بلوچستان اس گھمبیر صورتحال کا اسٹراٹیجک مرکز ہے - کرنل لارنس سیلن
انٹرویو: سنگر میڈیا گروپ
ترجمہ: لطیف بلیدی
لارنس سیلن ایک ریٹائرڈ امریکی کرنل ہیں جو افغانستان، عراق اور ویسٹ افریقہ کے مشن کے آزمودہ کار سپاہی رہے ہیں۔ وہ کردش اور عربی زبانوں کے بھی ماہر ہیں۔ پاک افغان خطے میں ان کی گہری دلچسپی ہے اور پاکستان اور چین کے حوالے سے امریکی پالیسی کے سخت ناقد بھی ہیں۔
سنگر میڈیا گروپ نے امریکی فوج کے ریٹائرڈ کرنل لارنس سیلن کاانٹرویو لیا ہے۔ اس کے انٹرویو کی خاطر اپنا وقت نکالنے کے لئے ہم جناب سیلن کے شکر گزار ہیں۔
سوال: امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا آغاز کیا ہے۔ امریکی فوج نے پاکستان اور افغانستان کے علاقے میں تقریبا دو دہائیاں گزار کر کیا حاصل کیا ہے؟
جواب: طالبان کو اقتدار سے محروم کرنے کی ابتدائی کامیابی، ملک کی دوبارہ تعمیر و ترقی اور جمہوری اداروں کو قائم کرنے کی کوششوں کے بعد، افغانستان امریکہ کے لئے ایک اہم اسٹراٹیجک شکست بننے کے دہانے پر ہے۔ ہم اس جنگ کو حقیقی دشمن، یعنی پاکستان، تک لے جانے کے کبھی بھی خواہاں نہیں رہے، جس کے بغیر طالبان اور القاعدہ نہ دوبارہ منظم ہو سکتے تھے اور نہ ہی ان کی قیادت زندہ بچ سکتی تھی۔
سوال: افغانستان میں اسلامی انتہاپسندوں کی پیش قدمی کو ملنے والی عارضی ناکامیوں کے باوجود پاکستان میں اسلامی انتہا پسندی کا ایک دھماکہ ہوا جس کی معاونت میں جزوی طور پر امریکی ٹیکس دہندگان کا بھی حصہ ہے جنہوں نے بڑی فراخدلی کیساتھ راولپنڈی کی فنڈنگ کی۔ امریکہ کی عجلت میں افپاک (افغانستان/ پاکستان) سے دستبردار ہونے کے کیا بین الاقوامی نتائج نکلیں گے؟
جواب : مجھے تھوڑا شبہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی افغانستان میں حملوں کو تیز کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ وہ کابل حکومت پر دباؤ بڑھا سکیں کہ وہ متبادل اقدامات کریں اور مغربی افواج کی واپسی کو تیز کرنے میں مددگار ہوں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں موجود 14,000 امریکی فوجیوں کی تعداد میں نصف حد تک کمی کرنے کے اعلان کے بعد سفارتی سرگرمیوں میں ہلچل سی مچ گئی ہے، جس میں سامنے پاکستان ہے، روس اور ایران بھی ملے ہوئے ہیں، لیکن اس کی باگ ڈور چین سنبھالے ہوئے ہے۔ ان کا فوری مقصد امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی ہے جس کے بعد جنوبی ایشیا میں انتہائی تیزی سے امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی آئے گی۔
جلدبازی میں کیے جانے والے امریکی انخلاء سے پاکستان کے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے طالبان کا افغانستان میں سیلاب آجائے گا۔ کابل میں موجودہ حکومت چند مہینوں کے اندر گر جائے گی، اگر اس سے پہلے نہ گرسکی۔ جب تک کہ اس کو روکنے کے لئے فوری اقدامات نہیں کیے جاتے، اس کے نتیجے میں کسی نہ کسی طرح کی خونریز خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، اور اس کے بعد انہی علاقائی طاقتوں کی جانب سے ایک بین الاقوامی مداخلت ہوگی جنہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کو ہٹانے میں مدد دی تھی، اور ایک بار پھر، چین اور پاکستان کی قیادت میں۔ ابتدائی طور پر غالباً ایک اتحادی حکومت قائم کی جائے جو چین اور پاکستان کے ماتحت ہو۔ آخر میں چین کے اصرار پر طالبان پر قابو پائیں گے، چونکہ چین خود اپنے ملک میں پھیلتے ہوئے اسلامی عسکریت پسندی سے بھی خوفزدہ ہے۔ اور یہ چین کی طرف سے افغانستان کو چین پاکستان اقتصادی کوریڈور اور بیجنگ کی قیادت میں قائم دیگر سفارتی اور عسکری اداروں کے منصوبوں میں شامل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں موجود قومی، نسلی اور مذہبی تنازعات کے باعث جنگ و جدل میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ان سب عوامل کے کسی بھی ممکنہ نتائج پر اہم اثرات پڑیں گے۔
سوال: امریکہ نے امداد تو بند کر دی ہے، لیکن امریکہ کے قریب ترین علاقائی اتحادی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے پاس پاکستان پر اثرانداز ہونے کیلئے اب کچھ نہیں بچا ہے؟
جواب: پاکستان چین کا اتحادی ہے اور وہ کبھی بھی امریکہ کا دوست نہیں رہا ہے، بلکہ امریکہ اس کے لئے محض مالی معاونت کا ایک مفید ذریعہ رہا ہے، جس سے امریکہ کو صرف ایک معمولی اثر و رسوخ ہی حاصل ہوا ہے۔ امریکی مالی امداد کا بند ہونا پاکستان کا افغانستان کے خلاف اپنی پراکسی جنگ میں طالبان کی حمایت ختم کرنے کیلئے کبھی بھی کافی نہیں ہو سکتا تھا۔
حال ہی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اربوں ڈالر دے کر پاکستان کی معیشت کو تباہی سے بچایا۔ سعودی اور اماراتی اپنی اس سرمایہ کاری کو پاکستان کے لئے ایک انعام کے طور پر دیکھتے ہیں کہ انہوں نے طالبان کو مذاکرات کی میز پرلایا اور وہ اسے ایران مخالف رہنے کی ضمانت کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ انہیں دونوں حوالوں سے مایوسی کا سامنا ہوگا۔
سوال: اسی طرح سے، ہوسکتا ہے امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد کم کردی ہے، لیکن پاکستان اب چین پر بھروسہ رکھتا ہے اور ممکنہ طور پر روس پر بھی۔ امریکہ پاکستان سے کس طرح نمٹے گا جبکہ اس کے دوست اور دشمن یکساں طور پر پاکستان کے ساتھ مل رہے ہوں؟
جواب: امریکی گاجر نے پاکستان پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ اب پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے امریکہ کے پاس صرف اور صرف ڈنڈے رہ گئے ہیں۔ پاکستان کی سب سے اہم دکھتی رگیں اس کی معیشت اور نسلی علیحدگی پسندی ہیں۔
سوال: افغانستان کو مستحکم کرنے کے لئے بلوچستان انتہائی اہم ہے۔ لیکن افپاک اب مزید امریکی ترجیح نہیں رہا۔ اگر کوئی ہوں بھی تو وہ کونسے مفادات ہیں، امریکہ کے بلوچستان میں؟
جواب: چین پاکستان اقتصادی کوریڈور کی وجہ سے بلوچستان اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ چینی فوجی تنصیبات، خاص طور پر بلوچستان کے ساحل پر بحری اڈوں کی بحیرہء عرب کی اہم سمندری گزرگاہوں اور خلیج فارس تک رسائی حاصل کرنے کے لئے چین کی منصوبہ بندی میں کلیدی اہمیت ہے۔ یہ بحیرہء جنوبی چین اور جبوتی میں قائم فوجی بیس، جو کہ بحر احمر کے دہانے اور سویز کینال کے داخلی راستے کے قریب واقع ہے، کو چینی فوجی اڈوں سے مربوط کرکے چینی عسکری طاقت سے منسلک کرنے والی لنک ہے۔ یہ سب کچھ جنوبی ایشیا پر چینی تسلط قائم کرنے اور بھارت کو الگ تھلگ کرنے کے لئے اہم ہیں۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ آزاد بلوچستان کا خواب امریکی زیر قیادت ورلڈ آرڈر کے حوالے سے مطابقت رکھتا ہے؟
جواب: بالکل رکھتا ہے۔ ایک آزاد اور سیکولر بلوچستان افغانستان کو چین اور پاکستان کی کٹھ پتلی ریاست بننے سے روک سکتا ہے، جنوبی ایشیا میں چینی تسلط کو روکنے کے لئے مددگار ہوسکتا ہے، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی ایرانی حکومت کو کمزور کر سکتا ہے اور انتہا پسند اسلام کے دل پر وار کر سکتا ہے۔
سوال: بلوچ سماج میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا فروغ امریکہ کی زیر نگرانی ہوا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ابھی حال ہی میں اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا ہے۔ تو کیا یہ فرض کرنا محتاط ہے کہ وہ اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ پاکستان بلوچ قوم پرستوں کو حراست میں لینے، ان پر تشدد کرنے اور بلوچ عوام کو دبانے کے لئے اسلامی انتہا پسندوں، منشیات اور اپنی فوج کا استعمال کرتی آئی ہے۔ کیا امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں پر بلوچ عوام کی ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کو روکنے کے لئے کوئی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
جواب: بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دردناک ہیں، خواہ یہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوں، جو کہ یہ ہیں، مگر بنیادی طور پر قوموں کیلئے محرک اخلاقی ذمہ داریوں کے بجائے ان کے اسٹراٹیجک مفادات ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک مصنوعی ریاست ہے جسے برطانوی بھارت کی تقسیم کے بعد مختلف نسلی ثقافتوں کے خطوں کو ایک ساتھ ملا کر بنایا گیا جنہوں نے کبھی بھی ایک دوسرے سے کوئی میل ملاپ نہیں رکھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا یوگوسلاویا ہے۔ اس کا وجود نسلی خود مختاری اور قومی حق خود ارادیت کو کچلنے پر منحصر ہے۔ گوکہ یہ پالیسی غیر مستحکم اور خودشکستگی کا باعث ہے۔
سوال: بلوچوں کی حمایت کرنے کا مطلب پاکستان کی کھل کر مخالفت کرنا ہے، جو کہ ایک بدمعاش ایٹمی طاقت ہے اور اسی طرح سے اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک بدمعاش مستقل رکن بھی ہے، اور اسکی مہربانیوں سے بھی بہرہ مند ہے۔ کیا امریکہ اپنی نصف صدی پرانی پالیسی کو تبدیل کرسکتا ہے؟ کیا امریکہ بلوچوں کی حمایت کر کے چین کے خلاف جاری سرد جنگ میں ایک نیا محاذ کھول سکتا ہے؟
جواب: واحد مسئلہ چینی تسلط کی مخالفت نہیں ہے، جس کا امریکہ کو جنوبی ایشیا میں سامنا ہے۔ بلکہ وہاں ایران ہے، افغانستان کا مستقبل ہے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے، بھارت کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے، ان سب معاملات میں بلوچ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
سوال: کسی ایسے شخص کے طور پر جنہوں نے طویل عرصے سے مختلف تنازعات کو دیکھا ہے، بشمول افغانستان کے، جہاں پاکستان ملوث ہے، بلوچ کی پاکستان سے آزادی کی جدوجہد کے لئے آپ کیا مشورہ دیں گے؟
جواب: آزادی کی جدوجہد کوئی چھوٹی سی دوڑ نہیں بلکہ ایک میراتھن ہے۔ بلوچ کو اپنی نسلی شناخت، اپنی زبان اور ثقافت کو برقرار رکھنے اور جب کبھی بھی ممکن ہو ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے معاملے کو اجاگر کرنے کیلئے اس کی اسٹراٹیجک اہمیت پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ انسانی حقوق بھی اہم ہیں، لیکن دنیا ’’شفقت کی تھکاوٹ‘‘ میں مبتلا ہے چونکہ اس وقت دنیا کے بہت سے مقامات پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات نے اسے دھندلا دیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے۔
سوال: امریکی انخلاء کے فوراً بعد ہی پاکستان کی افغانستان پر حملے کرنے کی حواصلہ افزائی ہوگی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ بلوچ محاذ پرموجود عدم استحکام امریکہ کو ایک بار پھر خطے میں لے آئے گی؟
جواب: میرے خیال میں بلوچستان اس گھمبیر صورتحال کا اسٹراٹیجک مرکز ہے۔ عدم استحکام بھی کافی حد تک توجہ دلاسکتی ہے، جسے امریکہ نظر انداز نہیں کرسکتا اور اسے نہیں کرنا چاہئے
جواب : مجھے تھوڑا شبہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی افغانستان میں حملوں کو تیز کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ وہ کابل حکومت پر دباؤ بڑھا سکیں کہ وہ متبادل اقدامات کریں اور مغربی افواج کی واپسی کو تیز کرنے میں مددگار ہوں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں موجود 14,000 امریکی فوجیوں کی تعداد میں نصف حد تک کمی کرنے کے اعلان کے بعد سفارتی سرگرمیوں میں ہلچل سی مچ گئی ہے، جس میں سامنے پاکستان ہے، روس اور ایران بھی ملے ہوئے ہیں، لیکن اس کی باگ ڈور چین سنبھالے ہوئے ہے۔ ان کا فوری مقصد امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی ہے جس کے بعد جنوبی ایشیا میں انتہائی تیزی سے امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی آئے گی۔
جلدبازی میں کیے جانے والے امریکی انخلاء سے پاکستان کے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے طالبان کا افغانستان میں سیلاب آجائے گا۔ کابل میں موجودہ حکومت چند مہینوں کے اندر گر جائے گی، اگر اس سے پہلے نہ گرسکی۔ جب تک کہ اس کو روکنے کے لئے فوری اقدامات نہیں کیے جاتے، اس کے نتیجے میں کسی نہ کسی طرح کی خونریز خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، اور اس کے بعد انہی علاقائی طاقتوں کی جانب سے ایک بین الاقوامی مداخلت ہوگی جنہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کو ہٹانے میں مدد دی تھی، اور ایک بار پھر، چین اور پاکستان کی قیادت میں۔ ابتدائی طور پر غالباً ایک اتحادی حکومت قائم کی جائے جو چین اور پاکستان کے ماتحت ہو۔ آخر میں چین کے اصرار پر طالبان پر قابو پائیں گے، چونکہ چین خود اپنے ملک میں پھیلتے ہوئے اسلامی عسکریت پسندی سے بھی خوفزدہ ہے۔ اور یہ چین کی طرف سے افغانستان کو چین پاکستان اقتصادی کوریڈور اور بیجنگ کی قیادت میں قائم دیگر سفارتی اور عسکری اداروں کے منصوبوں میں شامل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں موجود قومی، نسلی اور مذہبی تنازعات کے باعث جنگ و جدل میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ان سب عوامل کے کسی بھی ممکنہ نتائج پر اہم اثرات پڑیں گے۔
سوال: امریکہ نے امداد تو بند کر دی ہے، لیکن امریکہ کے قریب ترین علاقائی اتحادی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے پاس پاکستان پر اثرانداز ہونے کیلئے اب کچھ نہیں بچا ہے؟
جواب: پاکستان چین کا اتحادی ہے اور وہ کبھی بھی امریکہ کا دوست نہیں رہا ہے، بلکہ امریکہ اس کے لئے محض مالی معاونت کا ایک مفید ذریعہ رہا ہے، جس سے امریکہ کو صرف ایک معمولی اثر و رسوخ ہی حاصل ہوا ہے۔ امریکی مالی امداد کا بند ہونا پاکستان کا افغانستان کے خلاف اپنی پراکسی جنگ میں طالبان کی حمایت ختم کرنے کیلئے کبھی بھی کافی نہیں ہو سکتا تھا۔
حال ہی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اربوں ڈالر دے کر پاکستان کی معیشت کو تباہی سے بچایا۔ سعودی اور اماراتی اپنی اس سرمایہ کاری کو پاکستان کے لئے ایک انعام کے طور پر دیکھتے ہیں کہ انہوں نے طالبان کو مذاکرات کی میز پرلایا اور وہ اسے ایران مخالف رہنے کی ضمانت کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ انہیں دونوں حوالوں سے مایوسی کا سامنا ہوگا۔
سوال: اسی طرح سے، ہوسکتا ہے امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد کم کردی ہے، لیکن پاکستان اب چین پر بھروسہ رکھتا ہے اور ممکنہ طور پر روس پر بھی۔ امریکہ پاکستان سے کس طرح نمٹے گا جبکہ اس کے دوست اور دشمن یکساں طور پر پاکستان کے ساتھ مل رہے ہوں؟
جواب: امریکی گاجر نے پاکستان پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ اب پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے امریکہ کے پاس صرف اور صرف ڈنڈے رہ گئے ہیں۔ پاکستان کی سب سے اہم دکھتی رگیں اس کی معیشت اور نسلی علیحدگی پسندی ہیں۔
سوال: افغانستان کو مستحکم کرنے کے لئے بلوچستان انتہائی اہم ہے۔ لیکن افپاک اب مزید امریکی ترجیح نہیں رہا۔ اگر کوئی ہوں بھی تو وہ کونسے مفادات ہیں، امریکہ کے بلوچستان میں؟
جواب: چین پاکستان اقتصادی کوریڈور کی وجہ سے بلوچستان اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ چینی فوجی تنصیبات، خاص طور پر بلوچستان کے ساحل پر بحری اڈوں کی بحیرہء عرب کی اہم سمندری گزرگاہوں اور خلیج فارس تک رسائی حاصل کرنے کے لئے چین کی منصوبہ بندی میں کلیدی اہمیت ہے۔ یہ بحیرہء جنوبی چین اور جبوتی میں قائم فوجی بیس، جو کہ بحر احمر کے دہانے اور سویز کینال کے داخلی راستے کے قریب واقع ہے، کو چینی فوجی اڈوں سے مربوط کرکے چینی عسکری طاقت سے منسلک کرنے والی لنک ہے۔ یہ سب کچھ جنوبی ایشیا پر چینی تسلط قائم کرنے اور بھارت کو الگ تھلگ کرنے کے لئے اہم ہیں۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ آزاد بلوچستان کا خواب امریکی زیر قیادت ورلڈ آرڈر کے حوالے سے مطابقت رکھتا ہے؟
جواب: بالکل رکھتا ہے۔ ایک آزاد اور سیکولر بلوچستان افغانستان کو چین اور پاکستان کی کٹھ پتلی ریاست بننے سے روک سکتا ہے، جنوبی ایشیا میں چینی تسلط کو روکنے کے لئے مددگار ہوسکتا ہے، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی ایرانی حکومت کو کمزور کر سکتا ہے اور انتہا پسند اسلام کے دل پر وار کر سکتا ہے۔
سوال: بلوچ سماج میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا فروغ امریکہ کی زیر نگرانی ہوا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ابھی حال ہی میں اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا ہے۔ تو کیا یہ فرض کرنا محتاط ہے کہ وہ اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ پاکستان بلوچ قوم پرستوں کو حراست میں لینے، ان پر تشدد کرنے اور بلوچ عوام کو دبانے کے لئے اسلامی انتہا پسندوں، منشیات اور اپنی فوج کا استعمال کرتی آئی ہے۔ کیا امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں پر بلوچ عوام کی ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کو روکنے کے لئے کوئی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
جواب: بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دردناک ہیں، خواہ یہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوں، جو کہ یہ ہیں، مگر بنیادی طور پر قوموں کیلئے محرک اخلاقی ذمہ داریوں کے بجائے ان کے اسٹراٹیجک مفادات ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک مصنوعی ریاست ہے جسے برطانوی بھارت کی تقسیم کے بعد مختلف نسلی ثقافتوں کے خطوں کو ایک ساتھ ملا کر بنایا گیا جنہوں نے کبھی بھی ایک دوسرے سے کوئی میل ملاپ نہیں رکھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا یوگوسلاویا ہے۔ اس کا وجود نسلی خود مختاری اور قومی حق خود ارادیت کو کچلنے پر منحصر ہے۔ گوکہ یہ پالیسی غیر مستحکم اور خودشکستگی کا باعث ہے۔
سوال: بلوچوں کی حمایت کرنے کا مطلب پاکستان کی کھل کر مخالفت کرنا ہے، جو کہ ایک بدمعاش ایٹمی طاقت ہے اور اسی طرح سے اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک بدمعاش مستقل رکن بھی ہے، اور اسکی مہربانیوں سے بھی بہرہ مند ہے۔ کیا امریکہ اپنی نصف صدی پرانی پالیسی کو تبدیل کرسکتا ہے؟ کیا امریکہ بلوچوں کی حمایت کر کے چین کے خلاف جاری سرد جنگ میں ایک نیا محاذ کھول سکتا ہے؟
جواب: واحد مسئلہ چینی تسلط کی مخالفت نہیں ہے، جس کا امریکہ کو جنوبی ایشیا میں سامنا ہے۔ بلکہ وہاں ایران ہے، افغانستان کا مستقبل ہے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے، بھارت کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے، ان سب معاملات میں بلوچ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
سوال: کسی ایسے شخص کے طور پر جنہوں نے طویل عرصے سے مختلف تنازعات کو دیکھا ہے، بشمول افغانستان کے، جہاں پاکستان ملوث ہے، بلوچ کی پاکستان سے آزادی کی جدوجہد کے لئے آپ کیا مشورہ دیں گے؟
جواب: آزادی کی جدوجہد کوئی چھوٹی سی دوڑ نہیں بلکہ ایک میراتھن ہے۔ بلوچ کو اپنی نسلی شناخت، اپنی زبان اور ثقافت کو برقرار رکھنے اور جب کبھی بھی ممکن ہو ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے معاملے کو اجاگر کرنے کیلئے اس کی اسٹراٹیجک اہمیت پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ انسانی حقوق بھی اہم ہیں، لیکن دنیا ’’شفقت کی تھکاوٹ‘‘ میں مبتلا ہے چونکہ اس وقت دنیا کے بہت سے مقامات پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات نے اسے دھندلا دیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے۔
سوال: امریکی انخلاء کے فوراً بعد ہی پاکستان کی افغانستان پر حملے کرنے کی حواصلہ افزائی ہوگی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ بلوچ محاذ پرموجود عدم استحکام امریکہ کو ایک بار پھر خطے میں لے آئے گی؟
جواب: میرے خیال میں بلوچستان اس گھمبیر صورتحال کا اسٹراٹیجک مرکز ہے۔ عدم استحکام بھی کافی حد تک توجہ دلاسکتی ہے، جسے امریکہ نظر انداز نہیں کرسکتا اور اسے نہیں کرنا چاہئے
Комментариев нет:
Отправить комментарий