شہید طارق کریم بلوچ
مہراب مہر
11 مئی 2011 کو ایک لاش کوئٹہ سریاب کے علاقے سے ملی لاش ناقابل شناخت حد تک مسخ کی گئی تھی لیکن کوئی بھی لاش جتنی ہی مسخ کیوں نہ ہو ماں بھائی یا باپ اپنے جگر گوشے کو پہچانے میں غلطی نہیں کرتے وہ بچہ جو دنیا میں روتے ہی آپکی آمد کا پیغام دیتا ہے اور ماں اسے پستانوں سے اسکی زندگی میں اپنی ممتا کی محبت اسکے خون میں دوڑاتی ہے اور وہی ماں اسے سینے سے لگا کر اس کے لیے دعاگو ہوتی ہے اور اسے لوری دیتے ہوئے وطن کی حفاظت غیرت عزت و ننگ ناموس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینا وطن کو سرخرو کرنے کے لیے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بہانا تبھی تو میرا بیٹا کہلانے کا لائق ہو گا وہ بچہ ماں کی گود میں تربیت پا کر رفتہ رفتہ بڑھتا گیا ماں باپ نے اسے طارق کا نام دیا ماں پیار سے ٹلو پکارتا رہا باپ محمد کریم اپنے بچے کو بڑھتے ہوئے اپنی پیری کا نگہبان سمجھتا رہا وہ بچہ جو باپ کی خواہش سے کئی گناہ زیادہ قوم کا عصا بن گیا بچپن اس نے بسیمہ میں گزاری تعلیم وہی سے سرکاری اسکول سے حاصل کی پانچویں جماعت کے بعد وہ خضدار بی آر سی اسکول میں داخل کر دیے گئے اسکول میں وہ لگن کے ساتھ پڑھتے رہے اسکول میں اسے ایک خوبصورت ماحول نصیب ہوئی ایک دیہات سے نکل کر شہر میں مختلف علاقوں و مختلف ساتھیوں سے ملے اسکے علم میں اضافہ ہوتا رہا وہ بی آر سی اسکول میں سیاسی ساتھیوں کی سرکل میں رہے اور بی ایس او سے منسلک ہوئے اب پڑھائی کے ساتھ سیاسی میدان میں اسے قوم کے لیے کچھ کرنے کی چاہ بڑھنے لگی اور وہ خلوص و ایمانداری کے ساتھ اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا کر کتابیں خریدتے رہے پڑھتے رہے اور کالج میں طلباء کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے وہ کالج سے نکالے گئے پھر داخل کرا لیے گئے لیکن وہ رکے نہیں وہ اپنی تعلیم کے ساتھ دیگر کتابیں پڑھتے رہے وہ بی آرسی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئٹہ منتقل ہوئے اور 2006 کو بیوٹمز یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا نوجوانی میں قدم رکھتے ہی وہ سیاسی میدان میں اپنی ماں کی دی ہوئی لوری پر مادر وطن کی خاطر اپنے فرائض انجام دینے کے لیے بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے منسلک ہوئے اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ وہ طلباء کے حقوق و وطن کی آزادی کے لیے آواز بلند کرتے رہے بیوٹمز یونیورسٹی کے ایڈمنسڑیشن کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر اسے کئی بار خبردار کیا گیا لیکن وہ رکے نہیں وہ اپنے خلوص کے ساتھ اپنی قوم کی غلامی کو محسوس کرتے رہے اور احتجاج کرتے رہے 2006 کو کوٹہ سسٹم کے خلاف وہ شہید قمبر چاکر و دیگر ساتھیوں کے ساتھ تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے رہے اور یونیورسٹی انکی اس جہد پر انھیں ریڈ لسٹ کردیتی ہے لیکن وہ اسکی پرواہ کیے بغیر تنظیم کے ساتھ اپنی وابستگی کو برقرار رکھا شہید بالاچ مری کی شہادت کے بعد وہ بڑھ چڑھ کر احتجاجوں میں حصہ لیتے رہے احتجاج کرنے پر اسکے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اسکے ٹھکانے پر چاپہ لگتا ہے لیکن وہ گرفتاری سے بچ جاتے ہے وہ وطن سے محبت کا جذبہ اپنے اندر سمائے ہوئے مٹی پر مر مٹنے کے لیے مزاحمتی راستوں کی تلاش میں لگا رہا وہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے ساتھیوں کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتا رہا وہ کسی دوست کی سرکردگی میں بلوچستان لبریشن فرنٹ سے منسلک ہوا وہ خواب جو اس نے ماں کی لوریویاں سن کر دیکھ کر رہا تھا وہ پورا ہو چکا تھا وہ مادر وطن پر قربان ہونے کے لیے آگے بڑھتا گیا وہ میدان جنگ میں اپنی مہارت دکھا رہا تھا وہ محنت خلوص ایمانداری کا شعور لیے وقت کی کمی کو بھانپتے ہوئے ہر میدان میں اپنے فرائض انجام دیتا رہا یہ نوجوان جسے گھر میں پیار سے ٹلو جان کہتے تھے ٹلو بھی کیا انسان تھا بہادری و دلیری کا اعلی نمونہ تھا ٹلو جان گھر سے نکل کر بی ایل ایف کے ساتھیوں میں بخو بن گیا بی ایل ایف میں بخو کے کوڈ نام سے اسکی پہچان بن گئی سیاسی سرگرمیوں میں وہ بی ایس او آزاد کا سینٹرل کمیٹی کا ممبر بنا تنظیم کے لیے پالیسی ساز ادارے میں اپنی ذہانت دکھانے لگا وہ بی ایل ایف کے پلیٹ فارم پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا سیاسی محاذ و جنگی محاذ ایک ہو کر رہ گئے تھے وہ سیاسی میدان سے آہستہ آہستہ غائب ہوتا گیا لیکن اسکی جڑت رہی وہ ہاسٹل کے ہر کمرے و ہر ساتھی تک اپنی رسائی رکھی تاکہ نئے ابھرتے نوجوانوں کو تحریک کے لیے تیار کر سکے اور وہ یہ کام صدق دل و ایمانداری کے ساتھ کرتے رہے
ٹلو جان کے پاس ہمیشہ ایک قلم ڈائری اور ایک کیمرہ ہوتا تھا وہ منظر وہ خیال جو الفاظ کا لبادہ اوڑھ نہیں سکتے وہ کیمرے سے انھیں محفوظ کرلیتا وہ قلم سے اپنے ڈائری میں اپنے خیالات کو آنے والے نسل کے لیے قلمبند کرتا اپنی ڈائری میں کھبی کھبار کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا وہ الفاظ جو اسکے قلم سے نکل کر کاغذ کی سفیدی پر سیاہی بکھیر رہے تھے ان الفاظ و جملوں کی اندر اس احساس کو کوئی ٹلو کی طرح وطن پرست ہی محسوس کر سکتا ہے جو اپنی سرزمین پر اپنے آپکو بیگانہ سمجھتا ہے ٹلو کہتا ہے
'' کیسے کہوں میں زندہ ہوں؟ وہ زندگی بغیر کسی مقصد بغیر کسی عمل بغیر کسی خواب کے گزاری جائے وہ زندگی تو ماتم سے کم نہیں!
میرے درسگاہوں میں مجھے بولنے کی آزادی نہیں!
جب میری زمیں پر مجھے دسترس نہیں!
اپنے وطن میں اچھوت بن کر جینا زندگی تو نہیں!
اپنے مٹی میں غیر کی حاکمیت تسلیم کرکے چپ سادھنا زندگی تو نہیں!
تو پھر کیسے کہوں کہ میں زندہ ہوں "
اسکے الفاظ اسکی وطن سے محبت کے جذبے کا اظہار ہیں وہ وطن کے عشق میں جنون کی حد تک مبتلا تھا وہ ڈائری میں اپنے احساسات الفاظ کو سادہ زبان میں تاریخ کا حصہ بناتا رہا وہ اپنے شعوری فیصلے کے تحت وطن کی آزادی کے لیے ہر فورم پر اپنی ذمہ داری نبھاتا رہا حالات اپنے تیور بدلتا رہا اور ٹلو جان اپنی زمین کی دفاع کے لیے روپوش ہوا لیکن وہ میدان جنگ میں اپنا دلیرانہ کردار نبھاتا رہا 22 ستمبر2010 کو وہ پہاڑ سے اتر کر بسیمہ ماں باپ سے ملنے کے لیے آتے ہیں وہاں پر دشمن کو اسکی بھنک اسکے قریبی ساتھیوں کے ذریعے سے لگتی ہے دشمن اسکی گرفتاری کے لیے اسکے گھر کا گھبراؤ کرتا ہے وہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور کراچی چلے جاتے ہیں وہ کراچی میں دوستوں کے ساتھ تنظیمی کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ 22 ستمبر کی رات جو موت کی گھڑی بن کر اس گھر پر دستک دی تھی اس میں وہ بچ گئے تھے لیکن 21اکتوبر 2010 کو دشمن ایک بار پھر اسکے گھر پر دستک دیکر شہید طارق کریم کو اغواہ کر لیتا ہے ٹلو جان اب دشمن کے ہاتھوں میں اذیتیں سہ رہا تھا اسے ہر طرح سے مفلوج بنانے کی کوشش کی گئی ٹلو جان سمجھ چکے تھے کہ موت تو آنی ہے پر زبان کے بند دروازے ہمیشہ بند رہیں گے وہ قریبا سات مہینے تک پس زندان رہے اور دشمن کی ہر طرح کی اذیتیں برداشت کی دشمن کو شکست فاش ہوئی دشمن کی شکست اس وقت بھی ہوتی ہے جب اسے تمھاری ضرورت ہو لیکن تمھارے پختہ عظم کو دیکھ کر تمھیں اذیتیں دیکر قتل کرے تمھاری موت تمھاری جیت ہے جو اس نے جیت لی تھی اسکی لاش کوئٹہ سریاب سے برآمد ہوئی لاش انتہائی مسخ شدہ تھی اسکے چہرے کو مکمل مسخ کیا گیا تھا دشمن کی اتنی نفرت اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ دشمن اس سے کتنا نفرت کرتا تھا دشمن کی نفرت تمھاری وطن سے محبت کو آشکار کرتی ہے شہید ٹلو جان کی بہادری و جرائت نے دشمن کو اس حد تک پہنچایا تھا کہ وہ شہید طارق کریم کو بے دردی کے ساتھ قتل کرتے ہیں لیکن وہ شہید طارق کی وطن سے محبت کو ختم نہ کرسکے بلکہ بے دردی سے اس پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیے اور شہید بھی یہ درد و تکلیف وطن کی آزادی کے لیے برداشت کرتا رہا اور موت کے آغوش میں چلا گیا اور اپنے خیالات و یادوں کا گرانبار پہاڑ یہ کہہ کر '' اپنے ملک میں ظلم کے آگے سر جھکا کر چلنا زندگی تو نہیں، کیسے کہوں میں زندہ ہوں "چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو کر امر ہو گئے
ٹلو جان کے پاس ہمیشہ ایک قلم ڈائری اور ایک کیمرہ ہوتا تھا وہ منظر وہ خیال جو الفاظ کا لبادہ اوڑھ نہیں سکتے وہ کیمرے سے انھیں محفوظ کرلیتا وہ قلم سے اپنے ڈائری میں اپنے خیالات کو آنے والے نسل کے لیے قلمبند کرتا اپنی ڈائری میں کھبی کھبار کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا وہ الفاظ جو اسکے قلم سے نکل کر کاغذ کی سفیدی پر سیاہی بکھیر رہے تھے ان الفاظ و جملوں کی اندر اس احساس کو کوئی ٹلو کی طرح وطن پرست ہی محسوس کر سکتا ہے جو اپنی سرزمین پر اپنے آپکو بیگانہ سمجھتا ہے ٹلو کہتا ہے
'' کیسے کہوں میں زندہ ہوں؟ وہ زندگی بغیر کسی مقصد بغیر کسی عمل بغیر کسی خواب کے گزاری جائے وہ زندگی تو ماتم سے کم نہیں!
