پاکستان سی پیک کو قابل عمل بنانے کیلئے بلوچ نسل کشی کررہاہے، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
( مقبوضہ بلوچستان: )بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ پاکستان بلوچ نسل کشی کے عمل کوتیز کرنے کے لئے کثیرالجہتی حکمت عملی اپناکردہشت گردی و ظلم وجبرکی شدت میں نئی اضافہ کررہاہے۔ اس وقت پاکستان کے دو ڈویژن ریگولر آرمی بلوچ قومی نسل کشی کے لئے سرگرم کئے جا چکے ہیں۔ بلوچ قوم کے خلاف گزشتہ سترہ سالوں سے جاری آپریشنوں میں پاکستان جنیوا کنونشن کے تمام جنگی قوائد و ضوابط کو پاؤں تلے روند رہاہے ۔ پاکستانی فوج کے آپریشنوں میں دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ شیرخواربچوں سے لے کر 80سالہ بزرگوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنارہاہے ۔پاکستانی فوج ، بلوچ خواتین کی گرفتاری اور انہیں ٹارچر سیلوں میں اذیت دینے کا عمل اعلا نیہ طور پر شروع چکاہے ۔ اگر مہذب ممالک اور اوام متحدہ نے اپنا آئینی کردار ادا نہیں کیا تو میرے خیال میں پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش میں بنگالی قوم پر ڈھائے گئے مظالم بلوچ قوم پر دہشت گردی کے سامنے ماند پڑجائیں گے ۔بلوچستان میں ریگولرآرمی ،ایف سی اورخفیہ اداروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ اورانسانیت کش قوتوں پرمشتمل ڈیتھ سکواڈزکی تشکیل کرکے انہیں بلوچ قوم کے قتل و غارت گری کا کھلی چوٹ دی گئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آپریشنوں کے تازہ لہر کو پورے بلوچستان میں پھیلا جارہاہے ۔ مشکے ،واشک اورآواران میں آپریشن جاری ہے جبکہ مکران کے اکثر علاقوں میں تازہ دم فوجی دستے اکھٹے کئے جارہے ہیں۔ ایک دو روز میں یہاں بھی ایک بڑی خونی آپریشن متوقع ہے۔ پاکستا ن چین کے اشتراک سے جاری استحصالی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اوربلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے اب اعلانیہ نسل کشی کررہاہے۔ اس کا واضح ثبوت کٹھ پتلی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کھلے عام نسل کشی کا اعلان ہے۔ عالمی اداروں کی اپنے فرائض سے غفلت نے پاکستا ن کو بلوچ قومی نسل کشی اورجنگی جرائم دُہرانے میں استثنیٰ دلایاہے جو انسانی تاریخ میں بلوچ کے ساتھ جاری مظالم پر ان اداروں اور مہذب دنیاکے خلاف ہمیشہ ایک قابل مواخذہ عمل کے طورپر یاد رکھا جائے گا ۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سی پیک منصوبے کوقابل عمل بنانے کے لئے پاکستان پہلے ہی ہزاروں افراد کو لاپتہ اور شہید کر چکی ہے۔ میں پہلے اس بارے میں شماریات دے چکا ہوں ۔ میڈیا بلیک آؤٹ اور پاکستانی مظالم میں چین کے ساتھ پاکستان کا بلوچستان کے بارے میں معاہدات کے بعد شدت لائی گئی۔ ان میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران نام نہاد ترقی کے نام پر چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) منصوبے کے معاہدے پر دستخط کے بعد تشدد میں انتہا درجے کی شدت لائی گئی اور ہزاروں لوگوں کو اُٹھاکر غائب کیا گیا اور سینکڑوں بستیاں جلائی گئیں ۔ ان میں اکثر سی پیک روٹ پر واقع تھے۔ اگست 2016 کو کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز نے کہا نیشنل ایکشن پلان کے تحت 13,575افراد کو بلوچستان سے ’گرفتار‘ کیاگیاہے۔ دسمبر 2015 میں سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے اعتراف کیا کہ اس سال 9,000 سے زائد مشکوک افراد کو ’گرفتار‘ کیا ہے۔ 2004 میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، جو نواب اکبر خان بگٹی قتل کیس میں نامزد مجرم بھی ہیں، نے 4000 بلوچوں کو ’’گرفتار‘‘ کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ قریبا 27000بنتے ہیں جن کا اعتراف ریاستی سطح پر ہوا ہے۔ مظالم کے ان دو دہائیوں میں ٹوٹل چالیس ہزار بلوچوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے اور سینکڑوں کو تشدد کے دوران شہید کرکے لاشیں جنگل، ویرانوں اور سڑکوں پر پھینکی گئی ہیں۔ یہ نسل کشی ہے۔سی پیک منصوبوں کی تکمیل اور قابل عمل بنانے کے لئے پاکستان لوگوں کو دربدر اور معاش کے تمام ذرائع سے محروم کرچکاہے۔ اسکے متاثرین انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔کئی دیگر استحصالی منصوبوں کی طرح اب پاکستان خاران اورواشک میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام شروع کررہاہے۔ اس کیلئے زمین ہموار کرنے کے لئے ان علاقوں میں فوجی قوت کا بے دریغ استعما ل روبہ عمل لارہاہے جس کا نتیجہ بلوچ قوم کی مزید تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا ۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ پاکستانی ریاستی دہشت گردی کے تازہ لہرکا متوقع الیکشن سے بھی گہری تعلق ہے ،کیونکہ 2013ء کے الیکشن انتہائی ناکامی سے دوچار ہوئے ۔یہ الیکشن پاکستان کے حق کے بجائے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک استصواب رائے ثابت ہوئے۔ بلوچ قوم نے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کرکے قومی آزادی کی تحریک کے کال پرلبیک کہا۔ پاکستان آئندہ انتخابات میں گزشتہ حشر سے بچنے کے لئے ہر اُس آوازکو ختم کرنے کی کوشش رہاہے جو بلوچ قومی تحریک سے وابستہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں واضح کرتا ہوں کہ پاکستان کو اس دہشت گردی میں نام نہاد قوم پرست نیشنل پارٹی کا عملی تعاون واشتراک حاصل ہے۔ پاکستان کے جنگی جرائم میں نیشنل پارٹی ہرسطح پر ملوث ہے۔ تاریخ کے کٹہرے میں پاکستان کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی کا وہی حشر ہوگا جو اس وقت بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کا ہورہاہے ۔ڈاکٹر مالک کاسوات طرز کا مشورہ اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اجتماعی قبروں کی برامدگی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ نیشنل پارٹی بھی بلوچ نسل کشی ،جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں برابر شریک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا روز بہ روز بڑھتی فوج کی تعداد اور دہشت گردی اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو بلوچ قوم کے سخت جان تحریک آزادی اور شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔مگر بلوچ قوم پاکستان کے تمام مظالم کا سامنا کرکے اپنی قومی تحریک آزادی کو منزل تک پہنچائے گااور اپنی حق آزادی سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا ۔اس تحریک کی آبیاری بلوچ قوم اپنے خون سے کر رہا ہے۔ یہ عمل ماضی کے قبضہ گیر، حملہ آوروں اور استحصالی قوتوں کی طرح پاکستان کو بھی اس سرزمین پر شکست سے دوچار کرے گا ۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو اس انسانی المیے پر اپنی فرائض کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام انسانی حقوق کے دعویدار عالمی اداروں اورمہذب ممالک کی خاموشی یہاں انسانی المیہ کو مزید سنگین تر بنادے گا ،جو یقیناعالم انسانیت اور عالمی اقدار کے لئے نیک شگون نہیں ہے ۔بیرونی میڈیا اور عالمی اداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ یہاں آکر بلوچ نسل کشی اور انسانی بحران کا جائزہ لیکر اس خوفناک تصویر کودنیا کے سامنے لائیں جو ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے جنم لے چکی ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سی پیک منصوبے کوقابل عمل بنانے کے لئے پاکستان پہلے ہی ہزاروں افراد کو لاپتہ اور شہید کر چکی ہے۔ میں پہلے اس بارے میں شماریات دے چکا ہوں ۔ میڈیا بلیک آؤٹ اور پاکستانی مظالم میں چین کے ساتھ پاکستان کا بلوچستان کے بارے میں معاہدات کے بعد شدت لائی گئی۔ ان میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران نام نہاد ترقی کے نام پر چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) منصوبے کے معاہدے پر دستخط کے بعد تشدد میں انتہا درجے کی شدت لائی گئی اور ہزاروں لوگوں کو اُٹھاکر غائب کیا گیا اور سینکڑوں بستیاں جلائی گئیں ۔ ان میں اکثر سی پیک روٹ پر واقع تھے۔ اگست 2016 کو کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز نے کہا نیشنل ایکشن پلان کے تحت 13,575افراد کو بلوچستان سے ’گرفتار‘ کیاگیاہے۔ دسمبر 2015 میں سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے اعتراف کیا کہ اس سال 9,000 سے زائد مشکوک افراد کو ’گرفتار‘ کیا ہے۔ 2004 میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، جو نواب اکبر خان بگٹی قتل کیس میں نامزد مجرم بھی ہیں، نے 4000 بلوچوں کو ’’گرفتار‘‘ کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ قریبا 27000بنتے ہیں جن کا اعتراف ریاستی سطح پر ہوا ہے۔ مظالم کے ان دو دہائیوں میں ٹوٹل چالیس ہزار بلوچوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے اور سینکڑوں کو تشدد کے دوران شہید کرکے لاشیں جنگل، ویرانوں اور سڑکوں پر پھینکی گئی ہیں۔ یہ نسل کشی ہے۔سی پیک منصوبوں کی تکمیل اور قابل عمل بنانے کے لئے پاکستان لوگوں کو دربدر اور معاش کے تمام ذرائع سے محروم کرچکاہے۔ اسکے متاثرین انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔کئی دیگر استحصالی منصوبوں کی طرح اب پاکستان خاران اورواشک میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام شروع کررہاہے۔ اس کیلئے زمین ہموار کرنے کے لئے ان علاقوں میں فوجی قوت کا بے دریغ استعما ل روبہ عمل لارہاہے جس کا نتیجہ بلوچ قوم کی مزید تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا ۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ پاکستانی ریاستی دہشت گردی کے تازہ لہرکا متوقع الیکشن سے بھی گہری تعلق ہے ،کیونکہ 2013ء کے الیکشن انتہائی ناکامی سے دوچار ہوئے ۔یہ الیکشن پاکستان کے حق کے بجائے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک استصواب رائے ثابت ہوئے۔ بلوچ قوم نے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کرکے قومی آزادی کی تحریک کے کال پرلبیک کہا۔ پاکستان آئندہ انتخابات میں گزشتہ حشر سے بچنے کے لئے ہر اُس آوازکو ختم کرنے کی کوشش رہاہے جو بلوچ قومی تحریک سے وابستہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں واضح کرتا ہوں کہ پاکستان کو اس دہشت گردی میں نام نہاد قوم پرست نیشنل پارٹی کا عملی تعاون واشتراک حاصل ہے۔ پاکستان کے جنگی جرائم میں نیشنل پارٹی ہرسطح پر ملوث ہے۔ تاریخ کے کٹہرے میں پاکستان کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی کا وہی حشر ہوگا جو اس وقت بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کا ہورہاہے ۔ڈاکٹر مالک کاسوات طرز کا مشورہ اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اجتماعی قبروں کی برامدگی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ نیشنل پارٹی بھی بلوچ نسل کشی ،جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں برابر شریک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا روز بہ روز بڑھتی فوج کی تعداد اور دہشت گردی اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو بلوچ قوم کے سخت جان تحریک آزادی اور شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔مگر بلوچ قوم پاکستان کے تمام مظالم کا سامنا کرکے اپنی قومی تحریک آزادی کو منزل تک پہنچائے گااور اپنی حق آزادی سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا ۔اس تحریک کی آبیاری بلوچ قوم اپنے خون سے کر رہا ہے۔ یہ عمل ماضی کے قبضہ گیر، حملہ آوروں اور استحصالی قوتوں کی طرح پاکستان کو بھی اس سرزمین پر شکست سے دوچار کرے گا ۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو اس انسانی المیے پر اپنی فرائض کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام انسانی حقوق کے دعویدار عالمی اداروں اورمہذب ممالک کی خاموشی یہاں انسانی المیہ کو مزید سنگین تر بنادے گا ،جو یقیناعالم انسانیت اور عالمی اقدار کے لئے نیک شگون نہیں ہے ۔بیرونی میڈیا اور عالمی اداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ یہاں آکر بلوچ نسل کشی اور انسانی بحران کا جائزہ لیکر اس خوفناک تصویر کودنیا کے سامنے لائیں جو ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے جنم لے چکی ہے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий