Powered By Blogger

воскресенье, 15 июня 2014 г.


رمضان مینگل کا نمازِ جنازہ کی امامت کرنے کو بی ایس او سمیت پوری بلوچ قومی تحریک کی حمایت حاصل نہیں تھی، یہ محض ایک اتفاق تھا جو بابا کے جدائی کے غم میں پیدا ہونے والے جذباتی کیفیت کی وجہ سے نظر انداز ہوگیا ، اور احساس ہوتے ہی فوراً اسے روک لیا گیا
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد 

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ دنوں بابا خیر بخش مری کے جنازے کے حوالے سے یہ نقطہ اعتراض اٹھا یا جارہا ہے کہ ایک مذہبی انتہاء پسند گروہ کے مبینہ رہنما رمضان مینگل نے بابا خیربخش کا نمازِ جنازہ کیوں ادا کی،اس حوالے سے وضاحت لازمی سمجھ کر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد ہو یا کلی طور پر بلوچ قومی تحریک یہ مکمل اعتدال پسند اقتدار پر کاربند ہیں اور کسی بھی فرقہ واریت ، مذہبی منافرت اور انتہاء پسندی کی نفی اور حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔12 جون کو بابا مری کے آخری رسومات کے حوالے سے حالات گومگو کا شکار تھے ۔ جنگیزمری اور ریاستی ادارے بابا مری کا جنازہ ہاکی گراونڈ میں پڑھ کر ان کی جسد خاکی کوھستان مری منتقل کرنا چاہتی تھی ، بی ایس او اازاد کو اس کی خبر ملتے ہی ہم نے بابا مری کے قریبی ساتھی سے رابطہ کر کہ صورت حال معلوم کی تو پتہ چلا کہ شہید بالاچ کی بہن اور بابا مری کی بیٹی کو انکی دیدار سے محروم رکھا ، یہ معلومات بابا کے قریبی دوست کو شہید بالاچ کی والدہ محترمہ نے دی تھی، اس کے بعد بی ایس او آزاد نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم ریاستی ہتکھنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، مستونگ ، نوشکی نیو کاہان سمیت کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں رات بھر رابطے شروع کئے اور صبح تک کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جمع ہونے کی دعوت دی اس بات کا اعلان کسی بھی اخبار میں جاری نہ کرنا بی ایس او کی حکمت علمی تھی۔ اس دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے کال پر بلوچ بہنیں اور وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین اور شہید جلیل ریکی کی والد محترم ماما قدیر بلوچ سمیت بلوچ عوام کثیر تعداد میں وہاں جمع ہوئے اور دھرنا دینا شروع کیا ، اس دوران بلوچ عوام نے جرات و بہادری کا مظاھرہ کرتے ہوئے اپنے نظریاتی استاد بابا خیربخش مری کے جسد خاکی کو زبردستی چھین کر اپنے تحویل میں لیکر نیوکاہان منتقل کرکے نمازِ جنازہ سمیت آخری رسومات وہاں ادا کی ،انہوں نے کہا کہ جب بابا مری کو فوجی تحویل سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوکر قافلے کی صورت جس کی تیاری پہلے سے کر چکے تھے روانہ ہوئے تو مری کیمپ بھی اطلاع دی تھی کہ وہ باقی تیاریاں مکمل کریں۔ رمضان مینگل ہمارے دعوت پر نہیں آئے تھے بلکہ چنگیز مری کے ایماء پر ہاکی گراونڈ میں پہلے سے موجود تھے ۔ درحقیقت رمضان مینگل کے ذریعے نمازِ جنازہ پڑھوانے اور فوجی گاڑیوں و ہیلی کاپٹروں میں بابا مری کی جسد خاکی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے پیچھے ریاست کا ایماء شامل تھا وہ یہ ظاھر کرنا چاہتے تھے کہ بابا مری کا ریاست سے کوئی رشتہ تھا اور ساتھ ساتھ وہ مذہبی انتہاء پسند گروہوں سے بلوچ تحریک کو نتھی کرنے کی سعی لاحاصل میں بھی مشغول تھے ۔ جب بابا مری کے جسد خاکی کو نیوکاہان منتقل کیا گیا اور نمازِ جنازہ کی تیاری کی گئی تو اس وقت بلوچ عوام فرطِ غم میں ایک جذباتی کیفیت میں تھی ۔ اس پورے صورتحال میں اس بات کا کسی کو احساس نہیں ہوپایا کہ چنگیز مری اپنی گاڈیوں میں رمضان مینگل کو بھی ساتھ لائے ہوئے تھے اور اس دوران وہ بلا دعوت اچانک سے نمازِ جنازہ کی امامت کرنے لگے ، جب وہاں موجود ہمارے کارکنوں اور بلوچ عوام کو اس بات کا احساس ہوا تو انہوں نے فوراً رمضان مینگل کو روک دیااور اسے دعا تک پڑھنے نہیں دی بعد میں دعا سمیت باقی تمام مذہبی فرائض کی ادائیگی ایک اور بلوچ عالم نے کی ۔ اس طرح اچانک رمضان مینگل کا نمازِ جنازہ پڑھانا در حقیقت اپنے پیچھے ریاستی عزائم رکھتا تھا وہ بلوچ قومی تحریک کو مذہبی انتہاء پسند گروہوں سے نتھی کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بلوچ تحریک کا ان گروہوں کے ساتھ کوئی تعلق ہے جو صریحاً ایک مغالطہ ہے ، اس سے پہلے بھی سابق ریاستی وزیر داخلہ اور مختلف فوجی اداروں کی جانب سے مسلسل یہ ہرزہ سرائی سامنے آئے تھی ، یہ سب کچھ بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی ایک سازش ہے ، اگر معروضی حالات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ امر کھل کر سامنے آتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک اور ان مذہبی انتہا ء پسند گروہوں کا آپس میں کوئی خوشگوار تعلقات نہیں بلکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کچھ مذہبی انتہاء پسند گروہوں کو بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغواء و قتل میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ، اور حال ہی میں بلوچستان کے علاقے پنجگور میں انہی قوتوں کا بلوچ تعلیمی اداروں کو بند کرنا بھی انہی گروہوں کی کارستانی ہے ،لیکن یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مخصوص طبقہ فکر کے لوگ بلوچ تحریک کے معتدلانہ فکر سے آشنائی رکھنے کے باوجود اس واقعے کو ایک الگ رنگ دے کر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ، اس طرح حقیقتِ حال سے آشنا ئی حاصل کرنے کے بجائے بلوچ تحریک کے بابت فیصلہ صادر کرنا اور اس کے اعتدال پسندی پر سوال اٹھانا درحقیقت ان ریاستی عزائم کی توثیق اور انہیں لاشعوری طور پر کامیاب کرنے کا مترادف ہے ، جس کیلئے یہ سارا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم تمام مذاہب اور فرقوں کا احترام کرتے ہیں ۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر انسان کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر ایک آزاد ماحول میں آزادی کے ساتھ کاربند رہے ، اور ہم مذہب وفرقے کے نام پر قیمتی انسانی جانوں کو لینے کی مذمت کرتے ہیں ۔ 12 جنوری کو رمضان مینگل کا نمازِ جنازہ کی امامت کرنے کو بی ایس او آزاد سمیت پوری بلوچ قومی تحریک کی حمایت حاصل نہیں تھی، یہ محض ایک اتفاق تھا جو بابا کے جدائی کے غم میں پیدا ہونے والے جذباتی کیفیت کی وجہ سے نظر انداز ہوگیا ، اور احساس ہوتے ہی فوراً اسے روک لیا گیا ۔کامیاب احتجاج پر مری کیمپ کے بھائیوں اور بزرگوں نے بی ایس او آزاد سے رابطہ کر کے مبارک باددی۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий