تیرہ نومبر نوکین بنداتے قول ،Novation consent – برزکوہی
2010کو بی ایس او آزاد کے ایک غیرروایتی، انقلابی اور تاریخی فیصلے میں انگریز قبضہ گیر سے لیکر پاکستان (پنجابی) قبضہ گیر تک بلوچ وطن کے قبضے کے خلاف اور بلوچ قومی آزادی کی حصول کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کو قربان کرنے والے تمام بلوچ شہداء کو ہمیشہ اور ہردن یاد کرنے کے ساتھ، سال میں ایک دن یعنی انگریز سامراج کے خلاف لڑنے والے میر محراب خان کی شہادت کے دن 13 نومبر کو تمام بلوچ شہداء کو صرف روایتی انداز میں بطور رسم یاد نہیں بلکہ اس دن ایک بار پھر فکری و شعوری بنیاد اور عزم و جوش اور جذبے کے ساتھ یہ عہدو وفا کرنا کہ شہداءِ بلوچستان کا مقصد اور مشن کو عملاً پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔
اس حقیقت اور مطلق سچائی میں کوئی دورائے نہیں کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے اور ان میں فرق ہوتا ہے، وہ کبھی برابر نہیں ہوسکتے ہیں، اسی طرح شہیدوں میں بھی عمل، محنت، کردار، فیصلہ، سوچ و اپروچ، ہنر، مہارت اور صلاحیتوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے، وہ برابر نہیں ہوسکتے ہیں لیکن وطن و قوم پر اپنی جان قربان کرنا، غلامی کو قبول نہیں کرنا، دشمن کو تسلیم نہیں کرنا، اپنے آج کو آنے والی نسل اور کل کے لیئے قربان کرنا، سب کا فلسفہ ایثار وقربانی ایک جیسا اور برابر ہے۔
اسی فلسفہ برابری کی بنیاد پر ایک ہی دن یعنی 13 نومبرکو تمام بلوچ شہداء کو پوری بلوچ قوم، ایک ہی مخصوص دن میں خراج تحیسن اور خراج آفرین پیش کرے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ بلوچ قوم آج بھی ایک زندہ قوم کی حثیت سے اپنی سرزمین پر مرمٹنے کو تیار ہے، جس کی واضح مثال بے شمار بلوچ شہداء ہیں اور ساتھ ساتھ مزید بلوچ قوم میں اپنی حقیقی ہیرو اور شہداء کے حوالے سے شعور و آگاہی اور بیداری اجاگر کرنا ہو تاکہ شہداء کے مشن میں ہر بلوچ باہمت اور باحوصلہ ہوکر شانہ بشانہ ہو۔
13 نومبر کا بنیادی سوچ اور مقصد یہی ہے، اس دن کو مزید واضح اور اجاگر کرنے کی خاطر اس دن کو ایک مخصوص اصطلاح سے منسوب کرنا چاہیئے اور “نوکین بنداتے قول”.novation consent کا پہچان دینا چاہیے۔
انسانی زندگی جب اہم مقصد اور قومی و انسانی عمل سے بے مقصد اور بے عمل ہوگا، تو اس کا اختتام موت ہوگا، پھر وہ دنیا سے جسمانی و ذہنی، ظاہری و باطنی سوچ اور وجود سے مرکر فنا ہوگا، ابدی طور پر موت کی آغوش میں چلا جائیگا لیکن شہید جسمانی حوالے سے ضرور دنیا سے جدا ہونگے لیکن اپنی فکر سوچ و عمل کردار اور قربانی کی وجہ سے دنیا میں موجود اور تاابد زندہ رہیں گے۔ یہی زندگی پھر موت نہیں ہوتا اس کو موت کہنا اور موت سمجھنا شہداء کے ساتھ ناانصافی ہوگا۔ بلکہ ایک زندہ کو مردہ کہنا، سراسر غلط عمل ہے اس سے گریز کرنا چاہیئے، شہید کی صرف جسمانی جدائی پر ماتم، تعزیت، سوگ، فاتحہ خوانی، صدقہ و خیرات، دعا کرنا، خود شہید کی شہادت یعنی زندہ رہنے والے فلسفے اور سچائی سے شعوری اور لاشعوری طور پر منحرف ہونے کے مترادف ہے۔
تمام مذاہب خاص کر دین اسلام میں بھی یہی فلسفہ اور دلیل ہے کہ شہید مرتے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور شہید کا نماز جنازہ اور شہید کو کفن اور غسل کی بھی ضرورت نہیں، پھر شہید کو ایسے رسومات میں غسل دینا، کفن پہنانا اور جنازہ پڑھانا یا پھر شہید کے لیئے صدقہ اور دعامغفرت کرنا، کس بات اور کس دلیل کے تحت؟ کیا یہ خود کھلا تضاد نہیں؟ خود شہادت کے فلسفے اور دلیل سے انحراف نہیں ہے؟ یا پھر شہادت کے حقیقی سچائی، فلسفہ، مفہوم اور تعریف سے غیر اطمینان اور تذذب کا شکار ہونے کی علامت نہیں؟ کیا یہ رسومات اور روایات کی زنگ آلود زنجیروں سے ابھی تک محبت کا اظہار نہیں؟
عجیب و غریب، غیرمنطقی و غیرسائنسی، بدبودار، اپاہچ اور بے معیاد رسومات اور روایات کی گندآلودگی میں شہیدوں کی عظیم قربانیوں، عظیم کردار و عمل اور سب سے اہم زندہ ہونے کے فلسفے کو مسخ کرکے شہید کی زندہ و تابندہ ہونے کی دلیل کو موت سے تعبیر کرنا کسی بھی شہید کے ساتھ ناانصافی اور دغابازی نہیں ہے؟
پھر قوم پر اس کے نفسیاتی اور منفی اثرات کیا ہونگے؟ ماتم زدگی، سوگ فاتحہ خوانی کی ماحول میں ہمیشہ ہمیشہ غم پریشانی تکلیف، مایوسی اور بے بسی کا عالم ہوگا اور اس عالم میں جوش، جذبہ، حوصلہ، بیداری، ہمت اور طاقت کا فقدان ہوگا اور یہ ماحول، شعوری اور لاشعوری طور پر ہم خود قوم پر مسلط اور حاوی کرتے ہیں۔
شہید جہاں بھی ہوگا، وہ وطن کی مٹی میں تحلیل ہوکر زندہ ہوگا، اس کا دیدار، جنازہ، قبر، کفن و دفن اور غسل ہونا ہو، تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے، وہ زندہ ہے تا ابد زندہ رہیگا، کسی زندہ انسان کے لیئے یہ چیزیں اور یہ روایات نہیں ہوتے ہیں بلکہ مردوں کے لیئے ہوتے ہیں، شہید کو مردہ کہنا یا شہید کی شہادت کے بعد مردوں والے فعل اور حرکات کرنا شہید کی شہادت سے انکاری ہونا ہے۔
اگر ہم پانچ منٹ کے لیے یہ سوچ لیں، ہم اپنی تمام روایتی اور فرسودہ روایات کا احترام کرکے ان کی پاسداری کریں تو اس حالت جنگ میں کیا ممکن ہوگا؟ تمام شہیدوں کو رسم و رواج کے مطابق ان کو ان کے آبائی علاقے پہنچانا، خاندان کا دیدار کروانا، آرام سے دفن اور کفن کروانا، فاتحہ خوانی کروانا، کیا اس حالت جنگ میں ممکن ہے؟ پھر کیا ہزاروں کی تعداد میں پہاڑوں، جنگلوں میدانوں اور اجتماعی قبروں سے نکلے ہوئے انتہائی مسخ شدہ اور نہ قابلِ شناخت شہداء کا پھرکیا ہوگا؟ ان سب کے لیئے الگ الگ رسومات کے مطابق نماز جنازہ، فاتحہ خوانی، صدقہ، کفن و دفن وغیرہ ممکن ہوگا؟ اگر نہیں تو پھر کیا باقیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگا؟
اسی تناظر میں بی ایس او آزاد نے یہ فیصلہ کیا کہ بلوچ قوم اب حالت جنگ میں ہے، جنگ مزید شدت اختیار کریگی، شہید زیادہ ہونگے، ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہونگے، پھر ان سب شہداء کی ایک ایک دن الگ الگ یاد میں پروگرام منقعد کرنا ممکن نہیں ہوگا، چند شہداء کی یاد میں پروگرام منعقد کرنا باقی شہداء کو نظرانداز کرنا، خود شہداء کو تقسیم، گروہ بندی، سطحی اور محدود سوچ اور اپروچ کی عکاسی کرتی ہے، لِہٰذا بی ایس او آزاد آئیندہ ایسے عمل اور سوچ کا مرتکب نہیں ہوگا، آج پوری بلوچ قوم اس سوچ کو قبول کرچکی ہے۔
اس حالت جنگ میں بس شہداء بلوچستان کے لیئے صرف یہی مخصوص دن 13 نومبر بطور (نوکین بنداتے قول)ہونا چاہیئے اور اسی دن ایثار و قربانی کی حدتک تمام شہداء کو بلاتفریق، جوش و جذبے، بطور جشن، دھوم دھام سے یاد کرنا (نہ کہ ماتم تعزیت سوگ، برسی، فاتحہ خوانی، صدقہ وغیرہ) ان کے مشن کو عملاً پایہ تکمیل تک پہنچانے کا یہ عہد کرنا کہ شہداء کے خون کا بدلہ صرف اور صرف قومی آزادی ہے، اس سے کم اور کچھ نہیں، جب شہداء کی سوچ، یہی مقصد اور احساس و شعور ذہن پر سوار ہو تو کوئی بھی انقلابی کبھی بھی موقع پرستی، مفادپرستی اور غلط رخ اور غلط سمت سفر کرنے کا مرتکب نہیں ہوگا، جب یہ احساس مفلوج، معذور اور کمزور ہوگا تو بھٹکنا بھی ممکن ہوگا۔
تو اسی احساس کو قومی سطح پر شعوری اور پختہ انداز میں اجاگر کرنا، قومی تحریک کے لیئے سود مند ثابت ہوگا شہداء بلوچستان قومی تحریک کے اصل ہیرو اور اصل سرمایہ ہیں انہی کی احساس اور احساس کی پختگی اور وسعت میں قومی تحریک کی کامیابی پوشیدہ ہے۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий