Powered By Blogger

вторник, 8 мая 2018 г.



اب خاموشی گناہ ہے
تحریر:خدیجہ بلوچ
پھولوں کو دیکھ کر معصومیت کا احساس جاگ اٹھتی ہے پھول وہ شے ہے جسے روئے زمین پر ہر انسان اور حیوان بہت ہی زیادہ پسند کرتا ہے۔ہر کوئی اسے پانے کیلئے اس کی طرف خود سے بے اختیار کھینچا چلا جاتا ہے اسی طرح بچوں کی معصومیت ان کی مسکراہٹ کو پھولوں سے تشبیہ دی گئی ہیں۔ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں ان کو کچھ نہیں معلوم ہوتا کس طرح اس دنیا کا لطف اٹھا سکیں ؟ کیسے اس دنیا میں رہیں ؟ جس طرح پھولوں کو کھچلنا، انہیں مسلنا خراب سمجھا جاتا ہے اسی طرح معصوم اور ننے منھے بچوں کو تکلیف دینا، انہیں مارنا اور ہراساں کرنا نہ صرف گناہ بلکہ قانوناً جرم سمجھا جاتا ہے ـ کیونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں وہ سیکھنے اور سمجھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں انھیں اچھے برے کا پہچان والدین اسکول اور معاشرے سے ملتا رہے گا تاکہ وہ بڑے ہو کر اچھی تربیت لیکر زندگی کا ہنر سیکھ سکیں اور دنیا کو پر امن بنا کر نئی راہیں ہموار کر سکیں ـ
عاصم امین بلوچ بھی ایک معصوم پھول ہے جسے پاکستانی آرمی نے زبردستی سے پیڑ سے تھوڑ کر الگ کردیا۔ عاصم امین بلوچ کو قابض پاکستانی آرمی نے ایک مہینہ پہلے بلوچستان کے علاقے تربت سے ایک سرچ آپریشن کے دوران جبراً اغوا کرکے اسے ٹارچر سیلوں میں ڈال دیا ۔ اس کا قصور صرف اتنا سا ہے کہ وہ ان کا تعلق ایک محکوم قوم سے ہے۔ وہ ایک طالبعلم ہے اور ایک بلوچ ہے جس کی ابھی عمر ہی کیا ہے اس نے ابھی تک صحیح طریقے سے دنیا کو سمجھا بھی نہیں ہے کہ اس وسیع الارض میں کیا ہورہا ہے وہ تو ایک طالب علم ہے جس سے ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے کیوں پابند سلاسل رکھا گیا ہے کیوں اسے ٹارچر سیل کی کالی کھوٹریوں میں ڈالا گیا ہے؟ وہ ضرور حیران ہوگا کہ انسانیت کے دعوہ داروں نے اسے کیوں انسان نہیں سمجھا ہے؟ 
میرے چھوٹے اور معصوم بھائی عاصم امین بلوچ کو پاکستانی آرمی کے ہاتھوں جبراً اغوا ہوئے ایک مہینہ گزرگیا ہے وہ کس حال میں ہے اس پر کیا بیت رہی ہوگی کس طرح سے وہ کالی کھوٹریوں میں اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے اس کا ابھی تک کچھ معلومات نہیں ۔ اس وقت ایک بہن، ایک ماں اور ان کے بھائیوں پر کس طرح کی قیامت صغری نازل ہوگی یہ ہم ہی بہتر جانتے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ بے گناہ اور معصوم بچہ ہے اس نے کسی کو نقصان یا تکلیف نہیں دی ۔ آخر اس طرح کے ریاستی مظالم کا شکار کیوں ہوا ؟ کیا اس ملک کی نام نہاد عدالتیں صرف چار دیواریاں یا صرف لمبے چھوڑے کمروں پر مشتمل ہیں کیا ان انصاف کے عدالتوں میں معصوم بچوں کی چیخ و پکار نہیں پہنچ پاتی اگر پہنچ پاتی ہے تو انصاف کی دیوی گھونگی، بہری یا اندھی ہوگئی ہے؟ تا کہ وہ کسی بے گناہ کی داد رسی کرے، کسی ظالم سے سوال کرے کہ تم نے کیوں بے گناہ انسانوں پر ظلم کے پہاڑ تھوڑ رہے ہو؟ تم کیوں بلا وجہ معصوم بچوں کو اپنے لخت جگروں سے چھین کر انہیں اندھیری کھوٹیوں میں ڈال کر ان کی زندگی دردناک بناتے ہو؟ ایک بہن اپنی بے گناہ چھوٹے بھائی کے لیئے انصاف کے ہر دروازہ کو کھٹکھٹائے گی کیونکہ یہ مجھے معلوم ہے کہ عاصم کی ماں پر اس وقت کیا بیت رہی ہے ـ
بلا ایک معصوم و نوعمر طالبعلم کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ کسی کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ اس نے تو ابھی تک اس دنیا میں اچھی طرح سے آنکھ نہیں کھولی ہے کہ اس معصوم پھول کو اپنے خاندان اپنے گھر والوں اور شہر سے زبردستی دور رکھا گیا ہے ـ
روزانہ بلوچستان سے گرتی ہوئی لاشوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ہر روز دو یا تین بلوچ طالبعلم یا عوام معصوم بلوچ پاکستانی آرمی اور خفیہ اداروں کی مظالم کا شکار ہو رہے ہے ہر والدین ، بھائی، بہن کی آنکھ اشکبار ہے ہر گھر ماتم ہے ہر ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کی آنے کی آس میں روز مرتی ہے روز زند ہوتی ہے اس صورتحال کو دیکھ کر پتھر پگل جاتا یے، سمندر کی روانی رک جاتی ہے، اڑتے ہوئے پنچھیوں کی سریلی آواز میں غم کا راگ ملاپ ہوتا ہے درختوں کے پتے موسم خزاں سے پہلے زرد ہو کر زمین پر گرنے لگ جاتے ہیں آسمان بھی غمگین ہوتا ہے ـ لیکن پھر بھی انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے علمبردار اور انصاف و جمہوریت پر لمبی لمبی لکچر دینے والے صحافی، دانشور اور سول سوسائٹی کے لوگ ظالم کی قہر سامانیوں کو دیکھ خاموشی سے اپنا راستہ ناپ کر اگلی گلی سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ، دکھ اس بات کا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو جب اس صورتحال پر آگاہ کیا جاتا ہے کہ اس انسانی المیہ پر اپنی آواز بلند کرو اپنی ذمہ داری نبھاو تو وہ پلٹ کر واپس جاتے ہیں بھول سے بھی ہمارے وطن میں ہونے والےمظالم پر ان کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ـ کہ معصوم انسانوں پر کیا، کیا ستم ہو رہی ہے پھر ہمیں یقین ہے کہ نیک دل اور امن پسند انسانوں کی کمی نہیں ہے اس دنیا میں وہ ضرور ستم رسیدہ لوگوں کی داد رسی کے لیئے اپنی آواز سے سوئے ضمیروں کو ضرور جگائیں گے ـ

Комментариев нет:

Отправить комментарий