منظور مایوس اور کنفیوز ہے؟ – برزکوہی
اگر کل کی طرح آج بھی میں بذات خود جذباتیت، جنونیت، جاہلیت، آئیڈیلسٹک، روایتی شخصیت پرستی اور تقلیدپرستی کی اندھادھند گردآلودگی میں غرق و ترق ہوتا تو میں ضرور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے پہلے کنوینشن کے بعد منقعدہ پروگرام میں بلوچ دانشور، ادیب اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ صاحب کی کڑی تنقیدی شعوراور حقائق پر مبنی تقریر کو سن کر کہتا واجہ منظور صاحب ابھی بھی مایوس اور کنفیوز ہیں، حسب روایات روایتی انداز میں ماضی کی طرح منظور صاحب کی مجلس اور دیوان سے جب اٹھتے تھے، بعد مجلس و گفتگو ہماری اکثر مخالفانہ اور نقطہ چیں آراء ایسا ہی ہوتا مگر آج نہیں۔۔۔
کل کسی دوست نے مجھے وٹسپ پر واجہ منظور صاحب کی ایک تقریر کا وڈیو بھیجا، تو جب سننے اور سمجھنے کی جسارت کی تو منظور صاحب نے صرف ایک یا دو موضوعات پر بحث نہیں کی کہ میں ان کو زیر بحث لاکر ان پر تجزیہ کروں یا روشنی ڈالوں بلکہ منظور صاحب مختلف موضوعات کو لیکر خاص کر بلوچ سماج، قبائلی روایات، بلوچوں پر ظلم و جبر، بربریت، نام نہاد قوم پرستوں، دانشوروں کی بے حسی، لالچ و خوف اور منفی کردار کے ساتھ قومی تحریک کی کمزوریوں، خامیوں، قیادت کی نالائقیوں، تحریک میں اہم جز لٹریچر کے فقدان، سوشلزم کے نام پر موقع پرستی، خودغرضی، مراعات پرستی کی بھاگ دوڑ اور بلوچ میر، معتبر، سرداروں اور نوابوں کی پاکستان کے ساتھ فرمانبرداری، چاپلوسی خاص طور پر بلوچ قوم میں پائی جانے والی جنگی نفسیاتی اثرات، فرسٹریشن اور ڈپریشن والی نبض پر ہاتھ رکھ کر بلوچ قوم کو ان خطرناک اثرات سے انتفاء کرنے کی خاطر غیررسمی تعلیم و ذہنی تربیت، ادب، نثر اور اشعار پر زور دیا اور ان کی بار بار فقدان کی نشاندہی کی۔
انقلاب فرانس کے دوران ژاں پال سارتر کی فلسفہ وجودیت کا ذکر کرکے فرانسیسی عوام کو جنگ عظیم کے منفی نفسیاتی اثرات سے انتفاء کرنے کی اہم وجہ قرار دیا۔ گوکہ منظور صاحب کی چند باتوں سے اختلاف سہی بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے وہ قابل بحث اور قابل غور و تحقیق ضرور ہیں۔ مگر مجموعی حوالے سے پورے پرمغز تقریر کو اگر حقیقت اور حقائق کی بنیاد قرار دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ میں پہلے بارہا کہہ چکا ہوں ہماری قبائلی روایات کی تشریح مفہوم اور معیار آج صرف ذاتی خواہشات، مفادات اور پسماندہ ذہنیت کی ذہنی سکون اور ذہنی اختراع کی حد تک محدود ہوچکے، جہاں ہماری ذاتی خواہش، ضرورت، مفادات اور لالچ کارفرما ہو۔ وہاں روایات کی پاسداری دعویٰ اور رٹے بازی موجود ہوگا۔ جہاں اجتماعی اور قومی مفاد ہو وہاں حقیقی روایات دم توڑ دینگے۔ جس طرح واجہ نے سردار یار محمد رند کی عمران خان کے ہاتھوں بے عزتی، کرسی سے اٹھانا یا ایک ایف سی کی معمولی میجر کی ایماء پر آپسی قبائلی جنگ کا شروع کرنا اور ختم کرنے کی مثال پیش کی یہ بلکل حقیقت ہے آج بلوچ قبائلیت اتنے حد تک بدبودار اور اپاہچ ہوچکا ہے کہ ایک عام بھکاری کا بھی ایک معیار ہوتا ہے، مگر اپاہج قبائلیت کا اس حد تک بھی کوئی معیار نہیں ہے۔ یہ اب صرف اور صرف روایات اور قبائلیت کے نام پر صاف ستھرا، چاپلوس اور بیکاری بن چکے ہیں، لالچ اور خوف کے علاوہ بلوچ قوم میں رضاکارانہ طور پر ان کا ایک ٹکہ بھی حیثیت اور ہمدردی نہیں دشمن کے سامنے ویسے ہی ان کی حیثیت صرف گند صاف کرنے والے ٹشو پیپر کی ہے۔
واجہ منظور بلوچ نے تعلیم یافتہ طبقے کے حوالے سے کیا خوب کہا کہ یہ ڈگری یافتہ جاہل اور نالائق ہیں، اگر دیکھا جائے لارڈ میکالے کی طرز تعلیم کو پاکستان نافذ کرکے واقعی کلرک پیدا کرنے کی حدیں پار کرکے بلوچوں میں بے حس نوکر، ملازم، تعبیدار، منافق، چاپلوس، خود غرض، موقع پرست اور مفاد پرست پیدا کرچکا ہے۔ ڈگری یافتہ جاہل اور نالائق سرزمین، قوم اور قومی تحریک سے بیگانگی اپنی جگہ اپنے ماں باپ اور خاندان سے بھی لاتعلق اور بیگانہ ہورہے ہیں۔
بلوچ ادیب اور دانشوروں کے بارے میں واجہ منظور صاحب نے جو رائے قائم کی، تو میں کہتا ہوں یہ دانشور ہی نہیں ہوسکتے ہیں، نام نہاد اور دعوے و دکھاوے کی حد تک ضرور دانشور ہیں مگر دانشوری کی حقیقی معیار اور علمی تعریف پر ہرگز نہیں اترتے ہیں۔
علمی تعریف اور معیار کی مطابق حقیقی دانشور وہ ہوتے ہیں، جو ہمیشہ خوف و لالچ، خود غرضی، موقع پرستی اور مصلحت پسندی سے مبرا ہوکر غیرجانبداری اور انصاف کے بنیاد پر سچائی کو بیان کرکے ایسے سوال اٹھاتے ہیں کہ دوسرے لوگ وہ سوال نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں یا وہ بیان کرتے ہیں، جو دوسروں کے دماغ میں نہ ہوں اور سماجی فرسودہ روایات تحریکی اور قیادت کی کمزوریوں کو انتہائی بے رحم انداز میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ بلاخوف و بلالالچ ہر ایک پر سوال اٹھاتے اور تنقید کرتے ہوئے، اصلاح و بہتری کے لیئے نئے تخلیق وخیالات اور تجویز پیش کرتے ہیں۔ حقیقی دانشور کبھی بھی یہ خوف نہیں دکھاتے کہ لاکھوں لوگ اور پورا ایک ہجوم میرے خلاف ہوگا، میں ہدف تنقید اور ہدف نفرت نشان بن کر تن و تنہاء رہ جاوں گا۔ کسی کا بھی میرے ساتھ ہمدردی اور حمایت نہیں ہوگا بلکہ وہ وقتی رونما ہونے والی تمام صورتحال کو نظرانداز کرکے اپنی آراء اور ادراک کو مستقبل میں صحیح اور حقیقت کی روپ میں تصدیق اور قبولیت پانے کی ہمیشہ سوچ میں ہوتے ہیں، سچائی اور حقائق بیان کرنے پر دانشوروں کو معاشی بدحالی اور جان چلی جانے کی نوبت بھی آتا ہے، مگر وہ پرواہ نہیں کرتے ہیں۔
آج جس طرح واجہ شہید صباء دشیاری کے بعد واجہ منظور بلوچ انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں سچائی اور حقائق کو بیان کررہا ہے، انکی تحریر، تقریر اور شاعری میں جو قابل ستائش عمل ہے اس پر کھٹن اور پرآزمائش دور میں واجہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ کانٹوں سے سجے ہوئے اس سفر میں ہرجگہ ہر مقام اور لمحہ بہ لمحہ سقراط والے زہر کا پیالہ بھی رکھا ہوا ہے، اس کے باوجود شعوری اور علمی بنیاد پر اپنی قومی اور علمی فرض نبھانا تاریخ ساز دور میں تاریخ ساز عمل ہے۔
کاش یہ خواب اور تصور ایک حقیقت ہوتا، آج دنیا کی دیگر تحریکوں اور ان کے قیادت کے آس پاس کی طرح بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قیادت کے آس پاس واجہ صباء صاحب اور واجہ منظور بلوچ جیسے دانشور ہوتے پھر اس وقت بلوچ تحریک اور بلوچ قیادت اس حد تک خوشامدپسندی، چاپلوسی، جی حضوری اور صفت و ثناء خوانی کی بھینٹ نہیں چڑھتی۔ مگر بات وہیں آکر پھر رک جاتا ہے، جیسا منہ ویسا تھپڑ، جیسا ہو جس طرح ہو آس پاس ویسا ہی بندہ آسانی سے ملے گا۔ کیونکہ نالائقوں کے ساتھ رہ کر اپنی نالائقیوں کو چھپانا آسان ہوتا ہے، اسی لیئے باعلم اور لائق لوگوں سے دور رہنا اصل میں اپنی حقیقت کو چھپانا ہی ہوتا ہے۔
فیڈل کاسترو کو کیا خوف تھا، اس کے قریب سارتر اور ڈاکٹر چے گویرا تھے، کیونکہ وہ خود باعلم، باعمل و باکردار اور مکمل انسان اور رہنماء تھے اسے چاپلوسی، صفت و ثناء، سستی شہرت اور تعریف کی بھوک نہیں تھی بلکہ تنقید برائے اصلاح اور مزید اپنے کردار اور عمل میں نکھار پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔
واجہ منظور صاحب نے تحریک میں لٹریچر پر زیادہ زور دیا، آج بلوچ تحریک میں لٹریچر کے حوالے سے یعنی تحقیق اور تخلیق کے میدان اور سیکٹر میں کیا ہورہا ہے؟ کس حد تک کام توجہ اور دلچسپی ہورہا ہے؟ لٹریچر کی اہمیت اور افادیت کے بابت آج تک دنیا کے تمام انقلابی لیڈروں اور دانشوروں کا موقف یکساں رہا ہے کہ تحریک کے لیئے لٹریچر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر تحریک میں بہتری و ترقی ممکن نہیں۔ پھر لٹریچر کے حوالے سے بلوچ قومی تحریک کہاں پر کھڑا ہے؟ کیا ہورہا ہے اور کب ہورہا ہے؟
آج عام بلوچ اور بلوچ نوجوانوں کی بلوچ قومی تحریک اور قیادت کے حوالے سے نقطہ نظر اور آراء اپنی جگہ مگر بلوچ دانشور صورت خان مری، واجہ منظور بلوچ، انورساجدی وغیرہ کی آراء اور نقطہ نظر کیا ہے؟ اس پر کبھی کسی نے سوچا ہے اور غور کیا ہے؟ یا یہ سارے غلط ہیں؟ صرف ہم من و عن صحیح ہیں؟ پھر تقریباً 15 سال قبل واجہ صورت خان و منظور بلوچ جو آراء پیش کررہے تھے آج ہم وہی صورتحال سے گزر رہے ہیں، ہم اس وقت بھی جذباتی ہوکر سب کو غلط قرار دے رہے تھے، وہ آج جو بھی کہہ رہے ہیں، ہمارا موقف اور نقطہ نظر کیا ہے؟ وہ غلط اور ہم صحیح ہیں؟ تو کل ہمارا موقف کیا ہوگا؟
یہ ساری باتیں، مایوسی اور الجھن کے نہیں، مکمل حقیقت پر مبنی ہیں جب ہم حقائق کو سمجھ جائینگے تو بجائے بغلیں بجانے، خوش فہمی کے شکار ہونے، بھڑک بازی اور اپنی منہ میاں مٹھو بننے کے مصداق سے نکل کر بے چینی کی کیفیت کا شکار ہوکر بہتری کے لیئے ضرور ہاتھ پاوں مارنا شروع کرینگے، وگرنہ بس ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر ہر چیز اچھا، خیرخیریت سے سب کچھ کھودینگے۔
میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ تقلید پرستی، کنویں کے مینڈک والی مثال اور طرز عمل سے نکل کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ میرے نزدیک سوچ اور خیالات کے حوالے سے ہم کافی پیچھے کھڑے ہیں، آگے آنے کے لیے اصل حقیقت کو سمجھنا ہوگا اور قدم اٹھانا ہوگا۔ بجائے کل ہمیں یہ کہنا پڑے، ہم غلط تھے سوچنے سمجھنے اور نقطہ نظر کی حد تک پھر کوئی فائدہ نہیں، وہ خود پشیمانی میں شمار ہوگا، پشیمانی خود انسانی زندگی میں مثبت عمل نہیں بلکہ منفی اثرات مرتب کریگا، جس سے اپنے آپ کو تحریکی دوستوں اور قوم کو بچانے کے لیے اصل سچائی اور حقائق کی بنیاد پر وسیع و عریض انداز میں شعوری بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، اسی وجہ سے قومی جنگ کی منظم شکل و شدت کے ساتھ ساتھ لٹریچر خود بخود پوری قوم کو ڈپریشن اور فرسٹریشن سے نکال سکتا ہے۔
بلوچ دانشور، ادیب اور شاعروں کی اس وقت قومی تحریک میں فعال کردار وقت کی اہم ضرورت ہے، وہ ایمانداری، خلوص، بلاخوف، بلاخاطر اور بلالالچ سارتر، فینن، میکسم گورکی، ایڈورڈ سعید، والٹیئر وغیرہ کی طرح عملی طور پر اپنا کردار نبھائیں۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий