Powered By Blogger

четверг, 31 января 2019 г.

بلوچستان میں سرداروں کا کردار ۔ سنگت بابل بلوچ

1839 کو جب انگريز سامراج نے بلوچ وطن پر قبضہ کرنےکی کوشش کی تمام سردار تقریباً انگريز کے حمایتی بن گئے، جب انگريز فوج نے قلات پر میجر ولشائر کی سربراہی میں حملہ کیا تو ساراوان میں سرداروں نے مستونگ کے مقام پر نہ صرف انگریز فوج کا خیر مقدم کیا بلکہ مدد بھی کی اور خود گھروں میں بیٹھ گئے اور خان محراب خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی وطن کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی اور اس طرح 13نومبر 1839 کو بلوچ وطن کا مرکز انگریز کے ہاتھوں قبضہ ہوا۔
اس کے بعد انگريز نے شاہ نواز خان کو خان مقرر کیا تو ہی سردار انگريزی حکومت میں شامل ہوگئے۔ جب کہ سرداروں کو عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
اسی طرح محراب خان شہید کے فرزند نصیر خان نے اپنے وطن کی آزادی کے جنگ کا اعلان کردیا تو عوام نے نصیر خان کی حمایت کی اس طرح جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں آخر کار انگریز کو شکست ہوئی بلوچ فوج نے قلات پر حملہ کرکے انگريزی خان شاہ نواز کو گرفتار کرلیا تو نصیر خان نے انگريز سے لڑتے ہوئے ڈھاڈر، مستونگ، ۔ساراوان بھی واپس لے لیں۔ اور اس کے بعد شال پر بھی حملہ کرکے اسے آزاد کرانا چاہا تو ہی سردار بیچ میں آگئے اور خان کو حملہ کرنے سے روک کر معاہدہ کروایا اور اس طرح 1841 کو خان کی آزاد حیثیت باقی نہیں رہی۔ یکم جنوری 1876 کو ایک انگريز قافلہ سرداروں کو لے کر خان کے دربار میں قلات پہنچے اور دربار عام منعقد ہوا اس تاریخی اجتماع میں بلوچستان کے تقریباً تمام سردار موجود تھے اور سب رابرٹ سنڈیمن کی سربراہی میں آئے تھے جن کے نام یہ ہیں۔
سردار محمد خان رئیسانی، اللہ ڈنہ کرد، شادی خان بنگلزئی، محمد سید خان محمدشئی، جندہ خان شاہوانی، یار محمد خان کرد، مہراللہ ڈنہ، مہراللہ خان مری، میر ہزار خان مری، گل محمد خان مری، کرم خان بجارانی، نال خان لوہارانی، گہورخان بگٹی، ہیبت خان بگٹی، فتح خان، روگیر خان، بلوچ خان کیتھران، قادربخش، دین محمد بزدار اس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان کے تمام سردار اور دوسرے سردار سنڈیمن کے سات تھے جبکہ دربار میں خان کو اپنے فرزند اور نوکر کے علاوہ صرف دو سردار، سردار نورالدین مینگل اور سردار قیصر خان موسیانی کی حمایت حاصل تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام سرداروں کی حمایت خان کے بجائے انگريز کے ساتھ تھی اور اسی طرح 13جولائی 1876 کو خان خداداد خان اور انگريز کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اس معاہدے کی خاص شق یہ تھی کہ خان کی کنٹرول سرداروں پر سے ختم ہوگئی تھی۔ اب سرداروں کو یہ اختیار حاصل تھی کہ وہ کسی کو گرفتار کریں، قید کریں، سزا دیں، ٹیکس وصولی کریں، جو چاہتے تھے عوام کے ساتھ کرتے تھے۔ انہی سرداروں نے اپنے جرگے میں 1930 میں یوسف عزیز مگسی کو ایک فیصلے کے تحت ایک سال سزا اور پندرہ ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی، اس لیئے کہ اس نے ہفت روزہ (ہمدرد) لاہور میں 17نومبر 1929 کو ایک مضمون فریادِ بلوچستان کے نام سے لکھا تھا۔ انگریز جو بھی کرنا چاہتا وہ خود نہیں کرتا انہی سرداروں کے ذریعے کرواتا۔
جب خان خداداد خان قتل کی سازش سے بچتا ہے تو انگریز اسے گرفتار کرکے یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے شہزاده محمود خان کے حق میں دستبردار ہوجائے۔ جب خداداد خان انکار کرتا ہے تو انگریز انہی سرداروں کو استعمال کرکے ان کے جرگے کے ذریعے خان کو خانی سے معزول کرکے اس کے بیٹے کو خان مقرر کرتے ہیں۔ یہ سردار اس خدمت کے عوض انگریز سے مراعات حاصل کرتے تھے۔ میں یہاں ان کی تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہوں لیکن مجموعی تعداد کچھ یوں ہے۔
117 بلوچ سردار اور 61 پھٹان سردار تھے۔ جبکہ ان کے علاوہ 914 بلوچ اور 2168 پھٹان مَلک و معتبر تھے۔ اسی طرح ان تمام سرداروں اور مَلک و معتبروں کےلیے انگریز نے ماہانہ الاونسز مقرر کرکے ان سب کو اپنا تنخوادار نوکر بنا دیا۔ اب وہی سردار جو بلوچ معاشرے میں ایک بہادر، مصنف، اپنے قبیلے کا حمایت یافتہ فرد ہوا کرتا تھا۔ اب خارجی طاقتوں کا آلہ کار اور ظلم و جبر کی علامت بن گیا۔ اب وہ قبیلے کے بزرگ و قائد کے بجائے ان کا حاکم بن گیا اور انگریز اکثر انہیں آپس میں لڑا کر کمزور کرنے کی سازش کرتا رہتا۔
جب 1933 کو خان احمد یار خان قلات کے خان بنے تو انہوں نے کوشش کی کہ 1876 کے معاہدے کے تحت جو اختیارات تھے انہیں بحال کیا جائے اس لیے خان نے قلات نیشنل پارٹی کی سیاسی سرپرستی کرکے اس کی سیاسی جدوجہد اور حمایت کے ذریعے ریاست میں اپنے اثرات بڑی حد تک بحال کرلیئے لیکن اب بھی فیصلہ کن غلبہ انگریز کو حاصل تھی۔ اس وقت بھی اس جدوجہد میں قلات نیشنل پارٹی، انجمن بلوچاں، انجمن وطن، قومی سیاسی پارٹیاں تھیں تو سرداروں نے ان کی کوئی حمایت نہیں کی۔ جب کانگریس نے بلوچستان کے لیے آئینی اصطلاحات کا مطالبہ کیا تو انہی سرداروں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ قیام پاکستان کے وقت جب ان سرداروں نے انگریز کا جھکاؤ قائداعظم کی مسلم لیگ کی طرف واضح دیکھا تو ان سرداروں کی وابستگیاں از خود مسلم لیگ کے ساتھ ہوگئیں۔ تقسیم ہند کے بعد برٹش بلوچستان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کریں یا پاکستان کے ساتھ تو سردار سوچ رہے تھے کہ دونوں میں سے کونسا مَلک انہیں مراعات دے سکے گا۔ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے وقت بھی تمام سرداروں کی تقریباً حمایت بلوچستان کی طرف نہیں تھی۔ قبضے کے بعد سرداروں کو اپنی مراعات کی فکر تھی۔ اب وہ زیادہ مراعات حاصل کرنے لگے اور اب وہ سیاسی میدان میں اترے اور ہر حکمران پارٹی میں اپنا جگہ بنانے کے تگ و دو میں سرگرداں رہے۔
جب 1955 کو بلوچستان کے دونوں حصوں کو برٹش بلوچستان اور ریاستی بلوچستان کو ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کے صوبے میں شامل کیا گیا تو انہی سرداروں کی اکثریت نےاس کی حمایت کی۔ جب 1958 کو ایوب خان نے خان کو گرفتار کیا تو بلوچستان میں دوچار سرداروں کے علاوہ سب نے حمایت کی اور مراعات حاصل کیئے۔ جب ایوب خان نے سیاسی پارٹی بنائی تو تمام سرداروں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ ون یونٹ کے خلاف عوام جدوجہد کررہے تھے، تو سردار ون یونٹ کے خواہاں تھے 1970 کو ون یونٹ ٹوٹ گئی اور بلوچستان کو صوبے کا درجہ مل گیا۔
1970 کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور جمعیت علماء اسلام مفتی کے ساتھ مل کر صوبےمیں حکومت بنائی۔ عطااللہ مینگل وزیراعلیٰ بن گئے تو بلوچستان اسمبلی نے سرداری نظام کے خاتمے کی سفارش کی تو بھٹو حکومت نےاس طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ عطااللہ مینگل کی حکومت کو ہی ختم کردیا اور دوبارہ جام غلام قادر کو وزیراعلیٰ بنا کر حکومت بنائی تو تمام سردار جو مینگل حکومت کے حمایتی نہیں تھے، سارے سردار پیپلز پارٹی کے ہوگئے سوائے چند سرداروں کے اس دوران بھٹو نے بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع کی اور ظلم و جبر کی انتہا کردی، عورتوں، بچوں، بزرگوں کا قتل عام کررہے تھے تو سردار تماشائی بنے بھٹو کی پیپلز پارٹی کے حمایتی تھے، سوائے چند کے جنہیں بھٹونے پہلے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا اور کئی لوگوں کو لاپتہ بھی کیا جن میں خود عطااللہ مینگل کے فرزند اسد اللہ مینگل بھی ہیں جو آج تک لاپتہ ہیں۔
1955 کے بعد جب نواب نوروزخان نے اعلان جنگ کیا تو یہی سردار حکومت کے حمایتی بن گئے، جب ضیاء نےبھٹو حکومت کو ختم کرکے بھٹو کو گرفتار کیا تو یہی سردار ضیاء کے ساتھی بن گئے، سوائے چند کے یہاں تک کہ نواب مری، بگٹی، مینگل کو قوم پرستی کی راہ پر لانے والے غوث بخش بزنجو نے بھی باقی سرداروں کی راہ لی یہ کہہ کر کہ انتہا پسندی سے رجعت پسندی بہتر ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات تھے، اس لیئے صوبائی ایوان غیر جماعتی تھا لیکن اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے غیر جماعتوں کو مسلم لیگی بنادیا تو سردار بھی فوراً مسلم لیگی بن گئے۔
1988 کے انتخابات میں بھی سردار حکومتی حمایتی تھے، 1990 میں بھی سردار حکومت کے ساتھ تھے اور وزیر تھے۔ 1993 میں صوبائی اسمبلی میں بھی سردار حکومت میں تھے۔ جب مشرف کے دور میں بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع ہوئی تو خود مشرف نے اقرار کیا کہ سوائے 3 سرداروں کے تمام سردار فوج کے ساتھ ہیں اور اس طرح آج تک بلوچستان میں جو ظلم و جبر کا بازار گرم ہے تمام سردار یا حکومت میں ہیں یا حکومت کے حمایتی ہیں، یہی ہے سرداروں کی مختصر داستان اب آپ خود فیصلہ کریں کہ سردار بلوچ کے حمایتی ہیں یا دشمنِ بلوچ کے دراصل بات یہ ہے کہ یہ کسی کے نہیں ہیں۔ ہیں تو صرف پیسے کے دوست ہیں۔ انہیں کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں۔

среда, 30 января 2019 г.

راشد حسین بلوچ  کون ہے؟ – برزکوہی 

بلوچستان کے تاریخی علاقے اور بلوچ قوم کے مشہور و معروف قبیلے زہری سے تعلق رکھنے والے راشد حسین ایک متحرک بلوچ سیاسی کارکن ہیں، ان کا پورا خاندان 2010 سے لیکر آج تک پاکستانی فوج اور خاص طور پر پاکستانی فوج کے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کا نشانہ بنتا آیا ہے، سب سے پہلے خضدار سے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے راشد حسین کے 14 سالہ کزن مجید زہری کو اغواء کرکے بعد میں انکی لاش تشدد کرکے پھینک دیا، اس کے بعد خضدار کے مشہور و معروف تاجر غریب پرور اور انسانیت دوست 70 سالا بزرگ شخصیت اور مجید زہری کے والد حاجی محمد رمضان زہری کو پاکستان کی خفیہ ادارے نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کردیا، پھر آخر کار مختلف اوقات میں متذکرہ خاندان کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا، گھرو کاروبار جلائے گئے اور دھمکیاں ملتے رہے۔ پورا خاندان اذیت ناک زندگی گذار رہا تھا، پھر وہ مجبور ہوکر خضدار سے اپنا کروڑوں روپے کی جائیداد، کاروبار اور ملکیت چھوڑ کر دبئی منتقل ہوئے اور پاکستانی فوج کی ایماء پر مقامی ریاستی ایجنٹوں نے ان کے تمام زمینیں، مکان، دوکانیں اور گاڑیوں کو قبضے میں لے لیا۔
اس کے بعد زہری میں ایک سال قبل راشد حسین کے بڑے بھائی ضیاء جان فوج کے ساتھ مقابلے میں شہید ہوئے، اس دوران خاندان کے بہت سے لوگ گرفتار ہوئے، بہت سے افراد کو تشدد کا نشانہ بناکر اگر چھوڑا بھی گیا تو وہ بھی مفلوج زدہ حالت میں، البتہ پاکستانی فوج اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں نے ان پورے 10 سالوں میں اس خاندان کے ساتھ جو بے رحمی اور ناروا سلوک کیئے، شاید آگے بلوچ تاریخ اس ظلم کی داستان کو رقم کرکے کانپ اٹھے، مگر افسوس کہ آج تک دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی جگہ بلوچ قوم تک کو اس وقت اس خاندان کے بارے میں علم نہیں، اگر علم ہے بھی تو، اس وقت یہ متاثرہ خاندان جس کربناک زندگی سے گذر رہا ہے، اس کے بارے میں کسی کو صحیح جانکاری نہیں ہے۔
راشد حسین بلوچ بھی پاکستان کی جبرو بربریت سے متاثر ہوکر دبئی میں محنت مزدوری کررہا تھا، 26 دسمبر 2018 کو اپنے دیگر کزنوں کے ساتھ صبح سویرے اپنے کام کے سلسلے میں جارہے تھے کہ راستے میں متحدہ عرب امارات کے خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے انکی گاڑی روک لی اور راشد کو گاڑی سے اتار کر لے گئے۔ اسی دن سے راشد کے خاندان سمیت بلوچ ایکٹویسٹ، انسانی حقوق کے تنظیموں کے رہنماوں نے مسلسل کوشش کی کہ راشد حسین کا کوئی سراغ مل جائے کہ وہ کہاں ہے، کچھ معلوم نہیں ہوا، آخر ایک ہفتے بعد راشد کو امارات کے خفیہ ادرے والے بھاری فورسز کے ساتھ اس کے کزن کے گھر لے آئے، راشد کی حالت سے ایسا لگا کہ وہ تشدد کا شکار ہوا تھا، وہ گھر کی تلاشی اور راشد کا فون وغیرہ کا پوچھ گچھ کرنے لگے اور متاثرہ خاندان کے لوگوں کو دھونس دھمکی دے کر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اب تم لوگوں کا بھی خیر نہیں ہوگا۔
اس کے بعد راشد حسین کا کوئی اتا پتا نہیں چلا، 27 دسمبر کو ایک مہینے بعد پاکستانی میڈیا پر نیوز آیا کہ پاکستانی پولیس حکام کی طرف سے چینی قونصیلٹ کی مرکزی سہولت کار راشد حسین شارجہ سے گرفتار ہوا ہے، مزید وہ کہتے ہیں کہ راشد حسین نے حملے کےدوران مختلف اکاونٹ سے 9 لاکھ روپے روانہ کیا اور پھر یہ بھی کہتا ہے کہ راشد حسین حملے کے وقت کراچی میں تھا۔ خیر پاکستان کا وجود جھوٹ، دھوکے، فریب اور مکاری پر مشتمل ہے اور شروع سے پاکستانیوں کے خون میں جھوٹ اور مکاری شامل ہے اس پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ عرب قوم اپنی تاریخ، تہذیب اور اعلیٰ اقدار کی وجہ سے پورے دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے، دوسری طرف عربوں اور بلوچوں کا ایک تاریخی رشتہ اور اچھا تعلق ہے۔ آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہے، آج کیسے کس طرح عرب قوم نے پورے بلوچ قوم کو نظرانداز کرکے ایک مکار دھوکے باز قوم پنجابی کے جھوٹ اور فریب کو حقیقت مان کر اپنے ماڈل ریاست و حکومت کے وقار اور قانون کو پاؤں تلے روند کر غیرقانونی، غیرانسانی طور پر پنجابی قوم آئی ایس آئی اور پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ طرز پر راشد حسین کو اغواء کرکے لاپتہ کردیا اور اب یہ بھی تشویش ہے کہ راشد حسین کو پاکستان کے حوالے کردینگے، اور پھر کل پاکستان کے خفیہ ادارے راشد حسین کی مسخ شدہ لاش کسی ویرانے میں پھینک دینگے یا پھر اپنے دیرینہ اور مکارانہ طرز پر پولیس انکاونٹر کے ذریعے راشد کو شہید کردینگے۔ کیا پھر یہ عمل خود پورے عرب قوم، عرب امارات کے منہ پر تاریخی طمانچہ نہیں ہوگا؟
کیا عرب قوم یہ ثبوت پیش کرسکتا ہے کہ راشد حسین نے اپنے اکاونٹ سے پیسے روانہ کیئے تھے؟ کیا عرب قوم پاکستان کے جھوٹ کے بجائے حقائق و شواہد کے بنیاد پر یہ ثابت کرسکتا ہے کہ راشد حسین چینی قونصلیٹ کے مرکزی سہولت کار تھا؟
اگر فرض کریں، ہے بھی تو بحثیت ایک مہذب قوم اپنے قانون کے مطابق وہاں امارات میں راشد حسین پر کیس چلایا جائے، اگر راشد حسین کو پاکستان کے حوالے کیا گیا تو پھر راشد حسین کے قتل میں کیا براہِ راست عرب قوم ملوث نہیں ہوگا؟ پھر پنجابی جیسے مکار، چاپلوس، دھوکے باز قوم کی خاطر عرب قوم پورے بلوچ قوم کے ساتھ اپنی صدیوں پرانی تاریخی رشتے کو دشمنی میں بدل دے گا، کیا یہ دانشمندی ہوگا؟
راشد حسین کا واقعہ ایک معمولی واقعہ نہیں ہے، یہ پہلا واقعہ ہے، اگر پنجابی قوم اپنی مکاری سازش اور جھوٹے پن میں کامیاب ہوگیا تو عرب قوم اور بلوچ قوم کے صدیوں سے بہتر رشتے اور تعلقات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔
اس واقعے کو عرب قوم اور بلوچ قوم کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا، یہ واقعہ ایک خاندان اور ایک فرد کی جان کا سوال نہیں ہے، یہ دو قوموں کے صدیوں سے قائم رشتوں کے اوپر ایک سوال ہے، اگر خدانخواستہ درمیان میں پنجابی کامیاب رہا تو پھر آئندہ آنے والے دنوں میں بلوچوں کے لیئے خلیجی ممالک اور عربوں کے لیئے بلوچستان دوسرے گھر کے بجائے مشکلات اور مسائلستان بن جائیگا، اور پنجابی کی پوری کوشش ہے کہ عرب قوم اور بلوچ قوم کا تعلق خرابی اور بگاڑ کی طرف جائے۔
راشد حسین کی غیرقانونی یعنی چوری چپکے گرفتاری، اس کی پہلی کڑی ہے، بہرحال دونوں اقوام کو اس واقعے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا، خاص طور پر مستقبل کو مدنظر رکھ پنجابی قوم کے تمام عزائم کو سمجھنا ہوگا۔
جتنا ممکن ہو، اس واقعے کو ہر کوئی قومی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر اجاگر کرے، خوف اور خاموشی سے نا صرف راشد حسین جیسے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان کی جان کو خطرہ ہوگا بلکہ دو قوموں کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوگا۔ جو صدیوں سے نہیں ہوا ہے اور آئندہ بھی نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ دونوں اقوام کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں

суббота, 26 января 2019 г.

خاموش راہ فراریت اور دستبرادری – برزکوہی

مشاہدہ، مطالعہ، تحقیق اور تجربات سے اس مقام تک پہنچ کر اب میرا یہ عقیدہ اور ایمان بن چکا ہے کہ کسی بھی تحریک یا تنظیم کے زوال یا ختم ہونے کی بنیادی وجہ کبھی بھی دشمن کا جبر و بربریت، تشدد، قتل عام، گرفتاریاں، ٹارچر، حربے یا سازش وغیرہ نہیں ہوتا، بلکہ زوال و اختتام کی بنیادی وجہ ہمیشہ تحریک و تنظیم کے اندر خود غرضی، مصلحت پسندی، سستی، کاہلی، غیرذمہ داری، بے حسی، لاپرواہی، آزادخیالی، الجھن اور بیوروکریٹک سوچ و رویئے اور رجحانات ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ اور خاص کر تحریکی تاریخ کے صفحات کو جھنجھوڑ کر یا الٹ پلٹ کر صحیح معنوں میں سیکھنے اور سمجھنے کے بعد آخر کار انسان اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ تنظیم اور تحریک کبھی بھی دشمن کے تشدد اور بے رحمی سے ختم اور کمزور نہیں ہونگے بلکہ مزید مستحکم اور توانا ہونگے، مگر غیرذمہ داری، آزادخیالی، بے حسی، عدم توجہ اور عدم دلچسپی سمیت خاموش راہ فراریت اور دستبرداری دراصل تحریک و تنظیم کے خاتمے اور زوال کا سبب ہوتا ہے۔
دشمن کا جبر ایک آندھی کی مانند ہوتا ہے، اگر درخت تناور ہو اور اسکے جڑ مضبوط ہوں تو کوئی آندھی و طوفان اسے نا توڑ سکتا ہے نا جھکا سکتا ہے، ہاں وقتی طور پر شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن کم مدت میں ہی انکی جگہ نئی شاخیں جنم لیتی ہیں لیکن تحریک کے اندر منفی رویئےدیمک کے مانند ہوتے ہیں، جو تحریک کے جڑوں کو اندر سے چاٹ کر اسے کھوکھلا کردیتی ہے، پھر معمولی سا جھونکا ہی تحریک کے شجر کو زمین بوس کردیتا ہے۔
آج ذرا بھی جرت اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جائے اور غور کیا جائے، یہ تلخ حقیقت روز روشن کی طرح بالکل واضح ہوچکا ہے کہ بلوچ قومی تحریک میں ایک مخصوص طبقہ دشمن کے دباو، خوف، تکلیف و مشکلات سے گبھراہٹ کا شکار ہوکر لالچ، آرام، سکون، آسائش کے عوض غیر اعلانیہ خاموشی سے تحریک سے مکمل راہ فراریت اختیار کرکے دستبردار ہوچکے ہیں، گوکہ ظاہری طور پر یا چند وقت کے لیئے، کچھ مدت تک سادہ لوح بلوچوں، خاص طور پر معصوم نوجوانوں کو مختلف حیلے بہانوں، دھوکا دہی، جھوٹ، فریب نما تاویلوں کے ذریعے گمراہ، بے وقوف اور احمق بنا دینگے مگر حقیقت جلد واضح ہوگا، یہ سارے بہانے جواز اور من گھڑت دلیلیں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں تھے۔
میں بذات خود ایک بار پھر انتہائی غور و خوض سے جب انقلاب چین کا مطالعہ کررہا تھا، تو وہاں بھی ایسے خاموش راہ فراریت اختیار کرنے والے اور دستبرادر انقلابی رہنماوں اور کارکنوں کی بیوروکرٹیک، آزاد خیال، غیرذمہ دار، سست اور کاہل رویوں کے بارے میں پڑھا تو مجھے ہوبہو کئی چہرے بلوچ قومی تحریک میں بھی آج صاف و شفاف نظر آنے لگے لیکن پھر بھی انقلاب چین زوال پذیر اور ختم نہیں ہوا بلکہ کامیاب رہا۔ اس کی بنیادی وجہ دوسری طرف مکمل انقلابی رویے اور رجحانات شدت کے ساتھ موجود تھے، خاموش دستبرداری اور راہ فراریت والے رویے اور رجحانات تحریک اور تنظیم پر حاوی اور اثرانداز نہیں ہوئے، بلوچ قومی تحریک آج اس مقام پر کھڑا ہے، جہاں ایک طرف مکمل دشمن کی زوآوری ہے، دوسری طرف تحریک میں خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رجحانات لیکن حوصلے اور کامیابی کی امید اس بات کی ہے کہ ایک طرف بلوچ نوجوان انقلابی سوچ و فکر سے لیس قربانی کے جذبے سے برسرپیکار، بغیر الجھن کے پر عزم اور پرامید ہوکر دشمن کے خلاف سینہ سپرہوکر لڑرہے ہیں اور قربان ہورہے ہیں، یہی سوچ و احساس اور رجحان خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رویوں کو زائل کرکے ان کے اصل چہروں کو نوجوانوں اور قوم کے سامنے بے نقاب کردیتی ہے۔
اس وقت ایسے خاموش فراریوں اور دستبرادری کے رویے اور رجحانات کا پلڑا بھاری ہوگا اور منفی اثرات قوم اور نوجوانوں پر زیادہ تر نفسیاتی طور پر اثرانداز ہونگے، جب ہر طرف بے حسی، خوف، خود غرضی، غیر ذمہ داری، بیوروکریٹک سوچ، آرام و سکون اور زندگی کو بچانے والے رجحانات کا بازار گرم ہو۔ پھر یہ محرکات تحریکوں اور تنظیموں کے موت اور زوال ثابت ہوتے ہیں، پھر دشمن بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف تماشہ دیکھے کیونکہ ایسی خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے رویئے خود تحریک اور تنظیم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں۔
خاموش دستبرداری اور راہ فراریت کے رویوں اور رجحانات کی تحریکوں اور تنظیموں میں کچھ مختصر علامات قابل ذکر ہیں، جو آپ کو ہر تحریکی تاریخ میں ملتی ہیں اور آج بلوچ قومی تحریک میں بھی موجود ہیں۔
سب سے پہلے تحریک کے ساتھ وابستہ رہ کر بھی غیر متحرک اور غیر فعال رہنا یعنی قوم اور تحریک کے لیئے کچھ بھی قابلِ ذکر نا کرنا، صرف وقت پاسی، باتیں و بحث و مباحثہ کرنا اور باتوں میں بھی زیادہ تر نقطہ چینی کرنا، کیڑے نکالنا، مایوسی، ناامیدی، الجھن پھیلانا۔
ہمیشہ خود سست، کاہل، غیر ذمہ دار، خوف زدہ رہنا اور ہر وقت اپنی جان کی حفاظت، پرآسائش، پرسکون زندگی اور ماحول کا خواہش مند رہنا اور بیوروکریٹک زندگی گذارنے کا طلب گار ہونا اور تحریک اور تنظیم کو صرف مراعات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھنا۔
خود قوم، تنظیم اور تحریک کے لیئے چند منٹ سرگرم نہیں رہنا، لیکن تحریک میں اپنے لیئے اعلیٰ مقام کا طلبگار رہنا۔
تحریک کے ساتھ جڑ کر بھی اپنے عمومی زندگی کی تمام راہیں اور آسائشیں ہموار رکھنا، تحریک میں کمزوری کا کوئی بھی شائبہ دیکھنے کے بعد سب پر الزام لگا کر اپنے تعمیر شدہ عمومی زندگی پر گامزن ہوجانا۔
اپنی تمام تر کمزوریوں اور نالائقیوں، راہ فراریت چھپانے کیلئے پوری تحریک کے ہر پہلو پر نکتہ چینی کرکے خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔
اپنے راہ فراریت کی راہ ہموار کرنے کیلئے، تحریک کو ناکام و کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرکے مایوسی پھیلانے کی کوشش کرنے، یہ ثابت کرنے کرنے کی کوشش کرنا کی جتنا چاہے جہد ہو تحریک کے بازوں میں اتنی قوت نہیں کہ وہ از خود کامیاب ہو تاکہ اسکے دستبرداری کو بھی تدبر سمجھا جائے۔
بہرحال کسی بھی تحریک اور تنظیم میں خاموش راہ فراریت اور دستبراد رویے تحریک اور تنظیم کے لیئے دشمن کی فوج اور جاسوسوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، ایسے رویے تحریک کو اندر سے مکمل کھوکھلا کردیتے ہیں، ان کے منفی اور گند آلود اثرات مایوسی اور الجھن کے شکل میں دیگر نوجوانوں پر پڑتے ہیں۔
ہمیشہ تنظیم اور تحریک میں ایسے رویوں اور رجحانات کی انتہائی بے رحم انداز میں بیخ کنی کرنا ہر حقیقی جہدکار کا فرض ہوتا ہے۔

четверг, 17 января 2019 г.


سندھیوں کی غلامی سے نجات اور آزادسندھو دیش کی بنیادیں جی ایم سید کے فلسفے میں مضمر ہیں،ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹراللہ نذر بلوچ نے ممتاز سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی ایک سو پندرہویں سالگرہ کے موقع پر جی ایم سید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھی قوم کے لئے جی ایم سید کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ وہ ایک رہبر اور ایک نمایاں مصنف تھے۔ سندھیوں کی غلامی سے نجات اور آزادسندھو دیش کی بنیادیں جی ایم سید کے فلسفے میں مضمر ہیں۔ ان کے فکر و عمل و تعلیمات سے استفادہ کرکے سندھی قوم پاکستان سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ اس جدید دور میں دوسری قوموں کو غلام رکھنا پاکستان کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گو کہ پاکستان جیسی غیر فطری ریاست سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد دیگر اقوام پر قابض ہوکر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کی غلامی میں بلوچ، سندھی اور پشتون کی قومی بقاء، زبان و ثقافت شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا بلوچ قوم کی طرح سندھی بھی غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سندھی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و روایات روندی جارہی ہیں۔ سندھی نوجوان اسی طرح زندانوں میں اذیتوں سے گزارے جارہے ہیں جس طرح ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان پاکستان کے زندانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں اور شہید ہورہے ہیں۔ آج سندھی بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزرر ہے ہیں جہاں قابض ریاست ان کے وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سندھی ایک قدیم تہذیب کا وارث اور ہزارہا سالوں سے اپنی سرزمین کا مالک ہے اور اپنی صوفیانہ نظریات کی وجہ سے انسان دوست اور اپنے ہمسایوں سے پرامن بقائے باہمی کے قائل قوم کی پہچان رکھتی ہے۔ لیکن آج یہ عظیم قوم ایک ایسی ریاست کا غلام ہے جو تہذیب و روایات سے مکمل طورپر ناآشنا ایک خونخوار درندہ ہے۔ پاکستان سندھی تہذیب و ثقافت پر یلغار کرکے یہاں مذہبی انتہا پسندی کے بیج بو کر اس کے روایتی اقدار کو پاؤں تلے روندنے کی کوششیں کررہا ہے تاکہ سندھی قوم سے اس کی پہچان چھین کر انہیں اپنی ہی سرزمین و ثقافت سے بیگانہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ، سندھی اور پشتون قوم کے لئے اپنی سرزمین، قومی بقاء اور تشخص کی حفاظت کے لئے واحد راستہ قومی آزادی اور پاکستانی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے۔ پاکستان نے اپنے سامراجی اتحادیوں کے ساتھ مل محکوم اور مظلوم قوموں کی سرزمین پر یلغار کرکے انہیں مٹانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ چین کے ساتھ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) جیسے معاہدے بلوچ اور سندھیوں کے وسائل کے استحصال کے منصوبوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
سات دہائیوں سے پاکستان ہمیں اپنی کالونی بنا کر نہ صرف ہمارے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے بلکہ ہمیں اپنے ہی سرزمین سے بیدخل کرکے اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ان حالات میں سندھیوں کو جی ایم سید کی سالگرہ کے موقع پر یہ تجدید عہد کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے عالمی قوانین کے تحت جد و جہد کے تمام ذرائع استعمال کرکے اپنی منزل آزادی کی جانب گامزن ہوں گے۔ گو کہ یہ ایک کھٹن راستہ ہے اور ہم ایک غیر مہذب، ظالم اور عالمی اقدار سے عاری ایک ایسی ریاست کے غلام ہیں جو بنگالیوں اور بلوچوں کی نسل کشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کر چکی ہے مگر آزادی کے بغیر بلوچ اور سندھی قومیتیں پاکستان کے ان مظالم اور نسل کش پالیسی کے تحت کرہ ارض پر ناپید ہوجائیں گی۔

среда, 16 января 2019 г.

بلوچ ڈائسپورا کے خلاف دشمن کا گٹھ جوڑ – برزکوہی

سن زو کے نزدیک خود کو پہچانو، دشمن کو پہچانو، ایک جنگ نہیں ہزار جنگیں جیت جاو گے، بالکل صیح فرمایا ہے مگر نہ خود کو پہچانو گے، نہ دشمن کو تو ہمیشہ شکست، پشیمانی، مایوسی، افسوس اور نقصان آپ کا مقدر ہوگا۔
ایسا بھی نہیں کہ صرف بلوچ اپنے دشمن کو مکمل طور پر نہیں پہچان رہا ہے بلکہ دشمن بھی اس وقت تک بلوچ کو کئی مقامات پر مکمل نہیں پہچان سکا ہے۔ لیکن زیادہ تر عدم پہچان کے آثار بلوچ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
آپ موجودہ تحریک کی شروعات کو دیکھیں تو رومانویت اور جذباتیت کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، گوکہ بہت سی جگہوں پر شعوری جہد ہوئی لیکن اکثر جہدوکاروں کی دشمن کے بارے میں غلط اندازوں، تجزیوں، خوش فہمیوں اور تصوراتی کیفیتوں نے ایک مقام پر آکر بلوچ قوم خاص کر بلوچ جہدوکاروں کو دشمن کی عدم پہچان کی صورت میں مایوسی، ناامیدی، نقصان اور پریشانی سے دوچار کیا۔
دشمن تو مرحلہ وار بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں پر مکمل نظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہوا آرہا ہے اور بلوچ جہدکار ضرور کچھ نہ کچھ جگہوں پر حکمت عملی کو بروئے کار لارہے ہیں لیکن زیادہ تر اللہ خیر کرے گا پر گذارہ کررہے ہیں۔
تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی دشمن نے سب سے پہلے بلوچستان کے شہروں اور دیہاتوں میں خاموشی اور صبر کیساتھ تمام بلوچ جہدکاروں اور تحریک کے حمایتیوں اور ہمدردوں کو نظر میں رکھنا شروع کیا، دشمن کی طرف سے دیئے گئے اس کھلے ماحول کو اسکے چال کے بجائے اپنی قوت سمجھ کر جہدکار خود کو ایکسپوز کرتے رہے اور بنا کسی احتیاطی تدبیر کے سرگرمِ عمل رہے، جب دشمن نے تمام کوائف جمع کرلیئے اور ایک نتیجہ پر پہنچ کر، سب کو ختم کرنے کا اک دم فیصلہ کرلیا، اسی وجہ سے بہت سے نوجوان شہید اور ہزاروں لاپتہ ہوگئے اور کسی کو سنبھلنے کا موقع تک نا ملا۔
اس کے بعد پہاڑوں میں وہی صورتحال دیکھنے کو ملی، تمام چیزیں، نقل و حرکت، بلوچ ہمدردوں اور جہدکاروں پر نظر رکھا گیا، نشاندہی کی گئی اور پھر وہاں پر بتدریج حملے شروع ہوئے، بہت سے محفوظ ٹھکانوں کو بے احتیاطی کی وجہ سے دشمن نے جہدکاروں کیلئے غیرمحفوظ بنادیا۔ بلوچ نسل کشی، تشدد، چھاپہ، لاپتہ، اغواء، سرنڈر وغیرہ وغیرہ تمام سازش اور حربے تسلسل اور شدت کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہروں و دیہاتوں اور پھر پہاڑوں کی حد تک دشمن کے منصوبوں کے بارے میں بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو کس حد تک صحیح معنوں میں اندازہ اور ادراک تھا؟ کہ اس حد تک دشمن جاسکتا ہے؟ صحیح تجزیہ، صحیح اندازہ اور صحیح ادراک یا پھر اللہ خیر یعنی جگاڑ، تکا اور نظر انداز والا رویہ؟ کیا خود اللہ خیر کرے گا والا فارمولہ اور تکیہ کلام دوسرے معنوں میں لاعلمی، عدم پہچان اور بے بسی کی نشاندہی نہیں ہے؟ یا حسب روایات اور حسب عادت ہے؟
اسی طرح آج بالکل بلوچ قوم، خصوصاً بلوچ نوجوان اور بلوچ قومی تحریک کے حقیقی قوتوں کو یہ ادراک ہوچکا ہے کہ پاکستان اور چین کی بلوچوں کے خلاف یلغار، بلوچوں کو عنقریب صفحہ ہستی سے مٹادینگے تو بلوچ بھی آخری حد تک جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان چین کے ساتھ ساتھ دیگر قوتوں کے علاوہ اب سعودی عرب بھی رفتہ رفتہ سامنے آرہا ہے، جو عسکری، معاشی اور سفارتی حوالے سے بلوچ قوم اور تحریک کا گھیراو تنگ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان کے علاوہ ایک کم سطح پر بیرون ممالک میں مقیم بلوچوں کے خلاف گھیراو تنگ کرنے کی کوشش بھی نظر آتا ہے۔ کچھ جگہوں پر دشمن کامیاب بھی ہوا ہے، سمجھوتہ، دباو، پریشر، مذاکرات، خاموش محدود سرگرمیوں کی حد تک دوستانہ دشمنی وغیرہ وغیرہ لیکن آج پاکستان چین گٹھ جوڑ سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ انتہائی ترندوتیز انداز میں بیرون ممالک میں دیگر ممالک پر دباو بڑھا کر بلوچوں کے خلاف گھیراو تنگ کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
آج بیرونِ ملک ہمیں دوبارہ وہی غلطیاں دہرتی ہوئی نظر آرہی ہیں جو تحریک کے ابتدائی دنوں میں ہوئی، دشمن خاموشی سے بیٹھا دیکھ رہا ہے اور ایک ایک کی نشاندہی کررہا ہے اور وقت آنے پر معلوم نہیں وہ ایک ساتھ کس حکمت عملی پر پورے بلوچ ڈائسپورا پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا، لیکن ہم دشمن کا کام آسان کررہے ہیں، وہی جہد کار جو ملک میں رازداری کے ساتھ رہتے تھے اب خود کو اتنا آزاد اور بے باک سمجھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر انکے لائیو سیشن چلتے ہیں، انکے ذاتی آئی ڈیوں پر انکے پکنکوں انکے گھر و ٹھکانوں اور تازہ ترین تصویروں سب کا پتہ موجود ہے۔ اب جب دشمن نے نئے حکمت عملی سے باہر مقیم جہدکاروں پر ہاتھ ڈالا تو پھر جانے کتنا نقصان، کتنے ڈر کے مارے سرنڈر، کتنے شہید و گرفتار ہوجائینگے۔ پھر پچھتائے کیا ہوت کے مصداق سر پیٹتے بیٹھ جائیں۔
کیا اس حوالے سے بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو اندازہ اور ادراک ہے؟ کیا اسی خوف اور اندازے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ پہلے جدوجہد سے ہاتھ اوپر کرکے غیر اعلانیہ طور پر کنارہ کش ہوچکے ہیں؟ کیا باقی بلوچوں کو اندازہ اور ادراک ہے کہ کل کیا ہوگا؟
انسان کا ایک مجموعی نفسیات ہے، خاص طور پر بلوچوں میں یہ زیادہ ملتا ہے کہ جب تک اس کو کسی بھی حالت اور واقعے کا سامنا نہیں ہو، اس وقت تک وہ سنے گا نہیں، اگر سنے گا بھی تو عمل بالکل نہیں کریگا۔ جب حالات اور واقعات رونما ہونگے تو پھر افسوس، پشیمانی، مایوسی، ناامیدی، چیخ و پکار جیسے عمل حقیقت میں خود اپنے اندر نالائقی، بے شعوری اور کم عقلی نہیں ہے؟ کیا جدوجہد، نالائقی، کم عقلی، لاشعوری، دشمن کا عدم ادراک اور عدم پہچان کی بنیاد پر آگے بڑھا جاسکتا ہے اور کامیاب ہوا جاسکتا ہے؟
18 سالوں سے لیکر آج تک اگر بلوچوں، خاص طور پر نوجوانوں کو لڑانا، ہزاروں کے تعداد میں نوجوانوں کی قربانیاں، شہادت، گرفتاریاں، نسل کشی، گھروں کی مسماری، درپدر زندگی کے بعد ایک مخصوص گروپ آکر یہ بیہودہ و لغو فلسفہ پیش کرے کہ جی جتنی شہادتیں تھیں، جتنوں نے جانیں قربان کیں وہ سب غلط تھے اور غلطیاں تھیں، مزید بلوچوں اور خاص کر نوجوانوں کو قربان نہیں کرنا ہے بلکہ ان کوبچانا ہے انتظار کرنا ہے، جب کوئی قوت ہمیں سپورٹ کریگا پھر جدوجہد شروع کرینگے، ابھی صرف نام نہاد ڈپلومیسی ہوگا۔ کیا یہ خود دشمن کی عدم پہچان اور عدم ادراک کے پیش نظر دباو، خوف، راہ فراریت، کنارہ کشی، سمجھوتہ، خفیہ سرنڈر، جدوجہد سے جان چھڑانے والی کوشش نہیں ہے؟ یا بلوچ قوم خصوصاً بلوچ نوجوانوں کو مزید دھوکا دہی، دروغ گوئی، سبز باغ دکھانے کے چکر میں منافقت نہیں ہے؟ کیا ایسے گروہ تحریک کے دشمن نہیں ہیں؟ دشمن سے زیادہ خطرناک نہیں؟ کہ 18 سالوں سے ہزاروں نوجوانوں کے لہو کے ساتھ کھیل کر اچانک کچھ علاقائی اور کچھ عالمی سطح پر دشمن کے دباو اور خوف کا شکار ہوکر غوث بخش بزنجو، ڈاکٹر الحئی اور ڈاکٹر مالک کے عدم تشدد، مصلحت پسندی اور سمجوتہ والے فارمولے کو پیش کرکے نوجوانوں کو خاموش کرانے کی کوشش شروع کی جائے۔ یہ واضح طور پر بلوچوں اور شہداء کے خون کے ساتھ دھوکا اور دغا بازی نہیں ہے؟
بہرحال آج پاکستان اور چین بلوچستان سمیت دیگر ممالک میں اپنے بلوچ دشمن پالیسیوں کو وسعت دیکر دیگر ممالک پر سفارتی و معاشی دباو بڑھاکر بلیک ملینگ کی حد تک بلوچوں کے خلاف بیروں ممالک میں بھی ایکشن شروع کرچکے ہیں اور اس میں مزید شدت اور وسعت پیدا ہوگا، اب بیرون ممالک میں مقیم بلوچ کس حد تک دنیا کو دیگر مہذب اقوام کے سامنے اپنی فریاد لیکر کام کرچکے ہیں کہ دنیا اور مہذب اقوام پاکستان اور چین کے بلوچ دشمن عوامل کے خلاف آواز اٹھائے؟
صرف بلوچستان کی حالات سے جان بچا کر بیرون ممالک میں سرچھپانا؟ پھر میرے خیال میں اب یہ سر وہاں بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ یا تو بلاخوف جدوجہد کا مکمل حصہ بلکہ قربانی کے لیئے ہر وقت تیار ہونا یا دشمن کے سامنے سرجھکانا اس کے علاوہ درمیانی راستہ خدائی ملنے ساتھ میں وصال صنم ہونے والا فارمولہ مزید کامیاب اور کارگر ثابت نہیں ہوگا۔
بجائے بلوچ جہدکار وقت پاسی، آرام اور سکون اور جان بچانے کے فارمولے کو ترک کرکے دن و رات سرگرم عمل ہوکر منظم انداز میں، غیرروایتی انداز میں اپنے جدوجہد کو تیز کرکے مہذب دنیا اور مہذب اقوام کو یہ باور کرا دیں کہ پاکستان اور چین کے ہاتھوں آگے بلوچ کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہوگا، تو انسانی بنیادوں پر مہذب دنیا اور مہذب اقوام پاکستان اور چین کے خلاف ایکشن لے، یہی شعوری جدوجہد کا تقاضہ ہے۔

вторник, 8 января 2019 г.

شہید امیرالملک بلوچ کی کچھ یادیں
تحریر : بہار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: اردو کالم
ایک دن میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا، میرے موبائل پر ایک رونگ نمبر سے کال آیا۔ میں نے کال اٹینڈ نہیں کیا، چار پانچ بار کال آیا پھر میسج آیا۔ میسج میں “سنگت نی ہال کر” لکھا تھا۔ میں نے کہا “جی نی دیر؟” جواب آیا “میں جمال۔” جمال سن کر میں اٹھا اور ساٸیڈ ہو کر کال کیا۔ امیر نے کہا “سنگت امرس انت ہالے نا؟” “جی خیرے شکر ے جوانن، نی بنِف تینا خواجہ.” امیر جواب ٸٹ پارے “نن بیدار ٸون بادشاہ” امیر نے کہا “خواجہ ننا غریباتا کال ۓ ہفپیرے۔” میں نے ہنس کر بولا “جی خواجہ نا نمبر سیو الو ننتو بشخس.” ہال حوال کے بعد امیر جان نے مجھے بتایا ۔ جی آپ سے کچھ کام ہے، آپ آسکتے ہو؟ جی ہاں بلکل خواجہ اور ہاں اکیلے آنا، ٹھیک خواجہ، میں کچھ دن بعد امیر کے پاس چلا گیا۔
امیر کے پاس کچھ دوست تھے۔ امیر سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوٸی، امیر بہت ہنستے اور مزاق کرتے تھے. میں اور امیرجان بیٹھ کر چائے پی رہے تھے، تو امیر جان نے مجھے ہال احوال کیا. پھر مزاق کے موڈ میں آکر بہت مزاق کیا۔ میں نے امیرسے پوچھا امیر جان آپ چمن کے پھول ہو، یہاں جنگل میں کیا کررہے ہو؟ امیرجان نے ہنس کر کہا “اگر میں شہر میں ہوتا، گھر سے بازار کی طرف جاتا، تو پنجابی فوج مجھے روک کر پہلے مجھ سے پوچھتے کہاں سے آرہے ہو؟ کیا نام ہے؟ کدھر جارہے ہو؟ کیا کام کرتے ہو؟” امیرجان بالکل خاموش ہو گٸے۔
میں نے پوچھا پھر آپ کیا کہتے پنجابی فوجی کو؟ امیرجان ہنس کے بندوق اٹھا کر بولاٗ “پہاڑوں سے آرہا ہوں، نام بندق سے نکلتی گولی بتاٸے گا، آپ کو مارنے آیا ہوں، سرمچار ہوں سمجھے؟”
میں نے امیر سے پوچھا “آپ ہمیشہ ہنستے ہو، اسی طرح خوش رہتے ہو یا صرف آج میرے ساتھ ایسے ہو، آپ کا بھاٸی لاپتہ ہے آپ کے کٸی کزن لاپتہ ہیں، آپ کے رشتہ داروں کو لاپتہ کیاگیاہے، جو دشمن کے پاس قید میں بند ہیں، آپ کے کچھ رشتہ دار شہید کیٸے گٸے ہیں، آپ کے دوستوں کو اسی طرح لاپتہ یا شہید کیاگیا ہے، لیکن آپ کے چہرے پر ایسی کوٸی پریشانی نہیں ہے؟”
امیر مسکراتے ہوئے بولے” سنگت یہ سب جہد ِآزادی کے حصے ہیں، مجھے اپنے بھاٸی، رشتہ داروں یا دوستوں کے لاپتہ یا شہید ہونے پر فخرہے۔ بلوچ قومی آزادی کے لیئے ہر بلوچ پر فرض ہے کہ اس جنگ کا حصہ بنیں، ہمیں بیٹھے بیٹھے آزادی نہیں ملےگی۔”
میں نے پوچھا “امیر جان بی ایل اے اور یو بی اے کے مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟” امیر بولے “جی اختلاف ہے بی ایل اے اور یو بی اے کے درمیان، یہ انشااللہ بہت جلد ختم ہو جائیں گے۔”
میں نے پوچھا “امیرجان آپ کے کچھ رشتہ داروں کو بی ایل اے نے قتل کردیا تھا؟” امیر جان نے کہا “جی ہاں کچھ غدار تھے ان کو قتل کیا ہے۔” میں نے پوچھا “امیر آپ کے رشتہ داروں کو قتل کیا پھر بھی آپ نے کچھ نہیں کہا؟” امیر ہنسے ہوئے بولا “ایلم بلوچ قوم میں غداری جس نے بھی کی، تو سرمچاروں کو حق ہے کہ اُن کو قتل کردیں، چاہے جو بھی ہوں۔”
میں نے پوچھا “امیرجان یہ جو گولی ہے آپ کے گردن میں بندھی یہاں کیوں؟” امیر بولے “جگر یہ اس لیئے کہ دشمن سے مقابلہ ہو اور جب ہماری گولیاں ختم ہوجائیں تو دشمن کو گرفتاری دینے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنی آخری گولی مار دیں۔”
میں خاموش ہوگیا، پھر امیر جان نے کہا صحافی صاحب سوال ختم ہو گیئے ۔ ہم دونوں ہنسنے لگے پھر میں نے کہا جی نہیں کچھ سوال ہیں، اچھا پھر پوچھ لیں. میں نے پھر پوچھا “امیر جان آپ اپنے بالوں کو کیا لگاتے ہیں؟” وہ زور سے ہنستے ہوئے بولا “یار آپ میرے بالوں کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ میں دیر سے دیکھ رہا ہوں، آپ کی نظر میرے بالوں پر ہے۔”
ہم دونوں بہت ہنس رہے تھے، میں نے ہنستے ہوئے کہا “ماشاءاللہ بہت اچھے ہیں۔” پھر امیر جان علاقے کا، شھر کا دوستوں کا، دشمنوں کا سب کا پوچھ رہے تھے۔ میں نے امیر سے کسی دوست کے بارے میں پوچھا، امیر جان نے کہا کہ وہ یہاں ہے لیکن تھوڑا دور ہے، پھر آوگے تو ملنا ٹھیک۔
میں نے کہا “ٹھیک ہے میں آپ سے ملنے بہت جلد آجاونگا۔” مجھے یہ پتہ نھیں تھا کہ میرا اور امیر جان کا یہ آخری ملاقات ہوگا، جب میں واپس آیا تو امیر جان راستے تک آیا، میں نے امیر کےچہرے کو دیکها، امیر جان ہنس رہا تھا، جب میں نے امیر سے رخصت لیا. تو میرا دل نہیں کررہا تھا واپس ہونے کو، دل کرتا تھا کہ امیرجان کے پاس رہوں یا امیر کو ساتھ لے کر چلوں کچھ دن تک امیر کی باتیں، ہنسی، چہرہ میرے ساتھ تھا۔
ایک دن میرے ایک دوست کی شادی تھی۔ میں کچھ دوستوں کے پاس بیٹھا تھا، ایک دوست نے کہا کہ کل قلات میں ایک بہت خون ریز آپریشن ہوا ہے، ایک سرمچار کے شہید ہونے کی اطلاع ہے، میں نے دوست سے شہید ہونے والے سرمچار کا نام پوچھا تو دوست نے بتایا کہ “امیرالملک” تو میرے لیئے زمین اور آسمان ایک ہوگئے. میں نے کسی اور دوست سے پوچھا اُس نے بھی کہا کہ بی ایل اے نے بیان دیا ہے کہ قلات آپریشن میں امیرالملک عرف جمال شھید ہوگئے ہیں۔

شہید امیرالملک بلوچ
تحریر ۔ نود بندگ بلوچ


" مرنے کیلئے زندہ نا رہو۔۔۔۔ بلکہ زندہ رہنے کیلئے مرو "
۔۔۔۔
تمہیں دیکھ کر اکثر میں سوچتا تھا کہ آخر درد کی وہ آخری حد ہوتی کیا ہے جو انسان کو توڑ دیتی ہے ، جو ایک مضبوط انسان کو گٹھنے ٹِکوا کر اسے اسکے خوابوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیتی ہے ؟ شاید شدید سردی میں برہنہ حالت میں کسی رسی سے الٹا گھنٹوں لٹکے رہنا اور جسم پر مسلسل چابکوں ، لاتھوں اور گھونسوں کا برسنا تمہیں تین دن سے سونے بھی نہیں دیا گیا ہو اور آنکھ لگتے ہی تمہارے منہ پر زور سے گھونسے لگ رہے ہوں ، غلیظ گالیاں تمہاری سماعتوں سے ٹکرارہی ہوں، الٹا لٹکے لٹکے تمہاری سانس اکھڑ رہی ہو جسم کے ہر حصے میں اتنی تکلیف ہورہی ہو کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے کہ کس حصے میں کتنی تکلیف ہورہی ہے ، تمہیں صرف ایک چیز محسوس ہورہا ہو ، تکلف بہت زیادہ تکلیف ، خون کی طرح رگوں میں دوڑتا تکلیف ، ہڈیوں کے اندر گھستی ہوء تکلیف ، روح کو نوچنے والی تکلیف پھر الٹا لٹکے لٹکے تمہارے پورے جسم کا خون جیسے تمہارے سر میں جمع ہوگیا ہو اور دل کی ہر دھڑکن تمہارے سر میں کسی ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہو ؟ نہیں شاید یہ بھی وہ آخری حد نہیں جو تمہیں توڑ سکے پھر شاید درد کی آخری حد یہ ہے کہ تمہارا ایک چھوٹا بھاء 3 سال اور دوسرا 1 سال سے کسی اندھیرے زندان میں بند ہوں اور تمہیں پتا بھی نا ہو کہ وہ اب زندہ بھی ہیں کہ نہیں ، ہر رات سونے سے پہلے تمہارے بھائیوں کے چہرے تمہارے سامنے آجاتے ہوں اور یہ احساس تمہیں سونے نہیں دے رہا ہو کہ نجانے وہ کس حالت میں ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ درد سینے میں اٹھتا ہو کہ جس تکلیف سے وہ گذر رہے ہیں اس کی وجہ صرف تم ہو ، تمہارا گھر ایک کھنڈر بنا دیا گیا ہو ، اور تمہارا بھوڑا باپ اور ماں بہنیں در بدر ہوجائیں ، تمہارا بھوڑا باپ اس عمر میں تمہاری ماں بہنوں کو اٹھائے سر چھپانے کیلئے دیارِ غیر میں بھٹکا بھٹکا پھررہے ہوں ، تمہارے تین کزنوں کو شہید اور اور نانا سمیت 12 کزن تین سال سے لاپتہ ہوں ، تم نے چار سال سے کسی عزیز و قریب کا چہرہ تک نا دیکھا ہو ؟ شاید یہ کسی بھی انسان کو توڑنے کیلئے کافی ہو لیکن سنگت امیر جان تم پتہ نہیں کس مٹی سے بنے ہو ، ان سب سے گذرنے کے باوجود تمہارے ماتھے پر تو ایک شکن بھی نہیں ، گردشِ حالات کی سختی کا ایک نشان بھی تمہارے چہرے پر نظر نہیں آتا ، جب بھی تمہاری طرف دیکھوں تو آنکھوں میں صبحِ نو کی وہی چمک ہے اور چہرے پر وہی دل موہ لینے والی مسکراہٹ ، جب بھی تم سے بات کروں تو امید کے سوا کچھ نا پاوں ، اگر کبھی تمہارے منہ سے کوء پریشانی سنوں تو صرف اتنا کہ " بس سنگتاتے برابر کروء ء4ِ " (بس دوستوں کو سنبھالنا ہے)۔ تم آخر ٹوٹتے کیوں نہیں ، زار زار روتے کیوں نہیں ، درد سے کراہ کر تھکتے کیوں نہیں ، کندھوں پر دکھوں کا یہ گھانٹ لئے تمہارے کندھے جھکتے کیوں نہیں ، آخر یہ تمام تکالیف تمہاری آنکھوں کی چمک اور چہرے سے مسکراہٹ چھین کیوں نہیں لیتے ، سنگت امیر جان یہ ساری تکلیفیں مل کر بھی تمہیں اس بات پر آمادہ کیوں نہیں کرتے کہ تم اپنے خوابوں سے دستبردار ہوجاو ، یہ تکلیفیں آخر تمہیں مار کیوں نہیں دیتے کیوں آخر کیوں ؟ مجھے جواب دو ، مجھے نفرت ہورہی ہے تمہاری آنکھوں کی امید اور چہرے پر سجے مسکراہٹ سے یہ میرے بے حسی پر ہنس رہے ہیں میرا مذاق اڑا رہے ہیں، مجھے جواب چاہئے تم بولتے کیوں نہیں۔؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میری نظر تمہارے آخری اسٹیٹس میسج پر پڑی جو مرنے سے کچھ دن پہلے تم نے لکھا تھا " مرنے کیلئے زندہ نا رہو۔۔۔۔ بلکہ زندہ رہنے کیلئے مرو "

воскресенье, 6 января 2019 г.

جنرل اسلم – سنگت رضا بہار

کاش 2018 کے سال میں وہ دن نہ آتا جس نے ہمارے خوابوں ومنصوبوں کو مرجھا دیا۔ روایتی تحریر سے بڑھ کر میں جنرل کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن بابا کی مہر و محبت کے آگے میرے الفاظ دم توڑ دیتے ہیں ، یقین نہیں ہو رہا ہے کہ وہ شفیق استاد آج ہمارے درمیان موجود نہیں، جب بھی میں بابا اسلم سے ملتا تھا تو پہلے وہ مجھ سے میرے ساتھیوں کے بارے میں پوچھتا تھا، ساتھی کیسے ہیں، علاقہ کیسا ہے، ساتھیوں کے کام کس طرح چل رہے ہیں، کوئی ضرورت ہو تو لازم مجھے بتادینا۔ بابا آج مجھے سب سے زیادہ آپکی کمی محسوس ہورہی ہے، بابا کے کچھ سنہرے الفاظ آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں وہ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ کام کو آگے لے جانا ہے اور بکھرے ہوئے نوجوانوں کا طاقت یکجاہ کرنا ہے، وہ ہمیشہ کہتا تھا وقت ضایع کرنا نہیں چاہیئے ، دشمن کو بڑے بڑے نقصان دینے چاہیئے، چھوٹے چھوٹے حملوں سے دشمن کمزور نہیں ہوتا، اب وقت آ چکا ہے کہ ہمیں دشمن کے مورچوں میں گھس کر وار کرنا چاہیئے۔
انکا ہمیشہ کہنا تھا کہ آؤ ساتھ چلتے ہیں، اور دشمن کی ہستی سے مٹا دینگے، اپنے شہادت سے چند منٹ پہلے بابا نے کہا تھا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو دشمن کو بتادونگا کہ اسلم کون ہے اور بلوچ طاقت کیا ہے۔ لیکن آہ! بابا آج ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔ مجھے پورا یقین ہے ہم بلوچ نوجوان بابا کا خواب آزادی ضرور پورا کرینگے اور دشمن کو بتادینگے اسلم کون تھا اور بلوچ کا اصل طاقت کیا ہے، کیا ہوا آج وہ ہمارے محفل میں موجود نہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے بابا جنرل کا فکر و فلسفہ ہمیشہ ہمارے کام میں جان ڈالے گا اور ہمارے قدموں کو مزید تقویت بخشے گا۔
ان 25 سالوں کی انتھک جدوجہد میں بابا نے بولان سے لیکر مشکے و ساہیجی کے پہاڑوں میں شیروں کو جنم دیا ہے۔ آج اگر ہمارے درمیان جنرل بابا اسلم جیسا مکمل فوجی دماغ کا سربراہ موجود نہیں لیکن وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ جنرل کے پاکیزہ سوچ کو آگے لے جانا ہے۔ اگر ہم اسی طرح نیک نیتی و خلوص سے اپنا کام آگے لے جائیں تو مجھے پورا یقین ہے ہمارے صفوں میں جنرل جیسے بہت سے فوجی جنرل جنم لینگے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ ہم جنرل اسلم بلوچ کی فکر کی پیروی کریں۔ ہمیں ہر محاذ میں اپنی قومی جنگ کو آگے بڑھانا ہے، ہمیں کسی سے نہیں ڈرنا چاہیئے کیونکہ ہم ایک جائز لڑائی لڑ رہے ہیں۔
اس مختصر تحریر میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں، ہمیں وقت کو ضائع کرنا نہیں چاہیئے، ہمیں بلوچ قومی جنگ کو ایک مکمل فوجی تنظیم کی شکل میں تبدیل کرنا ہے۔
جب ہمارے پاس ایک قومی ادارہ ہوگا تو جنرل اسلم بلوچ جیسے بہت سے فوجی جنرل جنم لینگے، شرط یہی ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے ناموں سے بالاتر سوچیں، ہم جتنا قومی تحریک کو منظم و یکجاء کرینگے اتنا ہی نیک نام کمالینگے۔ قومی جدوجہد کو اگر کامیاب کرنا ہے تو جنرل سلم بلوچ کی طرح وسیع الذہن ہونا چاہیئے، جنرل کی طرح فوجی ذہنیت رکھنا چاہیئے، کیونکہ ہمارا مقابلہ پاکستان جیسے مکار فوج سے ہے۔ ہمیں فوجی بن کر ایک فوج کا مقابلہ کرنا چاہیئے، ہمیں قومی تحریک کو ایک مزاحمتی تنیطم میں تبدیل کرنا ہے، ہمیں وسیع الذہن ہونا چاہیئے، ہمیں آگے بڑھنا ہے، ہمیں اپنے ذمہ داریوں کو سمجھنا ہے، اپنے کام میں شدت لانا ہے۔
اگر ہمیں جنرل سے محبت ہے تو ہمیں انکے کہے ہوئے باتوں پہ عمل کرنا ہے۔ ہمیں مکمل عملی انسان بننا چاہیئے، جنرل اسلم بلوچ جھد آجوئی کا پیغمبر تھا، وہ جاتے جاتے ہمیں دشمن کو کیسے سبق دینا ہے۔ سب کچھ سکھا کے گیا، اب ہم پر کام کا بوجھ ہے، ہمیں گبھرانا نہیں چاہیئے بس آگے بڑھنا ہے، دشمن کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کرنا ہے۔

пятница, 4 января 2019 г.


جنرل اسلم اور دوستوں کی شہادت قربانیوں کا سلسلہ - تحریر: سفر خان بلوچ
ستر سالہ پاکستانی غلامی کے خلاف بلوچوں کی جنگ آزادی اس وقت پورے شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ورنا ،کماش ،طالب علم، ڈاکٹر ، وکلا ، سمیت متعدد سرکردہ رہنما پاکستانی جبر کے خلاف آواز اٹھا کرپاکستانی درندہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں ۔ شہید جنرل اسلم اور دوستوں کی شہادت انہی قربانیوں کا سلسلہ ہے جو آزادی تک بلوچ ورنا اور کماش دیتے رہیں گے ۔
یہ بات تلخ سہی مگر حقیقت ہے کہ جنگ کا نام مرنا یا مارنا ہے ، جنگ کی اصول ہے مار و یا مرواور جب تک جنگ چلتا رہے گا اسی طرح پارٹی ورکر یا رہنما شہید ہوتے رہیں گے و یسے جنگ کا دوسرا نام بھی تباہی ہے اور تباہی میں سب کچھ آتا ہے لوگوں کی شہادت بنی بنائی خوابوں کا ٹوٹنا بستیوں اور محلوں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا عام سی باتیں ہوتی ہیں ۔اور جنگوں میں ویسا سوچا جاتا ہے ضروری نہیں ہر وقت ویسا ہی ہو ایک بات ذہن نشین ہونا چاہیے جنگ میں آپ دشمن کے خلاف منصوبہ بناتے ہو اور دشمن آپ کے خلاف لڑنا دونوں کو ہے اور مرنا بھی دونوں کو ہے اس طرح بھی نہیں ہے ہر وقت دشمن شکست سے دوچار ہوتا ۔شکست جنگوں میں وہ آخری اور پہلا مرحلہ ہوتا ہے جو ہر وقت دونوں فریقوں کے درمیان موجود ہوتا ہے آخر جاکر کس کے مقدر میں ہوگا وہ جنگی سپاہیوں کی شاطر چالوں اور جنگی حکمت عملیوں سے طے پاتا ہے
شہید جنرل اسلم بلوچ اوردوستوں کی شہادت کے بعد کئی دوست یہی سوچ رہے ہیں اب بلوچ تحریک آزادی کا کیا ہوگا ؟یہ بات سو فیصد حقیقت کہ اس وقت جنرل اسلم کی شہادت بلوچ قوم کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں مگر ہم بلوچ تحریک آزادی کی جدوجہد میں دیکھیں یہ پہلی دفعہ نہیں کہ اس طرح کے رہنما وقت سے پہلے ہم سے جدا ہوگئے ہیں شہید غلام محمد ، شہید قندیل صباح دشتیا ری ،شہید ڈاکٹر منان، شہید بالاچ مری سنگت ثناء بلوچ یہ وہ رہنما ہیں کہ وقت سے پہلے ہم سے جدا ہوکر شہید ہوئے اور اس وقت بلوچ آزادی کی جدوجہداپنے پہلے مرحلوں میں تھااور ان دوستوں کی شہادت سے کچھ بھی ہوسکتا اور دشمن نے بھی یہی سوچ کربلوچ لیڈران اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کی کہ ان لوگوں کی شہادت اور اغواء نما گرفتاریوں سے تحریک آزادی ختم ہوجائیگا مگر جینے یا مرنے کے فلسفہ نے دشمن کے تمام خوابوں کو خاک میں ملا دیا اور یہ بات بھی یقینی ہے جتنے بھی بلوچ رہنما پاکستانی فوج کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ دشمن انہیں شہید کریگا مگر ہم وقت اور حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت بلوچ کے پاس کوئی تیسرر استہ موجود ہی نہیں ہے، اس وقت بلوچ مرے یا مارے، اور اس بات کو بھی بلوچ اپنے دماغ میں رکھ لیں کہ جدوجہد کروگے تو مروگے نہیں کروگے توبھی مروگے اور
میں یہ سمجھتا ہوں بلوچ اس وقت مر چکے ہواور جتنے بھی بلوچ آج جدوجہد کر رہے ہیں وہ زندہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں،آج بلوچ دشمن آپ کے ساحل وسائل کو بے دردی سے لوٹ مار کر رہا اس سے بھی بڑی بات آپ کی ثقافت اور قومیت کو ختم کرنے کی آخری کوشش کر رہا ،اگر آج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیکر جدوجہد کریگا تو چانس ہے کہ بلوچ ا جتماعی موت سے بچ جائے اگر جدوجہد نہیں کی تو اجتماعی موت سے بچ جانا ممکن نہیں ہے ۔
اکثر دوستوں میں یہی تاثر پایا جارہا ہے کہ چینی قونصلیٹ کے بعد استاد اسلم بلوچ پہ پاکستان اور چین آخری کوشش کر رہے تھے کہ استاد اسلم کو نشانہ بنایا جائے یہ بات میں پہلے بھی کرچکا ہوں جنگ کر وگے آپ دشمن کو مارو گے دشمن اپنی دفاع کے لئے آ پ کو ضرور نشانہ بنائیگا اگر استاد اسلم جنگ نہیں کرتا بلوچ قومی مفادات کو سامنے رکھ ان کے لئے جدوجہد نہیں کرتا یہ بات یقینی تھا کہ پاکستان انہیں کبھی بھی نشانہ نہیں بناتا ،یہ بات بھی یقینی تھا کہ استاد اسلم اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ دشمن آج نہیں کل اس کو نشانہ بنائے گا اگر استاد اسلم خاموشی اختیارکر لیتا یہ بھی بات یقینی تھا کہ دشمن انہیں کبھی بھی نشانہ نہیں بنا لیتا اگر انہیں دشمن نے نشانہ بنا یاصرف اور صرف اسی وجہ سے وہ جدوجہد کر رہا تھا جدوجہد میں شدت لارہا تھا ، جو دشمن کوہرگز قابل قبول نہیں تھا 

شب و روز جدوجہد اور سگارِ بلوچ رحیم مری – برزکوہی

متحرک و فعال اور سرگرم عمل رہنا، اپنے جدوجہد اور قومی ذمہ داریوں کے بابت متحرک کردار ادا کرنا، ایک انقلابی کارکن اور انقلابی لیڈر کی بنیادی اور اہم خصوصیت ہوتی ہیں۔ گوکہ انقلابی کارکن صرف خود شب و روذ متحرک و فعال اور سرگرم ہوتا ہے، مگر انقلابی لیڈر خود ہمیشہ متحرک و فعال اور سرگرم عمل ہوکر دوسروں کو بھی متحرک و فعال اور سرگرم عمل رکھتا ہے اور غیرانقلابی یا نیم انقلابی کارکنان و لیڈران کی واضح علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف برائے نام انقلابی اور نیم انقلابی ہوتے ہیں یعنی صرف دعووں کی حد تک، اس سے بڑھ کر وہ غیر متحرک اور غیر فعال ہوکر شب و روذ جدوجہد سے وابستہ ہوکر بھی کچھ کرنے اور ہاتھ و پاوں ہلانے کی کوشش بھی نہیں کرتے ہیں، بس وقت پاسی کرتے ہیں۔ ان کا رویہ ہمیشہ مایوسی، ناامیدی، بیزاری پر مبنی ہوکر تنقید برائے تنقید اور نقطہ چینی پر ہوتا ہے۔ ایسے رویے دشمن سے خطرناک اور تحریک میں موجود ہوکر تحریک کے خلاف دشمن کے کاموں کو آسان کرنے والے پرزے ہوتے ہیں اور ایسے نیم انقلابی اور غیر انقلابی عناصر کی کھسر پھسر والے رویے، قومی تحریکوں اور قومی پارٹیوں میں اپنے منفی اور گند آلود اثرات چھوڑ کر، تحریک کو دشمن سے زیادہ کھوکھلا اور کمزور کرتے ہیں۔
شہید سگارِ بلوچ کمانڈر رحیم مری ایک مکمل انقلابی گوریلا کمانڈر اور پختہ انقلابی جہدکار تھا، سگار رحیم جان کے بارے میں یہ بات مشہور تھا کہ اگر کوئی بچہ بھی، وہ بھی صرف بلوچ نہیں بلکہ کوئی بھی مظلوم سندھی اور پشتون تک شہید سگار کو فون کرتا، کسی بھی کام کا کہتا وہ انکار نہیں کرتا اور انتہائی ذمہ داری اور بہتر انداز میں وہ کام پورا کرتا تھا۔ میرے خیال میں یہ انقلابی عمل خود اپنے اندر قومیت، مظلومیت اور انسانیت کے جذبے سے سرشار خالص مخلصی، ایمانداری، نیک نیتی اور انقلابی پن تھا۔ اسی احساس کو لیکر آج جس طرح تمام جہدکاروں سمیت بلوچ قوم کو جنرل اسلم بلوچ اور دیگر دوستوں کی کمی محسوس ہوتا ہے اسی طرح شہید سگارِ بلوچ رحیم بلوچ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
قبائلی و خونی اور سماجی رشتوں اور دباو کو پیروں تلے روند کر نظریاتی و فکری اور حقیقی جنگ کی تپش میں کود کر اپنا جان نچھاور کرنے کے ساتھ اپنی ماں، بیوی بچوں اور بہن بھائیوں سمیت پورے خاندان کو نظریاتی و فکری بنیادوں پر تربیت کرنا، خود اس بات کا واضح ثبوت اور منطق ہے کہ نظریاتی و فکری رشتے دنیا کے تمام رشتوں سے اعلیٰ اور مقدس ہوتے ہیں۔
ہم شروع سے کہتے آرہے ہیں، اہمیت ہمیشہ لوگوں کی سطحی اور غیر سطحی آراء کی نہیں ہوتی ہے بلکہ فیصلوں کا ہوتا ہے۔ خاص طور پر تاریخ و وقت اور مورخ کے فیصلوں کا ہوتا ہے، آج ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ جنرل اسلم اور کمانڈر رحیم مری اور دیگر دوستوں کے حوالے سے آراء کیا تھے اور فیصلہ کیا ہوگیا؟ یہی فیصلہ اب تاریخی فیصلوں کے تاابد حصے ہوگئے۔
شہید رحیم مری اپنے بہتے ہوئے لہو کی تپش اور چھینٹوں سے، اپنے کردار و عمل کو تاریخی صفحات میں خود لکھ کر تاریخ میں اس طرح امر ہوگئے کہ اس کے مقابلے میں تمام منفی آراء اپنی موت خود مر کر شرمندہ ہوگئے۔
اسی علم و شعور، سوچ و اپروچ اور ادراک کو مدنظر رکھ کر ہم ہمیشہ تذبذب کا شکار نہیں ہوئے اور ہونگے بھی نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے بڑھ رہے ہیں، پختہ یقین اور ایمان کے ساتھ کیونکہ ہمیں یقین ہے لوگوں کی آراء وقتی اور سطحی ہونگے اصل فیصلہ تاریخ و مورخ اور وقت کا ہوگا۔
یہ بات پہلے بھی مکمل حقیقت اور مستند تھا لیکن آج جنرل اسلم اور شہید رحیم اور دیگر دوستوں کی عظیم قربانی انہیں مزید پختہ کرتے ہوئے اس پر حقیقت کا مہرثبت کردیا۔
جب بھی کسی جہدکار کا اسی یقین پر پورا عقیدہ ہو کہ اصل فیصلہ وقت، مورخ اور تاریخ کا ہوگا، پھر اس کا ٹوٹنا، بکھرنا، تذبذب کے شکار ہونے کی کیفیت میں مبتلا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر وہ تاریخ میں جنرل اسلم اور سگارِ بلوچ رحیم کے فہرست میں شمار ہوگا۔
وقت کی مکمل پابندی انتہائی یاداشت کے ساتھ مکمل توانا ہوکر اپنی کام کو ذمہ داری، رازداری اور ہنرمندی سے سرانجام دینا سگار رحیم کی بنیادی اور مشہور خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت تھی۔
کبھی بھی کسی بھی وقت کسی کو یہ شکایت و شکوے کا موقع ہی نہیں ملا تھا کہ رحیم آج وقت کی پابندی نہ کرتے ہوئے دیر کرچکا ہے یا رحیم کے زبان سے یہ لفظ کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ رحیم یہ کہہ دے کہ میں یہ کام بھول چکا ہوں، مجھے یاد نہیں آیا۔
یہ تمام رویے اور صفات، انقلابی رویوں کے ساتھ کسی بھی جدوجہد کی اپنے فکر و نظریئے کے ساتھ سچے کمٹمنٹ، مخلصی، ایمانداری، حب الوطنی اور قوم دوستی کا واضح ثبوت ہیں۔ جب ان خصوصیات کا فقدان ہو یا وجود ہی نہ ہو تو مکمل انقلابی ہونے پر تشکیک ہونا لازمی ہوتا ہے۔
نظریاتی و فکری دوستوں کی جسمانی جدائی کا درد، کرب و تکلیف اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، مگر دوستوں کی قربانیوں کے بدولت قومی تحریک اور قومی جنگ اپنے اندر ایک توانا قوت پیدا کرکے شدت اختیار کریگا، یہی شدت ہمیشہ تحریک کی کامیابی و کامرانی ہوگا۔ دنیا کی تحریکی تاریخ میں ہمیں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں، صرف مطالعے اور سمجھنے کی ضرورت ہے

