آزادی کا متوالہ شہید حکیم بلوچ
مہراب مہر
آزادی کے کاروان کے شروعاتی دنوں کے کچھ عرصے بعد تحریک کی آواز گھر گھر تک پہنچ چکی تھی سرفیس سیاست مکمل طور بلوچ مزاحمتی تحریک کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ ڈاکٹر اللہ نظر علیحدہ بی ایس او لیکر آزادی کے لیے آواز بلند کرتے رہے شہید غلام محمد اس وقت کے بی این ایم کے اندر سوچ آزادی کے لیے کام کرتے رہے ہر طرف سیاسی بحث مباحثوں کا بازار گرم تھا جو آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی تگ و دو میں تھے انھیں بی این پی و بی این ایم حئی پاگل و دیوانے کہتے رہے ۔اور وہ دیوانے وطن کے عشق میں سرگرداں آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے جو لوگ مضبوط فکر کے مالک ہوتے ہیں ان پر ایسی باتوں کا اثر نہیں ہوتا۔ اور وہ مزاحمتی سوچ کے راہ پر مضبوطی کے ساتھ گامزن رہے۔اور خلوص کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے کھٹن حالات کا مقابلہ بلند حوصلوں کے ساتھ کرتے رہے۔اور حقیقت و سچائی جتنے پردوں میں روپوش ہووہ کھبی بھی چھپ نہیں سکتی ایک نہ ایک دن قوم کے سامنے آشکار ہو گی۔اور آزادی کے متوالے اپنے فکر پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے اورقوم پرستی کے آڑ میں چھپے ففتھ کالمسٹوں کی حقیقت قوم کے سامنے آشکار کرتے رہے اور آہستہ آہستہ اپنے کاروان کو بڑھاتے رہے۔ نوجوانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ بی ایس او کی کوکھ میں پرورش پانے کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر کی قیادت میں آزادی کے سفر پر نکل پڑے۔ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ مزاحمتی تحریک کی حمایت کو لیکر علحیدہ بی ایس او کے قیام کو عمل میں لے آئے۔اس وقت بی ایس او کے کاروان میں ظہور گل بلوچ و مالک بلوچ ڈاکٹر اللہ نظر کے قریب رہے اور اسطرح اسن سرپھرے نوجوانوں میں شہید حکیم بلوچ شہید سعید دیوار شہید اشرف بلوچ شہید رعبدالرسول بنگلزئی سمیت بہت سے دیگر کارکنان بھی شامل تھے۔ خیر مالک بلوچ جیل جانے کے بعد خاموشی اختیار کی۔ لیکن باقی ساتھی اپنی شہادت تک جہد آزادی سے جڑے رہے ظہور گل بلوچ آج بھی اپنے فکری ساتھیوں کے ساتھ ہم قدم ہے اس طرح یہ چھوٹا گروہ مضبوط ہوتا رہا ان ساتھیوں میں ہر ایک اپنی بساط کے مطابق مسلح و غیر مسلح محاذ پر وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔اوراپنے مخلصی و صلاحیتوں کی بدولت ایک دوسرے سے دو قدم آگے تھے۔لیکن ایک ساتھ تھے ایک جسم کی مانند۔ اس وقت مزاحمتی تحریک کی زبان بنکر سرفیس سیاست میں مخلصی کے ساتھ اپنا نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ ان ساتھیوں کی کوششوں کی وجہ سے دیگر بہت سے ساتھی جہد آزادی کے کاروان میں شامل ہوتے گئے ان میں سے کچھ شہادت کے رتبے تک پہنچے کچھ آج بھی تاریک راستوں میںآزادی کا چراغ لیے دوڑ رہے ہیں شہید ساتھیوں میں خلوص قربانی بے لوث جذبہ کی بنیاد پر ہر ایک کی اپنی علیحدہ پہچان ہے ان شہید ساتھیوں میں شہید حکیم بلوچ ایک علیحدہ کردار کے مالک تھے قریبا یہ سارے گم گو تھے لیکن حکیم ان سے کچھ زیادہ ہی کم گو تھا شہید حکیم سے کئی بار ملاقاتیں ہو چکی تھی وہ ایک بالکل منفرد و علیحدہ شخصیت کے مالک تھے حیران کن حد تک وہ خاموش رہتا تھا ۔اور دیگر کو والیانہ انداز میں غور سے سنتا تھا ۔ ویسے بھی جو وسیع انظر ہوتے ہیں وہ سنتے ہیں پڑھتے ہیں اور بہت ہی کم بولتے ہیں جب وہ بولتے ہیں تو تاریک راستے روشنی کا سیلاب اپنی دامن میں سمو لیتے ہیں۔وہ اپنی خاموش طبعیت کے ساتھ خیالوں میں گم سم سیاسی اتار چڑھاؤ سیاسی چالبازیوں سے کوسوں دور وطن کے پہاڑوں کی خوشبو سونگ رہے تھے وہ بس ایک ہی چیز چاہتے تھے کہ ہم آزاد ہوں اور آزادی کے لیے اس نے اپنے دن رات ایک کردی تھی ۔اس کے نظر میں ہر بلوچ قابل احترام تھا ہر بلوچ سے یہی امید رکھتا تھا کہ وہ آزادی کے سفر میں ہمارا ہمنوا بنے گا اس وجہ سے اس نے کچھ ایسے اخلاقی اقدار بنائے تھے جن پر خود کاربند رہتا کسی دوست کی تکلیف سے لیکر مسئلے مسائل تک ہر وقت حاضر رہتا کسی بھی بڑے سے بڑے مسئلے پر وہ اپنے جذبات پر قابو رکھتا تھا بی ایس او کے زونل و سینٹرل کمیٹی ممبر ہونے کے ناتھے ہاسٹل کے مسائل سے لیکر دیگر تنظیموں کے ساتھ بڑے سے بڑے مسائل کو جنگ کی نوعیت تک پہنچنے سے روکے رکا۔ کیونکہ وہ اندرونی جھگڑوں کو قومی تباہی سمجھتے تھے اپنی دور اندیشی ووسیع النظر ہونے کی وجہ سے وہ تمام مسائل کو صبر و برداشت کے ساتھ حل کرتے۔ وہ اس وقت سے لیکر اپنی شہادت کے وقت تک بلوچ جہد میں آپسی جھگڑوں کو قومی تباہی کہتے رہے اس کی مثال اسکی اپنی ذات ہے جب بی ایس او کے دور سیاست میں بی ایس او امان اللہ کے ساتھیوں نے ہاسٹل کے کمرے کے مسئلے پر ڈیرہ مراد جمالی سے تعلق رکھنے والے طلبا کو پیٹھنے کی غرض سے آئے تھے اس وقت شہید حکیم بلوچ بی ایس او آزاد پولی ٹیکنیک کالج میں یونٹ سیکرٹری تھے جب شہید حکیم بلوچ کو پتہ چلا کہ بی ایس او امان کے ساتھی لڑنے جھگڑنے آ رہے ہیں تو انھوں نے اپنے قومی فرض کے تحت اس چھوٹے مسئلے پر انھیں روکنے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے لیکن بی ایس او امان والوں نے اس طلبا کے بدلے شہید حکیم بلوچ کے ہاتھ پاؤں توڑ کر چلے گئے پھر بی ایس او آزاد و امان کے بیچ بدلے کی آگ پنپھنے لگی لیکن شہید حکیم جس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ چکے تھے اسکے سرپر گہری چھوٹ آئیں تھی اس نے اپنے ساتھیوں کو بدلہ لینے سے روکے رکھا اور خود تین چار مہینے تک بستر پر رہے اور اپنے دوستوں کو سمجھاتے رہے کہ آپسی چپقلش و اندرونی جھگڑے ہمیں آزادی کے منزل سے دور لے جائیں اور وہ بد ضد رہے اور اپنے تنظیم کے ساتھیوں کو بدلہ لینے سے روکنے میں کامیاب ہوئے اسکی ہر کامیابی اسکے جان کو نقصان دینے کا سبب بنی وہ خود نقصان برداشت کر سکتے تھے لیکن قومی حوالے سے کسی بھی نقصان کو برداشت کرنے اس میں سکت نہ تھی۔ اسی وجہ سے وہ ہر قومی مسئلے کا حل مل بیٹھ کر بات چیت سے کرنے کے حامی تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بلوچ اپنے اندرونی مسائل میں الجھ جائیں اسی سوچ کے تحت وہ ہر قومی و اجتماعی فکر کو اپنے سینے میں قید کر کے چلتے رہے اور یہی ایسے جہد کاروں کی خاصیت ہے اور حقیقی جہد کار اجتماعی مفاد کے لیے خود کو قربان کرتے ہیں اور شہید حکیم بھی ایسے ہی تھے اس نے اپنے تمام خاندانی رشتوں کو قومی اجتماعی مفاد کے لیے قربان کر چکے تھے اسکی سنگتی میں رہنے والے دوست شہید کریم دہوار شہیداشرف بلوچ جو کہ اپنی شہادت تک شہید حکیم کے فلسفے پر گامزن رہے جب شہید حکیم سے پوچھا گیا کہ اب بی ایس او امان کے ساتھ کیا رویہ رکھا جائے بقول ایک دوست کے انھوں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں انھیں میڑھ مرکہ کرنے کی ضرورت نہیں میں خود انکے پاس جاؤں گا بلے غلطی انکی ہو وہ ہمارے ناداں بھائی ہیں ہم انھیں ضرور ایک دن صحیح راستے پر لے آئیں گے اور اسکی یہ کوشش بھی کامیاب ہوئی۔ اور بی ایس او کے دیگر ساتھی شہید حکیم کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ شہید جیسے کردار ہی جذبہ آزادی کو لوگوں کے دلوں میں بیدار کرتے رہے ۔اور وہ چھوٹا کاروان بڑھتا گیا۔شہید حکیم جیسے ہزاروں لوگوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج جہد آزادی اپنی منزلیں طے کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچی ہے
وہ محنتی ساتھی تھے وہ ہر کام ایمانداری و مخلصی کے ساتھ کرتے تھے۔ وہ بردبار و شریف انسان تھے وہ بلوچ جہد آزادی میں اپنے کردار اخلاق محنت وطن دوستی کا اعلی نمونہ تھے ۔وہ شروع سے ڈاکٹر اللہ نظر سے قریب رہے سرفیس پالیٹکس میں انھوں نے سیاسی اتار چڑھاؤ کو سمجھ کر بھی نا سمجھ رہے کیونکہ وہ سیاسی تب و مزاج سے کوسوں دور اپنی دن میں دھرتی ماتا کی لوری سنتے رہے وہ جانتے تھے کہ جو آج نہیں سمجھتے وہ کل سمجھ پائیں گے اسی کردار کے تحت وہ ہر اس شخص کو تحریک میں لانے کی کوشش کرتے رہے جو کسی بھی بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسکی نظر میں ہر بلوچ ہماری طرح مخلص و ایماندار ہے اسے قوم سے محبت ہے اس بنا پر وہ دن رات ایک کر کے بی ایم سی ڈگری و پولی ٹیکنیک کے گرد چکر لگاتے رہے کھبی کسی دوست سے مل کر اسے آزادی کی درس دیتے رہے تو کھبی کسی اور کو۔ اسی ادا کے ساتھ وہ اپنے بنائے ہوئے اخلاقی و سیاسی اصولوں کے تحت چلتے رہے وہ سب سے یکتا شخصیت کے مالک تھے مکران سے لیکر سوراب و شال تک ہر مزاحمت کار کے لیے اسکے دروازے کھلے تھے جہاں پناہ نہ ملے شہید حکیم کو بلا کر پناہ کا مسئلہ کرتے وہ اپنی انوکھے شخصیت کے ساتھ دوستوں سے ہم قدم رہے ہر سیاسی مسلئے پر اس کا زاویہ مختلف تھا وہ اندرونی خلفشار و تضادات کو تحریک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے تھے وہ انتہائی آہستہ بولتے تھے غصہ سے کوسوں دور تھے جب وہ کسی سے ہمکلام ہوتے تو انتہائی شائستگی کے ساتھ اپنی بات اسکے سامنے رکھتے وہ آہستہ آہستہ رک رک کر بولتے تھے اور اس میں اپنی بات سمجھانے کی کمال کی خوبی تھی شہید حکیم جسے بہول کے نام سے جانا جاتا ہے وہ 2015 کو شور آئے تھے تاکہ دوستوں سے مل سکے اس وقت اندرونی اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے تنظیموں کے اندر دوریاں بڑھ چکے تھے لیکن شہید حکیم بلوچ اپنے بنائے گئے اخلاقی و سیاسی اصولوں کے تحت بی ایل اے کے کیمپ آتے ہیں دوستوں سے ملتے ہیں بحث مباحثہ ہوتا ہے لیکن اس کاجواب ہوتا ہے ڈاکٹر اللہ نظر و حیربیار کیسے ایک دوسرے کے خلاف ہو سکتے ہیں آپ جانتے ہو ان چھوٹے مسلوں کو بڑھاوے سے روکو۔ میں زیادہ نہیں جانتا یہ ہماری تباہی کے سبب ہونگے وہ سمجھتے تھے کہ سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں پھر کیوں اتنی دوری ہے وہ اس امیدکے ساتھ کیمپ سے چلے گئے تھے کہ تنظیموں کے بیچ وہ دوریاں ختم ہونگے اور وہ ایک دو دن کے بعد مکران کی طرف روانہ ہوتے ہیں کسی کو وہم و گمان ہی نہ تھا کہ یہ اسکی زندگی کا آخری سفر ہوگا وہ مکران میں اپنے تمام دوستوں سے ملتے ہیں انکے مرکزی کیمپ میں ہوتے ہیں وہاں بھی وہ یہی باتیں دہراتے ہیں وہ ڈاکٹر اللہ نظر کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور وہ ڈاکٹر اللہ نظر کے ہر دلعزیز دوست تھے کچھ وقت وہاں پر رہے کہ ایک دن اسکی شہادت کی خبر آئی کہ وہ دشمن سے مڈبھیڑ میں شہید ہوئے اس دن سرزمین اپنے ایک اور سپوت سے محروم ہوا جو کہ مادر وطن کی لاج رکھنے میں میدان جنگ مین اپنا کردار ادا کر رہے تھے اس دن کے بعد سے لیکر آج تک وادی مستونگ کی زینت اور بڑھ گئی ہے۔اور شہید حکیم اپنے دیگر ساتھیوں شہید رحمت شاہین شہید کریم دہوار شہید سہراب مری شہید عبدالرسول کے ساتھ گل مل گئے وہ مٹی کا حق ادا کر کے چلے گئے لیکن وطن اپنے ایک جانباز نڈر مخلص محنتی و ایماندارسپاہی سے محروم ہو گیا۔ لیکن اس کا کردار بلوچ تاریخ کے اوراق میں مخلص و ایماندار ساتھی کے طور پر یاد رکھے جائیں گے
وہ محنتی ساتھی تھے وہ ہر کام ایمانداری و مخلصی کے ساتھ کرتے تھے۔ وہ بردبار و شریف انسان تھے وہ بلوچ جہد آزادی میں اپنے کردار اخلاق محنت وطن دوستی کا اعلی نمونہ تھے ۔وہ شروع سے ڈاکٹر اللہ نظر سے قریب رہے سرفیس پالیٹکس میں انھوں نے سیاسی اتار چڑھاؤ کو سمجھ کر بھی نا سمجھ رہے کیونکہ وہ سیاسی تب و مزاج سے کوسوں دور اپنی دن میں دھرتی ماتا کی لوری سنتے رہے وہ جانتے تھے کہ جو آج نہیں سمجھتے وہ کل سمجھ پائیں گے اسی کردار کے تحت وہ ہر اس شخص کو تحریک میں لانے کی کوشش کرتے رہے جو کسی بھی بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسکی نظر میں ہر بلوچ ہماری طرح مخلص و ایماندار ہے اسے قوم سے محبت ہے اس بنا پر وہ دن رات ایک کر کے بی ایم سی ڈگری و پولی ٹیکنیک کے گرد چکر لگاتے رہے کھبی کسی دوست سے مل کر اسے آزادی کی درس دیتے رہے تو کھبی کسی اور کو۔ اسی ادا کے ساتھ وہ اپنے بنائے ہوئے اخلاقی و سیاسی اصولوں کے تحت چلتے رہے وہ سب سے یکتا شخصیت کے مالک تھے مکران سے لیکر سوراب و شال تک ہر مزاحمت کار کے لیے اسکے دروازے کھلے تھے جہاں پناہ نہ ملے شہید حکیم کو بلا کر پناہ کا مسئلہ کرتے وہ اپنی انوکھے شخصیت کے ساتھ دوستوں سے ہم قدم رہے ہر سیاسی مسلئے پر اس کا زاویہ مختلف تھا وہ اندرونی خلفشار و تضادات کو تحریک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے تھے وہ انتہائی آہستہ بولتے تھے غصہ سے کوسوں دور تھے جب وہ کسی سے ہمکلام ہوتے تو انتہائی شائستگی کے ساتھ اپنی بات اسکے سامنے رکھتے وہ آہستہ آہستہ رک رک کر بولتے تھے اور اس میں اپنی بات سمجھانے کی کمال کی خوبی تھی شہید حکیم جسے بہول کے نام سے جانا جاتا ہے وہ 2015 کو شور آئے تھے تاکہ دوستوں سے مل سکے اس وقت اندرونی اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے تنظیموں کے اندر دوریاں بڑھ چکے تھے لیکن شہید حکیم بلوچ اپنے بنائے گئے اخلاقی و سیاسی اصولوں کے تحت بی ایل اے کے کیمپ آتے ہیں دوستوں سے ملتے ہیں بحث مباحثہ ہوتا ہے لیکن اس کاجواب ہوتا ہے ڈاکٹر اللہ نظر و حیربیار کیسے ایک دوسرے کے خلاف ہو سکتے ہیں آپ جانتے ہو ان چھوٹے مسلوں کو بڑھاوے سے روکو۔ میں زیادہ نہیں جانتا یہ ہماری تباہی کے سبب ہونگے وہ سمجھتے تھے کہ سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں پھر کیوں اتنی دوری ہے وہ اس امیدکے ساتھ کیمپ سے چلے گئے تھے کہ تنظیموں کے بیچ وہ دوریاں ختم ہونگے اور وہ ایک دو دن کے بعد مکران کی طرف روانہ ہوتے ہیں کسی کو وہم و گمان ہی نہ تھا کہ یہ اسکی زندگی کا آخری سفر ہوگا وہ مکران میں اپنے تمام دوستوں سے ملتے ہیں انکے مرکزی کیمپ میں ہوتے ہیں وہاں بھی وہ یہی باتیں دہراتے ہیں وہ ڈاکٹر اللہ نظر کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور وہ ڈاکٹر اللہ نظر کے ہر دلعزیز دوست تھے کچھ وقت وہاں پر رہے کہ ایک دن اسکی شہادت کی خبر آئی کہ وہ دشمن سے مڈبھیڑ میں شہید ہوئے اس دن سرزمین اپنے ایک اور سپوت سے محروم ہوا جو کہ مادر وطن کی لاج رکھنے میں میدان جنگ مین اپنا کردار ادا کر رہے تھے اس دن کے بعد سے لیکر آج تک وادی مستونگ کی زینت اور بڑھ گئی ہے۔اور شہید حکیم اپنے دیگر ساتھیوں شہید رحمت شاہین شہید کریم دہوار شہید سہراب مری شہید عبدالرسول کے ساتھ گل مل گئے وہ مٹی کا حق ادا کر کے چلے گئے لیکن وطن اپنے ایک جانباز نڈر مخلص محنتی و ایماندارسپاہی سے محروم ہو گیا۔ لیکن اس کا کردار بلوچ تاریخ کے اوراق میں مخلص و ایماندار ساتھی کے طور پر یاد رکھے جائیں گے
Комментариев нет:
Отправить комментарий