میرے درسگاہوں میں مجھے بولنے کی آزادی نہیں!
جب میری زمیں پر مجھے دسترس نہیں!
اپنے وطن میں اچھوت بن کر جینا زندگی تو نہیں!
اپنے مٹی میں غیر کی حاکمیت تسلیم کرکے چپ سادھنا زندگی تو نہیں!
تو پھر کیسے کہوں کہ میں زندہ ہوں "
اسکے الفاظ اسکی وطن سے محبت کے جذبے کا اظہار ہیں وہ وطن کے عشق میں جنون کی حد تک مبتلا تھا وہ ڈائری میں اپنے احساسات الفاظ کو سادہ زبان میں تاریخ کا حصہ بناتا رہا وہ اپنے شعوری فیصلے کے تحت وطن کی آزادی کے لیے ہر فورم پر اپنی ذمہ داری نبھاتا رہا حالات اپنے تیور بدلتا رہا اور ٹلو جان اپنی زمین کی دفاع کے لیے روپوش ہوا لیکن وہ میدان جنگ میں اپنا دلیرانہ کردار نبھاتا رہا 22 ستمبر2010 کو وہ پہاڑ سے اتر کر بسیمہ ماں باپ سے ملنے کے لیے آتے ہیں وہاں پر دشمن کو اسکی بھنک اسکے قریبی ساتھیوں کے ذریعے سے لگتی ہے دشمن اسکی گرفتاری کے لیے اسکے گھر کا گھبراؤ کرتا ہے وہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور کراچی چلے جاتے ہیں وہ کراچی میں دوستوں کے ساتھ تنظیمی کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ 22 ستمبر کی رات جو موت کی گھڑی بن کر اس گھر پر دستک دی تھی اس میں وہ بچ گئے تھے لیکن 21اکتوبر 2010 کو دشمن ایک بار پھر اسکے گھر پر دستک دیکر شہید طارق کریم کو اغواہ کر لیتا ہے ٹلو جان اب دشمن کے ہاتھوں میں اذیتیں سہ رہا تھا اسے ہر طرح سے مفلوج بنانے کی کوشش کی گئی ٹلو جان سمجھ چکے تھے کہ موت تو آنی ہے پر زبان کے بند دروازے ہمیشہ بند رہیں گے وہ قریبا سات مہینے تک پس زندان رہے اور دشمن کی ہر طرح کی اذیتیں برداشت کی دشمن کو شکست فاش ہوئی دشمن کی شکست اس وقت بھی ہوتی ہے جب اسے تمھاری ضرورت ہو لیکن تمھارے پختہ عظم کو دیکھ کر تمھیں اذیتیں دیکر قتل کرے تمھاری موت تمھاری جیت ہے جو اس نے جیت لی تھی اسکی لاش کوئٹہ سریاب سے برآمد ہوئی لاش انتہائی مسخ شدہ تھی اسکے چہرے کو مکمل مسخ کیا گیا تھا دشمن کی اتنی نفرت اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ دشمن اس سے کتنا نفرت کرتا تھا دشمن کی نفرت تمھاری وطن سے محبت کو آشکار کرتی ہے شہید ٹلو جان کی بہادری و جرائت نے دشمن کو اس حد تک پہنچایا تھا کہ وہ شہید طارق کریم کو بے دردی کے ساتھ قتل کرتے ہیں لیکن وہ شہید طارق کی وطن سے محبت کو ختم نہ کرسکے بلکہ بے دردی سے اس پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیے اور شہید بھی یہ درد و تکلیف وطن کی آزادی کے لیے برداشت کرتا رہا اور موت کے آغوش میں چلا گیا اور اپنے خیالات و یادوں کا گرانبار پہاڑ یہ کہہ کر '' اپنے ملک میں ظلم کے آگے سر جھکا کر چلنا زندگی تو نہیں، کیسے کہوں میں زندہ ہوں "چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو کر امر ہو گئے
Комментариев нет:
Отправить комментарий