среда, 2 января 2019 г.

صرف غیرت مند بلوچ ہی اس تحریک کے وارث ہیں – جنرل اسلم بلوچ

اس مختصر صوتی پیغام کو بی ایل اے میڈیا ونگ “بلوچ لبریشن وائس” نے اپنے آفیشل چینل ” ہکل” سے جاری کیا ہے
دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا رپورٹر کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی کے اہم کمانڈر اسلم بلوچ کا اپنے ساتھیوں کے نام ایک پیغام میڈیا میں جاری کیا گیا ہے۔ اس صوتی پیغام کو بلوچ لبریشن وائس کی جانب سے سوشل میڈیا میں اسلم بلوچ کے تصاویر کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔
اسلم بلوچ جسے بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے “جنرل” کا اعزازی خطاب دینے کے بعد بلوچ حلقوں میں شہید جنرل اسلم بلوچ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک حملے میں اپنے پانچ قریبی ساتھیوں سمیت شہید ہوئے تھے۔
پیغام میں جنرل اسلم بلوچ اپنے باتوں کا آغاز ان الفاظ سے کرتا ہے کہ تمام دوستوں کو پیغام دیتے رہو کہ حوصلے بالکل پست نہ کریں، یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری سوچ، حوصلہ کیا ہے، ہم چاہتے کیا ہے، ہم کس لئے  نکلے ہیں اور ہم کس کام سے آئے ہیں؟
ان کا مزید کہنا ہے کہ آج ہم نے یہ بار اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے، اپنے راستے پر چل رہے ہیں، اس رستے میں دکھ اور تکالیف بھی ہیں۔ اگر کوئی تھک جاتا ہے، گرجاتا ہے، کوئی اس بار کو کندھوں سے پھینک کر ڈرکر بھاگ جاتا ہے، کیا پھر ہم بھی ان کی طرح بن جائیں؟ اپنے کندھوں سے یہ بوجھ پھینک کر بھاگ جائیں؟ ہم جو تھکے نہیں ہیں کیا ہم بھی رک جائیں؟ نہیں میرے دوستوں اپنے نظریئے پر ثابت قدم رہنا ہے۔
جنرل سلم بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے جب اس کام کا آغاز کیا تو ہم گیارہ لوگ تھے، ہمیں اس وقت یقین نہیں تھا کہ ہم گیارہ سے بارہ، بیس یا چالیس ہونگے۔ پتہ نہیں تھا کہ کہاں سے لوگ آکر ہمارے ساتھ ہولیں گے، ہم نے تحریک بس یہی سوچ کر شروع کیا کہ ہمیں بس کام کرنا ہے، دشمن پر وار کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔ ہم نے تھوڑا کام کیا پھر کہیں سے ڈاکٹر اللہ نذر کھڑا ہوگیا، کہیں سے اکبر خان بگٹی تو کہیں سے کوئی اور بلوچ کھڑا ہوگیا۔ سب ساتھ ہوتے گئے، دشمن سے لڑتے رہے ہم ایک ساتھ بھی نہیں تھے لیکن سب کا رخ دشمن کی طرف تھا، لڑرہے تھے، اس طرح اتنی بڑی تحریک وجود میں آگیا۔ وہی کام ہمارے بڑوں کی وجہ سے کتنی بار ٹکڑوں میں بٹا لیکن پھر بھی یہاں غیرت مند اور با حیاء نوجوان ہیں جو میدان میں کھڑے رہے، دوستوں کے ساتھ ہمقدم رہے، شہید ہوئے، اپنا خون بہایا اور یہ ثابت کردیا کہ یہ تحریک کسی کی میراث نہیں یہ صرف غیرت مند بلوچوں کی میراث ہے۔ اگر کسی میں غیرت و حیاء ہے وہی اس تحریک کا وارث ہے، جو اس نظریئے پر کھڑا ہوگا وہی اس تحریک کو آگے لیجائے گا، انہی غیرت مندوں نے بلوچ قوم کے نام و عزت کو گرنے نہیں دیا، انہوں نے اپنا خون بہایا لیکن بلوچ پر بے غیرتی کا داغ لگنے نہیں دیا، قوم کا نام خراب ہونے نہیں دیا۔ آج ہمیں بھی اسی طرح ثابت قدم رہنا ہے، اگر کوئی اس ذمہ داری سے بھاگتا ہے، ڈرتا ہے، بے ایمان ہوجاتا ہے تو پھر وہ ہورہا ہے ہمیں نہیں ہونا ہے۔
پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ ہمیں دل سے دشمن کا خوف نکالنا ہے، ہمیں دل سے موت کا خوف بھی نکالنا ہے کیونکہ دشمن آپ کے خوف سے ختم نہیں ہوگا اور موت کے ڈر سے موت کسی کو معاف نہیں کرتا، موت اگر بندوق کے گولی سے نہیں آیا تو پھر کسی بیماری سے آجاتا ہے، چالیس سال کی عمر میں نہیں تو ساٹھ یا اسی سال کی عمر میں آ ہی جائے گی، مرنا تو ہے ہی پھر موت کے خوف سے ہم اپنا ایمان کیوں بیچ دیں۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھوں میں ہے، مرگ و زند آنے جانے والی چیزیں ہے۔ دکھ اور تکالیف تو ویسے ہی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ پہلے ہم اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے، تب بھی تو یہ دکھ اور تکالیف ہمارے اوپر آتے تھے، آج تو ہم بادشاہوں کی طرح ہیں، ہم آزاد ہیں، اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو سنبھال سکتے ہیں، ہمارے پاس ایک طاقت ہے، ہم آگے جاسکتے ہیں۔
جنرل اسلم بلوچ ساتھیوں کو تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بس ایک چیز کا خیال رکھنا ہے کہ ان تھکے ہوئے، بزدل اور بھاگے ہوئے لوگوں کا اثر ہمارے اوپر نا پڑے بلکہ ہمارے غیرت، ہمارے حیاء، ہمارے حوصلے اور ہمت، ہمارے جفاکشی کا اثر ان پر پڑے، وہ شرمندہ ہوجائیں۔ ہمیں، ہمارے دوستوں کو بلکہ ہر بلوچ کو اللہ پاک اس طرح بے غیرت ہونے سے بچائے، اپنے سوچ اور نظریئے پر ثابت قدم رہو، قوم کی جو ذمہ داری ہے آپ لوگوں نے اٹھایا ہوا ہے، وہ آپ کے ہاتھوں سے گرنے نا پائے، آپ کے قدموں میں لرزش نا آپائے، سوچ میں ایسی کمزوری نا آپائے کہ جو ذمہ داری ہم آسانی سے اٹھا سکتے ہیں ہم اس سے دستبردار ہوجائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑے منزل کے مسافتوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے کہ رستے میں سردی اور گرمی بھی پڑتی ہے، بارش بھی برستا ہے، صرف وہ مسافر منزل تک پہنچ پاتے ہیں جن کے قدم نہیں رکتے، جو تھکتے ، پلٹتے نہیں، جو آگے ہی بڑھتے رہتے ہیں، وہ پھر ایک نا ایک دن اپنے منزل پر پہنچ کر ہی ڈیرے ڈالتے ہیں۔ ہمیں اگے ہی بڑھنا ہے۔ بھائیوں! میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ میر ہزار خان بجارانی دو ہزار مریوں کے ساتھ سرکار کے سامنے سجدہ ریز ہوا، سرکار نے انہیں بندوق تھمایا، لیویز کی نوکریاں دیں، پھر بھی یہ تحریک نہیں رکا، بلوچی غیرت کا یہ سفر نہیں رکا، یہ آگے ہی بڑھتا جارہا ہے بلوچی غیرت کا یہ راستہ نہیں رکا، پھر بھی بلوچ اس راستے پر آتے رہے اور اپنا خون بہاتے رہے، اس تحریک کو زندہ رکھا گیا، اس آگ کو بجھنے نہیں دیا گیا، بس ہمیں اس آگ کو بجھنے نہیں دینا ہے۔
جنرل اسلم بلوچ پیغام کا اختتام ان باتوں سے کرتا ہے کہ خدا وہ دن نہیں لائے لیکن اگر ہم سب بھی چلے جائیں، یہ تحریک نہیں رکے گا، بلوچ نوجوان ہیں، بلوچوں کا غیرت زندہ ہے، بلوچوں کا حیاء زندہ ہے، یہ تحریک چلتا رہے گا۔ خدا ہمیں بس دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے اس بے غیرتی اور بے حیائی سے بچائے رکھے۔ اپنے حوصلے بلند رکھو، اپنی نگاہیں کام پر مرکوز کرو اور اپنے کام کو سمجھو اور اس تحریک کو آگے بڑھاو باقی ان چھوٹے موٹے چیزوں کی بالکل فکر ہی نہیں کرو۔