بھگت سنگھ اور دو کامریڈ، آج رازق بلوچ اور دو کامریڈ – برزکوہی
انگریزوں کا بھارت پر قبضہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر اور ردعمل میں شہید بھگت سنگھ اور اس کے دو کامریڈوں کا عالمی سطح تک احتجاج اور آج چائینیز کمپنیوں کے نام پر بلوچستان پر قبضہ، شہید رازق بلوچ اور اس کے دوکامریڈوں کا عالمی سطح تک احتجاج کرنا۔ گوکہ دونوں تاریخی احتجاج و عالمی احتجاجوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو وقت و حالات، تقاضات، طور و طریقے، شاید ایک حد تک کافی مختلف ہوں مگر مقصد بلکل واضح طور پر دونوں کا ایک ہی خالص سیاسی گول تھا۔ یعنی اندرونی و بیرونی سطح کے بہروں، اندھوں اور گونگوں کو صرف اپنی آواز پہنچانا اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
اگر شہید بھگت سنگھ اور اس کے دوستوں کو محض انتشار و انارکی پھیلانا اور انتہاء پسندی کی حد تک جانا ہوتا تو وہ بھی کسی انسانی ہجوم میں گھس کر انسانوں کو دھماکوں سے اڑا کر انسانوں کا قتل عام کرتے، پھر کیوں برطانوی پارلیمنٹ میں وہ جاکر بغیر نقصان والی صرف آواز یعنی احتجاج کرنے والی دھماکہ کرکے اپنی پیغام موقف اور مقصد کو پوری دنیا خاص کر ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور دشمن کو بغیر جانی نقصان دیئے تینوں کامریڈ اپنے ہی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جس کے بدولت پوری دنیا کو متوجہ کرنے کے ساتھ، ہندوستان میں انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف نفرت اور مزاحمت کی ایک لہر اٹھ گئی، پھر وہی لہروں اور فضاوں میں آخر کار انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا خون اور احتجاج رنگ لے آیا، ہندوستان انگریزوں کے تسلط سے آزاد و خود مختار ہوگیا۔
تو آج زمان و مکان اور وقت و حالات کے معمولی فرق کو لیکر بالکل بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین بھی انہی حالات و صوررتحال اور من عن اسی عہد سے گذر رہا ہے۔ بی ایل اے کے جانثاروں شہید رازق رازی، شہید اضل مری اور شہید رئیس بلوچ بھی اندرونی اور بیرونی گونگے، بہروں اور اندھوں کو اپنا قومی موقف اور قومی مقصد کو سنانے اور سمجھانے کے حصول کے خاطر کراچی جیسے شہر کے چینی قونصل خانہ پر حملہ کرکے پوری دنیا اور خصوصاً بلوچ قوم کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ بلوچستان میں گوادر، سیندک سمیت ایسٹ انڈیا کمپنیوں کی طرح چینیز کمپنی پاکستانی ریاست کے ساتھ مل کر بزور طاقت بلوچ قوم کا استحصال کررہے ہیں اور اس استحصالی پیش قدمی اور عزائم میں خود بلوچ قوم اپنے ہی سرزمین پر مستقبل میں مٹ کر فنا ہوگا اور چین اور پاکستان کا یہ گہناونا عمل، منصوبہ بندی، پیش قدمی اور بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ، خود عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
اگر انصاف، جمہوریت پسندی، انسانی حقوق، قومی حقوق اور انسانیت کے تقاضات کے مطابق دیکھا جائے تو چین کو کوئی بھی اخلاقی، انسانی، سیاسی اور قانونی حق نہیں ہے کہ وہ بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین پر 70 سالوں سے بزور طاقت مسلط اور قابض ریاست پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچ ساحل اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں شامل ہو۔ اس کے باوجود چین دن بدن پیش پیش آگے بڑھ رہا ہے اور اب سعودی عرب بھی دل بڑا کرکے اس پاکستانی گہناونے کھیل میں شامل ہورہا ہے، پتہ نہیں آگے چل کر پھر کون کون اور کونسی قوتیں بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کو بے یار و مددگار اور آسان نوالہ جان کر پاکستان کے اس جرم میں ہمرکاب ہونگے؟
مختصراً پاکستان اور چین کی بلوچستان میں جاری منصوبوں، گوادر ہو، سیندک ، سی پیک، یا دیگر منصوبے اور عزائم ہوں، ان میں بلوچ قوم کا مستقبل مکمل تاریکیوں میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ شاید ادراک، علم و دانش، وسیع سوچ اور اپروچ کے فقدان کی وجہ سے اکثریت پڑھے لکھے جاہلوں کو ابھی تک ذرا بھی ہوش نہیں کہ بلوچ قومی تشخص و شناخت جغرافیائی اور تاریخی حیثیت اور قومی بقاء مکمل طور پر فناء کے آخری مقام پر آکر کھڑا ہے۔
بلوچ قوم کو کیا کرنا چاہیئے؟ خاموش اور بے بس ہوکر اجتماعی و قومی خود کشی کرنا چاہیئے؟ سب کچھ رضاکارانہ طور پر چین اور پاکستان کے حوالے کر دینا چاہیئے؟
2006 میں بی این پی کے طرف سے گوادر کے حوالے سے لشکر بلوچستان کے نام سے لانگ مارچ مختلف جماعتوں، گروپس، پارٹیوں، گروہوں کا متواتر 18 سالوں سے چین کے خلاف بلوچستان سمیت بیرون ملکوں میں بھی محدود احتجاجی مظاہرے، جلسے، سیمنار، مکالمے، تحریریں، دھرنے، بھوک ہڑتالیں، قراردادیں، پوسٹرسازی، مہم سازی وغیرہ وغیرہ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ اگر تھوڑا ایمانداری حقیقت پسندی اور انصاف ہو پھر یہ کہنے میں بھی کوئی حرج و دکت اور دشواری نہیں ہوگا کہ نتیجہ صفر +صفر= صفر اور کچھ نہیں؟
میں واپس اپنے سوال کو دوہراتا ہوں کہ بلوچ اگر کرے تو کیا کرے؟ بلوچ قوم کے پاس کرنے کو کیا ہے؟ جو موثر ہوکر بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین چین اور پاکستان کی مزید یلغار سے محفوظ ہو؟
آج اگر بلوچ قومی تحریک و جنگ یا چائنیز پر حملوں، خدا کرے طریقہ کار جو بھی ہو سب کے سب خالص گوریلا جنگ کے تقاضات اور طریقہ کار ہیں، اگر ان کو کوئی مذہبی جنونیت، انتہاء پسندی اور سری لنکا کے تحریک تامل ٹائیگر والی عینک اور زاویہ نظر سے دیکھے اور پرکھے تو انھیں کم از کم پہلے جاہلیت، محدود اور سطحی دائروں اور قید سے نکل کر ضرور کچھ پڑھنا چاہیئے، غور و فکر تحقیق و ریسرچ کرنا چاہیئے اور ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں بلوچ قومی احساس ہونا چاہیئے، ان جاہل لکھے پڑھے لوگوں سے میں کہتا ہوں کس منطق و دلیل کے تحت آج وہ بلوچ قومی تحریک کو جنونیت اور انتہاء پسندی میں دیکھ رہے ہیں یا پیش کررہے ہیں؟ اگر آج فرض کریں بلوچ آخری حدتک اور انتہاء کو جاچکا ہے یا جارہا ہے؟ تو اس کے اصل وجوہات اور حقائق کیا ہیں؟ کیوں آج بلوچ اس حد تک جانے کو تیار ہیں؟ شعور، احساس، ادراک، مجبوری، آخر وجوہات کیا ہیں؟ ان تمام چیزوں سے نابلد ہوکر خالی خولی، سنی سنائی باتوں پر آراء پیش کرنا، صرف بکواس کے زمرے میں شمار ہوتا ہے ناکہ حقائق اور حقیقت پسندی کے زمرے میں۔ وہ اس لیئے کہ کوئی منطق و دلیل اور اگر متبادل طریقہ کار پیش نہ ہو صرف مخالفت اور نقطہ چینی ہو تو پھر لفظ بکواس استعمال کرنا ہی مناسب ہوگا یعنی اس مشکل اور پرکھٹن حالت میں بلوچ قوم کیا کرے کہ دنیا متوجہ ہو اور خاص کر بلوچ قوم میں بیداری اور شعور اجاگر ہو کہ بلوچ سرزمین مکمل ہاتھوں سے نکل کر بلوچ قوم فناء اور تباہ ہوگا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے جب بلوچ سرمچاروں نے کراچی چینی قونصل خانہ پر حملہ کیا عین اسی وقت خیبر پختون خواہ ھورگزی میں دھماکہ ہوا، اب دیکھا جائے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ھورگزی میں بغیر واضح پروگرام اور موقف کے 50 کے قریب لوگوں کی جانیں چلی گئیں، دوسری طرف کراچی میں ایک واضح مقصد، پیغام اور پروگرام کے تحت حملہ ہوا۔ انسانی جانوں کا اتنا نقصان بھی نہیں ہوا، پوری دنیا متوجہ ہوا کہ بلوچ قوم کیا چاہتا ہے۔ اس فرق کو لیکر سمجھنا ہوگا کہ بلوچ قوم اس وقت اپنے سے بڑے سے بڑے قوتوں کے خلاف اپنی انتہائی کمزور طاقت کے بل بوتے، گوریلا جنگ لڑرہا ہے۔ آپ جو بھی نام دیں، جو بھی نام استعمال کریں، فدائی، سربازی، جانثاری اور سرمچاری اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ دیکھنا سب سے ضروری ہے عمل کیا ہے اور عمل کے پیچھے مقصد کیا ہے اور پیغام کیا ہے؟ یہ تو سارے کے سارے گوریلا جنگ کے طریقہ کار ہیں، ان طریقہ کاروں کو گوریلا جنگ کہنا سب سے بہتر ہے اور بلوچ قوم کی گوریلاجنگ شروع سے لیکر آج تک مکمل عالمی قوانین کے مطابق چل رہا ہے، اگر وقت و حالات اور اہداف پر پہنچنے تک سختی اور مشکلات درپیش ہو تو جنگی حکمت عملی اور طریقہ کار میں تبدیلی جنگ کے بنیادی تقاضات میں شمار ہوتا ہے۔
آج بھی سیندک چینی انجنیئروں اور کراچی قونصل خانے پر حملہ بھی بی ایل اے کی گوریلا جنگی حکمت عملی اور ڈاکٹرائن کی تبدیلی ہوگا تو اس میں تعجب اور حیرانی کی کیا بات ہے؟
دشمن کو آپ گولی سے، بارود سے، مائن سے، ہینڈ گرینڈ سے، کلہاڑی سے، تلوار سے، چاقو اور جیکیٹ سے مارو مسئلہ یہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ آپ کا مقصد اور پروگرام کیا ہے؟ آپ چاہتے ہو کیا؟ آج بالکل واضح ہوچکا ہے بلوچ قومی تحریک نہ کسی کا پروکسی ہے نا کسی کا پریشر گروپ ہے نا کسی کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے اور نا ہی بلوچ سرمچار کسی کے کرایے کے قاتل ہیں بلکہ خالص بلوچ قوم اپنے سیاسی پروگرام کو لیکر اپنے تاریخی و جغرافیائی، قومی ریاست کی بحالی و قومی آزادی کے ساتھ، اپنا قومی دفاع اور قومی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اگر اس کار خیر میں انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، برطانیہ، اسرائیل، امریکہ اور پورا یورپ انسانی بنیادوں پر بلوچوں کا مدد کرے، تو اس میں کیا حرج ہے؟ آج دیکھا جائے دین اسلام کا کٹر دشمن چین پاکستان کا ہر حوالے سے دوست ہے، اس میں حرج اور تکلیف نہیں، پھر بلوچوں کے لیئے کیوں کسی کی کمک و مدد باعث تکلیف اور پریشانی؟
بلوچ قوم، بلوچ قومی تاریخ و تہذیب و تمدن، زبان، ثقافت، رہن سہن، روایات اور قومی آزادی کی سیاسی تحریک و قومی مزاحمت کے ساتھ بلوچ قومی ریاست کی تاریخی و جغرافیائی حیثیت کی بحالی کے واضح پروگرام اور مقصد کو لیکر تامل تحریک یا مذہب کے نام پر پروکسی گروپوں سے موازانہ کرنا علم و شعور کے فقدان اور بدنیتی نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟
بی ایل اے مجید بریگیڈ کے جانثار ساتھی شہید رازق رازی، شہید اضل مری اور شہید رئیس بلوچ اس مشکل اور انتہائی پرکھٹن اور تاریخ ساز دور میں ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے، جو قومی کردار ادا کیا وہ صدیوں تک بلوچ اور انسانی تاریخ میں ایک روشن باب کی حثیت سے یاد ہوگا۔ اور بلوچ قومی مقصد و موقف اور مجموعی کرب و تکلیف کو جس انداز میں جس طرح اور جہاں تک پہنچا دیا، وہ ایک تاریخی اور عظیم کارنامہ ہے اور اس تسلسل اور کارنامے کا حوصلہ افزائی کرنا، ہر بلوچ کا قومی فرض اور قومی قرض ہے، اسی میں بلوچ قومی بقاء و شناخت کے محفوظ ہونے کی ضمانت ہے، نہیں تو نہ مستقبل میں کرہ ارض پر بلوچ رہے گا نہ بلوچستان کا نام۔
Комментариев нет:
Отправить комментарий