ذمہ دار ہائی کمان , بالاچ خان
بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے "ہائی کمان"
نے گزشتہ روز تنظیم کے دو اہم اراکین اسلم بلوچ اور بشیر زیب بلوچ کی معطلی کا اعلان کرکے انہیں ہائی کمان کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے سامنے جوابدہ ٹھہرایا ہے ، یہ چونکہ ایک تنظیم کا اندرونی معاملہ ہے اس لئے اسے تنظیمی نظم و ضبط کا عام معاملہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر "ہائی کمان" نے اپنے طویل بیان میں بلوچ تحریک سے منسلک ایسے نکات اٹھائے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں ہیں ۔
یہ بیان کسی عام کارکن کا نہیں بلکہ ایک موثر مزاحمتی تنظیم کے "ہائی کمان" کے خیالات ہیں جس کے بلوچ تحریک پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ، ان خیالات کا تنقیدی جائزہ لینا اشد ضروری ہے ۔
بی ایل اے کے "ہائی کمان" نے مسلسل دہرایا کہ بی ایل اے ایک ذمہ دار بلوچ ادارہ ہے جس کے کندھوں پر بلوچ تحریک آزادی کی بھاری ذمہ داری دھری ہے ، ایک لمحے کے لئے "ہائی کمان" کے اس دعوی کو درست تسلیم کرلیتے ہیں ، اب سوال اٹھتا ہے کیا ایک ذمہ دار ادارے کو پاکستانی پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانا چاہیے؟ کیا ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے کہ میڈیا پر اعلان کیا جائے تنظیم کا فلاں رکن بھارت گیا ہے اور اس امر پر اس سے جواب طلبی کی جائے گی؟ بالفرض تنظیمی پالیسی کے مطابق بھارت جانا درست نہیں یا کم از کم متعلقہ اتھارٹی سے پوچھے بنا جانے کی اجازت نہیں تب بھی اس کی تشہیر کو مجموعی قومی مفاد کے آئینے میں مستحسن قرار دینا ممکن نہیں ، اس میڈیائی واویلے سے صرف پاکستانی الزامات کو طاقت ملے گی اور یقیناً ملی بھی ہے ، یہ ذمہ داری کی کونسی قسم ہے؟
اسی طرح بلوچ مزاحمت کے دوسرے ادارے کو ببانگِ دہل ایرانی پراکسی قرار دینا نہ صرف غیر ذمہ داری کی انتہا ہے بلکہ بلوچ تحریک سے جڑے افراد کی جدوجہد کی توہین بھی ہے ، یہ وہی ذمہ داری ہے جس کا مظاہرہ پاکستانی کارپوریٹ میڈیا ، پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ اور اس کے ہمنوا کاروباری و مافیا سیاسی ٹولہ تواتر سے کرتا آرہا ہے کہ بلوچ تحریک آزادی عوامی جذبات، خواہشات اور نوآبادیاتی تضادات کا راست ردعمل نہیں بلکہ چند پاکستان مخالف ممالک کی سازش ہے ، اگر ہائی کمان کے مطابق ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے تو بتایا جائے غیر ذمہ داری کی تعریف کیا ہے اور اس کی شناخت کا طریقہ کونسا ہے؟
پاکستان کے عسکری ادارے اور ان کا بغل بچہ کارپوریٹ میڈیا ہمیشہ سے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کم اہم اور غیر عوامی قرار دلوانے کے لئے اسے کبھی عراقی سازش، کبھی بھارتی، افغانی و ایرانی سازش کہتا آرہا ہے ایسے میں ایک "ذمہ دار" تنظیم کے "ذمہ دار ہائی کمان" کا ان کی ہاں میں ہاں ملانا بلوچ قومی مفادات سے براہِ راست متصادم ہے ۔
بلوچ اور بلوچستان کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کا رویہ اوائل سے ہی غیر پیشہ ورانہ اور معاندانہ ہے ، متعدد دفعہ میڈیا سے اس معاملے پر احتجاج بھی کیا گیا مگر ان کے مالیاتی مفادات اور ریٹنگ پالیسی چونکہ فوج، پنجاب اور شہری سندھ سے منسلک ہیں اس لئے انہوں نے کبھی بھی بلوچ تحفظات کو سنجیدگی سے نہ لیا ، حتی کہ بلوچستان میں صحافیوں کے قتلِ عام پر بھی پاکستان کے نام نہاد آزاد میڈیا نے ایک حرف بھی نہ لکھا نہ نشر کیا ، اس قتلِ عام کو ہمیشہ نامعلوم اور ڈھکے چھپے لفظوں میں بلوچ مسلح تنظیموں کے کھاتے میں ڈالا ، یک طرفہ رپورٹنگ اور مخصوص بیانیے کی وجہ سے رائے عامہ کو اس قدر گمراہ کیا جاچکا ہے اور غلط شعور کو اس درجہ وسیع کیا جاچکا ہے کہ پاکستان کے "پڑھے لکھے" افراد بھی بلوچ قومی مسئلے کو سرداروں کی ہٹ دھرمی اور بھارتی سازشوں سے تعبیر کرتے ہیں ،
پاکستان کے اس منفی اور بلیک پروپیگنڈے کو کیسے روکا جائے؟ ایک طریقہ پرامن احتجاج ہے جس کے دیہات نشین اور شہروں سے محروم بلوچ کسی بھی صورت متحمل نہیں ہوسکتے ، اگر بالفرض چند افراد کراچی جاکر پاکستانی میڈیا ہاوسز کے سامنے احتجاج ریکارڈ بھی کردیں تو ان کی صحیح سلامت واپسی کی ضمانت کون دے گا؟ دوسرا نکتہ بلکہ اہم ترین نکتہ آیا کارپوریٹ میڈیا کے مالیاتی مفادات کے تناظر میں بلوچستان جیسے کم منافع بخش خطے کے احتجاج کو کوئی نوٹس بھی کرے گا؟ اس کا سیدھا جواب یہی ہے کہ نہیں ، یقیناً بلوچستان میں میڈیا کا مکمل بلیک آؤٹ بہترین قدم نہیں مگر اس سے بہتر کوئی راستہ بھی نہیں ہے ، اگر ہے تو "ذمہ دار ہائی کمان" کو اس کی نشاندہی کرنی چاہیے تھی ،
"ذمہ دار" تنظیم کے "ذمہ دار ہائی کمان" نے زمینی حقائق کو پامال کرکے جاری میڈیا بائیکاٹ کے وسیع پسِ منظر کو نظر انداز کرکے اور ساتھ میں یہ الزام بھی لٹکا دیا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ بلوچ صحافیوں پر ظلم کررہی ہے ، دستیاب معلومات اور زمینی حقائق اس الزام کو ریت کا گھروندا ثابت کرتے ہیں ،
دوسری جانب صحافیوں کو نشانہ بنانے کا عمل "ذمہ دار تنظیم" کا طرہِ امتیاز رہا ہے ، روزنامہ جنگ کے صحافی مجاہد چشتی سمیت متعدد صحافی بی ایل اے کی بندوق سے قتل ہوتے رہے ہیں اور بی ایل اے کے مطابق یہ افراد صحافت کے بھیس میں بلوچ مفادات کے خلاف کام کررہے تھے جیسے علی کھرل اور محمود آفریدی وغیرہ ، اسی طرح بی بی سی کوئٹہ کے نمائندے کو دھمکیاں دینا بھی ریکارڈ پر ہے ،
"ذمہ دار تنظیم" کی ان تمام صحافت مخالف کارروائیوں کو عوام نے جنگی ضروریات کا حصہ سمجھ کر سندِ قبولیت بخشا اور مزکورہ صحافیوں کے قتل و دھمکیوں کے حوالے سے کبھی کوئی مخالفانہ آواز بھی نہیں ابھری ، آج جب بلوچ احتجاج کو بہرے کانوں تک پہنچانے کے لئے بائیکاٹ پالیسی اپنائی گئی ہے تو "ذمہ دار تنظیم" کے "ذمہ دار ہائی کمان" کو اپنی "ذمہ داری" یاد آگئی ، کہیں ایسا تو نہیں "ہائی کمان" مخالفت برائے مخالفت کو "ذمہ داری" سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں؟
"ذمہ دار ہائی کمان" کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ قومی آزادی کی جنگ میں باتونی پن، احمقانہ تاویلات اور فضول کی لن ترانی سے تحریک کو فائدہ ایک طرف الٹا نقصان ہوگا ، "ہائی کمان" کو زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور باتونی پن سے گریز کرکے حقیقی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،ساحل کے ریت پر لکیریں کھینچنا "ذمہ داری" نہیں حماقت ہے اور اس قسم کی حماقتوں کی بلوچ جنگِ آزادی میں کوئی گنجائش نہیں ۔
نے گزشتہ روز تنظیم کے دو اہم اراکین اسلم بلوچ اور بشیر زیب بلوچ کی معطلی کا اعلان کرکے انہیں ہائی کمان کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے سامنے جوابدہ ٹھہرایا ہے ، یہ چونکہ ایک تنظیم کا اندرونی معاملہ ہے اس لئے اسے تنظیمی نظم و ضبط کا عام معاملہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر "ہائی کمان" نے اپنے طویل بیان میں بلوچ تحریک سے منسلک ایسے نکات اٹھائے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں ہیں ۔
یہ بیان کسی عام کارکن کا نہیں بلکہ ایک موثر مزاحمتی تنظیم کے "ہائی کمان" کے خیالات ہیں جس کے بلوچ تحریک پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ، ان خیالات کا تنقیدی جائزہ لینا اشد ضروری ہے ۔
بی ایل اے کے "ہائی کمان" نے مسلسل دہرایا کہ بی ایل اے ایک ذمہ دار بلوچ ادارہ ہے جس کے کندھوں پر بلوچ تحریک آزادی کی بھاری ذمہ داری دھری ہے ، ایک لمحے کے لئے "ہائی کمان" کے اس دعوی کو درست تسلیم کرلیتے ہیں ، اب سوال اٹھتا ہے کیا ایک ذمہ دار ادارے کو پاکستانی پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانا چاہیے؟ کیا ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے کہ میڈیا پر اعلان کیا جائے تنظیم کا فلاں رکن بھارت گیا ہے اور اس امر پر اس سے جواب طلبی کی جائے گی؟ بالفرض تنظیمی پالیسی کے مطابق بھارت جانا درست نہیں یا کم از کم متعلقہ اتھارٹی سے پوچھے بنا جانے کی اجازت نہیں تب بھی اس کی تشہیر کو مجموعی قومی مفاد کے آئینے میں مستحسن قرار دینا ممکن نہیں ، اس میڈیائی واویلے سے صرف پاکستانی الزامات کو طاقت ملے گی اور یقیناً ملی بھی ہے ، یہ ذمہ داری کی کونسی قسم ہے؟
اسی طرح بلوچ مزاحمت کے دوسرے ادارے کو ببانگِ دہل ایرانی پراکسی قرار دینا نہ صرف غیر ذمہ داری کی انتہا ہے بلکہ بلوچ تحریک سے جڑے افراد کی جدوجہد کی توہین بھی ہے ، یہ وہی ذمہ داری ہے جس کا مظاہرہ پاکستانی کارپوریٹ میڈیا ، پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ اور اس کے ہمنوا کاروباری و مافیا سیاسی ٹولہ تواتر سے کرتا آرہا ہے کہ بلوچ تحریک آزادی عوامی جذبات، خواہشات اور نوآبادیاتی تضادات کا راست ردعمل نہیں بلکہ چند پاکستان مخالف ممالک کی سازش ہے ، اگر ہائی کمان کے مطابق ذمہ داری کا تقاضا یہی ہے تو بتایا جائے غیر ذمہ داری کی تعریف کیا ہے اور اس کی شناخت کا طریقہ کونسا ہے؟
پاکستان کے عسکری ادارے اور ان کا بغل بچہ کارپوریٹ میڈیا ہمیشہ سے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کم اہم اور غیر عوامی قرار دلوانے کے لئے اسے کبھی عراقی سازش، کبھی بھارتی، افغانی و ایرانی سازش کہتا آرہا ہے ایسے میں ایک "ذمہ دار" تنظیم کے "ذمہ دار ہائی کمان" کا ان کی ہاں میں ہاں ملانا بلوچ قومی مفادات سے براہِ راست متصادم ہے ۔
بلوچ اور بلوچستان کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کا رویہ اوائل سے ہی غیر پیشہ ورانہ اور معاندانہ ہے ، متعدد دفعہ میڈیا سے اس معاملے پر احتجاج بھی کیا گیا مگر ان کے مالیاتی مفادات اور ریٹنگ پالیسی چونکہ فوج، پنجاب اور شہری سندھ سے منسلک ہیں اس لئے انہوں نے کبھی بھی بلوچ تحفظات کو سنجیدگی سے نہ لیا ، حتی کہ بلوچستان میں صحافیوں کے قتلِ عام پر بھی پاکستان کے نام نہاد آزاد میڈیا نے ایک حرف بھی نہ لکھا نہ نشر کیا ، اس قتلِ عام کو ہمیشہ نامعلوم اور ڈھکے چھپے لفظوں میں بلوچ مسلح تنظیموں کے کھاتے میں ڈالا ، یک طرفہ رپورٹنگ اور مخصوص بیانیے کی وجہ سے رائے عامہ کو اس قدر گمراہ کیا جاچکا ہے اور غلط شعور کو اس درجہ وسیع کیا جاچکا ہے کہ پاکستان کے "پڑھے لکھے" افراد بھی بلوچ قومی مسئلے کو سرداروں کی ہٹ دھرمی اور بھارتی سازشوں سے تعبیر کرتے ہیں ،
پاکستان کے اس منفی اور بلیک پروپیگنڈے کو کیسے روکا جائے؟ ایک طریقہ پرامن احتجاج ہے جس کے دیہات نشین اور شہروں سے محروم بلوچ کسی بھی صورت متحمل نہیں ہوسکتے ، اگر بالفرض چند افراد کراچی جاکر پاکستانی میڈیا ہاوسز کے سامنے احتجاج ریکارڈ بھی کردیں تو ان کی صحیح سلامت واپسی کی ضمانت کون دے گا؟ دوسرا نکتہ بلکہ اہم ترین نکتہ آیا کارپوریٹ میڈیا کے مالیاتی مفادات کے تناظر میں بلوچستان جیسے کم منافع بخش خطے کے احتجاج کو کوئی نوٹس بھی کرے گا؟ اس کا سیدھا جواب یہی ہے کہ نہیں ، یقیناً بلوچستان میں میڈیا کا مکمل بلیک آؤٹ بہترین قدم نہیں مگر اس سے بہتر کوئی راستہ بھی نہیں ہے ، اگر ہے تو "ذمہ دار ہائی کمان" کو اس کی نشاندہی کرنی چاہیے تھی ،
"ذمہ دار" تنظیم کے "ذمہ دار ہائی کمان" نے زمینی حقائق کو پامال کرکے جاری میڈیا بائیکاٹ کے وسیع پسِ منظر کو نظر انداز کرکے اور ساتھ میں یہ الزام بھی لٹکا دیا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ بلوچ صحافیوں پر ظلم کررہی ہے ، دستیاب معلومات اور زمینی حقائق اس الزام کو ریت کا گھروندا ثابت کرتے ہیں ،
دوسری جانب صحافیوں کو نشانہ بنانے کا عمل "ذمہ دار تنظیم" کا طرہِ امتیاز رہا ہے ، روزنامہ جنگ کے صحافی مجاہد چشتی سمیت متعدد صحافی بی ایل اے کی بندوق سے قتل ہوتے رہے ہیں اور بی ایل اے کے مطابق یہ افراد صحافت کے بھیس میں بلوچ مفادات کے خلاف کام کررہے تھے جیسے علی کھرل اور محمود آفریدی وغیرہ ، اسی طرح بی بی سی کوئٹہ کے نمائندے کو دھمکیاں دینا بھی ریکارڈ پر ہے ،
"ذمہ دار تنظیم" کی ان تمام صحافت مخالف کارروائیوں کو عوام نے جنگی ضروریات کا حصہ سمجھ کر سندِ قبولیت بخشا اور مزکورہ صحافیوں کے قتل و دھمکیوں کے حوالے سے کبھی کوئی مخالفانہ آواز بھی نہیں ابھری ، آج جب بلوچ احتجاج کو بہرے کانوں تک پہنچانے کے لئے بائیکاٹ پالیسی اپنائی گئی ہے تو "ذمہ دار تنظیم" کے "ذمہ دار ہائی کمان" کو اپنی "ذمہ داری" یاد آگئی ، کہیں ایسا تو نہیں "ہائی کمان" مخالفت برائے مخالفت کو "ذمہ داری" سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں؟
"ذمہ دار ہائی کمان" کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ قومی آزادی کی جنگ میں باتونی پن، احمقانہ تاویلات اور فضول کی لن ترانی سے تحریک کو فائدہ ایک طرف الٹا نقصان ہوگا ، "ہائی کمان" کو زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور باتونی پن سے گریز کرکے حقیقی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،ساحل کے ریت پر لکیریں کھینچنا "ذمہ داری" نہیں حماقت ہے اور اس قسم کی حماقتوں کی بلوچ جنگِ آزادی میں کوئی گنجائش نہیں ۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий