاں پر کھڑےہیں؟ چیزوں کو کیسے سمجھتے، کیسے دیکھتے ہیں اور کیسا محسوس کرتے ہیں؟عام سادہ لوگوں کی طرح روایتی طرز انداز یا مکمل انقلابی و جنگی اور سیاسی نقطہ نظر اور طرز انداذ میں؟
جب خود قیادت سے لیکر جہدکاروں کا زوایہ نظر، نقطہ نظر، طرزِعمل جاننے، سمجھنے، محسوس کرنے کے طور طریقے عام لوگوں کی طرح ہو بے شک وہ عام لوگوں سے مخلتف جدوجہد اور جنگ سے دن رات منسلک کیوں نہ ہو تو میری رائے کے مطابق ایسے جدوجہد بے شمار قربانیوں کے باوجود نہ آگے بڑھے گا نا ترقی کریگا اور نہ ہی کامیابی حاصل کریگا۔
سب سے اہم بات زاویہ نظر اور نقطہ نظر ہے، زوایہ نظر اور نقطہ نظر ہی سے رویے جنم لیتے ہیں، اس حقیقت سے نہ علم نفسیات انکار کرتا ہے نہ علم فلسفہ انکار کرسکتا ہے۔ جب نقطہ نظر اور زاویہ نظر روایتی ہو اور عام لوگوں کی ہو پھر انقلابی سیاسی اور علمی رویوں کی امید کرنا خود احمقی اور بے وقوفی نہیں اور کیا ہوگا ؟ اور انقلاب اور قومی آزادی کے لیے مکمل انقلابی اور قومی آزادی کی رویوں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔
قومی آذادی کی جنگ میں انتہائی موثر انداذ اور شدت کے ساتھ ہر جگہ، ہر مقام، دشمن کو عبرتناک شکست ہو، بلوچستان میں مکمل سرمایہ کاری مفلوج اور ختم ہو، پاکستانی فوج بنگلہ دیش میں جس طرح اپنے بوٹ اور پتلون چھوڑ کر بھاگ گئے، جس طرح ویتام اور کیوبا سے امریکی بھاگ گئے، جس طرح چین سے چاپانی بھاگ گئے، اسی طرح پاکستانی فوج اور چین بلوچ سرزمین سے اسی طرح بھاگ جائیں اور تاریخ میں اور پوری دنیا میں بلوچ قوم کا زندہ قوم کی حثیت سے ایک زندہ نام اور زندہ پہچان ہو۔
ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو، پریشانی نہ ہو، نہ سردی لگے نہ گرمی لگے، حتیٰ کہ ہماری زندگی کا معمول زندگی بھی، بے ترتیب نہ ہوں۔ بس جو بھی ہو دشمن کے ساتھ ہو، ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہو، بڑے بڑے کاروائی اور کارنامے دشمن کے خلاف ہوں اور دشمن کچھ نہ کرے۔
کاش ایسا ہوتا۔ کاش دنیا میں ایسی کوئی بھی ایک جنگ، انقلاب اور آزادی ہوتا، کوئی ایک مثال ہوتا میرے جیسا نالائق بندہ غنیمت سمجھ کر اچھے طریقے سے رنگ و روغن کرکے پیش کرتا۔
بالکل ایسا ہوتا، بہت خوب ہوتا مگر یہ عام لوگوں کا عام طرز انداز، فرمائش، خواہش، تمنائیں اور آرذو ہوسکتے ہیں، مگر حقیقت ایک فیصد ایسا نہیں ہوتا، تو وہ اصل حقیقت کیا ہے؟ اس حقیقت کے بارے میں علم و عمل، شعور اور ادراک کی ضرورت ہے، وہ کم از کم موجود ضرور ہے بلوچ جدوجہد میں لیکن ضیعف اور انتہائی کمزور شکل میں اصل رونے دوھونے کا مطلب یہی ہے اور کچھ نہیں۔
ایک معمولی مثال لینے کی جسارت کرتے ہیں، کراچی میں پاکستان کے خلاف مہاجروں اور گینگ وار کی ریاست کے خلاف مختلف ادوار میں جنگ و لڑائی بنیاد اور مقصد جو بھی ہو یا جو بھی تھا اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں کم از کم قومی آزادی کی بنیاد اور مقصد نہیں تھا اور نہیں ہے، لیکن پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اتنے مہاجروں اور گینگ وار والوں کا قتل عام، نسل کشی اور لاپتہ کرنے کے واقعات ہوئے ہیں، اس کے مقابلے میں بلوچوں کی آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے، پھر بھی ریاست کے خلاف قومی آزادی کی جنگ اور ریاست سے توقع اور امید کرنا انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسداری کی اگر علم و عمل، شعور اور ادراک کی ضعیف شکل نہیں اور کیا ہوسکتا ہے؟
کیا پاکستان کے ہاتھوں خود بلوچوں، پشتونوں اور سندھیوں کی سرزمینیں مسنگ نہیں ہیں؟ کیا اگر بلوچستان، سندھ اور پختونخواہ اس وقت پاکستان کے ہاتھوں مسنگ نہیں ہوتے تو کیا بلوچ، سندھی اور پشتون اقوام کے لوگ مسنگ ہوتے؟ کیا بلوچ پشتون اور سندھی اچھے بچوں کی طرح پنجاپی کے آگے ہاتھ باندھ کر غلامی قبول کرلیتے تو مسسنگ پرسنز کے واقعات پیش ہوتے؟ کیا جب تک بلوچستان، سندھ اور پختونخواہ دشمنوں کے ہاتھوں مسنگ ہیں، اس وقت تک جب تک سرزمینوں کی بازیابی کے لیے جدوجہد ہوگا تو بلوچ پشتون اور سندھی مسنگ نہیں ہونگے؟
کیا آج بھی اگر ماضی کی طرح بلوچ، پشتون اور سندھی ہاتھ اوپر کرکے پاکستان کی غلامی کو قبول کرلیں تو مسنگ پرسنز والا مسئلہ آسان طریقے سے حل نہیں ہوگا؟
البتہ یہ سمجھنا ہے، اصل مسئلہ اور بنیاد کیا ہے؟ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اصل مسئلے اور بنیاد پر باقی تو واقعات ہیں، وہ رونما ہونگے اور مزید رونما ہوتے ہی رہینگے ان کو نظر انداذ کرنا بھی اچھا عمل نہیں، خاص کر بلوچ مسننگ پرسنز یا بلوچ نسل کشی کے اہم ایشو کو اٹھانا تحریک کی شکل میں، غیرروایتی انداز میں آگے بڑھانا بہت ضرور ہے، مگر سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ اس وقت بلوچ، پشتون اور سندھیوں کی قومی بقاء اور قومی آزادی کا مسئلہ ہے۔
بلوچ قومی بقاء اور تشخص ختم ہونے اور مٹنے کے آخری مقام پر کھڑا ہے، زیادہ وقت بھی نہیں، بہت کم وقت بلوچوں کے پاس ہے۔ اس وقت اگر بلوچ کچھ کرینگے دشمن کے خلاف تو لازماً بلوچ مسننگ ہونگے اور بلوچ نسل کشی میں تیزی ہوگی، شاید ایک نسل ختم ہو مگر اگر بلوچ دشمن کے خلاف کچھ نہیں کرینگے خاموش بے بس ہونگے، ہاتھ اوپر کردینگے یا محدود اور جزوی سرگرمی اور کاروائی کرینگے تو شاید بلوچ مسننگ کم ہوں، ختم ہوں مسننگ پرسنز کا مسئلہ بھی حل ہو، مگر مسنگ بلوچستان بازیاب نہیں ہوگا بلکہ اس کا مسخ شدہ لاش ملے گا، تاریخ میں جب بلوچستان مسخ شدہ ہوگا پھر ایک نسل نہیں پوری بلوچ قوم آئیندہ تاریخ میں مسنگ قوم کے نام سے صرف یاد ہی ہوگا۔
میرا مقصد یہاں کوئی لفظوں کی ہیرا پھیری یا فلسفہ پیش کرنے کا نہیں بلکہ میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آج بلوچ قوم کے پاس دو راستوں کے علاوہ تیسرا راستہ بلکل نہیں، اس مشکل ترین حالت میں بلوچ بحثیت قوم تیزی کے ساتھ انتہائی تیزی کے ساتھ اپنی قومی آزادی اور قومی بقاء کے خاطر اپنی قومی جنگ تیز کردے، جس کے ردعمل میں ریاست کے ہر ردعمل کے لیئے ذہنی اور جسمانی حوالے سے تیار ہو، تب جاکر نقصانات بہت زیادہ ہونگے مگر قوم اور سرزمین مستقبل میں محفوظ ہوگا، دوسرا سب سے خطرناک اور فنا کا راستہ ہے۔ بلوچ قوم خاموش ہو، ہاتھ پر ہاتھ رکھے انتظار کرے، غلامی کو قبول کرے، پھر وقتی طور پر نا بلوچ نسل کشی ہوگا نہ مسخ شدہ لاشیں ہونگی اور نہ بلوچ مسنگ ہونگے اور ہوگا تو کیا ہوگا، مستقبل میں کررہ ارض میں نہ بلوچ ہوگا نہ بلوچستان ہوگا، صرف تاریخ کی کتابوں میں مسنگ بلوچ قوم اور مسننگ بلوچستان ہوگا، اس وقت پاکستان اور چین کے سب سے بڑے عزائم اور خواہش بھی یہی ہیں۔ اب صرف بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں کو یہ سمجھنا ہوگا اور ادراک ہونا چاہیئے کہ بے شک علم و عمل و شعور کے ساتھ انتہائی ہنرمندی اور موثر حکمت عملی کے ساتھ اپنے جہدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий