محترم حفیظ حسن آبادی، حسن جانان، اسلم بلوچ، صادق رئیسانی، سلام صابر،اور صہیب مینگل صاحبان سے گزارش
ستر کی دہائی کی مسلح جدوجہد کے دوران بلوچ سرزمین کی آذادی کی خاطر دشمن فوج سے لڑتے ہوئے مری قبائل کے سینکڑوں فرزند شہید ہوئے اور کئی لاپتہ کردئیے گئے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا. اس جدو جہد کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک مضبوط پروپیگنڈے کی ذریعے بلوچ قومی تحریک آذادی کےبجائےاسے صرف مری قبیلے کا مسلہ قرار دیا. لیکن خیربخش مری نے اپنے دانائی سے دشمن کے اس پروپیگنڈے کا (بغیر فیس بک و ٹوئٹر اور میڈیا کے) اس طرح جواب دیا کہ تاریخ اسےمری قبیلے کی مسلہ نہیں بلکہ بلوچ جدوجہد کے نام سے یاد کرتی ہے.
بابا کی رہنمائی میں بلوچ نواجوانوں کی شرکت اور بلوچ تحریک کی مقبولیت کو دیکھ کر پاکستانی اسٹیبلشمنت نے اس بار مری قبیلے کی بجائے اسے تین سرداروں کا مسلہ قرار دیا. اور یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ سردار و نواب اپنے قبیلے کے غریب لوگوں کو فوج کے خلاف لڑارہے ہیں لیکن شہید نواب اکبر خان بگٹی و بالاچ مری نے میدان جنگ میں شہادت نوش کر کے دشمن کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقی بلوچ رہبر پنجاب کے چوہدری نہیں جو گھر بیٹھ کر اپنے تنخوا خور فوجیوں کو لڑاتے ہیں. تو دوسری طرف مکران کے غیور بلوچوں نے دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرکے دشمن کے اس پروپنگنڈے کو بھی ناکام بنادیا کہ یہ صرف تین سرداروں کا مسلہ ہے
پاکستان کی بلوچستان پر اپنی کمزور ہوتی گرفت اور ناکامی کو چھپانے کے لئے ایک اور پروپیگنڈے کا سہارا لینا پڑا. کہ بلوچستان کی صرف کچھ ضلعوں میں امن و امان کا مسلہ ہے لیکن جب گوادر پر کسی بلوچ کی شہادت کا بدلہ کوہلو میں لیا گیا ڈیربگٹی پر بمباری کا جواب خضدار میں دیا گیامشکے پر حملے کا جواب چمالنگ میں دے کر بلوچ نے دشمن پر یہ واضح کردیا کہ یہ صرف چند علاقوں کا مسلہ نہیں پورے بلوچستان کا مسلہ ہے.
اور اس بیچ بابا مستقل مزاجی سے قوم کی رہنمائی و بلوچ نوجوانوں کی تربیت کرتے رہے اور واضح پیغام تھا کہ ،، بندوق ہاتھ سے گرنے نہ پائے کیونکہ دشمن کے ہاتھ میں بھی بندوق ہے اور اس وحشی سے صرف طاقت کی ذریعے ہی مفاہمت ہوسکتی ہے،،
ریاست کو اپنے تمام حربے و پروپیگنڈے ناکام ہوتے دکھائی دئیے اور آخری حربے کے طور یہ مہم چلائی کہ ان پڑھ اور بھٹکے ہوئے کچھ نوجوان ہیں جو حکومت کے خلاف پہاڑوں پر گئے ہیں لیکن شہید غلام محمد بلوچ، شہید پروفیسر صبا دشتیاری، علی شیر کرد، ایڈوکیٹ زمان مری، ڈاکٹر خالد اور دیگر شہدا نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا تو دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ، ڈاکٹر دین محمد، استاد واحد قمبر، استاد عبدالنبی، چیرمیں ذاہد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ اور لطیف جوہر بلوچ نے دشمن کو ایک واضح پیغام بھیجا کہ اس تحریک میں ان پڑھ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ بلوچ شامل ہیں اور یہ نہ تو بھٹکے ہوئے ہیں اور نہ ہی کسی سے ناراض ہیں. بلوچ شعوری طور پر اپنے وطن کی آذادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں.
بابائے بلوچ نواب خیر بخش مری کی جسد خاکی کو بلوچ خواتین و فرزندوں نے جس طرح دشمن سے چھین کر قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا. بابا کی تدفین کے موقع پر ہر مکتبہ فکر، مرد و خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان، قبائل کے زنجیروں سے آذاد، جب ہزاروں کا مجمع بابا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے تو بابا نے دشمن پر یہ واضح کردیا کہ میں اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا، میں قبیلوں میں بٹے اسے ایک قوم ہونے کا شعور بیدار کرگیا۔ اب تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے. ایک قوم کے ہزاروں افراد کے جم غفیر کو دیکھ کر دشمن نے یقیقنا نفسیاتی و اخلاقی شکست تسلیم کر لی ہے. بابائے بلوچ نے بغیر فیس بک و ٹوئٹر کے سٹڈی سرکلز و فردِِ فردِِ ملکر اور بلوچ شہدا نے اپنے جان دے کر ٹکڑوں میں بٹے قبیلوں سے نکال کر ہمیں ایک قوم ہونے کا شعور اجاگر کیا.
بابا کے پاس بلوچوں تک اپنے پیغام بھیجنے کے لیئے فیس بک و دیگر آسان ذرائع میسر نہیں تھے، اسے اپنا پیغام بھیجنے کےلیے مشکل ذرائع استعمال کرنے پڑھتے تھے. لیکن آپ حضرات تو گھر بیٹھے آسانی سے ہر بلوچ کو اپنا پیغام بھیج سکتے ہو. آپ یہ درس کیوں نہیں دیتے کہ سب آزادی پسند تنظیمیں اورجہد کار مقدس ہیں. جس بھی پارٹی میں آپ کا دل کرے شامل ہوجاو لیکن جدوجہد جاری رکھو.
فیس بک و دیگر زرائع پر صرف بی ایل اے و حیربیار ہی کو عقل کُل ظاہر کرکے باقی تمام بلوچ رہنماوں و آذادی پسندوں کی تزہیک و بے حرمتی کرکے اور بلوچ تحریک کے خلاف زہر اگل کر کیا آپ ہمیں پھر سے واپس قبیلوں میں دھکیلنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کررہے ہو؟؟
اگر میرا آرٹیکل آپ کے نظر سے گزرا اور اس نے آپ کے ضمیر تک دستک دی تو مجھے امید ہے کہ آپ بلوچ قوم کی صحیح طریقے سے رہنمائی فرمائیں گے وگرنہ اس کے جواب میں دس آرٹیکل لکھ کر مجھے بھی برا بھلا کہہ کر اس لسٹ میں شامل کروگے. اگر یہی ہوا تو
بقول بابا ،، ذر تا بکالاں دے بازیںِ ،،
شاہ میر رند
ستر کی دہائی کی مسلح جدوجہد کے دوران بلوچ سرزمین کی آذادی کی خاطر دشمن فوج سے لڑتے ہوئے مری قبائل کے سینکڑوں فرزند شہید ہوئے اور کئی لاپتہ کردئیے گئے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا. اس جدو جہد کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک مضبوط پروپیگنڈے کی ذریعے بلوچ قومی تحریک آذادی کےبجائےاسے صرف مری قبیلے کا مسلہ قرار دیا. لیکن خیربخش مری نے اپنے دانائی سے دشمن کے اس پروپیگنڈے کا (بغیر فیس بک و ٹوئٹر اور میڈیا کے) اس طرح جواب دیا کہ تاریخ اسےمری قبیلے کی مسلہ نہیں بلکہ بلوچ جدوجہد کے نام سے یاد کرتی ہے.
بابا کی رہنمائی میں بلوچ نواجوانوں کی شرکت اور بلوچ تحریک کی مقبولیت کو دیکھ کر پاکستانی اسٹیبلشمنت نے اس بار مری قبیلے کی بجائے اسے تین سرداروں کا مسلہ قرار دیا. اور یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ سردار و نواب اپنے قبیلے کے غریب لوگوں کو فوج کے خلاف لڑارہے ہیں لیکن شہید نواب اکبر خان بگٹی و بالاچ مری نے میدان جنگ میں شہادت نوش کر کے دشمن کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقی بلوچ رہبر پنجاب کے چوہدری نہیں جو گھر بیٹھ کر اپنے تنخوا خور فوجیوں کو لڑاتے ہیں. تو دوسری طرف مکران کے غیور بلوچوں نے دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرکے دشمن کے اس پروپنگنڈے کو بھی ناکام بنادیا کہ یہ صرف تین سرداروں کا مسلہ ہے
پاکستان کی بلوچستان پر اپنی کمزور ہوتی گرفت اور ناکامی کو چھپانے کے لئے ایک اور پروپیگنڈے کا سہارا لینا پڑا. کہ بلوچستان کی صرف کچھ ضلعوں میں امن و امان کا مسلہ ہے لیکن جب گوادر پر کسی بلوچ کی شہادت کا بدلہ کوہلو میں لیا گیا ڈیربگٹی پر بمباری کا جواب خضدار میں دیا گیامشکے پر حملے کا جواب چمالنگ میں دے کر بلوچ نے دشمن پر یہ واضح کردیا کہ یہ صرف چند علاقوں کا مسلہ نہیں پورے بلوچستان کا مسلہ ہے.
اور اس بیچ بابا مستقل مزاجی سے قوم کی رہنمائی و بلوچ نوجوانوں کی تربیت کرتے رہے اور واضح پیغام تھا کہ ،، بندوق ہاتھ سے گرنے نہ پائے کیونکہ دشمن کے ہاتھ میں بھی بندوق ہے اور اس وحشی سے صرف طاقت کی ذریعے ہی مفاہمت ہوسکتی ہے،،
ریاست کو اپنے تمام حربے و پروپیگنڈے ناکام ہوتے دکھائی دئیے اور آخری حربے کے طور یہ مہم چلائی کہ ان پڑھ اور بھٹکے ہوئے کچھ نوجوان ہیں جو حکومت کے خلاف پہاڑوں پر گئے ہیں لیکن شہید غلام محمد بلوچ، شہید پروفیسر صبا دشتیاری، علی شیر کرد، ایڈوکیٹ زمان مری، ڈاکٹر خالد اور دیگر شہدا نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا تو دوسری طرف ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ، ڈاکٹر دین محمد، استاد واحد قمبر، استاد عبدالنبی، چیرمیں ذاہد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ اور لطیف جوہر بلوچ نے دشمن کو ایک واضح پیغام بھیجا کہ اس تحریک میں ان پڑھ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ بلوچ شامل ہیں اور یہ نہ تو بھٹکے ہوئے ہیں اور نہ ہی کسی سے ناراض ہیں. بلوچ شعوری طور پر اپنے وطن کی آذادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں.
بابائے بلوچ نواب خیر بخش مری کی جسد خاکی کو بلوچ خواتین و فرزندوں نے جس طرح دشمن سے چھین کر قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا. بابا کی تدفین کے موقع پر ہر مکتبہ فکر، مرد و خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان، قبائل کے زنجیروں سے آذاد، جب ہزاروں کا مجمع بابا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے تو بابا نے دشمن پر یہ واضح کردیا کہ میں اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا، میں قبیلوں میں بٹے اسے ایک قوم ہونے کا شعور بیدار کرگیا۔ اب تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے. ایک قوم کے ہزاروں افراد کے جم غفیر کو دیکھ کر دشمن نے یقیقنا نفسیاتی و اخلاقی شکست تسلیم کر لی ہے. بابائے بلوچ نے بغیر فیس بک و ٹوئٹر کے سٹڈی سرکلز و فردِِ فردِِ ملکر اور بلوچ شہدا نے اپنے جان دے کر ٹکڑوں میں بٹے قبیلوں سے نکال کر ہمیں ایک قوم ہونے کا شعور اجاگر کیا.
بابا کے پاس بلوچوں تک اپنے پیغام بھیجنے کے لیئے فیس بک و دیگر آسان ذرائع میسر نہیں تھے، اسے اپنا پیغام بھیجنے کےلیے مشکل ذرائع استعمال کرنے پڑھتے تھے. لیکن آپ حضرات تو گھر بیٹھے آسانی سے ہر بلوچ کو اپنا پیغام بھیج سکتے ہو. آپ یہ درس کیوں نہیں دیتے کہ سب آزادی پسند تنظیمیں اورجہد کار مقدس ہیں. جس بھی پارٹی میں آپ کا دل کرے شامل ہوجاو لیکن جدوجہد جاری رکھو.
فیس بک و دیگر زرائع پر صرف بی ایل اے و حیربیار ہی کو عقل کُل ظاہر کرکے باقی تمام بلوچ رہنماوں و آذادی پسندوں کی تزہیک و بے حرمتی کرکے اور بلوچ تحریک کے خلاف زہر اگل کر کیا آپ ہمیں پھر سے واپس قبیلوں میں دھکیلنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کررہے ہو؟؟
اگر میرا آرٹیکل آپ کے نظر سے گزرا اور اس نے آپ کے ضمیر تک دستک دی تو مجھے امید ہے کہ آپ بلوچ قوم کی صحیح طریقے سے رہنمائی فرمائیں گے وگرنہ اس کے جواب میں دس آرٹیکل لکھ کر مجھے بھی برا بھلا کہہ کر اس لسٹ میں شامل کروگے. اگر یہی ہوا تو
بقول بابا ،، ذر تا بکالاں دے بازیںِ ،،
شاہ میر رند
Комментариев нет:
Отправить комментарий